Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 149

سورة الشعراء

وَ تَنۡحِتُوۡنَ مِنَ الۡجِبَالِ بُیُوۡتًا فٰرِہِیۡنَ ﴿۱۴۹﴾ۚ

And you carve out of the mountains, homes, with skill.

اور تم پہاڑوں کو تراش تراش کر پر تکلف مکانات بنا رہے ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And you hew out in the mountains, houses with great skill. Ibn Abbas and others said, "With great skill." According to another report from him: "They were greedy and extravagant." This was the view of Mujahid and another group. There is no contradiction between the two views, because they built the houses which they carved in the mountains as a form of extravagant play, with no need for them as dwelling places. They were highly skilled in the arts of masonry and stone-carving, as is well known to anyone who has seen their structures. So, Salih said to them: فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1491فَارِھِیْنَ یعنی ضرورت سے زیادہ فنکارانہ مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یا فخرو غرور کرتے ہوئے، جیسے آجکل لوگوں کا حال ہے۔ آج بھی عمارتوں پر غیر ضروری آرائشوں اور فنکارانہ مہارتوں کا خوب خوب مظاہرہ ہو رہا ہے اور اس کے ذریعے سے ایک دوسرے پر برتری اور فخرو غرور کا اظہار بھی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary وَتَنْحِتُونَ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا فَارِ‌هِينَ ﴿١٤٩﴾And you hew out houses from the hills with pride. [ 149] According to Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) ، the word فَارِ‌هِينَ (Farihin) means arrogant and conceited people. But Abu Salih and Imam Raghib have taken this word to mean experts. Therefore, the meaning of the verse is that Allah Ta’ ala has favoured you by teaching such skills that you could make houses by cutting hills. The essence of all this is that you should remember the bounties of Allah Ta’ ala and should not make mischief and trouble on earth. Useful vocations are Divine Graces provided they are not employed in bad things This verse indicates that nice vocations are Allah&s Graces, and to draw benefit from them is lawful. But if they are used for some sinful purpose or in an unlawful act, or if someone gets involved in them with unnecessary concentration, then it is not lawful to adopt them. An example of unnecessary construction of tall buildings and its contempt has just been mentioned in the previous verses.

معارف و مسائل وَتَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوْتًا فٰرِهِيْنَ ، حضرت ابن عباس سے فارھین کی تفسیر بطرین منقول ہے یعنی اترانے اور تکبر کرنے والے، لیکن ابوصالح نے فرمایا اور یہی امام راغب نے تفسیر کی ہے کہ فارھین کے معنی حاذقین ہے یعنی ماہرین کے ہیں، مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر یہ نعمت فرمائی کہ تم کو ایسی صنعت کاری سکھلا دی کہ پہاڑوں کو مکانات بنانا تمہارے لئے آسان کردیا۔ حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے انعامات کو یاد کرو اور زمین پر فساد نہ کرو۔ مفید پیشے خدائی انعامات ہیں بشرطیکہ ان کو برے کاموں میں استمال نہ کریں : اس آیت سے ثابت ہوا کہ عمدہ پیشے اللہ تعالیٰ کے انعامات ہیں اور ان سے نفع اٹھانا جائز ہے لیکن اگر ان سے کوئی گناہ یا حرام فعل یا بلا ضرورت ان میں انہماک لازم آتا ہو تو پھر وہ پیشہ اختیار کرنا ناجائز ہے جیسے کہ ابھی اس سے پہلی آیتوں میں بلا ضرورت عمارت کی بلندی کی مذمت گزری ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَتَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوْتًا فٰرِہِيْنَ۝ ١٤٩ۚ نحت نَحَتَ الخَشَبَ والحَجَرَ ونحوهما من الأجسام الصَّلْبَة . قال تعالی: وَتَنْحِتُونَ مِنَ الْجِبالِ بُيُوتاً فارِهِينَ [ الشعراء/ 149] والنُّحَاتَةُ : ما يسقط من المَنْحُوتِ ، والنَّحِيتَة : الطّبيعة التي نُحِتَ عليها الإنسان کما أنّ الغریزة ما غُرِزَ عليها الإنسانُ ( ن ح ت ) نحت ( ض ) کے معنی لکڑی پتھر یا اس قسم کی سخت چیزوں کو تراشنے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَتَنْحِتُونَ مِنَ الْجِبالِ بُيُوتاً فارِهِينَ [ الشعراء/ 149] اور تکلیف سے پہاڑوں میں تراش تراش کر گھر بناتے ہو ۔ نحاتۃ تراشہ ۔ وہ ریزے جو کاٹنے سے گریں اور انسانی فطرت کو اس لحاظ سے کہ انسان کی ساخت اس کے مطابق بنائی گئی ہے نحیتہ کہا جاتا ہے اور اس لحاظ سئ کہ وہ انسان کے اندر پیوست کی گئی ہے غریزہ کہلاتی ہے ۔ جبل الجَبَل جمعه : أَجْبَال وجِبَال، وقال عزّ وجل : أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ/ 6- 7] ( ج ب ل ) قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ/ 6- 7] کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا |" ۔ اور پہاڑوں کو ( اس کی میخیں ) نہیں ٹھہرایا ؟ بيت أصل البیت : مأوى الإنسان باللیل، قال عزّ وجلّ : فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل/ 52] ، ( ب ی ت ) البیت اصل میں بیت کے معنی انسان کے رات کے ٹھکانہ کے ہیں ۔ کیونکہ بات کا لفظ رات کو کسی جگہ اقامت کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل/ 52] یہ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب خالی پڑے ہیں ۔ فره الفَرِهُ : الأَشِرُ ، وناقة مُفْرِهٌ ومُفْرِهَةٌ: تنتج الفُرَّهَ وقوله : وَتَنْحِتُونَ مِنَ الْجِبالِ بُيُوتاً فارِهِينَ [ الشعراء/ 149] ، أي : حاذقین، وجمعه فُرَّهٌ ، ويقال ذلک في الإنسان وفي غيره، وقرئ : فَرِهِينَ في معناه . وقیل : معناهما أشرین . ( ف ر ہ ) الفرہ ( صفت مشبہ اترانے والا اور ناقۃ مفرھۃ اس اونٹنی کو کہا جاتا ہے جو چست اور پھر تیلے بچے دے اس اسم فاعل فارۃ ہے ) قرآن میں ہے : ۔ وَتَنْحِتُونَ مِنَ الْجِبالِ بُيُوتاً فارِهِينَ [ الشعراء/ 149] اور تکلف سے پہاڑوں میں تراش تراش کر گھر بناتے ہو ۔ میں فارھین کے معنی حاذقین ( یعنی ماہرا اور ہنر مند گے ہیں اور فرۃ کی جمع فرۃ کی جمع فرۃ ہے یہ انسان اور دیگر حیوانات کے لئے استعال ہوتا ہے ایک قرات میں فرھین ہے جو فارھین کے ہم معنی ہے اور بعض نے ( دونوں ) کے معنی اشرین ( اترانے والے ) بھی کئے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٤٩۔ ١٥٠) اور کیا تم پہاڑوں کو تراش تراش کر اتراتے ہوئے اور فخر کرتے ہوئے مکانات بناتے ہو سو اللہ سے ڈرو جن باتوں کا اس نے تمہیں حکم دیا ہے اس میں اور میرا کہنا مانو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

99 Just as the most prominent feature of the 'Ad civilization was that they built large edifices with high pillars, so the most prominent feature of the _Thamud civilization for which they were known among the ancient peoples was that they carved out dwellings in the hills. That is why in Surah Fajr, the `Ad have been referred to as "(people) of the illars", and the _Thamud as "those who hewed rocks in the valley". These people also built castles on the plains, the purpose and object of which was nothing but display of wealth and power and architectural skill as there was no real necessity for them. These are, in fact, the ways of the perverted people: the poor among them do not have proper shelters, and the wealthy members not only have sufficient fine dwellings but over and above those they raise monuments for ostentation and display. Some of these Thamudic works exist even today, which I have seen in December, 1959. (See pictures. This place is situated between AI-Madinah and Tabuk, a few miles to the north of Al-'Ula (Wad-il-Qura of the Holy Prophet's time) in Hejaz. The local inhabitants call it AI-Hijr and Mada'in Salih even today. AI-'Ula is still a green and fertile valley abounding in water springs and gardens, but AI-Hijr appears to be an abandoned place. It has thin population, little greenery and a few wells one of which is said to be the one at which Prophet Salih's shecamel used to drink water. This well is now dry and located within a deserted military post of the time of the Turks. When we entered this territory and approached AI-'Ula, we found hills which seemed to have been shattered to pieces from top to bottom as if by a violent earthquake. (See pictures on the opposite pages). We saw the same kind of hills while travelling to the east, from AI-`Ula to Khaibar, for about 50 miles, and towards the north inside Jordan, for about 30 to 40 miles. This indicated that an area, stretching well over 300 to 400 miles in length and 100 miles in width, had been devastated by the terrible earthquake. A few of the _Thamudic type monuments that we saw at AI-Hijr were also found at Madyan along the Gulf of 'Aqabah and at Petra in Jordan. At Petra specially the Thamudic and Nabataean works stand side by side, and their styles and architectural designs are so different that anyone who examines them will find that they were neither built in the same age nor by the same nation. (See pictures for contrast). Doughty, the British orientalist, in his attempt to prove the Qur'an as false, has claimed that the works found at Al-HIijr were not carved out by Thamud but by the Nabataeans.I am of the view that the art of carving houses out of the rocks started with the _Thamud, and thousands of years later, in the second and first centuries B.C., it was considerably developed by the Nabataeans and it reached perfection in the works of the caves of Ellora, which were carved out about 700 years after Petra.

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :99 جس طرح عاد کے تمدن کی نمایاں ترین خصوصیت یہ تھی کہ وہ اونچے اونچے ستونوں والی عمارتیں بناتے تھے ، اس طرح ثمود کے تمدن کی سب سے زیادہ نمایاں خصوصیت ، جس کی بنا پر وہ قدیم زمانے کی قوموں میں مشہور تھے ، یہ تھی کہ وہ پہاڑوں کو تراش تراش کر ان کے اندر عمارتیں بناتے تھے ۔ چنانچہ سورہ فجر میں جس طرح عاد کو ذَاتُ الْعِمَاد ( ستونوں والے ) کا لقب دیا گیا ہے اسی طرح ثمود کا ذکر اس حوالے سے کیا گیا ہے کہ اَلَّذِیْنَ جَابُوا الصَّخْرَ بِالْوَادِ ، وہ جنہوں نے وادی میں چٹانیں تراشی ہیں ۔ اس کے علاوہ قرآن میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ اپنے ہاں میدانی علاقوں میں بھی بڑے بڑے قصر تعمیر کرتے تھے ، تَتَّخِذُوْنَ مِنْ سُھُوْلِھَا قُصُوْراً ۔ ( الاعراف ۔ آیت 74 ) ۔ اور ان تعمیرات کی غرض و غایت کیا تھی؟ قرآن اس پر لفظ فٰرِھِیْنَ سے روشنی ڈالتا ہے ۔ یعنی یہ سب کچھ اپنی بڑائی ، اپنی دولت و قوت اور اپنے کمالات فن کی نمائش کے لیے تھا ، کوئی حقیقی ضرورت ان کے لیے داعی نہ تھی ۔ ایک بگڑے ہوئے تمدن کی شان یہی ہوتی ہے ۔ ایک طرف معاشرے کے غریب لوگ سر چھپانے تک کو ڈھنگ کی جگہ نہیں پا تے ۔ دوسری طرف امراء اور اہل ثروت رہنے کے لیے جب ضرورت سے زیادہ محل بنا چکتے ہیں تو بِلا ضرورت نمائشی یادگاریں تعمیر کرنے لگتے ہیں ۔ ثمود کی ان عمارتوں میں سے کچھ اب بھی باقی ہیں جنہیں 1959 کے دسمبر میں میں نے خود دیکھا ہے ۔ مقابل کے صفحات میں ان کی کچھ تصویریں دی جاری ہیں ۔ یہ جگہ مدینہ طیبہ اور تبوک کے درمیان حجاز کے مشہور مقام العُلاء ( جسے عہد نبوی میں وادی القریٰ کہا جاتا تھا ) سے چند میل کے فاصلے پر بجانب شمال واقع ہے ۔ آج بھی اس جگہ کو مقامی باشندے الحجر اور مدائنِ صالح کے ناموں ہی سے یاد کرتے ہیں ۔ اس علاقے میں العُلاء تو اب بھی ایک نہایت سر سبز و شاداب وادی ہے جس میں کثرت سے چشمے اور باغات ہیں ، مگر الحجر کے درو پیش بڑی نحوست پائی جاتی ہے ۔ آبادی برائے نام ہے ۔ روئیدگی بہت کم ہے ۔ چند کنوئیں ہیں ۔ انہی میں سے ایک کنوئیں کے متعلق مقامی آبادی میں یہ روایت چلی آ رہی ہے کہ حضرت صالح کی اونٹنی اسی سے پانی پیتی تھی ۔ اب وہ ترکی عہد کی ایک ویران چھوٹی سی فوجی چوکی کے اندر پایا جاتا ہے اور بالکل خشک پڑا ہے ( اس کی تصویر بھی مقابل کے صفحات میں دی جا رہی ہے ) ۔ اس علاقے میں جب ہم داخل ہوئے تو العلاء کے قریب پہنچتے ہی ہر طرف ہمیں ایسے پہاڑ نظر آئے جو بالکل کھِیل کِھیل ہو گئے ہیں ۔ صاف محسوس ہوتا تھا کہ کسی سخت ہولناک زلزلے نے انہیں سطح زمین سے چوٹی تک جھنجوڑ کر قاش قاش کر رکھا ہے ( ان پہاڑوں کی بھی کچھ تصویریں مقابل کے صفحات پر دی جا رہی ہیں ) ۔ اسی طرح کے پہاڑ ہمیں مشرق کی طرف العلاء سے خیبر جاتے ہوئے تقریباً 50 میل تک اور شمال کی طرف ریاست اردن کے حدود میں 30 ۔ 40 ۔ میل اندر تک ملتے چلے گئے ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ تین چار سو میل لمبا اور 100 میل چوڑا ایک علاقہ تھا جسے ایک زلزلہ عظیم نے ہلا کر رکھ دیا تھا ۔ ثمود کی جو عمارتیں ہم نے الحجر میں دیکھی تھیں ، اسی طرح کی چند عمارتیں ہم کو خلیج عقبہ کے کنارے مدین کے مقام پر ، اور اردن کی ریاست میں پٹرا ( Petra ) کے مقام پر بھی ملیں ۔ خصوصیت کے ساتھ پٹرا میں ثمود کی عمارات اور نَبطیوں کی بنائی ہوئی عمارات پہلو بہ پہلو موجود ہیں اور ان کی تراش خراش اور طرز تعمیر میں اتنا نمایاں فرق ہے کہ ہر شخص ایک نظر دیکھ کر ہی سمجھ سکتا ہے کہ یہ دونوں نہ ایک زمانے کی ہیں اور نہ یہ ایک ہی قوم کا طرز تعمیر ہے ( ان کے الگ الگ نمونوں کی تصویریں بھی ہم نے مقابل کے صفحات میں دی ہیں ) ۔ انگریز مستشرق ڈاٹی ( Daughty ) قرآن کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے الحجر کی عمارات کے متعلق یہ دعویٰ کرتا ہے کہ یہ ثمود کی نہیں بلکہ ، نبطیوں کی بنائی ہوئی عمارات ہیں ۔ لیکن دونوں قوموں کی عمارات کا فرق اس قدر واضح ہے کہ ایک اندھا ہی انہیں ایک قوم کی عمارات کہہ سکتا ہے ۔ میرا اندازہ یہ ہے کہ پہاڑ تراش کر ان کے اندر عمارتیں بنانے کا فن ثمود سے شروع ہوا ، اس کے ہزاروں سال بعد نبطیوں نے دوسری اور پہلی صدی قبل مسیح میں اسے عروج پر پہنچایا ، اور پھر ایلورہ میں ( جس کے غار پٹرا سے تقریباً سات سو برس بعد کے ہیں ) یہ فن اپنے کمال کو پہنچ گیا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:149) تنحتون۔ تم تراشتے ہو۔ نحت سے (باب ضرب) جس کے معنی تراشنے کے ہیں۔ مضارع کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ فرھین اسم فاعل جمع مذکر فارہ واحد۔ مہارت کے ساتھ۔ بمعنی بڑے ماہر اور حاذق ہونے کی حالت میں۔ فرھین کی قرأت پر ترجمہ ہوگا۔ اتراتے ہوئے۔ لیکن پروفیسر عبد الرؤف مصری نے لکھا ہے کہ فرھین یا فرہین میں ھاء ھوز حاء حطی کے عوض آئی ہے اصل میں فرحین یا فارحین تھا جیسے مدحتہ ومدھتہ پڑھنا جائز ہے (معجم القرآن) اور چونکہ فرحین اور فارحین دونوں کے معنی ہیں اترانے والے۔ غرور کے ساتھ خوش ہونے والے اس لئے حاذق اور ماہر کا ترجمہ کسی صورت میں نہ ہوگا۔ سو آیت ہذا کا ترجمہ ہوا۔ اور تم پہاڑوں کو تراش تراش کر مکان بناتے ہو اور اس پر بڑا غرور کرتے ہو اتراتے ہو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

13 ۔ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ ” ثمود “ بڑے متمدن لوگ تھے اور ان کی شان و شوکت کا یہ حال تھا کہ وہ پہاڑوں کو تراش کر ان کے اندر عمارتیں بنایا کرتے تھے۔ آج بھی مدینہ منورہ اور تبوک کے درمیان مدائن صالح۔ جس کا قدیم نام حجر تھا۔ میں ان کی پہاڑوں میں تراش کر بنائی ہوئی بہت سی عمارتیں موجود ہیں۔ اس آیت میں ” فارھین “ (فراغت سے) کا جو لفظ استعمال کیا گیا ہے اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ وہ یہ سب کچھ محض اپنی شان و شوکت کے اظہار اور اپنی دولت و قوت اور اعلیٰ تمدن کی نمائش کے لئے کرتے تھے نہ کہ کسی حقیقی ضرورت کے تحت۔ اور یہی ایک زوال پذیر تمدن کی شان ہوتی ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(149) اور کیا تم کمال صنعت کے ساتھ پہاڑوں کو تراش تراش کر گھر بناتے رہو گے اس فن کے کاریگر بہت تھے یا یہ مطلب ہے کہ گھروں پر اتراتے اور تفاختر کرتے رہو گے۔