Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 226

سورة البقرة

لِلَّذِیۡنَ یُؤۡلُوۡنَ مِنۡ نِّسَآئِہِمۡ تَرَبُّصُ اَرۡبَعَۃِ اَشۡہُرٍ ۚ فَاِنۡ فَآءُوۡ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۲۲۶﴾

For those who swear not to have sexual relations with their wives is a waiting time of four months, but if they return [to normal relations] - then indeed, Allah is Forgiving and Merciful.

جو لوگ اپنی بیویوں سے ( تعلق نہ رکھنے کی ) قسمیں کھائیں ان کے لیے چار مہینے کی مدت ہے ، پھر اگر وہ لوٹ آئیں تو اللہ تعالٰی بھی بخشنے والا مہربان ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Ila' and its Rulings Allah says; لِّلَّذِينَ يُوْلُونَ مِن نِّسَأيِهِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ فَإِنْ فَأوُوا فَإِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ Those who take an oath not to have sexual relation with their wives must wait for four months, then if they return, verily, Allah is Oft-Forgiving, Most Merciful. Ila' is a type of vow where a man swears not to sleep with his wife for a certain period, whether less or more than four months. If the vow of Ila' was for less than four months, the man has to wait for the vow's period to end and then is allowed to have sexual intercourse with his wife. She has to be patient and she cannot ask her husband, in this case, to end his vow before the end of its term. It is reported in the Two Sahihs that Aishah said that; Allah's Messenger swore he would stay away from with his wives for a month. He then came down after twenty-nine days saying: الشَّهْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُون The (lunar) month is twenty-nine days. Similar was narrated by Umar bin Al-Khattab and reported in the Two Sahihs. If the period of Ila' is for more than four months, the wife is allowed in this case to ask her husband, upon the end of the four months, to end the Ila' and have sexual relations with her. Otherwise, he should divorce her, by being forced to do so by the authorities if necessary, so that the wife is not harmed. Allah said: لِّلَّذِينَ يُوْلُونَ مِن نِّسَأيِهِمْ ... Those who take an oath not to have sexual relations with their wives, meaning, swear not to have sexual relations with the wife. This Ayah indicates that the Ila' involves the wife and not a slave-women, as the majority of the scholars have agreed, ... تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ ... ...must wait for four months, meaning, the husband waits for four months from the time of the vow and then ends the Ila' (if the vow was for four or more months) and is required to either return to his wife or divorce her. This is why Allah said next: ... فَإِنْ فَأوُوا ... ...then if they return, meaning, to a normal relationship, having sexual intercourse with the wife. This is the Tafsir of Ibn Abbas, Masruq, Ash-Sha`bi, Sa`id bin Jubayr and Ibn Jarir. ... فَإِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ...verily, Allah is Oft-Forgiving, Most Merciful. with any shortcomings that occurred in the rights of the wife because of the vow of Ila'. Allah said: وَإِنْ عَزَمُواْ الطَّلَقَ فَإِنَّ اللّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ

ایلاء اور اس کی وضاحت: ایلاء کہتے ہیں قسم کو ۔ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے مجامعت نہ کرنے کی ایک مدت تک کیلئے قسم کھا لے تو دو صورتیں ، یا وہ مدت چار مہینے سے کم ہو گی یا زیادہ ہوگی ، اگر کم ہو گی تو وہ مدت پوری کرے اور اس درمیان عورت بھی صبر کرے ، اس سے مطالبہ اور سوال نہیں کر سکتی ، پھر میاں بیوی آپس میں ملیں جلیں گے ، جیسے کہ بخاری صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ماہ کیلئے قسم کھا لی تھی اور انتیس دن پورے الگ رہے اور فرمایا کہ مہینہ انتیس کا بھی ہوتا ہے اور اگر چار مہینے سے زائد کی مدت کیلئے قسم کھائی ہو تو چار ماہ بعد عورت کو حق حاصل ہے کہ وہ تقاضا اور مطالبہ کرے کہ یا تو وہ میل ملاپ کر لے یا طلاق دے دے ، اور اس خاوند کا حکم ان دو باتوں میں سے ایک کے کرنے پر مجبور کرے گا تاکہ عورت کو ضرر نہ پہنچے ۔ یہی بیان یہاں ہو رہا ہے کہ جو لوگ اپنی بیویوں سے ایلاء کریں یعنی ان سے مجامعت نہ کرنے کی قسم کھائیں ، اس سے معلوم ہوا کہ یہ ایلاء خاص بیویوں کیلئے ہے ، لونڈیوں کیلئے نہیں ۔ یہی مذہب جمہور علماء کرام کا ہے ، یہ لوگ چار مہینہ تک آزاد ہیں ، اس کے بعد انہیں مجبور کیا جائے گا کہ یا تو وہ اپنی بیویوں سے مل لیں یا طلاق دے دیں ، یہ نہیں کہ اب بھی وہ اسی طرح چھوڑے رہیں ، پھر اگر وہ لوٹ آئیں یہ اشارہ جماع کرنے کا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی بخش دے گا اور جو تقصیر عورت کے حق میں ان سے ہوئی ہے اسے اپنی مہربانی سے معاف فرما دے گا ، اس میں دلیل ہے ان علماء کی جو کہتے ہیں کہ اس صورت میں خاوند کے ذمہ کفارہ کچھ بھی نہیں ۔ امام شافعی کا بھی پہلا قول یہی ہے ، اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو اگلی آیت کی تفسیر میں گزر چکی کہ قسم کھانے والا اگر اپنی قسم توڑ ڈالنے میں نیکی دیکھتا ہو تو توڑ ڈالے ، یہی اس کا کفارہ ہے ، اور علماء کرام کی ایک دوسری جماعت کا یہ مذہب ہے کہ اسے قسم کا کفارہ دینا پڑے گا ۔ اس کی حدیثیں بھی اوپر گزر چکی ہیں اور جمہور کا مذہب بھی یہی ہے ، واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

226۔ 1 یعنی کوئی شوہر اگر قسم کھالے کہ اپنی بیوی سے ایک مہینہ یا دو مہینے تعلق نہیں رکھوں گا پھر قسم کی مدت پوری کر کے تعلق قائم کرلیتا ہے تو کوئی کفارہ نہیں ہاں اگر مدت پوری ہونے سے قبل تعلق قائم کرے گا کفارہ قسم ادا کرنا پڑے گا اور اگر چار مہینے سے زیادہ مدت کے لئے یا مدت مقرر کئے بغیر قسم کھاتا ہے تو اس آیت میں ایسے لوگوں کے لئے مدت کا تعین کردیا گیا ہے کہ وہ چار مہینے گزرنے کے بعد یا تو بیوی سے تعلق قائم کرلیں یا پھر اسے طلاق دے دیں پہلی صورت میں اسے کفارہ قسم ادا کرنا ہوگا اگر دونوں میں سے کوئی صورت اختیار نہیں کرے گا تو عدالت اسکو دونوں میں سے کسی ایک بات کے اختیار کرنے پر مجبور کرے گی کہ وہ اس سے تعلق قائم کرے یا طلاق دے تاکہ عورت پر ظلم نہ ہو۔ (ابن کثیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٠٢] ایلاء (اپنی بیویوں سے تعلق نہ رکھنے کی قسم کھانا) کی مدت چار ماہ ہے۔ مثلاً اگر کسی نے تین ماہ تعلق نہ رکھنے کی قسم کھائی تو یہ شرعاً ایلاء نہ ہوگا۔ اب آگے اس کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ تین ماہ کے اندر صحبت کرلی، تو اب اس پر قسم کا کفارہ دینا ہوگا اور اگر تین ماہ کے بعد کی تو نہ کفارہ ہے نہ طلاق اور چار ماہ گزر جائیں اور مرد رجوع نہ کرے تو طلاق واقع ہوجائے گی، اور بعض فقہاء کے نزدیک یہ معاملہ عدالت میں جائے گا اور طلاق عدالت کے ذریعہ ہوگی۔ (مزید تفصیل سورة مجادلہ میں دیکھئے)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

صیغہ جمع مذکر غائب، باب افعال، مہموز الفاء اور ناقص یائی، ” آلٰی یُؤْلِیْ اِیْلَاءٌ“” أل ی “ اس کا مادہ ہے۔ ان دو آیتوں میں ” ایلاء “ کے معنی یہ ہیں کہ مرد قسم کھالے کہ وہ اپنی بیوی سے جماع نہیں کرے گا، پھر اگر یہ قسم چار ماہ یا اس سے کم مدت کے لیے کھائی ہو تو اسے اپنی قسم پوری کرنے کا اختیار ہے، اگر وہ مدت پوری کرکے اپنی بیوی سے تعلق قائم کرلے تو اس پر کوئی کفارہ نہیں ہوگا اور اگر اس مدت سے پہلے ہی تعلق بحال کرلے تو قسم کا کفارہ دینا ہوگا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دفعہ اپنی بیویوں سے ایک ماہ کے لیے قریب نہ جانے کی قسم کھائی تھی، مدت پوری ہونے پر آپ نے ان سے تعلق قائم فرما لیا۔ [ بخاری، النکاح، باب ھجرۃ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نساء ہ۔۔ : ٥٢٠٢ ] اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوئی کفارہ ادا نہیں کیا۔ (شوکانی) جاہلیت میں نکاح کرنے کے بعد بعض لوگ لمبی مدت تک بیوی کے پاس نہ جانے کی قسم اٹھا لیتے، یا مدت کی تعیین کیے بغیر ہمیشہ کے لیے قسم کھالیتے، وہ بیچاری لٹکی رہتی، نہ خاوند والی نہ بغیر خاوند کے کہ کہیں اور نکاح کرلے۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں اس ظلم کا خاتمہ فرمایا۔ اب اگر کوئی چار ماہ سے زائد مدت کے لیے، یا مدت مقرر کیے بغیر قسم کھالے تو ایسے شخص کے لیے اس آیت میں چار ماہ کی مدت مقرر کردی گئی ہے کہ یا تو اس مدت کے پورا ہوتے ہی اپنی بیوی سے تعلقات قائم کرے، یا پھر سیدھی طرح سے طلاق دے دے۔ پہلی صورت اختیار کرے گا تو اسے کفارہ دینا ہوگا اور اگر وہ دونوں میں سے کوئی صورت بھی اختیار نہ کرے تو حاکم وقت اسے مجبور کرے گا کہ دونوں میں سے ایک اختیار کرے۔ صرف چار ماہ گزرنے سے خود بخود طلاق واقع نہیں ہوگی۔ آیت کے الفاظ سے یہی ظاہر ہوتا ہے اور امام بخاری (رض) نے ” کِتَاب الطَّلاَقِ (٥٢٩١) “ میں ابن عمر، عثمان، علی، ابو درداء، عائشہ (رض) اور ان کے علاوہ بارہ صحابہ سے یہ قول ذکر فرمایا ہے۔ اکثر ائمہ کا بھی یہی فتویٰ ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Note: If someone takes an oath that he will not have sexual intercourse with his wife, the case has four situations: (A) No time-limit was fixed. (B) A time-limit of four months was fixed. (C) A time-limit of more than four months was fixed. (D) The limit was identified as less than four months. So, situations A, B and C are termed in Shari` ah as &Ild& (ایلاء ). The injunction covering these situations is: If the oath-taker breaks his oath within four months and resumes sexual intercourse with his wife, he will have to come up with kaffarah کَفَّارہ for his oath while his nikah (marriage) remains intact. And should it be that the time-limit of four months did expire and the oath-taker did not break his oath, an irrevocable divorce on his wife will become effective, that is, taking her back without remarriage does not remain correct any more. However, if they, by mutual consent, enter into marriage this will be correct. Halalah حلالہ (an intermediary marriage of the woman with a third person) is not required. The injunction in the fourth situation is: If the oath is broken, kaffarah کَفَّارہ will be required and if the oath is completed, the marriage, even then, will remain valid. (Bayan al-Qur°an)

خلاصہ تفسیر : حکم نمبر ٢٢ ایلاء کا حکم : لِلَّذِيْنَ يُؤ ْلُوْنَ (الی قولہ) سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ یعنی جو لوگ (بلا قید مدت یا چار ماہ یا زائد مدت کے لئے) قسم کھا بیٹھتے ہیں اپنی بیبیوں کے پاس جانے سے ان کیلئے چار مہینے تک کی مہلت ہے سو اگر (ان چار مہینے کے اندر) یہ لوگ (اپنی قسم کو توڑ کر عورت کی طرف) رجوع کرلیں (تب تو نکاح باقی رہے گا اور) اللہ تعالیٰ (ایسی قسم کو توڑنے کا گناہ کفارہ سے) معاف کردیں گے (اور چونکہ اب بی بی کے حقوق ادا کرنے لگا اس پر) رحمت فرمادیں گے اور اگر بالکل چھوڑ ہی دینے کا پختہ ارادہ کرلیا ہے ( اور اس لئے چار ماہ کے اندر قسم توڑ کر رجوع نہیں کیا) تو (چار ماہ گذرتے ہی قطعی طلاق پڑجاویں گی اور) اللہ تعالیٰ (ان کی قسم کو بھی) سنتے ہیں اور ان کے اس پختہ ارادے کو بھی) جانتے ہیں (اس لئے اس کے متعلق حکم مناسب ارشاد فرمایا)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لِلَّذِيْنَ يُؤْلُوْنَ مِنْ نِّسَاۗىِٕہِمْ تَرَبُّصُ اَرْبَعَۃِ اَشْہُرٍ۝ ٠ ۚ فَاِنْ فَاۗءُوْ فَاِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝ ٢٢٦ إيلاء وحقیقة الإيلاء والأليّة : الحلف المقتضي لتقصیر في الأمر الذي يحلف عليه . وجعل الإيلاء في الشرع للحلف المانع من جماع المرأة، وكيفيته وأحكامه مختصة بکتب الفقه . ایلاء والیۃ اس کو کہتے ہیں جس پر ( قسم کھانے والے کو ) تکلیف اور کوتاہی کا سامنا کرنا پڑے اور اصطلاح شریعت میں ایلاء اس قسم کو کہتے ہیں جو عورت کے ساتھ جماع پر اٹھائی جائے اس قسم کو کیفیت اور احکام کا بیان کرنا کتب فقہ کے ساتھ مختص ہے۔ یؤلون ۔ مضارع جمع مذکر غائب۔ ایلاء ( افعال) وہ عورتوں کے پاس نہ جانے کی قسم کھاتے ہیں۔ ایلاء والیہ۔ اصل میں اس قسم کو کہتے ہیں کہ جس پر قسم کھانے والے کو تکلیف اور کوتاہی کا سامنا کرنا پڑے۔ اور اصطلاح شریعت میں ایلاء اس قسم کو کہتے ہیں جو عورت کے ساتھ جماع نہ کرنے پر اٹھائی جائے۔ الوت فی الامر۔ کے معنی ہیں کسی کام میں کوتاہی کرنا۔ قسم کھانے کے معنی میں قرآن مجید میں آیا ہے۔ ولا یاتل اولو الفضل منکم (24:22) اور جو لوگ تم میں سے صاحب فضل ( اور صاحب وسعت) ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں ۔۔ نِّسَاءُ والنِّسْوَان والنِّسْوَة جمعُ المرأةِ من غير لفظها، کالقومِ في جمعِ المَرْءِ ، قال تعالی: لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات/ 11] ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف/ 50] النساء والنسوان والنسوۃ یہ تینوں امراءۃ کی جمع من غیر لفظہ ہیں ۔ جیسے مرء کی جمع قوم آجاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات/ 11] اور نہ عورتیں عورتوں سے تمسخر کریں ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف/ 50] کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کا ٹ لئے تھے ۔ ربص التّربّص : الانتظار بالشیء، سلعة کانت يقصد بها غلاء، أو رخصا، أو أمرا ينتظر زواله أو حصوله، يقال : تربّصت لکذا، ولي رُبْصَةٌ بکذا، وتَرَبُّصٌ ، قال تعالی: وَالْمُطَلَّقاتُ يَتَرَبَّصْنَ [ البقرة/ 228] ( ر ب ص ) التربص کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ خواہ وہ انتظار سامان تجارت کی گرانی یا ارزانی کا ہو یا کسی امر وا قع ہونے یا زائل ہونیکا انتظار ہو ۔ کسی چیز کا انتظار کرنا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَالْمُطَلَّقاتُ يَتَرَبَّصْنَ [ البقرة/ 228] عورتوں کو چاہئے کہ انتظار کریں شهر الشَّهْرُ : مدّة مَشْهُورَةٌ بإهلال الهلال، أو باعتبار جزء من اثني عشر جزءا من دوران الشمس من نقطة إلى تلک النّقطة . قال تعالی: شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ [ البقرة/ 185] ، ( ش ھ ر ) الشھر ( مہینہ ) وہ مدت معینہ جو چاند کے ظہور سے شروع ہوتی ہے ۔ یا دوران شمس کے بارہ حصوں میں سے ایک حصہ کا نام ہے جو ایک نقطہ سے شروع ہو کر دوسرے نقطہ پر ختم ہوجاتا ہے قرآن میں ہے :۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ [ البقرة/ 185]( روزوں کا مہینہ ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن نازل كيا گيا هے۔ فيأ الفَيْءُ والْفَيْئَةُ : الرّجوع إلى حالة محمودة . قال تعالی: حَتَّى تَفِيءَ إِلى أَمْرِ اللَّهِ فَإِنْ فاءَتْ [ الحجرات/ 9] ، وقال : فَإِنْ فاؤُ [ البقرة/ 226] ( ف ی ء ) الفیئی والفیئۃ کے معنی اچھی حالت کی طرف لوٹ آنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى تَفِيءَ إِلى أَمْرِ اللَّهِ فَإِنْ فاءَتْ [ الحجرات/ 9] یہاں تک کہ وہ خدا کے حکم کی طرف رجوع لائے پس جب وہ رجوع لائے ۔ فَإِنْ فاؤُ [ البقرة/ 226]

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

ایلاء کا بیان قول باری والذین یویون من نساء ھم تربص اربعۃ اشھر جو لو اپنی بیویوں سے ہمبستری نہ کرنے کی قسم کھا بیٹھتے ہیں ان کے لئے مہلت چار ماہ تک ہے) ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ لغت میں ایلاء حلف کو کہتے ہیں۔ چناچہ عرب کہتے ہیں الی یولی ایلاء والیۃ) کثیر کا شعر ہے۔ قلیل الا لا یا حافظ لیمینہ و ان مدرت منہ الایہ برت۔۔ میرا ممدوح بہت کم قسمتیں کھاتا ہے لیکن اپنی کھائی ہوئی قسم کی حفاظت پوری طرح کرتا ہے اور اگر اس کے منہ سے کوئی قسم نکل جائے تو وہ پوری ہوسکتی ہے۔ لغت میں ایلاء کے اصل معنی یہی ہیں۔ شریعت میں ایلاء بیوی کے ساتھ ہمبستری ترک کرنے کی قسم کو کہتے ہیں جس کے نتیجے میں مدت گزرنے کے ساتھ ہی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ حتی کہ اگر کوئی شخص یہ فقرہ کہے ” آلی فلان من امراتہ (فلاں نے اپنی بیوی سے ایلا کرلیا) تو اس سے درج بالا مفہوم ہی سمجھ میں آتا ہے۔ ایک شخص کس قسم کی قسم کھا کر ایلاء کرنے والا (مولی) بنتا ہے۔ اس کے متعلق اہل علم کے درمیان اختلاف کی کئی صورتیں ہیں۔ ایک تو وہ صورت ہے جس کی روایت حضرت علی (رض) اور حضرت ابن عباس (رض) سے حسن بصری اور عطاء بن ابی رباح نے کی ہے کہ اگر کوئی شخص یہ قسم کھائے کہ وہ رضاعت کی بنا پر عورت سے قربت نہیں کرے گا تو ایسا شخص مولی نہیں ہوگا۔ مولی صرف اس وقت بنے گا جب غصے کی بنا پر اہ ربیوی کو نقصان پہنچانے کی غرض سے قسم کھائے کہ وہ اس کے ساتھ ہمبستری نہیں کرے گا۔ دوسری روایت حضرت ابن عباس (رض) سے ہے کہ ہر وہ قسم جو جماع کے لئے رکاوٹ بن جائے ایلاء ہے۔ اس کے اندر رضا اور غضب کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے یہی ابراہیم نخعی، ابن سیرین اور شعبی کا قول ہے۔ تیسری وہ صورت ہے جس کی روایت سعید بن المسیب سے کی گئی ہے کہ اس کا تعلق جماع اور غیر جماع جیسی باتوں سے ہے مثلا یہ قسم کھالے کہ وہ بیوی سے بات نہیں کرے گا اس سے وہ شخص مولی بن جائے گا۔ جعفر بن برقان نے یزیدبن الاصم سے یہ نقل کیا ہے کہ میں نے ایک عورت سے نکاح کرلیا پھر میری ملاقات حضرت ابن عباس (رض) سے ہوئی۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے یہ اطلاع ملی ہے اس کے اخلاق و عادات اچھے نہیں ہیں۔ یہ سن کر میں نے کہا ” بخدا وہ جا چکی ہے اور اب میں اس سے بات تک بھی نہیں کروں گا “۔ یہ سن کر حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا ” چار ماہ گزرنے سے پہلے پہلے تم اس کے پاس چلے جائو “۔ حضرت ابن عباس (رض) کا یہ قول سعید بن المسیب کے قول اور حضرت ابن عمر (رض) کے اس قول کی موافقت پر دلالت کرتا ہے کہ قسم کھائے بغیر کنارہ کشی بھی ایلاء کی ایک صورت ہے۔ چوتھی صورت وہ ہے جو حضرت ابن عمر (رض) کے اس قول پر مشتمل ہے کہ اگر اس نے اپنی بیوی کو چھوڑ دیا اور اس سے کنارہ کشی کرلی تو یہ ایلاء ہے حضرت ابن عمر (رض) نے اس میں قسم اٹھانے کا ذکر نہیں کیا۔ جن لوگوں نے بیوی کو نقصان پہنچانے کی خاطر ترک جماع اور نقصان نہ پہنچانے کے ارادے سے اس کے ترک میں فرق کیا ہے۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ جماع عورت کا حق ہے جس کا وہ مطالبہ بھی کرسکتی ہے اور شوہر کو اسے اس حق سے محروم کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ اس لئے اگر وہ قسم کھا کر بیوی کے حق جماع کا تارک بن جائے گا تو وہ مولی ہوگا یہاں تک کہ بیوی اپنی علیحدگی کے حق تک پہنچا جائے اس لئے کہ مرد کے لئے اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہے کہ اسے معروف طریقے سے اپنی بیوی بنائے رکھے یا حسن سلوک کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے چھوڑ دے۔ اگر ترک جماع سے اس کا ارادہ کسی بھلائی کا ہو مثلا بیوی بچے کو دودھ پلاتی ہو اور شوہر اس سے ہمبستری نہ کرنے کی قسم کھالے تاکہ ہمبستری سے دودھ خراب ہوجانے کی بنا پر بچے کو نقصان نہ پہنچے۔ تو اس صورت میں بیوی کو اس کے حق سے محروم کرنے کا کوئی ارادہ شامل نہیں ہوگا اور نہ ہی معروف طریقے سے اسے بیوی بنائے رکھنے کی کوئی خلاف ورزی ہوگی۔ اس لئے تیسری بات یعنی بھلے طریقے سے اسے چھوڑ دینا اس پر لازم نہیں آئے گی اور نہ ہی اس کی اس قسم کی بنا پر جدائی کا حکم متعلق ہوگا۔ قول باری فان فادا قا ن اللہ غفوررحیم۔ اگر وہ پلٹ آئیں تو اللہ غفور ورحیم ہے) سے ان لوگوں کا استدلال ہے جو ایلاء کی قسم میں نقصان پہنچانے کے قصد کو بھی شامل کرتے ہیں اس لئے کہ یہ قول باری اس کا مقتضی ہے کہ وہ ایسی قسم کھا کر گنہگار بن جائے کہ اب اس کا رجوع کرلینا اس کے گناہ کی بخشش کا متقاضی ہو۔ ہمارے نزدیک یہ آیت مذکورہ بالا شخص کی تخصیص پر دلالت نہیں کرتی اس لئے کہ آیت ان تمام لوگوں کو شامل ہے جو ایلاء کرتے ہیں اور یہ شخص (یعنی نقصان پہنچانے کے ارادے سے ایلاء کرنے والا) بھی ان میں سے ایک ہے اس لئے بخشش کا حکم صرف اس کی طرف لوٹا ہے دوسروں کی طرف اس کا رجوع نہیں ہوا۔ ایلاء کے معاملے میں مطیع اور عاصی یعنی فرمانبردار اور نافرمان دنوں کی حالت کی یکسانیت پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ قسم توڑنے کی صورت میں دونوں پر ہی کفارہ لازم آتا ہے۔ اسی طرح مدت گزر جانے پر طلاق کے ایجاب کے سلسلے میں ان دونوں کا یکساں ہونا واجب ہے۔ نیز ایسی تمام قسمیں جو سچے ارادے سے کھائی جاتی ہیں ان میں فرمانبردار اور نافرمان کے حکم میں کوئی فرق نہیں ہوتا اس لئے کہ جہاں تک کفارہ کے وجوب کا تعلق ہے وہ دونوں صورتوں میں واجب ہو کر رہتا ہے۔ اس لئے طلاق کا حکم بھی دونوں صورتوں میں ایک ہی ہونا چاہیے کیونکہ کفارہ اور طلاق دونوں ہی کا تعلق قسم کے ساتھ ہوتا ہے ایک اور پہلو بھی ہے خواہ کسی نے نقصان پہنچانے کے ارادے سے اپنی بیوی کو طلاق دی ہو یا نقصان پہنچانے کا ارادہ نہ ہو جہاں تک رجوع کا تعلق ہے۔ اس کے لحاظ سے دونوں صورتوں میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہاں ایلاء کی صورت میں بھی ایسا ہی ہونا چاہیے اس لئے کہ آیت نے مطیع اور عاصی کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا ہے اس لئے آیت سب کو عام ہے تاہم فقہائے امصار اس سلسلے میں اختلاف رائے رکھتے ہیں۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی قسم میں بیوی کو اس طرح تنگ کرنے کا ارادہ کرے کہ اس کے ساتھ بول چال وغیرہ بند کر دے تو وہ مولی ہوجائے گا۔ ان کا یہ قول بےمعنی ہے اس لئے کہ قول باری للذین یولون من نساء ھم۔ کے متعلق کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ اس میں ترک جماع کی قسم پوشیدہ ہے۔ کیونکہ اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ ترک جماع کی قسم کھانے والا مولی ہوتا ہے اس لئے ترک جماع کو سب کے نزدیک آیت میں پوشیدہ مانا جائے گا جسے ہم نے ثابت کردیا۔ اب اس کے سوا دوسری باتیں مثلا ترک کلام وغیرہ تو آیت میں اسے پوشیدہ ماننے کے لئے کوئی دلالت قائم نہیں ہوئی اس لئے اسے پوشیدہ نہیں مانا جائے گا۔ ہماری اس بات پر یہ قول باری فان فاوافان اللہ غفور رحیم) بھی دلالت کرتا ہے کیونکہ یہ بات واضح ہے سب کے نزدیک پلٹنے اور واپس ہونے سے مراد ہمبستری ہے سلف میں اس کے متعلق کوئی اختلاف نہیں ہے۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ قول باری للذین یولون من نسائھم) میں جو بات پوشیدہ ہے وہ جماع ہے اس کے سوا اور کوئی چیز مثلاً کلام وغیرہ پوشیدہ نہیں ہے۔ رہ گئی وہ روایت جو حضرت ابن عمر (رض) سے ہے کہ ہجران یعنی کنارہ کشی طلاق کو واجب کردیتی ہے۔ تو یہ قول شاذ ہے تاہم اس میں اس کی گنجائش ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) نے اس سے یہ مراد لی ہو کہ جب کوئی شخص قسم کھالے اور پھر ایلاء کی مدت میں اس سے کنارہ کش رہے تو طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ لیکن اس تاویل کے باوجود حضرت ابن عمر (رض) کا یہ قول کتاب اللہ کے خلاف ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا للذین یولون من نساء ھم اور لفظ الیہ کا معنی حلف یا قسم ہے جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں اب بیوی کو چھوڑ دینا یا اس سے علیحدہ رہنا قسم نہیں ہے۔ اس لئے اس کے ساتھ کفارہ کے وجوب کا تعلق نہیں ہوگا۔ اشعث نے روایت کی ہے کہ حضرت انس بن مالک (رض) کے پاس ایک عورت تھی جو بڑی بدخلق تھی۔ حضرت انس پانچ یا چھ مہینے اس سے الگ رہتے پھر اس کے پاس آجاتے لیکن آپ اسے ایلاء نہیں سمجھتے تھے۔ سلف اور ان کے بعد آنے والے فقہائے امصار میں اس مدت کے متعلق اختلاف ہے۔ جس کی قسم کھا کر ایک شوہر مولی بن سکتا ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) اور سعید بن جبیر (رض) کا قول ہے کہ اس نے چار ماہ سے کم مدت کی قسم کھائی اور چار ماہ ہمبستری سے باز رہا تو وہ مولی نہیں ہوگا۔ یہی ہمارے اصحاب، امام مالک، امام شافعی اور اوزاعی کا قول ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) ، ابراہیم نخعی، الحکم، قتادہ اور حماد بن ابی سلمہ کا قول ہے کہ وہ مولی ہوجائے گا اگر وہ اس سے چار ماہ تک علیحدہ رہے گا۔ اس کے بعد وہ عورت طلاق بائن کی وجہ سے اس سے علیحدہ ہوجائے گی۔ ابن شیرمہ اور حسن بن صالح کا بھی یہی قول ہے حسن بن صالح نے مزید کہا ہے کہ اسی طرح اگر کسی نے یہ قسم کھائی کہ وہ اپنی بیوی سے اس گھر میں قربت نہیں کرے گا تو وہ مولی بن جائے گا۔ اگر اس نے اسے چار ماہ چھوڑے رکھا تو وہ ایلاء کی بنا پر بائن ہوجائے گی۔ اگر اس نے کسی اور گھر میں مدت گزرنے سے پہلے اس سے قربت کرلی تو ایلاء ساقط ہوجائے گا۔ اسی طرح اگر کسی نے یہ قسم اٹھالی کہ وہ اس گھر میں داخل نہیں ہوگا جبکہ اس گھر میں اس کی بیوی رہتی ہو اور اس نے بیوی کی خاطر یہ قسم اٹھائی ہو تو وہ مولی بن جائے گا۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ قول باری ہے للذین یولون من نسائھم تربص اربعۃ اشھر) ایلاء قسم کو کہتے ہیں۔ ہم پہلے ثابت کر آئے ہیں کہ قسم کے بغیر ترک جماع سے ایلاء کا حکم نہیں لگتا۔ اگر کوئی شخص ترک جماع کی قسم کھالے اور مدت چار ماہ سے کم ہو، پھر قسم کی مدت گزر جائے تو وہ باقی ماندہ مدت میں بھی تارک جماع ہوگا لیکن یہ باقی ماندہ مدت قسم کے بغیر گزرے گی اور قسم کے بغیر ترک جماع کا عورت کے بائن ہونے کے وجوب پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ نیز چار ماہ سے کم کی مدت سے بھی بائن ہونے کا حکم عائد نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے شوہر کے لئے مہلت کی مدت چار ماہ رکھی ہے اس کے بعد اب علیحدگی کو واجب کرنے کے لئے کوئی وجہ باقی نہیں رہ جاتی اور شوہر کی حیثیت اس شخص جیسی ہوجاتی ہے جو قسم کے بغیر جماع سے کنارہ کشی اختیار کرلے۔ اس لئے اسے ایلاء کا حکم لاحق نہیں ہوگا۔ حسن بن صالح کا یہ قول بےمعنی ہے کہ اگر وہ یہ قسم کھالے کہ اس گھر میں بیوی سے قربت نہیں کرے گا تو اس صورت میں وہ مولی بن جائے گا۔ اس لئے کہ ایلاء ہر اس قسم کو کہتے ہیں جو بیوی کے متعلق کھائی جائے اور جو چار ماہ تک اس کے ساتھ ہمبستری سے مانع ہوجائے اور وہ یہ قسم بھی نہ توڑے جیسا کہ ہم اس کی وضاحت کر آئے ہیں۔ اب اس شخص کی کھائی ہوئی یہ قسم ایسی ہے جو اس مدت میں بیوی سے ہمبستری کے راستے میں اس کے لئے رکاوٹ نہیں بن سکتی ہے اس لئے کہ قسم توڑے بغیر اس کے لئے بیوی سے قربت ممکن ہے مثلا یہ کہ کسی اور گھر میں اس سے قربت کرلے۔ جو شخص پورے چار ماہ ترک جماع کی قسم کھالے اس کے متعلق فقہاء کے درمیان اختلاف ہے امام ابوحنیفہ، ابویوسف، محمد، زفر اور سفیان ثوری کا قول ہے کہ ایسا شخص مولی ہوگا اور اگر اس مدت کے اندر اس سے قربت نہیں کرے گا یہاں تک کہ مدت گزر جائے تو ایلاء کی بنا پر عورت بائن ہوجائے گی۔ عطاء نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ اہل جاہلیت کا ایلاء کا ایک یا دو سال کا ہوتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے اس کی مدت چار ماہ مقرر کردی۔ اب جس شخص کا ایلاء اس سے کم مدت کا ہوگا وہ مولی نہیں کہلائے گا۔ امام مالک اور امام شافعی کا قول یہ ہے کہ اگر اس نے چار ماہ کی قسم کھائی تو مولی نہیں بنے گا۔ چار ماہ سے زائد کی قسم پر وہ مولی قرار پائے گا۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ظاہر کتاب اس قول کی تردید کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا للذین یولون من نسائھم تربص اربعۃ اشھر) اللہ تعالیٰ نے اس مدت کی مہلت کو پلٹنے اور رجوع کرلینے کی مدت قرار دی۔ اس سے زائد مدت کو نہیں اب جو شخص اس مدت میں قسم کی وجہ سے ہمبستری سے باز رہا اس نے ایلاء کا حکم یعنی طلاق کی راہ ہموار کردی۔ اس لحاظ سے حکم میں کوئی فرق نہیں ہوگا خواہ اس نے ترک جماع کے لئے چار ماہ کی قسم کھائی ہو یا اس سے زائد مدت کی۔ اس لئے کہ زائد مدت اس کے لئے مہلت کی مدت نہیں ہے۔ معہذاظاہر کتاب ایسے شخص کے مولی بننے کا متقاضی ہے خواہ اس نے چار ماہ یا اس سے کم یا اس سے زائد مدت کی قسم کھائی ہو۔ اس لئے کہ حلف کی مدت کا آیت میں ذکر نہیں ہے پھر ہم نے چار ماہ سے کم مدت کی تخصیص دلالت کی بنا پر کی ہے۔ اس لئے لفظ کا حکم چار ماہ یا اس سے زائد مدت کے لئے بحالہ باقی رہے گا۔ اگر یہ کہا جائے کہ اگر کسی نے پورے چار ماہ کی قسم کھائی تو اس کے ساتھ طلاق کا تعلق درست نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ آپ اس مدت کے گزرنے پر طلاق واقع کرتے ہیں لیکن مدت گزرنے کے بعد ایلاء کا وجود نہیں ہے۔ اس لئے طلاق واقع کرنا درست نہیں ہوگا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ طلاق واقع کرنا ممتنع نہیں ہے اس لئے مدت کا گزر جانا جب ایقاع طلاق کا سبب ہے تو وقوع طلاق کے وقت قسم کے باقی رہنے کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ سال کا گزر جانا جب وجوب زکواۃ کے لئے سبب قرار پایا تو اب ضروری نہ رہا کہ وجوب کے وقت سال بھی موجود ہو کیونکہ اس وقت گزر کر معدوم ہوچکا ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے کہ تونے اگر فلاں شخص کے ساتھ گفتگو کی تو تجھے طلاق تو اس قول کی حیثیت سچے دل سے کھائی ہوئی قسم کی ہوگی۔ اگر عورت نے اس شخص سے گفتگو کرلی تو فوری طور پر طلاق واقع ہوجائے گی۔ حالانکہ عورت کے حق میں کھائی ہوئی قسم گزر گئی اور ختم ہوگئی۔ اسی طرح جب ایلاء میں مدت کا گزر جانا وقوع طلاق کا سبب ہے تو قسم کی غیر موجودگی میں طلاق واقع ہونے میں کوئی امتناع نہیں ہوگا۔ قول باری ہے فان فاوا فان اللہ غفور رحیم) ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ لغت میں الفی کسی چیز کی طرف رجوع کو کہتے ہیں۔ قول باری حتی لفی الی امر اللہ فان فائوت فاصلحوا بینھما بالعدل۔ یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے۔ اگر وہ یعنی زیادتی کرنے والا گروہ رجوع کرلے تو ان دونوں گروہوں کے درمیان انصاف کی روشنی میں صلح کرا دو ) یعنی وہ گروہ زیادتی سے انصاف کی طرف رجوع کرے جو کہ حکم خداوندی ہے۔ اب جبکہ الفی کا معنی کسی چیز کی طرف رجوع کرنا ہے تو آیت میں موجود لفظ کے ظاہر کا مقتضیٰ یہ ہے کہ اگر کسی نے اپنی بیوی کو نقصا ن پہنچانے کی خاطر اس سے جماع نہ کرنے کی قسم کھالی ہو پھر اس سے یہ کہدے کہ میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور تیرے ساتھ ہمبستری نہ کرنے کا میں نے ارادہ کیا تھا اس سے باز آتا ہوں تو اس کا یہ کہنا رجوع کرنا قرار پائے گا خواہ وہ ہمبستری پر قدرت کھتا ہو یا اس سے عاجز ہو۔ یہ تو لفظ کا مقتضی ہے تاہم اہل علم اس پر متفق ہیں کہ اگر شوہر کو بیوی تک رسائی ممکن ہو تو ہمبستری کے سوا اور کسی ذریعے سے رجوع نہیں ہوسکتا۔ اگر کسی شخص نے اپنی بیماری کی حالت میں بیوی سے ایلاء کرلیا یا اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان اتنا فاصلہ ہو جسے طے کرنے میں چار ماہ لگتے ہوں یا بیوی کے اندام نہانی کا راستہ بند ہو یا بیوی نابالغ اور کم سن ہو یا خود شوہر کا آلہ تناسل کٹا ہوا ہو تو ان تمام صورتوں میں ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ زبانی طور پر اگر وہ رجوع کرلیتا ہے اور مدت گزر جاتی ہے لیکن عذر موجود رہتا ہے تو اس کا یہ رجوع درست ہوگا اور مدت گزرنے پر طلاق واقع نہیں ہوگی۔ اگر شوہر نے حج کا احرام باندھ رکھا ہو اور ابھی حج میں چار ماہ باقی ہوں تو ایسی صورت میں جماع کے سوا اور کسی ذریعے سے رجوع نہیں ہوسکتا امام زفر کا قول ہے کہ اس صورت میں بھی قول کے ذریعے رجوع ہوسکتا ہے۔ ابن القاسم کا قول ہے کہ جب شوہر ایلاء کرے اور بیوی اتنی چھوٹی ہو کہ اس جیسی کے ساتھ جماع نہیں کیا جاسکتا ہو تو شوہر مولی قرار نہیں پائے گا یہاں تک کہ بیوی جماع کے قابل ہوجائے اور اس کے بعد چار ماہ کی مدت گزر جانے پر اسے بذریعہ عدالت مطلع کیا جائے گا۔ یہ ابن القاسم بن عمرو کی اپنی رائے ہے۔ انہوں نے امام مالک سے اس کی روایت نہیں کی ہے۔ ابن وہب نے امام مالک سے نقل کیا ہے کہ اگر مولی کو چار ماہ کی مدت گزرنے پر بذریعہ عدالت مطلع کیا جائے کہ یا تو رجوع کرلو یا طلاق دے دو پھر وہ اپنی بیوی سے رجوع کرلے تو اگر اس نے اس سے ہمبستری نہیں کی یہاں تک کہ اس کی عدت کی مدت گزر گئی تو اب اس کے لئے اپنی بیوی کو حاصل کرنے کا کوئی راستہ نہیں رہ جائے گا اور نہ ہی اب رجوع ہو سکے گا۔ البتہ اگر اسے کوئی عذر ہو مثلا وہ بیمار ہو یا قید میں ہو یا اسی قسم کی کوئی اور مجبوری ہو تو اس کا رجوع ثابت ہوجائے گا۔ اگر اس کی عدت گزرنے کے بعد وہ اس سے نکاح کرلیتا ہے اگر اس کے بعد بھی وہ اس سے ہمبستری نہیں کرتا ہے یہاں تک کہ چار ماہ کا عرصہ گزر جاتا ہے تو پھر بھی اسے بذریعہ عدالت مطلع کیا جائے کہ یا تو رجوع کرلو یا طلاق دے دو ۔ اسماعیل بن اسحاق نے کہا ہے کہ امام مالک کا قول ہے کہ اگر چار ماہ گزر جائیں اور وہ بیمار یا قید میں ہو تو جب تک صحت یاب نہ ہوجائے اسے بذریعہ عدالت مطلع نہیں کیا جائے گا اس لئے کہ اسے اس چیز کا مکلف نہیں بنایا جائے گا جس کی وہ طاقت نہ رکھتا ہو۔ امام مالک کا یہ بھی قول ہے کہ اگر چار ماہ کی مدت گزر جائے اور وہ موجود نہ ہو تو اگر چاہے تو کفارہ ادا کر دے اس صورت میں اس کا ایلاء ساقط ہوجائے گا۔ اسماعیل کہتے ہیں کہ امام مالک نے اس خاص مسئلے میں یہ بات اس لئے کہی ہے کہ ان کے نزدیک قسم توڑنے سے پہلے کفارہ ادا کرنا جائز ہے اگرچہ قسم توڑنے کے بعد کفارہ ادا کرنا ان کے نزدیک مستحب ہے۔ اشجعی نے سفیان ثوری سے مولی کے متعلق یہ نقل کیا ہے کہ اگر اسے بیماری بڑھاپے یا قید کی مجبوری ہو یا بیوی حیض یا نفاس کی حالت میں ہو تو اسے چاہیے کہ زبانی طور پر رجوع کرے۔ مثلا یوں کہے کہ میں تیری طرف لوٹ آیا “۔ اس کا یہ کہنا کافی ہوجائے گا۔ یہی حسن بن صالح کا بھی قول ہے اوزاعی کا قول ہے کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی سے ایلاء کرلے پھر بیمار پڑجائے یا سفر پر چلا جائے اور پھر جماع کے بغیر اپنے رجوع پر گواہی قائم کرلے جبکہ وہ بیمار یا سفر پر ہو اور اس میں جماع کرنے کی قدرت نہ ہو تو اس کا رجوع ہوجائے گا۔ وہ اپنی قسم کا کفارہ ادا کر دے گا اور وہ عورت اس کی بیوی رہے گی۔ اسی طرح اگر عورت کے ہاں چار ماہ کے دوران بچہ پیدا ہوگیا یا حیض آگیا یا شوہر کو حاکم نے علاقہ بدرکر دیا تو وہ رجوع پر گواہی قائم کر دے گا اور اس کا ایلاء ختم ہوجائے گا۔ لیث بن سعد کا قول ہے کہ اگر ایلاء کرنے کے بعد بیمار پڑگیا اور پھر چار ماہ کی مدت گزر گئی تو جس طرح تندرست آدمی کو مطلع کیا جاتا ہے اسے بھی بذریعہ عدالت مطلع کر کے کہا جائے گا کہ یا تو رجوع کرلے یا طلاق دے دے اور اس کام کو اس کے تندرست ہونے تک موخر نہیں کیا جائے گا مزنی نے امام شافعی سے نقل کیا ہے کہ اگر ایسا شخص جس کا آلہ تناسل مقطوع ہو اپنی بیوی سے ایلاء کرلے تو اس کا رجوع زبانی الفاظ کے ذریعے ہوگا۔ امام شافعی نے اپنے امالی (ایسی کتاب جو کسی کے ایلاء کرائے ہوئے اقوال پر مشتمل ہو) میں کہا ہے کہ اس شخص کا کوئی ایلاء نہیں ہوتا جس کا آلہ تناسل کاٹ دیا گیا ہو۔ ان کا یہ قول بھی ہے کہ اگر بیوی بچی ہو اور وہ اس سے ایلاء کرلے تو جب وہ جماع کے قابل ہوجائے گی اس کے بعد چار ماہ کی مدت کا اعتبار کیا جائے گا۔ اگر کوئی قیدی ہو تو زبانی الفاظ کے ذریعے اس کا رجوع ثابت ہوجائے گا۔ اگر ایلاء کرنے کے بعد احرام باندھ لے تو اب جماع کے سوا اور کسی ذریعے سے رجوع ثابت نہیں ہو سکے گا۔ اگر بیوی باکرہ ہو اور مولی یہ کہے کہ مجھے اس کی بکارت زائل کرنے کی قدرت نہیں ہے تو اسی صورت میں اسے اتنی مہلت دی جائے گی جتنی ایک نامرد کو دی جاتی ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اگر کوئی مولی چار ماہ کی مدت کے اندر جماع کرنے کی قدرت حاصل نہ کرسکے تو اس کا رجوع زبانی الفاظ کے ذریعے ثابت ہوجائے گا۔ اس کی دلیل قول باری فان فائو قان اللہ غفور رحیم ہے۔ یہ شخص زبانی طور پر رجوع کرچکا اس لئے کہ لفظ الفی کا معنی کسی چیز کی طرف رجوع کرنا ہے۔ یہ شخص بیوی سے جماع کرنے سے قول یعنی قسم کے ذریعے رکا تھا۔ اب جب قول کے ذریعے رجوع کرے مثلا یوں کہے میں تمہاری طرف لوٹ آیا “ تو گویا اس نے اپنی ذات کو قول یعنی قسم کے ذریعے جس چیز سے روکا تھا اس سے واپس ہو کر اس کی ضد کو اختیار کرلیا، اس لئے آیت کا عموم اس کو شامل ہوجائے گا۔ نیز جب بیوی سے جماع کرنا متعذر ہو تو اس صورت میں شوہر کا قول وطی کے قائم مقام ہو کر بیوی کو بائن ہونے سے روک دیتا ہے۔ یہ بات بھی ہمارے دعوے کی تائید میں ہے۔ البتہ حیض یا احرام کی وجہ سے وطی کی تحریم تو یہ کوئی عذر نہیں ہے۔ احرام تو اس لئے نہیں کہ وہ وطی کا عمل کیا کرتا تھا اور احرام کی وجہ سے یہ عمل ساقط نہیں ہوسکتا جو کہ دراصل بیوی کا حق ہے۔ حیض اور نفاس بھی کوئی عذر اس لئے نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مولی کو چار ماہ مہلت دی تھی اور اسے اس بات کی خبر تھی کہ اس مدت میں اسے حیض بھی آئے گا۔ اور سلف کا بھی اس پر اتفاق ہے کہ آیت میں ” فی “ سے مراد جماع ہے بشرطیکہ جماع کا امکان ہو، اس لئے یہ جائز نہیں ہوگا کہ جماع کا امکان ہوتے ہوئے وہ فی کو کسی اور چیز کی طرف منتقل کر دے، وطی کی تحریم سے وطی کا امکان ختم نہیں ہوتا اس لئے حیض اور نفاس کی صورت احرام اور ظہار وغیرہ کی صورت جیسی ہوجائے گی اس لئے کہ اسے وطی سے تحریم وطی کی بنا پر روک دیا گیا تھا عجز اور تعذر کی بنا پر روکا نہیں گیا تھا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ تحریم کی صورت میں بھی جماع کے سلسلے میں عورت کا حق باقی رہتا ہے ساقط نہیں ہوتا۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ اگر شوہر نے خلع کی وجہ سے بیوی کو بائن کردیا جبکہ اس نے اس سے ایلاء بھی کیا ہو تو اس طرح واقع ہونے والی تحریم اس کے زبانی رجوع کے جواز کی موجب نہیں ہوگی لیکن اگر اس نے اس حالت میں اس سے جماع کرلیا تو ایلا باطل ہوجائے گا۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب زبانی طور پر رجوع کرنا قسم کو ساقط نہیں کرتا تو اس کا باقی رہنا واجب ہے کیونکہ اس کے اسقاط میں زبانی طور پر رجع کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ یہ اس وجہ سے واجب نہیں ہے کہ طلاق کے تعلق کی جہت سے یہ جائز ہے کہ قسم باقی رہ جائے اور ایلاء باطل ہوجائے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر وہ اسے تین طلاق دے دے اور پھر وہ کسی اور شخص سے نکاح کرنے کے بعد دوبارہ اس کے عقد میں آجائے تو اس صورت میں بھی اس کی قسم باقی رہے گی کہ اگر وہ اس کے ساتھ ہمبستری کرے گا تو حانث ہوجائے گا اور اس قسم کی وجہ سے اسے کوئی طلاق لاحق نہیں ہوگی اگرچہ اس نے اس سے وطی کرنا چھوڑ ہی کیوں نہ رکھا ہو۔ اسی طرح اگر کوئی شخص کسی اجنبی عورت سے یہ کہے ” بخدا میں تجھ سے قربت نہیں کروں گا “ تو یہ ایلاء نہیں ہوگا لیکن اگر اس کے بعد وہ اس سے نکاح کرلے گا تو قسم باقی رہے گی اور وطی کرنے کی صورت میں اس پر کفارہ لازم آئے گا اور وہ طلاق کے اعتبار سے مولی نہیں قرار پائے گا۔ اس لئے قسم کا باقی رہنا طلاق کے حکم کے اندر علت نہیں بنے گا۔ اسی وجہ سے یہ جائز ہے کہ وہ زبانی طور پر رجوع کرلے اس سے اس قسم میں طلاق ساقط ہوجائے گی اور وطی کی وجہ سے قسم ٹوٹ جانے کا حکم باقی رہے گا۔ ہمارے اصحاب نے زبانی طور پر رجوع کی صحت کے لئے پوری مدت میں عذر باقی رہنے کی شرط عائد کی ہے۔ اس مدت کے دوران کسی وقت بھی اگر اسے جماع کرنے پر قدرت حاصل ہوجائے گی تو اس صورت میں جماع کے سوا اور کسی طریقے سے اس کا رجوع درست نہیں ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زبانی طور پر رجوع جماع کے قائم مقام ہوتا ہے۔ بشرطیکہ جماع کی صورت معدوم ہوتا کہ مدت گزرنے کے ساتھ طلاق واقع نہ ہوجائے۔ اس لئے مدت کے اندر جس وقت بھی اسے جماع پر قدرت حاصل ہوجائے گی تو زبانی طور پر رجوع کی سہولت باطل ہوجائے گی۔ جس طرح کہ تیمم کرنے والے کے تیمم کو نماز کی اباحت کے لئے پانی کے ذریعہ طہارت کے قائم مقام بنادیا جاتا ہے۔ اور نماز سے فراغت سے پہلے جس وقت بھی اسے پانی میسر آجاتا ہے اس کا تیمم باطل ہوجاتا ہے اور حکم اصل فرض کی طرف لوٹ آتا ہے خواہ پانی کا وجود نماز کی ابتداء میں ہوجائے یا نماز کے آخر میں۔ ٹھیک اسی طرح مدت ایلاء کے اندر وطی پر قدرت زبانی طور پر رجوع کی سہولت کو باطل کردیتی ہے۔ امام محمد کا قول ہے کہ مدت کے اندر عذر کی موجودگی کی وجہ سے جب وہ زبانی طور پر رجوع کرلے پھر مدت ختم ہوجائے اور عذر باقی رہے تو ایلاء کا حکم باطل ہوجائے گا اور اس کی حیثیت اس شخص کی طرح ہوجائے گی جو کسی اجنبی عورت سے قربت نہ کرنے کی قسم کھالے پھر اس کے ساتھ نکاح کرلے تو قسم باقی رہے گی اور وطی کی صورت میں اس کی قسم ٹوٹ جائے گی اور اگر وہ چار ماہ تک اس سے جماع نہ کرے تو عورت کو طلاق نہیں ہوگی۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٢٦۔ ٢٢٧) اور حضرات یہ قسم کھالیں کہ چار مہینے یا اس سے زیادہ تک بیوی کے پاس نہیں جائیں گے، پھر اپنی عورت سے ہمبستری کرنے کو چھوڑ دیں تو وہ چار ماہ تک انتظار کریں، پھر اگر وہ چار ماہ سے پہلے اپنی عورت سے صحبت کرلیں تو توبہ کرنے پر اللہ تعالیٰ ان کی قسم کے گناہ معاف کردے گا اور قسم کے کفارہ کو بھی اس نے بیان فرما دیا، اس کو ادا کردیں اور اگر طلاق کا پکا ارادہ کرلیں اور اپنی قسم پوری کردیں تو اللہ تعالیٰ اس قسم کو سننے والا ہے اور اس بات کو جاننے والا ہے کہ ان کی عورت چار ماہ کے گزرنے کے بعد ایک قطعی طلاق سے جدا ہوجائے گی۔ اور یہ حکم اس شخص کے بارے میں آیا ہے کہ جو اس بات کی قسم کھائے کہ اپنی بیوی سے چار ماہ یا اس سے زائد ہمبستری نہیں کروں گا، سو اگر اپنی قسم کو پورا کردے، اور چار ماہ گزرنے تک اس سے ہمبستری نہ کرے تو اس کی عورت ایک قطعی طلاق سے الگ اور جدا ہوجائے گی، اور اگر چار ماہ گزرنے سے پہلے بیوی کے ساتھ صحبت کرے، تو اس پر قسم کا کفارہ واجب ہوجائے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٢٦ (لِلَّذِیْنَ یُؤْلُوْنَ مِنْ نِّسَآءِہِمْ تَرَبُّصُ اَرْبَعَۃِ اَشْہُرٍ ج) ۔ اگر کوئی مرد کسی وقت ناراض ہو کر یا غصے میں آکر یہ قسم کھالے کہ اب میں اپنی بیوی کے قریب نہیں جاؤں گا ‘ اس سے کوئی تعلق نہیں رکھوں گا ‘ تو یہ ایلاء کہلاتا ہے۔ خود آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اپنی ازواج مطہرات سے ایلاء فرمایا تھا۔ ازواج مطہرات نے عرض کیا تھا کہ اب عام مسلمانوں کے ہاں بھی خوشحالی آگئی ہے تو ہمارے ہاں یہ تنگی اور سختی کیوں ہے ؟ اب ہمارے بھی نفقات بڑھائے جائیں۔ اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے ایلاء کیا۔ اس کا ذکر بعد میں آئے گا۔ عام طور پر ہوتا یہ تھا کہ لوگ قسم تو کھا بیٹھتے تھے کہ بیوی کے پاس نہ جائیں گے ‘ مگر بعد میں اس پر پچھتاتے تھے کہ کیا کریں۔ اب وہ بیوی بےچاری معلقّ ہو کر رہ جاتی۔ اس آیت میں ایلاء کی مہلت مقرر کردی گئی کہ زیادہ سے زیادہ چار ماہ تک انتظار کیا جاسکتا ہے۔ (فَاِنْ فَآءُ وْ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ) ۔ ان چار ماہ کے دوران اگر وہ اپنی قسم کو ختم کریں اور رجوع کرلیں ‘ تعلق زن و شو قائم کرلیں تو اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

245. In the legal terminology of Islam this is known as ila'. It is obvious that harmony and cordiality do not always prevail in matrimonial life. There are occasions when strains and tensions develop, leading to discord and estrangement. But the Law of God does not approve of that discord which causes a husband and wife, who are legally tied to one another in matrimony, to remain for all practical purposes alienated from one another as if they had ceased to be spouses. For this kind of abnormal discord and estrangement God has fixed a limit of four months during which the spouses are required either to settle their difference, or to break the tie of wedlock so that each becomes free to contract marriage with someone with whom a harmonious matrimonial relationship appears more likely. Since the verse mentions 'taking a vow', the Hanafi and Shafi'i jurists consider the injunction to be applicable only when a husband has taken a vow not to have sexual relations with his wife. According to them, the injunction does not apply if the husband merely forsakes sexual relations with his wife without taking any vow to that effect. The Maliki jurists are, however, of the opinion that irrespective of whether a person has taken a vow, the maximum permissible limit for abstaining from sexual relations in wedlock is four months. A statement to that effect is also attributed to Ahmad b. Hanbal. (See Ibn Rushd, Bidayat al-Mujtahid, vol. 2, pp. 98 ff. - Ed.) According to 'Ali, Ibn Abbas and Hasan al-Basri, this injunction is related to the cessation of sexual relations as a result of unpleasantness in the relationship of the spouses. It would not apply, however, if a husband were to decide to abandon sexual relations with his wife out of some beneficial consideration - say because the wife is breastfeeding - at a time when their relationship was pleasant. According to other jurists, however, any vow which prevents sexual intercourse between a husband and wife is ila', and ought not to last longer than four months irrespective of the state of the matrimonial relationship when it was taken. (See Jassas, Ahkam al-Qur'an, vol. 1, pp. 355 ff - Ed.) 246. Some jurists have interpreted this verse to signify that if the spouses break their vow and re-establish sexual relations they will not be liable to any expiation and will be pardoned by God gratuitously. However, the majority of jurists are of the opinion that they, are required to expiate. The statement that God is Oft-Forgiving and Merciful does not mean that God has forgiven them. It means rather that God will accept their expiation and will forgive them for whatever excesses they may have committed against each other.

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :245 اصطلاح شرع میں اس کو ایلاء کہتے ہیں ۔ میاں اور بیوی کے درمیان تعلقات ہمیشہ خوش گوار تو نہیں رہ سکتے ۔ بگاڑ کے اسباب پیدا ہوتے ہی رہتے ہیں ۔ لیکن ایسے بگاڑ کو خدا کی شریعت پسند نہیں کرتی کہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ قانونی طور پر رشتہ ازدواج میں تو بندھے رہیں ، مگر عملاً ایک دوسرے سے اس طرح الگ رہیں کہ گویا وہ میاں اور بیوی نہیں ہیں ۔ ایسے بگاڑ کے لیے اللہ تعالیٰ نے چار مہینے کی مدت مقرر کر دی کہ یا تو اس دوران میں اپنے تعلقات درست کرلو ، ورنہ ازدواج کا رشتہ منقطع کر دو تاکہ دونوں ایک دوسرے سے آزاد ہو کر جس سے نباہ کر سکیں ، اس کے ساتھ نکاح کرلیں ۔ آیت میں چونکہ”قسم کھالینے“ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ، اس لیے فقہائے حنفیہ اور شافعیہ نے اس آیت کا منشا یہ سمجھا ہے کہ جہاں شوہر نے بیوی سے تعلق زن و شو نہ رکھنے کی قسم کھائی ہو ، صرف وہیں اس حکم کا اطلاق ہوگا ، باقی رہا قسم کھائے بغیر تعلق منقطع کر لینا ، تو یہ خواہ کتنی ہی طویل مدت کے لیے ہو ، اس آیت کا حکم اس صورت پر چسپاں نہ ہوگا ۔ مگر فقہائے مالکیہ کی رائے یہ ہے کہ خواہ قسم کھائی گئی ہو یا نہ کھائی گئ ہو ، دونوں صورتوں میں ترک تعلق کے لیے یہی چار مہینے کی مدت ہے ۔ ایک قول امام احمد کا بھی اسی کی تائید میں ہے ۔ ( بدایۃ المجتہد ، جلد دوم ، ص ۸۸ ، طبع مصر ، سن ۱۳۳۹ ھ ) حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ اور حسن بصری کی رائے میں یہ حکم صرف اس ترک تعلق کے لیے ہے ، جو بگاڑ کی وجہ سے ہو ۔ رہا کسی مصلحت سے شوہر کا بیوی کے ساتھ جسمانی رابطہ منقطع کر دینا ، جبکہ تعلقات خوشگوار ہوں ، تو اس پر یہ حکم منطبق نہیں ہوتا ۔ لیکن دوسرے فقہا کی رائے میں ہر وہ حلف جو شوہر اور بیوی کے درمیان رابطہ جسمانی کو منقطع کر دے ، ایلاء ہے اور اسے چار مہینے سے زیادہ قائم نہ رہنا چاہیے ، خواہ ناراضی سے ہو یا رضا مندی سے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :246 بعض فقہا نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ اگر وہ اس مدت کے اندر اپنی قسم توڑ دیں اور پھر سے تعلق زن و شو قائم کرلیں تو ان پر قسم توڑنے کا کفارہ نہیں ہے ، اللہ ویسے ہی معاف کر دے گا ۔ لیکن اکثر فقہا کی رائے یہ ہے کہ قسم توڑنے کا کفارہ دینا ہوگا ۔ غفورٌ رحیم کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کفارہ سے تمہیں معاف کر دیا گیا ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تمہارے کفارے کو قبول کر لے گا اور ترک تعلق کے دوران میں جو زیادتی دونوں نے ایک دوسرے پر کی ہو ، اسے معاف کر دیا جائے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

عربوں میں یہ ظالمانہ طریقہ رائج تھا کہ وہ یہ قسم کھابیٹھتے تھے کہ اپنی بیوی کے پاس نہیں جائیں گے، نتیجہ یہ کہ بیوی غیر معین مدت تک لٹکی رہتی تھی، نہ اسے بیوی جیسے حقوق ملتے تھے اور نہ وہ کہیں اور شادی کرسکتی تھی، ایسی قسم کو ایلاء کہا جاتا ہے، اس آیت نے یہ قانون بنادیا کہ جو شخص ایلاء کرے وہ یا تو چار مہینے کے اندر اندر اپنی قسم توڑ کر کفارہ ادا کرے اور اپنی بیوی سے معمول کے ازدواجی تعلقات بحال کرلے، ورنہ چار مہینے تک اگر اس نے اپنی قسم نہ توڑی توبیوی اس کے نکاح سے نکل جائے گی، آیت میں جوکہا گیا ہے کہ‘‘ اور اگر انہوں نے طلاق ہی کی ٹھان لی ہو ’’ اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ چار مہینے قسم توڑے بغیر گزاردیں تونکاح خود بخود ختم ہوجائے گا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(226 ۔ 227) ۔ اسلام سے پہلے عرب میں یہ دستور تھا کہ جو شخص اپنی بی بی سے کسی بات پر خفا ہوجاتا تھا تو کوئی برس دو برس کے لیے اور کوئی ہمیشہ کے لئے اس عورت کے پاس آنے کی اس سے بات چیت کرنے کی قسم کھالیا کرتا تھا مطلب اس سے عورتوں کو ستانا اور ان کو تنگ کرنا ہوتا تھا کہ عورت دوسرے سے نکاح بھی نہ کرسکے اور یہاں بھی خاوند کی صحبت کو ترستی رہے اللہ تعالیٰ نے اسلام کے بعد اس طریقہ کو بند فرمانے کے لئے یہ آیت نازل فرمائی اب چار مہینہ کی مدت سے بڑھ کر یہ قسم جس کو ایلاء کہتے ہیں جائز نہیں ہے۔ اگر کسی نے زیادہ مدت کی قسم کھائی بھی تو قاضی چار مہینے کے بعد یا ملاپ کرا دے گا یا طلاق دلا دے گا۔ ٢۔ اب رہا علماء کا یہ اختلاف کہ چار مہینے گذرنے کے ساتھ ہی بغیر خاوند کے طلاق دینے کے خود بخود اس عورت کو کسی قسم کی طلاق پڑجاتی ہے یا نہیں۔ اس کی تفصیل فقہ کی کتابوں میں ہے اگر کوئی شخص چار مہینے کی مدت سے کم کی قسم کھائے تو وہ قسم اپنی مدت مقرر پر ہوجائے گی۔ جس طرح آنحضرت ایک دفعہ ایک مہینے کے لئے ازواج مطہرات کے پاس آنے کی قسم کھائی تھی جس کی روایت حضرت انس (رض) سے بخاری ٣۔ میں اور مسلم میں جابر ٤ سے ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:226) یؤلون۔ مضارع جمع مذکر غائب۔ ایلاء (افعال) وہ عورتوں کے پاس نہ جانے کی قسم کھاتے ہیں۔ ایلاء والیہ۔ اصل میں اس قسم کو کہتے ہیں کہ جس پر قسم کھانے والے کو تکلیف اور کوتاہی کا سامنا کرنا پڑے۔ اور اصطلاح شریعت میں ایلاء اس قسم کو کہتے ہیں جو عورت کے ساتھ جماع نہ کرنے پر اٹھائی جائے۔ الوت فی الامر۔ کے معنی ہیں کسی کام میں کوتاہی کرنا۔ قسم کھانے کے معنی میں قرآن مجید میں آیا ہے۔ ولا یاتل اولو الفضل منکم (24:22) اور جو لوگ تم میں سے صاحب فضل (اور صاحب وسعت) ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں ۔۔ تربص۔ بروزن تفعل مصدر ہے۔ انتظار کرنا۔ خواہ کسی معاملہ کے ختم ہونے یا پورا ہونے کا انتظار ہو۔ یا کسی سامان کی گرانی یا ارزالی کا۔ آیت میں تربص اربعۃ اشھر۔ مبتدا ہے اور للذین یؤلون من نسائھم خیر ہے۔ فان فاء وا۔ ان۔ شرطیہ۔ فاء وا۔ ماضی جمع مذکر غائب۔ فیئی (باب ضرب) مصدر ف ی ء مادہ۔ (سایہ کا) ہٹ جانا۔ فاء الی (کسی چیز کی طرف) لوٹنا۔ اگر (اس عرصہ میں قسم سے) رجوع کرلیں۔ جملہ شرطیہ ہے۔ فان اللہ غفور رحیم۔ ضواب شرط۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے حتی تفیی الی امر اللہ (49:9) یہاں تک کہ وہ خدا کے حکم کی طرف رجوع کر لائے۔ اور سایہ کے لوٹنے کے معنی میں ہے یتفیئو ظللہ (16:48) جن کے سائے ۔۔ لوٹتے ہیں۔ فیئی۔ مال غنیمت۔ فئۃ گروہ۔ جماعت۔ بھی اسی مادہ سے ہے جس کا مطلب وہ جماعت جس کے افراد تعاون و تقاصد کے لئے ایک دوسرے کی طرف لوٹ کر آئیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ج 6 ان دو آیتوں میں " ایلاء " کا مسئلہ بیان ہوا ہے ایلاء کے لفظی معنی قسم کھانے کے ہیں اور اپنی عورتوں سے ایلاء کے معنی یہ ہیں کہ مر دقسم کھالے کہ وہ اپنی عورت سے جنسی خواہش پوری نہیں کرے گا پھر اگر قسم چار ماہ اس سے کم مدت کے لیے کھائی ہو تو اسے اپنی قسم پورا کرنے کا اختیار ہے۔ اگر وہ مدت پوری کر کے اپنی بیوی سے تعلق قائم کرے گا تو اس پر کوئی کفارہ نہیں ہوگا اور اگر اس مدت سے پہلے تعلق بحال کرلے گا تو کفارہ دینا ہوگا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مرتبہ اپنی بیویوں سے تعلق نہ رکھنے کی قسم کھائی تھی جب مدت گذر گئی تو آپ نے ان سے تعلق قائم فرمالیا اور کوئی کفارہ ادا نہیں کیا۔ (شوکانی) اور اگر چا رماہ سے زیادہ مدت کے لیے یا مدت تعین کے بغیر قسم کھائے تو ایسے شخص کیلے اس آیت میں چار ماہ کی مدت مقرر کردی ہے کہ یا تو اس مدت کے پورا ہوتے ہیں اپنی بیوی سے تعلقات قائم کرے اور یا پھر سیدھی طرح سے طلاق دیدے۔ پہلی صورت اختیار نہ کرے تو حاکم وقت کو اختیار ہوگا کہ وہ اسے کسی ایک کے اختیار کرنے پر مجبور کرے اکثر صحابہ اور جمہور ائمہ کا یہی قول ہے۔ ( ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 226 تا 228 یؤلون (وہ قسم کھاتے ہیں) ۔ تربص (رکنا ہے، انتظار کرنا ہے) ۔ اربعۃ اشھر (چار مہینے) ۔ فاء و (باہم مل گئے، پلٹ گئے) ۔ عزموا (انہوں نے ارادہ کرلیا) ۔ المطلقت (طلاق والی عورتیں) ۔ یتربصن (انتظار کریں گی) ۔ ثلثہ (تین ) ۔ قروء (حیض) ۔ لا یحل (حلال نہیں ہے) ۔ ان یکتمن (یہ کہ وہ چھپائیں) ۔ خلق اللہ (اللہ نے پیدا کیا) ۔ ارحام (رحم ، عورتوں کے رحم) ۔ بعولۃ (شوہر) ۔ احق (زیادہ حقدار) ۔ بردھن (ان کو لوٹا لینے کے) ۔ ارادوا (انہوں نے ارادہ کیا) ۔ تشریح : آیت نمبر 226 تا 228 اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے زن و شوہر کے تعلقات نہ رکھنے کی قسم کھالے تو اس کو شریعت میں ایلاء کہتے ہیں اس طرح کی قسمیں چونکہ ازدواجی تعلقات کے خلاف اور بروتقویٰ کے منافی ہیں جس سے ایک عورت بالکل معلق ہو کر جاتی ہے ۔ اس وجہ سے اسلام نے اس طرح کی قسمیں کھانے والوں کے لئے چار مہینے کی مدت مقرر کی ہے ان چار مہینوں میں اگر شوہر اپنی بیوی سے ازدواجی تعلقات بحال کرلے اور اپنی قسم توڑ دے تو قسم کا کفارہ ادا کرنا ہوگا مگر نکاح باقی رہے گا۔ (1) لیکن اگر ایک شخص چار مہینے تک اپنی قسم پر قائم رہتا ہے اور یہ عرصہ گزرجائے تو اس عورت پر طلاق بائن پڑجائے گی یعنی اب بغیر نکاح کے رجوع کرنا درست نہیں ہوگا۔ اس صورت میں اگر دونوں رضا مندی سے پھر نکاح کرلیں تو ان کو حلالہ کی ضرورت نہیں ہوگی۔ (2) ان آیتوں میں دوسرا حکم یہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر طلاق ہوجائے تو اس عورت کو تین خون آنے تک عدت گزارنا اور صبر کرنا ہے۔ اس کے بعد اس کو کسی دوسرے سے نکاح کرنے کی اجازت ہے۔ (3) تیسری بات یہ بتائی گئی ہے کہ عدت کے دوران جو بھی صورت حال ہے وہ ایک مومنہ عورت جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتی ہے اسے بیان کردینا چاہئے کہ اس کو حمل ہے یا نہیں کیونکہ اگر اس کو حمل ہوگا تو اس کی عدت تین خون تک نہیں بلکہ بچہ پیدا ہونے تک ہوگی ۔ اور نسب بھی ثابت ہوگا۔ (4) چوتھی بات یہ بتائی گئی ہے کہ اگر خاوند نے تیسری طلاق نہیں دی ہے اور وہ آپس میں اصلاح کی نیت سے اپنا گھر آباد کرنا چاہیں تو پہلاخاوند اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ وہ پھر سے نکاح کر کے اس کو اپنی بیوی کی حیثیت سے رکھ لے لیکن اگر عورت نہ چاہے تو اس پر زبردستی نہیں کی جاسکتی۔ باہمی رضا مندی ضروری ہے۔ (5) پانچویں اور آخری بات یہ ارشاد فرمائی گئی ہے کہ دنیا کی بقا اور ترقی میں دو چیزوں کو بنیادی حیثیت حاصل ہے عورت اور دولت (مال، زمین جائیداد ) جہاں یہ دونوں خیرو فلاح کا ذریعہ ہیں وہیں سارے فساد اور معاشرے کی تباہی کا ذریعہ بھی بن جایا کرتی ہیں۔ تمام فتنے اور خونریزیاں ان ہی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ لیکن یہ جب ہی ہوتا ہے جب ان کو اصل مقام اور موقف سے ذرا ادھر ادھر کردیا جائے۔ اسلام نے جو نظام زندگی عطا کیا ہے اس میں عورت اور دولت کو ان کے صحیح مقام پر رکھا ہے تا کہ ان کے ذریعہ سے تمام فوائد اور ثمرات حاصل ہو سکیں۔ جہاں بغیر جبروا کراہ کے دولت کی صحیح تقسیم کے عادلانہ اصول بیان کئے گئے ہیں وہیں عورتوں کے اور مردوں کے تمام حقوق اور ذمہ داریوں کو تفصیل سے ارشاد فرمایا گیا ہے بتایا گیا ہے کہ مردوں کو عورتوں پر ذمہ دار قرار دیا گیا ہے ۔ ازروئے قرآن خاندان کا سربراہ اور سرپرست عورت کو نہیں بلکہ مرد کو بنایا گیا ہے جس طرح ایک ریاست کا نظم و انتظام کسی ایک سر براہ کا محتاج ہوتا ہے اسی طرح چھوٹے پیمانے پر ایک گھر کا نظام و انتظام کسی بہتر سربراہ کی سرکردگی میں صحیح چل سکتا ہے۔ مگر مردوں پر عورتوں کے تمام حقوق کو ادا کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ یوں کہنا چاہئے کہ اللہ نے عورت اور مرد کو درجوں میں تو برابر نہیں کیا لیکن تمام حقوق انسانی میں برابر ی کا درجہ عطا کیا ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ اگر کوئی قسم کھالے کہ اپنی بی بی سے صحبت نہ کروں گا تو اگر چار ماہ کے اندر اپنی قسم توڑ ڈالے اور بی بی کے پاس چلا جائے تو قسم کا کفارہ ہے اور نکاح باقی ہے اگر چار ماہ گزرگئے اور بی بی کے پاس نہ گیا تو اس عورت پر طلاق قطعی پڑجائے گی اور رجوع کرنا درست نہیں رہا ہاں اگر دونوں رضامندی سے دوبارہ نکاح کرلیں تو درست ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قسم کے قاعدہ کلیہ کے بیان کے بعد اب مسئلہ ایلا کا بیان شروع ہوتا ہے ، جو قسم ہی ایک قسم ہے ۔ ایک خاوند قسم کھالے کہ وہ اپنی بیوی کے پاس نہیں جائے گا ۔ یا محدود وقت کے لئے تو اس قسم کو شرعی اصطلاح میں ایلا کہا جاتا ہے۔ لِلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِنْ نِسَائِهِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ فَإِنْ فَاءُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (٢٢٦) وَإِنْ عَزَمُوا الطَّلاقَ فَإِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ” جو لوگ اپنی عورتوں سے تعلق نہ رکھنے کی قسم کھابیٹھتے ہیں ان کے لئے چار مہینے کی مہلت ہے ۔ اگر انہوں نے رجوع کرلیا ، تو اللہ معاف کرنے والا رحیم ہے ۔ اور اگر انہوں نے طلاق ہی کی ٹھان لی ہو ، تو جانے رہیں کہ اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔ “ میاں بیوی کی زندگی میں ایک طویل رفاقت ہوتی ہے ، جس میں مختلف قسم کے حالات پیش آتے رہتے ہیں ۔ مختلف نفسیاتی کیفیات زوجین پر اثر انداز ہوتی رہتی ہیں ۔ اور ان کے بیشمار اسباب ہوتے ہیں ۔ ان حالات میں جب شدت آجاتی ہے تو زوجین مباشرت تک کے تعلقات قطع کردیتے ہیں ۔ یہ عارضی جدائی اور قطع تعلق بیوی کے لئے سخت دشوار ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس کی ذات پر نفسیاتی اور اعصابی اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ بحیثیت ایک عورت اس کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے ۔ غرض ہر قسم کے تعلقات زن وشوئی ختم ہوکر رہ جاتے ہیں اور حسن معاشرت کے تمام بندھن ٹوٹ کر رہ جاتے ہیں اور اگر یہ کیفیت غیر متعین مدت تک رہے تو پورا خاندان تباہ ہوکر رہ جائے ۔ اسلام نے ابتداء ہی سے ایلا کو حرام قرار نہیں دیا ۔ اس لئے ہوسکتا ہے کہ بعض حالات میں وہ ترش مزاج بیوی کے لئے ایک مفید علاج ہو ، بالخصوص ایسی بیوی کا علاج جسے اپنی نسوانیت پر بہت ناز ہو ۔ جو کبر و غرور میں مبتلا ہو اور اپنے غرور یا ناز وادا کے ذریعہ مرد کو ذلیل کرنا چاہتی ہو ، یا وہ سمجھتی ہو کہ وہ مرد کو جس طرح چاہے زیر کرسکتی ہے ۔ نیز بعض اوقات اس عرصہ میں ذہنی کوفت اور تھکاوٹ دور کرنے کا موقع مل جاتا ہے ۔ جس طرح بعض اوقات آدمی پر غصے کی کیفیت طاری ہوتی ہے اور اس کے بعد دل کا غبار نکل جاتا ہے اور زندگی کی گاڑی نئے سرے سے بڑی قوت اور خوشی سے چل پڑتی ہے ۔ لیکن اسلام نے مرد کو بھی اس معاملے میں مکمل آزاد نہیں چھوڑدیا ۔ ہوسکتا ہے کہ بعض اوقات وہ حد سے گزرجائے اور عورت کے ساتھ ظلم و زیادتی شروع کردے ۔ اور اسے ذلیل کرکے رکھ دے ۔ اس کی حالت اس طرح ہو جس طرح کوئی چیز فضا میں معلق ہو ، نہ وہ بیوی بن کر رہ سکے اور نہ وہ آزاد ہو کہ کسی دوسری جگہ گھر بساسکے ۔ اس لئے ، متعدد صورتوں ، مختلف قسم کے حالات اور زندگی کے عملی حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسلام نے یہ فیصلہ کیا کہ ایلا اور تعلق زن وشوئی کے بائیکاٹ کے لئے انتہائی مدت چار ماہ ہے ۔ اس سے زیادہ کسی خاوند کو اجازت نہ ہوگی کہ وہ بائیکاٹ کرے ۔ چار ماہ کی مدت بھی صانع فطرت نے اس لئے مقرر کی ہے اس میں عورت کی فطری خواہشات اور قوت برداشت کا بھی خیال رکھا گیا ہے ۔ ایسا نہ ہو کہ وہ اپنے فطری تقاضے پورے کرنے کے لئے اپنے خاوند کی بجائے کسی دوسرے کسی دوسرے ناجائز ذریعہ کی طرف رجوع کرے ۔ روایات میں آتا ہے کہ حضرت عمر (رض) ایک رات خفیہ طور پر نکلے ۔ لوگوں کے حالات معلوم کرنے کے لئے ۔ ان کی ضروریات معلوم کرنے کے لئے ۔ ایک گھر سے انہیں آواز آئی ایک عورت یہ شعر گا رہی تھی۔ رات لمبی ہے ۔ اور اس کا ہر پہلو تاریک ہوگیا ! میں جاگ رہی ہوں ! کیوں ؟ اللہ کی قسم ! اللہ کی قسم جو نگہباں ہے ، جو دیکھ رہا ہے ! اگر یہ اللہ نہ ہوتا تو میری چارپائی کے چاروں کونے جھٹکاکھا رہے ہوتے۔ حضرت عمر (رض) نے اپنی بیٹی حفصہ سے پوچھا ، کہ عورت خاوند کے بغیر کتنا عرصہ رہ سکتی ہے ۔ حضرت حفصہ (رض) نے فرمایا چھ ماہ یا چار ماہ ۔ اس پر حضرت عمر (رض) نے فرمایا ۔ میں اپنے فوجیوں میں سے کسی کو بھی چھ ماہ سے زیادہ باہر نہ رکھوں گا ۔ اسی پر آپ نے احکامات جاری کردئیے کہ فوجیوں کو چھ ماہ سے زیادہ عرصہ کے لئے اپنے گھروں سے دور نہ رکھاجائے ۔ بہرحال ان معاملات میں مختلف لوگوں کے مختلف مزاج ہوتے ہیں۔ لیکن چار ماہ کا عرصہ ایک مرد کے لئے کافی ہے کہ وہ اس میں اپنے نفس اور اپنے جذبات کو آزمائے۔ ان چارمہینوں میں یا تو وہ لوٹ آئے اور میاں بیوی کے درمیان از سر نو ایک صحت مند عائلی زندگی کا آغاز ہوجائے اور اپنی بیوی کو گلے لگائے ۔ اور اپنے بستر پر لوٹ آئے اور یا یہ کہ چار ماہ کے عرصہ میں بھی وہ اپنے آپ کو اس قابل نہ پائے کہ تعلقات کی پھر سے تجدید ہو اور قطع تعلق مجبورا جاری ہو ، اگر حالات دوسری صورت ہی کے ہوں تو پھر قرآن کا حکم یہ ہے کہ عقدۃً نکاح کو کھل جانا چاہئے ۔ بیوی کو طلاق دے کر اسے آزاد کردینا چاہئے ۔ یا وہ خود طلاق دے دے اور اگر وہ نہ دے تو قاضی اس کی طرف سے طلاق دے دے تاکہ میاں بیوی سے ہر دو اس امر میں آزاد ہوجائیں کہ وہ اپنے لئے کسی دوسرے جوڑے سے نئی صحت مند عائلی زندگی کا آغاز کرسکیں۔ بیوی کے لئے بھی یہی شریفانہ اور پاکیزہ راستہ ہے اور مرد کے لئے بھی یہی خوشگوار اور فرحت بخش راستہ ہے ۔ اور یہی مناسب ہے ۔ یہی وہ راستہ ہے جو سنجیدہ راستہ ہے ، جو منصفانہ راستہ ہے ۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر زندگی کا سلسلہ جاری رہ سکتا ہے ورنہ کشیدہ تعلقات کی صورت میں زندگی ، دونوں فریقوں کی زندگی ، منجمد ہوکر رہ جاتی ہے۔ قسم اور ایلا کے مسائل آخر کار طلاق پر منتہی ہوئے ۔ اس مناسبت سے یہاں طلاق کے تفصیلی احکام دیئے گئے ۔ نیز طلاق کے ساتھ دوسرے متعلقہ مسائل مثلاً عدت ، فدیہ ، نفقہ ، رخصتی کا سامان اور دوسرے نتائج وغیرہ۔ سب سے پہلے عدت اور رجوع کے مسائل۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

بیوی کے پاس نہ جانے کی قسم کا بیان جو کوئی شخص یہ قسم کھالے کہ میں اپنی بیوی سے جماع نہیں کروں گا۔ اس کے لیے شریعت میں کچھ احکام ہیں۔ اگر قسم کھا کر یوں کہا کہ اپنی بیوی سے جماع نہیں کروں گا لیکن کوئی مدت مقرر نہیں کی، یا یوں کہا کہ چار ماہ تک اس سے جماع نہیں کروں گا یا چار ماہ سے زیادہ کا ذکر کردیا (جس میں ہمیشہ کے لیے قسم کھانا بھی شامل ہے) یا چار مہینہ سے کم مدت مقرر کردی۔ تو ان سب صورتوں میں پہلی تین صورتوں کو ایلاء کہا جاتا ہے۔ ان تینوں صورتوں میں اگر چار مہینے گزر گئے اور اس نے قسم نہیں توڑی یعنی اس میں بیوی سے جماع نہیں کیا تو اس سے ایک بائن طلاق واقع ہوجائے گی۔ جس کا حکم یہ ہے کہ اب بلا نکاح ثانی کے رجوع نہیں ہوسکتا۔ آپس کی رضا مندی سے دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے۔ اور مذکورہ بالاتینوں صورتوں میں اگر چار ماہ کے اندر اس نے بیوی سے جماع کرلیا جس سے ایلاء کیا تھا تو قسم ٹوٹ گئی۔ اور اس صورت میں بیوی تو نکاح سے نہیں نکلی لیکن قسم ٹوٹ جانے کی وجہ سے قسم توڑ نے کا کفارہ واجب ہوگا جو سورة مائدہ میں مذکور ہے۔ اب رہ گئی چوتھی صورت جس میں چار مہینہ سے کم کی مدت مقرر کر کے بیوی سے جماع نہ کرنے کی قسم کھائی تھی اس میں اگر مدت مقررہ کے اندر جماع کرلیا تو قسم توڑنے کا کفارہ واجب ہوگا اور بیوی نکاح سے نہیں نکلے گی، اور اگر مدت مقررہ پوری کرلی تو قسم پوری ہوگئی جس کا کوئی کفارہ نہیں اور نکاح بھی اپنی حالت پر باقی رہا۔ قسم کھانے کے بعد رجوع کرنے کو فیئی کہتے ہیں۔ عربی زبان میں یہ لفظ بھی رجوع کے معنی میں آتا ہے۔ فائدہ اولیٰ : ایلاء کی صورت میں حکم ایلاء اسی وقت ختم ہوگا جبکہ چار مہینہ کے اندر جماع کرلے، یہ رجوع بالعمل ہے لیکن اگر کوئی ایسی مجبوری ہو کہ جماع نہیں کرسکتا مثلاً یہ کہ عورت مریض ہے جماع کے قابل نہیں یا کم عمر ہے تو اس صورت میں رجوع بالقول بھی ہوسکتا ہے۔ وہ یہ کہ مدت ایلاء میں زبان سے کہہ دے فِءْتُ اِلَیْھَا۔ (یعنی میں نے اپنی بیوی کی طرف رجوع کرلیا) لیکن اگر ایلاء کے اندر پھر جماع پر قادر ہوگیا تو یہ رجوع باللسان باطل ہوجائے گا اور اب لازم ہوگا کہ رجوع بالعمل کرے، یعنی جماع کرلے، اگر جماع نہ کیا اور چار مہینے گزر گئے۔ تو حسب قانون طلاق بائن واقع ہوجائے گی۔ فائدہ ثانیہ : اگر یوں قسم کھائی تھی کہ کبھی بھی اس سے جماع نہیں کروں گا اور چار مہینہ تک جماع نہیں کیا تو ایک طلاق بائن ہوجائے گی اور قسم باقی رہے گی، جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اگر پھر اس سے نکاح کرلیا تو قسم باقی رہنے کی وجہ سے ایلاء کا حکم نافذ ہوگا۔ اگر اس دوسرے نکاح کے بعد چار مہینے کے اندر قسم ٹوٹ گئی، جس کا کفارہ واجب ہوگا اور بیوی پر طلاق واقع نہ ہوگی، لیکن اگر نکاح ثانی کی ابتداء سے لے کر چار ماہ پورے ہوجانے تک جماع نہ کیا تو پھر طلاق بائن واقع ہوجائے گی پھر اگر تیسرے نکاح کے بعد سے لے کر چارماہ گزر جانے تک جماع نہیں کیا تو تیسری طلاق واقع ہوجائے گی، اور اگر اس مدت کے اندر جماع کرلیا تو طلاق واقع نہ ہوگی لیکن قسم ٹوٹ جائے گی اس کا کفارہ دینا ہوگا۔ (من الہدایہ) فائدہ ثالثہ : یہ چار ماہ جن کا بار بار ذکر ہوا چاند کے حساب سے معتبر ہوں گے۔ اس میں شمسی مہینوں کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ اسباب النزول ص ٧٢ میں ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ اہل جاہلیت کا ایلاء سال دو سال اور اس سے زیادہ بھی جاری رہتا تھا۔ اللہ جل شانہ نے چار مہینہ کی میعاد مقرر فرما دی۔ لہٰذا چار مہینے سے کم پر جو قسم کھائے گا تو وہ ایلاء نہ ہوگا (اگرچہ خلاف روزی کرنے پر قسم کا کفارہ دینا لازم ہوگا) اور چار ماہ یا اس سے زیادہ کی قسم کھانے پر چار مہینے تک فئی نہ کرے گا تو طلاق واقع ہو جائیگی (مطلق قسم چونکہ چار ماہ کو بھی شامل ہے اس لیے وہ بھی ایلا ہوگی) ۔ حضرت سعید بن المسیب (رض) نے فرمایا کہ زمانہ جاہلیت میں لوگوں نے عورتوں کو تکلیف پہنچانے کے لیے ایلاء کا طریقہ اختیار کر رکھا تھا۔ جو شخص اپنی بیوی کو نہیں چاہتا تھا اور ساتھ یہ بھی پسند نہیں کرتا تھا کہ کسی دوسرے شخص سے نکاح کرے تو یہ قسم کھا لیتا تھا کہ کبھی بھی اس کے پاس نہیں جائے گا پھر اس کو اسی حال پر چھوڑے رکھتا تھا اور عورت کی زندگی اس طرح گزرتی تھی کہ نہ وہ شوہر والی ہے اور نہ بےشوہر والی ہے۔ اللہ جل شانہ نے ایلاء کی ایک مدت مقرر فرمادی ...... اور آیت شریفہ (لِلَّذِیْنَ یُؤْلُوْنَ مِنْ نِّسَآءِھِمْ ) (آخر تک) نازل فرما دی۔ (معالم التنزیل ص ٢٠٢ ج ١)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

446 ربط : قسم کی جاہلی رسموں میں سے ایک ایلاء کا غلط استعمال تھا۔ اس لیے یمین کے بعد جاہلی ایلاء کی اصلاح فرمائی ہے۔ زمانہ جاہلیت میں جب کوئی شخص اپنی بیوی سے ناراض ہوجاتا اور اس کو ناپسند کرتا تو وہ اس سے ایلاء کرلیتا۔ یعنی قسم کھالیتا کہ میں اپنی بیوی سے ہمبستری نہیں کروں گا۔ اور ایلاء کی ان کے رواج میں کوئی مدت مقرر نہیں تھی۔ اس لیے ایک طرف تو خاوند ایلاء کی وجہ سے ساری عمر اپنی بیوی سے تعلقات زوجیت منقطع رکھتا دوسری طرف وہ عورت اس کی زوجیت سے خارج بھی نہ ہوتی تاکہ وہ دوسرے آدمی سے نکاح کرلے۔ اس طرح وہ بیچاری ساری عمر معلق رہتی تھی اور تکلیف اٹھاتی تھی۔ اسلام نے ان خرابیوں کو دور کرنے کیلئے جاہلیت کے ایلاء میں اصلاح کی اور اس کے لیے چار ماہ مدت مقرر کردی تاکہ خاوند ایلاء کے بعد اس عرصہ میں اپنی بیوی کے متعلق آخری فیصلہ کرنے سے پہلے ٹھنڈے دل سے سوچ سمجھ کر کوئی رائے قائم کرے اگر سوچ بچار کے بعد اس فیصلہ پر پہنچے کہ اسے اپنی بیوی سے صلح کرلینی چاہئے اور دوبارہ اس سے تعلقات زوجیت استوار کرلینے چاہئیں تو اسے چاہئے کہ وہ ایلاء کے دن سے چار ماہ کے اندر اندار اس سے ہمبستری کرلے اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کردے اور اگر اس عرصہ میں اس نے یہی طے کیا ہے کہ وہ دوبارہ اپنی اس بیوی سے تعلقات برقرار رکھنا نہیں چاہتا تو وہ چار ماہ تک اس کے قریب نہ جائے اور اس سے صحبت نہ کرے۔ چار ماہ کا عرصہ گزرنے پر خود بخودعورت کو ایک طلاق بائن واقع ہوجائے گی جس کی عدت گذارنے کے بعد وہ جہاں چاہے نکاح کرلے۔ یؤلون، ایلاء سے ہے۔ جس کے لغوی معنی مطلق قسم کھالینے کے ہیں۔ مگر اصطلاح شرع میں بیوی سے ترک صحبت پر قسم کھانے کو ایلاء کہتے ہیں۔ اما فی عرف الشرع فھو یمین علی ترک الوطئ (کبیر ص 359 ج 2) ایلاء کے مختلف الفاظ ہیں جو کتب فقہ میں مذکور ہیں۔ یہ جملہ خبر مقدم ہے۔ تربص اربعۃ اشہر ج۔ تربص کے معنی انتظار اور توقف کے ہیں اور یہ جملہ مبتداء موخر ہے۔ اور مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اپنی بیویوں سے ایلاء کرلیتے ہیں (یعنی ان سے ہمبستری نہ کرنے کی قسم کھالیتے ہیں) ان کے لیے چار ماہ کی مہلت ہے تاکہ وہ اس معاملہ میں اچھی طرح غور وفکر کرلیں۔ فَاِنْ فَاۗءُوْ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۔ فاء و کے معنی رجعوا کے ہیں۔ یعنی حلف اٹھانے کے بعد اگر وہ چار ماہ کے اندر اندر ترک جماع سے رجوع کرلیں۔ اور عورت کو تکلیف دینے اور اسے چھوڑنے کے ارادے سے باز آجائیں اور اپنی قسم توڑ ڈالیں تو اللہ تعالیٰ قسم توڑنے اور عورت کو بلاوجہ تکلیف پہنچانے کا گناہ معاف کردیگا اور آئندہ کے لیے اصلاح احوال کے ارادے کی تکمیل میں اپنی رحمت اور مہربانی سے مدد دیگا اور اگر عورت کو چھوڑنے ہی کا ارادہ ہو تو اس کا حکم اگلی آیت میں بیان فرمایا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi