Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 15

سورة البقرة

اَللّٰہُ یَسۡتَہۡزِئُ بِہِمۡ وَ یَمُدُّہُمۡ فِیۡ طُغۡیَانِہِمۡ یَعۡمَہُوۡنَ ﴿۱۵﴾

[But] Allah mocks them and prolongs them in their transgression [while] they wander blindly.

اللہ تعالٰی بھی ان سے مذاق کرتا ہے اور انہیں ان کی سرکشی اور بہکاوے میں اور بڑھا دیتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah mocks at them and leaves them increasing in their deviation to wander blindly. answers the hypocrites and punishes them for their behavior. Ibn Jarir commented, "Allah mentioned what He will do to them on the Day of Resurrection, when He said, يَوْمَ يَقُولُ الْمُنَـفِقُونَ وَالْمُنَـفِقَـتُ لِلَّذِينَ ءَامَنُواْ انظُرُونَا نَقْتَبِسْ مِن نُّورِكُمْ قِيلَ ارْجِعُواْ وَرَاءَكُمْ فَالْتَمِسُواْ نُوراً فَضُرِبَ بَيْنَهُم بِسُورٍ لَّهُ بَابٌ بَاطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ وَظَـهِرُهُ مِن قِبَلِهِ الْعَذَابُ On the Day when the hypocrites ـ men and women ـ will say to the believers: "Wait for us! Let us get something from your light!" It will be said: "Go back to your rear! Then seek a light!" So a wall will be put up between them, with a gate therein. Inside it will be mercy, and outside it will be torment.) (57:13) and, وَلاَ يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ أَنَّمَا نُمْلِى لَهُمْ خَيْرٌ لاًّنفُسِهِمْ إِنَّمَا نُمْلِى لَهُمْ لِيَزْدَادُواْ إِثْمَاً And let not the disbelievers think that Our postponing of their punishment is good for them. We postpone the punishment only so that they may increase in sinfulness." (3:178) He then said, "This, and its like, is Allah's mockery of the hypocrites and the people of Shirk." The Hypocrites suffering for their Plots Allah stated that He will punish the hypocrites for their mockery, using the same terms to describe both the deed and its punishment, although the meaning is different. Similarly, Allah said, وَجَزَاءُ سَيِّيَةٍ سَيِّيَةٌ مِّثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ The recompense for an offense is an offense equal to it; but whoever forgives and makes reconciliation, his reward is with Allah. (42:40) and, فَمَنِ اعْتَدَى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُواْ عَلَيْهِ Then whoever transgresses (the prohibition) against you, transgress likewise against him. (2:194) The first act is an act of injustice, while the second act is an act of justice. So both actions carry the same name, while being different in reality. This is how the scholars explain deceit, cunning and mocking when attributed to Allah in the Qur'an. Surely, Allah exacts revenge for certain evil acts with a punishment that is similar in nature to the act itself. We should affirm here that Allah does not do these things out of joyful play, according to the consensus of the scholars, but as a just form of punishment for certain evil acts. Meaning of `Leaves them increasing in their deviation to wander blindly Allah said, ... وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ ...and leaves them increasing in their deviation to wander blindly. As-Suddi reported that Ibn Abbas, Ibn Mas`ud and several other Companions of the Messenger of Allah said that, وَيَمُدُّهُمْ (and leaves them increasing) means, He gives them respite. Also, Mujahid said, "He (causes their deviation) to increase." Allah said; أَيَحْسَبُونَ أَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهِ مِن مَّالٍ وَبَنِينَ نُسَارِعُ لَهُمْ فِى الْخَيْرَتِ بَل لاَّ يَشْعُرُونَ Do they think that by the wealth and the children with which We augment them. (That) We hasten to give them with good things. Nay, but they perceive not. (23:55-56) Ibn Jarir commented, "The correct meaning of this Ayah is `We give them increase from the view of giving them respite and leaving them in their deviation and rebellion.' Similarly, Allah said, وَنُقَلِّبُ أَفْيِدَتَهُمْ وَأَبْصَـرَهُمْ كَمَا لَمْ يُوْمِنُواْ بِهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَنَذَرُهُمْ فِى طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ And We shall turn their hearts and their eyes away (from guidance), as they refused to believe in it the first time, and We shall leave them in their trespass to wander blindly." (6:110) Tughyan used in this Ayah means to transgress the limits, just as Allah said in another Ayah, إِنَّا لَمَّا طَغَا الْمَأءُ حَمَلْنَـكُمْ فِى الْجَارِيَةِ Verily, when the water Tagha (rose) beyond its limits, We carried you in the ship. (69:11) Also, Ibn Jarir said that; the term `Amah, in the Ayah means, `deviation'. He also said about Allah's statement, فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ (in their deviation to wander), "In the misguidance and disbelief that has encompassed them, causing them to be confused and unable to find a way out of it. This is because Allah has stamped their hearts, sealed them, and blinded their vision. Therefore, they do not recognize guidance or find the way out of their deviation."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

ف 1 اللہ تعالیٰ بھی ان سے مذاق کرتا ہے کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ جس طرح مسمانوں کے ساتھ استہزاء استخفاف کا معاملہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بھی ان سے ایسا ہی معاملہ کرتے ہوئے انہیں ذلت میں مبتلا کرتا ہے۔ اس کو استہزاء سے تعبیر کرنا، زبان کا اسلوب ہے، ورنہ حقیقتا یہ مذاق نہیں ہے، ان کے فعل کی سزا ہے جیسے برائی کا بدلہ، اسی کی مثل برائی، میں برائی کے بدلے کو برائی کہا گیا حالانکہ وہ برائی نہیں ہے ایک جائز فعل ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ بھی ان سے فرمائے گا۔ جیسا کہ سورة حدید کی آیت ( يَوْمَ يَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ ) 057:013 میں وضاحت ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢١] اوصاف کا سدہ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کیوں ؟ قرآن کی بعض آیات میں بعض اوصاف ذمیمہ مثلاً استہزاء مکر اور خدع کی اللہ تعالیٰ کی طرف جو نسبت کی گئی ہے، یہ محض اہل عرب کے محاورہ کی وجہ سے ہے اور یہ تو ظاہر ہے کہ قرآن اہل عرب اور بالخصوص قریش کے محاورہ کے مطابق نازل ہوا ہے۔ ایسے افعال اللہ تعالیٰ کی طرف کبھی اکیلے منسوب نہیں ہوتے بلکہ کافروں کے افعال کے جواب کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ عرف عام میں ایسی صورت کو && مشاکلہ && کہتے ہیں ورنہ اللہ تعالیٰ کی ذات ایسے اوصاف سے پاک ہے۔ ایسے عرب محاوروں کی ایک مثال درج ذیل آیت میں بھی موجود ہے۔ (وَجَزَاءُ سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِثْلُھَا) (٤٢: ٤٠) برائی کا بدلہ اس کے مثل (یا اتنی ہی) برائی ہے۔ حالانکہ جو برائی کا بدلہ لے اسے برائی نہیں بلکہ انصاف کہنا زیادہ مناسب ہے۔ لیکن محاوروں میں برائی کا لفظ ہی استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح یہاں بھی اللہ تعالیٰ کے جواباً مذاق اڑانے سے مراد منافقوں کو ان کے استہزاء کا پورا پورا بدلہ دینا ہے، نہ کہ ان کی طرح کا مذاق اڑانا۔ مگر محاورہ میں استہزاء کا لفظ ہی جواب کے طور پر استعمال ہوگا اور اللہ تعالیٰ ان کے استہزاء کا جواب اس صورت میں دے گا کہ عنقریب ان کے سارے پول کھول دے گا۔ جس سے یہ لوگ دنیا میں ذلیل و رسوا ہوں گے اور آخرت میں عذاب الیم سے دو چار ہوں گے۔ [٢٢] عَمِہَ بمعنی دل کا اندھا یا نور بصیرت سے خالی ہونا ہے، جبکہ آنکھ کے اندھے کے لیے عمی کا لفظ آتا ہے۔ گویا منافقوں کو حق بات سوجھتی ہی نہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

3 منافقین دل میں کفر رکھنے اور کفار کا ساتھ دینے کے باوجود مسلمانوں سے ملتے تو ” اٰمَنَّا “ کہتے اور اسے اہل ایمان کے ساتھ مذاق قرار دیتے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی جواباً ان کے ساتھ یہی معاملہ فرمایا کہ ان کے متعلق یہ طے کردیا کہ وہ جہنم کے سب سے نچلے حصے میں ہوں گے، اس کے باوجود دنیا میں انھیں مسلمان قرار دیا اور ان کی رسی دراز کردی، تاکہ وہ سرکشی میں زیادہ سے زیادہ بڑھ جائیں، فرمایا : (اِنَّمَا نُمْلِيْ لَھُمْ لِيَزْدَادُوْٓا اِثْمًا) [ آل عمران : ١٧٨ ] ” ہم انھیں صرف اس لیے مہلت دے رہے ہیں کہ وہ گناہ میں بڑھ جائیں۔ “ وہ ان کا مذاق تھا یہ اللہ تعالیٰ کا مذاق ہے۔ قرآن مجید میں ایسے الفاظ مقابلے میں استعمال ہوئے ہیں جو ابتداءً کم ہی استعمال ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے مذاق کرنے میں وہ معاملہ بھی شامل ہے جو قیامت میں منافقین کو پیش آئے گا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ جاتے ہوئے ان کے نور سے راستہ دیکھتے ہوئے جا رہے ہوں گے کہ یکایک ایک دیوار کے ذریعے سے جہنم کی طرف دھکیل دیے جائیں گے۔ ( دیکھیے حدید : ١٢ تا ١٥ )

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The eighth verse is a comment on this attitude of complacency and self-congratulation on the part of the hypocrites. They are mightily pleased with themselves in the belief that they can so easily make a fool of the Muslims and get away with it, while they are, in fact, only making a fool of themselves. For Allah has, in His forbearance and mercy, given them a long rope, but this is a provision for their being thrown into ridicule. It took place like this. Since the hypocrites saw no apparent signs of divine punishment descending on themselves, they were encouraged in their complacency and rebellion, so that the cup of their iniquity was full, and one day they were caught. Allah acted like this in response to their mockery; so, the Holy Qur&an describes this divine action too as a mockery on the part of Allah.

آٹھویں آیت میں ان کی اس احمقانہ گفتگو کا جواب ہے کہ یہ بےشعور سمجھتے ہیں کہ ہم مسلمانوں سے استہزاء کرتے ہیں اور ان کو بیوقوف بنا رہے ہیں حالانکہ درحقیقت خود بیوقوف بن رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اپنے حلم وکرم سے ان کو ڈھیل دے کر خود انہی استہزاء کا سامان کردیا ہے کہ ظاہر میں کسی عذاب کے نہ آنے سے وہ اور غفلت میں پڑگئے اور اپنی سرکشی میں بڑہتے چلے گئے یہاں تک کہ ان کا جرم اور سنگین ہوگیا پھر دفعۃً پکڑ لئے گئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ عمل چونکہ ان کے استہزاء کے جواب میں تھا اس لئے اس عمل کو بھی استہزاء سے تعبیر کیا گیا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَللہُ يَسْتَہْزِئُ بِہِمْ وَيَمُدُّھُمْ فِىْ طُغْيَانِہِمْ يَعْمَھُوْنَ۝ ١٥ اسْتِهْزَاءُ : ارتیاد الْهُزُؤِ وإن کان قد يعبّر به عن تعاطي الهزؤ، کالاستجابة في كونها ارتیادا للإجابة، وإن کان قد يجري مجری الإجابة . قال تعالی: قُلْ أَبِاللَّهِ وَآياتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِؤُنَ [ التوبة/ 65] ، وَحاقَ بِهِمْ ما کانوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [هود/ 8] ، ما يَأْتِيهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا كانُوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [ الحجر/ 11] ، إِذا سَمِعْتُمْ آياتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِها وَيُسْتَهْزَأُ بِها[ النساء/ 140] ، وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِكَ [ الأنعام/ 10] والِاسْتِهْزَاءُ من اللہ في الحقیقة لا يصحّ ، كما لا يصحّ من اللہ اللهو واللّعب، تعالیٰ اللہ عنه . وقوله : اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة/ 15] أي : يجازيهم جزاء الهزؤ . ومعناه : أنه أمهلهم مدّة ثمّ أخذهم مغافصة «1» ، فسمّى إمهاله إيّاهم استهزاء من حيث إنهم اغترّوا به اغترارهم بالهزؤ، فيكون ذلک کالاستدراج من حيث لا يعلمون، أو لأنهم استهزء وا فعرف ذلک منهم، فصار كأنه يهزأ بهم كما قيل : من خدعک وفطنت له ولم تعرّفه فاحترزت منه فقد خدعته . وقد روي : [أنّ الْمُسْتَهْزِئِينَ في الدّنيا يفتح لهم باب من الجنّة فيسرعون نحوه فإذا انتهوا إليه سدّ عليهم فذلک قوله : فَالْيَوْمَ الَّذِينَ آمَنُوا مِنَ الْكُفَّارِ يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 34] «2» وعلی هذه الوجوه قوله عزّ وجلّ : سَخِرَ اللَّهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذابٌ أَلِيمٌ [ التوبة/ 79] . الا ستھزاء اصل میں طلب ھزع کو کہتے ہیں اگر چہ کبھی اس کے معنی مزاق اڑانا بھی آجاتے ہیں جیسے استجا بۃ کے اصل منعی طلب جواب کے ہیں اور یہ اجابۃ جواب دینا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآياتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِؤُنَ [ التوبة/ 65] کہو کیا تم خدا اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنسی کرتے تھے ۔ وَحاقَ بِهِمْ ما کانوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [هود/ 8] اور جس چیز کے ساتھ یہ استہزاء کیا کرتے ۔ تھے وہ ان کو گھر لے گی ۔ ما يَأْتِيهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا كانُوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [ الحجر/ 11] اور ان کے پاس کوئی پیغمبر نہیں آتا تھا مگر اس کے ساتھ مذاق کرتے تھے ۔إِذا سَمِعْتُمْ آياتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِها وَيُسْتَهْزَأُ بِها[ النساء/ 140] کہ جب تم ( کہیں ) سنو کہ خدا کی آیتوں سے انکار ہوراہا ہے ا اور ان کی ہنسی ارائی جاتی ہے ۔ وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِكَ [ الأنعام/ 10] اور تم سے پہلے بھی پیغمبروں کے ساتھ تمسخر ہوتے ہے ۔ حقیقی معنی کے لحاظ سے استزاء کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف صحیح نہیں ہے جیسا کہ لہو ولعب کا استعمال باری تعالیٰ کے حق میں جائز نہیں ہے لہذا آیت : ۔ اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة/ 15]( ان ) منافقوں سے ) خدا ہنسی کرتا ہے اور انہیں مہلت دیئے جاتا ہے کہ شرارت وسر کشی میں پڑے بہک رہے ہیں ۔ میں یستھزئ کے معنی یا تو استھزاء کی سزا تک مہلت دی اور پھر انہیں دفعتہ پکڑ لیا یہاں انہوں نے ھزء کی طرح دھوکا کھا یا پس یا اس مارج کے ہم معنی ہے جیسے فرمایا : ۔ ان کو بتریج اس طرح سے پکڑیں گے کہ ان کو معلوم ہی نہ ہوگا ۔ اور آہت کے معنی یہ ہیں کہ جس قدر وہ استہزار اڑا رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کے استہزار سے باخبر ہے تو گو یا اللہ تعالیٰ بھی ان کا مذاق اڑارہا ہے ۔ مثلا ایک شخص کسی کو دھوکہ دے ۔ اور وہ اس کے دھوکے سے باخبر ہوکر اسے اطلاع دیئے بغیر اسے سے احتراز کرے تو کہا جاتا ہے ۔ خدعنہ یعنی وہ اس کے دھوکے سے باخبر ہے ۔ ایک حدیث میں ہے ۔ ان للستھزبین فی الدنیا الفتح لھم باب من الجنتہ فیسر عون نحوہ فاذا انتھرا الیہ سد علیھم ۔ کہ جو لوگ دنیا میں دین الہٰی کا مذاق اڑاتے ہیں قیامت کے دن ان کے لئے جنت کا دروازہ کھولا جائیگا جب یہ لوگ اس میں داخل ہونے کے لئے سرپ دوڑ کر وہاں پہنچیں گے تو وہ دروازہ بند کردیا جائیگا چناچہ آیت : ۔ فَالْيَوْمَ الَّذِينَ آمَنُوا مِنَ الْكُفَّارِ يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 34] تو آج مومن کافروں سے ہنسی کریں گے ۔ میں بعض کے نزدیک ضحک سے یہی معنی مراد ہیں اور آیت سَخِرَ اللَّهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذابٌ أَلِيمٌ [ التوبة/ 79] خدا ان پر ہنستا ہے اور ان کے لئے تکلیف دینے والا عذاب تیار ہے ۔ میں بھی اسی قسم کی تاویل ہوسکتی ہے ۔ مد أصل المَدّ : الجرّ ، ومنه : المُدّة للوقت الممتدّ ، ومِدَّةُ الجرحِ ، ومَدَّ النّهرُ ، ومَدَّهُ نهرٌ آخر، ومَدَدْتُ عيني إلى كذا . قال تعالی: وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ الآية [ طه/ 131] . ومَدَدْتُهُ في غيّه، ومَدَدْتُ الإبلَ : سقیتها المَدِيدَ ، وهو بزر ودقیق يخلطان بماء، وأَمْدَدْتُ الجیشَ بِمَدَدٍ ، والإنسانَ بطعامٍ. قال تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَ [ الفرقان/ 45] . وأكثر ما جاء الإمْدَادُ في المحبوب والمدُّ في المکروه نحو : وَأَمْدَدْناهُمْ بِفاكِهَةٍ وَلَحْمٍ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ الطور/ 22] أَيَحْسَبُونَ أَنَّما نُمِدُّهُمْ بِهِ مِنْ مالٍ وَبَنِينَ [ المؤمنون/ 55] ، وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوالٍ وَبَنِينَ [ نوح/ 12] ، يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آلافٍ الآية [ آل عمران/ 125] ، أَتُمِدُّونَنِ بِمالٍ [ النمل/ 36] ، وَنَمُدُّ لَهُ مِنَ الْعَذابِ مَدًّا[ مریم/ 79] ، وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة/ 15] ، وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِ [ الأعراف/ 202] ، وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ [ لقمان/ 27] فمن قولهم : مَدَّهُ نهرٌ آخرُ ، ولیس هو مما ذکرناه من الإمدادِ والمدِّ المحبوبِ والمکروهِ ، وإنما هو من قولهم : مَدَدْتُ الدّواةَ أَمُدُّهَا «1» ، وقوله : وَلَوْ جِئْنا بِمِثْلِهِ مَدَداً [ الكهف/ 109] والمُدُّ من المکاييل معروف . ( م د د ) المد کے اصل معنی ( لمبائی میں ) کهينچنا اور بڑھانے کے ہیں اسی سے عرصہ دراز کو مدۃ کہتے ہیں اور مدۃ الجرح کے معنی زخم کا گندہ مواد کے ہیں ۔ مد النھر در کا چڑھاؤ ۔ مدہ نھر اخر ۔ دوسرا دریا اس کا معاون بن گیا ۔ قرآن میں ہے : أَلَمْ تَرَ إِلى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَ [ الفرقان/ 45] تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارا رب سائے کو کس طرح دراز کرک پھیلا دیتا ہے ۔ مددت عینی الی کذا کسی کیطرف حریصانہ ۔۔ اور للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنا ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ الآية [ طه/ 131] تم ۔۔ للچائی نظروں سے نہ دیکھنا ۔ مددتہ فی غیہ ۔ گمراہی پر مہلت دینا اور فورا گرفت نہ کرنا ۔ مددت الابل اونٹ کو مدید پلایا ۔ اور مدید اس بیج اور آٹے کو کہتے ہیں جو پانی میں بھگو کر باہم ملا دیا گیا ہو امددت الجیش بمدد کا مددینا ۔ کمک بھیجنا۔ امددت الانسان بطعام کسی کی طعام ( غلہ ) سے مددکرنا قرآن پاک میں عموما امد ( افعال) اچھی چیز کے لئے اور مد ( ثلاثی مجرد ) بری چیز کے لئے ) استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا : وَأَمْدَدْناهُمْ بِفاكِهَةٍ وَلَحْمٍ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ الطور/ 22] اور جس طرح کے میوے اور گوشت کو ان کا جی چاہے گا ہم ان کو عطا کریں گے ۔ أَيَحْسَبُونَ أَنَّما نُمِدُّهُمْ بِهِ مِنْ مالٍ وَبَنِينَ [ المؤمنون/ 55] کیا یہ لوگ خیا کرتے ہیں ک ہم جو دنیا میں ان کو مال اور بیٹوں سے مدد دیتے ہیں ۔ وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوالٍ وَبَنِينَ [ نوح/ 12] اور مال اور بیٹوں سے تمہاری مدد فرمائے گا ۔ يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آلافٍ الآية [ آل عمران/ 125] تمہارا پروردگار پانچ ہزار فرشتے تمہاری مدد کو بھیجے گا ۔ أَتُمِدُّونَنِ بِمالٍ [ النمل/ 36] کیا تم مجھے مال سے مدد دینا چاہتے ہو ۔ وَنَمُدُّ لَهُ مِنَ الْعَذابِ مَدًّا[ مریم/ 79] اور اس کے لئے آراستہ عذاب بڑھاتے جاتے ہیں ۔ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة/ 15] اور انہیں مہلت دیئے جاتا ہے کہ شرارت اور سرکشی میں پڑے بہک رہے ہیں ۔ وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِ [ الأعراف/ 202] اور ان ( کفار) کے بھائی انہیں گمراہی میں کھینچے جاتے ہیں لیکن آیت کریمہ : وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ [ لقمان/ 27] اور سمندر ( کا تمام پانی ) روشنائی ہو اور مہار ت سمندر اور ( روشنائی ہوجائیں ) میں یمددہ کا صیغہ مدہ نھرا اخر کے محاورہ سے ماخوذ ہے اور یہ امداد یا مد سے نہیں ہے جو کسی محبوب یا مکروہ وہ چیز کے متعلق استعمال ہوتے ہیں بلکہ یہ مددت الداواۃ امد ھا کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی دوات میں روشنائی ڈالنا کے ہیں اسی طرح آیت کریمہ : وَلَوْ جِئْنا بِمِثْلِهِ مَدَداً [ الكهف/ 109] اگرچہ ہم دیسا اور سمندر اس کی مددکو لائیں ۔ میں مداد یعنی روشنائی کے معنی مراد ہیں ۔ المد۔ غلہ ناپنے کا ایک مشہور پیمانہ ۔ ۔ طغی طَغَوْتُ وطَغَيْتُ «2» طَغَوَاناً وطُغْيَاناً ، وأَطْغَاهُ كذا : حمله علی الطُّغْيَانِ ، وذلک تجاوز الحدّ في العصیان . قال تعالی: اذْهَبْ إِلى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغى[ النازعات/ 17] ( ط غ ی) طغوت وطغیت طغوانا وطغیانا کے معنی طغیان اور سرکشی کرنے کے ہیں اور أَطْغَاهُ ( افعال) کے معنی ہیں اسے طغیان سرکشی پر ابھارا اور طغیان کے معنی نافرمانی میں حد سے تجاوز کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : إِنَّهُ طَغى[ النازعات/ 17] وہ بےحد سرکش ہوچکا ہے ۔ عمه الْعَمَهُ : التّردُّدُ في الأمر من التّحيّر . يقال : عَمَهَ فهو عَمِهٌ وعَامِهٌ «2» ، وجمعه عُمَّهٌ. قال تعالی: فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ الأعراف/ 186] ، فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة/ 15] ، وقال تعالی: زَيَّنَّا لَهُمْ أَعْمالَهُمْ فَهُمْ يَعْمَهُونَ [ النمل/ 4] . ( ع م ہ ) العمۃ کے معنی حیر انگی کی وجہ سے کسی کام میں تردد سے کام لینا کے ہیں ۔ عمہ ( س) صیغہ صفت فاعل عمہ وعامہ اور عامہ کی جمع عمہ ہے ۔ قرآن میں ہے : فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ الأعراف/ 186] وہ اپنی شرارت وسرکشی میں پڑے بہک رہے ہیں ۔ زَيَّنَّا لَهُمْ أَعْمالَهُمْ فَهُمْ يَعْمَهُونَ [ النمل/ 4] ہم نے ان کے اعمال ان کے لئے آراستہ کردیئے تو وہ سرگردان ہو رہے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٥) اللہ تعالیٰ بدلے کے طور پر قیامت کے دن ان کا مذاق اڑائے گا، اس طرح کہ ان کے سامنے پہلے جنت کا ایک دروازہ کھولے گا اور پھر انھیں وہ دروازہ دکھا کر ان پر بند کردے گا اس بات پر مومنین ان منافقین کا مذاق اڑائیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٥ (اَللّٰہُ یَسْتَھْزِئُ بِھِمْ وَیَمُدُّھُمْ فِیْ طُغْیَانِھِمْ یَعْمَھُوْنَ ) اللہ تعالیٰ سرکشوں کی رسّی دراز کرتا ہے۔ کوئی شخص سرکشی کے راستے پر چل پڑے تو اللہ تعالیٰ اسے فوراً نہیں پکڑتا ‘ بلکہ اسے ڈھیل دیتا ہے کہ چلتے جاؤ جہاں تک جانا چاہتے ہو۔ تو ان کی بھی اللہ تعالیٰ رسّی دراز کر رہا ہے ‘ لیکن یہ سمجھتے ہیں کہ ہم مسلمانوں کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ اصل میں مذاق تو اللہ کے نزدیک ان کا اڑ رہا ہے۔ لفظ ” یَعْمَھُوْنَ “ عقل کے اندھے پن کے لیے آیا ہے۔ اس کا مادہ ” ع م ھ “ ہے۔ آگے آیت ١٨ میں لفظ ” عُمْیٌ“ آ رہا ہے جو ” ع م ی “ سے ہے۔ ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ ” عَمِہَ یَعْمَہُ “ بصیرت سے محرومی کے لیے آتا ہے اور ” عَمِیَ یَعْمٰی “ بصارت سے محرومی کے لیے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

14 یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کی رسی دراز کر رکھی ہے کہ ان کے دوغلے پن کی فوری سزا دنیا میں انہیں نہیں مل رہی ہے، جس سے وہ سمجھ رہے ہیں کہ ہماری تدبیر کارگر ہوگئی، چنانچہ وہ اپنی اس گمراہی میں اور پختہ ہوتے جارہے ہیں، آخرت میں انہیں ایک دم پکڑلیا جائے گا، چونکہ اللہ تعالیٰ کا یہ عمل ان کے مذاق کا نتیجہ تھا اسے یہاں اللہ ان سے مذاق کرتا ہے کے عنوان سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:15) یستھزی۔ مضارع واحد مذکر غائب۔ استھزاء (استفعال) مصدر۔ عربی زبان میں جب وہی یا ویسا ہی فعل جواباً استعمال کیا جائے تو اس کے معنی ہوتے ہیں اس فعل کی سزا دیتا یا اس کی مدافعت کرنا۔ اللہ یستھزیء بھم ۔۔ کے یہ معنی نہیں کہ اللہ ان سے مذاق کرے گا۔ بلکہ اس کے معنی ہیں یرجع وبال الاستھزاء علیہم، ان کے استہزاء کا بوجھ یا عذاب ان ہی پر لوٹا دے گا۔ (بیضاوی) بعض علماء نے الفاظ پر مبنی دیگر تاویلات بھی کی ہیں۔ جو کتب تفسیر میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ یمدھم : یمد۔ فعل مصارع واحد مذکر غائب۔ مد یمد (باب نصر) مد۔ مصدر۔ وہ ڈھیل دے رہا ہے، وہ مہلت دے رہا ہے۔ ھم ۔ ضمیر مفعول جمع مذکر غائب۔ ضمیر کا مرجع (وہ لوگ ہیں جو ، (2:8) میں مذکور ہوئے۔ جو کہتے تو یہ ہیں کہ ہم اللہ اور آخرت پر ایمان لائے لیکن حقیقۃً وہ ایمان نہیں رکھتے۔ المد۔ کے اصل معنی (لمبائی میں کھینچنے کے ہیں۔ اور بڑھانے کے ہیں۔ اسی سے عرصہ دراز کو مدۃ کہتے ہیں ۔ قرآن مجید میں ہے الم تر الی ربک کیف مد الظل (25:45) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارا رب سائے کو کس طرح دراز کرکے پھیلا دیتا ہے مددت عینی الی کذا۔ للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنا۔ مثلاً لا تمدن عینیک الی ما متعنا بہ ازواجا منھم (15:88) اور ہم نے کفار کے کئی جوڑوں کو جو فوائد دینا سے متمع کیا ہے۔ تم ان کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے نہ دیکھنا اور ۔ مددتہ فی غیہ بمعنی گمراہی پر مہلت دینا۔ فوراً گرفت نہ کرنا ۔ باب افعال سے امدیمد بمعنی مدد کرنا وغیرہم۔ طغیانھم۔ مضاف مضاف الیہ ان کی سرکشی، طغی یطغی۔ باب سمع اور طغی یطغی (باب فتح) طغیان۔ اپنی حد سے بڑھ جانا۔ نافرمانی اور معصیت کو شی میں حد سے بڑھ جانا۔ ہم ضمیر جمع مذکر غائب۔ یعمھون۔ مضارع جمع مذکر غائب۔ عمہ (باب فتح۔ سمع) مصدر بمعنی حیرانگی کی وجہ سے سرگردان ومتردد پھرنا۔ یعمھون جملہ فعلیہ خبر یہ ہو کر ھم کا حال ہے۔ عم کے معنی لغوی یہ ہیں کہ کسی معاملہ میں سرگشتہ و حیران ہونا جیسا کہ اعمی (اندھے) کا حال ہوتا ہے۔ ترجمہ یوں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ٹھٹھا کرتا ہے یعنی انہیں ٹھٹھا کرنے کی سزا دیتا ہے اور ان کو ان کی سرکشی میں ڈھیل دئیے جاتا ہے۔ (اور ان کی حالت یہ ہے کہ) وہ حیرانگی کی وجہ سے سرگرداں و متردد بہک رہے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 عام محاروے میں ہر برے کام کی جزا یا جواب کو اسی برائی کا نام دے دیا جاتا ہے قرآن مجید کئی مقامات پر یہ محاورہ استعمال کیا ہے چناچہ اسی محاورہ کے مطابق کے مکر و فریب اور ہنسی مذاق کے مقابلہ میں جو انھیں مہلت دی اور اب ہر فورا گرفت نہ کی اس کے متعلق فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان سے ہنسی ٹھٹھہ کرتا ہے مطلب یہ ہے کہ ان منافقین سے ہمارا یہ بر تاؤ اس وجہ سے نہیں ہے کہ ہم ان سے خوش ہیں بلکہ یہ ہمارا غضب ہے اور یہ امہال دراصل ان کے ہنسی مزاح کا بد لہ ہے جو وہ مسلمانوں سے کر رہے ہیں تاکہ وہ اپنی سرکشی میں خوب قدم بڑھا لیں جیسے فرمایا ( :إِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدَادُوا إِثْمًا : آل عمران آیت 178) ۔ ابن عباس فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے استہزا کی یہ صورت آخرت میں پیش آئے گی قرطبی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : منافقت اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ یہاں منافقین کے کردار کے بارے میں لفظ طغیان استعمال کیا ہے جو ایک محاورہ بھی ہے کہ دریا میں طغیانی ہے۔ یعنی دریا اپنی حد سے آگے بڑھ گیا ہے۔ یہی حالت گناہ کے وقت انسان کی ہوتی ہے۔ اس لیے کہ وہ اپنی فطرت سلیم سے آگے بڑھ کر گناہ کرتا ہے۔ مذاق کرنا اللہ تعالیٰ کی شان کے خلاف ہے لیکن منافقوں پر ناراضگی اور مومنوں سے مذاق کرنے کی وجہ سے منافقوں کے مذاق کو اللہ تعالیٰ اپنی طرف منسوب فرما رہا ہے۔ کیونکہ مومنوں کو اللہ پر ایمان لانے کی وجہ سے مذاق نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جس کو اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ مذاق کرنے کے مترادف سمجھتا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات کو وسیع ترین تناظر میں یوں بیان فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا اعلان جنگ : (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إنَّّ اللّٰہَ قَالَ مَنْ عَادٰی لِیْ وَلِیًّا فَقَدْ آذَنْتُہٗ بالْحَرْبِ وَمَا تَقَرَّبَ إِلَیَّ عَبْدِیْ بِشَیْءٍ أَحَبَّ إِلیَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَیْہِ وَمَا یَزَالُ عَبْدِیْ یَتَقَرَّبُ إِلَیَّ بالنَّوَافِلِ حَتّٰی أُحِبَّہٗ فَإِذَا أَحْبَبْتُہٗ کُنْتُ سَمْعَہُ الَّذِیْ یَسْمَعُ بِہٖ وَبَصَرَہُ الَّذِیْ یَبْصُرُبِہٖ وَیَدَہُ الَّتِیْ یَبْطِشُ بِھَا وَرِجْلَہُ الَّتِیْ یَمْشِیْ بِھَا وَإِنْ سَأَلَنِیْ لَأُعْطِیَنَّہٗ وَلَءِنِ اسْتَعَاذَنِیْ لَأُعِیْذَنَّہٗ وَمَا تَرَدَّدْتُّ عَنْ شَیْءٍ أَنَا فَاعِلُہٗ تَرَدُّدِیْ عَنْ نَّفْسِ المُؤْمِنِ یَکْرَہُ الْمَوْتَ وَأَنَا أَکْرَہُ مَسَاءَ تَہٗ ) (رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب التواضع ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس نے میرے دوست سے دشمنی کی میں اس سے اعلان جنگ کرتا ہوں۔ میں نے جو چیزبندے پر فرض کی اس سے زیادہ مجھے کوئی چیز محبوب نہیں جس سے وہ میرا قرب حاصل کرے۔ بندہ نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں۔ جب میں اس کے ساتھ محبت کرتا ہوں تو میں اس کے کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔ سوال کرے تو میں اسے ضرور عطا کرتا ہوں ‘ اگر مجھ سے پناہ طلب کرے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں۔ میں اپنے کسی کام میں اتنا تردُّد نہیں کرتا جتنا ایک مومن کی جان قبض کرنے میں کرتا ہوں کیونکہ بندہ موت کو ناپسند کرتا ہے اور مجھے اس کی تکلیف اچھی نہیں لگتی جس نے ولی کو تکلیف دی۔ “ کوئی مجرم اللہ تعالیٰ کی دسترس سے باہر نہیں ہوسکتا اس کے باوجود اس نے منافق کو دین اور دین داروں کے ساتھ مذاق کرنے کی مہلت دے رکھی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کے مطابق ہے۔ سخت ناراضگی کے اظہار کے طور پر مذاق کا لفظ ذات کبریا نے اپنی طرف منسوب کیا ہے جب ان کے لیڈر سازشوں کے بےنقاب ہونے کے خوف سے ان کو روکتے ہیں۔ تو ان کے چیلے چانٹے یہ کہہ کر ان کو مطمئن کرتے ہیں کہ ہم تو مسلمانوں کو مذاق کے طور پر ایسی باتیں کرتے ہیں۔ اس عیاری اور چالاکی کی وجہ سے ان کی عقل پر پردہ پڑچکا ہے۔ یہ جھوٹ، سازش اور منافقت کے پردہ چاک ہونے کے خوف سے دل ہی دل میں پریشان رہتے ہیں اور ایسی باتوں اور ساتھیوں پر خوش ہوتے ہیں۔ یاد رکھیے ! گناہ کا نقصان صرف یہی نہیں کہ دنیا میں ذلّت اور آخرت میں سزا ہوگی بلکہ گناہ کا پہلا نقصان یہ ہوتا ہے کہ انسان کا دل گناہ کی وجہ سے پریشان رہتا اور گناہ سے آدمی کی طبیعت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ گناہ گار ضمیر کا چور اور بزدل ہوجاتا ہے۔ جبکہ نیکی میں اطمینان ہے اور گناہ میں پریشانی۔ کبھی جرائم پیشہ اور بد کا رکو ٹٹول کر دیکھو بظاہر ہشاش بشاش نظر آنے کے باوجودوہ کس طرح پریشان ہوتا ہے۔ قرآن مجید اسی قلبی اضطراب کا ذکر کر رہا ہے کہ وہ اپنے نفس کی طغیانیوں اور نافرمانیوں میں پریشان رہتے ہیں۔ نفسیات کے معلّم اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گناہ کی تعریف اس طرح فرمائی ہے : (اَلْإِثْمُ مَا حَاکَ فِیْ صَدْرِکَ وَکَرِھْتَ أَنْ یَّطَّلِعَ عَلَیْہِ النَّاسُ ) (رواہ مسلم : کتاب البر والصلۃ، باب تفسیر البر والإثم) ” گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اور لوگوں کو اس کا علم ہونا تجھے ناگوار محسوس ہو۔ “ مسائل ١۔ منافق کو روز قیامت استہزا کی سزا دی جائے گی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ منافق اور کافر کو دنیا میں ڈھیل دیتا ہے۔ تفسیر بالقرآن استہزا اور اس کی سزا : ١۔ انبیاء کے ساتھ استہزا کیا گیا۔ (الزخرف : ٧) ٢۔ اللہ اور اس کی آیات سے مذاق کیا گیا۔ (التوبۃ : ٦٥) ٣۔ نماز کے ساتھ استہزا کیا گیا۔ ( المائدۃ : ٥٨) ٤۔ کفار نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے استہزا کیا۔ ( الأنبیاء : ٣٦) ٥۔ استہزا کرنے والوں کو رسوا کن عذاب ہوگا۔ ( الجاثیۃ : ٩) ٦۔ اللہ کی آیات کو مذاق نہ بناؤ۔ ( البقرۃ : ٢٣١) ٧۔ اللہ کی آیات اور انبیاء سے مذاق کی سزا جہنم ہے۔ ( الکہف : ١٠٦) ٨۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم آپ سے مذاق کرنے والوں سے نمٹ لیں گے۔ ٩۔ جہاں اللہ کی آیات سے مذاق کیا جائے وہاں نہ بیٹھو۔ ( النساء : ١٤٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ ” اللہ ان سے مذاق کررہا ہے ، وہ ان کی رسی دراز کئے جاتا ہے اور یہ اپنی رو میں اندھوں کی طرح بھٹکتے چلے جاتے ہیں ۔ “ کس قدر بدبخت ہے وہ شخص کہ آسمان و زمین کا قہار وجبار جس کے ساتھ مذاق کررہا ہے ؟ اس سے بڑی شقاوت کوئی اور نہیں ” اللہ ان کی رسی دراز کئے جارہا ہے اور یہ اپنی سرکشی میں اندھوں کی طرح بھٹکتے ہیں ۔ “ جب ایک حساس انسان ان الفاظ پر غور کرتا ہے اور مرکب خیال جو لانی دکھاتا ہے تویہاں آکر وہ نہایت ہی خوفناک اور کپکپا دینے والے منظر کے سامنے بےحس و حرکت کھڑا ہوجاتا ہے ۔ یہ اس قدر خوفناک انجام ہے جس سے دل دہل جاتے ہیں اور بدن پر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ چناچہ ان مکاریوں کو یوں اپنے حال پر چھوڑدیا جاتا ہے ۔ نہ ان کا کوئی مرشد ۔ نہ کوئی راہ سجھائی دیتی ہے ۔ نہ ان کے سامنے کوئی مقصد ہے ۔ یہ لوگ اسی سرگردانی کی حالت میں ہوتے ہیں کہ اللہ دست قدرت انہیں اپنی شدید گرفت میں لے لیتا ہے اور یہ چوہوں کی طرح غفلت و لاپرواہی کے عالم میں جال میں کو دجاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی جانب سے یہ ایک خوفناک انجام ہے اور اس کے مقابلے میں اس مذاق کی کوئی حیثیت نہیں ہے جو یہ اپنے خیال کے مطابق کررہے ہیں ۔ یہاں اس حقیقت کا اظہارہورہا ہے جس کی طرف ہم پہلے بھی اشارہ کر آئے ہیں کہ کفر واسلام کے معرکہ میں خود اللہ تعالیٰ مومنین کا والی اور مددگار ہوتا ہے ۔ اللہ کے دوستوں اور بندوں کے لئے اس کی سرپرستی میں اگر طمانیت قلب کا ایک عظیم سرمایہ ہے تو اللہ تعالیٰ کے مخبوط الحواس ، غافل اور راندہ درگاہ دشمنوں کے لئے انجام بد اور ایک خوفناک پایان کار کی نشان دہی ہے ، جو اس کے لئے دھوکہ کھائے ہوئے ہیں کہ اللہ ان کے لئے رسی دراز کئے جارہا ہے اور وہ اپنی سرکشی اور گمراہی میں سرگرداں ہیں ۔ یہ اندھے ہورہے ہیں ، غفلت میں ڈوبے جارہے ہیں ، حالانکہ ایک خوفناک انجام ان کا منتظر ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

31 ۔ بعض اوقات " جرم " کی سزا پر لفظ " جرم " کا اطلاق کردیا جاتا ہے اور مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اس تمسخر اور استہزا کی سزا دیگا۔ ان ینتقم منھم ویعاقبہم ویسخر بہم ویجازبھم علی استھزائہم فسمی العقوبۃ باسم الذنب (قرطبی ص 207 ج 1) اور بعض نے کہا کہ جس طرح منافقین مسلمانوں کو بنا رہے ہیں اسی طرح اللہ بھی منافقوں کو بنا رہا ہے اور ان سے تمسخر کا سا معاملہ کر رہا ہے مثلا دنیا میں ان پر اسلام کے احکام جاری کرا رکھے ہیں اور انہیں مہلت دے رکھی ہے۔ جب وہ کفر وسرکشی کی انتہا کو پہنچ جائینگے تو اچانک دھر لیے جائینگے۔ منافقین ان چیزوں کو اپنے حق میں مفید سمجھ رہے ہیں مگر حقیقت میں یہ چیزیں ان کی تباہی اور بربادی کا پیش خیمہ ہیں۔ الایۃ جاریۃ علی سبیل التمثیل والمراد یعاملھم سبحانہ معاملۃ المستھزئ اما فی الدنیا باجراء احکام الاسلام واستدراجھم من حیث لا یعلمون (روح ص 159 ج 1) 32 ۔ دوسری تفسیر کے مطابق یہ اَللّٰهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ کا بیان ہے۔ معطوف علی قولہ سبحانہ وتعالی يَسْتَهْزِئُ بِهِمْکالبیان لہ علی رائ (روح ص 159 ج 1) فِىْ طُغْيَانِهِمْ ، وَيَمُدُّھُمْ سے متعلق ہے اور يَعْمَھُوْنَ ضمیر مفعول سے حال ہے۔ یعنی وہ انہیں سرکشی اور گمراہی میں بڑھا رہا ہے اور وہ بےاطمینانی اور شک و تردد میں حیران و سرگرداں پھر رہے ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1۔ اور جب ان منافقوں سے کہا جاتا ہے کہ تم اس طرح ایمان لائو جس طرح دوسرے مخلص اور کامل انسان ایمان لائے ہیں تو یہ جواب دیتے ہیں کیا ہم بھی اس طرح ایمان لائیں جس طرح یہ کم عقل اور بیوقوف ایمان لائے ہیں آگاہ رہو کہ یہ منافق خود ہی بیوقوف ہیں مگر یہ اپنی بیوقوفی سے واقف نہیں ہیں اور یہ منافق جب مسلمانوں سے ملاقات کرتے ہیں تو کہتے ہیں ہم ایمان دار ہیں اور جب خلوت و تنہائی میں اپنے سرداروں کے پاس جمع ہوتے ہیں تو ان کو اپنی معیت کا یقین دلاتے ہیں اور کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں مسلمانوں سے تو ہم صرف ہنسی اور مذاق کیا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان منافقوں کو ان کے مذاق کی سزا دے رہا ہے اور ان کو ان کی شرارت اور سرکشی میں اس طور سے بڑھاتا ہے کہ وہ حیران و سرگرداں پھر رہے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ان منافقوں کی دوزخی پالیسی کا یہ حال ہے کہ جب ان سے ایمان لانے کو کہا جائے تو ان کا جواب یہ ہوتا ہے کہ مخلص مسلمانوں کو بیوقوف اور کم عقلی کہیں اور جب مسلمانوں کے سامنے پڑجائیں تو اپنے ایمان کا اقرار اور اعتراف کریں اور جب اپنے سرداروں اور چودھریوں کے پاس تخلیہ میں جائیں تو کہیں ہم تمہارے موافق ہیں ہم تو مسلمانوں کو جھانسہ دے رہے ہیں اور ان سے دل لگی کر رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے مقابلہ میں استہزاء کا لفظ فرمایا حالانکہ وہ استہزا سے پاک اور منزہ ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے تھا نے دار جو اریوں اور قمار بازوں سے کہے میں بھی آج تمہارے ساتھ جوا کھیلوں گا یا آج میں تم کو جوا کھلائوں گا تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ واقعی تھا نے دار جوئے میں شرکت کرے گا ۔ بلکہ اس کے کہنے کا مطلب ہوتا ہے کہ میں آج تم سب کو گرفتار کروں گا اور اس جوئے کا تم کو مزہ چکھائوں گا ۔ یہاں بھی اللہ تعالیٰ کی استہزاء سے یہی مراد ہے۔ ہر گناہ کی سزا گناہ کی ہم شکل اور ہر نیکی کا صلہ اس نیکی کے مماثل ہوا کرتا ہے اسی مماثلت کی وجہ سے استہزا کی سزا کو بھی لفظ استہزا سے تعبیر فرمایا ہے اللہ تعالیٰ کا استہزا یہی ہے کہ وہ منافقین کی رسی دراز کر رہا ہے اور یہ اس ڈھیل کو کامیابی سمجھ رہے ہیں وہ ان کو انکی سرکشی اور طغیان میں بڑھا رہا ہے اور ان کو ان رسوا کن نتائج کی کچھ خبر نہیں جو عنقریب پیش آنے والے ہیں آخرت میں بعض گناہ گاروں کے ساتھ یہ سلوک کیا جائے گا جہنم میں ان کو ایسا معلوم ہوگا کہ دوزخ کا دروازہ کھلا ہوا ہے وہ بھاگ کر جائیں گے کہ باہر نکل جائیں لیکن جب دروازے کے قریب پہنچیں گے تو اس کو بند پائیں گے۔ ان کے ساتھ بار بار یہی سلوک ہوگا اور یہ بار بار شرمندہ ہو کر واپس ہوں گے ہوسکتا ہے کہ یہ سلوک منافقوں کے ساتھ کیا جائے اور یہ ان کے اس استہزا کی سزا ہو جو وہ دنیا میں مسلمانوں کے ساتھ کیا کرتے تھے جس طرح آنکھوں کے اندھے کیلئے عمی ہے اسی طرح عقل کے اندھے کیلئے عمہ ہے۔ حضرت شیخ الہند (رح) نے یعمھون کا ترجمہ اسی لئے عقل کے اندھے ہیں فرمایا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح آنکھوں کا اندھا ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے اسی طرح عقل کے اندھے کوئی آخری اور صحیح رائے قائم نہیں کرسکتے اور حیران و سرگرداں پڑے پھرتے ہیں وہی حالت ان منافقین کی ہے اور اسی حال میں ان کو ان کی شرارتوں اور طغیان و سرکشی میں پڑھایا جا رہا ہے۔ فائدہ۔ منافقوں کا یہ قول کہ ہم بھی کیا بیوقوفوں کی طرح ایمان لے آئیں یہ غالباً اپنے سرداروں سے کہتے ہوں گے یا اپنے دل میں کہتے ہوں گے یا آپس میں ایک دوسرے سے کہتے ہوں گے۔ ( تسہیل)