Perfect Tense | Imperfect Tense | Imperative | Active Participle | Passive Participle | Noun Form |
قَسَمَ |
يَقْسِمُ |
إِقْسِمْ |
قَاسِم |
مَقْسُوْم |
قَسْم |
اَلْقَسْمُ وَالْقِسْمَۃُ (ض) کے معنی کسی چیز کے حصے کرنے اور بانٹ دینے کے ہیں۔ مثلاً قِسْمَۃُ الْمِیْرَاثِ: ترکہ کو وارثوں کے درمیان تقسیم کرنا۔ قِسْمَۃُ الْغَنِیْمَۃِ: مال غنیمت تقسیم کرنا چنانچہ قرآن پاک میں ہے: (لِکُلِّ بَابٍ مِّنۡہُمۡ جُزۡءٌ مَّقۡسُوۡمٌ ) (۱۵:۴۴) ہر ایک دروازے کے لیے ان میں سے جماعتیں تقسیم کردی گئیں ہیں۔ (وَ نَبِّئۡہُمۡ اَنَّ الۡمَآءَ قِسۡمَۃٌۢ بَیۡنَہُمۡ) (۵۴:۲۸) اور ان کو آگاہ کردو کہ ان میں پانی کی باری مقرر کردی گئی ہے۔ اِسْتَقْسَمْتُہٗ کے معنی کسی سے تقسیم چاہنا ہیں اور کبھی یہ بمنعی قسم (تقسیم کرنا) بھی آتا ہے قران پاک میں ہے: (وَ اَنۡ تَسۡتَقۡسِمُوۡا بِالۡاَزۡلَامِ ؕ ذٰلِکُمۡ فِسۡقٌ) (۵:۳) اور یہ بھی کہ پانسوں سے قسمت معلوم کرو یہ سب گناہ کے کام ہیں۔ رَجُلٌ مُنْقَسِمُ الْقَلْبِ: وہ آدمی جس کا دل تفکرات سے پریشان ہو گویا تفکرات نے اس کے دل کو تقسیم کرلیا ہے۔ یہ مُتَوَزَّعُ الْخَاطِرِ وَمُشْتَرِکٌ اللُّبِّ کی طرح کا محاورہ ہے۔ اَقْسَمَ (افعال) کے معنی حلف اٹھانے کے ہیں یہ دراصل قَسَامَۃٌ سے مشتق ہے اور قَسَامَۃ ان قسموں کو کہا جاتا ہے جو اولیائے مقتول پر تقسیم کی جاتی ہیں پھر مطلق قسم کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے(1) قرآن پاک میں ہے۔ (وَ اَقۡسَمُوۡا بِاللّٰہِ جَہۡدَ اَیۡمَانِہِمۡ) (۱۶:۳۸) اور یہ خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں۔ (اَہٰۤؤُلَآءِ الَّذِیۡنَ اَقۡسَمۡتُمۡ ) (۷:۴۹) کیا یہ وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں تم قسمیں کھایا کرتے تھے۔ (لَاۤ اُقۡسِمُ بِیَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ … وَ لَاۤ اُقۡسِمُ بِالنَّفۡسِ اللَّوَّامَۃِ ) (۷۵:۱،۲) ہم کو روزقیامت کی قسم اور نفس لوامہ کی۔ (فَلَاۤ اُقۡسِمُ بِرَبِّ الۡمَشٰرِقِ وَ الۡمَغٰرِبِ) (۷۰:۴۰) ہمیں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم۔ (اِذۡ اَقۡسَمُوۡا لَیَصۡرِمُنَّہَا مُصۡبِحِیۡنَ) (۶۸:۱۷) جب انہوں نے قسمیں کھاکھا کر کہا کہ ہم صبح ہوتے اس کا میوہ توڑ لیں گے۔ (فَیُقۡسِمٰنِ بِاللّٰہِ) (۵:۱۰۶) اور دونوں خدا کی قسمیں کھائیں۔ قَاسَمْتُہٗ وَتَقَاسَمَا: باہم قسمیں اٹھانا قرآن پاک میں ہے۔ (وَ قَاسَمَہُمَاۤ اِنِّیۡ لَکُمَا لَمِنَ النّٰصِحِیۡنَ) (۷:۲۱) اور ان کو قسم کھاکر کہا کہ میں تو تمہارا خیرخواہ ہوں۔ (قَالُوۡا تَقَاسَمُوۡا بِاللّٰہِ ) (۲۷:۴۹) کہنے لگے کہ خدا کی قسم کھاؤ۔ فَلُانٌ مُقَسَّمُ الْوَجْہِ اَوْقَسِیْمُ الْوَجْہِ کے معنی خوبرو کے ہیں اور اَلْقَسَامَۃُ بمعنی حسن۔ اصل میں یہ قِسْمَۃٌ سے ہے گویا ہر عضو کو اس کے مناسب حال حسن سے بہرہ ور کیا ہے۔ اس لیے ان میں یگانگت پیدا ہوگئی ہے اور عدم تناسب نظر نہیں آتا بعض نے کہا ہیکہ خوب روکو مُقَسَّمُ اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے حسن سے نظر کو تقسیم کرلیتا ہے یعنی نظر جسم کے کسی ایک حصہ پر جم کر نہیں رہ جاتی (بلکہ ہر عضو کی طرف باربار منتقل ہوتی رہتی ہے) اور آیت کریمہ: (کَمَاۤ اَنۡزَلۡنَا عَلَی الۡمُقۡتَسِمِیۡنَ ) (۱۵:۹۰) جس طرح ان لوگوں پر نازل کیا جنہوں نے تقسیم کردیا۔ میں مُقْتَسِمِیْن سے وہ لوگ مراد ہیں جو مکہ کی مختلف گھاٹیوں میں بت کر بیٹھ گئے تھے۔ تاکہ نووارد لووں کو اسلام سے روکیں اور رسول اﷲ ﷺ تک پہنچنے نہ دیں۔ بعض کے نزدیک وہ لوگ مراد ہیں جنہوں نے رسول اﷲ ﷺ کے خلاف سازش کرنے پر قسمیں کھائی تھیں۔(2)
Surah:4Verse:8 |
تقسیم کے وقت
(at) the (time of) division
|
|
Surah:53Verse:22 |
ایک تقسیم ہے
(is) a division
|
|
Surah:54Verse:28 |
تقسیم کیا ہوا ہے
(is) to be shared
|