Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 74

سورة المؤمنون

وَ اِنَّ الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَۃِ عَنِ الصِّرَاطِ لَنٰکِبُوۡنَ ﴿۷۴﴾

But indeed, those who do not believe in the Hereafter are deviating from the path.

بیشک جو لوگ آخرت پر یقین نہیں رکھتے وہ سیدھے راستے سے مڑ جانے والے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And verily, those who believe not in the Hereafter are indeed deviating far astray from the path. meaning, they have gone astray and deviated. The Situation of the Disbelievers Allah says; وَلَوْ رَحِمْنَاهُمْ وَكَشَفْنَا مَا بِهِم مِّن ضُرٍّ لَّلَجُّوا فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

741یعنی صراط مستقیم سے انحراف کی وجہ آخرت پر عدم ایمان ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِنَّ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بالْاٰخِرَةِ عَنِ الصِّرَاطِ لَنٰكِبُوْنَ : یعنی سیدھے راستے سے ہٹنے کا اصل باعث آخرت پر ایمان کا نہ ہونا ہے۔ اگر پختہ یقین ہو کہ آخرت کو اللہ کے حضور پیش ہونا ہے تو ممکن نہیں کہ آدمی صحیح راستہ جاننے کے بعد غلط راستوں پر چلتا رہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِنَّ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ عَنِ الصِّرَاطِ لَنٰكِبُوْنَ۝ ٧٤ أمن والإِيمان يستعمل تارة اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ويقال لكلّ واحد من الاعتقاد والقول الصدق والعمل الصالح : إيمان . قال تعالی: وَما کانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمانَكُمْ [ البقرة/ 143] أي : صلاتکم، وجعل الحیاء وإماطة الأذى من الإيمان قال تعالی: وَما أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنا وَلَوْ كُنَّا صادِقِينَ [يوسف/ 17] قيل : معناه : بمصدق لنا، إلا أنّ الإيمان هو التصدیق الذي معه أمن، وقوله تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيباً مِنَ الْكِتابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ [ النساء/ 51] فذلک مذکور علی سبیل الذم لهم، ( ا م ن ) الامن الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلما ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست (2 ۔ 62) میں امنوا کے یہی معنی ہیں اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید ہوۃ کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ اور کبھی ایمان کا لفظ بطور مدح استعمال ہوتا ہے اور اس سے حق کی تصدیق کرکے اس کا فرمانبردار ہوجانا مراد ہوتا ہے اور یہ چیز تصدیق بالقلب اقرار باللسان اور عمل بالجوارح سے حاصل ہوتی ہے اس لئے فرمایا ؛۔ { وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَرُسُلِهِ أُولَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ } ( سورة الحدید 19) اور جو لوگ خدا اور اس کے پیغمبر پر ایمان لائے ہیں روہی صدیق میں یہی وجہ ہے کہ اعتقاد قول صدق اور عمل صالح میں سے ہر ایک کو ایمان کہا گیا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَمَا كَانَ اللهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ } ( سورة البقرة 143) ۔ اور خدا ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کو یوں ہی کھودے (2 ۔ 143) میں ایمان سے مراد نماز ہے اور (16) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حیا اور راستہ سے تکلیف کے دور کرنے کو جزو ایمان قرار دیا ہے اور حدیث جبرائیل میں آنحضرت نے چھ باتوں کو کو اصل ایمان کہا ہے اور آیت کریمہ ؛۔ { وَمَا أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنَا وَلَوْ كُنَّا صَادِقِينَ } ( سورة يوسف 17) اور آپ ہماری بات کو گو ہم سچ ہی کہتے ہوں باور نہیں کریں گے (12 ۔ 17) میں مومن بمعنی مصدق ہے ۔ لیکن ایمان اس تصدیق کو کہتے ہیں جس سے اطمینان قلب حاصل ہوجائے اور تردد جاتا رہے اور آیت کریمہ :۔ { أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ } ( سورة النساء 44 - 51) من ان کی مذمت کی ہے کہ وہ ان چیزوں سے امن و اطمینان حاصل کرنا چاہتے ہیں جو باعث امن نہیں ہوسکتیں کیونکہ انسان فطری طور پر کبھی بھی باطل پر مطمئن نہیں ہوسکتا ۔ نكب نَكَبَ عن کذا . أي : مَالَ. قال تعالی: عَنِ الصِّراطِ لَناكِبُونَ [ المؤمنون/ 74] والمَنْكِبُ : مُجْتَمَعُ ما بين العَضُدِ والکَتِفِ ، وجمْعُه : مَنَاكِبُ ، ومنه استُعِيرَ للأَرْضِ. قال تعالی: فَامْشُوا فِي مَناكِبِها[ الملک/ 15] واسْتِعَارَةُ المَنْكِبِ لها كاسْتِعَارَةُ الظَّهْرِ لها في قوله : ما تَرَكَ عَلى ظَهْرِها مِنْ دَابَّةٍ [ فاطر/ 45] . ومَنْكِبُ القومِ : رَأْسُ العُرَفَاءِ «3» . مُسْتَعَارٌ مِنَ الجَارِحَةِ اسْتِعَارَةَ الرَّأْسِ للرَّئِيسِ ، والْيَدِ لِلنَّاصِرِ ، ولِفُلَانٍ النِّكَابَةُ في قَوْمِهِ ، کقولهم : النِّقَابَةُ. والأَنْكَبُ : المَائِلُ المَنْكِبِ ، ومن الإبل الذي يَمْشِي في شِقٍّ. والنَّكَبُ : داءٌ يأْخُذُ في المَنْكِبِ. والنَّكْبَاءُ : رِيحٌ نَاكِبَةٌ عَنِ المَهَبِّ ، ونَكَبَتْهُ حَوَادِثُ الدَّهْرِ. أي : هَبَّتْ عليه هُبُوبَ النَّكْبَاءِ. ( ن ک ب ) نکب عن کذا کسی چیز سے پھرجانا قرآن پاک میں ہے : ۔ عَنِ الصِّراطِ لَناكِبُونَ [ المؤمنون/ 74] وہ رستے سے الگ ہو رہے ہیں ۔ المنکب کندھا ج ۔ مناکب ۔ اور اسی سے بطور استعارہ زمین کے راستوں پر بولا جاتا ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ فَامْشُوا فِي مَناكِبِها[ الملک/ 15] تو اس کی راہوں میں چلو پھرو ۔ اور زمین کے لئے بطور استعارہ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ ما تَرَكَ عَلى ظَهْرِها مِنْ دَابَّةٍ [ فاطر/ 45] تور وٹے زمین پر ایک چلنے پھرنے والیکو نہ چھوڑ تا میں ظھر کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ منکب القوم قوم کا کندھا یعنی رئیس جیسا کہ راس بمعنی رئیس اور ید بمعنی ناصر آجاتا ہے : ۔ لفلان النکابۃ فی قومہ فلاں کے پاس قوم کی ریاست ہے ۔ الانکب ( 1 ) ٹیڑھے شانے والا ( 2 ) اونٹ جو ایک جانب جھک کر چلے ۔ النکب ایک قسم کی بیماری جو شانے میں ہوتی ہے ترکی میں اسے قولا غو کہا جاتا ہے ) النکباء اپنی سمت سے پھر کر چلنے والی ہوا ۔ تکبتہ ھو ادث الدھر مصیبت پہنچانا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٤) اور ان لوگوں کی جو مرنے کے بعد جی اٹھنے پر ایمان نہیں رکھتے یہ حالت ہے کہ وہ دین خداوندی سے دور ہوتے جاتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

71. This was the real reason why they were deviating from the right path. As they did not believe in the Hereafter, they thought that no account would be taken from them of what they did in this world. Therefore it did not matter whether they followed the truth or falsehood. Their only aim in life was to gratify the lusts of the flesh and gratify them in the best way possible.

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :71 یعنی آخرت کے انکار نے ان کو غیر ذمہ دار ، اور احساس ذمہ داری کے فقدان نے ان کو بے فکر بنا کر رکھ دیا ہے ۔ جب وہ سرے سے یہی نہیں سمجھتے کہ ان کی اس زندگی کا کوئی مآل اور نتیجہ بھی ہے اور کسی کے سامنے اپنے اس پورے کارنامہ حیات کا حساب بھی دنیا ہے ، تو پھر انہیں اس کی کیا فکر ہو سکتی ہے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ۔ جانوروں کی طرح ان کی بھی غایت مقصود بس یہ ہے کہ ضروریات نفس و جسم خوب اچھی طرح پوری ہوتی رہیں ۔ یہ مقصود حاصل ہو تو پھر حق و باطل کی بحث ان کے لیے محض لایعنی ہے ۔ اور اس مقصد کے حصول میں کوئی خرابی رونما ہو جائے تو زیادہ سے زیادہ وہ جو کچھ سوچیں گے وہ صرف یہ کہ اس خرابی کا سبب کیا ہے اور اسے کس طرح دور کیا جا سکتا ہے ۔ راہ راست اس ذہنیت کے لوگ نہ چاہ سکتے ہیں نہ پا سکتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(23:74) لنکبون۔ اسم فاعل جمع مذکر۔ پھرجانے والے۔ مڑ جانے والے۔ ہٹ جانے والے۔ راہ راست سے منحرف ہونے والے۔ نکب ینکب۔ (نصر) نکب ینکب (سمع ) نکوب مصدر۔ پھرجانا۔ مڑ جانا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

2 ۔ یعنی چونکہ انہیں اس چیز کی فکر ہی نہیں کہ کل ہمیں کس انجام اور کس حساب و کتاب سے سابقہ پیش آنے والا ہے اس لئے وہ تحیر اور ضلالت کا شکار ہو رہے ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وان الذین لا یومنون بالا خرۃ عن الصراط لنکبون (٢٣ : ٧٣) ” مگر جو لوگ آخرت کو نہیں مانتے وہ راہ راست سے ہٹ کر چلنا چاہتے ہیں “۔ اگر یہ ہدایت پر ہوتے تو وہ اپنے دل دماغ اس زندگی پر غور کرتے ، جس کے نتیجے میں انسانی حتمی طور پر آخرت پر ایمان لاتا ہے۔ ایک ایسے جہان کا وہ ضرور قائل ہوجاتا ہے جس میں یہ زندگی اپنی نہایت ہی مکمل حالت میں ہوگی اور جس کے اندر لوگوں کے ساتھ مکمل انصاف ہوگا کیونکہ آخرت ناموس کائنات کا ایک آخری حلقہ ہے جس میں اللہ کی تدبیر کائنات اپنے اختتام کو پہنچے گی ۔ یہ لوگ جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے ، جو رراہ راست سے ہٹے ہوئے ہیں اگر ان کو بہت دولت دی جائے اور آزمایا جائے تو بھی وہ راہ راست پر نہیں آتے اور اگر ان کو مشکلات سے دو چار کر کے آزمایا جائے تو بھ راہ راست پر نہیں آتے۔ اگر ان کو نعمت سے نوازا جائے تو کہتے ہیں۔ انما نمدھم بہ من مال وبنین (٥٥) نسارع لھم فی الخیرات (٢٣ : ٥٦) ” یہ جو ہم نے انہیں مال اور اولاد دے کر امداد کی ہے وہ اس لیے کہ ہم ان کے لیے بھلائی میں جلدی کرنے والے ہیں “۔ اور اگر ان پر عذاب آجائے تو بھی ان کے دل نرم نہیں ہوتے ، ان کے ضمیر نہیں جاگتے اور اس مصیبت کو دور کرنے کے لیے اللہ کے سامنے عاجزی نہیں کرتے کہ وہ ان کی اس مصیبت کو دور کرے۔ یہ اسی طرح رہیں گے یہاں تک کہ قیامت کے دن ان کو عذاب الہی آلے اور وہاں مایوس اور حیران رہ جائیں ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

63:۔ ” و ان الذین الخ “ ان لوگوں کے دلوں میں نہ خدا کا خوف ہے نہ حساب آخرت کا ڈر اس لیے وہ علانیہ دین حق سے اعراض کرتے ہیں۔ ” ولو رحمنھم الخ “ ان کی سرکشی اور ضد اس حد کو پہنچ چکی ہے کہ اگر ہم ان پر مہربانی فرما دیں اور انہیں مصائب سے نجات دے دیں تو وہ حق کو ماننے کے بجائے سرکشی، ضد وعداوت اور بغض و حسد میں اور آگے بڑھ جائیں گے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(74) اور جو لوگ آخرت کا یقین نہیں رکھتے ان کی حالت یہ ہے کہ وہ سیدھی راہ سے عدول کررہے ہیں اور ہٹے جارہے ہیں یعنی جس راہ کی طرف آپ بلا رہے ہیں یہ اس راہ سے ہٹ رہے ہیں اور ٹیڑھے ہورہے ہیں۔