Perfect Tense | Imperfect Tense | Imperative | Active Participle | Passive Participle | Noun Form |
طَهَرَ |
يَطْهُرُ |
اُطْهُرْ |
طَاهِر |
- |
طُهْر |
طَھُرَتِ (ک) الْمَرْئَۃُ طُھْرًا وَطَھَارَۃً وَطَھَرَتْ (ن) کے معنی عوت کے حیض سے پاک ہونا کے ہیں۔ اور اسے فتحہ ھاء کے ساتھ پڑھنا قیاس کے زیادہ مطابق ہے اولاً تو اس لیے کہ یہ طَمَثَتْ کی ضد ہے جس کے معنی حیض آنا کے ہیں اور دوم اس لیے کہ اس سے اسم فاعل طَاھِرَۃٌ وَطَاھِرٌ آتا ہے جیسے قَاآئِمَۃٌ وَقَآئِمٌ وَقَاعِدَۃٌ وَقَاعِدٌ۔(1) طہارت دو قسم پر ہے طہارت (۱) جسمانی اور (۲) طہارت قلبی۔ قرآن پاک میں جہاں کہیں طہارت کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاں بالعموم دونوں قسم کی طہارت مراد ہے، کہا جاتاہے: طَھَّرْتُہٗ فَطَھُرَ وَتَطَھَّرَ واطَّھَّرَ فَھُوَ طَاھِرٌ وَمُتَطَھِّرٌ: میں نے اسے پاک کیا چنانچہ وہ پاک ہوگیا۔ قرآن پاک میں ہے: (وَ اِنۡ کُنۡتُمۡ جُنُبًا فَاطَّہَّرُوۡا) (۵:۶) اور اگر نہانے کی حاجت ہو تو نہا کر پاک ہوجایا کرو یعنی پانی یا جو چیز اس کے قائم مقام ہو اس کے ذریعہ طہارت کرلیا کرو۔ اور آیت کریمہ: (وَ لَا تَقۡرَبُوۡہُنَّ حَتّٰی یَطۡہُرۡنَ) (۲:۲۲۲) اور جب تک پاک نہ ہوجائیں ان سے مقاربت نہ کرو، میں دو فعل لاکر یہ بتایا گیا ہے کہ عورتیں جب تک حیض سے فارغ ہوکر غسل نہ کرلیں اس وقت تک ان سے مقاربت جائز نہیں ہے اور ایک قرأت میں حَتّٰی یَطَّھَّرْنَ ہے جس سے اس معنی کی تائید ہوتی ہے۔ اور آیت کریمہ: (وَ یُحِبُّ الۡمُتَطَہِّرِیۡنَ ) (۲:۲۲۲) اور پاک صاف رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ میں مُتَطَھِّرِیْنَ سے وہ لوگ مراد ہیں جو گناہوں کو ترک کرکے اصلاح نفس میں لگے رہتے ہیں نیز فرمایا: (فِیۡہِ رِجَالٌ یُّحِبُّوۡنَ اَنۡ یَّتَطَہَّرُوۡا) (۹:۱۰۸) اس میں ایسے لوگ ہیں جو پاک رہنے کو پسند کرتے ہیں۔ (اَخۡرِجُوۡہُمۡ مِّنۡ قَرۡیَتِکُمۡ ۚ اِنَّہُمۡ اُنَاسٌ یَّتَطَہَّرُوۡنَ) (۷:۸۲) ان کے گھر والوں کو اپنے گاؤں سے نکال دو کہ یہ لوگ پاک بننا چاہتے ہیں۔ اور آیت کریمہ: (وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الۡمُطَّہِّرِیۡنَ ) (۹:۱۰۸) اور خدا پاک رہنے والوں ہی کو پسند کرتا ہے۔ میں مُطَّھِّرِیْنَ سے پاکیزہ قلب لوگ مراد ہیں۔ اور آیت کریمہ: (وَ مُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا) (۳:۵۵) کے معنی یہ ہیں کہ خدا تجھے ان لوگوں سے نکال کر الگ لے جائے گا اور اس بات سے بلند وبالا رکھے گا کہ ان جیسے کام کرو۔ اسی معنی میں فرمایا: (وَ یُطَہِّرَکُمۡ تَطۡہِیۡرًا) (۳۳:۳۳) اور تمہیں بالکل صاف کردے۔ (وَ طَہَّرَکِ وَ اصۡطَفٰکِ عَلٰی نِسَآءِ الۡعٰلَمِیۡنَ ) (۳:۴۲) اور پاک بنایا اور جہان کی عورتوں میں منتخب کیا۔ (ذٰلِکُمۡ اَزۡکٰی لَکُمۡ وَ اَطۡہَرُ) (۲:۲۳۲) یہ تمہارے لیے نہایت خوب اور بہت پاکیزہ بات ہے۔ (ذٰلِکُمۡ اَطۡہَرُ لِقُلُوۡبِکُمۡ) (۳۳:۵۳) یہ تمہارے دلوں کے لیے بہت پاکیزگی کی بات ہے۔ اور آیت کریمہ: (لَّا یَمَسُّہٗۤ اِلَّا الۡمُطَہَّرُوۡنَ ) (۵۶:۷۹) اس کو وہی ہاتھ لگاتے ہیں جو پاک ہیں۔ کے معنی یہ ہیں کہ قرآن پاک کے حقائق کی معرفت انہی لوگوں کو حاصل ہوسکتی ہے جو اپنے نفوس کو آلودگیوں سے پاک و صاف رکھتے ہیں اور دل و دماغ کو ہر قسم کی آلائش سے محفوظ رکھتے ہیں۔ اور آیت کریمہ: (اِنَّہُمۡ اُنَاسٌ یَّتَطَہَّرُوۡنَ ) (۲۷:۵۶) بطور طنز کہا تھا کیونکہ لوط علیہ السلام نے جب قوم کی بیٹیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے (ھن اطھرلکم) کہا تو انہوں نے طنزاً یہ جواب دیا تھا اور آیت کریمہ: (وَ لَہُمۡ فِیۡہَاۤ اَزۡوَاجٌ مُّطَہَّرَۃٌ )(۲:۲۵) اور وہاں ان کے لیے بیبیاں ہوں گی۔ میں مُطَھَّرَۃٌ کے معنی ہیں کہ وہ ہر قسم کی دنیاوی کثافتوں اور نجاستوں (یعنی حیض و نفاس وغیرہ) سے پاک ہوں گی اور بعض نے کہا ہے کہ اخلاق رذیلہ سے پاکیزہ ہونا مراد ہے جیساکہ دوسری آیت میں جنتی عورتوں کو (عُرُبًا اَتۡرَابًا ) (۵۶:۳۷) شوہروں کی پیاریاں اور ہم عمر۔ کہا ہے اور قرآن پاک میں فرمایا: (مَّرۡفُوۡعَۃٍ مُّطَہَّرَۃٍۭ) (۸۰:۱۴) جو بلند مقام پر رکھے ہوئے (اور) پاک ہیں۔ اور آیت کریمہ: (وَ ثِیَابَکَ فَطَہِّرۡ ۪) (۷۴:۴) اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھو، کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے: یہاں نفس کو رذائل سے پاک رکھنا مراد ہے۔(2) او رآیت کریمہ: (وَّ طَہِّرۡ بَیۡتِیَ ) (۲۲:۲۶) اور میرے گھر کو صاف رکھا کرو۔ (وَ عَہِدۡنَاۤ اِلٰۤی اِبۡرٰہٖمَ وَ اِسۡمٰعِیۡلَ اَنۡ طَہِّرَا بَیۡتِیَ) (۲:۱۲۵) اور ابراہیم اور اسماعیل علیہ السلام کو کہا کہ میرے گھر کو پاک صاف رکھا کرو۔ میں خانہ کعبہ کو بتوں کی نجاست سے پاک رکھنے کی ترغیب دی گئی ہے بعض علماء نے کہا ہے کہ دل کو پاک و صاف رکھنا مراد ہے حتی کہ اس کے اندر وہ سکون پیدا ہوسکے جس کا ذکر کہ آیت: (ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ السَّکِیۡنَۃَ فِیۡ قُلُوۡبِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ) (۴۸:۴) وہی تو ہے جس نے مومنوں کے دلوں پر تسلی نازل فرمائی۔ میں پایا جاتا ہے۔ اَلطَّھُوْرُ: یہ کبھی مصدر ہوتا ہے۔(3) جیساکہ سیبویہ نے اہل عرب سے تَطَھَّرْتُ طَھُوْرًا وَتَوَضَّاتُ وَضُوْئً کا محاورہ نقل کیا ہے۔ لہٰذا یہ فَعُولٌ کے وزن پر مصدر ہے۔ جیساکہ وَقَدْتُّ وَقُوْدًا ہے اور کبھی اسم ہوتا ہے جیساکہ فَطُوْرٌ، ہر اس چیز کو کہا جاتا ہے جس سے روزہ کھولا جائے اسی طرح وَجُوْرٌ سَقُوْطٌ اور ذَرُوْرٌ ہیں(4) اور کبھی صیغہ صفت ہوتا ہے جیساکہ رَسُوْلٌ اور اس کے ہم وزن دیگر اسمائے صفت ہیں اور اسی معنی کے لحاظ سے فرمایا: (وَ سَقٰہُمۡ رَبُّہُمۡ شَرَابًا طَہُوۡرًا) (۷۶:۲۱) اور ان کا پروردگار ان کو نہایت پاکیزہ شراب پلائے گا۔ تو اس میں تنبیہ کی ہے کہ ان کے مشروبات اہل دوزخ کے مشروبات کے خلاف ہوں گے جن کا ذکر کہ آیت: (وَ یُسۡقٰی مِنۡ مَّآءٍ صَدِیۡدٍ) (۱۴:۱۶) اور اسے پیپ کا پانی پلایا جائے گا۔ میں پایا جاتا ہے۔ اور آیت کریمہ: (وَ اَنۡزَلۡنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً طَہُوۡرًا) (۲۵:۴۸) اور ہم آسمان سے پاک اور نتھرا ہوا پانی برساتے ہیں۔ میں اصحاب شافعیؒ طَھُوْرٌ بمعنی مُطَھِّرٌ لیتے ہیں لیکن یہ لفظًا صحیح نہیں ہے اس لیے کہ اَفْعَلَ وَفَعَّلَ سے فَعُوْلٌ کے وزن پر صیغہ صفت نہیں آتا بلکہ یہ وزن فَعُلَ کے ساتھ خاص ہے اور بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ لفظ طَھُوْرٌ (معنوی) اعتبار سے تطہیر کو چاہتا ہے۔ کیونکہ طاہر (پاکیزہ) دو قسم پر ہوتا ہے ایک وہ جو خود تو پاک ہو مگر دوسری چیز کو پاک کرنے کی اس میں صلاحیت نہ ہو جیسے کپڑا کہ گو یہ پاک ہے مگر دوسری چیز کو پاک نہیں کرسکتا۔ دوم وہ جو خود بھی پاک ہو اور دوسری چیز کو بھی پاک کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جیسے پانی۔ چنانچہ قرآن پاک نے پانی کو طَھُوْرٌ کہہ کر اسی معنی کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔
Surah:2Verse:25 |
پاکیزہ
purified
|
|
Surah:3Verse:15 |
پاکیزہ
pure
|
|
Surah:4Verse:57 |
پاکیزہ
pure
|
|
Surah:56Verse:79 |
مطہرین۔ پاکیزہ لوگ
the purified
|
|
Surah:80Verse:14 |
پاکیزہ ہیں
purified
|
|
Surah:98Verse:2 |
پاکیزہ
purified
|