Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 96

سورة البقرة

وَ لَتَجِدَنَّہُمۡ اَحۡرَصَ النَّاسِ عَلٰی حَیٰوۃٍ ۚ ۛ وَ مِنَ الَّذِیۡنَ اَشۡرَکُوۡا ۚ ۛ یَوَدُّ اَحَدُہُمۡ لَوۡ یُعَمَّرُ اَلۡفَ سَنَۃٍ ۚ وَ مَا ہُوَ بِمُزَحۡزِحِہٖ مِنَ الۡعَذَابِ اَنۡ یُّعَمَّرَ ؕ وَ اللّٰہُ بَصِیۡرٌۢ بِمَا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۹۶﴾٪  11

And you will surely find them the most greedy of people for life - [even] more than those who associate others with Allah . One of them wishes that he could be granted life a thousand years, but it would not remove him in the least from the [coming] punishment that he should be granted life. And Allah is Seeing of what they do.

بلکہ سب سے زیادہ دنیا کی زندگی کا حریص اے نبی ، آپ انہیں کو پائیں گے ، یہ حرص زندگی میں مشرکوں سے بھی زیادہ ہیں ان میں سے تو ہر شخص ایک ایک ہزار سال کی عمر چاہتا ہے ، گو یہ عمر دیا جانا بھی انہیں عذاب سے نہیں چھڑا سکتا ، اللہ تعالٰی ان کے کاموں کو بخوبی دیکھ رہا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلَى حَيَاةٍ ... But they will never long for it because of what their hands have sent before them (i.e. what they have done). And Allah is Aware of the Zalimin. And verily, you will find them (the Jews) the greediest of mankind for life. meaning, greedy to live longer, because they know their evil end, and the only reward they will have with Allah is total loss. This life is a prison for the believer and Paradise for the disbeliever. Therefore, the People of the Book wish they could delay the Hereafter, as much as possible. However, they shall certainly meet what they are trying to avoid, even if they are more eager to delay the Hereafter than the polytheists who do not have a divine book. ... وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُواْ يَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ يُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَةٍ ... and (even greedier) than those who ascribe partners to Allah. One of them wishes that he could be given a life of a thousand years. ... وَمَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذَابِ أَن يُعَمَّرَ ... But the grant of such life will not save him even a little from (due) punishment. Muhammad bin Ishaq narrated that Ibn Abbas commented, "Long life shall not save them from torment. Certainly, the polytheists do not believe in resurrection after death, and they would love to enjoy a long life. The Jews know the humiliation they will suffer in the Hereafter for knowingly ignoring the truth." Also, Abdur-Rahman bin Zayd bin Aslam said, "The Jews are most eager for this life. They wish they could live for a thousand years. However, living for a thousand years will not save them from torment, just as Iblis - Satan - long life did not benefit him, due to being a disbeliever." ... وَاللّهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ And Allah is Seer of what they do. meaning, "Allah knows what His servants are doing, whether good or evil, and will compensate each of them accordingly."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

96۔ 1 موت کی آرزو تو کجا یہ تو دنیوی زندگی کے تمام لوگوں حتٰی کہ مشرکین سے بھی زیادہ حریص ہیں لیکن عمر کی یہ درازی انہیں عذاب الٰہی سے نہیں بچا سکے گی، ان آیات سے یہ معلوم ہوا کہ یہودی اپنے ان دعو وں میں یکسر جھوٹے تھے کہ وہ اللہ کے محبوب اور چہیتے ہیں، یا جنت کے مستحق وہی ہیں اور دوسرے جہنمی، کیونکہ فی الواقع اگر ایسا ہوتا، یا کم از کم انہیں اپنے دعو وں کی صداقت پر پورا یقین ہوتا، تو یقینا وہ مباہلہ کرنے پر آمادہ ہوجاتے، تاکہ ان کی سچائی واضح اور مسلمانوں کی غلطیاں ظاہر ہوجاتیں۔ مباہلے سے پہلے یہودیوں کا گریز اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ گو وہ زبان سے اپنے بارے میں خوش کن باتیں کرلیتے تھے، لیکن ان کے دل اصل حقیقت سے آگاہ تھے اور جانتے تھے کہ اللہ کی بارگاہ میں جانے کے بعد ان کا حشر وہی ہوگا جو اللہ نے اپنے نافرمانوں کے لئے طے کر رکھا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١٣] یہود کی جینے کی ہوس :۔ مشرکین نہ آخرت کے قائل تھے نہ عذاب وثواب کے اور نہ جنت و دوزخ کے لہذا ان کو مرنے کے بعد کوئی خطرہ نظر نہیں آتا تھا۔ جب کہ یہود روز جزا کے قائل تھے، اور اپنی بدکرداریوں کا حال بھی انہیں خوب معلوم تھا۔ لہذا وہ تادیر دنیا میں زندہ رہنے کے لیے مشرکوں کی نسبت بہت زیادہ حریص تھے اور آیت علیٰ حیوۃ کے لفظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہود کو بس دنیا کی زندگی کی ہوس ہے۔ وہ زندگی خواہ عزت کی ہو یا ذلت کی۔ اس سے انہیں کچھ غرض نہیں۔ حالانکہ یہی لمبی زندگی آخرت میں انہیں بچانا تو درکنار ان کے لیے اور زیادہ عذاب کا سبب بن جائے گی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(عَلٰي حَيٰوةٍ ) اس پر تنوین تنکیر کی ہے، اس لیے ترجمہ ” کسی بھی طرح زندہ رہنے پر “ کیا گیا ہے، یعنی آپ یہود کو زندہ رہنے پر سب لوگوں سے زیادہ حریص پائیں گے، خواہ انھیں کسی بھی طرح زندہ رہنا پڑے، غلام بن کر یا عزت و آبرو کی بربادی کے ساتھ۔ مشرکین بھی زندہ رہنے کے بہت خواہش مند ہیں، کیونکہ ان کے سامنے صرف دنیا ہی کی لذتیں ہیں، آخرت پر ان کا یقین نہیں، آخرت سے متعلق انھیں نہ کچھ خوف ہے نہ امید، مگر یہودی زندہ رہنے پر ان سے بھی زیادہ حریص ہیں، کیونکہ مشرکین مرنے کے بعد زندہ ہونے کا عقیدہ ہی نہیں رکھتے، اس لیے وہ موت سے اتنا نہیں ڈرتے جتنا یہودی ڈرتے ہیں، جنھیں خوب علم ہے کہ نبی آخر الزمان کو جاننے پہچاننے کے باوجود ان کے ساتھ کفر کے نتیجے میں انھیں کیا رسوائی اٹھانا پڑے گی۔ اس لیے ان کا ہر شخص ہزار برس زندہ رہنے کی خواہش رکھتا ہے، خواہ کیسی ہی ذلیل زندگی ہو، کیونکہ آخرت کے عذاب سے تو بہرحال وہ بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کے کسی شخص کو لمبی عمر مل بھی جائے تو وہ اسے عذاب سے بچانے والی ہرگز نہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

This verse shows the basic weakness of the Jews which did not allow them to accept the challenge proposed in Verse 94, and thus exposes the hollowness of their claim to the blessings of the other world being reserved for them. The Holy Qur&an puts a special emphasis on the fact that the Jews loved physical life much more than did the Arab polytheists. Such an inclination should not have been surprising on the part of the latter, for, after all, they did not believe in the other world, and physical life was the be-all and end-all for them. But the Jews acknowledged the existence of the other world, and even had the illusion that they alone deserved its joys, and yet it was they who, above all others, wished to live in this world as long as possible. This very desire shows how baseless their pretention was, and how they themselves knew that they would have to face the fires of Hell in the other world, and that physical life was, as long as it lasted, a kind of protection against their final fate.

خلاصہ تفسیر : (بعض یہود نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سن کر کہ جبرئیل (علیہ السلام) وحی لاتے ہیں کہا کہ ان سے تو ہماری عداوت ہے ہماری قوم پر واقعات ہائلہ اور احکامات شاقہ انہی کے ذریعے آتے رہے ہیں میکائیل خوب ہیں کہ بارش اور رحمت ان کے متعلق ہے اگر وہ وحی لایا کرتے تو ہم مان لیتے اس پر حق تعالیٰ رد فرماتے ہیں کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ (ان سے) یہ کہئے کہ جو شخص جبرئیل سے عداوت رکھے (وہ جانے لیکن اس امر کو قرآن کے نہ ماننے میں کیا دخل ؟ کیونکہ اس میں تو وہ سفیر محض ہیں) سو (سفارت کے طور پر) انہوں نے یہ قرآن پاک آپ کے قلب تک پہنچا دیا ہے خداوندی حکم سے (تو لانے والے کی خصوصیت کیوں دیکھی جاتی ہے ؟ البتہ خود قرآن کو دیکھو کہ کیسا ہے سو) اس کی (خود) یہ حالت ہے کہ تصدیق کر رہا ہے اپنے سے قبل والی (آسمانی) کتابوں کی اور رہنمائی کر رہا ہے (مصالح ضروریہ کی) اور خوشخبری سنا رہا ہے ایمان والوں کو (اور کتب سماویہ کی یہی شان ہوتی ہے پس قرآن ہر حال میں کتاب سماوی اور قابل اتباع ٹھرا پھر جبریل (علیہ السلام) کی عداوت سے اس کو نہ ماننا نری حماقت ہے اب رہا خود مسئلہ عداوت جبرئیل (علیہ السلام) کا سو اس کا فیصلہ یہ ہے کہ حق تعالیٰ کے نزدیک خود اللہ تعالیٰ سے عداوت رکھنا یا اس کے دوسرے ملائکہ سے یا اس کے رسولوں سے یا خود میکائیل سے جن کی دوستی کا دم بھرتے ہیں ان سب سے عداوت رکھنا اور جب جبرئیل سے عداوت رکھنا یہ سب ہم پلہ شمار کئے جاتے ہیں اور ان سب عداوتوں کا قانون یہ ہے کہ) جو (کوئی) شخص خدا تعالیٰ کا دشمن ہو (تو) اور فرشتوں کا ہو (تو) اور پیغمبروں کا ہو (تو) اور جبریل کا (ہو تو) اور میکائیل کا (ہو) تو (ان سب کا وبال یہ ہے کہ) اللہ تعالیٰ دشمن ہے ایسے کافروں کا،

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَتَجِدَنَّھُمْ اَحْرَصَ النَّاسِ عَلٰي حَيٰوۃٍ۝ ٠ ۚۛ وَمِنَ الَّذِيْنَ اَشْرَكُــوْا۝ ٠ ۚۛ يَوَدُّ اَحَدُ ھُمْ لَوْ يُعَمَّرُ اَلْفَ سَـنَۃٍ۝ ٠ ۚ وَمَا ھُوَبِمُزَحْزِحِہٖ مِنَ الْعَذَابِ اَنْ يُّعَمَّرَ۝ ٠ ۭ وَاللہُ بَصِيْرٌۢ بِمَا يَعْمَلُوْنَ۝ ٩٦ ۧ وجد الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه . ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] . ( و ج د ) الو جود ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔ حرص الحِرْص : فرط الشّره، وفرط الإرادة . قال عزّ وجلّ : إِنْ تَحْرِصْ عَلى هُداهُمْ [ النحل/ 37] ، أي : إن تفرط إرادتک في هدایتهم، وقال تعالی: وَلَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلى حَياةٍ [ البقرة/ 96] ، ( ح ر ص ) الحرص شدت آزیا شرط ارادہ ۔ قرآن میں ہے ۔ إِنْ تَحْرِصْ عَلى هُداهُمْ [ النحل/ 37] یعنی ان کی ہدایت کے لئے تمہارے دل میں شدید آزر اور خواہش ہو وَلَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلى حَياةٍ [ البقرة/ 96] بلکہ ان کو تم اور لوگوں سے زندگی پر کہیں زیادہ حریص دیکھو گے ۔ حيى الحیاة تستعمل علی أوجه : الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] ، الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا، قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] ، الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی: أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة، وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري، فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ. ( ح ی ی ) الحیاۃ ) زندگی ، جینا یہ اصل میں حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔ ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔ ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات/ 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔ شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔ ودد الودّ : محبّة الشیء، وتمنّي كونه، ويستعمل في كلّ واحد من المعنيين علی أن التّمنّي يتضمّن معنی الودّ ، لأنّ التّمنّي هو تشهّي حصول ما تَوَدُّهُ ، وقوله تعالی: وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً [ الروم/ 21] ( و د د ) الود ۔ کے معنی کسی چیز سے محبت اور اس کے ہونے کی تمنا کرنا کے ہیں یہ لفظ ان دونوں معنوں میں الگ الگ بھی استعمال ہوتا ہے ۔ اس لئے کہ کسی چیز کی تمنا اس کی محبت کے معنی کو متضمعن ہوتی ہے ۔ کیونکہ تمنا کے معنی کسی محبوب چیز کی آرزو کرنا کے ہوتے ہیں ۔ اور آیت : ۔ وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً [ الروم/ 21] اور تم میں محبت اور مہربانی پیدا کردی ۔ أحد أَحَدٌ يستعمل علی ضربین : أحدهما : في النفي فقط والثاني : في الإثبات . فأمّا المختص بالنفي فلاستغراق جنس الناطقین، ويتناول القلیل والکثير علی طریق الاجتماع والافتراق، نحو : ما في الدار أحد، أي : لا واحد ولا اثنان فصاعدا لا مجتمعین ولا مفترقین، ولهذا المعنی لم يصحّ استعماله في الإثبات، لأنّ نفي المتضادین يصح، ولا يصحّ إثباتهما، فلو قيل : في الدار واحد لکان فيه إثبات واحدٍ منفرد مع إثبات ما فوق الواحد مجتمعین ومفترقین، وذلک ظاهر الإحالة، ولتناول ذلک ما فوق الواحد يصح أن يقال : ما من أحدٍ فاضلین «1» ، کقوله تعالی: فَما مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حاجِزِينَ [ الحاقة/ 47] . وأمّا المستعمل في الإثبات فعلی ثلاثة أوجه : الأول : في الواحد المضموم إلى العشرات نحو : أحد عشر وأحد وعشرین . والثاني : أن يستعمل مضافا أو مضافا إليه بمعنی الأول، کقوله تعالی: أَمَّا أَحَدُكُما فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْراً [يوسف/ 41] ، وقولهم : يوم الأحد . أي : يوم الأول، ويوم الاثنین . والثالث : أن يستعمل مطلقا وصفا، ولیس ذلک إلا في وصف اللہ تعالیٰ بقوله : قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ [ الإخلاص/ 1] ، وأصله : وحد ولکن وحد يستعمل في غيره نحو قول النابغة : كأنّ رحلي وقد زال النهار بنا ... بذي الجلیل علی مستأنس وحد ( ا ح د ) احد کا لفظ دو طرح استعمال ہوتا ہے کبھی صرف نفی میں اور کبھی صرف اثبات میں ۔ نفی کی صورت میں ذوی العقول کے لئے آتا ہے اور استغراق جنس کے معنی دیتا ہے خواہ قلیل ہو یا کثیر مجتمع ہو یا متفرق جیسے ما فی الدار احد ( گھر میں کوئی بھی نہیں ہے ) یعنی نہ ایک ہے اور نہ دو یا دو سے زیادہ نہ مجتمع اور نہ ہی متفرق طور پر اس معنی کی بنا پر کلام مثبت میں اس استعمال درست نہیں ہے کیونکہ دو متضاد چیزوں کی نفی تو صحیح ہوسکتی ہے لیکن دونوں کا اثبات نہیں ہوتا جب فی الدار واحد کہا جائے تو ظاہر ہی کہ ایک اکیلے کا گھر میں ہونا تو ثابت ہوگا ہی مگر ساتھ ہی دو یا دو سے زیادہ کا بھی اجتماعا و افتراقا اثبات ہوجائے گا پھر احد کا لفظ چونکہ مافوق الواحد کی بھی نفی کرتا ہے اس لئے ما من احد فاضلین ۔ کہناصحیح ہوگا ۔ چناچہ قرآن میں ہے { فَمَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ } ( سورة الحاقة 47) پھر تم میں سے کوئی بھی ہمیں اس سے روکنے والا نہ ہوگا ۔ کلام مثبت میں احد کا استعمال تین طرح پر ہوتا ہے (1) عشرات کے ساتھ ضم ہوکر جیسے احد عشر ( گیارہ ) احد وعشرون ( اکیس ) وغیرہ (2) مضاف یا مضاف الیہ ہوکر اس صورت میں یہ اول ( یعنی پہلا کے معنی میں ہوگا جیسے فرمایا : { أَمَّا أَحَدُكُمَا فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْرًا } ( سورة يوسف 41) یعنی تم میں سے جو پہلا ہے وہ تو اپنے آقا کو شراب پلایا کرے گا ۔ یوم الاحد ہفتے کا پہلا دن یعنی اتوار (3) مطلقا بطور وصف ہی ہوگا ( اور اس کے معنی ہوں گے یکتا ، یگانہ بےنظیر ، بےمثل ) جیسے فرمایا :۔ { قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ } ( سورة الإِخلَاص 1) کہو کہ وہ ( ذات پاک ہے جس کا نام ) اللہ ہے ۔ ایک ہے ۔ احد اصل میں وحد ہے لیکن وحد کا لفظ غیر باری تعالیٰ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ نابغہ نے کہا ہے ع ( بسیط) (10) کان رجلی وقد زال النھار بنا بذی الجلیل علی مستأنس وحددن ڈھلے وادی ذی الجلیل میں میری اونٹنی کی تیز رفتاری کا یہ عالم تھا کہ جیسے میرا پالان بجائے اونٹنی کے اس گورخر پر کسا ہوا ہو جو تنہا ہو اور انسان کی آہٹ پاکر ڈر کے مارے تیز بھاگ رہا ہو ۔ لو لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] . ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ عمر ( زندگی) والْعَمْرُ والْعُمُرُ : اسم لمدّة عمارة البدن بالحیاة، فهو دون البقاء، فإذا قيل : طال عُمُرُهُ ، فمعناه : عِمَارَةُ بدنِهِ بروحه، وإذا قيل : بقاؤه فلیس يقتضي ذلك، فإنّ البقاء ضدّ الفناء، ولفضل البقاء علی العمر وصف اللہ به، وقلّما وصف بالعمر . والتَّعْمِيرُ : إعطاء العمر بالفعل، أو بالقول علی سبیل الدّعاء . قال : أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ ما يَتَذَكَّرُ فِيهِ [ فاطر/ 37] ، وَما يُعَمَّرُ مِنْ مُعَمَّرٍ وَلا يُنْقَصُ مِنْ عُمُرِهِ [ فاطر/ 11] ، وَما هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذابِ أَنْ يُعَمَّرَ [ البقرة/ 96] ، وقوله تعالی: وَمَنْ نُعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ [يس/ 68] ، قال تعالی: فَتَطاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ [ القصص/ 45] ، وَلَبِثْتَ فِينا مِنْ عُمُرِكَ سِنِينَ [ الشعراء/ 18] . والعُمُرُ والْعَمْرُ واحد لکن خُصَّ القَسَمُ بِالْعَمْرِ دون العُمُرِ «3» ، نحو : لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ [ الحجر/ 72] ، وعمّرک الله، أي : سألت اللہ عمرک، وخصّ هاهنا لفظ عمر لما قصد به قصد القسم، ( ع م ر ) العمارۃ اور العمر والعمر اس مدت کو کہتے میں جس میں بدن زندگی کے ساتھ آباد رہتا ہے اور یہ بقا سے فرو تر ہے چنناچہ طال عمر ہ کے معنی تو یہ ہوتے ہیں کہ اس کا بدن روح سے آباد رہے لیکن طال بقاء ہ اس مفہوم کا مقتضی نہیں ہے کیونکہ البقاء تو فناء کی ضد ہے اور چونکہ بقاء کو عمر پر فضیلت ہے اس لئے حق تعالیٰ بقاء کے ساتھ تو موصؤف ہوتا ہے مگر عمر کے ساتھ بہت کم متصف ہوتا ہے ۔ التعمیر کے معنی ہیں بالفعل عمر بڑھانا نا یا زبان کے ساتھ عمر ک اللہ کہنا یعنی خدا تیری عمر دراز کرے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ ما يَتَذَكَّرُ فِيهِ [ فاطر/ 37] کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی تھی کہ اس میں جو سوچنا چاہتا سوچ لیتا ۔ وَما يُعَمَّرُ مِنْ مُعَمَّرٍ وَلا يُنْقَصُ مِنْ عُمُرِهِ [ فاطر/ 11] اور نہ کسی بڑی عمر والے کو عمر زیادہ دی جاتی ہے اور نہ اس کی عمر کم کی جاتی ہے ۔ وَما هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذابِ أَنْ يُعَمَّرَ [ البقرة/ 96] اگر اتنی لمبی عمر اس کو مل بھی جائے تو اسے عذاب سے تو نہیں چھڑا سکتی ۔ اور آیت : ۔ وَمَنْ نُعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ [يس/ 68] اور جس کو بڑی عمر دیتے ہیں اسے خلقت میں اوندھا کردیتے ہیں ۔ فَتَطاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ [ القصص/ 45] یہاں تک کہ ( اسی حالت میں ) ان کی عمر ین بسر ہوگئیں ۔ وَلَبِثْتَ فِينا مِنْ عُمُرِكَ سِنِينَ [ الشعراء/ 18] اور تم نے برسوں ہمارے عمر بسر کی ۔ العمر والعمر کے ایک ہی معنی ہیں لیکن قسم کے موقعہ پر خاص کر العمر کا لفظ ہی استعمال ہوتا ہے ۔ عمر کا لفظ نہیں بولا جاتا جیسے فرمایا : ۔ لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ [ الحجر/ 72] تمہاری زندگی کی قسم وہ اپنی مستی میں عمرک اللہ خدا تمہاری عمر دارز کرے یہاں بھی چونکہ قسم کی طرح تاکید مراد ہے اس لئے لفظ عمر کو خاص کیا ہے ۔ مزحزح اسم فاعل من زحزح الرباعيّ المجرّد، فهو علی وزن مضارعه بإبدال حرف المضارعة ميما مضمومة وکسر ما قبل آخره مزحزح اسم فاعل کا صیغہ واحد مذکر۔ الزحزحۃ مصدر بمعنی دور ہٹانا۔ برطرف کرنا۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے فمن زحزح عن النار (3:184) پس جو شخص آگ سے دور رکھا گیا۔ عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا عمر ( زندگی) والْعَمْرُ والْعُمُرُ : اسم لمدّة عمارة البدن بالحیاة، فهو دون البقاء، فإذا قيل : طال عُمُرُهُ ، فمعناه : عِمَارَةُ بدنِهِ بروحه، وإذا قيل : بقاؤه فلیس يقتضي ذلك، فإنّ البقاء ضدّ الفناء، ولفضل البقاء علی العمر وصف اللہ به، وقلّما وصف بالعمر . والتَّعْمِيرُ : إعطاء العمر بالفعل، أو بالقول علی سبیل الدّعاء . قال : أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ ما يَتَذَكَّرُ فِيهِ [ فاطر/ 37] ، وَما يُعَمَّرُ مِنْ مُعَمَّرٍ وَلا يُنْقَصُ مِنْ عُمُرِهِ [ فاطر/ 11] ، وَما هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذابِ أَنْ يُعَمَّرَ [ البقرة/ 96] ، وقوله تعالی: وَمَنْ نُعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ [يس/ 68] ، قال تعالی: فَتَطاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ [ القصص/ 45] ، وَلَبِثْتَ فِينا مِنْ عُمُرِكَ سِنِينَ [ الشعراء/ 18] . والعُمُرُ والْعَمْرُ واحد لکن خُصَّ القَسَمُ بِالْعَمْرِ دون العُمُرِ «3» ، نحو : لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ [ الحجر/ 72] ، وعمّرک الله، أي : سألت اللہ عمرک، وخصّ هاهنا لفظ عمر لما قصد به قصد القسم، ( ع م ر ) العمارۃ اور العمر والعمر اس مدت کو کہتے میں جس میں بدن زندگی کے ساتھ آباد رہتا ہے اور یہ بقا سے فرو تر ہے چنناچہ طال عمر ہ کے معنی تو یہ ہوتے ہیں کہ اس کا بدن روح سے آباد رہے لیکن طال بقاء ہ اس مفہوم کا مقتضی نہیں ہے کیونکہ البقاء تو فناء کی ضد ہے اور چونکہ بقاء کو عمر پر فضیلت ہے اس لئے حق تعالیٰ بقاء کے ساتھ تو موصؤف ہوتا ہے مگر عمر کے ساتھ بہت کم متصف ہوتا ہے ۔ التعمیر کے معنی ہیں بالفعل عمر بڑھانا نا یا زبان کے ساتھ عمر ک اللہ کہنا یعنی خدا تیری عمر دراز کرے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ ما يَتَذَكَّرُ فِيهِ [ فاطر/ 37] کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی تھی کہ اس میں جو سوچنا چاہتا سوچ لیتا ۔ وَما يُعَمَّرُ مِنْ مُعَمَّرٍ وَلا يُنْقَصُ مِنْ عُمُرِهِ [ فاطر/ 11] اور نہ کسی بڑی عمر والے کو عمر زیادہ دی جاتی ہے اور نہ اس کی عمر کم کی جاتی ہے ۔ وَما هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذابِ أَنْ يُعَمَّرَ [ البقرة/ 96] اگر اتنی لمبی عمر اس کو مل بھی جائے تو اسے عذاب سے تو نہیں چھڑا سکتی ۔ اور آیت : ۔ وَمَنْ نُعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ [يس/ 68] اور جس کو بڑی عمر دیتے ہیں اسے خلقت میں اوندھا کردیتے ہیں ۔ فَتَطاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ [ القصص/ 45] یہاں تک کہ ( اسی حالت میں ) ان کی عمر ین بسر ہوگئیں ۔ وَلَبِثْتَ فِينا مِنْ عُمُرِكَ سِنِينَ [ الشعراء/ 18] اور تم نے برسوں ہمارے عمر بسر کی ۔ العمر والعمر کے ایک ہی معنی ہیں لیکن قسم کے موقعہ پر خاص کر العمر کا لفظ ہی استعمال ہوتا ہے ۔ عمر کا لفظ نہیں بولا جاتا جیسے فرمایا : ۔ لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ [ الحجر/ 72] تمہاری زندگی کی قسم وہ اپنی مستی میں عمرک اللہ خدا تمہاری عمر دارز کرے یہاں بھی چونکہ قسم کی طرح تاکید مراد ہے اس لئے لفظ عمر کو خاص کیا ہے ۔ بصیر البَصَر يقال للجارحة الناظرة، وللقوّة التي فيها، ويقال لقوة القلب المدرکة : بَصِيرَة وبَصَر، نحو قوله تعالی: فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] ، ولا يكاد يقال للجارحة بصیرة، ويقال من الأوّل : أبصرت، ومن الثاني : أبصرته وبصرت به وقلّما يقال بصرت في الحاسة إذا لم تضامّه رؤية القلب، وقال تعالیٰ في الأبصار : لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم/ 42] ومنه : أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف/ 108] أي : علی معرفة وتحقق . وقوله : بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة/ 14] أي : تبصره فتشهد له، وعليه من جو ارحه بصیرة تبصره فتشهد له وعليه يوم القیامة، ( ب ص ر) البصر کے معنی آنکھ کے ہیں ، نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ اور آنکھ سے دیکھنے کے لئے بصیرۃ کا لفظ استعمال نہیں ہوتا ۔ بصر کے لئے ابصرت استعمال ہوتا ہے اور بصیرۃ کے لئے ابصرت وبصرت بہ دونوں فعل استعمال ہوتے ہیں جب حاسہ بصر کے ساتھ روئت قلبی شامل نہ ہو تو بصرت کا لفظ بہت کم استعمال کرتے ہیں ۔ چناچہ ابصار کے متعلق فرمایا :۔ لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم/ 42] آپ ایسی چیزوں کو کیوں پوجتے ہیں جو نہ سنیں اور نہ دیکھیں ۔ اور اسی معنی میں فرمایا ؛ ۔ أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف/ 108] یعنی پوری تحقیق اور معرفت کے بعد تمہیں اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں ( اور یہی حال میرے پروردگار کا ہے ) اور آیت کریمہ ؛۔ بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة/ 14] کے معنی یہ ہیں کہ انسان پر خود اس کے اعضاء میں سے گواہ اور شاہد موجود ہیں جو قیامت کے دن اس کے حق میں یا اس کے خلاف گواہی دینگے عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩٦) اور اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان یہودیوں کو زندہ رہنے کا مشرکین عرب سے زیادہ شیدائی اور حریص پاؤ گے، ان میں سے ہر ایک اس بات کا متمنی ہے کہ وہ ایک ہزار سال تک جیتا رہے، جن میں سے ہر ایک چاہتا ہے کہ اس کی ہر شب، شب برات اور ہر روز روز عید ہو۔ (یعنی پوری زندگی خوشی اور عیش و عشرت کے ساتھ گزاریں) لیکن اگر یہ لوگ ایک ہزار سال تک بھی زندہ رہیں تب بھی اللہ کے عذاب سے چھٹکارا نہیں پاسکتے اور اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں اور حق بات سے تجاوز اور ان چیزوں سے جو یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف اور صفت کے متعلق خفیہ رکھتے ہیں بہت زیادہ جاننے والا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩٦ (وَلَتَجِدَنَّہُمْ اَحْرَصَ النَّاسِ عَلٰی حَیٰوۃٍ ج) (وَمِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا ج) ۔ یہ اس معاملے میں مشرکوں سے بھی بڑھے ہوئے ہیں۔ مشرکین نے اہل ایمان کے ساتھ مقابلہ کیا تو کھل کر کیا ‘ میدان میں آکر ڈٹ کر کیا ‘ اپنی جانیں اپنے باطل معبودوں کے لیے قربان کیں ‘ جبکہ یہودیوں میں یہ ہمت و جرأت قطعاً نہیں تھی کہ وہ جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان میں آسکیں۔ ان کے بارے میں سورة الحشر میں الفاظ وارد ہوئے ہیں : (لَا یُقَاتِلُوْنَکُمْ جَمِیْعًا الاَّ فِیْ قُرًی مُّحَصَّنَۃٍ اَوْ مِنْ وَّرَآءِ جُدُرٍ ط) (آیت ١٤) یہ سب مل کر بھی تم سے جنگ نہ کرسکیں گے مگر قلعہ بند بستیوں میں یا دیواروں کی اوٹ سے۔ چناچہ یہودک بھی بھی سامنے آکر مسلمانوں کا مقابلہ نہیں کرسکے۔ اس لیے کہ انہیں اپنی جانیں بہت عزیزتھیں۔ (یَوَدُّ اَحَدُہُمْ لَوْ یُعَمَّرُ اَلْفَ سَنَۃٍ ج) ۔ (وَمَا ہُوَ بِمُزَحْزِحِہٖ مِنَ الْعَذَابِ اَنْ یُّعَمَّرَ ط) ۔ اگر ان کو ان کی خواہش کے مطابق طویل زندگی دے بھی دی جائے تو یہ انہیں عذاب سے تو چھٹکارا نہیں دلا سکے گی۔ آخرت تو بالآخر آنی ہے اور انہیں ان کے کرتوتوں کی سزا مل کر رہنی ہے ۔ (وَاللّٰہُ بَصِیْرٌم بِمَا یَعْمَلُوْنَ

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

99. Tle Arabic text implies that the Jews were so frightened of death and so keen to remain alive that they did not mind whether they led an honourable and dignified existence, or whether their life was one of indignity and humiliation.

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :99 اصل میں عَلیٰ حَیٰو ۃٍ کا لفظ ارشاد ہوا ہے ، جس کے معنی ہیں کسی نہ کسی طرح کی زندگی ۔ یعنی انہیں محض زندگی کی حرص ہے ، خواہ وہ کسی طرح کی زندگی ہو ، عزّت اور شرافت کی ہو یا ذلّت اور کمینہ پن کی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:96) لتجدنھم۔ لام تاکید کا ۔ لتجدن مضارع بلام تاکید ونون ثقیلہ۔ صیغہ واحد مذکر حاضر۔ وجود (باب ضرب) مصدر ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب اس کا مرجع اہل یہود ہیں جن سے اوپر خطاب ہے تو ان کو ضرور پائے گا۔ تو ان کو ضرور پاتا ہے۔ احرص۔ ا فعل التفضیل کا صیغہ ۔ زیادہ لالچی، بڑا لالچی حرص سے۔ ومن الذین اشرکوا ۔ ای ولتجدنھم احرص من الناس ومن الذین اشرکوا۔ اور تو بیشک ان کو ضرور پائے گا زندگی کے لئے زیادہ حریص بہ نسبت دوسرے لوگوں کے اور بہ نسبت مشرکین کے اسی طرح ومن الذین اشرکوا کا عطف الناس پر ہے اگرچہ مشرکین الناس میں داخل تھے لیکن کلام میں زور پیدا کرنے کے لئے ان کو علیحدہ ذکر کیا۔ یہاں کلام میں معانقہ ہے۔ مندرجہ بالا صورت اشرکوا پر وقف کرنے پر ہوگی۔ لیکن اگر حیوۃ پر وقف کیا جائے تو جملہ ومن الذین اشرکوا اگلے جملہ کے ساتھ مل کر معنی دے گا۔ اس صورت میں تقدیر کلام یوں ہوگی۔ ومن الذین اشرکو وا (ناس) یود احدھم لو یعمر الف سنۃ۔ یہاں من الذین اشرکوا سے مراد یہود ہیں ۔ جو قائل تھے کہ حضرت عزیر (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے تھے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے وقالت الیہود عزیز ابن اللہ (9:30) اور یہود کہوتے ہیں کہ عزیر خدا کے بیٹے ہیں۔ مطلب اس صورت میں یہ ہوگا۔ اور یہود میں ایسے لوگ بھی ہیں جن میں سے ہر ایک چاہتا ہے کہ کاش جیتا رہے ہزار برس۔ یود۔ مضارع واحد مذکر غائب۔ مودۃ (باب سمع) پسند کرتا ہے۔ خواہش کرتا ہے۔ آرزو کرتا ہے۔ لو۔ یہاں لو تمنائی ہے اور لیت کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ کاش۔ لو یعمر الف سنۃ کاش دو ہزار برس جیتا رہے۔ وما ھم بمزحزحہ من العذاب ان یعمر۔ میں واؤ عاطفہ ہے ما نافیہ ۔ مزحزح اسم فاعل کا صیغہ واحد مذکر۔ الزحزحۃ مصدر بمعنی دور ہٹانا۔ برطرف کرنا۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے فمن زحزح عن النار (3:184) پس جو شخص آگ سے دور رکھا گیا۔ ھو ضمیر واحد مذکر غائب احدہم کی طرف راجع ہے۔ اور ان یعمر فاعل ہے مزحزحہ کا اور معنی یہ ہیں کہ کوئی ان میں سے ایسا نہیں کہ اس کو عمر دیا جانا عذاب سے بچا سکے۔ ان مصدریہ ہے۔ اور یعمر مضارع مجہول واحد مذکر غائب۔ تعمیر مصدر (باب تفعیل) کہ اس کی عمر (زیادہ) کی جائے۔ اس کو عمر دی جائے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ باوجود اعتقاد آخرت کے طول عمر کی تمنا صاف دلیل ہے کہ یہ اختصاص استحقاق نعمت آخرت کا دعوی صرف دعوی ہے۔ دل میں خوب سمجھتے ہیں خہ وہاں پہنچ کر جہنم ہی نصیب ہونا ہے اس لیے جب تک بچے رہیں تب ہی تک سہی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ موت کی تمنا اس لئے نہ کریں گے کہ انہوں نے اس دنیا میں جو کمائی کی ہے ، اس پر انہیں عالم آخرت میں کسی اجر کی توقع نہیں ہے ۔ اور نہ انہیں اس بات کی امید ہے کہ اس کے ذریعے وہ عذاب الٰہی سے بچ سکیں گے ۔ بلکہ عذاب تو وہاں ان کا منتظر ہے ۔ اللہ ظالموں کو اچھی طرح جانتا ہے اور ان کی بداعمالیاں بھی اس کی نظر میں ہیں۔ صرف یہی نہیں ، بلکہ یہودیوں کے اندر ایک دوسری خصلت بھی پائی جاتی ہے ۔ قرآن کریم اس خصلت کی ایسی تصویر کھینچتا ہے جس سے ان کی ذلت ، حقارت اور رذیل پنا ٹپکتا ہے ۔ قرآن کریم کہتا ہے وَلَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلَى حَيَاةٍ ” تم انہیں سب سے بڑھ کر جینے کا حریص پاؤگے ۔ “ کیسا جینا ؟ اس سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہے ، زندگی ہو ، چاہے جیسی ہو۔ ان کے نزدیک یہ ضروری نہیں کہ وہ زندگی باعزت بھی ہو۔ بس وہ تو صرف زندگی چاہتے ہیں ۔ چاہے وہ ذلت اور حقارت کی زندگی ہو ۔ زندگی اور عافیت ........ بس یہی یہودیوں کی حقیقت رہی ہے ۔ یہی یہودیوں کا ماضی ہے ، یہی حال ہے اور یہی مستقبل کا مطمح نظر ہے ۔ یہودی صرف اسی وقت سر اٹھاتے ہیں جب خطرہ دور ہوجاتا ہے ۔ جب تک خطرہ سروں پر قائم ہو وہ سر نہیں اٹھاتے ، ان کی گردنیں جھکی رہتی ہیں کیونکہ وہ پرلے درجے کے بزدل ہیں اور انہیں زندہ رہنے سے بےحد محبت ہے ........ وہ کیسی زندگی چاہتے ہیں ؟ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا يَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ يُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَةٍ وَمَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذَابِ أَنْ يُعَمَّرَ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ ” جب حیات کے معاملے میں یہ مشرکوں سے بھی بڑھے ہوئے ہیں ۔ ان میں سے ایک ایک شخص یہ چاہتا ہے کہ کسی طرح ہزار برس جیئے ۔ حالانکہ لمبی لمبی عمر بہرحال انہیں عذاب سے تو دور نہیں پھینک سکتی ۔ جیسے کچھ اعمال یہ کررہے ہیں اللہ تو انہیں دیکھ رہا ہے ۔ “ ان میں سے ہر صاحب ایک ہزار سال عمر کی تمنا رکھتے ہیں ۔ کیوں ؟ اس لئے کہ انہیں اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہونے کے بارے میں کوئی پختہ یقین نہیں ہے ۔ وہ نہیں سمجھتے کہ اس زندگی کے علاوہ بھی کوئی زندگی ہے ؟ اور جب کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ اس کی زندگی کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں ہے تو اس پر عرصہ حیات تنگ ہوجاتا ہے ۔ اسے اپنی دنیاوی زندگی بہت ہی تنگ نظر آتی ہے ۔ کیونکہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ اسے صرف انہی معدودے چند گھنٹوں اور سانسوں کی مہلت ملی ہوئی ہے۔ ” جب اس نقطہ نظر پر غور کیا جائے تو اخروی زندگی پر ایمان ، ایک عظیم نعمت ہے جو انسان کو بخشی گئی ہے ۔ ایسی نعمت جس کا فیضان ، ایمان کے ذریعے ، انسان کے دل پر ہوتا ہے ، اللہ تعالیٰ یہ نعمت اس فانی انسان کو اس لئے عطا کرتا ہے کہ اسے اس دنیا میں ایک محدود وقت دیا گیا ہے ۔ لیکن اس کے باوجود اس کے دل میں آرزوؤں کی ایک دنیا آباد ہوتی ہے ، لہٰذا اسے زندگی کیتنگ دامانی کا احساس نہیں رہتا جو لوگ اپنے آپ کو اس نعمت سے محروم کردیتے ہیں ، اور اپنے لئے حیات دوام کا دروازہ بند کردیتے ہیں ، ان کے ذہنوں میں ” زندگی “ کا ایک ناقص اور مسخ شدہ تصور ہوتا ہے ۔ غرض یوم آخرت پر ایمان لانا تو اللہ تعالیٰ کے عدل و انصاف اور آخرت میں مکافات عمل پر ایمان لانا ہے ، دوسرے یہ کہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ بندہ مومن کا وجود زندگی کی فیوض سے مالامال ہے ، اور اسے ایک ایسی دائمی زندگی بخشی گئی ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی اور نہ کسی سرحد پر جاکر رکتی ہے ، بلکہ یہ زندگی تمام سرحدوں سے گزر کر بقائے دوام کے حدود تک جاپہنچتی ہے ۔ اور جس کی انتہاء کا علم صرف اللہ کی ذات کو ہے ، یہ زندگی مستقلاً بلندیوں تک اٹھتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ وصال باری کی منزل تک جاپہنچتی ہے۔ “ اب اللہ تعالیٰ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک نئے پہلو کی طرف متوجہ فرماتے ہیں ۔ یہودیوں کو کھلا چیلنج دیا جاتا ہے اور اس حقیقت کا اعلان کیا جاتا ہے کہ ؟

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

186 تجد میں خطاب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے اور ھم کی ضمیر ان یہودیوں کی طرف ہے جن کا پہلے ذکر ہورہا ہے یعنی اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ موت کی تمنا کبھی نہیں کرینگے۔ کیونکہ یہ لوگ زندگی پر بڑے حریص ہیں اور تمام لوگوں سے بڑھ کر انہیں زندگی پیاری ہے کیونکہ انہیں اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے اپنا بد انجام معلوم ہے یا ان کی حرص کی وجہ یہ تھی کہ عوام الناس پر ان کے تقدس واقتدار کا سکہ بیٹھا ہوا تھا اور نذرونیاز کی بےحساب آمدنی کا سلسلہ جاری تھا۔ اس مفت کے عیش و عشرت کی وجہ سے وہ چاہتے تھے کہ ہمیشہ زندہ رہیں۔ 187 من حیث المعنی اس کا عطف الناس پر ہے یعنی یہ یہودی تو مشرکوں سے بھی بڑھ کر زندگی پر حریص ہیں کیونکہ مشرکوں کو آخرت میں عذاب کا کوئی ڈر نہیں تھا اس لیے کہ وہ آخرت کے قائل ہی نہیں تھے اور نہ ہی یہودیوں کے مولویوں اور پیروں کی طرح انہیں نذورنیاز کی آمدنیاں وصول ہوتی تھیں۔ يَوَدُّ اَحَدُھُمْ لَوْ يُعَمَّرُ اَلْفَ سَـنَةٍ ۔ ھم کی ضمیر بھی ان یہودیوں کی طرف راجع ہے یہ ان کی حرص کی زیادتی کا مزید بیان ہے۔ یعنی ان میں سے ہر ایک کی یہ آرزو ہے کہ اسے ایک ہزار سال زندگی ملے ۚ وَمَا ھُوَ بِمُزَحْزِحِهٖ ۔ ما نافیہ ہے ھُوَ اس کا اسم اور بمزحزحہ اس کی خبر ہے اور ان یعمر مبتدا کا بیان ہے یعنی طویل عمر کا دیا جانا عذاب سے نہیں بچا ستاْ ۔ کیونکہ ہزار سال کے بعد آخر موت ہے۔ وَاللّٰهُ بَصِيْرٌۢ بِمَا يَعْمَلُوْنَ ۔ اللہ تعالیٰ ان کی ہر حرکت کو دیکھ رہا ہے اور ان کے تمام ظاہر و باطن اعمال سے باخبر ہے اس لیے لامحالہ انہیں ان کے اعمال کی سزا دے گا۔ یہودیوں کے شبہات کا ازالہ افہام و تفہیم کے دوران مخاطب کے ذہن میں بعض شبہات کا پیدا ہونا ناگزیر ہے جبتک ان شبہات کا ازالہ نہ کیا جائے اس وقت تک مخاطب کو اطمینان قلب حاصل نہیں ہوسکتا۔ گذشتہ سات رکوعات میں یہودیوں کو سمجھانے اور ان کو راہ راست پر لانے کے لیے افہام و تفہیم کے تمام ممکنہ ذرائع اختیار کیے گئے ہیں۔ اب آخر میں ان کے تین شبہات کا جواب دیا جارہا ہے۔ پہلا شبہ :۔ یہودیوں کو جب معلوم ہوا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی لانے والے حضرت جبریل علیہ الساللم تو کہنے لگے کہ جبریل فرشتہ تو ہمیشہ عذاب ہلاکت اور کخط سالی کا پیغام لایا کرتا ہے۔ نیز جب بخت نصر نے بیت المقدس پر حملہ کیا تھا اس کو تہس نہس اور بیت المقدس کو برباد کردیا۔ اسی طرح یہ جبریل ہمارے اندرونی راز اور پوشیدہ بھید محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتاتا ہے اس لیے یہ فرشتہ ہمارا دشمن ہے (بحر ص 319 ج 1، روح ص 331 ج 1) چونکہ توحید کا پیغام یہ فرشتہ لایا ہے ہم اسے ماننے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہیں۔ ہاں اگر يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ کا پیغام، يٰبَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اذْكُرُوْانِعْمَتِیْ ، وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰيٰتِىْ ثَـمَنًا قَلِيْلًا اوروَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ ۔ اور دیگر احکام میکائیل فرشتہ نے لائے ہوتے تو ہم انہیں بخوشی قبول کرلیتے۔ یہ اگرچہ حقیقت میں محض ضد پر مبنی اور نہ ماننے کا ایک لنگڑا بہانہ تھا لیکن ناصح حکیم جل مجدہ نے اس کا بھی نہایت اور معقول جواب دیا ہے۔۔ دوسرا شبہ :۔ جب اللہ تعالیٰ نے یہود سے بار بار فرمایا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس پر نازل کی گئی کتاب کوئی نیا مسئلہ نہیں پیش کر رہے بلکہ یہ وہی پیغام توحید پیش کر رہے ہیں جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے تورات کے ذریعے پیش فرمایا اور ان کے بعد آنے والے ہزاروں انبیائے کرام (علیہم السلام) اس کی تبلیغ و اشاعت کرتے رہے ہیں تو اس پر یہودیوں کے علما نے کہا کہ ہم یہ نہیں مانتے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن نے جو نظریہ پیش کیا ہے بعینہ تورات کا اور ہمارے پیغمبروں کا بھی یہی نظریہ تھا کیونکہ ہمارے اور اوراد وظائف اور تورات میں تو غیر اللہ کو پکارنے کی اجازت موجود ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) (عیاذاً باللہ) غیر اللہ کو پکارا کرتے تھے اور اسی وجہ سے جن وانس پر ان کی حکومت قائم تھی۔ اگر تورات میں اس کی اجازت نہ ہوتی تو وہ ہرگز ایسا نہ کرتے اور عوام کو گمراہ کرنیکے لیے جادو کی پوتھیاں ان کو دکھاتے جو شیطانوں نے گھڑ کر حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے ذمہ لگادی تھیں (کبیر ص 636 ج 1) یہودی یہ پوتھیاں لوگوں کو دکھاتے اور کہتے دیکھو، یہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی خاص یادداشتیں ہیں اور ان میں غیر اللہ کو پکارنا لکھا ہے۔ تیسرا شبہ :۔ تیسرا شبہ ان کا یہ تھا کہ اگر غیر اللہ کو پکارنا ناجائز ہوتا تو اللہ تعالیٰ دو مقرب فرشتوں ہاروت اور ماروت کو جادو سکھانے کے لیے کیوں دنیا میں بھیجتا ؟ حالانکہ جادو میں غیر اللہ ہی کو پکارا جاتا ہے۔ اور ارواح خبیثہ سے استمداد واستعانت کی جاتی ہے (اس کی مذید تحقیق آگے آرہی ہے) تو اس سے معلوم ہوا کہ غیر اللہ کو پکارنا اور غیر اللہ سے استعانت کرنا جائز ہے۔ اب ترتیب وار تینوں شبہات کے جوابات دئیے جاتے ہیں۔ پہلے شبہ کا جواب :۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3 اور ہم بتائے دیتے ہیں کہ یہ مدعیان نجات و فلاح اپنے ان اعمال کفر یہ کے باعث جو یہ اپنے ہاتھوں آگے بھیج چکے ہیں کبھی بھی موت کی تمنا نہیں کریں گے اور اللہ تعالیٰ ان ظالموں کے حال کو خوب جانتا ہے ۔ اور اے پیغمبر ! یہ متو کی تمنا کیا کریں گے۔ آپ ان کو دوسرے عام لوگوں سے بھی زندگی کا زیادہ حریص پائیں گے اور لوگوں کا تو کہنا ہی کیا آپ ان کو مشرکین سے بھی حیات دنیویہ کا بڑھ کر حریص و آرزو مند پائیں گے۔ ان کی حالت تو یہ ہے کہ ان میں سے ایک ایک شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کی عمر ہزار برس کی ہوجائے اور فرض کرو اگر اتنی عمر ہو بھی جائے تب بھی اس قدر جینا اس کو عذاب سے تو کچھ بچا نہیں سکتا اور یہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کے پیش نظر ہے۔ (تیسیر) قرآن نے جو پیشین گوئی فرمائی تھی وہ پوری ہوئی اور اس سے ہی معلوم ہوگیا کہ ان کو اپنے دعادی اور اپنی باتوں پر خود ہی اطمینان نہیں ہے اور جو کچھ ظاہر کر رہے ہیں اس میں یہ جھوٹے ہیں مرنے کی تمنا کیسی ؟ ان کو تو جینے کی حوس و حرص سب سے زیادہ ہے اور عجیب بات تو یہ ہے کہ ان مشرکین عرب سے بھی ان کو زیادہ جینے کی خواہش ہے جو عالم آخرت کے بالکل ہی منکر ہیں اور جو یوں کہتے ہیں۔ ان ھی الاحیوتنا الدنیا نموت و نحی وما نحن بمبعوثین۔ تو جن کے سامنے صرف دنیا ہی دنیا ہے اور آخرت کی زندگی پر اعتقاد ہی نہیں اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ چونکہ صرف دنیا ہے اس لئے یہاں زیادہ سے زیادہ زندگی میسر ہوجائے۔ یہ یہودی باوجود اس کے کہ عالم آخرت پر یین رکھتے ہیں اور وہاں کے عیش کو خلاص اپنے لئے کہتے ہیں اور وہاں کی آسائش سے دوسروں کو محروم سمجھتے ہیں، پھر بھی یہ ان مشرکین سے زیادہ زندہ رہنے کی حرص رکھتے ہیں اور ان میں سے ایک ایک اس خواہش میں مبتلا ہے کہ ہزار ہزار سال زندہ رہے ، حالانکہ اگر اتنی بڑی عمر ہو بھی جائے تو اس قدر جینا عذاب سے نہیں بچا سکتا۔ خلاصہ یہ کہ اخروی مفاد و منافع کے استحقاق کا اعتقاد رکھتے ہوئے پھر درازی عمر کی تمنا بس یہ دعویٰ ہی دعویٰ ہے ورنہ دل میں یہ بھی خوب سمجھتے ہیں کہ ان کی بد اعمالیوں اور بد اعتقادیوں کے باعث ان کا جو کچھ حشر ہونے والا ہے۔ (تسہیل)