Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 51

سورة البقرة

وَ اِذۡ وٰعَدۡنَا مُوۡسٰۤی اَرۡبَعِیۡنَ لَیۡلَۃً ثُمَّ اتَّخَذۡتُمُ الۡعِجۡلَ مِنۡۢ بَعۡدِہٖ وَ اَنۡتُمۡ ظٰلِمُوۡنَ ﴿۵۱﴾

And [recall] when We made an appointment with Moses for forty nights. Then you took [for worship] the calf after him, while you were wrongdoers.

اور ہم نے ( حضرت ) موسیٰ ( علیہ السلام ) سے چالیس راتوں کا وعدہ کیا پھر تم نے اس کے بعد بچھڑا پوجنا شروع کر دیا اور ظالم بن گئے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Children of Israel worshipped the Calf Allah then said, وَإِذْ وَاعَدْنَا مُوسَى أَرْبَعِينَ لَيْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِن بَعْدِهِ وَأَنتُمْ ظَالِمُونَ ثُمَّ عَفَوْنَا عَنكُمِ مِّن بَعْدِ ذَلِكَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ

چالیس دن کا وعدہ یہاں بھی اللہ برترو اعلیٰ اپنے احسانات یاد دلا رہا ہے جب کہ تمہارے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام چالیس دن کے وعدے پر تمہارے پاس سے گئے اور اس کے بعد تم نے گوسالہ پرستی شروع کر دی پھر ان کے آنے پر جب تم نے اس شرک سے توبہ کی تو ہم نے تمہارے اتنے بڑے کفر کو بخش دیا اور قرآن میں ہے آیت ( وَوٰعَدْنَا مُوْسٰي ثَلٰثِيْنَ لَيْلَةً وَّاَتْمَمْنٰهَا بِعَشْرٍ ) 7 ۔ الاعراف:142 ) یعنی ہم نے حضرت موسیٰ سے تیس راتوں کا وعدہ کیا اور دس بڑھا کر پوری چالیس راتوں کا کیا کہا جاتا ہے کہ یہ وعدے کا زمانہ ذوالقعدہ کا پورا مہینہ اور دس دن ذوالحجہ کے تھے یہ واقعہ فرعونیوں سے نجات پا کر دریا سے بچ کر نکل جانے کے بعد پیش آیا تھا ۔ کتاب سے مراد توراۃ ہے اور فرقان ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو حق و باطل ہدایت و ضلالت میں فرق کرے یہ کتاب بھی اس واقعہ کے بعد ملی جیسے کہ سورۃ اعراف اس کے اس واقعہ کے طرز بیان سے ظاہر ہوتا ہے دوسری جگہ آیت ( مِنْۢ بَعْدِ مَآ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰى ) 28 ۔ القصص:43 ) بھی آیا ہے یعنی ہم نے اگلے لوگوں کو ہلاک کرنے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کو وہ کتاب دی جو سب لوگوں کے لئے بصیرت افزا اور ہدایت و رحمت ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ واؤ زائد ہے اور خود کتاب کو فرقان کہا گیا ہے لیکن یہ غریب ہے بعض نے کہا ہے کتاب پر فرقان کا عطف ہے یعنی کتاب بھی دی اور معجزہ بھی دیا ۔ دراصل معنی کے اعتبار سے دونوں کا مفاد ایک ہی ہے اور ایسی ایک چیز دو ناموں سے بطور عطف کے کلام عرب میں آیا کرتی ہے شعراء عرب کے بہت سے اشعار اس کے شاہد ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

51۔ 1 یہ گؤ سالہ پرستی کا واقعہ اس وقت ہوا جب فرعونیوں سے نجات پانے کے بعد بنو اسرائیل جزیرہ نماء سینا پہنچے۔ وہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تورات دینے کے لئے چالیس راتوں کے لئے کوہ طور پر بلایا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے جانے کے بعد بنی اسرائیل نے سامری کے پیچھے لگ کر بچھڑے کی پوجا شروع کردی۔ انسان کتنا ظاہر پرست ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھنے کے باوجود اور نبیوں (حضرت ہارون و موسیٰ علیہ السلام) کی موجودگی کے باوجود بچھڑے کو اپنا معبود سمجھ لیا۔ آج کا مسلمان بھی شرکیہ عقائد واعمال میں بری طرح مبتلا ہے لیکن وہ سمجھتا ہے کہ مسلمان مشرک کس طرح ہوسکتا ہے ؟ ان مشرک مسلمانوں نے شرک کو پتھر کی مورتیوں کے بچاریوں کے لئے خاص کردیا ہے کہ صرف وہی مشرک ہیں۔ جب کہ یہ نام نہاد مسلمان بھی قبروں پر قبوں کے ساتھ وہی کچھ کرتے جو پتھر کے پچاری اپنی مورتیوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ اعاذنا اللہ منہ

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فرعون سے نجات پانے کے بعد جب بنی اسرائیل صحرائے سینا میں پہنچے تو ان کے پاس کوئی کتاب نہ تھی، اس وقت تک وہ موسیٰ (علیہ السلام) کی اس وحی پر عمل کرتے آ رہے تھے جو تورات سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) پر اتری تھی۔ گویا حدیث پر عمل تھا، اب اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو چالیس دن رات کے لیے طور پر بلایا، تاکہ انھیں تورات عطا فرمائی جائے، لیکن ان کے جانے کے بعد بنی اسرائیل نے ایک بچھڑا بنا کر اس کی پوجا شروع کردی، اسی بنا پر یہاں ان کو ظالم قرار دیا گیا ہے کہ وہ صریح طور پر شرک کے مرتکب ہوئے تھے اور شرک سے بڑھ کر اور کون سا ظلم ہوسکتا ہے۔ بچھڑے کے واقعہ کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة طٰہٰ (٨٧ تا ٩٧) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Verse 51 refers to other incidents in the same story. When the Pha¬raoh had been drowned, the Israelites, according to one report, went back to Egypt, or, according to another, began to live somewhere else. Having at last found a peaceful existence, they now wished they could receive a Shari` ah, or a religious code of laws, from Allah which they should follow. Allah answered the prayer of Sayyidna Musa (علیہ السلام) and promised that if he came to the Mount Tur طور (Sinai) and devoted himself to worship for a month, he would receive a Divine Book. He gladly obeyed the Commandment, and was granted the Torah تورات . But he was ordered to continue to worship for ten days more, because he had broken his fast after a month and thus lost the special odour which ris¬es from the mouth of a fasting person and which is very pleasant to Allah; so Allah commanded him to fast for ten additional days and regain that odour. Thus, Sayyidna Musa (علیہ السلام) completed forty days of total fasting and devotion. While he was on Mt. Sinai, something very odious happened to the Israelites. Among them there was a man called Samiriyy سامری . He fashioned the figure of a calf out of gold or silver, and put into it some of the dust which he had picked up from under the hooves of the horse of Jibra&il (the Archangel Gabriel علیہ السلام), at the time when the Pharaoh and his army had been drowned by the Archangel. The golden calf immediately acquired life. The ignorant among the Israelites were so impressed that they started worshipping it. Verse 51 calls them |"unjust|" for having committed this sin, for &injustice& lies in putting things in the improper places, and idolatory is essentially just that.

اور (وہ زمانہ یاد کرو) جبکہ وعدہ کیا تھا ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) سے (تورات دینے کا ایک مدت گذرنے پر جس میں دس رات کا اضافہ ہوکر) چالیس رات کا (زمانہ ہوگیا تھا) پھر تم لوگوں نے (پرستش کے لئے) تجویز کرلیا گوسالہ کو موسیٰ (علیہ السلام) کے (جانے کے) بعد اور تم نے (اس تجویز میں صریح) ظلم پر کمر باندھ رکھی تھی (کہ ایسی بےجا بات کے قائل ہوگئے تھے) فائدہ : یہ قصہ اس وقت ہوا جب فرعون کے غرق ہونے کے بعد بنی اسرائیل بقول بعض مصر میں واپس آکر رہنے لگے یا بقول بعض کسی اور مقام پر ٹھر گئے تو موسیٰ (علیہ السلام) سے بنی اسرائیل نے عرض کیا کہ اب ہم بالکل مطمئن ہوگئے اگر کوئی شریعت ہمارے لئے مقرر ہو تو اس کو اپنا دستور العمل بنائیں موسیٰ (علیہ السلام) کی عرض پر حق تعالیٰ نے وعدہ فرمایا کہ تم کوہ طور پر آکر ایک مہینہ ہماری عبادت میں مشغول رہو ایک کتاب تم کو دیں گے آپ نے ایسا ہی کیا اور تورات آپ کو مل گئی مگر دس روز مزید عبادت میں مشغول رہنے کا حکم اس لئے دیا گیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے ایک ماہ روزہ رکھنے کے بعد افطار فرما لیا تھا اللہ تعالیٰ کو روزہ دار کے منہ کا رائحہ (جو خلوئے معدہ کی تبخیر سے پیدا ہوجاتا ہے پسند ہے اس لئے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ دس روزے اور رکھیں تاکہ وہ رائحہ پھر پیدا ہوجائے اس طرح یہ چالیس روزے پورے ہوگئے موسیٰ (علیہ السلام) تو یہ یہاں رہے اور وہاں ایک شخص سامری نامی تھا اس نے چاندی یا سونے کا ایک بچھڑے کا قالب بنا کر اس کے اندر وہ مٹی جو اس نے جبرئیل (علیہ السلام) کے گھوڑے کے قدم کے نیچے سے اٹھا کر اپنے پاس محفوظ رکھی ہوئی تھی ڈال دی اس بچھڑے میں جان پڑگئی اور جہلا بنی اسرائیل نے اسی کی پرستش شروع کردی،

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذْ وٰعَدْنَا مُوْسٰٓى اَرْبَعِيْنَ لَيْلَۃً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْۢ بَعْدِہٖ وَاَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ۝ ٥١ وعد الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] ، ( وع د ) الوعد ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خرٰ و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ موسی مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته . ليل يقال : لَيْلٌ ولَيْلَةٌ ، وجمعها : لَيَالٍ ولَيَائِلُ ولَيْلَاتٌ ، وقیل : لَيْلٌ أَلْيَلُ ، ولیلة لَيْلَاءُ. وقیل : أصل ليلة لَيْلَاةٌ بدلیل تصغیرها علی لُيَيْلَةٍ ، وجمعها علی ليال . قال اللہ تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم/ 33] ( ل ی ل ) لیل ولیلۃ کے معنی رات کے ہیں اس کی جمع لیال ولیا ئل ولیلات آتی ہے اور نہایت تاریک رات کو لیل الیل ولیلہ لیلاء کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ لیلۃ اصل میں لیلاۃ ہے کیونکہ اس کی تصغیر لیلۃ اور جمع لیال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر/ 1] ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل ( کرنا شروع ) وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم/ 33] اور رات اور دن کو تمہاری خاطر کام میں لگا دیا ۔ أخذ ( افتعال، مفاعله) والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة/ 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری/ 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون/ 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة/ 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل/ 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر ( اخ ذ) الاخذ الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ { لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ } ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ { وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ } ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ { فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا } ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ { أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ } ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : { وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ } ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔ عِجْلُ ( بچهڑا) : ولد البقرة لتصوّر عَجَلَتِهَا التي تعدم منه إذا صار ثورا . قال : عِجْلًا جَسَداً [ الأعراف/ 148] ، وبقرةٌ مُعْجِلٌ: لها عِجْلٌ. العجلۃ بچھڑے کو کہتے ہیں کیونکہ اس میں پھرتی پائی جاتی ہے جو بیل کی عمر تک پہنچنے پر ختم ہوجاتی ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ عِجْلًا جَسَداً [ الأعراف/ 148] ایک بچھڑا ( بنالیا وہ ایک جسم تھا : ۔ اور وہ گائے جس کے ساتھ اس کا بچھڑ ہوا سے معجل کہا جاتا ہے ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥١) اور یقیناً ہم نے موسیٰ کو کتاب دینے کا وعدہ کیا تھا، پھر تم لوگوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پہاڑ پر جانے کے بعد بچھڑے کی پوجاشروع کردی مگر حقیقت میں تم نقصان اٹھانے والے تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥١ ( وَاِذْ وٰعَدْنَا مُوْسٰٓی اَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃً ) اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تورات عطا فرمانے کے لیے چالیس دن رات کے لیے کوہ طور پر بلایا ۔ (ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْم بَعْدِہٖ ) ” “ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی غیر حاضری میں بچھڑے کی پرستش شروع کردی اور اسے معبودبنا لیا۔ (وَاَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ ) ” ۔ “ بچھڑے کو معبود بنا کر تم نے بہت بڑے ظلم کا ارتکاب کیا تھا۔ الفاظ قرآنی : (اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ) کے مصداق عظیم ترین ظلم جو ہے وہ شرک ہے ‘ اور بنی اسرائیل نے شرک جلی کی یہ مکروہ ترین شکل اختیار کی کہ بچھڑے کی پرستش شروع کردی !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

67. When the Israelites reached the Sinai peninsula after their exodus from Egypt, God summoned Moses to the mountain for forty days and nights so that the nation which had now achieved independence could be taught law and morality. (See Exodus 24-3l.) 68. The cult of cow-worship was widespread among Israel's neighbours. It was particularly common in Egypt and Canaan. After the time of Joseph, when the Israelites fell prey to degeneracy and became the slaves of the Copts, they were contaminated by many of the corrupt practices prevalent among their rulers. Cow-worship was one of them. (There is a detailed account of the episode of calf-worship in Exodus 32.)

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :67 مصر سے نجات پانے کے بعد جب بنی اسرائیل جزیرہ نما ئے سینا میں پہنچ گئے ، تو حضرت موسیٰ ؑ کو اللہ تعالیٰ نے چالیس شب و روز کے لئے کوہِ طور پر طلب فرمایا تاکہ وہاں اس قوم کے لیے ، جو اب آزاد ہو چکی تھی ، قوانین شریعت اور عملی زندگی کی ہدایات عطا کی جائیں ۔ ( ملاحظہ ہو بائیبل ، کتابِ خروج ، باب ۲٤ تا ۳۱ ) سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :68 گائے اور بیل کی پرستش کا مرض بنی اسرائیل کی ہمسایہ اقوام میں ہر طرف پھیلا ہوا تھا ۔ مصر اور کَنْعان میں اس کا عام رواج تھا ۔ حضرت یوسف ؑ کے بعد بنی اسرائیل جب انحطاط میں مبتلا ہوئے اور رفتہ رفتہ قبطیوں کے غلام بن گئے تو انہوں نے من جملہ اور امراض کے ایک یہ مرض بھی اپنے حکمرانوں سے لے لیا تھا ۔ ( بچھڑے کی پرستش کا یہ واقعہ بائیبل کتابِ خروج ، باب۳۲ میں تفصیل کے ساتھ درج ہے )

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

42 : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا تھا کہ وہ کوہ طور پر آکر چالیس دن اعتکاف کریں تو انہیں تورات عطا کی جائے گی ؛ چنانچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کوہ طور پر تشریف لے گئے، ان کی غیر موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سامری جادوگر نے ایک گائے کا بچھڑا بنایا اور بنی اسرائیل کو اسے اپنا معبود قرار دینے اور اس کی عبادت کرنے پر آمادہ کرلیا اور اس طرح وہ شرک میں مبتلا ہوگئے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اطلاع ہوئی وہ گھبراکر واپس تشریف لائے اور بنی اسرائیل کو توبہ کی تلقین فرمائی، اس توبہ کا ایک حصہ یہ تھا کہ بنی اسرائیل میں سے جو لوگ اس شرک میں ملوث نہیں ہوئے تھے وہ ملوث ہونے والوں کو قتل کریں ؛ چنانچہ ان کی ایک بڑی تعداد قتل کی گئی اور اس طرح ان کی توبہ قبول ہوئی۔ یہ واقعات ان شاء اللہ تفصیل سے ورہ اعراف اور سورۃ طہ میں آئیں گے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(51 ۔ 52): پورا قصہ تو سورة اعراف اور طہٰ میں آوے گا۔ ان آیتوں کا مطلب سمجھنے کے لئے اس قصے کا حاصل یہ ہے کہ جب فرعون کے ہاتھ سے بنی اسرائیل کو نجات ہوگئی تو بنی اسرائیل کو آزمانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو حکم دیا کہ وہ کوہ طور پر آن کر چالیس راتیں راہیں اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں تو پھر ان پر تورات نازل کی جاوے گی۔ اس حکم کے موافق حضرت موسیٰ حضرت ہارون کو اپنے خلیفہ کے طور پر بنی اسرائیل کی نگرانی کے لئے چھوڑ کر کر خود کوہ طور پر چلے گئے۔ بنی اسرائیل جس رات مصر سے نکلے اس رات فرعونیوں سے ایک شادی کا بہانہ کر کے تمام رات سفر کی تیار کے لئے جاگتے رہے اور اس شادی کے حیلہ سے انہوں نے فرعونیوں سے کچھ گہنا پاتا بھی مانگے تاکہ فرعونیوں کو شادی کا یقین ہوجاوے اور بر خلاف عادت رات بھر جاگنے کا سبب کسی فرعونی کو معلوم نہ ہوسکے۔ اسی رات کی صبح کو فرعونی تو سب ہلاک ہوگئے۔ اس لئے اس زیور کا کوئی طلب گار باقی نہ رہا۔ اور زیور جوں کا توں بنی اسرائیل کے پاس رہا۔ حضرت موسیٰ کے کوہ طور پر جانے کے بعد حضرت ہارون کو جب اس زیور کا خیال آیا تو انہوں نے بنی اسرائیل سے کہا یہ زیور پرائی امانت ہے اس کا تم لوگوں کے پاس رہنا مناسب نہیں ہے۔ حضرت موسیٰ کے واپس آنے تک زمین میں ایک گڑھا کھود کر اس زیورکو دبا دو ۔ حضرت موسیٰ کے آنے پر اس زیور کا کچھ فیصلہ ہوجاوے گا۔ بنی سرائیل نے ایسا ہی کیا لیکن بنی اسرائیل میں سامری نام کا جو سنار تھا اس نے اس زیور کو اس گڑھے سے نکال کر گلا دیا اور اس کا بچھڑا گھڑا اور فرعون کے ڈوبنے کے وقت یا حضرت موسیٰ کے کوہ طور پر بلائے جانے کے وقت حضرت جبرئیل کے گھوڑے کے سم کے نیچے کی ذرا سی مٹی جو اس نے اٹھارکھی تھی۔ وہ اس بچھڑے کے منہ میں ڈال دی جس سے وہ بچھڑا بولنے لگا اور آٹھ ہزار بنی اسرائیل نے اس کی پوجا شروع کردی۔ سامری نے یہ مٹی اس لئے اٹھا لی تھی کہ اس کی نظر پڑگئی تھی۔ کہ حضرت جبرئیل کے گھوڑے کا سم جہاں پڑتا تھا وہاں ہری گھاس نکل آتی تھی اس نے یہ سوچ کر اس مٹی کو جہاں ڈالا جاوے گا ضروری کچھ اثر دکھاوے گی۔ یہ مٹی بچھڑے کے منہ میں ڈال دی اور علم ازلی میں جو واقعہ ٹھہر چکا تھا وہ اس مٹی کے ڈالنے سے پیش آیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کوہ طور پر سے واپس آکر جب یہ حال دیکھا تو حضرت ہارون (علیہ السلام) بنی اسرائیل اور سامری پر بہت خفا ہوئے۔ اور اس بچھڑے کو تور کر چورا چورا کر ڈالا اور دریا میں پھینک دیا اور بنی اسرائیل کے ستر آدمی اچھے نیک چھانٹ کر پھر کوہ طور پر بنی اسرائیل کی توبہ کی سفارش کے لئے گئے اور جب اللہ تعالیٰ سے حضرت موسیٰ کی ہم کلامی ہوئی تو ان ستر آدمیوں نے اللہ تعالیٰ کے دیدار کی خواہش کی۔ اور اس ناممکن خواہش کی گستاخی کی سزا میں ان پر بجلی گری اور مرگئے اور پھر حضرت موسیٰ کی دعا سے زندہ ہوئے اور بچھڑا پوچنے والوں کی یہ سزا قرار پائی کہ ان کو قتل کیا گیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے تورات کے لئے جانے میں اور ضمنی قصے میں جو پیدا ہوئے تھے آیتوں کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجانے کی غرض سے ان سب کو ایک جگہ بیان کردیا گیا ہے۔ { وَاِذَ اَتَیْنَا مُوْسیٰ الْکِتْبَ وَالْفُرْقَانَ } کی تفسیر میں اس پر تو سلف کا اتفاق ہے کہ مراد کتاب سے اس آیت میں تورات ہے۔ لیکن فرقان کی تفسیر میں علماء سلف کے چند قول ہیں اولیٰ یہی قول ہے کہ فرقان سے مراد عصا ‘ ید بیضا وغیرہ حضرت موسیٰ کے معجزات ہیں اور معنی آیت کے یہ ہیں کہ مثال اور انبیاء کے اللہ تعالیٰ نے علاوہ کتاب آسمانی کے اور معجزات بھی موسیٰ کو دئیے کہ معجزات کو دیکھ کر ان کے نبی برحق ہونے کا جلدی یقین ہوجاوے۔ جیسا کہ عصا کا معجزہ دیکھ کر حضرت موسیٰ کو نبی جان لینے کا۔ جادوگروں کا حال آگے آئے گا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:51) عدنا ماضی جمع متکلم مواعدۃ (مفاعلۃ) مصدر، باب مقاعلہ اگرچہ اشتراک عمل چاہتا ہے لیکن اہل عرب کے روزمرہ میں واحد کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً کہتے ہیں داویت العلیل۔ میں نے بیمار کا علاج کیا۔ عاقبت اللص میں نے چور کو سزا دی۔ اس صورت میں ترجمہ ہوگا ۔ ہم نے (موسی سے) وعدہ کیا۔ اشتراک کی صورت ۔۔ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ خداوند تعالیٰ نے وعدہ کیا۔ اور حضرت موسیٰ نے اسے قبول کیا۔ گویا حضرت موسیٰ کا وعدہ کو قبول کرنا وعدہ سے مشابہ فعل ہونے کی وجہ سے وعدہ ہی کے ضمن میں آتا ہے۔ فائدہ : جب بنی اسرائیل غلامی کی لعنت سے نجات حاصل کرکے آزادی کی نعمت سے سرفراز کئے گئے تو مثیت ایزدی یہ ہوئی کہ انہیں ایک کتاب شریعت دی جائے جس میں پورا نظام شریعت اور دستور زندگی مندرج ہو جس پر عمل کرکے وہ بےراہ روی سے بچتے رہیں۔ اس لئے حضرت موسیٰ کو کوہ طور پر چالیس روز کا چلہ پورا کرنے کا حکم ہوا۔ جسے حضرت موسیٰ نے تسلیم کیا۔ یہی یہ وعدہ ہے جو اوپر مذکور ہوا۔ اربعین لیلۃ : چالیس راتیں ۔ مراد چالیس دن اور رات۔ ثم۔ پھر ۔ تراخی زمان کے لئے ہے۔ اتخذتم ۔ ماضی جمع مذکر حاضر۔ اتخاذ (افتعال) مصدر ، تم نے اختیار کیا۔ تم نے بنا لیا۔ العجل بچھڑا۔ گائے کا بچہ۔ اس کی جمع عجول اور مؤنث عجلۃ یہ اتخذتم کا مفعول ہے۔ اس جملہ اتخذتم العجل میں مفعول ثانی محذوف ہے۔ تقدیر کلام یوں ہے اتخذتم العجل الھا تم نے بچھڑے کو معبود بنالیا وانتم ظالمون جملہ حالیہ ہے فاعل اتخذتم سے اور حال یہ ہے کہ ایسا کرنے سے تم نے عبادت کو اس کی غلط جگہ پر ٹھہرایا لہٰذا اپنی جانوں پر ظلم کرنے کے مرتکب ہوئے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 فرعون سے نجات پانے کے بعد جب اسرائیل جزیرہ نمائے سینا میں پہنچے تو اب ان کے پاس کوئی کتاب نہ تھی چناچہ اللہ تعالیٰ موسیٰ (علیہ السلام) کو چالیس دن رات کے لیے کوہ طور پر بلایا تاکہ انہیں تورات عطا کردی جائے بعد میں بنی اسرائیل نے ایک بچھڑے کی پوجا شروع کردی اسی بنا پر یہاں ان کو ظالم قرار دیا ہے کہ وہ صریح طور پر شرک کے مر تکب ہوئے تھے اور شرک سے بڑھ کر اور کو نسا ظلم ہوسکتا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 51 تا 54 (وعدنا): ہم نے وعدہ کیا۔ (اربعین): چالیس۔ (لیلۃ): رات۔ (اتخذتم): تم نے بنایا ۔ (العجل): بچھڑا (گائے کا بچہ) ۔ (عفونا): ہم نے معاف کردیا۔ (من بعد ذلک): اس کے بعد۔ (تشکرون): تم شکر کرو گے۔ (اتینا) : ہم نے دیا۔ (الفرقان): حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے والی چیز۔ (تھتدون): تم ہدایت حاصل کرو گے۔ (ظلمتم): تم نے ظلم کیا۔ (اتخاذ): بنانا، بنا کر۔ (توبوا): تم توبہ کرو۔ (بارئی): پیدا کرنے والا۔ (اقتلوا): تم قتل کرو۔ (انفسکم): اپنوں کو (نفس کی جمع) ۔ (خیر): بہتری، بھلائی۔ تشریح : آیت نمبر 51 تا 54 فرعون اور اس کے لشکر کی تباہی و بربادی کے بعد اللہ نے نبی اسرائیل کو فرعون کے ظلم و ستم سے نجات عطا فرمادی تھی اب رب العالمین کی حکمت کا بھی یہی تقاضا تھا اور قوم بنی اسرائیل بھی یہی چاہتی تھی کہ ان کو کوئی مستقل شریعت یا مستقل کتاب عطا کردی جائے تا کہ وہ اس پر عمل کر کے اس کو زندگی کا دستور العمل بنا سکیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو کتاب و شریعت عطا کرنے کے لئے تیس راتوں تک کوہ طور پر رہنے کا حکم فرمایا۔ تیس راتیں گزرنے کے بعد انہیں دس راتوں کا اضافہ کر کے چالیس کردیا گیا، ادھر سامری نے جو ایک عیار مکار جادوگر تھا قوم کو بہکا کر ان کے لئے ایک بچھڑا بنایا اور کہا کہ یہی تمہارا معبود ہے اس کی بندگی کرو۔ بچھڑا جس سے عجیب و غریب آوازیں بھی نکلتی تھیں بہت سے ضعیف العقیدہ لوگوں نے اللہ کی بندگی کو چھوڑ کر اس کی پوجا کرنا شروع کردی مگر ان ہی میں بہت بڑی تعداد ایسے پختہ عقیدے کے لوگوں کی بھی تھی جنہوں نے بچھڑے کی پوجا نہیں کی۔ چالیس دن کے بعد جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) واپس تشریف لائے اور قوم کے لوگوں کا یہ حال دیکھا تو آپ بہت رنجیدہ ہوئے اور شدید غصے کا اظہار کیا اللہ نے اس قوم کو توبہ کا طریقہ بتایا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اب تمہاری توبہ قبول ہونے کا طریقہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو مرتد ہوگئے ہیں جنہوں نے بچھڑے کی پوجا کی ہے ان کو وہ لوگ قتل کریں گے جنہوں نے بچھڑے کی پرستش نہیں کی تھی۔ چناچہ ان دونوں جماعتوں کو ایک میدان میں جمع کیا گیا ایک سیاہ بادل کا سایہ چھا گیا جس سے اندھیرا ہوگیا پھر ان مرتدین کا قتل عام شروع ہوا جب ستر ہزار مرتدین بنی اسرائیل قتل کر دئیے گئے تو وہ سیاہی چھٹ گئی اور اس طرح ساری قوم کے گناہ کو معاف کردیا گیا۔ یہ سزا اس لئے دی گئی تھی کہ اسلام میں مرتد کی یہی سزا ہے یعنی جو دین اسلام کو چھوڑ کر کوئی دوسرا مذہب اختیار کرے گا ایسے آدمی کو اللہ کا باغی قرار دیا جاتا ہے اور باغی کو سزا دنیا کے ہر قانون میں کچھ اسی طرح ہوا کرتی ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : بنی اسرائیل پر تیسرا اور چوتھا احسان۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو مدین کے علاقہ سے واپسی کے وقت سفر کے دوران نبوت سے سرفراز فرمایا اور دو معجزے عطا فرمائے۔ لاٹھی کا اژدہا بن جانا اور ہاتھ کا روشن ہونا۔ ان معجزات کے ساتھ موقع بموقع حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ہدایات ملتی رہیں۔ جن میں حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ( علیہ السلام) کو فرعون کے پاس جا کر نہایت نرمی کے ساتھ سمجھانے کی ہدایت ‘ توحید کے دلائل ‘ بنی اسرائیل کی آزادی کا مطالبہ مظلوم بنی اسرائیل کو صبر اور نماز کی تلقین اور ہر قسم کی راہنمائی کا بندوبست، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے مجادلہ کے نتیجہ میں جادوگروں سے مقابلہ ‘ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عظیم کامیابی کا حصول جس کے نتیجے میں جادوگروں کا موقعہ پر ہی اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہونا اور برملا موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے کا اعلان۔ جس کی تفصیل اپنے مقام پر بیان ہوگی۔ بالآخر فرعون اور اس کے لشکروں کا غرقاب ہونا۔ اس کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ فلسطین پر حملہ آور ہوجاؤ۔ اللہ اسے تمہارے ہاتھوں فتح کرے گا لیکن بزدل قوم نے کہا کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) تم اور تمہارا خدا لڑو ہم تو اتنے طاقت وروں کے ساتھ نہیں لڑ سکتے اس کی پاداش میں انہیں سینا کے ریگستان میں چالیس سال کے لیے انہیں مقید کردیا گیا۔ اب موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ آپ کوہ طور پر تیس دن کے لیے حاضری دیں تاکہ آپ کو تحریری طور پر تختیوں کی شکل میں تورات عنایت کی جائے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) طور سینا پر فرو کش ہوئے تو تیس دن کی مدت کو چالیس دن میں تبدیل کردیا گیا۔ بنی اسرائیل اس قدر احسان فراموش اور سنگ دل قوم تھی کہ جوں ہی ان کا دشمن غرقاب ہوا۔ یہ دریا عبور کر کے ابھی تھوڑی ہی دیر چلے تھے کہ راستہ میں انہوں نے ایسے لوگوں کو دیکھا جو بتوں کے سامنے مراقبہ ‘ اعتکاف اور طواف کر رہے تھے۔ بنی اسرائیل اللہ تعالیٰ کے احسانات کو فراموش کرتے ہوئے بنی اسرائیل موسیٰ (علیہ السلام) سے مطالبہ کرنے لگے کہ ہمیں بھی ایسا ہی معبود بنادیجیے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے شرک کے نقصانات بتاتے ہوئے فرمایا کہ یہ قوم تو ہلاکت اور بربادی کے کنارے پر کھڑی ہے۔ جن کی یہ پوجا کر رہے ہیں وہ باطل اور ان کا یہ عمل شرک ہے۔ کیا تم اللہ کے بغیر کسی اور کو معبود مانتے ہو ؟ جبکہ اس نے تمہارے دشمن کو غرق کرکے پوری دنیا میں تمہیں ممتاز کردیا ہے۔ اس وقت تو یہ لوگ باز آئے لیکن غلامانہ ذہن رکھنے والی قوم شرک سے کس طرح باز آسکتی تھی ؟ جوں ہی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) چالیس دن کے لیے کوہ طور پر تشریف لے گئے تو سامری نام کے ایک آدمی نے سونے کا ایک بچھڑا بنا کر انہیں کہا کہ یہی وہ خدا ہے جس کی تلاش میں موسیٰ (علیہ السلام) کوہ طور پر بیٹھے ہیں۔ انہوں نے سب کچھ فراموش کرتے ہوئے بچھڑے کی عبادت شروع کردی۔[ طٰہٰ : ٨٧، ٨٨] مسائل ١۔ غیر اللہ کی پوجا یعنی شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ آدمی کو ڈھیل دے تو اسے توبہ اور شکر کرنا چاہیے۔ ٣۔ تورات موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی جو بنی اسرائیل کے لیے ہدایت کا سرچشمہ تھی۔ ٤۔ حضرت موسیٰ کو بڑے بڑے معجزات عنایت کیے گئے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کا موسیٰ (علیہ السلام) سے وعدہ : ١۔ موسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے تیس راتوں کا وعدہ ہوا پھر مزید دس راتوں کا اضافہ کردیا گیا۔ (الاعراف : ١٤٢) ٢۔ اسی مدت میں انہیں تختیوں کی شکل میں تورات عنایت کی گئی۔ (الاعراف : ١٤٣ تا ١٤٥) فرقان کیا ہے ؟ ١۔ فرقان سے مراد معجزات۔ (البقرۃ : ٥٣) ٢۔ قرآن مجید فرقان ہے۔ (الفرقان : ١) ٣۔ یوم بدر یوم فرقان ہے۔ (الانفال : ٤١) ٤۔ تقو یٰ فرقان کا ذریعہ ہے۔ (الانفال : ٢٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی عدم موجودگی میں بنی اسرائیل کا بچھڑے کو خدا بنا لینا ، اور اس کی پوجا کرنا ، جبکہ موسیٰ (علیہ السلام) چالیس دن کے لئے کوہ طور پر گئے تھے ، سورة بقرہ سے پہلے نازل ہونے والی سورت ، سورت طہٰ میں بالتفصیل بیان ہوا ہے ۔ یہاں صرف انہیں اس کی یاددہانی کرائی جارہی ہے کیونکہ وہ اس کی تفصیلات سے خوب واقف ہیں ۔ اللہ تعالیٰ انہیں یاد دلا رہے ہیں کہ ان کی یہ حالت تھی کہ نبی کے اوجھل ہوتے ہی بچھڑے پر ٹوٹ پڑتے ہیں ۔ حالانکہ نبی نے انہیں فرعونیوں کے دردناک عذاب سے محض اللہ تعالیٰ کے نام پر رہائی دلائی تھی ۔ اللہ تعالیٰ یہاں ان کے موقف پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں ، وَأَنْتُمْ ظَالِمُونَ ” اور تم ظالم تھے۔ “ اس سے بڑاظالم اور کون ہوگا ، جو اللہ کی بندگی ترک کرکے اپنے پیغمبر کی وصیت کو بھلاکر ، ایک بچھڑے جیسے جسم کی پوجا شروع کردے ، حالانکہ اللہ ہی تھا ، جس نے اسے ان لوگوں کی غلامی سے نجات دی جو گائے کے بچھڑے کو مقدس سمجھتے تھے ۔ لیکن اس کے باوجود اللہ انہیں معاف کردیتے ہیں ۔ ان کے نبی کو کتاب ہدایت ، تورات دیتے ہیں جس میں جو کچھ لکھا تھا وہ حق و باطل کے درمیان فرقان تھا ، اس امید پر کہ شاید یہ لوگ گمراہی چھوڑ کر واضح حق کو قبول کرلیں۔ لیکن پھر بھی اس بات کی ضرورت تھی کہ سنگدلی سے ان کی تطہیر کی جائے ، کیونکہ ان کی بگڑی ہوئی فطرت کو صرف ننگی تلوار اور سخت ترین عذاب کے ذریعے ہی سیدھا کیا جاسکتا تھا۔ ان کی فطرت کا تقاضا تھا کہ ان کے سزا بھی سخت ہو اور انوکھی بھی ۔ چناچہ حکم ہوا وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ أَنْفُسَكُمْ بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوبُوا إِلَى بَارِئِكُمْ فَاقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ ” یاد کرو ، جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ لوگو ! تم نے بچھڑے کو معبود بناکر اپنے اوپرسخت ظلم کیا ہے ، لہٰذا تم لوگ اپنے خالق کے حضور توبہ کرو اور اپنی جانوں کو ہلاک کرو ، اسی میں میں تمہارے خالق کے نزدیک تمہاری بہتری ہے ۔ “ اپنے آپ کو قتل کروتا کہ اسے بھی پاک کردے اور خود اپنے آپ کو بھی پاک کردے ۔ تم میں سے فرمانبردار محترم قتل کرے ۔ اس سخت عذاب اور شدید کفارہ کے بارے میں روایات سے یہی معلوم ہوتا ہے ۔ بیشک یہ ایک جانگسل اور روح فرسا ذمہ داری تھی کہ بھائی بھائی کو قتل کرے ۔ گویا وہ اپنے آپ کو قتل کرے ۔ لیکن اس کے بگڑے ہوئے مزاج اور بزدلانہ طبیعت کی تربیت کے لئے یہ ضروری تھا ، کیونکہ ان کا مزاج ہر شر پر مائل تھا ، اور کسی ناپسندیدہ فعل کے کر گزرنے سے وہ نہ چوکتے تھے ۔ اگر وہ ناپسندیدہ امور سے رکنے کی صلاحیت رکھتے تو نبی کے غیر حاضر ہوتے ہی وہ بچھڑے کی پوجا پر نہ پل پڑتے۔ ان کا علاج یہ تھا ۔ کیونکہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانا کرتے ۔ ان کے لئے مناسب یہی تھا کہ وہ اس قسم کا بھاری بھرکم تاوان ادا کریں تاکہ انہیں کچھ نفع ہو ، اور بگڑے ہوئے مزاج کی تربیت ہو۔ لیکن اس سزا کے بعد پھر اللہ کی رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے فَتَابَ عَلَيْكُمْ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ ” اس وقت تمہارے خالق نے تمہاری توبہ قبول کرلی ۔ کیونکہ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے ۔ “ لیکن بنی اسرائیل بھی تو بنی اسرائیل تھے وہ موٹا دماغ رکھنے والے دنیا پرست اور عالم غیب اور آخرت کی نظروں سے اوجھل اور مستور تھا ۔ اس لئے انہیں صرف یہی سوجھتا کہ روئیت الٰہی کا مطالبہ کردیں اور جنہوں نے یہ مطالبہ کیا وہ کوئی عام لوگ نہ تھے ، بلکہ ان میں ستر مختار اور برگزیدہ لوگ تھے جنہیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے رب سے ملاقات کے موقع پر پوری قوم سے چنا تھا اور ساتھ لے گئے تھے ۔ جس کی پوری تفصیل ، اس سے پہلے کی مکی آیات میں بیان ہوچکی ہے ۔ غرض بنی اسرائیل نے علانیہ اللہ کو دیکھنے سے پہلے ، ایمان لانے سے صاف صاف انکار کردیا۔ قرآن کریم یہاں بنی اسرائیل کے آباء و اجداد کی گستاخی کو نقل کرکے یہ بتانا چاہتا ہے کہ زمانہ قدیم سے یہ قوم ضد اور ہٹ دھرمی میں مبتلا چلی آرہی ہے اور ان کی یہ قدیم ہٹ دھرمی اس ہٹ دھرمی کے بالکل مشابہ ہے جو اس وقت یہ لوگ نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلے میں اختیارکئے ہوئے ہیں ۔ یہ لوگ خود بھی ، اپنے آباء و اجداد کی طرح معجزات کا مطالبہ کررہے ہیں اور سادہ دل مومنین کو بھی اس پر آمادہ کرنے کی سعی کررہے ہیں کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سچائی کو آزمانے کے لئے معجزات کا مطالبہ کریں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا طور پر جانا اور بنی اسرائیل کا بچھڑے کی عبادت کرنا جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو لے کر سمندر پار ہوگئے تو ایک میدان میں پہنچ گئے۔ یہاں سے ان کو اپنے وطن فلسطین جانا تھا لیکن چالیس سال کے بعد وہاں پہنچ سکے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی وفات کے بعد ان کے علاقے میں ان کو جانا نصیب ہوا ان کی وفات اسی میدان میں ہوگئی۔ اور اسی عرصہ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو توریت شریف عطا فرمائی۔ طور پہاڑ اسی میدان میں ہے۔ اللہ جل شانہ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو وہاں بلایا ایک مہینہ اعتکاف کرنے اور روزے رکھنے کا حکم ہوا تھا۔ لیکن تیس راتیں گزرنے کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے مسواک کرلی جس سے وہ خاص قسم کی رائحہ دور ہوگئی جو روزہ رکھنے سے منہ میں پیدا ہوجاتی ہے اس کو حدیث میں (خَلُوْفُ فَمِّ الصَّاءِمِ ) سے تعبیر فرمایا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ عمدہ ہے۔ (کما فی صحیح البخاری) جب یہ رائحہ دور ہوگئی تو دس دن مزید روزہ رکھنے کا حکم ہوا۔ لہٰذا چالیس دن کوہ طور پر گزارے۔ مدت مذکورہ گزر جانے کے بعد توریت شریف عطا فرمائی۔ سورة بقرہ میں چالیس راتوں کا ذکر ہے۔ اور سورة اعراف میں تفصیل بیان فرمائی کہ تیس راتوں میں دس راتیں اور بڑھا دی گئیں۔ لہٰذا چالیس راتیں پوری ہوئیں۔ (وَ اَتْمَمْنٰھَا بعَشْرٍ فَتَمَّ مِیْقَاتُ رَبِّہٖ اَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃً ) سامری سنار کا زیورات سے بچھڑا بنانا اور بنی اسرائیل کا اس کو معبود بنا لینا : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) طور پر تشریف لے گئے اور وہاں چالیس دن لگ گئے۔ ادھر ان کے پیچھے ان کی قوم بنی اسرائیل نے بچھڑنے کی پر ستش شروع کردی جس کا واقعہ یہ ہے کہ جب بنی اسرائیل مصر سے نکلنے والے تھے۔ تو انہوں نے قبطی قوم کے لوگوں سے ( جو مصر کے اصل باشندے تھے) زیورات مانگ لئے تھے۔ یہ زیورات ان لوگوں کے پاس تھے ان میں ایک آدمی سامری نام کا تھا جو سنار کا کام کرتا تھا اس نے ان زیوروں کو جمع کر کے گائے کے بچھڑے کی شکل بنا دی اور اس کے منہ میں مٹی ڈال دی۔ یہ وہ مٹی تھی جو اس نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے گھوڑے کے پاؤں کے نیچے سے اٹھا لی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس مٹی میں ایسا اثر ڈالا کہ اس مجسمہ سے گائے کے بچہ کی آواز آنے لگی۔ بنی اسرائیل مصر میں بت پرستی دیکھ آئے تھے۔ جب اس کی آواز سنی تو کہنے لگے۔ ھٰذَآ اِلٰھُکُمْ وَ اِلٰہُ مُوْسٰی فَنَسِیَ ۔ (یعنی یہ تمہارا معبود ہے اور موسیٰ کا بھی معبود ہے سو وہ بھول گئے جو طور پر خدا تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کے لیے گئے۔ معبود تو العیاذ باللہ یہاں موجود ہے) ۔ حضرت ہارون (علیہ السلام) جن کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پیچھے چھوڑ گئے تھے انہوں نے بنی اسرائیل کو سمجھایا اور بتایا کہ تم فتنے میں پڑگئے ہو تمہارا رب رحمن ہے میری اتباع کرو۔ میری اطاعت کرو۔ اسی پر بنی اسرائیل نے کہا کہ ہم برابر اس بچھڑے کے آگے پیچھے لگے رہیں گے۔ یہاں تک کہ موسیٰ (علیہ السلام) واپس آجائیں۔ سامری کو بد دعا اور بچھڑے کا انجام : جب موسیٰ (علیہ السلام) توریت شریف کی تختیاں لے کر تشریف لائے تو انہوں نے یہ ماجرا دیکھا، بہت غصہ ہوئے اور پوری صورتحال معلوم فرمائی پتہ چلا کہ سامری نے یہ حرکت کی ہے۔ اس سے بھی سوال جواب فرمایا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے سامری کو بددعا دے دی اور فرمایا : (فَاذْھَبْ فَاِنَّ لَکَ فِی الْحَیٰوۃِ اَنْ تَقُوْلَ لَا مِسَاسَ ) (تو جا تیرے لیے زندگی بھر یہ بات طے کردی گئی کہ تو جسے دیکھے گا اس سے کہے گا کہ مجھے نہ چھونا) ۔ لہٰذا وہ حیران پریشان جنگل میں پھرتا رہتا تھا جب وہ کسی کو چھو لیتا تھا یا کوئی شخص اس کو چھو لیتا تو دونوں کو بخار چڑھ جاتا تھا پھر موسیٰ (علیہ السلام) نے اس بچھڑے کو جلا دیا اور راکھ کو سمندر میں بہا دیا اور فرمایا (اِنَّمَآ اِلٰھُکُمُ اللّٰہُ الَّذِیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ وَسِعَ کُلَّ شَیْءٍ عِلْمًا) (تمہارا معبود صرف اللہ ہی ہے جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں اس کا علم ہر چیز پر حاوی ہے) یہ جو فرمایا کہ ہم نے تم سے درگزر کردیا۔ یہ ان کی توبہ کرنے کے بعد کی بات ہے۔ ان کی توبہ کا ذکر ابھی ایک آیت کے بعد آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

112 ۔ یہ تیسرا انعام ہے۔ سمندر پار کرنے کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تورات لینے کے لیے حکم خداوندی سے کوہ طور پر پہنچے۔ وہاں آپ نے چالیس راتیں بسر کیں۔ اور اللہ کی طرف سے تورات حاصل کی۔ ثُمَّ اتَّخَذْتُمْ ۔ اِتَّخَذْتُم کا دوسرا مفعول محذوف ہے ای اتخذتم العجل الہاً ۔ یعنی تم نے گوسالہ کو معبود بنا لیا (ابو السعود ص 528 ج 1، قرطبی ص 396 ج 1) جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنے بڑے بھائی حضرت ہارون (علیہ السلام) کو اپنا نائب بنا کر خود کوہ طور پر چلے گئے تو سامری نے جو ایک منافق تھا، سونے کے زیورات اکٹھے کیے اور ان کو پگھلا کر ان سے بچھڑے کا بت تیار کیا اور حضرت ابن عباس اور معمر کے قول کے مطابق مٹی کی وہ مٹھی جو اس نے جبرئیل (علیہ السلام) کی سواری کے پاؤں کی جگہ سے اٹھائی تھی اس میں ڈال دی جس سے اس میں زندگی پیدا ہوگئی اور وہ جاندار بچھڑے کی طرح بولنے لگا۔ فلما جمعوہ القی السامری القبضۃ وقال کن عجلا جسدا لہ خوار فصار کذلک (روح ص 248 ج 16، قرطبی ص 235 ج 1) اور حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ بچھڑے کے پیٹ کی ساخت میں اس قسم کے سوراخ تھے کہ جب ان میں ہوا داخل ہوتی تھی اس وقت ہو بہو بچھڑے کی سی آواز پیدا ہوجاتی۔ خوارہ وصوتہ کان بالریح لانہ کان عمل فیہ خروقا فاذا دخلت الریح فی جو فہ خار ولم تکن فیہ حیاۃ وھذا قول مجاھد (قرطبی ص 235 ج 1) سامری نے اسرائیلیوں سے کہا کہ یہ تمہارا رب ہے اس کی پوجا کرو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اس میں حلول کیے ہوئے ہے۔ یہی عقیدہ عیسائیوں کا تھا کہ اللہ تعالیٰ حضرت مسیح (علیہ السلام) میں حلول کیے ہوئے ہے۔ یہی عقیدہ آج کل کے بعض غالی مبتدعین کا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے پیرومرشد میں داخل ہے۔ چناچہ اسرائیلی حضرت ہارون (علیہ السلام) کے روکنے کے باوجود گوسالہ سامری کی پوجا کرنے لگے۔ وَاَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ ۔ یعنی اس شرک کی وجہ سے تم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا کیونکہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ ثُمَّ عَفَوْنَا عَنْكُمْ ۔ اس ارتکاب شرک کے بعد جب تم نے سچی توبہ کرلی تو ہم نے تمہارا یہ قصور معاف کردیا۔ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ ۔ تاکہ تم اس انعام کا شکریہ ادا کرو اور آئندہ کے لیے شرک سے باز رہو اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کو شعار زندگی بناؤ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) چند دنوں کے لیے ہی اپنی امت سے غائب ہوئے تھے کہ سامری نے مکروفریب سے ان کی امت کو گمراہ کردیا۔ اس قسم کے سامری تقریباً ہر امت میں موجود ہوتے ہیں۔ امت محمدیہ میں بھی آج کئی مذہبی اور سیاسی سامری موجود ہیں جنہوں نے کمال عیاری سے سادہ لوح قسم کے لوگوں کو غلط راہ پر ڈال رکھا ہے۔ وَاِذْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ ۔ یہ چوتھا انعام ہے۔ الکتاب اور الفرقان سے مراد تورات ہے کیونکہ یہ دونوں اس کی صفتیں ہیں۔ ان التورۃ لھا صفتان کونھا کتابا منزلا وکونہا فرقاناً تفرق بین الحق والباطل (کبیر ص 524 ج 1 کذا فی المعالم ص 52 ج 1) لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ ۔ تاکہ ایک جامع نظام زندگی تمہارے ہاتھ میں آجائے اور تم زندگی کے ہر شعبہ میں سیدھری راہ پر چل کر رضائے الٰہی حاصل کرسکو۔ پانچواں انعام۔ وَاِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ يٰقَوْمِ ۔ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کوہ طور سے واپس آئے اور قوم کو گوسالہ پرستی میں مبتلاپایا تو انہیں توبہ کرنے کی تلقین فرمائی۔ فَتُوْبُوْٓا اِلٰى بَارِىِٕكُمْ فَاقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ ۔ یعنی جنہوں نے گوسالہ کی پوجا نہیں کی وہ ان کو قتل کریں جنہوں نے اس کی پوجا کی ہے۔ ای لیقتل بعضکم بعضا۔ وروی انہ امر من لم یعبد العجل ان یقتل من عبدہ (روح ص 260 ج 1) توبہ کی اصل تو یہ کہ آدمی گذشتہ گناہوں پر نادم ہو اور آئندہ کیلئے گناہوں کے ترک کا عزم مصمم کرے مگر اسرائیلیوں کی توبہ کی قبولیت کے لیے قتل نفس کو شرط قرار دیا گیا۔ لان اللہ تعالیٰ اوحی الی موسیٰ (علیہ السلام) ان شرط تو بھم قتل النفس (کبیر ص 527 ج 1) ۭ اِنَّھٗ ھُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ ۔ اللہ تعالیٰ بڑا مہربان ہے جب اس نے ان کے دلوں کا اخلاص دیکھا تو ان کی توبہ قبول کرلی اور انہیں معاف کردیا۔113 ۔ یہ چھٹا انعام ہے یعنی جب تک ہم اللہ کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں اس وقت تک ہم تمہارے بیان کی تصدیق نہیں کریں گے جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تورات لیکر اپنی قوم کے پاس آئے اور قبول توبہ کے مذکورہ بالا واقعہ کے بعد ان سے کہا کہ یہ اللہ کی کتاب ہے اس پر عمل کرو تو ان میں بعض گستاخ اور ضعیف الایمان قسم کے لوگوں نے کہا کہ جب تک ہم خود تورات کے متعلق اللہ کا حکم نہیں سنیں گے اس وقت تک نہیں مانیں گے۔ نیز ان میں سے بعض نے کہا کہ تورات کے احکام مشکل میں ہم سے ان پر عمل نہیں ہوسکتا اور نہ ہی یہ بات ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے مشکل احکام نافذ فرمائے جس طرح آج کل نئی روشنی سے متاثر ذہنیتیں رکھنے والے مسلمان کہتے ہیں کہ جی قرآن کے کئی ایک احکام تو بڑے ہی سخت ہیں جو اسلام کے ابتدائی دور ہی کیلئے موزوں تھے مگر اس ترقی یافتہ زمانہ میں تو وہ بالکل ہی ناقابل عمل ہیں۔ چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کے ستر نیک اور برگزیدہ آدمیوں کو چن کر کوہ طور پر لے گئے وہاں انہوں نے پس پردہ اپنے کانوں سے اللہ کا کلام سنا مگر پھر بھی مطمئن نہ ہوئے اور ایک مہمل اور ناممکن مطالبہ پیش کردیا کہ اللہ کا کلام تو ہم نے سن لیا مگر ہمیں کامل اطمینان صرف اسی صورت میں ہوگا کہ ہم اللہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔ فَاَخَذَتْكُمُ الصّٰعِقَةُ ۔ صاعقہ سے مراد گرجدار آواز ہے۔ صیحۃ سماویۃ خروا لھا صعقین میتین (ورح ص 262 ج 1) یہ مطالبہ چونکہ نہایت گستاخانہ اور محض ضد اور عناد پر مبنی تھا۔ طلب ہدایت کے لیے نہیں تھا اس لیے ان کو اس کی پاداش میں ایک گرجدار آواز کے ذریعے ہلاک کردیا گیا۔ لانھم لم یسالو سوال استرشاد بل سوال تعنت وعناد (مدارک ص 39 ج 1) لفرط العناد والتعنت وطلب المستحیل فانھم ظنوا انہ تعالیٰ یشبہ الاجسام فطلبوا رؤیتہ رؤیۃ الاجسام فی الجھات والاحیاز المقابلۃ للرای وھی محال اہ (بیضاوی ص 25) وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ ۔ یعنی تم نے اپنی آنکھوں سے صاعقہ کے ذریعے ایک دوسرے کو مرتے دیکھا۔ ای ینظر بعضکم لبعض حین اخذکم الموت (معالم ص 53 ج 1)

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi