Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 65

سورة البقرة

وَ لَقَدۡ عَلِمۡتُمُ الَّذِیۡنَ اعۡتَدَوۡا مِنۡکُمۡ فِی السَّبۡتِ فَقُلۡنَا لَہُمۡ کُوۡنُوۡا قِرَدَۃً خٰسِئِیۡنَ ﴿ۚ۶۵﴾

And you had already known about those who transgressed among you concerning the sabbath, and We said to them, "Be apes, despised."

اور یقیناً تمہیں ان لوگوں کا علم بھی ہے جو تم میں سے ہفتہ کے بارے میں حد سے بڑھ گئے اور ہم نے بھی کہہ دیا کہ تم ذلیل بندر بن جاؤ ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Jews breach the Sanctity of the Sabbath Allah said, وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِينَ اعْتَدَواْ مِنكُمْ فِي السَّبْتِ فَقُلْنَا لَهُمْ كُونُواْ قِرَدَةً خَاسِيِينَ And indeed you knew those amongst you who transgressed in the matter of the Sabbath (i.e. Saturday). We said to them: "Be you monkeys, despised and rejected." وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِينَ (And indeed you knew). This Ayah means, O Jews! Remember that Allah sent His torment on the village that disobeyed Him and broke their pledge and their covenant to observe the sanctity of the Sabbath. They began using deceitful means to avoid honoring the Sabbath by placing nets, ropes and artificial pools of water for the purpose of fishing before the Sabbath. When the fish came in abundance on Saturday as usual, they were caught in the ropes and nets for the rest of Saturday. During the night, the Jews collected the fish after the Sabbath ended. When they did that, Allah changed them from humans into monkeys, the animals having the form closest to humans. Their evil deeds and deceit appeared lawful on the surface, but they were in reality wicked. This is why their punishment was compatible with their crime. This story is explained in detail in Surah Al-A`raf, where Allah said, وَسْيَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِى كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ إِذْ يَعْدُونَ فِى السَّبْتِ إِذْ تَأْتِيهِمْ حِيتَانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَيَوْمَ لاَ يَسْبِتُونَ لاَ تَأْتِيهِمْ كَذَلِكَ نَبْلُوهُم بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ And ask them (O Muhammad) about the town that was by the sea; when they transgressed in the matter of the Sabbath (i.e. Saturday): when their fish came to them openly on the Sabbath day, and did not come to them on the day they had no Sabbath. Thus We made a trial of them, for they used to rebel (disobey Allah). (7:163) In his Tafsir, Al-Awfi reported from Ibn Abbas that he said, فَقُلْنَا لَهُمْ كُونُواْ قِرَدَةً خَاسِيِينَ (We said to them: "Be you monkeys, despised and rejected") means, "Allah changed their bodies into those of monkeys and swine. The young people turned into monkeys while the old people turned into swine." Shayban An-Nahwi reported that Qatadah commented on, فَقُلْنَا لَهُمْ كُونُواْ قِرَدَةً خَاسِيِينَ (We said to them: "Be you monkeys, despised and rejected"), "These people were turned into howling monkeys with tails, after being men and women." The Monkeys and Swine that exist now are not the Descendants of Those that were transformed Ibn Abi Hatim recorded that Ibn Abbas said, "Those who violated the sanctity of the Sabbath were turned into monkeys, then they perished without offspring." Ad-Dahhak said that Ibn Abbas said, "Allah turned them into monkeys because of their sins. They only lived on the earth for three days, for no transformed person ever lives more than three days. They did not eat, drink or have offspring. Allah transformed their shapes into monkeys, and He does what He wills, with whom He wills and He changes the shape of whomever He wills. On the other hand, Allah created the monkeys, swines and the rest of the creation in the six days (of creation) that He mentioned in His Book." Allah's statement,

صورتیں مسخ کر دی گئیں اس واقعہ کا بیان تفصیل کے ساتھ سورۃ اعراف میں ہے جہاں فرمایا آیت ( وَسْــــَٔـلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِيْ كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ ) 7 ۔ الاعراف:163 ) وہیں اس کی تفسیر بھی پوری بیان ہو گی ۔ انشاء اللہ تعالیٰ یہ ایلہ بستی کے باشندے تھے ان پر ہفتہ کے دن تعظیم ضروری کی گئی تھی اس دن کا شکار منع کیا گیا تھا ۔ اور حکم باری تعالیٰ سے مچھلیاں اسی دن بکثرت آیا کرتی تھیں تو انہوں نے مکاری کی ۔ گڑھے کھود لئے ۔ رسیاں اور کانٹے ڈال دئیے ۔ ہفتہ والے دن وہ آ گئیں ۔ یہاں پھنس گئیں ۔ اتوار کی رات کو جا کر پکڑ لیا ۔ اس جرم پر اللہ نے ان کی شکلیں بدل دیں ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں صورتیں نہیں بدلی تھیں بلکہ دل مسخ ہو گئے تھے یہ صرف بطور مثال کے ہے جیسے عمل نہ کرنے والے علماء کو گدھوں سے مثال دی ہے لیکن یہ قول غریب ہے اور عبارت قرآن کے ظاہر الفاظ کے بھی خلاف ہے اس آیت پر پھر سورۃ اعراف کی آیت آیت ( واسالھم ) الخ اور آیت ( وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَـنَازِيْرَ وَعَبَدَ الطَّاغُوْتَ ) 5 ۔ المائدہ:60 ) پر نظر ڈالو حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جوان لوگ بندر بن گئے اور بوڑھے سور بنا دئیے گئے ۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں یہ تمام مرد اور عورت دم والے بندربنا دئیے گئے ۔ آسمانی آواز آئی کہ تم سب بندر بن جاؤ چنانچہ سب کے سب بندر بن گئے جو لوگ انہیں اس مکروہ حیلہ سے روکتے تھے وہ اب آئے اور کہنے لگے دیکھو ہم پہلے سے تمہیں منع کرتے تھے؟ تو وہ سر ہلاتے تھے یعنی ہاں ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں تھوڑی مدت میں وہ سب ہلاک ہو گئے ان کی نسل نہیں ہوئی تین دن سے زیادہ کوئی مسخ شدہ قوم زندہ نہیں رہتی یہ سب بھی تین دن میں ہی یونہی ناک رگڑتے رگڑتے مر گئے کھانا پینا اور نسل سب منقطع ہو گئی ۔ یہ بندر جواب ہیں اور جو اس وقت بھی تھے یہ تو جانور ہیں جو اسی طرح پیدا کئے گئے تھے اللہ تعالیٰ جو چاہے اور جس طرح چاہے پیدا کرتا ہے اور جسے جس طرح کا چاہے بنا دیتا ہے ( اللہ اپنے غضب و غصہ سے اور اپنی پکڑ دھکڑ سے اور اپنے دینوی اور اخروی عذاب سے نجات دے آمین ) خاسین کے معنی ذلیل اور کمینہ ۔ ان کا واقعہ تفصیل کے ساتھ حضرت ابن عباس وغیرہ نے جو بیان کیا ہے وہ سب سن لیجئے ۔ ان پر جمعہ کی عزت و ادب کو فرض کیا گیا لیکن انہوں نے جمعہ کے دن کو پسند نہ کیا اور ہفتہ کا دن رکھا اس دن کی عظمت کے طور پر ان پر شکار کھیلنا وغیرہ اس دن حرام کر دیا گیا ۔ ادھر اللہ کی آزمائش کی بنا پر ہفتہ والے دن تمام مچھلیاں اوپر آ جایا کرتی تھیں اور کودتی اچھلتی رہتی تھیں لیکن باقی دنوں میں کوئی نظر ہی نہیں آتی تھی ۔ ایک مدت تک تو یہ لوگ خاموش رہے اور شکار کرنے سے رکے رہے ۔ بعد ازاں ان میں سے ایک شخص نے یہ حیلہ نکالا کہ ہفتہ والے دن مچھلی کو پکڑ لیا اور پھندے میں پھانس کر ڈوری کو کنارے پر کسی چیز سے باندھ دیا اتوار والے دن جا کر نکال لایا اور پکا کر کھائی ۔ لوگوں نے خوشبو پا کر پوچھا تو اس نے کہا میں نے تو آج اتوار کو شکار کیا ہے آخر یہ راز کھلا تو اور لوگوں نے بھی اس حیلہ کو پسند کیا اور اس طرح وہ سب مچھلیوں کا شکار کرنے لگے پھر تو بعض نے دریا کے آس پاس گڑھے کھود لئے ہفتہ والے دن جب مچھلیاں اس میں آ جاتیں تو اسے بند کر دیتے اور اتوار والے دن پکڑ لاتے کچھ لوگ جو ان میں نیک دل اور سچے مسلمان تھے وہ انہیں روکتے اور منع کرتے رہے لیکن ان کا جواب یہی ہوتا تھا کہ ہم ہفتہ کو شکار ہی نہیں کھیلتے ہم تو اتوار والے دن پکڑتے ہیں ان شکار کھیلنے والوں اور ان کو منع کرنے والوں کے سوا ایک گروہ ان میں اور بھی تھا جو مصلحت وقت برتنے والا اور دونوں فرقوں کو راضی رکھنے والا وہ تو پورا ساتھ دیتا تھا ۔ ان کا نہ شکار کھیلتے تھے نہ شکاریوں کو روکتے تھے بلکہ روکنے والوں سے کہتے تھے کہ اس قوم کو کیوں وعظ و نصیحت کرتے ہو جنہیں اللہ ہلاک کرے گا یا سخت عذاب کرے اور تم اپنا فرض بھی ادا کر چکے انہیں منع کر چکے جب نہیں مانتے تو اب انہیں چھوڑو ۔ یہ جواب دیتے کہ ایک تو اللہ کے ہاں ہم معذور ہو جائیں اس لئے اور دوسرے لئے بھی کہ شاید آج نہیں تو کل اور کل نہیں تو پرسوں یہ مان جائیں اور عذاب اللہ سے نجات پائیں بالآخر اس مسلم جماعت نے اس حیلہ کو جو فرقہ کا بالکل بائیکاٹ کر دیا اور ان سے بالکل الگ ہو گئے ۔ بستی کے درمیان ایک دیوار کھینچ لی اور دروازے اپنے آنے جانے کا رکھا اور ایک دروازہ ان حیلہ جو نافرمانوں کے لئے اس پر بھی ایک مدت اسی طرح گزر گئی ایک دن صبح مسلمان جاگے دن چڑھ گیا لیکن اب تک ان لوگوں نے اپنا دروازہ نہیں کھولا تھا اور نہ ان کی آوازیں آ رہی تھیں یہ لوگ متحیر تھے کہ آج کیا بات ہے؟ آخر جب زیادہ دیر لگ گئی تو ان لوگوں نے دیوار پر چڑھ کر دیکھا تو وہاں عجب منظر نظر آیا دیکھا کہ وہ تمام لوگ مع عورتوں بچوں کے بندر بن گئے ہیں ان کے گھر جو راتوں کو بند تھے اسی طرح بند ہیں اور اندر وہ کل انسان بندر کی صورتوں میں ہیں جن کی دمیں نکلی ہوئی ہیں ۔ بچے چھوٹے بندروں کی شکل میں مرد بڑے بندروں کی صورت میں عورتیں بندریاں بنی ہوئی ہیں اور ہر ایک پہچانا جاتا ہے کہ یہ فلاں مرد ہے یہ فلاں عورت ہے یہ فلاں بچہ ہے وغیرہ یہ بھی یاد رہے کہ جب یہ عتاب آیا تو نہ صرف وہی ہلاک ہوئے جو شکار کھیلتے تھے بلکہ ان کے ساتھ وہ بھی ہلاک ہوئے جو انہیں منع نہ کرتے تھے اور خاموش بیٹھے ہوئے تھے اور میل جول ترک نہ کیا تھا صرف وہ بچے جو انہیں منع کرتے رہے اور ان سے الگ تھلگ ہو گئے تھے یہ تمام اقوال اور قرآن کریم کی کئی ایک آیتیں وغیرہ شاہد ہیں کہ صحیح بات یہی ہے کہ ان کی صورتیں بدل دی گئی تھیں سچ مچ بندر بنا دئیے گئے نہ یہ کہ معنوی مسخ تھا یعنی ان کے دل بندروں جیسے ہو گئے تھے جیسے کہ مجاہد کا قول ہے ٹھیک تفسیر یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں سور اور بندر بنا دیا تھا اور ظاہری صورتیں بھی ان کی ان بدجانوروں جیسی ہو گئیں ۔ واللہ اعلم ۔ فجعلناھا میں ھاکی ضمیر کا مرجع قردہ ہے یعنی ہم نے ان بندروں کو سبب عبرت بنایا اس کا مرجع حیتان ہے یعنی ان مچھلیوں کو یا اس کا مرجع عقوبتہ ہے یعنی اس سزا کو اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس مرجع کا قریہ ہے یعنی اس بستی کو ہم نے اگلے پچھلوں کے لئے عبرتناک امر واقعہ بنا دیا اور صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ قریہ مراد ہے اور قریہ سے مراد اہل قریہ میں نکال کہتے ہیں عذاب و سزا کو جیسے اور جگہ ہے آیت ( فَاَخَذَهُ اللّٰهُ نَكَالَ الْاٰخِرَةِ وَالْاُوْلٰى ) 79 ۔ النازعات:25 ) اس کو عبرت کا سبب بنایا آگے پیچھے والی بستیوں کے لئے جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَلَقَدْ اَهْلَكْنَا مَا حَوْلَكُمْ مِّنَ الْقُرٰى وَصَرَّفْنَا الْاٰيٰتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ ) 46 ۔ الاحقاف:27 ) ہم نے تمہارے آس پاس کی بستیوں کو ہلاک کیا اور اپنی نشانیاں بیان فرمائیں تاکہ وہ لوگ لوٹ آئیں اور ارشاد ہے آیت ( اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّا نَاْتِي الْاَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ اَطْرَافِهَا ) 13 ۔ الرعد:41 ) اور یہ بھی مطلب بیان کیا گیا ہے کہ اس وقت کے موجود لوگوں کے لئے اور بعد میں آنے والوں کے لئے یہ عبرت ناک واقعہ دلیل راہ بن جائے گو بعض لوگوں کے یہ بھی کہا ہے کہ اگلوں بعد میں آنے والوں کے لئے یہ واقعہ گو کتنا ہی زبردست عبرتناک ہو دلیل نہیں بن سکتا اس لئے کہ وہ تو گزر چکے تو ٹھیک قول یہی ہے کہ یہاں مراد مکان اور جگہ ہے یعنی آس پاس کی بستیاں اور یہی تفسیر ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت سعید بن جیر رحمۃ اللہ کی ۔ واللہ اعلم ۔ اور یہ بھی معنی بیان کئے گئے ہیں کہ ان کے اگلے گناہ اور ان کے بعد آنے والے لوگوں کو ایسے ہی گناہوں کے لئے ہم نے اس سزا کو عبرت کا سبب بنایا ، لیکن صحیح قول وہی ہے جس کی صحت ہم نے بیان کی ، یعنی آس پاس کی بستیاں ، قرآن فرماتا ہے آیت ( وَلَقَدْ اَهْلَكْنَا مَا حَوْلَكُمْ مِّنَ الْقُرٰى وَصَرَّفْنَا الْاٰيٰتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ ) 46 ۔ الاحقاف:27 ) اور فرمان ہے آیت ( وَلَا يَزَالُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فِيْ مِرْيَةٍ مِّنْهُ حَتّٰى تَاْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً اَوْ يَاْتِيَهُمْ عَذَابُ يَوْمٍ عَقِيْمٍ ) 22 ۔ الحج:55 ) اور فرمان ہے آیت ( ۭاَفَلَا يَرَوْنَ اَنَّا نَاْتِي الْاَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ اَطْرَافِهَا ۭ اَفَـهُمُ الْغٰلِبُوْنَ ) 21 ۔ الانبیآء:44 ) غرض یہ عذاب ان کے زمانے والوں کے لئے اور بعد میں آنے والوں کے لئے ایک سبق ہے اور اسی لئے فرمایا آیت ( وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِيْنَ ) 2 ۔ البقرۃ:66 ) یعنی یہ جو بعد میں آئیں گے ان پرہیزگاروں کے لئے موجب نصیحت ہو ۔ موجب نصیحت یہاں تک کہ امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی کہ یہ لوگ ڈرتے رہیں کہ جو عذاب و سزائیں ان پر ان کے حیلوں کی وجہ سے ، ان کے مکرو فریب سے حرام کو حلال کر لینے کے باعث نازل ہوئیں ان کے بعد بھی جو ایسا کریں گے ایسا نہ ہو کہ وہی سزا اور وہی عذاب ان پر بھی آ جائیں ۔ ایک صحیح حدیث امام ابو عبد اللہ بن بطہ نے وارد کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حدیث ( لا ترتکبوا ما ارتکبت الیھود فستحلوا محارم اللہ بادنی الحیل ) یعنی تم وہ نہ کرو جو یہودیوں نے کیا یعنی حیلے حوالوں سے اللہ کے حرام کو حلال نہ کر لیا کرو ۔ یعنی شرعی احکام میں حیلہ جوئی سے بچو ۔ یہ حدیث بالکل صحیح ہے اور اس کے سب راوی ثقہ ہیں واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

65۔ 1 سبت (ہفتہ) کے دن یہودیوں کو مچھلی کا شکار بلکہ کوئی بھی دنیاوی کام کرنے سے منع کیا گیا تھا لیکن انہوں نے ایک حیلہ اختیار کر کے حکم الٰہی سے تجاوز کیا۔ ہفتے کے دن (بطور امتحان) مچھلیاں زیادہ آتیں انہوں نے گڑھے کھود لئے، تاکہ مچھلیاں اس میں پھنسی رہیں اور پھر اتوار کے دن ان کو پکڑ لیتے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨١] اصحاب سبت کا انجام :۔ بنی اسرائیل کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ ہفتہ کے دن کاروبار نہیں کریں گے بلکہ چھٹی کریں گے اور اس دن آرام اور اللہ کی عبادت کیا کریں گے اور تورات میں یہ بھی وضاحت ہے کہ جو شخص اس مقدس دن کی حرمت کو توڑے گا، وہ واجب القتل ہے۔ لیکن یہود پر اخلاقی انحطاط کا دور آیا تو یہود اس دن کھلے بندوں اپنا کاروبار جاری رکھتے اور تجارت وغیرہ کیا کرتے۔ اس سلسلہ میں سورة اعراف میں ایک مخصوص بستی کا ذکر بھی آیا ہے جو سمندر کے کنارے آباد تھی اور ان لوگوں کا پیشہ ماہی گیری تھا۔ لیکن اتفاق کی بات کہ چھ دن تو مچھلیاں پانی میں چھپی رہتیں اور ہفتہ کے دن پانی کی سطح پر سینہ تان کر تیرتی پھرتیں۔ اب ان ماہی گیروں نے یہ حیلہ سازی کی کہ ساحل کے ساتھ کھائیاں کھود لیں۔ اس میں پانی آتا تو ساتھ مچھلیاں بھی آ جاتیں اور دوسرے دن یہ لوگ ان مچھلیوں کو پکڑ لیتے، ان بستی والوں کے تین گروہ بن گئے۔ ایک تو مجرم گروہ تھا جو اس حیلہ سے مچھلیاں پکڑتا تھا۔ دوسرا گروہ وہ تھا جو انہیں اس حیلہ سازی سے منع کرتا تھا اور تیسرا گروہ وہ تھا جو خود مچھلیاں پکڑتا تو نہیں تھا لیکن پکڑنے والوں کو منع بھی نہیں کرتا تھا اور منع کرنے والوں سے کہتا تھا کہ && تم ان لوگوں کو کیوں منع کرتے ہو جو باز آنے والے نہیں اور ان پر عذاب نازل ہونے والا ہے اور منع کرنے والے یہ جواب دیتے کہ && ہم اس لیے منع کرتے ہیں کہ ہم اپنے رب کے حضور معذرت پیش کرسکیں اور دوسرے یہ کہ شاید یہ لوگ باز ہی آجائیں۔ (٧ : ١٦٤) بندر بننے کی تاویل کرنے والے :۔ پھر جب اس قوم پر عذاب نازل ہوا تو اس عذاب سے صرف منع کرنے والا گروہ بچا لیا گیا۔ خاموش رہنے والے اور مجرم دونوں گروہوں پر عذاب نازل ہوا اور وہ عذاب یہ تھا کہ && تم ذلیل و خوار بندر بن جاؤ۔ && اب معجزات کے منکر اور نیچری حضرات یہ کہتے ہیں کہ ان لوگوں کی عادات و خصائل تو بندروں جیسے ہوگئے تھے۔ لیکن ان کی صورتیں مسخ نہیں ہوئی تھیں (یعنی وہ فی الواقع بندر نہیں بنے تھے) یہ توجیہ اس لحاظ سے غلط ہے کہ ایک تو قرآن کے ظاہری الفاظ سے یہ گنجائش نہیں نکلتی۔ دوسرے مابعد کی آیت اس توجیہ کی توثیق کے بجائے تردید کر رہی ہے۔ کیونکہ اگر ان کی شکلیں بدستور انسانوں کی ہی رہیں، تو وہ اس وقت کے موجود لوگوں اور پچھلوں کے لیے سامان عبرت کیسے بن سکتے تھے اور پرہیزگار ان سے کیا سبق لے سکتے تھے ؟ حقیقت یہ ہے کہ وہ فی الواقع بندر بن گئے تھے تاہم ان کے دماغ وہی رہے۔ ان میں فہم و شعور انسانی موجود تھا۔ وہ ایک دوسرے کو پہچانتے اور ایک دوسرے کو دیکھ کر روتے تھے مگر کلام نہیں کرسکتے تھے۔ پھر تین دن کے بعد سب مرگئے اور یہ واقعہ سیدنا داؤد (علیہ السلام) کے دور میں پیش آیا تھا۔ (نیز دیکھئے سورة اعراف آیت نمبر ١٦٤)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اس آیت سے ظاہر ہے کہ ہفتے کے دن میں زیادتی کا یہ واقعہ بنی اسرائیل میں معروف تھا۔ اس کی تفصیل الاعراف (١٦٣ تا ١٦٦) کے حواشی میں ملاحظہ فرمائیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

This episode belongs to the time of Sayyidna Dawud (David (علیہ السلام Allah had appointed Saturday as the Sabt سبت ، or the sacred day, for the Israelites; it was specially set apart for prayers and worship, and hence fishing was prohibited on this day. But these people lived on the sea-shore, and were very fond of fish. Al-Qurtubi says that the Is¬raelites, at first, invented all sorts of clever pretences for catching fish on Saturday, and gradually started doing so openly. There now grew a division amongst them on this point. On the one hand were these transgressors, and, on the other, some scholars and pious men who tried to dissuade them from such disobedience. When the former paid no heed to them, the latter broke away altogether from the sinners, and began to live in a separate part of the town. One day they felt no sound was coming from the other part of the town. Growing curious, they went there and found that all the transgressors had been changed into apes. Qatadah says that the young ones had become apes, and the old ones swine. The apes could recognize their relatives and friends, and would approach them weeping out of remorse, and seeking their sympathy and help. Then all of them died after three days. As to the question whether the apes and the swine we see today bear any kinship to these Israelites who had been metamorphosed, the correct position is that people who have been metamorphosed into beasts by Allah as a punishment cease to breed, and leave no progeny behind. According to a hadith reported by Imam Muslim from the blessed Companion ` Abdullah ibn Masud (رض) some people asked the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) whether the apes and the swine were the descendants of the metamorphosed Jews. The Holy Prophet reminded them that apes and swine existed in the world even before, and said that when Allah sends down this particular kind of punishment on a people, the race comes to an end with this, and there is no further breeding.24 24. Some &modernizing& Muslims have tried to explain away this metamorphosis by suggesting that these disobedient Jews did not actually and physically turn into beasts, but that the change was only psychological in so far as they acquired the evil characteristics of apes and swine. To say such a thing is to deny an explicit statement of the Holy Qur&an, which no Muslim can do, if he wishes to remain a Muslim. Moreover, in denying the possibility of physical change, the &modernizers& are also denying the power of Allah, and putting limitations on it. Even as a piece of literary exegesis, the &modernist& interpretation is flimsy. For, even before the punishment fell on them, these Jews had been displaying the moral and psychological traits of beasts: the greed of swine and the craftiness of apes. Where was, then, the change which the Holy Qur&an declares to be a punishment for the offenders and a warning for others? Our &modernists& are, in fact, all too ready to swallow without batting an eye-lid the most preposterous and unfounded notions, only if they come from the West. So, they have complete certitude with regard to Darwin&s speculation, that the apes evolved into man, although no verifiable data has yet been gathered to support the contention; but when it comes to the statement in the Holy Qur&an that men were changed into apes, they look askance at it, although this kind of change is rationally and logically as possible as the other. Let us now go back to the verse under discussion. The people who witnessed the event, or heard of it, were of two kinds - the disobedient and the obedient. For the disobedient, it served as a &deterrent&, an example and a warning, which persuaded them to repent of their disobedience. For the obedient, it was a lesson and a reminder that they should be steadfast in their obedience. It serves these two purposes even now. Injunctions and related considerations We have been saying that the Jews who were changed into apes had used certain ruses or pretences to justify their sin in their own eyes. This brings us to a rather delicate question of Fiqh فقہ (Islamic ju¬risprudence). Certain &modernists& have quite shamelessly been busy maligning the master jurists of Islam by suggesting that these masters have invented very intricate |"stratagems|" (Hiyal, plural of Hilah) for helping the rich and powerful to infringe the laws of the Shari&ah and get away with it. This is a petty calumny, and should not have been worthy of consideration except for the fact that such &modernists& have had some success with the gullible and the ignorant by playing upon the Arabic word Hilah. As everyone knows, the lexical meaning of a word is one thing, and its technical signification, when it is used as a term in some science, is another. In its literal sense, the word Hi¬lah no doubt means |"a trick, a stratagem|", but as a technical term in Fiqh فقہ it signifies a device for and a means of giving legitimacy to an ac¬tion in a contingency by making certain necessary modifications in it in consonance with the &Shari` ah. Thus, it is not a way of by-passing the Shari&ah, but of helping people to conform to it even in a situation where necessity or human weakness would compel them to go against it. The present verse has a particular relevance to the question, and would help to clarify it a great deal. The transgression on the part of the Jews which the verse speaks of, and which drew upon them such dreadful punishment, was not a clear and explicit infringement of divine law, but the use of certain |"tricks|" which necessarily involved the negation of the divine commandment. For example, on Saturday they would tie one end of a cord to the tail of a fish and the other end to something on the shore, and leave the fish in the water; on Sunday, they would take it out and eat it. Such a ruse not only negates an injunction of the Shari&ah, but is actually a mockery. That is why those who practiced such |"stratagems|" were considered to be disobedient and rebellious, and subjected to dire punishment. But this particular instance does in no way go to prove that the Hiyal are impermissible. We have explained the nature and purpose of such |"devices|" alone. Not only do they form an integral part of Fiqh فقہ ، but some of them have actually been suggested by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) himself. For example, bartering a kilo of good dates for two kilos of bad dates is, according to the Shari&ah, a kind of usury. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has suggested a |"device|" (Hilah) for avoiding the infringement of this regulation in a situation where such a transaction becomes necessary - that is, instead of bartering one commodity for another, one may employ the exchange value of money: first sell two kilos of bad dates for two rupees, and then with the two rupees thus obtained buy a kilo of good dates. The intention in using this |"device|" is to conform to the Shari&ah, and not to by-pass it. The negation of the Shari&ah is neither intended here, nor does it actually take place. This principle holds good in the case of all the Hiyal which the Fuqaha-& (jurists) have proposed in order to save people from practicing what the Shari` ah has prohibited. It is a travesty of the truth to compare them to or represent them as the |"tricks|" employed by the Jews to negate and mock the Shari ah.

خلاصہ تفسیر : اور تم جانتے ہی ہو ان لوگوں کا حال جنہوں نے تم میں سے (حد شرع سے) تجاوز کیا تھا دوبارہ (اس حکم کے جو) ہفتہ کے دن کے (متعلق تھا کہ اس روز مچھلی کا شکار نہ کریں) سو ہم نے ان کو (اپنے حکم قہری تکوینی سے مسخ کرنے کے لئے) کہہ دیا کہ تم بندر ذلیل بن جاؤ (چنانچہ وہ بندروں کے قالب میں مسخ ہوگئے) پھر ہم نے اس کو ایک (واقعہ) عبرت (انگیز) بنادیا ان لوگوں کے لئے بھی جو قوم کے معاصر تھے اور ان لوگوں کے لئے بھی جو مابعد کے زمانے میں آتے رہے اور (نیز اس واقعہ کو) موجب نصیحت (بنایا، خدا سے) ڈرنیوالوں کے لئے، فائدہ : یہ واقعہ بھی بنی اسرائیل کا حضرت داؤد (علیہ السلام) کے زمانے میں ہوا بنی اسرائیل کے لئے ہفتہ کا دن معظم اور عبادت کے لئے مقرر تھا اور مچھلی کا شکار بھی اس روز ممنوع تھا یہ لوگ سمندر کے کنارے آباد تھے اور مچھلی کے شوقین تھے اس حکم کو نہ مانا اور شکار کیا اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسخ صورت کا عذاب نازل ہوا تین دن کے بعد وہ سب مرگئے، اس واقعہ کو دیکھنے اور سننے والے دو قسم کے لوگ تھے فرمانبردار و نافرمان تو نافرمانوں کے لئے تو یہ واقعہ نافرمانی سے توبہ کرانے والا تھا اس لئے اس کو نکال فرمایا اور فرمانبرداروں کو یہ واقعہ فرمانبرداری پر قائم رکھنے والا تھا اس کو موعظۃ فرمایا، معارف و مسائل : دینی معاملات میں کوئی ایسا حیلہ جس سے اصل حکم شرعی باطل ہوجائے حرام ہے،: اس آیت میں یہودیوں کے جس اعتداء یعنی حدود سے تجاوز کا ذکر کرکے اس کو سبب عذاب بتلایا گیا ہے روایات سے ثابت ہے کہ وہ صاف طور پر حکم شرعی کی خلاف ورزی نہ تھی بلکہ ایسے حیلے تھے جن سے حکم شرعی کا ابطال لازم آتا تھا مثلاً ہفتہ کے دن مچھلی کی دم میں ایک پھندا لگا کر دریا میں چھوڑ دیا اور یہ ڈور زمین پر کسی چیز سے باندھ دی پھر اتوار کے روز اس کو پکڑ کر کھالیا تو یہ ایک ایسا حیلہ ہے جس میں حکم شرعی کا ابطال بلکہ ایک قسم کا استہزاء ہے اس لئے ایسا کرنے والوں کو بڑا سرکش نافرمان قرار دے کر ان پر عذاب آیا، مگر اس سے ان فقہی حیلوں کی حرمت ثابت نہیں ہوتی جن میں سے بعض خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بتلائے ہیں مثلاً ایک سیر عمدہ کھجور کے بدلے دو سیر خراب کھجور خریدنا سود میں داخل ہے مگر اس سے بچنے کا ایک حیلہ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بتلایا کہ جنس کو تبادلہ جنس سے نہ کرو قیمت کے ذریعہ خریدو فروخت کرلو مثلا دو سیر خراب کہجوریں دو درہم میں فروخت کردیں پھر ان دو درہموں میں سے ایک سیر عمدہ کھجور خریدلی تو یہاں حکم شرعی کی تعمیل مقصود ہے، ابطلال نہ مقصود ہے نہ واقع ہے اسی طرح بعض دوسرے مسائل میں بھی فقہا نے حرام سے بچنے کی بعض ایسی ہی تدبیریں بتلائی ہیں ان کو یہودیوں کے حیلوں کی طرح کہنا اور سمجھنا غلط ہے، واقعہ مسخ صورت یہود : تفسیر قرطبی میں ہے کہ یہود نے اول اول تو اس طرح کے حیلے کرکے مچھلیاں پکڑیں پھر ہوتے ہوتے عام طور پر شکار کھیلنے لگے تو ان میں دو جماعتیں ہوگئیں ایک جماعت علماء وصلحا کی تھی جنہوں نے ان کو ایسا کرنے سے روکا یہ باز نہ آئے تو ان سے برادرانہ تعلقات قطع کرکے بالکل الگ ہوگئے اور بستی کے دو حصے کرلئے ایک یہ نافرمان لوگ رہ گئے دوسرے میں علماء وصلحاء رہے ایک روز ان کو یہ محسوس ہوا کہ جس حصہ میں یہ نافرمان لوگ رہتے تھے ادھر بالکل سناٹا ہے تو وہاں جاکر دیکھا تو سب کے سب بندروں کی صورت میں مسخ ہوگئے تھے اور حضرت قتادہ نے فرمایا کہ ان کے جوان بندر بنا دئیے گئے تھے اور بوڑھے خنزیر کی شکل میں منتقل کردئیے گئے تھے اور مسخ شدہ بندر اپنے رشتہ دار اور تعلق والے انسانوں کو پہچانتے تھے ان کے قریب آکر روتے تھے، ممسوخ قوم کی نسل نہیں چلتی : اس معاملہ میں صحیح بات وہ ہے جو خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بروایت عبداللہ بن مسعود صحیح مسلم میں منقول ہے کہ بعض لوگوں نے اپنے زمانے کے بندروں اور خنزیروں کے بارے میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ کیا یہ وہی مسخ شدہ یہودی ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم میں مسخ صورت کا عذاب نازل کرتے ہیں تو ان کی نسل نہیں چلتی (بلکہ چند روز میں ہلاک ہو کر ختم ہوجاتے ہیں) اور پھر فرمایا کہ بندر اور خنزیر دنیا میں پہلے سے بھی موجود تھے (اور آج بھی ہیں مگر مسخ شدہ بندروں اور خنزیروں سے ان کا کوئی جوڑ نہیں) اس موقع پر بعض مفسرین نے صحیح بخاری کے حوالے سے بندروں میں زنا کی سزا میں سنگساری کرنے کا ایک واقعہ نقل کیا ہے مگر یہ واقعہ نہ بخاری کے صحیح نسخوں میں موجود ہے نہ روایۃ صحیح ہے قرطبی نے اس جگہ اس کی تفصیل بیان فرمائی ہے،

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِيْنَ اعْتَدَوْا مِنْكُمْ فِى السَّبْتِ فَقُلْنَا لَھُمْ كُوْنُوْا قِرَدَۃً خٰسِـــِٕيْنَ۝ ٦٥ ۚ ( قَدْ ) : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] ، قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران/ 13] ، قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة/ 1] ، لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ، لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة/ 117] ، وغیر ذلك، ولما قلت لا يصحّ أن يستعمل في أوصاف اللہ تعالیٰ الذّاتيّة، فيقال : قد کان اللہ علیما حكيما، وأما قوله : عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل/ 20] ، فإنّ ذلک متناول للمرض في المعنی، كما أنّ النّفي في قولک : ما علم اللہ زيدا يخرج، هو للخروج، وتقدیر ذلک : قد يمرضون فيما علم الله، وما يخرج زيد فيما علم الله، وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة . نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ . و ( قَدْ ) و ( قط) «2» يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر . ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ۔ قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران/ 13] تمہارے لئے دوگرہوں میں ۔۔۔۔ ( قدرت خدا کی عظیم الشان ) نشانی تھی ۔ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة/ 1] خدا نے ۔۔ سن لی ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ( اے پیغمبر ) ۔۔۔۔۔ تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة/ 117] بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی ۔ اور چونکہ یہ فعل ماضی پر تجدد کے لئے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے اوصاف ذاتیہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا ۔ لہذا عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل/ 20] کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت : اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں ۔ میں قد لفظا اگر چہ علم پر داخل ہوا ہے لیکن معنوی طور پر اس کا تعلق مرض کے ساتھ ہے جیسا کہ ، ، میں نفی کا تعلق خروج کے ساتھ ہے ۔ اور اس کی تقدریروں ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا عد ( اعداد) والإِعْدادُ مِنَ العَدِّ كالإسقاء من السَّقْيِ ، فإذا قيل : أَعْدَدْتُ هذا لك، أي : جعلته بحیث تَعُدُّهُ وتتناوله بحسب حاجتک إليه . قال تعالی: وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال/ 60] ، وقوله : أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء/ 18] ، وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان/ 11] ، وقوله : وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف/ 31] ، قيل : هو منه، وقوله : فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ [ البقرة/ 184] ، أي : عدد ما قد فاته، وقوله : وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة/ 185] ، أي : عِدَّةَ الشّهر، وقوله : أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 184] ، فإشارة إلى شهر رمضان . وقوله : وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 203] ، فهي ثلاثة أيّام بعد النّحر، والمعلومات عشر ذي الحجّة . وعند بعض الفقهاء : المَعْدُودَاتُ يومُ النّحر ويومان بعده فعلی هذا يوم النّحر يكون من المَعْدُودَاتِ والمعلومات، والعِدَادُ : الوقت الذي يُعَدُّ لمعاودة الوجع، وقال عليه الصلاة والسلام :«ما زالت أكلة خيبر تُعَادُّنِي» وعِدَّانُ الشیءِ : عهده وزمانه . ( ع د د ) العدد الاعداد تیار کرنا مہیا کرنا یہ عد سے ہے جیسے سقی سے اسقاء اور اعددت ھذا لک کے منعی ہیں کہ یہ چیز میں نے تمہارے لئے تیار کردی ہے کہ تم اسے شمار کرسکتے ہو اور جس قدر چاہو اس سے حسب ضرورت لے سکتے ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال/ 60] اور جہاں تک ہوسکے ( فوج کی جمیعت سے ) ان کے ( مقابلے کے لئے مستعد رہو ۔ اور جو ) کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے ۔ اور اس نے ان کے لئے باغات تیار کئے ہیں ۔ أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء/ 18] ایسے لوگوں کے لئے ہم نے عذاب الیم تیار کر رکھا ہے وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان/ 11] اور ہم نے جھٹلا نے والوں کے لئے دوزخ تیار کر رکھی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف/ 31] اور ان کے لئے ایک محفل مرتب کی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ اعتدت بھی اسی ( عد ) سے ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة/ 185] تم روزوں کا شمار پورا کرلو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم ماہ رمضان کی گنتی پوری کرلو ۔ أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 184] گنتی کے چند روز میں ماہ رمضان کی طرف اشارہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 203] اور گنتی کے دنوں میں خدا کو یاد کرو ۔ میں سے عید قربان کے بعد کے تین دن مراد ہیں اور معلومات سے ذوالحجہ کے دس دن بعض فقہاء نے کہا ہے کہ ایام معدودۃ سے یوم النحر اور اس کے بعد کے دو دن مراد ہیں اس صورت میں یوم النحر بھی ان تین دنوں میں شامل ہوگا ۔ العداد اس مقرر وقت کو کہتے ہیں جس میں بیماری کا دورہ پڑتا ہو ۔ آنحضرت نے فرمایا مازالت امۃ خیبر تعادنی کہ خیبر کے دن جو مسموم کھانا میں نے کھایا تھا اس کی زہر بار بار عود کرتی رہی ہے عد ان الشئی کے معنی کسی چیز کے موسم یا زمانہ کے ہیں سبت أصل السَّبْتُ : القطع، ومنه سبت السّير : قطعه، وسَبَتَ شعره : حلقه، وأنفه : اصطلمه، وقیل : سمّي يوم السَّبْت، لأنّ اللہ تعالیٰ ابتدأ بخلق السموات والأرض يوم الأحد، فخلقها في ستّة أيّام کما ذكره، فقطع عمله يوم السّبت فسمّي بذلک، وسَبَتَ فلان : صار في السّبت وقوله : يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعاً [ الأعراف/ 163] ، قيل : يوم قطعهم للعمل، وَيَوْمَ لا يَسْبِتُونَ [ الأعراف/ 163] ، قيل : معناه لا يقطعون العمل، وقیل : يوم لا يکونون في السّبت، وکلاهما إشارة إلى حالة واحدة، وقوله : إِنَّما جُعِلَ السَّبْتُ [ النحل/ 124] ، أي : ترک العمل فيه، وَجَعَلْنا نَوْمَكُمْ سُباتاً [ النبأ/ 9] ، أي : قطعا للعمل، وذلک إشارة إلى ما قال في صفة اللّيل : لِتَسْكُنُوا فِيهِ [يونس/ 67] . ( س ب ت ) السبت کے اصل معنی قطع کرنے کے ہیں اور اسی سے کہا جاتا ہے سبت السیر اس نے تسمہ گو قطع کیا سینت شعرۃ اس نے اپنے بال مونڈے سبت انفہ اس کی کاٹ ڈالی ۔ بعض نے کہا ہے کہ ہفتہ کے دن کو یوم السبت اس لئے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کی تخلیق اتوار کے دن شروع کی تھی اور چھ دن میں تخلیق عالم فرماکر سینچر کے دن اسے ختم کردیا تھا اسی سے سبت فلان ہے جس کے معنی ہیں وہ ہفتہ کے دن میں داخل ہوا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعاً [ الأعراف/ 163] سنیچر کے دن ( مچھلیاں ) سینہ سیر ہوکر ان کے سامنے آجاتیں ۔ میں بعض نے یوم سبتھم سے ان کے کاروں بار کو چھوڑنے کا دن مراد لیا ہے اس اعتبار سے یوم لا یسبتون کے معنی یہ ہوں گے کہ جس روز وہ کاروبار چھوڑتے اور بعض نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ روز سینچر نہ ہوتا ان ہر دو معنی کا مآل ایک ہی ہے اور آیت : ۔ إِنَّما جُعِلَ السَّبْتُ [ النحل/ 124] میں سبت سے مراد سینچر کے دن عمل کے ہیں اور مطلب یہ ہے کہ سنیچر کے روز کام چھوڑنے کا حکم صرف لِتَسْكُنُوا فِيهِ [يونس/ 67] اس لئے دیا گیا تھا اور آیت : ۔ وَجَعَلْنا نَوْمَكُمْ سُباتاً [ النبأ/ 9] اور نیند کو ( موجب ) راحت بنایا ۔ میں سبات کے معنی ہیں حرکت وعمل کو چھوڑ کر آرام کرنا اور یہ رات کی اس صفت کی طرف اشاریہ ہے جو کہ آیت : ۔ تاکہ تم رات میں راحت کرو لِتَسْكُنُوا فِيهِ [يونس/ 67] . میں مذکور ہے یعنی رات کو راحت و سکون لے لئے بنایا ہے قرد القِرْدُ جمعه قِرَدَةٌ. قال تعالی: كُونُوا قِرَدَةً خاسِئِينَ [ البقرة/ 65] ، وقال : وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنازِيرَ [ المائدة/ 60] ، قيل : جعل صورهم المشاهدة کصور القردة . وقیل : بل جعل أخلاقهم كأخلاقها وإن لم تکن صورتهم کصورتها . والقُرَادُ جمعه : قِرْدَانٌ ، والصّوف القَرِدُ : المتداخل بعضه في بعض، ومنه قيل : سحاب قَرِدٌ ، أي : متلبّد، وأَقْرَدَ ، أي : لصق بالأرض لصوق القراد، وقَرَدَ : سکن سکونه، وقَرَّدْتُ البعیر : أزلت قراده، نحو : قذّيت ومرّضت، ويستعار ذلک للمداراة المتوصّل بها إلى خدیعة، فيقال : فلان يُقَرِّدُ فلانا، وسمّي حلمة الثّدي قرادا کما تسمّى حلمة تشبيها بها في الهيئة . ( ق ر د ) القردۃ بندر اس کی جمع قرود وقردۃ ہے اور آیات کریمہ : ۔ كُونُوا قِرَدَةً خاسِئِينَ [ البقرة/ 65] ذلیل و خوار بندر ہوجاؤ ۔ وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنازِيرَ [ المائدة/ 60] اور جن کو ان میں سے بندر ۔۔۔۔ بنا دیا ۔ کو بعض نے ظاہر ی معنی پر حمل کیا ہے یعنی انہیں سچ مچ بندر بنا دیا گیا تھا بعض نے کہا ہے کہ انکے اخلاق واطور بندروں ایسے ہوگئے تھے ۔ نہ کہ وہ سچ مچ بندر بنا دیئے گئے تھے ۔ القراد چیچڑی ۔ جمع قردان ۔ صرف قرد الجھی ہوئی اون ( جو کاتی نہ جاسکے ) اسی سے تہ بر تہ چھائے ہوئے بادل کو سحاب قردۃُ کہا جاتا ہے ۔ اقر د چیچڑی کی طرح زمین کے ساتھ چمٹ جانا قرد چیچڑی کی طرح ساکن ہوجانا اور قر دت الابل کے معنی اونٹ سے چیچڑ دور کرنے کے ہیں مخذ جیسے قذبت ومرضت کا محاورہ ہے اور استعار کے طور پر قرد کے معنی چاپلوسی کے ذریعہ کیس کو دھوکا دینا بھی آتے ہیں چناچہ محاورہ ہے ۔ فلاں مدارات سے اسے فریب دے رہا ہے اور پستان کے سر سے کو قراد کہا جاتا ہے کیونکہ اس کی شکلی بھی چیچڑی جیسی ہوتی ہے ۔ خسأ خَسَأْتُ الکلب فَخَسَأَ ، أي : زجرته مستهينا به فانزجر، وذلک إذا قلت له : اخْسَأْ ، قال تعالیٰ في صفة الكفّار : اخْسَؤُا فِيها وَلا تُكَلِّمُونِ [ المؤمنون/ 108] ، وقال تعالی: قُلْنا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خاسِئِينَ [ البقرة/ 65] ، ومنه : خَسَأَ البَصَرُ ، أي انقبض عن مهانة، قال : خاسِئاً وَهُوَ حَسِيرٌ [ الملک/ 4] . ( خ س ء ) خسات الکلب فخساء میں نے کہتے کو دھکتارا تو وہ دور ہوگیا ۔ اور کسی کو دھکتارنے کیے لئے عربی میں اخساء کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں کفار کے متعلق فرمایا ۔ اخْسَؤُا فِيها وَلا تُكَلِّمُونِ [ المؤمنون/ 108] اس میں ذلت کے ساتھ پڑے رہو اور مجھ سے بات نہ کرو ۔ قُلْنا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خاسِئِينَ [ البقرة/ 65] تو ہم نے ان سے کہا ک ذلیل و خوار بند ر ہوجاؤ ۔ اسی سے خساء البصر کا محاورہ ہے جس کے معنی ہیں نظر درماندہ ہوکر منقبض ہوگئی ۔ قرآن میں ہے :۔ خاسِئاً وَهُوَ حَسِيرٌ [ الملک/ 4] . کہ وہ نظر درماندہ اور تھک کر لوٹ آئے گے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٥) اور تمہیں اچھی طرح پتہ ہے اور تم نے ان لوگوں کا انجام بھی سنا ہے جنہوں نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کے زمانے میں عہد و پیمان کے بعد بھی ہفتہ کے دن اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی، ہم نے ان لوگوں کو ذلیل و خوار بندر بنادیا تاکہ یہ بندر بنادینا پچھلے گناہوں کی سزا ہو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِیْنَ اعْتَدَوْا مِنْکُمْ فِی السَّبْتِ ) تمہیں خوب معلوم ہے کہ تم میں سے وہ کون لوگ تھے جنہوں نے سبت کے قانون کو توڑا تھا اور حد سے تجاوز کیا تھا۔ یہود کی شریعت میں ہفتہ کا روز عبادت کے لیے معینّ کردیا گیا تھا اور اس روز دنیاوی کام کاج کی اجازت نہیں تھی۔ آج بھی جو مذہبی یہودی (Practicing Jews) ہیں وہ اس کی پابندی بڑی شدت سے کرتے ہیں۔ لیکن ایک زمانے میں ان کے ایک خاص قبیلے نے ایک شرعی حیلہ ایجاد کر کے اس قانون کی دھجیاں بکھیر دی تھیں۔ اس واقعہ کی تفصیل سورة الاعراف میں آئے گی۔ (فَقُلْنَا لَہُمْ کُوْنُوْا قِرَدَۃً خٰسِءِیْنَ ) “ ان کی شکلیں مسخ کر کے انہیں بندروں کی صورت میں تبدیل کردیا گیا۔ تین دن کے بعد یہ سب مرگئے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

82. Sabbath, i.e., Saturday . Itwas laid down that the Israelite should consecrate that day for rest and worship. They were required to from abstain from all worldly acts, including cooking (which they mightneither do themselves, nor have their servants do for them) . The injunctions, in this connection wereso strict that violation of the Sabath was to be punished with death. (See Exodus 31:12-17. ) When religious and moral decadence, however, spread among the Israelites they indulged in open desecration of the Sabbath, so much so that in jewish towns trade and commerce were carried out in broad daylight. 83. The details of this incident are mentioned later in Surah 7, vv. 163 ff. The exact manner in which their transformation into apes took place is disputed. Some scholars are of the opinion that the transformation was a physical one, while others hold that they were invested with the attributes characteristic of apes. But both the words and the manner in which this incident is recounted in the Qur'ain seem to suggest that what took place was a physical transformation of certain persons into apes rather than just a moral metamorphosis. What seems plausible to me is that while their minds were allowed to remain intact, their bodies were changed into those of apes.

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :82 سَبْت ، یعنی ہفتے کا دن ۔ بنی اسرائیل کے لیے یہ قانون مقرر کیا گیا تھا کہ وہ ہفتے کو آرام اور عبادت کے لیے مخصُوص رکھیں ۔ اس روز کسی قسم کا دُنیوی کام ، حتّٰی کہ کھانا پکانے کا کام بھی نہ خود کریں ، نہ اپنے خادموں سے لیں ۔ اس باب میں یہاں تک تاکیدی احکام تھے کہ جو شخص اس مقدس دن کی حُرمت کو توڑے ، وہ واجب القتل ہے ( ملاحظہ ہو خُروج ، باب ۳۱ ، آیت ۱۷-۱۲ ) ۔ لیکن جب بنی اسرائیل پر اخلاقی و دینی انحطاط کا دَور آیا تو وہ علی الا علان سَبْت کی بے حرمتی کرنے لگے حتّٰی کہ ان کے شہروں میں کُھلے بندوں سَبْت کے روز تجارت ہونے لگی ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :83 اس واقعے کی تفصیل آگے سُورہ اعراف رکوع ۲۱ میں آتی ہے ۔ ان کے بندر بنائے جانے کی کیفیت میں اختلاف ہے ۔ بعض یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی جسمانی ہیئت بگاڑ کر بندروں کی سی کر دی گئی تھی اور بعض اس کے یہ معنی لیتے ہیں کہ ان میں بندروں کی سی صفات پیدا ہو گئی تھیں ۔ لیکن قرآن کے الفاظ اور اندازِ بیان سے ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسخ اخلاقی نہیں بلکہ جسمانی تھا ۔ میرے نزدیک قرینِ قیاس یہ ہے کہ ان کے دماغ بعینہ اسی حال پر رہنے دیے گئے ہوں گے جس میں وہ پہلے تھے اور جسم مسخ ہو کر بندروں کے سے ہو گئے ہوں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

50 : سنیچر (ہفتہ) کو عربی اور عبرانی زبان میں سبت کہتے ہیں، یہودیوں کے لئے اسے ایک مقدس دن قرار دیا گیا تھا، جس میں ان کے لئے معاشی سرگرمیاں ممنوع تھیں، جن یہودیوں کا یہاں ذکر ہے وہ (غالباً حضرت داؤد (علیہ السلام) کے زمانے میں) کسی سمندر کے کنارے رہتے تھے اور مچھلیاں پکڑا کرتے تھے، سنیچر کے دن مچھلیاں پکڑنا ان کے لئے ناجائز تھا مگر شروع میں انہوں نے کچھ حیلے کرکے اس حکم کی خلاف ورزی کرنی چاہی اور پھر کھلم کھلا مچھلیاں پکڑنی شروع کردیں، کچھ نیک لوگوں نے انہیں سمجھایا مگر باز نہ آئے، بالآخر ان پر عذاب آیا اور ان کی صورتیں مسخ کرکے انہیں بندر بنادیا گیا۔ (اس واقعہ کی تفصیل : اعراف، ٧: ١٦٣ تا ١٦٦)۔ میں آنے والی ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(65 ۔ 66) یہ ایک دوسرا قصہ ہے جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ کے یہود کو یاد دلا یا گیا ہے۔ یہ قصہ بھی سارا تو سورة اعراف میں آئے گا۔ حاصل اس کا یہ ہے کہ دریا کے کنارے ایک بستی ایلہ نام کی تھی جس میں کچھ یہود رہتے تھے۔ ہفتہ کے دن یہود کو سوائے عبادت کے اور سب کام حرام ہیں۔ اس لئے ان یہود کو جو ایلہ میں دریا کے کنارے رہتے تھے ہفتے کے دن مچھلیاں پکڑنی حرام تھیں لیکن انہوں نے طرح طرح کے حیلے نکال کر آخر ہفتے کے دن مچھلیاں پکڑیں اور اسی نافرمانی کی سزا میں ان پر یہ عذاب آیا کہ وہ آدمی سے بندر ہوگئے تاکہ اس بستی کے آس پاس جو یہود رہتے تھے ان بندروں کا حال دیکھ کر ان کو عبرت اور اللہ سے ڈرنے والوں کو نصیحت ہو۔ حال کے یہود جو تورات کی آیتوں کے عمل کرنے میں طر طرح کے حیلے اور فریب گانٹھ رہے تھے ان کو اس قصہ کے انجام سے ڈرایا گیا تھا مگر ان کو سورة حشر کا انجام آخر کو ان کے ڈھیٹ پن نے دکھایا۔ حضرت ابوہریرہ سے صحیح روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اے لوگوں تم اس طرح کے حیلوں میں نہ پڑو جس طرح یہود نے بعض حیلوں سے حرام کو حلال کرلیا ١۔ اس حدیث میں حیلوں کی ممانعت ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:65) ولقد۔ واؤ۔ عاطفہ ہے لام تاکید کا قد ماضی پر داخل ہوکر تحقیق کے معنی دیتا ہے۔ سو لام تاکید اور قد فعل علمتم پر داخل ہونے پر معنی ہوں گے۔ تحقیق تم خوب جانتے ہو۔ تاکید بالائے تاکید۔ اتعدوا۔ انہوں نے زیادتی کی۔ وہ اللہ کی مقرر کردہ حدود سے گزرگئے۔ اعتداء (افتعال) مصدر سے ماضی کا صیغہ جمع مذکر غائب۔ حق سے تجاوز کرنے کو اعتداء کہتے ہیں۔ فی السبت۔ ہفتہ کے دن کے دوران سبت کے اصل معنی قطع کرنے کے ہیں۔ مثلاً کہتے ہیں سبت انفہ اس نے اس کی ناک کاٹ ڈالی۔ پھر اس کے معنی ہفتہ کا دن ہے۔ کیونکہ اہل یہود اس روز کاروبار چھوڑ دیتے تھے اس لئے اس روز کا دوسرے کاروباری ایام سے رشتہ کٹ گیا۔ اس طرح آیت وجعلنا نومکم سباتا (78:9) اور ہم نے تمہاری نیند کو موجب راحت بنایا ۔ اس میں سبات کے معنی حرکت و عمل سے کٹ کر آرام کرنا کے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ ہفتہ کو سبت اس لئے کہتے ہیں کہ اس دن اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو قطع کیا یعنی پیدا کیا۔ یا اس لئے کہ یہود کو اس دن عبادت کے سوا اور کل کاموں سے قطع تعلق کرنے کا حکم ہوا تھا۔ قدرۃ۔ بندر۔ جمع کا صیغہ۔ قرد واحد ہے یہ منصوب بوجہ کونوا کی خبر کے ہے۔ خسئین۔ خسئا سے اسم فاعل کا صیغہ جمع مذکر ہے۔ ذلیل و خوار۔ خسئا کسی کو دھتکارنے کے لئے آیا ہے۔ مثلاً خسئات الکلب میں نے کتے کو دھتکارا۔ خسئین ۔ کنتم کی ضمیر سے حال ہے یا قردۃ کی صفت فجعلنا ھا۔ میں ھا ضمیر مفعول واحد مؤنث غائب۔ یا القریۃ کے لئے جہاں یہ واقعہ پیش آیا ۔ یا خسیان کے لئے ہے یا واقعہ کے لئے ہے یا اس قصہ کے لئے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 بنی اسرائیل پر انعامات ذکر کرنے کے بعداب یہاں بعض تشدید کا بیان شروع ہو رہا ہے مفصل سورة عمران میں ہے کہ ہفتہ کے دن ان کو شکار کی ممانعت تھی مگر اس ممانعت کے باوجود انہوں نے فریب اور حیلہ سازی سے شکار کرنا شروع کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس جرم کی سزا میں ان کی شکلیں مسخ کر کے بندروں جیسی بنادیں۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ مسخ شدہ قوم تین دن کے بعد زندہ نہیں رہتی۔ (قرطبہ) ایک صحیح حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے جو صحیح مسلم (کتاب القدر) میں حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) سے مروی ہے بخاری میں جو بندروں کے رجم کا واقعہ ہے اول تو یہ کہ عمرو بن میمون تابعی نے ایک جاہلی واقعہ بیان کیا ہے حدیث نہیں ہے اور اس میں میں بہت سے احتمالات ہوسکتے ہیں اور پھر بخاری کے اکثر نسخوں میں یہ واقعہ مذکور بھی نہیں ہے اس بنا پر یہ قابل اعتراض نہیں ہوسکتا۔ (قرطبی) اس آیت میں امت محمدیہ کو بھی تنبیہ ہے کہ مبادا تم بھی یہود کی روش اختیار کو لو اؤ تم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آجائے گا حدیث میں ہے کہ یہود کی طرح ادمی ترین حیلوں سے اللہ تعالیٰ کے محارم کو حلال بنانے کی کوشش نہ کرنا۔ ابن کثیر بحوالہ ابن ماجہ) مغرب کے یہود اور عیسائیوں کے ہاں سے علم اور ضرورت کے نام سے بعض مسئلے آتے ہیں تو مسلمانوں کو مرعوب ذہن ارتقائی ضرورتوں کی آڑ میں قرآن و حدیث سے ان کے جواز پر دلائل کشید کرنا شروع کردیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسلام کو ایسے نادان دوستوں سے محفوظ رکھے (م، ع)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 65 تا 66 لقد (البتہ یقیناً (قد ماضی کے صیغے پر آیا ہے) ۔ علمتم (تم نے جان لیا) ۔ اعتدوا (جنہوں نے زیادتی کی، حد سے بڑھ گئے) ۔ السبت (ہفتہ کا دن، سینچر) ۔ کونوا (تم ہوجاؤ) ۔ قردۃ (بندر) ۔ خسئین (ذلیل) ۔ جعلنا (ہم نے بنا دیا) ۔ نکال (عبرت) ۔ بین یدی (سامنے (بین، درمیان، یدی، یدین، دونوں ہاتھ) ۔ خلف (پیچھے ، آئندہ آنے والے) ۔ موعظۃ (نصیحت) ۔ تشریح : آیت نمبر 65 تا 66 حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے سیکڑوں سال کے بعد حضرت داؤد (علیہ السلام) کے زمانے میں، ملک شام میں سمندر کے کنارے کوئی شہر یا قصبہ جس کو بعضوں نے ایلہ بھی کہا ہے۔ وہاں یہ واقعہ پیش آیا ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت میں ہفتہ کے دن شکار کرنا خاص طور پر مچھلیوں کا شکار، اسی طرح کھیتی باڑی اور دوسرے کاروبار کرنے کی بڑی سخت ممانعت تھی۔ مگر بنی اسرائیل نے اپنی عادت کے مطابق اس شرعی حکم کو بےاثر بنانے کے لئے نافرمانیوں کا ایک اور طریقہ اختیار کیا جس پر انہیں اللہ کی طرف سے سخت سزا دی گئی، سورة اعراف میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ جس دن مچھلیوں کے شکا ر کی اجازت ہوتی، اس دن تو زیادہ تر مچھلیاں پانی کی تہہ میں چلی جاتیں اور ہفتہ کے دن جب شکار کی ممانعت تھی تمام مچھلیاں دریا کی سطح پر آجاتیں۔ یہ ان کا امتحان تھا۔ مگر بنی اسرائیل خاموش بیٹھنے والے کہاں تھے انہوں نے دریا کے قریب چھوٹے چھوٹے گڑھے بنائے اور ان کو چھو ٹی چھوٹی نالیوں کے ذریعہ سے ملا دیا ہفتہ کے دن وہ رکاوٹیں ہٹا دیتے۔ پانی ان گڑھوں کی طرف جاتا تو مچھلیاں بھی ساتھ میں جاتیں اتوار کے دن ان گڑھوں سے مچھلیاں شکار کرتے اور اپنی چالاکی پر خوش ہوتے۔ یہ ایک ایسا حیلہ تھا جس سے اللہ تعالیٰ کے حکم کا مذاق اڑانے اور اس کے ذریعہ حکم شرعی سے جان چھڑانے کا ایک بہانہ تھا شریعت میں ایسا حیلہ حرام ہے لیکن اگر حکم شرعی کی تعمیل کے لئے کوئی حیلہ اختیار کیا جائے تو شرعاً یہ ناجائز نہیں جیسا کہ فقہ کی کتابوں میں فقہاء کرام نے سینکڑوں حیلے اس قسم کے بیان کئے ہیں چونکہ بنی اسرائیل حکم شرعی کے ابطال کے لئے ایسا کرتے تھے اس لئے ان کو سزا دی گئی اور ان میں طاعون کا مرض پھیل گیا۔ اس مرض سے چہرے پھول کر بندروں کی طرح ہوگئے، وہ بھوک پیاس کی کربناک اذیتوں میں تین زندہ رہ کر تڑپ تڑپ کر مر گئے اس طرح ان نافرمانوں کی نسل ہی کا خاتمہ کردیا گیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ یہ واقعہ جس کو عرب کا بچہ بچہ اچھی طرح جانتا ہے یہ ان نافرمان لوگوں کے درس عبرت تھا اور آج کے نافرمانوں کے لئے بھی موعظت و نصیحت ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : بنی اسرائیل کے انحراف کا مشہور واقعہ شکر گزاری کی بجائے بد عہدی کرتے ہوئے ہفتہ کے دن کی بےحرمتی کی اور اس کی سزا۔ بنی اسرائیل میں یہ واقعہ نسل در نسل زبان زدعام اور تورات و انجیل کے کئی صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔ اس لیے اس کی یاد دہانی کے لیے تفصیلات ذکر کرنے کے بجائے ایک اشارہ ہی کافی سمجھا گیا ہے۔ تاہم سورة الاعراف میں اس کی کچھ تفصیل بیان ہوئی ہے کہ تم وہ لوگ ہو کہ جب تمہاری ہی خواہش کے مطابق تمہارے لیے عبادت کا دن ” ہفتہ “ مقرر کیا گیا کہ اس دن تمہیں عبادت کرنے کے سوا کچھ نہیں کرنا چاہیے۔ تم نے اس دن میں بھی سر کشی اور تمرّد کے کئی راستے نکال لیے۔ ہوا یہ کہ مچھلیاں دوسرے دنوں کے بجائے ہفتہ کے روز کثرت کے ساتھ سمندر کی تہ پر تیرتی ہوئی دکھائی دیتی تھیں۔ انہوں نے ہفتہ کے دن مچھلی کا شکار نہ کیا لیکن سمندر کے متصل اس طرح کے بڑے بڑے گھاٹ تیار کیے کہ مچھلیاں خود بخود تالابوں میں بھر جاتیں اگلے دن انہیں پکڑ لیا جاتا۔ اس طرح انہوں نے ہفتہ کے دن کی بےحرمتی اور اللہ تعالیٰ کے قانون کی روح کو پامال کیا۔ جس کی پاداش میں ان کے چہروں کو تبدیل کر کے بندر کی شکل میں تبدیل کردیا تاکہ ان کے جیسے ذہن ہیں شکلیں بھی ویسی ہوجائیں۔ ان کے چہروں کو مسخ کر کے بستی کے گرد و جوار اور بعد میں آنے والے لوگوں کے لیے نشان عبرت بنا دیا گیا۔ اتنی ذلّت و رسوائی کے باوجودان کی اولادیں گناہوں سے بچنے کی بجائے اللہ کی نافرمانی میں آگے ہی بڑھتی چلی گئیں۔ نصیحت تو اللہ سے ڈرنے اور گناہوں سے بچنے والے ہی حاصل کرتے ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بندروں کی نسل انہی لوگوں سے ہے۔ حالانکہ حدیث میں وضاحت پائی جاتی ہے کہ وہ بندر بننے کے تین دن بعد مرگئے۔ (رواہ مسلم : کتاب الجمعۃ) (عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّہٗ سَمِعَ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ نَحْنُ الْآخِرُوْنَ السَّابِقُوْنَ یَوْمَ القِیَامَۃِ بَیْدَ أَنَّھُمْ أُوْتُوا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِنَا ثُمَّ ھٰذَا یَوْمُھُمُ الَّذِيْ فُرِضَ عَلَیْھِمْ فَاخْتَلَفُوْا فِیْہِ فَھَدَانَا اللّٰہُ فَالنَّاسُ لَنَا فِیْہِ تَبَعٌ الْیَھُوْدُ غَدًا وَالنَّصَارٰی بَعْدَ غَدٍ ) (رواہ البخاری : کتاب الجمعۃ، باب فرض الجمعۃ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا کہ ہم آخر میں آنے والے قیامت کے دن پہلے ہوں گے بیشک یہود ونصارٰی ہم سے پہلے کتاب دیئے گئے ہیں پھر ہفتہ اور اتوار کے دن کی عبادت ان پر فرض کی گئی انہوں نے اس میں اختلاف کیا تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہدایت سے نواز دیا یہودی اور عیسائی ایام کے معاملہ میں ہمارے تابع ہیں یعنی شمار کرنے میں جمعہ کا دن پہلے ہفتہ اور اتوار کے دن بعد میں آتے ہیں۔ یہود ہفتہ اور عیسائی اتوار کے روز عبادت کرتے ہیں اور ہمارے لیے جمعہ افضل قرار دیا گیا ہے۔ “ جمعہ کی فضیلت و اہمیت : (عَنْ أَبِي الْجَعْدِ الضَّمْرِيِّوَکَانَتْ لَہٗ صُحْبَۃٌ عَنِ النَّبِيِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَنْ تَرَکَ ثَلَاثَ جُمَعٍ تَھَاوُنًا بِھَا طَبَعَ اللّٰہُ عَلٰی قَلْبِہٖ ) (رواہ النسائی : باب التشدید في التخلف عن الجمعۃ) ” حضرت ابو الجعد الضمری کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رفاقت حاصل رہی وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جو آدمی تین جمعے سستی کی وجہ سے چھوڑ دیتا ہے اللہ رب العزت اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔ “ (عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنِ اغْتَسَلَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ وَتَطَھَّرَ بِمَا اسْتَطَاعَ مِنْ طُھْرٍ ثُمَّ ادَّھَنَ أَوْ مَسَّ مِنْ طِیْبٍ ثُمَّ رَاحَ فَلَمْ یُفَرِّقْ بَیْنَ اثْنَیْنِ فَصَلّٰی مَاکُتِبَ لَہٗ ثُمَّ إِذَاخَرَجَ الْإِمَامُ أَنْصَتَ غُفِرَ لَہٗ مَابَیْنَہٗ وَبَیْنَ الْجُمُعَۃِ الْأُخْرٰی) (رواہ البخاری : کتاب الجمعۃ، باب لایفرق بین اثنین یوم الجمعۃ) ” حضرت سلمان فارسی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے جمعہ کے دن غسل کیا اور حسب توفیق صفائی کی پھر اس نے تیل یا خوشبو لگائی پھر وہ مسجد آیا اس نے دو آدمیوں کے درمیان جدائی نہ ڈالی اور اس نے جو اس کے لیے لکھی گئی نماز ادا کی پھر جب امام نکلا خاموش رہا تو اس کے ایک جمعہ سے لے کر دوسرے جمعہ تک کے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔ “ (عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال الصَّلَوَاۃُ الْخَمْسُ وَالْجُمْعَۃُ إِلَی الْجُمْعَۃِ کَفَّارَۃٌ لِّمَا بَیْنَھُنَّ مَالَمْ تُغْشَ الْکَبَاءِرُ ) (رواہ مسلم : باب الصلواۃ الخمس والجمعۃ إلی الجمعۃ۔۔ ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب کبیرہ گناہ کا ارتکاب نہ کیا جائے تو پانچ نمازیں اور جمعہ۔ جمعہ تک کے گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے۔ “ مسائل ١۔ یہودیوں کے لیے ہفتے کے دن مچھلیاں پکڑنا ممنوع تھا۔ ٢۔ یہودیوں نے ہفتہ کے دن کا احترام نہیں کیا۔ ٣۔ شعائر اللہ کا احترام نہ کرنے سے قومیں ذلیل ہوجاتی ہیں۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

دوسری جگہ قرآن کریم نے سبت کے احکام کی خلاف ورزی کی تفصیلات بیان کی ہیں ۔ “ اور ذرا ان سے اس بستی کا حال بھی پوچھئے ، جو سمندر کے کنارے واقع تھی ۔ انہیں یاد دلاؤ کہ وہاں کے لوگ سبت (ہفتہ) کے دن احکام الٰہی کی خلاف ورزی کرتے تھے اور یہ کہ مچھلیاں سبت ہی کے دن ابھر ابھر کر سطح پر ان کے سامنے آتی تھیں اور سبت کے سوا باقی دنوں میں نہیں آتی تھیں۔ “ (٧۔ ٢١٣) بنی اسرائیل نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی تھی کہ ان کے آرام کے لئے ایک دن کو مقدس قرار دیا جائے ۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے سبت کے دن کو مقدس قرار دیا اور اس دن دنیاوی معاش کے لئے کوئی کام کرنا حرام قرار دیا۔ اس کے بعد انہیں اس آزمائش میں ڈالا کہ ہفتے کے دن تمام مچھلیاں بڑی کثرت سے دریا کی سطح پر نکل آتیں اور دسرے دنوں میں غائب ہوتیں۔ یہ ایسی آزمائش تھی ، جس کے مقابلے میں یہود نہ ٹھہر سکے ۔ ان کے لئے ثابت قدمی کیسے ممکن تھی ۔ ایسا بہترین شکار بالکل قریب مل رہا تھا ۔ انہیں اس کے سوا اور کیا چاہئے تھا ۔ کیا محض عہدوپیمان کی خاطر وہ اس شکارکو جانے دیتے ۔ یہودیوں سے بہرحال یہ کام نہیں ہونے کا ۔ یہ تو ان کے مزاج کے خلاف ہے ۔ فَقُلْنَا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِينَ ” ہم نے انہیں کہہ دیا کہ بندربن جاؤ اور اس حال میں رہو کہ ہر طرف سے دھتکار پھٹکار تم پر پڑے۔ “ اللہ کا عہد تور کر بہرحال وہ اس سزا کے مستحق بن چکے تھے ۔ وہ اس بات کے مستحق تھے کہ حیوان بن جائیں کیونکہ انسان تو ایک صاحب ارادہ مخلوق ہے اور وہ اس مقام سے نیچے گرگئے تھے۔ ظاہر ہے کوئی حیوان اپنے پیٹ سے بلند ہوکر سوچ نہیں سکتا ۔ چناچہ جونہی انہوں نے انسان کی خصوصیت اولیٰ یعنی ٹھوس اور بلند ارادہ اور خداوند کریم کے ساتھ کئے ہوئے عہد پر قائم رہنے کا عزم صمیم ........ کو ترک کیا تو وہ مقام انسایت سے گر کر بہمیت کے درجے میں آگئے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ان کے جسم بھی بندر کے جسموں میں تبدیل ہوگئے ہوں ۔ ہوسکتا ہے کہ روح ، فکر ، شعور اور مزاج کے اعتبار سے وہ بندر بن گئے ہوں اور بندروں جیسی حرکتیں کرتے ہوں کیونکہ فکر کا پر تو ہمیشہ چہرے ، شکل وہیبت اور حرکات سکنات پر پڑتا ہے ۔ انسان کی ظاہری حالت پر اس کی فکر کے گہرے اثرات پڑتے ہیں ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

یہودیوں کا سنیچر کے دن میں زیادتی کرنا اور بندر بنا دیا جانا جیسے مسلمانوں کے لیے جمعہ کا دن معظم قرار دیا گیا ہے اسی طرح سے یہود کے لیے سنیچر کے دن کو معظم قرار دیا گیا تھا۔ اور اس کی تعظیم کے لیے یہ حکم بھی تھا کہ اس دن مچھلی کا شکار نہ کریں ایک طرف تو یہ حکم تھا اور دوسری طرف ان کا امتحان تھا اور وہ امتحان اس طرح تھا کہ دوسرے دنوں میں مچھلیاں عام حالات کے مطابق پانی میں اندر ہی رہتی تھیں اور سنیچر کے دن خوب ابھر ابھر کر پانی پر آجاتی تھیں جس کا تذکرہ سورة اعراف کی آیت (وَسْءَلْھُمْ عَنِ الْقَرْیَۃِ الَّتِیْ کَانَتْ حَاضِرَۃَ الْبَحْرِ ) میں فرمایا ہے چونکہ سنیچر کے دن مچھلیاں خوب ابھر کر سامنے آجاتی تھیں اس لیے ان لوگوں نے ان کو پکڑنے کے لیے حیلے نکالے اور یہ کہا کہ سنیچر کا دن آنے سے پہلے جال اور مچھلی پکڑنے کے کانٹے پہلے سے پانی میں ڈال دیتے تھے۔ چناچہ وہ ان میں پھنس کر رہ جاتی تھیں جب سنیچر کا دن گزر جاتا تھا تو ان کو پکڑ لیتے تھے اور اپنے نفسوں کو سمجھا لیتے تھے کہ ہم نے سنیچر کے دن ایک مچھلی بھی نہیں پکڑی وہ تو خود سے جالوں میں اور کانٹوں میں آگئیں اور یہ جال اور کانٹے ہم نے جمعہ کے دن ڈالے تھے ان کو منع کرنے والوں نے منع کیا تو نہ مانے لہٰذا اللہ پاک کی طرف سے ان پر یہ عذاب آیا کہ ان کو بندر بنا دیا گیا۔ جب یہ لوگ بندر بنا دیے گئے تو بندروں کی طرح آوازیں نکالتے تھے ان کی دمیں بھی پیدا ہوگئیں جو لوگ ان کو منع کرتے تھے وہ ان کے پاس گئے اور کہا کہ کیا ہم نے تم کو منع نہیں کیا تھا تو وہ سر ہلا کر جواب دیتے تھے۔ سورۃ مائدہ میں فرمایا (وَ جَعَلَ مِنْھُمُ الْقِرَدَۃَ وَ الْخَنَازِیْرَ ) اس میں بتایا ہے کہ بندر اور خنزیر بنا دیے گئے یہ خنزیر بنا دینے کا واقعہ اسی واقعہ سے متعلق ہے جبکہ سنیچر کے دن مچھلیاں پکڑنے کے جرم میں بندر بنا دیے گئے تھے یا اور کسی موقعہ سے متعلق ہے۔ یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ اس بارے میں کوئی صحیح روایت نہیں ملی۔ البتہ تفسیر ابن کثیر میں آیت بالا (وَ لَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِیْنَ اعْتَدَوْا مِنْکُمْ فِی السَّبْتِ ) کے ذیل میں حضرت ابن عباس نے نقل کیا ہے کہ سنیچر کے دن زیادتی کرنے والے بندر بنا دیے گئے اور خنزیر بھی، ان میں جو جوان تھے وہ بندر ہوگئے اور جو بوڑھے تھے وہ خنزیر بنا دیے گئے۔ حضرت ابن عباس سے یہ بھی منقول ہے کہ جو قوم مسخ ہوئی ہے وہ مسخ شدہ حالت میں تین دن سے زیادہ نہیں رہی ان تین دنوں میں انہوں نے کچھ کھایا پیا نہیں اور ان کی نسل بھی نہیں چلی۔ یہ جو بندروں اور خنزیروں کی نسلیں ہیں مسخ شدہ قوموں کی نسلیں نہیں ہیں بلکہ یہ سب اللہ تعالیٰ کی مستقل مخلوق ہے۔ الجامع الصغیر میں بروایت حضرت ام سلمہ (رض) حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد نقل کیا ہے۔ مَا مسخ اللّٰہ تعالیٰ من شیء فکان لہ عقب و لا نسل رمزلہ السیوطی بالحسن قال الھیثمی فیہ لیث بن سلیم مدلس و بقیۃ رجالہ رجال الصحیح۔ (کما فی فیض القدیر ص ٤٦٦ ج ٥) اس واقعہ کی مزید تفصیل انشاء اللہ تعالیٰ سورة اعراف میں بیان ہوگی اللہ تعالیٰ کی طرف سے معاصی کی وجہ سے کئی طرح سے عذاب آتا رہا ہے ان میں سے ایک طریقہ صورتیں مسخ کر کے ہلاک کرنے کا بھی تھا امت محمدیہ علی صاحبھا الصلوٰۃ والتحیۃ اب تک مسخ کے عذاب سے محفوظ چلی آرہی ہے لیکن قرب قیامت میں مسخ ہوگا۔ جیسا کہ سنن الترمذی کتاب الفتن میں حدیث اذا اتخذ الفئی دولا کے آخر میں تصریح ہے اور صحیح بخاری کی ایک حدیث میں بھی مسخ کیے جانے کا ذکر ہے (مشکوٰۃ ص ٤٥٦) ؛ جتنے بھی عذاب آئے سب میں عبرت ہے ان لوگوں کے لیے بھی جو عذاب کے وقت موجود تھے اور ان کے لیے بھی جو بعد میں آنے والے ہیں اور ان عذابوں میں نصیحت بھی ہے اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے خاص کر یہ مسخ کا عذاب تو بہت ہی زیادہ عبرت ناک ہے ہلاک تو ہو ہی گئے لیکن ہلاکت سے پہلے تین دن جو بندر رہے اس میں سب کے لیے بہت بڑی عبرت اور نصیحت ہے اسی لیے فرمایا کہ ہم نے اس کو عبرت بنا دیا ان لوگوں کے لیے جو اس وقت موجود تھے اور جو بعد میں آنے والے ہیں اور نصیحت بنا دیا ڈرنے والوں کے لیے فَجَعَلْنٰھَا کی ضمیر عقوبت کی طرف یا قریٰ کی طرف راجع ہے جس سے اہل قریٰ مراد ہیں (لِمَا بَیْنَ یَدَیْھَا وَمَا خَلْفَھَا) کی تفسیر کرتے ہوئے مفسر بیضاوی لکھتے ہیں کہ جس زمانہ میں ان کو مسخ کرنے کی سزا دی گئی اس زمانہ کے لوگوں کے لیے اور ان کے بعد آنے والوں کے لیے عبرت ہوجائے اور ایک معنی یہ لکھا ہے کہ جہاں یہ واقعہ پیش آیا وہاں کے قریب کی بستیوں اور دور کی بستیوں کے لیے عبرت ہوجائے۔ حضرت ابن عباس سے بھی یہ دوسرا معنی منقول ہے۔ تفسیر ابن کثیر میں ہے۔ عن ابن عباس لما بین یدھا من القری و ما خلفھا من القری۔ اس کے بعد حضرت ابو العالیہ کا قول نقل کیا ہے۔ و ما خلفھا لما بقی ما بعد ھم من الناس من بنی اسرائیل ان یعملوا مثل عملھم۔ یعنی ماخلفھا سے وہ بنی اسرائیل مراد ہیں جو اس عبرت ناک واقعہ کے بعد باقی رہے یہ واقعہ ان کے لیے عبرت ہے تاکہ اپنے اسلاف جیسا عمل نہ کریں۔ حضرت حسن اور قتادہ (رض) نے مَوْعِظَۃً لِّلْمُتَّقِیْنَ کے بارے میں فرمایا کہ ان لوگوں کے بعد میں جو آنے والے ہیں ان کے لیے نصیحت ہے وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈریں گے اور خوف کھائیں گے اور عطیہ عوفی نے کہا ہے کہ المتقین سے حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت مراد ہے۔ مفسر ابن کثیر نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ ان چیزوں کا ارتکاب نہ کرو جن کا یہودیوں نے ارتکاب کیا حیلوں کے ذریعہ اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال مت کرلو۔ (وہذا اسناد جید) یہود نے ایک اور بھی حیلہ کیا اور وہ یہ کہ ان پر چربی حرام کردی گئی تھی۔ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس کو انہوں نے اچھی صورت میں بنا کر بیچ دیا۔ (بخاری و مسلم کما فی مشکوۃ ص ٢٤١) شراح حدیث نے اچھی صورت میں بنانے کا مطلب یہ لکھا ہے کہ چربی کو انہوں نے پگھلا دیا اور اس میں کچھ ملا کر دوسرا کوئی نام رکھ کر اس کو بیچ دیا۔ اور اس کی قیمت کھا گئے۔ امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والتحیہ میں اس طرح کے حیلے رواج پا گئے ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ لوگ شراب کو حلال کرلیں گے عرض کیا وہ کیسے ہوگا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی حرمت واضح طور پر نازل فرمائی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ یسمونھا بغیر اسمھا فیستحلونھا یعنی وہ شراب کا دوسرا نام رکھ لیں گے اور اس طرح اس کو حلال کرلیں گے۔ (رواہ الدارمی مشکوۃ ص ٤٦١) چنانچہ آج کل ایسی باتیں سننے میں آرہی ہیں، شراب پیتے ہیں، نام دوسرا رکھ لیا ہے۔ سود لیتے ہیں اس کا نام نفع رکھ لیا ہے۔ زکوٰۃ کی ادائیگی سے بچنے کیلئے تدبیریں کرلیتے ہیں۔ تصویریں اور مورتیاں حلال کرنے کے لیے حیلے تراشتے ہیں۔ ڈاڑھی مونڈنے کے جواز کے لیے حجتیں نکالتے ہیں۔ ایسے حیلوں اور بہانوں کی تفصیلات بہت ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

135 ۔ سبت یعنی ہفتے کا دن دین یہود میں متبرک اور مقدس دن تھا جیسا کہ مسلمانوں کے لیے جمعہ اور عیسائیوں کے لیے اتوار ہے ہفتہ کے دن انہیں مچھلی کے شکار سے روکا گیا تھا مگر انہوں نے خدا کے اس حکم کی پرواہ نہ کی اور ہفتہ کے دن بھی شکار سے باز نہ آئے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں عبرتناک سزا دی جس کا ذکر آگے آرہا ہے۔ یہ واقعہ حضرت داوٗد (علیہ السلام) کے زمانے میں پیش آیا اور جن اسرائیلیوں کا یہ واقعہ ہے وہ ساحل سمندر پر واقع ایلہ نامی گاؤں کے باشندے تھے (روح ص 282 ج 1، کبیر ص 553 ج 1)136 ہم نے ان کی شکلیں مسخ کردیں اور انہیں ذلیل بندر بنا دیا یہ مسخ حقیق اور حسی تھا مجازی اور معنوی نہیں تھا اور مسخ کے بعد تین دن کے اندر اندر سب ہلاک ہوگئے۔ وظاھر القران انہم مسخوا قردۃ علی الحقیقۃ وعلی ذلک جمہور المفسرین وھو الصحیح۔۔۔۔ ولم یعیوشوا اکثر من ثلثہ ایام (روح صص 283 ج 1) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے موجودہ بنی اسرائیل کو خطاب کر کے اور فرمایا کہ اپنے اسلام کے عصیان وعدوان کا یہ واقعہ تو تم اچھی طرح جانتے ہو یہ تمہاری آبائی تاریخ کا ایک مسلم واقعہ ہے اور ان کا جو حشر ہوا وہ بھی تمہیں بخوبی معلوم تو اب اس واقعہ سے اندازہ کرلو کہ اگر تم اسی طرح عصیان وعدوان اور تمرد وسرکشی میں رہے تو تم پر بھی قہر خداوندی نازل ہو کر رہے گا۔ انہ تعالیٰ لما اخبرھم بما عامل بہ اصحاب السبت فکانہ یقول لہم اما تخافوان ان ینزل علیکم بسبب تمردکم ما نزل علیہم من العذاب فلا تغتروا بالامہال المحدود علیکم (کبیر ص 553 ج 1)

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi