99 Just as the most prominent feature of the 'Ad civilization was that they built large edifices with high pillars, so the most prominent feature of the _Thamud civilization for which they were known among the ancient peoples was that they carved out dwellings in the hills. That is why in Surah Fajr, the `Ad have been referred to as "(people) of the illars", and the _Thamud as "those who hewed rocks in the valley". These people also built castles on the plains, the purpose and object of which was nothing but display of wealth and power and architectural skill as there was no real necessity for them. These are, in fact, the ways of the perverted people: the poor among them do not have proper shelters, and the wealthy members not only have sufficient fine dwellings but over and above those they raise monuments for ostentation and display.
Some of these Thamudic works exist even today, which I have seen in December, 1959. (See pictures. This place is situated between AI-Madinah and Tabuk, a few miles to the north of Al-'Ula (Wad-il-Qura of the Holy Prophet's time) in Hejaz. The local inhabitants call it AI-Hijr and Mada'in Salih even today. AI-'Ula is still a green and fertile valley abounding in water springs and gardens, but AI-Hijr appears to be an abandoned place. It has thin population, little greenery and a few wells one of which is said to be the one at which Prophet Salih's shecamel used to drink water. This well is now dry and located within a deserted military post of the time of the Turks. When we entered this territory and approached AI-'Ula, we found hills which seemed to have been shattered to pieces from top to bottom as if by a violent earthquake. (See pictures on the opposite pages). We saw the same kind of hills while travelling to the east, from AI-`Ula to Khaibar, for about 50 miles, and towards the north inside Jordan, for about 30 to 40 miles. This indicated that an area, stretching well over 300 to 400 miles in length and 100 miles in width, had been devastated by the terrible earthquake.
A few of the _Thamudic type monuments that we saw at AI-Hijr were also found at Madyan along the Gulf of 'Aqabah and at Petra in Jordan. At Petra specially the Thamudic and Nabataean works stand side by side, and their styles and architectural designs are so different that anyone who examines them will find that they were neither built in the same age nor by the same nation. (See pictures for contrast). Doughty, the British orientalist, in his attempt to prove the Qur'an as false, has claimed that the works found at Al-HIijr were not carved out by Thamud but by the Nabataeans.I am of the view that the art of carving houses out of the rocks started with the _Thamud, and thousands of years later, in the second and first centuries B.C., it was considerably developed by the Nabataeans and it reached perfection in the works of the caves of Ellora, which were carved out about 700 years after Petra.
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :99
جس طرح عاد کے تمدن کی نمایاں ترین خصوصیت یہ تھی کہ وہ اونچے اونچے ستونوں والی عمارتیں بناتے تھے ، اس طرح ثمود کے تمدن کی سب سے زیادہ نمایاں خصوصیت ، جس کی بنا پر وہ قدیم زمانے کی قوموں میں مشہور تھے ، یہ تھی کہ وہ پہاڑوں کو تراش تراش کر ان کے اندر عمارتیں بناتے تھے ۔ چنانچہ سورہ فجر میں جس طرح عاد کو ذَاتُ الْعِمَاد ( ستونوں والے ) کا لقب دیا گیا ہے اسی طرح ثمود کا ذکر اس حوالے سے کیا گیا ہے کہ اَلَّذِیْنَ جَابُوا الصَّخْرَ بِالْوَادِ ، وہ جنہوں نے وادی میں چٹانیں تراشی ہیں ۔ اس کے علاوہ قرآن میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ اپنے ہاں میدانی علاقوں میں بھی بڑے بڑے قصر تعمیر کرتے تھے ، تَتَّخِذُوْنَ مِنْ سُھُوْلِھَا قُصُوْراً ۔ ( الاعراف ۔ آیت 74 ) ۔ اور ان تعمیرات کی غرض و غایت کیا تھی؟ قرآن اس پر لفظ فٰرِھِیْنَ سے روشنی ڈالتا ہے ۔ یعنی یہ سب کچھ اپنی بڑائی ، اپنی دولت و قوت اور اپنے کمالات فن کی نمائش کے لیے تھا ، کوئی حقیقی ضرورت ان کے لیے داعی نہ تھی ۔ ایک بگڑے ہوئے تمدن کی شان یہی ہوتی ہے ۔ ایک طرف معاشرے کے غریب لوگ سر چھپانے تک کو ڈھنگ کی جگہ نہیں پا تے ۔ دوسری طرف امراء اور اہل ثروت رہنے کے لیے جب ضرورت سے زیادہ محل بنا چکتے ہیں تو بِلا ضرورت نمائشی یادگاریں تعمیر کرنے لگتے ہیں ۔
ثمود کی ان عمارتوں میں سے کچھ اب بھی باقی ہیں جنہیں 1959 کے دسمبر میں میں نے خود دیکھا ہے ۔ مقابل کے صفحات میں ان کی کچھ تصویریں دی جاری ہیں ۔ یہ جگہ مدینہ طیبہ اور تبوک کے درمیان حجاز کے مشہور مقام العُلاء ( جسے عہد نبوی میں وادی القریٰ کہا جاتا تھا ) سے چند میل کے فاصلے پر بجانب شمال واقع ہے ۔ آج بھی اس جگہ کو مقامی باشندے الحجر اور مدائنِ صالح کے ناموں ہی سے یاد کرتے ہیں ۔ اس علاقے میں العُلاء تو اب بھی ایک نہایت سر سبز و شاداب وادی ہے جس میں کثرت سے چشمے اور باغات ہیں ، مگر الحجر کے درو پیش بڑی نحوست پائی جاتی ہے ۔ آبادی برائے نام ہے ۔ روئیدگی بہت کم ہے ۔ چند کنوئیں ہیں ۔ انہی میں سے ایک کنوئیں کے متعلق مقامی آبادی میں یہ روایت چلی آ رہی ہے کہ حضرت صالح کی اونٹنی اسی سے پانی پیتی تھی ۔ اب وہ ترکی عہد کی ایک ویران چھوٹی سی فوجی چوکی کے اندر پایا جاتا ہے اور بالکل خشک پڑا ہے ( اس کی تصویر بھی مقابل کے صفحات میں دی جا رہی ہے ) ۔ اس علاقے میں جب ہم داخل ہوئے تو العلاء کے قریب پہنچتے ہی ہر طرف ہمیں ایسے پہاڑ نظر آئے جو بالکل کھِیل کِھیل ہو گئے ہیں ۔ صاف محسوس ہوتا تھا کہ کسی سخت ہولناک زلزلے نے انہیں سطح زمین سے چوٹی تک جھنجوڑ کر قاش قاش کر رکھا ہے ( ان پہاڑوں کی بھی کچھ تصویریں مقابل کے صفحات پر دی جا رہی ہیں ) ۔ اسی طرح کے پہاڑ ہمیں مشرق کی طرف العلاء سے خیبر جاتے ہوئے تقریباً 50 میل تک اور شمال کی طرف ریاست اردن کے حدود میں 30 ۔ 40 ۔ میل اندر تک ملتے چلے گئے ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ تین چار سو میل لمبا اور 100 میل چوڑا ایک علاقہ تھا جسے ایک زلزلہ عظیم نے ہلا کر رکھ دیا تھا ۔
ثمود کی جو عمارتیں ہم نے الحجر میں دیکھی تھیں ، اسی طرح کی چند عمارتیں ہم کو خلیج عقبہ کے کنارے مدین کے مقام پر ، اور اردن کی ریاست میں پٹرا ( Petra ) کے مقام پر بھی ملیں ۔ خصوصیت کے ساتھ پٹرا میں ثمود کی عمارات اور نَبطیوں کی بنائی ہوئی عمارات پہلو بہ پہلو موجود ہیں اور ان کی تراش خراش اور طرز تعمیر میں اتنا نمایاں فرق ہے کہ ہر شخص ایک نظر دیکھ کر ہی سمجھ سکتا ہے کہ یہ دونوں نہ ایک زمانے کی ہیں اور نہ یہ ایک ہی قوم کا طرز تعمیر ہے ( ان کے الگ الگ نمونوں کی تصویریں بھی ہم نے مقابل کے صفحات میں دی ہیں ) ۔ انگریز مستشرق ڈاٹی ( Daughty ) قرآن کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے الحجر کی عمارات کے متعلق یہ دعویٰ کرتا ہے کہ یہ ثمود کی نہیں بلکہ ، نبطیوں کی بنائی ہوئی عمارات ہیں ۔ لیکن دونوں قوموں کی عمارات کا فرق اس قدر واضح ہے کہ ایک اندھا ہی انہیں ایک قوم کی عمارات کہہ سکتا ہے ۔ میرا اندازہ یہ ہے کہ پہاڑ تراش کر ان کے اندر عمارتیں بنانے کا فن ثمود سے شروع ہوا ، اس کے ہزاروں سال بعد نبطیوں نے دوسری اور پہلی صدی قبل مسیح میں اسے عروج پر پہنچایا ، اور پھر ایلورہ میں ( جس کے غار پٹرا سے تقریباً سات سو برس بعد کے ہیں ) یہ فن اپنے کمال کو پہنچ گیا ۔