Surat ul Maeeda

Surah: 5

Verse: 12

سورة المائدة

وَ لَقَدۡ اَخَذَ اللّٰہُ مِیۡثَاقَ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ ۚ وَ بَعَثۡنَا مِنۡہُمُ اثۡنَیۡ عَشَرَ نَقِیۡبًا ؕ وَ قَالَ اللّٰہُ اِنِّیۡ مَعَکُمۡ ؕ لَئِنۡ اَقَمۡتُمُ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَیۡتُمُ الزَّکٰوۃَ وَ اٰمَنۡتُمۡ بِرُسُلِیۡ وَ عَزَّرۡتُمُوۡہُمۡ وَ اَقۡرَضۡتُمُ اللّٰہَ قَرۡضًا حَسَنًا لَّاُکَفِّرَنَّ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ وَ لَاُدۡخِلَنَّکُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ۚ فَمَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ مِنۡکُمۡ فَقَدۡ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِیۡلِ ﴿۱۲﴾

And Allah had already taken a covenant from the Children of Israel, and We delegated from among them twelve leaders. And Allah said, "I am with you. If you establish prayer and give zakah and believe in My messengers and support them and loan Allah a goodly loan, I will surely remove from you your misdeeds and admit you to gardens beneath which rivers flow. But whoever of you disbelieves after that has certainly strayed from the soundness of the way."

اور اللہ تعالٰی نے بنی اسرائیل سے عہد و پیماں لیا اور انہی میں سے بارہ سردار ہم نےمقرر فرمائے اور اللہ تعالٰی نے فرمادیا کہ یقیناً میں تمہارے ساتھ ہوں ، اگر تم نماز قائم رکھو گے اور زکوۃ دیتے رہو گے اور میرے رسولوں کو مانتے رہو گے اور ان کی مدد کرتے رہو گے اور اللہ تعالٰی کو بہتر قرض دیتے رہو گے تو یقیناً میں تمہاری برائیاں تم سے دور رکھوں گا اور تمہیں ان جنتوں میں لے جاؤں گا جن کے نیچے چشمے بہہ رہے ہیں ، اب اس عہد و پیمان کے بعد بھی تم میں سے جو انکاری ہو جائے وہ یقیناً راہ راست سے بھٹک گیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Cursing the People of the Book for Breaking the Covenant Allah commanded His believing servants to fulfill the promises and pledges that He took from them and which they gave His servant and Messenger, Muhammad, peace be upon him. Allah also commanded them to stand for the truth and give correct testimony. He also reminded them of the obvious and subtle favors of the truth and guidance that He granted them. Next, Allah informed them of the pledges and promises that He took from the People of the Book, who were before them, the Jews and Christians. When they broke these promises and covenants, Allah cursed them as a consequence and expelled them from His grace and mercy. He also sealed their hearts from receiving guidance and the religion of truth, beneficial knowledge and righteous actions. Allah said, وَلَقَدْ أَخَذَ اللّهُ مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَايِيلَ وَبَعَثْنَا مِنهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيبًا ... Indeed Allah took the covenant from the Children of Israel and We appointed twelve leaders among them. These twelve people were leaders who gave the pledge to Allah to listen and obey Allah, His Messenger and His Book on behalf of their tribes. Muhammad bin Ishaq and Ibn Abbas said that; this occurred when Musa went to fight the mighty enemy (in Palestine), and Allah commanded him to choose a leader from every tribe. The Leaders of Ansar on the Night of Aqabah Likewise, when the Messenger of Allah took the pledge from the Ansar in the Aqabah area, there were twelve leaders from the Ansar. There were three men from the tribe of Aws: Usayd bin Al-Hudayr, Sa`d bin Khaythamah and Rifa`ah bin Abdul-Mundhir, or Abu Al-Haytham bin At-Tayhan. There were nine people from the tribe of Khazraj: Abu Umamah Asad bin Zurarah, Sa`d bin Ar-Rabi, Abdullah bin Rawahah, Rafi` bin Malik bin Al-Ajlan, Al-Bara bin Ma`rur, Ubadah bin As-Samit, Sa`d bin Ubadah, Abdullah bin `Amr bin Haram and Al-Mundhir bin Umar bin Khunays. Ka`b bin Malik mentioned these men in his poem, as recorded by Ibn Ishaq. On that night, these men were the leaders or representatives of their tribes by the command of the Prophet. They gave the pledge and promise of allegiance and obedience to the Prophet on behalf of their people. Allah said, ... وَقَالَ اللّهُ إِنِّي مَعَكُمْ ... And Allah said, "I am with you..., with My protection, support and aid, ... لَيِنْ أَقَمْتُمُ الصَّلَةَ وَاتَيْتُمُ الزَّكَاةَ وَامَنتُم بِرُسُلِي ... if you perform the Salah and give the Zakah and believe in My Messengers; concerning what they bring you of the revelation, ... وَعَزَّرْتُمُوهُمْ ... honor and assist them..., and support them on the truth, ... وَأَقْرَضْتُمُ اللّهَ قَرْضًا حَسَنًا ... and lend to Allah a good loan..., by spending in His cause, seeking to please Him. ... لاَّأُكَفِّرَنَّ عَنكُمْ سَيِّيَاتِكُمْ ... verily, I will remit your sins. and errors, I will erase them, cover them, and will not punish you for them, ... وَلاُدْخِلَنَّكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الاَنْهَارُ ... and admit you to Gardens under which rivers flow (in Paradise). thus, protecting you from what you fear and granting you what you seek. Breaking the Covenant Allah said, ... فَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ مِنكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاء السَّبِيلِ But if any of you after this, disbelieved, he has indeed gone astray from the straight way. Therefore, those who break this covenant, even though they pledged and vowed to keep it, yet, they broke it and denied it ever existed, they have avoided the clear path and deviated from the path of guidance to the path of misguidance. Allah then mentioned the punishment that befell those who broke His covenant and the pledge they gave Him,

عہد شکن لوگ؟ اور امام مہدی کون؟ اوپر کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو عہد و پیمانے کی وفاداری ، حق پر مستقیم رہنے اور عدل کی شہادت دینے کا حکم دیا تھا ۔ ساتھ ہی اپنی ظاہری و باطنی نعمتوں کو یاد دلایا تھا ۔ تو اب ان آیتوں میں ان سے پہلے کے اہل کتاب سے جو عہد و میثاق لیا تھا ، اس کی حقیقت و کیفیت کو بیان فرما رہا ہے ، پھر جبکہ انہوں نے اللہ سے کئے ہوئے عہد و پیمان توڑ ڈالے تو ان کا کیا حشر ہوا ، اسے بیان فرما کر گویا مسلمانوں کو عہد شکنی سے روکتا ہے ۔ ان کے بارہ سردار تھے ۔ یعنی بارہ قبیلوں کے بارہ چودھری تھے جو ان سے ان کی بیعت کو پورا کراتے تھے کہ یہ اللہ اور رسول کے تابع فرمان رہیں اور کتاب اللہ کی اتباع کرتے رہیں ۔ حضرت موسیٰ جب سرکشوں سے لڑنے کیلئے گئے تب ہر قبیلہ میں سے ایک ایک سردار منتخب کر گئے تھے ۔ اوبیل قبیلے کا سردار شامون بن اکون تھا ، شمعونیوں کا چودھری شافاط بن جدی ، یہودا کا کالب بن یوحنا ، فیخائیل کا ابن یوسف اور افرایم کا یوشع بن نون اور بنیامین کے قبیلے کا چودھری قنطمی بن وفون ، زبولون کا جدی بن شوری ، منشاء کاجدی بن سوسی ، دان حملاسل کا ابن حمل ، اشار کا ساطور ، تفتای کا بحر اور یاسخر کالابل ۔ توراۃ کے چوتھے جز میں بنو اسرائیل کے قبیلوں کے سرداروں کے نام مذکور ہیں ۔ جو ان ناموں سے قدرے مختلف ہیں ۔ واللہ اعلم ۔ موجودہ تورات کے نام یہ ہیں ۔ بنو ادبیل پر صونی بن سادون ، بنی شمعون پر شموال بن صور ، بنو یہود پر حشون بن عمیاذب ، بنو یساخر پر شال بن صاعون ، بنو زبولوں پر الیاب بن حالوب ، بنو افرایم پر منشا بن عنہور ، بنو منشاء پر حمائیل بنو بیبا میں پر ابیدن ، بنودان پر جعیذ ربنو اشاذ نحایل ۔ بون کان پر سیف بن دعوابیل ، بنو نفعالی پر اجذع ۔ یاد رہے کہ لیلتہ العقبہ میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے بیعت لی اس وقت ان کے سردار بھی بارہ ہی تھے ۔ تین قبیلہ اوس کے ۔ حضرت اسید بن حضیر ، حضرت سعد بنی خیشمہ اور حضرت رفاعہ بن عبد المنذر اور نو سردار قبیلہ خزرج تھے ۔ ابو امامہ ، اسعد بن زرارہ ، سعد بن ربیع ، عبداللہ بن رواحہ ، رافع بن مالک بن عجلان براء بن معرور عبادہ بن صامت ، سعد بن عبادہ ، عبداللہ بن عمرو بن حرام ، منذربن عمرو بن حنیش اجمعین ۔ انہی سرداروں نے اپنی اپنی قوم کی طرف سے پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم سے فرامین سننے اور ماننے کی بیعت کی ، حضرت مسروق فرماتے ہیں ہم لوگ حضرت عبداللہ بن مسعود کے پاس بیٹھے تھے ، آپ ہمیں اس وقت قرآن پڑھا رہے تھے تو ایک شخص نے سوال کیا کہ آپ لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی پوچھا ہے کہ اس امت کے کتنے خلیفہ ہوں گے؟ حضرت عبداللہ نے فرمایا میں جب سے عراق آیا ہوں ، اس سوال کو بجز تیرے کسی نے نہیں پوچھا ، ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں دریافت کیا تھا تو آپ نے فرمایا ، بارہ ہوں گے ، جتنی گنتی بنو اسرائیل کے نقیبوں کی تھی ۔ یہ روایت سنداً غریب ہے ، لیکن مضمون حدیث بخاری اور مسلم کی روایت سے بھی ثابت ہے ، جابر بن سمرہ فرماتے ہیں میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ، لوگوں کا کام چلتا رہے گا ، جب تک ان کے والی بارہ شخص نہ ہو لیں ، پھر ایک لفظ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن میں نہ سن سکا تو میں نے دوسروں سے پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اب کونسا لفظ فرمایا ، انہوں نے جواب دیا یہ فرمایا کہ یہ سب قریش ہوں گے ۔ صحیح مسلم میں یہی لفظ ہیں ۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ بارہ خلیفہ صالح نیک بخت ہونگے ۔ جو حق کو قائم کریں گے اور لوگوں میں عدل کرینگے ۔ اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ سب پے درپے یکے بعد دیگرے ہی ہوں ۔ پس چار خلفاء تو پے درپے حضرت ابو بکر ، حضرت عمر ، حضرت عثمان ، حضرت جن کی خلافت بطریق نبوت رہی ۔ انہی بارہ میں سے پانچویں حضرت عمر بن عبد العزیز ہیں ۔ بنو عباس میں سے بھی بعض اسی طرح کے خلیفہ ہوئے ہیں اور قیامت سے پہلے پہلے ان بارہ کی تعداد پوری ہونی ضروری ہے اور انہی میں سے حضرت امام مہدی ہیں ، جن کی بشارت احادیث میں آ چکی ہے ان کا نام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر ہوگا اور ان کے والد کا نام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والد کا ہوگا ، زمین کو عدل و انصاف سے بھر دینگے حالانکہ اس سے پہلے وہ ظلم و جبر سے پُر ہوگی لیکن اس سے شیعوں کا امام منتظر مراد نہیں ، اس کی تو دراصل کوئی حقیقت ہی نہیں ، نہ سرے سے اس کا کوئی وجود ہے ، بلکہ یہ تو صرف شیعہ کی وہم پرستی اور ان کا تخیل ہے ، نہ اس حدیث سے شیعوں کے فرقے اثنا عشریہ کے ائمہ مراد ہیں ۔ اس حدیث کو ان ائمہ پر محمول کرنا بھی شیعوں کے اس فرقہ کی بناوٹ ہے جو ان کی کم عقلی اور جہالت کا کرشمہ ہے ۔ توراۃ میں حضرت اسمعیل کی بشارت کے ساتھ ہی مرقوم ہے کہ ان کی نسل میں سے بارہ بڑے شخص ہونگے ، اسے مراد بھی یہی مسلمانوں کے بارہ قریشی بادشاہ ہیں لیکن جو یہودی مسلمان ہوئے تھے ، وہ اپنے اسلام میں کچے اور جاہل بھی تھے ، انہوں نے شیعوں کے کان میں کہیں یہ صور پھونک دیا اور وہ سمجھ بیٹھے کہ اس سے مراد ان کے بارہ امام ہیں ، ورنہ حدیثیں اس کے واضح خلاف موجود ہیں ۔ اب اس عہد و پیمان کا ذکر ہو رہا ہے جو اللہ تعالیٰ نے یہودیوں سے لیا تھا کہ وہ نمازیں پڑھتے رہیں ، زکوٰۃ دیتے رہیں ، اللہ کے رسولوں کی تصدیق کریں ، ان کی نصرت و اعانت کریں اور اللہ کی مرضی کے کاموں میں اپنا مال خرچ کریں ۔ جب وہ ایسا کریں گے تو اللہ کی مدد و نصرت ان کے ساتھ رہے گی ، ان کے گناہ معاف ہونگے اور یہ جنتوں میں داخل کئے جائیں گے ، مقصود حاصل ہوگا اور خوف زائل ہوگا ، لیکن اگر وہ اس عہد و پیما کے بعد پھر گئے اور اسے غیر معروف کر دیا تو یقینا وہ حق سے دور ہو جائیں گے ، بھٹک اور بہک جائیں گے ۔ چنانچہ یہی ہوا کہ انہوں نے میثاق توڑ دیا ، وعدہ خلافی کی تو ان پر اللہ کی لعنت نازل ہوئی ، ہدایت سے دور ہو گئے ، ان کے دل سخت ہو گئے اور وعظ و پند سے مستفید نہ ہو سکے ، سمجھ بگڑ گئی ، اللہ کی باتوں میں ہیر پھیر کرنے لگے ، باطل تاویلیں گھڑنے لگے ، جو مراد حقیقی تھی ، اس سے کلام اللہ کو پھیر کر اور ہی مطلب سمجھنے سمجھانے لگے ، اللہ کا نام لے کر وہ مسائل بیان کرنے لگے ، جو مراد حقیقی تھی ، اس سے کلام اللہ کو پھیر کر اور ہی مطلب سمجھنے سمجھانے لگے ، اللہ کا نام لے کر وہ مسائل بیان کرنے لگے جو اللہ کے بتائے ہوئے نہ تھے ، یہاں تک کہ اللہ کی کتاب ان کے ہاتھوں سے چھوٹ گئی ، وہ اس سے بےعمل چھوٹ جانے کی توجہ سے نہ تو دل ٹھیک رہے ، نہ فطرت اچھی رہی ۔ نہ خلوص و اخلاص رہا ، غداری اور مکاری کو اپنا شیوہ بنا لیا ۔ نت نئے جال نبی صلی اللہ علیہ وسلم اصحاب نبی کے خلاف بنتے رہے ۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہوتا ہے کہ آپ ان سے چشم پوشی کیجئے ، یہی معاملہ ان کے ساتھ اچھا ہے ، جیسے حضرت عمر فاروق سے مروی ہے کہ جو تجھ سے اللہ کے فرمان کے خلاف سلوک کرے تو اس سے حکم الٰہی کی بجا آوری کے ماتحت سلوک کر ۔ اس میں ایک بڑی مصلحت یہ بھی ہے کہ ممکن ہے ان کے دل کھچ آئیں ، ہدایت نصیب ہو جائے اور حق کی طرف آ جائیں ۔ اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ۔ یعنی دوسروں کی بدسلوکی سے چشم پوشی کر کے خود نیا سلوک کرنے والے اللہ کے محبوب ہیں ۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں درگزر کرنے کا حکم جہاد کی آیت سے منسوب ہے ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ان نصرانیوں سے بھی ہم نے وعدہ لیا تھا کہ جو رسول آئے گا ، یہ اس پر ایمان لائیں گے ، اس کی مدد کرینگے اور اس کی باتیں مانیں گے ۔ لیکن انہوں نے بھی یہودیوں کی طرح بد عہدی کی ، جس کی سزا میں ہم نے ان میں آپس میں عداوت ڈال دی جو قیامت تک جاری رہے گی ۔ ان میں فرقے فرقے بن گئے جو ایک دوسرے کو کافر و ملعون کہتے ہیں اور اپنے عبادت خانوں میں بھی نہیں آنے دیتے ملکیہ فرقہ یعقوبیہ فرقے کو ، یعقوبیہ ملکیہ کو کھلے بندوں کافر کہتے ہیں ، اسی طرح دوسرے تمام فرقے بھی ، انہیں ان کے اعمال کی پوری تنبیہہ عنقریب ہوگی ۔ انہوں نے بھی اللہ کی نصیحتوں کو بھلا دیا ہے اور اللہ پر تہمتیں لگائی ہیں اس پر بیوی اور اولاد والا ہونے کا بہتان باندھا ہے ، یہ قیامت کے دن بری طرح پکڑے جائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ واحد واحد فرد و صمد لم یلد ولم یولد ولم یکن لہ کفوا احد ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1۔ 12 جب اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو وہ عہد اور میثاق پورا کرنے کی تاکید کی جو اس نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعے سے لیا اور انہیں قیام حق اور شہادت عدل کا حکم دیا اور انہیں وہ انعامات یاد کرائے جو ان پر ظاہرا و باطنا ہوئے اور بالخصوص یہ بات کہ انہیں حق وثواب کے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائی تو اب اس مقام پر اس عہد کا ذکر فرمایا جا رہا ہے جو بنی اسرائیل سے لیا گیا اور جس میں وہ ناکام رہے۔ یہ گویا بالواسطہ مسلمانوں کو تنبیہ ہے کہ تم بھی کہیں بنو اسرائیل کی طرح عہد ومیثاق کو پامال کرنا شروع نہ کردینا۔ 2۔ 12 اس وقت کا واقعہ ہے جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جبابرہ سے قتال کے لیے تیار ہوئے تو انہوں نے اپنی قوم کے بارہ قبیلوں بارہ نقیب مقرر فرما دیے تاکہ وہ انہیں جنگ کے لیے تیار بھی کریں، ان کی قیادت و راہنمائی بھی کریں اور دیگر معاملات کا انتظام بھی کریں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٣] بنی اسرائیل کے بارہ نقیب اور ان کی ذمہ داریاں :۔ نقیب کے معنی ہیں نگرانی اور تفتیش کرنے والا۔ بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے تھے اور موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں موجود تھے۔ بنی اسرائیل نے جب موسیٰ (علیہ السلام) سے پانی کا مطالبہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ فلاں پتھر پر اپنا عصا مارو تو بارہ چشمے پھوٹ پڑیں گے۔ چناچہ ایسا ہی ہوا اور ہر قبیلہ نے اپنا اپنا چشمہ یا پانی پینے کی جگہ پہچان لی اور اس پر قابض ہوگیا۔ انہیں بارہ قبائل میں سے ہر قبیلہ سے ایک ایک نقیب مقرر کیا گیا۔ جس کا کام یہ تھا کہ وہ لوگوں کے اخلاق و کردار کی نگرانی کرے اور انہیں بےدینی اور بداخلاقی سے بچانے کی کوشش کرتا رہے۔ [٣٤] اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ معیت چار باتوں سے مشروط تھا۔ (١) بنی اسرائیل نماز کو قائم کرتے رہیں (٢) زکوٰۃ ادا کرتے رہیں (٣) بعد میں جو رسول مبعوث ہوں ان پر ایمان بھی لائیں اور ان کی جان اور مال سے مدد بھی کریں اور (٤) لوگوں کو قرضہ حسنہ دیتے رہیں۔ گویا جو ذمہ داری ان نقیبوں پر ڈالی گئی تھی ان میں سے مذکورہ چار کام سب سے اہم تھے اور ان سے عہد یہ تھا کہ اگر وہ ذمہ داری پوری کرتے رہیں گے تو یقینا اللہ ان کے ساتھ ہوگا اور ان کی ہر معاملہ میں مدد فرمائے گا۔ [٣٥] برائیاں دور کرنے کے دو مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ جو شخص نیکی کے مذکورہ بالا بڑے بڑے کاموں میں لگا رہے اس کا ذہن برائیوں کی طرف منتقل ہوتا ہی نہیں اور وہ برائیوں سے بچا رہتا ہے اور برائیاں اس سے دور رہتی ہیں۔ دوسرے یہ کہ اگر ان سے کچھ برائیاں سرزد ہو بھی جائیں تو وہ ایسی بڑی نیکیوں کے تلے دب جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ ان پر گرفت ہی نہیں فرماتے۔ [٣٦] سیدھی راہ اور اس کی صفات :۔ سواء السبیل سے مراد وہ راہ ہے جو متوازن، معتدل اور افراط وتفریط سے پاک ہو۔ کیونکہ یہ راہ اس علیم و حکیم ہستی کی بتلائی ہوئی ہے جو تمام حقائق سے پوری طرح واقف ہے اور سب انسان اس کی نظروں میں یکساں ہیں۔ یہ کسی انسان کی بتائی ہوئی راہ نہیں۔ جس پر اس کے اپنے جذبات، وطن اور قوم کی محبت یا دوسری معاشی اور معاشرتی عوامل اثر انداز ہوجاتے ہیں اور وہ ایسی معتدل، متوازن اور افراط وتفریط سے پاک راہ کا سراغ لگا بھی نہیں سکتا۔ یہ اللہ کی خاص مہربانی ہے کہ اس نے خود ہی انسانون کو یہ راہ بتلا دی جس سے انہیں اس دنیا میں بھی اس راستہ کی تلاش کے لیے کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوتی اور آخرت میں بھی وہ کامرانیوں سے ہمکنار ہوجائے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاقَ بَنِيْٓ اِ سْرَاۗءِيْلَ ۚ ۔۔ : پیچھے آیت (٧) میں گزرا ہے کہ مسلمانو ! اپنے آپ پر اللہ کی نعمت اور اپنے اس عہد کو یاد کرو جب تم نے سمع و طاعت کا پختہ عہد کیا تھا، اب فرمایا کہ یہ عہد صرف تم ہی سے نہیں لیا گیا بلکہ تم سے پہلے بنی اسرائیل سے بھی اسی قسم کا عہد لیا گیا تھا، مگر انھوں نے عہد توڑ دیا اور ذلت و مسکنت کا شکار ہوئے، لہٰذا تم ان جیسے مت بنو۔ (کبیر) بنی اسرائیل کے کل بارہ قبیلے تھے، اللہ تعالیٰ نے انھی میں سے ان پر بارہ سردار مقرر کردیے، تاکہ وہ ان کے حالات پر نظر رکھیں اور انھیں اپنے عہد پر قائم رہنے کی تلقین کرتے رہیں۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ نقیب ( سردار) ان جبارین (زبردست لوگوں کی قوم) کی خبر لانے کے لیے مقرر کیے تھے جن کا ذکر آیت (٢١ تا ٢٦) میں آ رہا ہے۔ (ابن کثیر) مگر ظاہر الفاظ سے پہلی بات صحیح معلوم ہوتی ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی لیلۃ العقبہ میں جب سمع و طاعت پر بیعت لی تھی تو ان پر بارہ نقیب ہی مقرر فرمائے تھے۔ (قرطبی)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary In the seventh verse of Surah al-Ma&idah which appeared earlier Allah Almighty has asked Muslims to remember the pledge taken from them to which they professed belief and obedience: وَاذْكُرُ‌وا نِعْمَةَ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ وَمِيثَاقَهُ الَّذِي وَاثَقَكُم بِهِ إِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۖ وَاتَّقُوا اللَّـهَ And remember Allah&s favour upon you and His Covenant that He has taken from you when you said, |"We have listened and obeyed.|" And fear Allah ... (5:7) This pledge is the pledge of obedience to Allah and His Messenger and the pledge of practical adherence to the Shari` ah of Islam. This is technically known as the Kalimah or the statement of creed and which is: لا إلہ إلا اللہ محمد رسول اللہ (La ilaa il-lal-la-hu Muhammadur-Rasu-lul-lah: |"There is no god worthy of worship but Allah Muhammad is the Messenger of Allah.|" Every Muslim who says this Kalimah is bound by this pledge. In the verse which follows (5:8), some important articles of the pledge, that is, particular religious injunctions have been described. These enjoin eq¬uity and justice for friend and foe alike and teach justice and tolerance - not revenge - for enemies once overpowered. This pledge is, in itself, a great blessing of Allah, therefore, it has been made to begin with: (And remember Allah&s favour upon you ...). By beginning the present verse (5:11) with the same sentence : اذْكُرُ‌وا نِعْمَةَ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ (And remember Allah&s favour upon you), the objective is to tell Muslims that as long as they remained faithful to their pledge, Al-mighty Allah blessed them with power and excellence in the present world and with high ranks for the Hereafter, shielding them all along against their enemies, in war and in peace. This verse particularly mentions how enemies conspired to destroy Muslims and kill their Prophet on so many occasions, but Almighty Al¬lah foiled all their plans and put them to disgrace - &some people planned to lay their hands on you, and He kept their hands away from you.& Speaking generally, there are innumerable events on the annals of the history of Islam when the plans made by disbelievers were seen rolling in dust by Divine grace. But, there are some special events as well which our learned commentators have pinpointed as the substan¬tiation of this verse - for example, in the Musnad of ` Abd al-Razzaq, a report from Sayyidna Jabir (رض) عنہ says: In a Jihad, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and his Companions رضی اللہ تعالیٰ عنہم stopped to rest at one stage. The noble Companions scattered out to rest at various spots. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) stopped by a tree, all by himself. He hung his weapons on a branch of the tree. A villager from among the enemies pounced on this occasion, dashed in and took pos¬session of the sword of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Then, taking it out from the sheath, he threatened him by saying: مَن یَّمنَعکَ مِنِّی (That is, &now tell me who can save you from my hand?& ). Undaunted, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: &Allah (the Mighty, the Exalted) &. The villager repeated what he had said earlier, that is, &now tell me who can save you from my hand?& Once again, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said with the same composure: &Allah After two or three exchanges in this manner, it was the awe of some unseen power which forced the challenger to put the sword back in its sheath. At that point, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) called the Companions (رض) in and narrated what had transpired. The villager was still sitting by his side. He said nothing to him. (Ibn Kathir). As part of an explanation of this verse, reports from some Compan¬ions (رض) say that there was an occasion when Ka&b ibn Ashraf, a Jew, had invited the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) to his house with the intention of killing him. Allah Almighty told him about this evil intention which foiled his conspiracy (Ibn Kathir). Also reported from Mujahid, ` Ikrimah and others is that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) once went to Yahud ibn Nudayr to talk about a matter of concern. He asked him to sit un¬der a wall, engaged him in a conversation while secretly he appointed ` Amr ibn Jahsh to scale the wall from behind and throw down a rock from the top of the wall over him. Allah Almighty let His Messenger, may he remain blessed and protected forever, know about their hos¬tile intention and he immediately rose and moved away from there (Ibn Kathir). There is no contradiction about these events. All of them can be taken to be substantiating the present verse where, after mentioning the unseen protection provided to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and to Muslims in general, it was said: وَاتَّقُوا اللَّـهَ وَعَلَى اللَّـهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ (And fear Al¬lah. And in Allah the believers should place their trust). First of all, what is being said here is that this blessing from Allah is not restricted to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) rather, the real cause of this Divine support and protection is the quality of Taqwa (the fear of Allah) and Tawakkul (Trust in Him). Any nation, or individual who lives by these two virtues, in any time and in any place, will have the support and protection from Almighty Allah in the same manner. How well this was put in two lines by poet Iqbal: فِضأے بَدَر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو اُتَرسکتے ہیں گَردُوں سے قطار اندر قطار اب بھی Create the atmosphere of Badr, for your help the angels could descend from the heavens, file after file, even now! It is also possible to refer this sentence back to the set of previous verses where Muslims have been commanded to treat their worst ene¬mies with courtesy and justice. If so, the sentence would indicate that the teaching of courtesy and tolerance in the case of such avowed ene¬mies may amount to making a political error which may put them back on their feet. Therefore, in this sentence, Muslims were warned that this tolerance and courtesy will bring absolutely no harm to them only if they continue being the kind of people who fear Allah and trust in Him. In fact, instead of giving the enemies the courage and oppor¬tunity to renew their hostility against them, this behaviour of theirs will become the cause of bringing them closer to Islam into the Muslim area of influence. Besides, Taqwa or the fear of Allah is the only factor which can compel a person to abide by a pledge both physically and spiritually. Wherever this quality of Taqwa remains missing, pledges get readily broken as commonly witnessed these days. So, the earlier verse (5:8) which mentions a pledge, also directed to وَاتَّقُوا اللَّـهَ , (Fear Allah) towards the end. The same assertion was repeated here. Finally, this whole verse gives a clear hint that a Muslim victory with Divine support does not simply depend upon outward logistics and hardware, instead of that, the secret of their real power lies in Taqwa (the fear of Allah) and Tawakkul (trust in Him). After the present verse has mentioned the pledge taken from Mus¬lims and rewards it would bring when fulfilled, the second verse brings into focus another side of the issue. It clarifies that this taking of pledges is not something special to Muslims. Similar pledges were also taken earlier, from other communities as well. But, they failed to fulfill them. Therefore, various punishments were sent upon them. It is said in the verse that Almighty Allah had taken a pledge from the Bani Isra&il (The Children of Israel). The pledge was taken in a partic¬ular form. The people from Bani Isra&il were divided over twelve tribes. One chief from each such tribe was chosen to represent them. Every chief from each of the twelve tribes declared on his behalf and on be-half of his whole tribe that they would adhere to this Divine Covenant. Thus, these twelve chiefs took that responsibility on behalf of the en-tire people of Bani Isra&il which entailed that they would themselves adhere to this pledge as well as make their tribe do so. Worth noting at this point is the cardinal principle of Islam in mat¬ters of honour, merit, office and recognition which, in the words of the Persian poet, Jami, is: بندہ عشق شدی ترک نسب کن جامی کہ دریں راہ فلاں بن فلاں چین نیست You have become a servant in love, forget about your lineage, 0 Jami! For, on this highway, so and so the son of so and so means nothing. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) had declared this in full clarity when delivering his historic Address on the occasion of his Last Hajj by saying that Islam does not recognize any dividing line between Ar¬abs and non-Arabs, black or white, high caste or low caste. Whoever enters Islam becomes a brother to all Muslims. The distinctions of status, lineage, colour, country and language were the idols and icons of the Days of Ignorance - Islam has broken them all. But, it does not mean that one should not consider family background when harnessed to establish order and efficiency in administrative matters. It is but natural that people of a tribe or family are more likely to trust a known member of their group as compared to others. Such a person is expected to understand and accommodate the feelings of his group much better because he knows their psychological reflexes in de-tail. When a pledge was taken from the twelve tribes of Bani Isra&il, it was based on this very strategy whereby one chief from each of the tribes was made responsible for its compliance. The same consideration of administrative expediency and a peace¬ful resolution of possible conflict was made when the Bani Isra&il were highly agitated about a shortage of water. Sayyidna Musa (علیہ السلام) prayed to Allah and as commanded by Him he struck his staff against a rock. Then, Almighty Allah made twelve streams flow from this rock for each of the twelve tribes. Allah Almighty has mentioned this great favour in the Holy Qur&an (surah al-A` raf, 7:160) in the following words: وَقَطَّعْنَاهُمُ اثْنَتَيْ عَشْرَ‌ةَ أَسْبَاطًا أُمَمًا (And We divided them into twelve tribes, as separ¬ate communities) and: فانبَجَسَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَ‌ةَ عَيْنًا (So, twelve springs gushed forth from it [ one for each tribe ]). As for this figure of twelve, it is rather unusual and lends to popular interpretations. When the Ansar of Madinah came to invite the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) to their city, he took a pledge from them in the form of Bay&at. In this pledge also, the twelve chiefs of the tribes of Ansar, acting on behalf of their tribes, gave their hands in the blessed hands of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) giving a solemn pledge of adherence popularly known as Bay&at (or Bay&ah in its pausal form). Three of these chiefs were from the tribe of &Aws and nine from the tribe of Khazraj (Ibn Kathir). According to another narration from Sayyidna Jabir ibn Samurah appearing in al-Bukhari and Muslim, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is reported to have said that people and their needs shall stay covered until such time that twelve Khulafa& (ruling authorities) will be lead¬ing them. After having reported this narration, Ibn Kathir has com¬mented that no word from this hadith proves that these twelve Imams or Khulafa& would rule one after the other, continuously. On the con¬trary, they could also appear spaced out from each other with breaks in between. Thus, there were four Khulafa& - Sayyidna Abu Bakr (رض) ، Sayy idna ` Umar al-Faruq (رض) ، Sayyidna ` Uthman al-Ghani (رض) and Sayyidna Ali al-Murtada (رض) - succeeding in that order. After the passage of sometime in between, Sayyidna ` Umar ibn ` Abdul-` Aziz was accepted by the consensus of the Ummah as the fifth righteous Khallfah& of Islam. Now, returning back to the pledge taken from the Bani Isra&il, it will be recalled that Allah had made the twelve chiefs from their twelve tribes responsible for them and to them He said: اِنِّی مَعَکُم (I am with you). It means if they fulfilled the pledge themselves and re-solved to make others do the same, Divine support shall be with them. After that, the verse enumerates some articles of this pledge, then refers to the breach of trust committed by the Bani Isra&il and the subse¬quent punishment that descended upon them. Thus, the sentence: & اِنِّی مَعَکُم (I am with you) which appears before mentioning the articles of the pledge is there to tell two things. First¬ly, if they stood by the pledge, Divine support will be with them which they would witness on every step they take. Secondly, they must real¬ize that Allah is with them everywhere, all the time. He is watching over this pledge. Nothing that they intend, think, plan and do will remain outside the reach of His knowledge. He sees and hears what they conceal and He is also aware of their intentions and plans. They cannot escape His grip by breaking the pledge. Then come the articles of the pledge, the first being &the establishment of Surah& followed by &the paying of Zakah properly.& This tells us that the people of Sayyid¬na Musa (علیہ السلام) were also obligated with the duties of Salah and Zakah much before Islam. Other Qur&anic hints and authentic reports prove that these duties were not peculiar to Bani Isra&il alone. In fact, they have been enjoined by every prophet and every Shari’ ah. The third article of the pledge is that they should believe in all prophets and messengers sent by Allah and help them achieve their objective of spreading true guidance. Since many messengers were to come to the Bani Isra&il, they were the ones particularly charged to do this. Though, the status of basic Iman or faith comes ahead of actual acts such as Salah and Zakah, yet, in this pledge, what was to be actu¬ally done was what was placed first. Prophets and messengers who were to come, would be coming later. Since the matter of believing in them and helping them in their mission was to happen later, that part was placed later in the text. The fourth article of the pledge is: أَقْرَ‌ضْتُمُ اللَّـهَ قَرْ‌ضًا حَسَنًا (…and advance to Allah a goodly loan ...). |"Qardan Hasana|" (a goodly loan) means that it should be with absolute sincerity without any worldly expedien¬cy behind it. When spending in the way of Allah, one should spend what one holds dear - never trying to get away by giving out of the spare, the extra and the worthless. Spending in the way of Allah has been expressed as &the giving of loan& because the return of a loan is taken as due legally, customarily and morally. So, one should spend in the way of Allah believing that it will be returned definitely. Since the obligatory Zakah has already been mentioned at its place, the introduction of Qard Hasan here indicates that it is referring to Sadaqat and Khayrat (charities) other than Zakah. It also tells us that Muslims are not done with all financial responsibilities by simply paying off the Zakah due on them. There are other financial rights to be fulfilled, such as, making a Masjid where needed. When governments do not initiate or support religious education for children and adults, the responsibility of establishing and running institutions devoted to imparting religious education rests on none but Muslims themselves. The difference between the two is that Zakah is Fard Ayn (absolute ob¬ligation on every individual) while the kind of charities mentioned above are Fard Kifayah (an obligation of sufficiency as explained below). Fard Kifayah means: should some individuals or a group from the Muslim community take care of such needs, other Muslims are released from the burden of responsibility; and, should no one come forward to do so, everyone becomes a sinner. How terrible are the cir-cumstances in which schools for religious education are operating in our time is known and braved by only those who have made it a mis¬sion of their lives to keep serving their Faith through these institu¬tions of religious learning. As for paying Zakah, Muslims know that it is an obligation on them. It is strange that, despite this knowledge, there are very few who pay their Zakah - and there are still fewer who take the trouble of paying the full Zakah due on them after a full accounting. And even those who rarely pay out the full amount of Zakah due on them, think that they have done all they were supposed to do and that there is nothing more due on them. Go to them about some urgent need of a Masjid and they will come up with Zakah money. The same thing happens with religious institutions - they too hardly get any financial support other than Zakah. Although, these are duties, other than Zakah, which Muslims have to fulfill - this has been made clear in this verse of the Qur&an and in many other verses similar to it. Towards the end of the verse, after enumerating the articles of the pledge, it was also clarified that the fulfillment of the pledge on their part will be amply rewarded, even their past sins will be forgiven and they will have the eternal comfort and security of Paradise. But, finally they were given to understand that should any of them elect to ig. nore such clear statements and go on to the limits of rejection and re¬bellion, they should know that they have left the straight path only to their self-appointed ruin.

اس آیت میں مسلمانوں سے عہد و میثاق لینے اور ان کے ایفاء عہد پر دنیا و آخرت میں اس کے بیش بہا نتائج کا ذکر کرنے کے بعد معاملہ کا دوسرا رخ سامنے لانے کے لئے دوسری آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ یہ عہد و میثاق لینا صرف مسلمانوں کے لئے مخصوص نہیں، بلکہ ان سے پہلے دوسری امتوں سے بھی اسی قسم کے میثاق لئے گئے تھے۔ مگر وہ اپنے عہد و میثاق میں پورے نہ اترے۔ اس لئے ان پر طرح طرح کے عذاب مسلط کئے گئے۔ ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے بھی ایک عہد لیا تھا۔ اور ان سے عہد لینے کی یہ صورت اختیار کی گئی تھی کہ پوری قوم بنی اسرائیل جو بارہ خاندانوں پر مشتمل تھی انہیں سے ہر خاندان سے ایک سردار چنا گیا، اور ہر خاندان کی طرف سے اس کے سردار نے ذمہ داری اٹھائی کہ میں اور میرا پورا خاندان اس میثاق الہٰی کی پابندی کرے گا۔ اس طرح ان بارہ سرداروں نے پوری قوم بنی اسرائیل کی ذمہ داری لے لی۔ ان کے ذمہ یہ تھا کہ خود بھی اس میثاق کی پابندی کریں اور اپنے خاندان سے بھی کرائیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ عزت و فضیلت کے معاملہ میں اسلام کا اصل اصول تو یہ ہے کہ بندہ عشق شدی ترک نسب کن جامی کہ دریں راہ فلاں بن فلاں چیزے نیست رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجة الوداع کے تاریخی خطبہ میں پوری وضاحت کے ساتھ اس کا اعلان فرمادیا ہے کہ اسلام میں عرب و عجم، کالے گورے اور اونچی نیچی ذات، پات کا کوئی اعتبار نہیں۔ جو اسلام میں داخل ہوگیا وہ سارے مسلمانوں کا بھائی ہوگیا۔ حسب، نسب، رنگ، وطن، زبان کے امتیازات جو جاہلیت کے بت تھے ان سب کو اسلام نے توڑ ڈالا، لیکن اس کے معنیٰ یہ نہیں کہ انتظامی معاملات میں نظم قائم رکھنے کے لئے بھی خاندانی خصوصیات کا لحاظ نہ کیا جائے۔ یہ فطری امر ہے کہ ایک خاندان کے لوگ اپنے خاندان کے جانے پہچانے آدمی پر بہ نسبت دوسروں کے زیادہ اعتماد کرسکتے ہیں۔ اور یہ شخص ان کی پوری نفسیات سے واقف ہونے کی بنا پر ان کے جذبات و خیالات کی زیادہ رعایت کرسکتا ہے۔ اسی حکمت عملی پر مبنی تھا کہ بنی اسرائیل کے بارہ خاندانوں سے جب عہد لیا گیا تو ہر خاندان کے ایک ایک سردار کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ اور اسی انتظامی مصلحت اور مکمل اطمینان و سکون کی رعایت اس وقت بھی کی گئی جب کہ قوم بنی اسرائیل پانی نہ ہونے کی وجہ سے سخت اضطراب میں تھی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا کی اور بح کے لئے علیحدہ علیحدہ جاری کر دئے۔ سورة اعراف میں قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کے اس احسان عظیم کا اس طرح ذکر فرمایا ہے :۔ وقطعنہم اثنتی عشرة اسباطا امما اور فانبجست منہ اثنتا عشرة عینا ہم نے بانٹ دیئے ان کے بارہ خاندان بارہ جماعتوں میں۔ پھر پھوٹ نکلے پتھر سے بارہ چشمے (ہر ایک خاندان کے لئے جدا جدا) ۔ اور یہ بارہ کا عدد بھی کچھ عجیب خصوصیات اور مقبولیت رکھتا ہے۔ جس وقت انصار مدینہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مدینہ کے لئے دعوت دینے کے لیے حاضر ہوئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے بذریعہ بیعت معاہدہ لیا تو اس معاہدہ میں بھی انصار کے بارہ سرداروں نے ذمہ داری لے کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دست مبارک پر بیعت کی تھی ان میں تین سردار قبیلہ اوس کے اور نو قبیلہ خزرج کے تھے (ابن کثیر) ۔ اور صحیحین میں حضرت جابر بن سمرة (رض) کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ لوگوں کا کام اور نظام اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک کہ بارہ خلیفہ ان کی قیادت کریں گے۔ امام ابن کثیر نے اس روایت کو نقل کرکے فرمایا کہ اس حدیث کے کسی لفظ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ بارہ امام یکے بعد دیگرے مسلسل ہوں گے۔ بلکہ ان کے درمیان فاصلہ بھی ہوسکتا ہے۔ چناچہ چار خلفاء صدیق اکبر، فاروق اعظم، عثمان غنی، علی المرتضیٰ (رض) مسلسل ہوئے اور درمیان کی کچھ مدت کے بعد پھر حضرت عمر بن عبد العزیز باجماع خلیفہ برحق مانے گئے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ بنی اسرائیل سے معاہدہ لینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے بارہ خاندانوں کے بارہ سرداروں کو ذمہ دار ٹھہرایا اور ان سے ارشاد فرمایا : انی معکم یعنی میں تمہارے ساتھ ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ اگر تم نے میثاق کی پابندی کی اور دوسروں سے پابندی کرانے کا عزم کیا تو میری امداد و نصرت تمہارے ساتھ ہوگی۔ اس کے بعد آیت مذکورہ میں اس میثاق کی چند اہم دفعات اور بنی اسرائیل کی عہد شکنی اور ان پر عذاب الہٰی کا ذکر ہے۔ میثاق کی دفعات کا ذکر کرنے سے پہلے ایک جملہ یہ ارشاد فرمایا کہ : انی معکم جس میں دو باتیں بتلا دی گئیں ہیں۔ ایک یہ کہ اگر میثاق پر قائم رہے تو میری امداد تمہارے ساتھ رہے گی اور تم ہر قدم پر اس کا مشاہدہ کرو گے۔ دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ ہر وقت اور ہر جگہ تمہارے ساتھ ہے، اور اس میثاق کی نگرانی فرما رہا ہے، تمہارا کوئی عزم و ارادہ اور فکر و خیال یا حرکت و عمل اس کے علم سے باہر نہیں ہے۔ وہ تمہاری خلوتوں کے رازوں کو بھی دیکھتا اور سنتا ہے۔ وہ تمہارے دلوں کی نیتوں اور ارادوں سے بھی واقف ہے۔ میثاق کی خلاف ورزی کرکے تم کسی طرح بھی اس کی گرفت سے نہیں بچ سکتے۔ اس کے بعد میثاق کی دفعات میں سب سے پہلے اقامت صلوة کا ذکر ہے۔ اور پھر اداء زکوٰة کا۔ اس سے معلوم ہوا کہ نماز اور زکوٰة کے فرائض اسلام سے پہلے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم پر بھی عائد تھے۔ اور دوسرے قرآنی اشارات و روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ فرائض صرف بنی اسرائیل ہی کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ ہر پیغمبر اور ہر شریعت میں ہمیشہ عائد رہے ہیں۔ تیسرا نمبر میثاق میں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سب رسولوں پر ایمان لائیں اور ان کے مقصد رشدو ہدایت میں ان کی امداد کریں۔ بنی اسرائیل میں چونکہ بہت سے رسول آنے والے تھے، اس لئے ان کو خصوصیت سے اس کی تاکید فرمائی گئی اور اگرچہ ایمانیات کا درجہ عملیات، نماز، زکوٰة سے رتبةً مقدم ہے۔ مگر میثاق میں مقدم اس کو رکھا گیا جس پر بالفعل عمل کرنا تھا۔ آنے والے رسول تو بعد میں آئیں گے، ان پر ایمان لانے اور ان کی امداد کرنے کا وقوع بھی بعد میں ہونے والا تھا اس لئے اس کو موخر بیان فرمایا گیا۔ چوتھا نمبر میثاق میں یہ ہے کہ : اقرضتم اللّٰہ قرضاً حسناً (یعنی تم اللہ تعالیٰ کو قرض دو ، اچھی طرح کا قرض) ۔ اچھی طرح کے قرض کا مطلب یہ ہے کہ اخلاص کے ساتھ ہو، کوئی دنیوی غرض اس میں شامل نہ ہو، اور اللہ کی راہ میں اپنی محبوب چیز خرچ کرے۔ ردّی اور بیکار چیزیں دے کر نہ ٹالے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کو قرض دینے سے اس لئے تعبیر کیا گیا ہے کہ قرض کا بدلہ قانوناً و عرفاً اور اخلاقاً واجب الاداء سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح یہ یقین کرتے ہوئے اللہ کی راہ میں خرچ کریں کہ اس کا بدلہ ضرور ملے گا۔ اور زکوٰة فرض کا ذکر مستقلاً کرنے کے بعد اس جگہ قرض حسن کا ذکر یہ بتلا رہا ہے کہ اس سے مراد زکوٰة کے علاوہ دوسرے صدقات و خیرات ہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمان صرف زکوٰة ادا کرکے ساری مالی ذمہ داریوں سے سبکدوش نہیں ہوجاتا۔ زکوٰة کے علاوہ بھی کچھ اور مالی حقوق انسان کے ذمہ لازم ہیں۔ کسی جگہ مسجد نہیں تو تعمیر مسجد اور دینی تعلیم کے لئے حکومت متکفل نہیں ہے تو دینی تعلیم کا انتظام مسلمانوں ہی پر لازم ہے۔ فرق اتنا ہے کہ زکوٰة فرض عین اور یہ فرض کفایہ ہے فرض کفایہ کے معنیٰ یہ ہیں کہ قوم کے چند افراد یا کسی جماعت نے ان ضرورتوں کو پورا کردیا تو دوسرے مسلمان سبکدوش ہوجاتے ہیں اور اگر کسی نے بھی نہ کیا تو سب گنہگار ہوتے ہیں۔ آج کل دینی تعلیم اور اس کے مدارس جس کسمپرسی اور بےکسی کے عالم میں ہیں ان کو وہی لوگ جانتے ہیں، جنہوں نے اس کو دین کی اہم خدمت سمجھ کر قائم کیا ہوا ہے۔ زکوٰة ادا کرنے کی حد تک مسلمان جانتے ہیں کہ ہمارے ذمہ فرض ہے۔ اور یہ جاننے کے باوجود بہت کم افراد ہیں جو زکوٰة ادا کرتے ہیں۔ اور ادا کرنے والوں میں بھی بہت کم افراد ہیں جو پورا حساب کرکے پوری زکوٰة ادا کرتے ہیں، اور جو خال خال پوری زکوٰة ادا کرنے والے بھی ہیں تو وہ بالکل یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ اب ہمارے ذمہ اور کچھ نہیں۔ ان کے سامنے مسجد کی ضرورت آئے تو زکوٰة کا مال پیش کرتے ہیں اور دینی مدارس کی ضرورت پیش آئے تو صرف زکوٰة کا مال دیا جاتا ہے، حالانکہ یہ فرائض زکوٰة کے علاوہ مسلمانوں پر عائد ہیں اور قرآن کریم کی اس آیت اور اس کی امثال بہت سی آیات نے اس کو واضح کردیا ہے۔ میثاق کی اہم دفعات بیان کرنے کے بعد بھی یہ بتلا دیا کہ اگر تم نے میثاق کی پابندی کی تو اس کی جزاء یہ ہوگی کہ تمہارے پچھلے گناہ بھی معاف کر دئے جائیں گے اور دائمی راحت و عافیت کی بےمثال جنت میں رکھا جائے گا اور آخر میں یہ بھی بتلا دیا کہ ان تمام واضح بیانات و ارشادات کے بعد بھی اگر کسی نے کفر و سرکشی اختیار کی تو وہ ایک صاف سیدھی راہ چھوڑ کر اپنے ہاتھوں تباہی کے گڑھے میں جاگرا۔۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ اَخَذَ اللہُ مِيْثَاقَ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ۝ ٠ۚ وَبَعَثْنَا مِنْہُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيْبًا۝ ٠ۭ وَقَالَ اللہُ اِنِّىْ مَعَكُمْ۝ ٠ۭ لَىِٕنْ اَقَمْــتُمُ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَيْتُمُ الزَّكٰوۃَ وَاٰمَنْتُمْ بِرُسُلِيْ وَعَزَّرْتُمُوْہُمْ وَاَقْرَضْتُمُ اللہَ قَرْضًا حَسَـنًا لَّاُكَفِّرَنَّ عَنْكُمْ سَـيِّاٰتِكُمْ وَلَاُدْخِلَـنَّكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْھٰرُ۝ ٠ۚ فَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ مِنْكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاۗءَ السَّبِيْلِ۝ ١٢ ( قَدْ ) : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة . نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ . و ( قَدْ ) و ( قط) يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر . ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔ أخذ الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف/ 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة/ 255] ( اخ ذ) الاخذ ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ { مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ } ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ { لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ } ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ وثق وَثِقْتُ به أَثِقُ ثِقَةً : سکنت إليه واعتمدت عليه، وأَوْثَقْتُهُ : شددته، والوَثَاقُ والوِثَاقُ : اسمان لما يُوثَقُ به الشیء، والوُثْقَى: تأنيث الأَوْثَق . قال تعالی: وَلا يُوثِقُ وَثاقَهُ أَحَدٌ [ الفجر/ 26] ، حَتَّى إِذا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثاقَ [ محمد/ 4] والمِيثاقُ : عقد مؤكّد بيمين وعهد، قال : وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثاقَ النَّبِيِّينَ [ آل عمران/ 81] ، وَإِذْ أَخَذْنا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثاقَهُمْ [ الأحزاب/ 7] ، وَأَخَذْنا مِنْهُمْ مِيثاقاً غَلِيظاً [ النساء/ 154] والمَوْثِقُ الاسم منه . قال : حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِنَ اللَّهِ إلى قوله : مَوْثِقَهُمْ [يوسف/ 66] ( و ث ق ) وثقت بہ اثق ثقتہ ۔ کسی پر اعتماد کرنا اور مطمئن ہونا ۔ اوثقتہ ) افعال ) زنجیر میں جکڑنا رسی سے کس کر باندھنا ۔ اولوثاق والوثاق اس زنجیر یارسی کو کہتے ہیں جس سے کسی چیز کو کس کو باندھ دیا جائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا يُوثِقُ وَثاقَهُ أَحَدٌ [ الفجر/ 26] اور نہ کوئی ایسا جکڑنا چکڑے گا ۔ حَتَّى إِذا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثاقَ [ محمد/ 4] یہ ان تک کہ جب ان کو خوب قتل کرچکو تو ( جو زندہ پکڑے جائیں ان کو قید کرلو ۔ المیثاق کے منیی پختہ عہدو پیمان کے ہیں جو قسموں کے ساتھ موکد کیا گیا ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثاقَ النَّبِيِّينَ [ آل عمران/ 81] اور جب ہم نے پیغمبروں سے عہد لیا ۔ وَأَخَذْنا مِنْهُمْ مِيثاقاً غَلِيظاً [ النساء/ 154] اور عہد بھی ان سے پکالیا ۔ الموثق ( اسم ) پختہ عہد و پیمان کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِنَ اللَّهِ إلى قوله : مَوْثِقَهُمْ [يوسف/ 66] کہ جب تک تم خدا کا عہد نہ دو ۔ اِسْرَاۗءِيْلَ ( بني) ، جمع ابن، والألف في ابن عوض من لام الکلمة المحذوفة فأصلها بنو .(إسرائيل) ، علم أعجمي، وقد يلفظ بتخفیف الهمزة إسراييل، وقد تبقی الهمزة وتحذف الیاء أي إسرائل، وقد تحذف الهمزة والیاء معا أي : إسرال . بعث أصل البَعْث : إثارة الشیء وتوجيهه، يقال : بَعَثْتُهُ فَانْبَعَثَ ، ويختلف البعث بحسب اختلاف ما علّق به، فَبَعَثْتُ البعیر : أثرته وسيّرته، وقوله عزّ وجل : وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] ، أي : يخرجهم ويسيرهم إلى القیامة، فالبعث ضربان : - بشريّ ، کبعث البعیر، وبعث الإنسان في حاجة . - وإلهي، وذلک ضربان : - أحدهما : إيجاد الأعيان والأجناس والأنواع لا عن ليس وذلک يختص به الباري تعالی، ولم يقدر عليه أحد . والثاني : إحياء الموتی، وقد خص بذلک بعض أولیائه، كعيسى صلّى اللہ عليه وسلم وأمثاله، ومنه قوله عزّ وجل : فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم/ 56] ، يعني : يوم الحشر ( ب ع ث ) البعث ( ف ) اصل میں بعث کے معنی کسی چیز کو ابھارنے اور کسی طرف بیجھنا کے ہیں اور انبعث در اصل مطاوع ہے بعث کا مگر متعلقات کے لحاظ سے اس کے معنی مختلف ہوتے رہتے ہیں مثلا بعثت البعیر کے معنی اونٹ کو اٹھانے اور آزاد چھوڑ دینا کے ہیں اور مردوں کے متعلق استعمال ہو تو قبروں سے زندہ کرکے محشر کی طرف چلانا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] اور مردوں کو تو خدا ( قیامت ہی کو ) اٹھایا جائے گا پس بعث دو قمخ پر ہے بعث بشری یعنی جس کا فاعل انسان ہوتا ہے جیسے بعث البعیر ( یعنی اونٹ کو اٹھاکر چلانا ) کسی کو کسی کام کے لئے بھیجنا ) دوم بعث الہی یعنی جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو پھر اس کی بھی دوقسمیں ہیں اول یہ کہ اعیان ، اجناس اور فواع کو عدم سے وجود میں لانا ۔ یہ قسم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اور اس پر کبھی کسی دوسرے کو قدرت نہیں بخشی ۔ دوم مردوں کو زندہ کرنا ۔ اس صفت کے ساتھ کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو بھی سرفراز فرمادیتا ہے جیسا کہ حضرت عیسٰی (علیہ السلام) اور ان کے ہم مثل دوسری انبیاء کے متعلق مذکور ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم/ 56] اور یہ قیامت ہی کا دن ہے ۔ بھی اسی قبیل سے ہے یعنی یہ حشر کا دن ہے نقب النَّقْبُ في الحائِطِ والجِلْدِ کا لثَّقْبِ في الخَشَبِ ، يقال : نَقَبَ البَيْطَارُ سُرَّةَ الدَّابَّةِ بالمِنْقَبِ ، وهو الذي يُنْقَبُ به، والمَنْقَبُ : المکانُ الذي يُنْقَبُ ، ونَقْبُ الحائط، ونَقَّبَ القومُ : سَارُوا . قال تعالی: فَنَقَّبُوا فِي الْبِلادِ هَلْ مِنْ مَحِيصٍ [ ق/ 36] وکلب نَقِيبٌ: نُقِبَتْ غَلْصَمَتُهُ لِيَضْعُفَ صَوْتُه . والنَّقْبَة : أوَّلُ الجَرَبِ يَبْدُو، وجمْعُها : نُقَبٌ ، والنَّاقِبَةُ : قُرْحَةٌ ، والنُّقْبَةُ : ثَوْبٌ كالإِزَارِ سُمِّيَ بذلک لِنُقْبَةٍ تُجْعَلُ فيها تِكَّةٌ ، والمَنْقَبَةُ : طریقٌ مُنْفِذٌ في الجِبَالِ ، واستُعِيرَ لفعل الکريمِ ، إما لکونه تأثيراً له، أو لکونه مَنْهَجاً في رَفْعِهِ ، والنَّقِيبُ : الباحثُ عن القوم وعن أحوالهم، وجمْعه : نُقَبَاءُ ، قال : وَبَعَثْنا مِنْهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيباً [ المائدة/ 12] . ( ن ق ب ) النقب کے معنی دیوار یا چمڑے میں سوراخ کرنے کے ہیں اور ثقب کے معنی لکڑی میں سوراخ کرنے کے محاورہ ہے ۔ نقب البیطار سر ۃ الدابۃ بیطار نے جانور کی ناف میں منقب نشتر کے ساتھ سوراخ کردیا منقب سوراخ کرنے کی جگہ ۔ نقب الحائط دیوار میں تقب لگائی گئی نقب القوم قوم کا چلنا پھرنا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَنَقَّبُوا فِي الْبِلادِ هَلْ مِنْ مَحِيصٍ [ ق/ 36] وہ شہروں میں گشت کرنے لگے کیا کہیں بھا گنے کی جگہ ہے کلب نقیب کتا جس کے گلے میں آواز کمزور کرنے کے لئے سوراخ کردیا گیا ہو ۔ النقبۃ ابتائی خارش ج نقب الناقبۃ ناسور زخم جو کئی روز تک ایک پہلو پر لیٹے رہنے کی وجہ سے پیدا ہوجاتا ہے النقبۃ ازار کی مثل ایک قسم کا کپڑا جس میں سوراخ ہونے کی وجہ سے تکہ لگایا جاتا ہے المنقبۃ اصل میں پہاڑ کے درہ کو کہتے ہیں ۔ اور بطور استعارہ شر یفانہ کارنامہ کو منقبۃ کہا جاتا ہے یا تو اس لئے کہ اس کا اچھا اثر باقی رہ جاتا ہے اور یا اس لئے کہ وہ بھی اس کی رفعت کے لئے بمنزلہ منہاج کے ہے ۔ النقیب کسی قوم کے حالات جاننے والا ج نقباء قرآن پاک میں ہے ۔ وَبَعَثْنا مِنْهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيباً [ المائدة/ 12] اور ان میں ہم نے بارہ سر دار مقرر کئے ۔ اقامت والْإِقَامَةُ في المکان : الثبات . وإِقَامَةُ الشیء : توفية حقّه، وقال : قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 68] أي : توفّون حقوقهما بالعلم والعمل، وکذلک قوله : وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 66] ولم يأمر تعالیٰ بالصلاة حيثما أمر، ولا مدح بها حيثما مدح إلّا بلفظ الإقامة، تنبيها أنّ المقصود منها توفية شرائطها لا الإتيان بهيئاتها، نحو : أَقِيمُوا الصَّلاةَ [ البقرة/ 43] الاقامتہ ( افعال ) فی المکان کے معنی کسی جگہ پر ٹھہرنے اور قیام کرنے کے ہیں اوراقامتہ الشیی ( کسی چیز کی اقامت ) کے معنی اس کا پورا پورا حق ادا کرنے کے ہوتے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 68] کہو کہ اے اہل کتاب جب تک تم توراۃ اور انجیل ۔۔۔۔۔ کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہوسکتے یعنی جب تک کہ علم وعمل سے ان کے پورے حقوق ادا نہ کرو ۔ اسی طرح فرمایا : ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 66] اور اگر وہ توراۃ اور انجیل کو ۔۔۔۔۔ قائم کہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں جہاں کہیں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے یا نماز یوں کی تعریف کی گئی ہے ۔ وہاں اقامتہ کا صیغۃ استعمال کیا گیا ہے ۔ جس میں اس بات پر تنبیہ کرنا ہے کہ نماز سے مقصود محض اس کی ظاہری ہیبت کا ادا کرنا ہی نہیں ہے بلکہ اسے جملہ شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہے صلا أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] والصَّلاةُ ، قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق : تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة/ 157] ، ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار، كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة، أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] ( ص ل ی ) الصلیٰ ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ الصلوۃ بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔ اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔ إِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی زكا أصل الزَّكَاةِ : النّموّ الحاصل عن بركة اللہ تعالی، ويعتبر ذلک بالأمور الدّنيويّة والأخرويّة . يقال : زَكَا الزّرع يَزْكُو : إذا حصل منه نموّ وبرکة . وقوله : أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف/ 19] ، إشارة إلى ما يكون حلالا لا يستوخم عقباه، ومنه الزَّكاةُ : لما يخرج الإنسان من حقّ اللہ تعالیٰ إلى الفقراء، وتسمیته بذلک لما يكون فيها من رجاء البرکة، أو لتزکية النّفس، أي : تنمیتها بالخیرات والبرکات، أو لهما جمیعا، فإنّ الخیرین موجودان فيها . وقرن اللہ تعالیٰ الزَّكَاةَ بالصّلاة في القرآن بقوله : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة/ 43] ( زک و ) الزکاۃ : اس کے اصل معنی اس نمو ( افزونی ) کے ہیں جو برکت الہیہ سے حاصل ہو اس کا تعلق دنیاوی چیزوں سے بھی ہے اور اخروی امور کے ساتھ بھی چناچہ کہا جاتا ہے زکا الزرع یزکو کھیتی کا بڑھنا اور پھلنا پھولنا اور آیت : ۔ أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف/ 19] کس کا کھانا زیادہ صاف ستھرا ہے ۔ میں ازکیٰ سے ایسا کھانا مراد ہے جو حلال اور خوش انجام ہو اور اسی سے زکوۃ کا لفظ مشتق ہے یعنی وہ حصہ جو مال سے حق الہیٰ کے طور پر نکال کر فقراء کو دیا جاتا ہے اور اسے زکوۃ یا تو اسلئے کہا جاتا ہے کہ اس میں برکت کی امید ہوتی ہے اور یا اس لئے کہ اس سے نفس پاکیزہ ہوتا ہے یعنی خیرات و برکات کے ذریعہ اس میں نمو ہوتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے تسمیہ میں ان ہر دو کا لحاظ کیا گیا ہو ۔ کیونکہ یہ دونوں خوبیاں زکوۃ میں موجود ہیں قرآن میں اللہ تعالیٰ نے نما ز کے ساتھ ساتھ زکوۃٰ کا بھی حکم دیا ہے چناچہ فرمایا : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة/ 43] نماز قائم کرو اور زکوۃ ٰ ادا کرتے رہو ۔ رسل أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] ( ر س ل ) الرسل الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس عزر التَّعْزِيرُ : النّصرة مع التّعظیم . قال تعالی: وَتُعَزِّرُوهُ [ الفتح/ 9] ، وقال عزّ وجلّ وَعَزَّرْتُمُوهُمْ [ المائدة/ 12] ، والتَّعْزِيرُ : ضربٌ دون الحدّ ، وذلک يرجع إلى الأوّل، فإنّ ذلک تأديب، والتّأديب نصرة ما لکن الأوّل نصرة بقمع ما يضرّه عنه، والثاني : نصرة بقمعه عمّا يضرّه . فمن قمعته عما يضرّه فقد نصرته . وعلی هذا الوجه قال صلّى اللہ عليه وسلم : «انصر أخاک ظالما أو مظلوما، قال : أنصره مظلوما فكيف أنصره ظالما ؟ فقال : كفّه عن الظّلم» «5» . وعُزَيْرٌ في قوله : وَقالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة/ 30] ، اسمُ نبيٍّ. ( ع ز ر ) التعزیر اس مدد کو کہتے ہو جو حزیہ تعظیم کے ساتھ ہو قرآن پاک میں ہے : ۔ وَتُعَزِّرُوهُ [ الفتح/ 9] اور اس کی مدد کرو ۔ وَعَزَّرْتُمُوهُمْ [ المائدة/ 12] اور ان کی مدد کرو گے التعزیر ( ایضا ) کسی کو حد شرعی سے کم سزا دینا یہ بھی دراصل پہلے معنی کے ساتھ تعلق رکھتا ہے کیونکہ تادیبی سزا بھی در حقیقت اس شخص کی اصلاح کے لئے ایک قسم کی مدد ہوتی ہے فرق صرف یہ ہے کہ پہلے معنی کا تعلق کیسی مضر چیز کو روکنے سے ہوتا ہے اور تادیب میں کسی کو مضر چیز سے روکا جاتا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ کسی کو مضر چیز سے روک دینا بھی اس کی مدد میں شامل ہے اسی بنا پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انصر اخاک ظالما او مظلوما ) اپنے بھائی کی مدد کرو وہ ظالم یا مظلوم یہ سنکر ایک شخص نے عرض کی اے اللہ کے رسول مظلوم کی مدد کرنا تو سمجھ آتا ہے مگر اس کے ظالم ہونے کی صورت میں اس کی مدد کرنے کے کیا معنی ہیں آنحضرت نے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا اسے ظلم سے روک کر اور آیت کریمہ : ۔ وَقالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة/ 30] اور یہود کہتے ہیں کہ عزیر (علیہ السلام) خدا کے بیٹے ہیں ۔ میں عزیر (علیہ السلام) ایک پیغمبر کا نام ہے ۔ قرض القَرْضُ : ضرب من القطع، وسمّي قطع المکان وتجاوزه قَرْضاً ، كما سمّي قطعا . قال : وَإِذا غَرَبَتْ تَقْرِضُهُمْ ذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 17] ، أي : تجوزهم وتدعهم إلى أحد الجانبین، وسمّي ما يدفع إلى الإنسان من المال بشرط ردّ بدله قَرْضاً ، قال : مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضاً حَسَناً [ البقرة/ 245] ، وسمّي المفاوضة في الشّعر مُقَارَضَةً ، والقَرِيضُ للشّعر، مستعار استعارة النّسج والحوک . ( ق ر ض ) القرض ( کرتا ) یہ قطع کی ایک قسم ہے پھر جس طرح کسی جگہ سے گزر نے اور تجاوز کر نیکے لئے قطع المکان کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اس طرح قرض المکان بھی کہتے بھی ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا غَرَبَتْ تَقْرِضُهُمْ ذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 17] اور جب غروب ہو تو اس سے بائیں طرف کترا جائے ۔ یعنی غروب کے وقت انہیں ایک جانب چھوڑتا ہو اگزر جاتا ہے ۔ اور قرض اس مال کو بھی کہتے ہیں جو کسی کو اس کی ضرورت پوری کرنے کے لئے دیا جائے اس شرط پر کہ وہ واپس مل جائیگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضاً حَسَناً [ البقرة/ 245] کوئی ہے خدا کو قرض حسنہ دے ؟ اور شعر گوئی ۔۔۔ کو بھی مقارضۃ کہا جاتا ہے اور شعر کو بطور استعارہ قریض کہا جاتا ہے جس طرح کہ تسبیح اور حو ک کے الفاظ اس معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ حسن الحُسْنُ : عبارة عن کلّ مبهج مرغوب فيه، وذلک ثلاثة أضرب : مستحسن من جهة العقل . ومستحسن من جهة الهوى. ومستحسن من جهة الحسّ. والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] ( ح س ن ) الحسن ہر خوش کن اور پسندیدہ چیز کو حسن کہا جاتا ہے اس کی تین قسمیں ہیں ۔ ( 1) وہ چیز جو عقل کے اعتبار سے مستحسن ہو ۔ ( 2) وہ جو خواہش نفسانی کی رو سے پسندیدہ ہو ۔ ( 3) صرف نگاہ میں بھی معلوم ہو ۔ الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ كَفَّارَة ( گناهوں کا چهپانا) والْكَفَّارَةُ : ما يغطّي الإثم، ومنه : كَفَّارَةُ الیمین نحو قوله : ذلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمانِكُمْ إِذا حَلَفْتُمْ [ المائدة/ 89] وکذلك كفّارة غيره من الآثام ککفارة القتل والظّهار . قال : فَكَفَّارَتُهُ إِطْعامُ عَشَرَةِ مَساكِينَ [ المائدة/ 89] والتَّكْفِيرُ : ستره وتغطیته حتی يصير بمنزلة ما لم يعمل، ويصحّ أن يكون أصله إزالة الکفر والکفران، نحو : التّمریض في كونه إزالة للمرض، وتقذية العین في إزالة القذی عنه، قال : وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنا عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ [ المائدة/ 65] ، نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئاتِكُمْ [ النساء/ 31] وإلى هذا المعنی أشار بقوله : إِنَّ الْحَسَناتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئاتِ [هود/ 114] وقیل : صغار الحسنات لا تكفّر کبار السّيّئات، وقال : لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ [ آل عمران/ 195] ، لِيُكَفِّرَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَسْوَأَ الَّذِي عَمِلُوا [ الزمر/ 35] ويقال : كَفَرَتِ الشمس النّجومَ : سترتها، ويقال الْكَافِرُ للسّحاب الذي يغطّي الشمس واللیل، قال الشاعر : ألقت ذکاء يمينها في کافر «1» وتَكَفَّرَ في السّلاح . أي : تغطّى فيه، والْكَافُورُ : أکمام الثمرة . أي : التي تكفُرُ الثّمرةَ ، قال الشاعر : كالکرم إذ نادی من الکافوروالْكَافُورُ الذي هو من الطّيب . قال تعالی: كانَ مِزاجُها كافُوراً [ الإنسان/ 5] . الکفا رۃ جو چیز گناہ دور کردے اور اسے ڈھانپ لے اسے کفارہ کہا جاتا ہے اسی سے کفارۃ الیمین ہے چناچہ اس کا ذکر کرتی ہوئے فرمایا : ۔ ذلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمانِكُمْ إِذا حَلَفْتُمْ [ المائدة/ 89] یہ تمہاری قسموں کا کفارۃ ہے جب تم قسمیں کھالو ۔ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعامُ عَشَرَةِ مَساكِينَ [ المائدة/ 89] تو اس کا کفارہ دس محتاجوں کو کھانا کھلانا ہے ۔ اسی طرح دوسرے گناہ جیسے قتل اظہار وغیرہ کے تادان پر بھی کفارہ کا لفظ استعمال ہوا ہے : التکفیرۃ اس کے معنی بھی گناہ کو چھپانے اور اسے اس طرح مٹا دینے کے ہیں جسے اس کا ارتکاب ہی نہیں کیا اور ہوسکتا ہے کہ یہ اصل میں ازالۃ کفر یا کفران سے ہو جیسے تم یض اصل میں ازالہ مرض کے آتے ہیں اور تقد یۃ کے معنی ازالہ قذی تنکا دور کرنے کے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنا عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ [ المائدة/ 65] اور اگر اہل کتاب ایمان لاتے اور پرہیز گاری کرتے تو ہم ان سے ان کے گناہ محو کردیتے ۔ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئاتِكُمْ [ النساء/ 31] تو ہم تمہارے ( چھوٹے چھوٹے ) گناہ معاف کر دینگے چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الْحَسَناتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئاتِ [هود/ 114] کچھ شک نہیں نیکیاں گناہوں کو دور کردیتی ہیں میں بھی اسی معنی کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے مگر بعض نے کہا ہے کہ چھوٹی چھوٹی نیکیاں بڑے گناہوں کا کفارہ نہیں بن سکتیں ۔ لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ [ آل عمران/ 195] میں ان کے گناہ دور کردوں گا ۔ لِيُكَفِّرَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَسْوَأَ الَّذِي عَمِلُوا [ الزمر/ 35] تاکہ خدا ان سے برایئوں کو جو انہوں نے کیں دور کر دے ۔ محاورہ ہے : ۔ کفرت الشمس النجوم سورج نے ستاروں کو چھپادیا اور اس بادل کو بھی کافر کہا جاتا ہے جو سورج کو چھپا لیتا ہے : ۔ تکفر فی السلاح اس نے ہتھیار پہن لئے ۔ الکافو ر اصل میں پھلوں کے خلاف کو کہتے ہیں جو ان کو اپنے اندر چھپائے رکھتا ہے شاعر نے کہا ہے ( 375 ) کا لکریم اذ نادی من لکافور جیسے انگور شگوفے کے غلاف سے ظاہر ہوتے ہیں۔ لیکن کافور ایک مشہور خوشبو کلمہ بھی نام ہے چناچہ فرمایا : ۔ كانَ مِزاجُها كافُوراً [ الإنسان/ 5] جس میں کافور کی آمیزش ہوگی ۔ سَّيِّئَةُ : الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] سَّيِّئَةُ : اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :، ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] جو برے کام کرے دخل الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] ( دخ ل ) الدخول ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔ الجَنَّةُ : كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15] الجنۃ ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔ جَرْي : المرّ السریع، وأصله كمرّ الماء، ولما يجري بجريه . يقال : جَرَى يَجْرِي جِرْيَة وجَرَيَاناً. قال عزّ وجل : وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف/ 51] وقال تعالی: جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهارُ [ الكهف/ 31] ، وقال : وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ [ الروم/ 46] ، وقال تعالی: فِيها عَيْنٌ جارِيَةٌ [ الغاشية/ 12] جریۃ وجریا وجریا نا کے معنی تیزی سے چلنے کے ہیں ۔ اصل میں یہ لفظ پانی اور پانی کی طرح چلنے والی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف/ 51] اور یہ نہریں جو میرے ( محلوں کے ) نیچے بہ رہی ہیں ۔ میری نہیں ہیں ۔ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهارُ [ الكهف/ 31] باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ۔ وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ [ الروم/ 46] اور تاکہ کشتیاں چلیں فِيها عَيْنٌ جارِيَةٌ [ الغاشية/ 12] اس میں چشمے بہ رہے ہوں گے تحت تَحْت مقابل لفوق، قال تعالی: لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ المائدة/ 66] ، وقوله تعالی: جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ [ الحج/ 23] ، تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمْ [يونس/ 9] ، فَناداها مِنْ تَحْتِها [ مریم/ 24] ، يَوْمَ يَغْشاهُمُ الْعَذابُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ العنکبوت/ 55] . و «تحت» : يستعمل في المنفصل، و «أسفل» في المتصل، يقال : المال تحته، وأسفله أغلظ من أعلاه، وفي الحدیث : «لا تقوم الساعة حتی يظهر التُّحُوت» «4» أي : الأراذل من الناس . وقیل : بل ذلک إشارة إلى ما قال سبحانه : وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ وَأَلْقَتْ ما فِيها وَتَخَلَّتْ [ الانشقاق/ 3- 4] . ( ت ح ت) تحت ( اسم ظرف ) یہ فوق کی ضد ہے قرآن میں ہے :۔ لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ المائدة/ 66] تو ( ان پر رزق مینہ کی طرح برستا کہ اپنے اوپر سے اور پاؤں کے نیچے سے کھاتے ۔ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ [ الحج/ 23] ( نعمت کے ) باغ میں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ۔ فَناداها مِنْ تَحْتِها [ مریم/ 24] اس وقت ان کے نیچے کی جانب سے آواز دی ۔ تحت اور اسفل میں فرق یہ ہے کہ تحت اس چیز کو کہتے ہیں جو دوسری کے نیچے ہو مگر اسفل کسی چیز کے نچلا حصہ کو جیسے ۔ المال تحتہ ( مال اس کے نیچے ہے ) اس کا نچلا حصہ اعلیٰ حصہ سے سخت ہے ) حدیث میں ہے (48) لاتقوم الساعۃ حتیٰ یظھر النحوت کہ قیامت قائم نہیں ہوگی ۔ تا وقی کہ کمینے لوگ غلبہ حاصل نہ کرلیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حدیث میں آیت کریمہ ؛۔ وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ وَأَلْقَتْ ما فِيها وَتَخَلَّتْ [ الانشقاق/ 3- 4] اور جب یہ زمین ہموار کردی جائے گی اور جو کچھ اس میں سے اسے نکلا کر باہر ڈال دے گی ۔ کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ۔ نهر النَّهْرُ : مَجْرَى الماءِ الفَائِضِ ، وجمْعُه : أَنْهَارٌ ، قال تعالی: وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف/ 33] ، ( ن ھ ر ) النھر ۔ بافراط پانی بہنے کے مجری کو کہتے ہیں ۔ کی جمع انھار آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف/ 33] اور دونوں میں ہم نے ایک نہر بھی جاری کر رکھی تھی ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ويقال الضَّلَالُ لكلّ عدولٍ عن المنهج، عمدا کان أو سهوا، يسيرا کان أو كثيرا، فإنّ الطّريق المستقیم الذي هو المرتضی صعب جدا، قال النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : «استقیموا ولن تُحْصُوا» ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ اور ضلال کا لفظ ہر قسم کی گمراہی پر بولا جاتا ہے یعنی وہ گمراہی قصدا یا سہوا معمول ہو یا زیادہ کیونکہ طریق مستقیم ۔ جو پسندیدہ راہ ہے ۔۔ پر چلنا نہایت دشوار امر ہے ۔ جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(11) استقیموا ولن تحصوا کہ استقامت اختیار کرو اور تم پورے طور پر اس کی نگہداشت نہیں کرسکوگے ۔ سواء ومکان سُوىً ، وسَوَاءٌ: وسط . ويقال : سَوَاءٌ ، وسِوىً ، وسُوىً أي : يستوي طرفاه، ويستعمل ذلک وصفا وظرفا، وأصل ذلک مصدر، وقال : فِي سَواءِ الْجَحِيمِ [ الصافات/ 55] ، وسَواءَ السَّبِيلِ [ القصص/ 22] ، فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال/ 58] ، أي : عدل من الحکم، وکذا قوله : إِلى كَلِمَةٍ سَواءٍ بَيْنَنا وَبَيْنَكُمْ [ آل عمران/ 64] ، وقوله : سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ [ البقرة/ 6] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ [ المنافقون/ 6] ، ( س و ی ) المسا واۃ مکان سوی وسواء کے معنی وسط کے ہیں اور سواء وسوی وسوی اسے کہا جاتا ہے جس کی نسبت دونوں طرف مساوی ہوں اور یہ یعنی سواء وصف بن کر بھی استعمال ہوتا ہے اور ظرف بھی لیکن اصل میں یہ مصدر ہے قرآن میں ہے ۔ فِي سَواءِ الْجَحِيمِ [ الصافات/ 55] تو اس کو ) وسط دوزخ میں ۔ وسَواءَ السَّبِيلِ [ القصص/ 22] تو وہ ) سیدھے راستے سے ۔ فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَواءٍ [ الأنفال/ 58] تو ان کا عہد ) انہیں کی طرف پھینک دو اور برابر کا جواب دو ۔ تو یہاں علی سواء سے عاولا نہ حکم مراد ہے جیسے فرمایا : ۔ إِلى كَلِمَةٍ سَواءٍ بَيْنَنا وَبَيْنَكُمْ [ آل عمران/ 64] اے اہل کتاب ) جو بات ہمارے اور تمہارے دونوں کے درمیان یکساں ( تسلیم کی گئی ) ہے اس کی طرف آؤ ۔ اور آیات : ۔ سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ [ البقرة/ 6] انہیں تم نصیحت کرو یا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ۔ سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ [ المنافقون/ 6] تم ان کے لئے مغفرت مانگو یا نہ مانگوں ان کے حق میں برابر ہے ۔ سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (ولقد اخذ اللہ میثاق بنی اسرائیل و بعثنا منھم اثنی عشو نقیب۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا تھا اور ان میں بارہ نقیب مقرر کئے تھے) اس مقام پر نقیب سے کیا مراد ہے اس میں اختلاف ہے حسن کا قول ہے کہ اس سے ضمین یعنی کفیل اور ذمہ دار مراد ہے۔ قتادہ کہتے ہیں کہ اس سے وہ شخص مراد ہے جو اپنی قوم کا نگران ہو۔ ایک قول ہے کہ لفظ نقیب نقب سے ماخوذ ہے جس کے معنی بڑے سوراخ کے ہیں۔ کسی کو نقیب القوم اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ ان کے احوال پر نظر رکھتا ہے اور ان کے پوشیدہ خیالات و امور سے مطلع رہتا ہے۔ اسی مفہوم کی بنا پر قوم کے معاملات کی دیکھ بھال کرنے والوں کے سردار کو نقیب کہا جاتا ہے۔ حسن کا قول ہے کہ نقیب کفیل اور ذمہ دار کو کہتے ہیں انہوں نے اس سے یہ مراد لی ہے کہ نقیب اس کا ذمہ دار ہوتا تھا کہ وہ اپنے متعلقہ لوگوں کے احوال، ان کے امور، ان کے صلاح و فساد اور ان کی استقامت اور کج روی سے باخبر رہ کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی اطلاع فراہم کرے، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انصار پر بارہ نقیب اسی معنی میں مقرر فرمائے تھے۔ ربیع بن انس کا قول ہے کہ امین کو نقیب کہتے ہیں۔ قتادہ کا یہ قول کہ اس سے نگران مراد ہے حسن کے قول سے قریب ہے۔ اس لئے کہ نقیب اپنے متعلقہ لوگوں پر امین ہوتا ہے اور ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھتا اور ان کے معاملات کی نگرانی کرتا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نقیبوں کا دو باتوں کی بنا پر تقرر فرمایا تھا۔ ایک تو یہ کہ اس کے ذریعے لوگوں کے احوال اور ان کے امور سے رابطہ رہے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی اطلاعات ملتی رہیں تاکہ آپ اپنی صوابدید کے مطابق ان کے متعلق تدابیر اختیار کریں۔ دوسری بات یہ تھی کہ جب لوگوں کو اس کا علم ہوتا کہ ان پر ایک نگران نقیب کی صورت میں مقرر ہے تو وہ سلامت روی سے زیادہ قریب ہوجاتے کیونکہ انہیں معلوم ہوجاتا کہ ان کے تمام معاملات حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچا دیئے جائیں گے۔ نیز یہ کہ ہر شخص حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنے معاملات اور ضروریات کے سلسلے میں براہ راست مخاطب ہونے سے جھجکتا تھا اس لئے اس کی طرف سے نقیب اس کی معروضات حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پیش کردیتا تھا۔ یہ جائز نہیں کہ نقیب ان کے کئے ہوئے وعدوں اور میثاق کو پورا کرنے کا ضامن اور ذمہ دار بن جاتا اس لئے کہ یہ معاملہ ایسا ہے کہ اس میں نقیب کی ضمانت درست نہیں ہوتی نہ ہی ضمین یہ کام کرسکتا اور نہ ہی اسے قائم رکھ سکتا ہے۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ نقیب پہلے معنی پر محمول ہوتا ہے۔ اس آیت میں خبر واحد یعنی ایک آدمی کے ذریعے دی گئی خبر کو قبول کرل ینے کی دلالت موجود ہے اس لئے کہ ہر گروہ اور قوم پر نقیب اس لئے مقرر کیا جاتا تھا کہ وہ ان کے حالات کی اطلاع حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا وقت امام المسلمین تک پہنچا دے۔ اگر اس ایک فرد کی دی گئی خبر قابل قبول نہ ہوتی تو اسے اس منصب پر مقرر کرنے کا کوئی فائدہ نہ ہوتا۔ اگر یہ کہا جائے کہ آیت کی رو سے بارہ افراد کی دی گئی خبر قابل قبول ہوسکتی ہے ایک فرد کی نہیں تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بارہ افراد بنی اسرائیل کی پوری قوم پر نقیب نہیں بنائے گئے تھے بلکہ ہر نقیب صرف اپنی قوم اور اپنے قبیلے کا نقیب مقرر کیا گیا تھا۔ بنی اسرائیل کے دوسرے قبیلوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٢) بنی اسرائیل سے رسول اکرم کی رسالت کے بارے میں توریت میں اقرارلیا گیا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور بارہ قاصد یا بارہ سردار مقرر کیے تھے، ہر ایک قبیلہ کے لیے ایک سردار اور ان سرداروں سے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمادیا تھا کہ میری مدد تمہارے ساتھ ہے۔ اگر تم ان نمازوں کو جو میں نے تم پر فرض کی ہیں ادا کرتے رہو اور اپنے اموال کی زکوٰۃ دیتے رہو، اور جو رسول تمہارے پاس آئیں، ان کی تصدیق کرتے رہو اور بذریعہ تلوار ان کے دشمنوں کے خلاف ان کی مدد کرتے رہو تو میں کبیرہ کے علاوہ صغیرہ گناہوں کو بھی معاف کردوں گا اور ایسے باغات میں داخل کروں گا، جہاں درختوں اور محلات کے نیچے سے دودھ، شہد، پانی اور پاکیزہ شراب کی نہریں جاری ہوں گی جو اس اقرار اور عہد و پیمان کے بعد سرتابی کرے گا میں اس سے ناراض رہوں گا، چناچہ پانچ سرداروں کے علاوہ سب راہ راست سے ہٹ گئے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

اب یہاں سے بنی اسرائیل کی تاریخ کے چند واقعات آ رہے ہیں۔ آیت ١٢ (وَلَقَدْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ ج) یعنی اے مسلمانو ! جس طرح آج تم سے یہ میثاق لیا گیا ہے اور اللہ نے تمہیں شریعت کے میثاق میں باندھ لیا ہے ‘ بالکل اسی طرح کا میثاق اللہ تعالیٰ نے تم سے پہلے بنی اسرائیل سے بھی لیا تھا۔ (وَبَعَثْنَا مِنْہُمُ اثْنَیْ عَشَرَ نَقِیْبًا ط) ۔ بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے تھے ‘ ہر قبیلے میں سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ایک نقیب مقرر کیا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی انصار میں بارہ نقیب فرمائے تھے ‘ نو خزرج میں سے اور تین اوس سے۔ (وَقَال اللّٰہُ اِنِّیْ مَعَکُمْ ط) ۔ میری مدد ‘ میری تائید ‘ میری نصرت تمہارے ساتھ شامل حال رہے گی ۔ (لَءِنْ اَقَمْتُمُ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَیْتُمُ الزَّکٰوۃَ ) (وَاٰمَنْتُمْ بِرُسُلِیْ ) (وَعَزَّرْتُمُوْہُمْ ) یہ جن رسولوں کا ذکر ہے وہ پے در پے بنی اسرائیل میں آتے رہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد تو رسالت کا یہ سلسلہ ایک تار کی مانند تھا جو چھ سو برس تک ٹوٹا ہی نہیں۔ پھر ذرا سا وقفہ چھ سوبرس کا آیا اور پھر اس کے بعد نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے۔ (وَاَقْرَضْتُمُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا ) یعنی اللہ کے دین کے لیے مال خرچ کرتے رہے ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

31. The word naqib in Arabic denotes supervisor and censor. There were twelve tribes among the Israelites and each tribe was required to appoint one of its members as a naqib, to look after their affairs and try to prevent them from becoming victims of irreligiousness and moral corruption. Although the Book of Numbers in the Bible does mention these twelve men, it does not seem to convey the sense of their being religious and moral mentors, as the term naqib employed by the Qur'an does. The Bible simply mentions them as the chiefs and dignitaries of their tribes. 32. The assurance of God's support is made conditional upon their continuous response to the call of God and for support of His Prophets. 33. This expression signifies spending one's wealth for the sake of God. Since God has promised to return to man every penny that he spends in His way along with His reward, which will be several-fold, the Qur'an characterizes this spending as a loan to God. This spending is considered a loan provided it is a 'good loan', that is, provided the money spent in the cause of God has been acquired by legitimate means and has been spent in accordance with the laws of God and with sincerity and earnestness. 34. To efface someone's evil deeds signifies two things. First, that if a man decides to follow the Straight Path and strives to follow God's directives in both thought and action his soul will be purged of many evils and his way of life will gradually become free of corruption. Second, if, in spite of this reform, weaknesses still persist in a man's life he is assured that God will not punish him and will have his failing erased from his record. For God is not too exacting over trivial errors, providing a man has sincerely accepted the basic guidance and reformed his character. 35. That is, they once found the 'right way' and then allowed it to be lost and thus put themselves on the road to perdition. We have translated the Qur'anic expression 'sawa' al-sabil' as the 'right way' for the sake of brevity. A better rendering could be, 'the highroad of balance and moderation', but even this would fail to bring out the meaning fully. In order to grasp the full significance of what is being said here one should bear in mind that in himself man constitutes a microcosm of society. He has innumerable powers and potentialities, myriad desires, feelings and inclinations, and a host of divergent urges. Social life consists of a huge network of complex relationships, and with the growth of civilization and culture the complexity of these relationships increases. There is also a rich fund of resources in the world and there are countless possibilities for their utilization; as a result, man is confronted with a plethora of choices and problems. The fact that man has inherent limitations means that he is incapable of viewing in one sweep and in a balanced way the entire span of existence. Hence, man is in no position to prescribe for his kind a judicious way of life - a way of life wherein justice is done to all his powers and capacities; in which a wholesome balance is maintained between all his inherent potentialities; in which all his urges are given their due; in which his two-fold need for inner satisfaction and external self-realization is fully met; in which various aspects of human life are taken into proper consideration, giving birth to an integrated scheme with a built-in capacity to harmonize the multifarious strains and stresses of social life; in which material resources are fully exploited in the best interests of both the individual and society and within the framework of equity, justice and righteousness. When man takes upon himself the task of prescribing the guidelines for his life and becomes his own law-maker, his mind tends to become preoccupied with one specific aspect of human life, with one of the numerous demands of his nature, with one of the myriad problems calling for solution. His mental involvement is liable to be so intense that he adopts - consciously or otherwise - an unjust attitude towards all the other aspects, requirements and problems of human life. Consequently, when such opinions are imposed, the balance which ought to prevail in man's life is disrupted and he begins to swing either towards one extreme or the other. Gradually, this deviation assumes intolerable proportions. A reaction sets in, and justice is demanded for the neglected aspects of human life. Still, human life remains deprived of justice. The reason for this failure is that man's reaction to imbalance is itself devoid of balance. The new dispensation in turn persists in excessive preoccupation with either one specific aspect, problem or requirement of human life at the expense of all the others. Thus human life is denied judicious and balanced progress. Man continues to stumble hither and thither; from one form of self-destruction to another. All courses of life charted by man himself are winding and crooked. They move in the wrong direction, reach the wrong end and then turn back in another wrong direction. Among these numerous ways - all false - there is just one way that lies exactly in the middle. This way alone does full justice to all of man's various potentialities and urges, to all his instincts and predispositions, to all the multifarious claims of both the body and the spirit; in short, to all aspects of his life. In this way there is no crookedness; it is the one course of life in which nothing is given either too much consideration or too little, and nothing suffers inequity and injustice. Man's very nature thirsts for such a way, and the succession of revolts against false ways of life is merely a manifestation of his constant quest for this right and straight way. Left to himself, man is incapable of charting this way. It is God alone Who can direct him to it; and indeed the Prophets were sent for this very purpose. The Qur'an designates this way as sawa al-sabil ('the right way') in the present verse and elsewhere as al-sirat al-mustaqim ('the straight way'). (See Towards Understanding the Qur'an, vol. I, Surah 1, verse 5, and n. 8.) This is the road which goes amidst the countless winding and crooked paths of life; the road which leads man, disregarding all the curved and crooked paths, straight on to his success, right from this world to the Hereafter. Whoever goes along it enjoys rectitude in this world and success and felicity in the Next, but whoever loses this road is bound to become a victim of false beliefs and false ways of conduct and thus comes to have a wrong orientation in life. This will lead him to Hell, where all bent and crooked paths end. The following illustrates man's dilemma. In modern times some philosophers have been so impressed by this constant swinging in human life, from one extreme to another, as to have mistakenly argued that the dialectical process is the natural course of human life. They conclude, therefore, that the only way for human life to progress is that a thesis should first swing it in one direction, and then an antithesis swing it in the opposite direction, after which there will emerge a synthesis which constitutes the course of human progress. These curved lines from one extreme to the other do not indicate the correct course of human progress. Rather they represent the tragic stumblings which again and again obstruct the true progress of human life. Every extreme thesis sets life on a certain course and continues to pull it in that direction for some time. When human life is thus thrown off its 'right course' the result is that certain realities of life - which had not received their due - rise up in revolt, and this revolt often assumes the form of an antithesis. This revolt begins to pull life in the opposite direction. As the 'right way' is approached the conflicting ideas - the thesis and antithesis - begin to effect some kind of mutual compromise, leading to the emergence of a synthesis. This synthesis comprises many elements conducive to the good of mankind. But since societies which do not submit to the guidance of the Prophets are deprived both of the signposts that might indicate the 'right way' and of faith to help steady man's feet thereon this synthesis does not permit human life to maintain the golden mean. Its momentum is so powerful that it once more pushes life to the opposite extreme. At this point, certain realities are once again denied their due, with the result that another antithesis emerges in reaction to the iniquities of the earlier ideology. Had the light of the Qur'an been available to these short-sighted philosophers, and had they been able to perceive the 'right way' envisaged by the Qur'an, they would have realized that this was the true course of human progress.

سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :31 نقیب کے معنی نگرانی اور تفتیش کرنے والے کے ہیں ۔ بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ہر قبیلہ پر ایک ایک نقیب خود اسی قبیلہ سے مقرر کرنے کا حکم دیا تھا تاکہ وہ ان کے حالات پر نظر رکھے اور انہیں بے دینی و بد اخلاقی سے بچانے کی کوشش کرتا رہے ۔ بائیبل کی کتاب گنتی میں بارہ ”سرداروں“ کا ذکر موجود ہے ، مگر ان کی وہ حیثیت جو یہاں لفظ ”نقیب“ سے قرآن میں بیان کی گئی ہے ، بائیبل کے بیان سے ظاہر نہیں ہوتی ۔ بائیبل انہیں صرف رئیسوں اور سرداروں کی حیثیت سے پیش کرتی ہے اور قرآن ان کی حیثیت اخلاقی و دینی نگران کار کی قرار دیتا ہے ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :32 یعنی جو رسول بھی میری طرف سے آئیں ، ان کی دعوت پر اگر تم لبیک کہتے اور ان کی مدد کرتے رہے ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :33 یعنی خدا کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتے رہے ۔ چونکہ اللہ تعالیٰ اس ایک ایک پائی کو ، جو انسان اس کی راہ میں خرچ کرے ، کئی گنا زیادہ انعام کے ساتھ واپس کرنے کا وعدہ فرماتا ہے ، اس لیے قرآن میں جگہ جگہ راہ خدا میں مال خرچ کرنے کو ”قرض “ سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ بشرطیکہ وہ”اچھا قرض“ ہو ، یعنی جائز ذرائع سے کمائی ہوئی دولت خرچ کی جائے ، خدا کے قانون کے مطابق خرچ کی جائے اور خلوص وحسن نیت کے ساتھ خرچ کی جائے ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :34 کسی سے اس کی برائیاں زائل کر دینے کے دو مطلب ہیں: ایک یہ کہ راہ راست کو اختیار کرنے اور خدا کی ہدایت کے مطابق فکر و عمل کے صحیح طریقے پر چلنے کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ انسان کا نفس بہت سی برائیوں سے ، اور اس کا طرز زندگی بہت سی خرابیوں سے پاک ہوتا چلا جائے ۔ دوسرے یہ کہ اس اصلاح کے باوجود اگر کوئی شخص بحیثیت مجموعی کمال کے مرتبے کو نہ پہنچ سکے اور کچھ نہ کچھ برائیاں اس کے اندر باقی رہ جائیں تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان پر مواخذہ نہ فرمائے گا اور ان کو اس کے حساب سے ساقط کر دے گا ، کیونکہ جس نے اساسی ہدایت اور بنیادی اصلاح قبول کرلی ہو اس کی جزئی اور ضمنی برائیوں کا حساب لینے میں اللہ تعالیٰ سخت گیر نہیں ہے ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :35 یعنی اس نے”سَوَاء السّبیل“ کو پا کر پھر کھو دیا اور وہ تباہی کے راستوں میں بھٹک نکلا ۔ ”سَوَاء السّبیل“ کا ترجمہ ”توسط و اعتدال کی شاہراہ“ کیا جا سکتا ہے مگر اس سے پورا مفہوم ادا نہیں ہوتا ۔ اسی لیے ہم نے ترجمہ میں اصل لفظ ہی کو جوں کا توں لے لیا ہے ۔ اس لفظ کی معنویت کو سمجھنے کے لیے پہلے یہ ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ انسان بجائے خود اپنی ذات میں ایک عالم اصغر ہے جس کے اندر بے شمار مختلف قوتیں اور قابلیتیں ہیں ، خواہشیں ہیں ، جذبات اور رحجانات ہیں ، نفس اور جسم کے مختلف مطالبے ہیں ، روح اور طبیعت کے مختلف تقاضے ہیں ۔ پھر ان افراد کے ملنے سے جو اجتماعی زندگی بنتی ہے وہ بھی بے حد و حساب پیچیدہ تعلقات سے مرکب ہوتی ہے اور تمدن و تہذیب کے نشو و نما کے ساتھ ساتھ اس کی پیچیدگیاں بڑھتی چلی جاتی ہیں ۔ پھر دنیا میں جو سامان زندگی انسان کے چاروں طرف پھیلا ہوا ہے اس سے کام لینے اور اس کو انسانی تمدن میں استعمال کرنے کا سوال بھی انفرادی اور اجتماعی حیثیت سے بکثرت شاخ در شاخ مسائل پیدا کرتا ہے ۔ انسان اپنی کمزوری کی وجہ سے اس پورے عرصہ حیات پر بیک وقت ایک متوازن نظر نہیں ڈال سکتا ۔ اس بنا پر انسان اپنے لیے خود زندگی کا کوئی ایسا راستہ بھی نہیں بنا سکتا جس میں اس کی ساری قوتوں کے ساتھ انصاف ہو ، اس کی تمام خواہشوں کا ٹھیک ٹھیک حق ادا ہو جائے ، اس کے سارے جذبات و رحجانات میں توازن قائم رہے ، اس کے سب اندرونی و بیرونی تقاضے تناسب کے ساتھ پورے ہوں ، اس کی اجتماعی زندگی کے تمام مسائل کی مناسب رعایت ملحوظ ہو اور ان سب کا ایک ہموار اور متناسب حل نکل آئے ، اور مادی اشیاء کو بھی شخصی اور تمدنی زندگی میں عدل ، انصاف اور حق شناسی کے ساتھ استعمال کیا جا تا رہے ۔ جب انسان خود اپنا رہنما اور اپنا شارع بنتا ہے تو حقیقت کے مختلف پہلوؤں میں سے کوئی ایک پہلو ، زندگی کی ضرورتوں میں سے کوئی ایک ضرورت ، حل طلب مسئلوں میں سے کوئی ایک مسئلہ اس کے دماغ پر اس طرح مسلط ہو جاتا ہے کہ دوسرے پہلوؤں اور ضرورتوں اور مسئلوں کے ساتھ وہ بالارادہ یا بلا ارادہ بے انصافی کرنے لگتا ہے ۔ اور اس کی اس رائے کے زبردستی نافذ کیے جانے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ زندگی کا توازن بگڑ جاتا ہے اور وہ بے اعتدالی کی کسی ایک انتہا کی طرف ٹیڑھی چلنے لگتی ہے ۔ پھر جب یہ ٹیڑھی چال اپنے آخری حدود پر پہنچتے پہنچتے انسان کے لیے ناقابل برداشت ہو جاتی ہے تو وہ پہلو اور وہ ضروریات اور وہ مسائل جن کے ساتھ بے انصافی ہوئی تھی ، بغاوت شروع کر دیتے ہیں اور زور لگانا شروع کر تے ہیں کہ ان کے ساتھ انصاف ہو ۔ مگر انصاف پھر بھی نہیں ہو تا ۔ کیونکہ پھر وہی عمل رونما ہوتا ہے کہ ان میں سے کوئی ایک ، جو سابق بے اعتدالی کی بدولت سب سے زیادہ دبا دیا گیا تھا ، انسانی دماغ پر حاوی ہو جاتا ہے اور اسے اپنے مخصوص مقتضاء کے مطابق ایک خاص رخ پر بہا لے جاتا ہے جس میں پھر دوسرے پہلوؤں اور ضرورتوں اور مسئلوں کے ساتھ بے انصافی ہونے لگتی ہے ۔ اس طرح زندگی کو کبھی سیدھا چلنا نصیب نہیں ہوتا ۔ ہمیشہ وہ ہچکولے ہی کھاتی رہتی ہے اور تباہی کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے کی طرف ڈھلکتی چلی جاتی ہے ۔ تمام وہ راستے جو خود انسان نے اپنی زندگی کے لیے بنائے ہیں ، خط منحنی کی شکل میں واقع ہیں ، غلط سمت سے چلتے ہیں اور غلط سمت پر ختم ہو کر پھر کسی دوسری غلط سمت کی طرف مڑ جاتے ہیں ۔ ان بہت سے ٹیڑھے اور غلط راستوں کے درمیان ایک ایسی راہ جو بالکل وسط میں واقع ہو ، جس میں انسان کی تمام قوتوں اور خواہشوں کے ساتھ ، اس کے تمام جذبات و رحجانات کے ساتھ ، اور اس کی روح اور جسم کے تمام مطالبوں اور تقاضوں کے ساتھ ، اور اس کی زندگی کے تمام مسائل کے ساتھ پورا پورا انصاف کیا گیا ہو ، جس کے اندر کوئی ٹیڑھ ، کوئی کجی ، کسی پہلو کی بے جا رعایت اور کسی دوسرے پہلو کے ساتھ ظلم اور بے انصافی نہ ہو ، انسانی زندگی کے صحیح ارتقاء اور اس کی کامیابی و بامرادی کے لیے سخت ضرورت ہے ۔ انسان کی عین فطرت اس راہ کی طالب ہے ، اور مختلف ٹیڑھے راستوں سے بار بار اس کے بغاوت کرنے کی اصل وجہ یہی ہے کہ وہ اس سیدھی شاہراہ کو ڈھونڈتی ہے ۔ مگر انسان خود اس شاہراہ کو معلوم کرنے پر قادر نہیں ہے ۔ اس کی طرف صرف خدا ہ راہنمائی کر سکتا ہے اور خدا نے اپنے رسول اسی لیے بھیجے ہیں کہ اس راہ راست کی طرف انسان کی راہنمائی کریں ۔ قرآن اسی راہ کو سَوَاء السّبیل اور صراط مستقیم کہتا ہے ۔ یہ شاہراہ دنیا کی اس زندگی سے لے کر آخرت کی دوسری زندگی تک بے شمار ٹیڑھے راستوں کے درمیان سے سیدھی گزرتی چلی جاتی ہے ۔ جو اس پر چلا ، وہ یہاں راست رو اور آخرت میں کامیاب و بامراد ہے ، اور جس نے اس راہ کو گم کر دیا ، وہ یہاں غلط ہیں ، غلط رو اور غلط کار ہے ، اور آخرت میں لامحالہ اسے دوزخ میں جانا ہے ، کیونکہ زندگی کے تمام ٹیڑھے راستے دوزخ ہی کی طرف جاتے ہیں ۔ موجودہ زمانہ کے بعض نادان فلسفیوں نے یہ دیکھ کر کہ انسانی زندگی پے در پے ایک انتہا سے دوسری انتہا کی طرف دھکے کھاتی چلی جا رہی ہے ، یہ غلط نتیجہ نکال لیا کہ ”جَدَلی عمل“ ( Dialectical Process ) انسانی زندگی کے ارتقاء کا فطری طریق ہے ۔ وہ اپنی حماقت سے یہ سمجھ بیٹھے کہ انسان کے ارتقاء کا راستہ یہی ہے کہ پہلے ایک انتہا پسندانہ دعویٰ ( Thesis ) اسے ایک رخ پر بہا لے جائے ، پھر اس کے جواب میں دوسرا ویسا ہی انتہا پسندانہ دعویٰ ( Antithesis ) اسے دوسری انتہا کی طرف کھینچے ، اور پھر دونوں کے امتزاج ( Synthesis ) سے ارتقاء حیات کا راستہ بنے ۔ حالانکہ دراصل یہ ارتقاء کی راہ نہیں ہے بلکہ بد نصیبی کے دھکے ہیں جو انسانی زندگی کے صحیح ارتقاء میں بار بار مانع ہو رہے ہیں ۔ ہر انتہا پسندانہ دعویٰ زندگی کو اس کے کسی ایک پہلو کی طرف موڑتا ہے اور اسے کھینچے لیے چلا جاتا ہے ۔ یہاں تک کہ جب وہ سَوَاء السّبیل سے بہت دور جا پڑتی ہے تو خود زندگی ہی کی بعض دوسری حقیقتیں ، جن کے ساتھ بے انصافی ہو رہی تھی ، اس کے خلاف بغاوت شروع کر دیتی ہیں اور یہ بغاوت ایک جوابی دعوے کی شکل اختیار کر کے اسے مخالف سمت میں کھینچنا شروع کر تی ہے ۔ جوں جوں سَوَاءالسّبیل قریب آتی ہے ان متصادم دعوؤں کے درمیان مصالحت ہونے لگتی ہے اور ان کے امتزاج سے وہ چیزیں وجود میں آتی ہیں جو انسانی زندگی میں نافع ہیں ۔ لیکن جب وہاں نہ سَوَاء السّبیل کے نشانات دکھانے والی روشنی موجود ہوتی ہے اور نہ اس پر ثابت قدم رکھنے والا ایمان ، تو وہ جوابی دعویٰ زندگی کو اس مقام پر ٹھیرنے نہیں دیتا بلکہ اپنے زور میں اسے دوسری جانب انتہا تک کھینچتا چلا جاتا ہے ، یہاں تک کہ پھر زندگی کی کچھ دوسری حقیقتوں کی نفی شروع ہو جاتی ہے اور نتیجہ میں ایک دوسری بغاوت اٹھ کھڑی ہوتی ہے ۔ اگر ان کم نظر فلسفیوں تک قرآن کی روشنی پہنچ گئی ہوتی اور انہوں نے سَوَاء السّبیل کو دیکھ لیا ہوتا تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ انسان کے لیے ارتقاء کا صحیح راستہ یہی سواء السّبیل ہے کہ خط منحنی پر ایک انتہا سے دوسری انتہا کی طرف دھکے کھاتے پھرنا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

13: بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے تھے۔ چنانچہ جب ان سے یہ عہد لیا گیا تو ہر قبیلے کے سردار کو اپنے قبیلے کا نگراں بنایا گیا تاکہ وہ عہد کی پابندی کی نگرانی کریں۔ 14: اچھے قرض یا قرضِ حسن کا اصل مطلب تو وہ قرض ہے جو کوئی شخص کسی کو اﷲ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے دے، لیکن اﷲ تعالیٰ کو اچھا قرض دینے کا مطلب یہ ہے کہ کسی غریب کی مدد کی جائے یا کسی اور نیک کام میں پیسے خرچ کئے جائیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(12 ۔ 14) ۔ اوپر کی آیتوں میں اہل اسلام کی عہد اور اس عہد پر قائم رہنے کی تاکید کا ذکر تھا ان آیتوں میں اہل کتاب کی عہد شکنی اور اس کے وبال کا ذکر ہے تاکہ مسلمان اس بات سے آگاہ ہوجاویں کہ عہد شکنی بڑے وبال کی بات ہے۔ ان آیتوں میں یہود کی دو بد عہدیوں کا ذکر ہے۔ اول بدعہدی کے قصے کا حاصل یہ ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے مصر کے قیام کے زمانے سے بنی اسرائیل نے ملک شام کی سکونت چھوڑ کر مصر کی سکونت اختیار کرلی تھی۔ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) ٰ کی نبوت کے زمانے میں فرعون کے ہلاک ہوجانے کے بعد حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) ٰ کو اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا کہ بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر ملک شام کو جائیں اور قوم عاد کے باقی رہے ہوئے لوگوں کی اولاد میں کے کچھ لوگ موقع پاکر ملک شام کی بستیوں پر جو قابض ہوگئے ان سے لڑکر وہ بستیاں خالی کر اویں اور وہیں سکونت اختیار کریں۔ قوم عاد کے باقی رہے ہوئے لوگوں میں ایک شخص عملیق بن آذر تھا یہ ملک شام کی بستیوں کے قابض لوگ اسی شخص کی اولاد میں تھے۔ اس لئے اس قوم کو عمالقہ کہتے تھے۔ یہ عمالقہ قوم کے لوگ بڑے شہ زور اور قد آور تھے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جب ملک شام کے قریب پہنچے تو انہوں نے بنی اسرائیل کے بارہ اسباط میں سے بارہ شخص قوم کے سرگروہ اور چودھریوں کے طور پر چھانٹے اور ان کو قوم عمالقہ کی حالت دریافت کرنے کو بھیجا اور ان سے یہ عہد ٹھہرایا کہ قوم عمالقہ کی حالت دیکھ کر واپس آنے کے بعد بنی اسرائیل سے قوم عمالقہ کی شہ زوری کی کوئی ایسی بات بیان نہ کریں جس سے بنی اسرائیل ڈر جائیں۔ اب قوم عمالقہ کی حالت دیکھ کر واپس آنے کے بعد ان بارہ شخصوں میں سے دس آدمیوں نے بد عہدی کی اور اپنے رشتہ داروں سے قوم عمالقہ کی شہ زوری کی وہ حالت بیان کی جس کو سن کر بنی اسرائیل نے اس لڑائی میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ساتھ دینے سے انکار کیا جس کا ذکر آگے آتا ہے انہی بارہ چودھریوں کا ذکر ان آیتوں میں ہے کہ ان کی بد عہدی کے سبب سے بنی اسرائیل نے اپنے نبی موسیٰ (علیہ السلام) سے ہر حال میں ساتھ دینے کا عہد جو ٹھہرا رکھا تھا وہ انہوں نے توڑ ڈالا۔ دوسرا عہد تورات کے احکام کی پابندی کا تھا۔ جس کا ذکر تفصیل سے ان آیتوں میں ہے۔ اس دوسری عہد میں نماز زکوٰۃ اگرچہ ایسی چیزیں ہیں جن پر یہود قائم تھے۔ لیکن ان کو بد عہدی میں اللہ تعالیٰ نے اس لئے شمار کیا کہ یہ نماز زکوٰۃ اللہ تعالیٰ کے عہد کے موافق نہ تھی۔ یہ وہی عہد ہے جس کا ذکر سورة آل عمران میں تفصیل سے گزرچکا ہے اور ان آیتوں میں مختصر طور پر وَاٰمَنْتُمْ بِرُسُلِیْ وَعَزَّرْتُمُوْھُمْ سے اسی عہد کا تذکرہ فرمایا گیا ہے۔ غرض اس عہد کے موافق یہود عیسیٰ (علیہ السلام) اور نبی آخر الزمان کی فرماں برداری اور پیروی کے پابندکئے گئے تھے۔ یہود نے اس پابندی کو چھوڑ دیا جس سے وہ تورات کے بھی پابندی نہیں رہے۔ کیونکہ تورات کی جن آیتوں میں عیسیٰ (علیہ السلام) اور نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف تھے ان میں کی کچھ آیتوں کے لفظ تو انہوں نے بدل ڈالے اور کچھ لفظوں کے معنی اپنی طرف سے غلط گھڑ لئے چناچہ اس مطلب کو اللہ تعالیٰ نے ان لفظوں میں ادا فرمایا ہے۔ یحرفون اکلم عن مواضعہ و نسوا حظامما ذکروابہ قرضاحسنا کا مطلب تعلق نفلی صدقہ خیرات سے ہے فبما نقضہم میں ما زائدہ ہے اصل فبنقضہم ہے۔ ہمیشہ یہود کی دغا بازیاں یہ ہیں کہ جیسے اللہ کے رسول پر انہوں نے جادو کرایا۔ آپ کے کھانے میں زہر ملایا۔ مدینہ کے گردونواح میں جو یہود رہتے تھے ان سے صلح کا عہد تھا اس لئے ان کی دغا بازیوں پر در گزر کا حکم فرمایا۔ اللہ کی لعنت کا مطلب اللہ کی رحمت سے دور ہوجانا ہے جس کا اثر یہ ہوا کہ ان کے دل ایسے بخت ہوگئے کہ کسی نصیحت سے وہ ذرا بھی نرم نہ ہوئے۔ جس کا حاصل مطلب یہ ہوا کہ کسی طرح کی نصیحت کا ان کے دل پر کچھ اثر نہ ہوا بیت المقدس کے قریب ایک گاؤں ہے جس کا نام ناصرہ ہے ابتداء میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ظہور وہیں ہوا۔ اسی مناسبت سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پیرو اپنے آپ کو نصرانی کہتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی زبان عبرانی تھی اس لئے انجیل اسی زبان میں اتری وہ عبرانی زبان کی اصل انجیل تو دنیا سے ناپید ہے۔ ہاں یونانی ؔ۔ سریانیؔ۔ عربیؔ۔ فارسی ؔ۔ ترکی ؔ۔ انگریزی ؔ۔ اردوؔوغیرہ میں اس کے ترجمے ہیں۔ یہ تو ظاہر ہے کہ وہ ترجمے خود اللہ تعالیٰ کا کلام نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے کلام کا ترجمہ ہے جو لوگوں نے اپنی رائے کے موافق کیا ہے۔ اس لئے ان ترجموں میں بڑا اختلاف ہے اور بعض ترجموں میں کلام الٰہی کی تفسیر کے طور پر ایسے لفظ بھی بڑھائے گئے ہیں کہ اصلی انجیل کے م وجود نہ ہونے کے سبب سے ان کا کلام الٰہی یا اس کے ترجمہ سے جدا کرنا مشکل ہے۔ غرض ان ترجموں کے اختلاف کے سبب سے ان ترجموں میں خاص کلام الٰہی کی سی نصیحت کا اثر باقی نہیں اور اس اثر کے اٹھ جانے کے سبب سے اصل انجیل میں نبی آخر الزمان کو اللہ کا رسول جاننے اور ان کی فرمانبرداری کرنے کے الفاظ جو تھے ان کے معنوں میں طرح طرح کی تاویلات پیدا ہوگئیں۔ اصل انجیل کے عمل کے وقت جس طرح یک دلی سے یہ لوگ رہا کرتے تھے وہ بات جاتی رہی اور ایک شریعت عیسوی کے کئی ٹکڑے ہو کر ایک نبی کی امت ایک کتاب کے مانے والوں کے چند فرقے ہوگئے۔ جس میں ایک دوسرے کا بالکل مخالف ہے۔ مثلاً فرقہ پرو تسٹنٹ کے لوگ الپاپارومی کے بنائے ہوئے قواعد کو نہیں مانتے اور رومن کھیتھلک فرقے کے لوگ الپاپارومی کے قواعد کے آگے انجیل کو کچھ نہیں گنتے۔ پر وتسٹنٹ فرقہ اگرچہ انجیلی فرقہ کہلاتا ہے۔ لیکن اس فرقہ میں چند اندرونی گروہ ہیں اور ہر ایک گروہ کی انجیل دوسرے گروہ کی انجیل سے نہیں ملتی اسی مطلب کو ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے ذکر فرما کر فرمایا ہے کہ قیامت کے دن یہ سب اپنی کرتوتوں کا خمیازہ بھگت لیویں گے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(5:12) بعثنا۔ ہم نے بھیجے۔ ہم نے مقرر کئے۔ ہم نے اٹھائے۔ نقیبا۔ اسم منصوب۔ سردار۔ قوم کی طرف سے ایفائے عہد کے ذمہ دار۔ قوم کے حالات کی تفتیش کرنے والا۔ ہر ایک کی پوچھ گچھ کرنے والا۔ نقیب اس شخص کو کہتے ہیں جو کسی قوم کے صحیح حالات سے باخبر ہو۔ اور ان کی بہتری اور برتری کا ذمہ دار اور ان کے کردار پر کڑی نظر رکھنے والا ہو۔ وقال اللہ انی معکم۔ یہ خطاب نقیبوں سے ہے اس کی تقدیر یوں ہے وقال اللہ للنقباء انی معکم۔ اور بعض کے نزدیک اس کی مخاطب بنی اسرائیل کی ساری قوم ہے۔ لیکن پہلا قول صحیح ہے۔ کیونکہ ضمیر اکثر قریب ترین اسم ما سبق مذکور کی طرف راجع ہوتی ہے۔ اس کے بعد کلام کی نئے سرے سے ابتداء ہوتی ہے اور لئن سے لے کر سواء السبیل تک کلام قوم بنی اسرائیل سے ہے۔ لئن اتمتم سے لے کر قرضا حسنا تک شرط ہے۔ جو ان پانچ امور پر مشتمل ہے اقام الصلوۃ۔ ایتاء الزکوۃ۔ ایمان بالرسول۔ تعزیر الرسل۔ قرضہ حسنہ اور لاکفرن سے لے کر الانھار تک جواب شرط ہے۔ عزرتموہم۔ تم نے ان کی مدد کی۔ تم نے ان کو قوت پہنچائی۔ تم نے ان کی تعظیم کی۔ تعزیر سے ماضی جمع مذکر حاضر۔ واؤ اشباع کا ہے یعنی میم ما قبل کی حرکت کو لمبا کرنے کے لئے۔ لاکفرن۔ میں محو کر دوں گا۔ میں مٹا دوں گا۔ تکفیر سے جس کے معنی کسی چیز کو اس طرح چھپانے اور ڈھانپ دینے کے ہیں گویا وہ کبھی تھی ہی نہیں۔ مضارع بلام تاکید و نون ثقیلہ۔ صیغہ واحد متکلم ۔ سواء السبیل۔ سیدھی راہ۔ راہ مستقیم۔ ہدایت و رشد کی راہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 یعنی سمع وطاعت کا یہ عہد سے نہیں لیا گیا بلکہ تم سے پہلے بنی اسرائیل سے بھی اسی قسم کا عہد لیا گیا تھا مگر انہوں عہد شکنی کی اور ذلت ومسکنت میں گرفتا رہو گئے لہذا مسلمانو تم ان جیسے نہ بنو۔ ( کبیر) بنی اسرائیل کے کل بارہ قبیلے تھے اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ہر ایک قبیلہ پر ایک سردار خود ہی اس قبیلہ سے مق ر کرنے کا حک دیا تھا تاکہ وہ ان کے حالات پر نظر رکھے اور انہیں اپنے وعہد پر قائم رہنے کی ہدایت کرتا رہے بعض مفسرین (رض) نے لکھا ہے کہ یہ نقباان جبارین قوم کی خبر لانے کے لیے مقرر کئے تھے جن کا ذکر آگے آرہا ہے (ابن کثیر) ظاہر الفاظ سے پہلی بات صحیح معلوم ہوتی ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی لیلہ اعقبہ میں جب سمع وطاعت پر بیعت لی تھی تو ان پر اور نقیبہ ہی مقرر کئے تھے (قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 3 ۔ آیات 12 تا 19 ۔ اسرار و معارف : پہلی قوموں سے بھی عہد لیے گئے تھے کہ یہ فطرت کا قانون ہے کہ انسان کو شعور بخشا اور عقل سے نوازا۔ عقل وہ قوت ہے جو دماغ میں ہے اور جسم کی ضرورتوں کا احساس کرنا انہیں پورا کرنے کے اسباب تلاش کرنا ، اس کا کام ہے شعور وہ قوت ہے جو دل میں ہے اور جو عظمت الہی کو اپنی حیثیت کے مطابق سمجھنے کی صلاحیت رکھتی ہے جہاں تک عقل کا تعلق ہے تو اس کی ضرورت کے مطابق ہر جاندار کو دی گئی ہے جس کا استعمال ہم روز مرہ زندگی مٰں دیکھتے ہیں۔ رہا شعور و آگہی یہ صرف انسان کی صفت ہے۔ اب باقی جانداروں کی طرح اس کی عقل بھی اسے پیٹ بھرنے یا دنیا کے لذائذ سے فائدہ اٹھانے کے لیے کہتی ہے مگر شعور کہتا ہے صرف زندہ رہنا مقصد حیات نہیں میرا مقصد حیات دوسرے تمام جانوروں کی طرح نہیں ہے وہ تو محض میری ضرورت کے لیے میری خدمت کے لیے پیدا کئے گئے مگر مجھے دنیا کو بھی ضرور استعمال کرنا ہے کہ اس پر میری زندگی کا مدار ہے مگر اس طریقے سے کرنا ہے جو مجھے میرا رب سکھائے یا جس کا حکم دے گا کہ اس طرح دنیا کا نظام بھی چلتا رہے گا اور میرا تعلق میرے رب سے بھی مضبوط تر ہوتا چلا جائیگا۔ سو اسی لیے اللہ کی طرف سے مختلف اوقات میں مختلف امتوں سے وعدے لیے جاتے رہے اور ان پر انعام کے وعدے کئے جاتے بھی رہے۔ جیسے ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا اور ان کے بارہ قبائل تھے سو ہر قبیلے کا ایک سردار مقرر ہوا جو اپنے قبیلے کی طرف سے ایفائے عہد کا ذمہ دار تھا یہاں سے سمجھ آتی ہے کہ سردار یا جو آدمی قابل حترام ہو یا جس کی بات مانی جاتی ہو اس کو چاہئے کہ لوگوں کو نیکی پر قائم رکھنے کے لیے بھی کوشش کیا کرے یہ اس کی ذمہ داری ہے امیر ہو مولوی یا پیر۔ اور اللہ نے ان سے تو اطاعت کا وعدہ لیا اپنی طرف سے بہت وسیع عطاء و بخشش سے نوازا کہ انی معکم۔ میں خود تمہارے ساتھ ہوں یوں تو اللہ ذاتی طور پر ہر جگہ موجود ہے مگر اس معیت کا مطلب و معنی اپنی رضا و خوشنودی سے ساتھ ہونا ہے۔ ذاتی امور ہوں ۔ خانگی ہوں یا قومی اور یہ اتنا بڑا انعام ہے کہ ساری ولایت کا خلاصہ ہے کہ معیت باری حاصل ہوجائے۔ نیز چونکہ یہاں معیت کا مدار انسان کی طرف سے وعدہ پورا کرنے پر ہے اگر پورا نہیں کرے گا تو محروم ہوجائے گا کہ جب شرط موجود نہ رہے مشروط بھی نہیں رہتا۔ تو یہی ولایت کی حقیقت ہے کہ بڑے سے بڑا ولی تب تک ولی اللہ ہے جب تک اطاعت شعار ہے۔ اگر اطاعت گئی ولایت بھی گئی یہاں بھی یہی مفہوم ارشاد ہوا ہے کہ تمہیں میری ذات کی معیت نصیب رہے گی مگر شرط یہ ہے کہ تم نماز کو قائم رکھو گے غالبا نماز ادا کرنے اور نماز قائم کرنے میں فرق یہ ہے کہ ادا کرنا صرف اپنی ذات تک ہے اور اقامت سے مراد معاشرے میں ماحول میں اپنے اردگرد گھر میں بچوں میں جہاں جہاں رسائی ہو تمام کو ادا کرانے کی کوشش اقامت سے مراد معاشرے میں ماحول میں اپنے اردگرد گھر میں بچوں میں جہاں جہاں رسائی ہو تمام کو ادا کرانے کی کوشش اقامت کہلائے گی جس کا حکم دیا جا رہا ہے یا دوسرے لفظوں میں شرط ولایت ٹھہرائی جا رہی ہے اور زکوۃ ادا کرتے رہوگے کہ یہ بھی فریضہ ہے جس کا بہت کم اہتمام ہوتا ہے حق یہ ہے کہ جس مال پر زکوۃ واجب ہو اگر شرائط پوری ہوتی ہوں تو پورا پورا حساب کرکے نہ صرف دے دی جائے بلکہ مستحقین تک پہنچائی جائے ہاں جو حکومت زبردستی کاٹ لیتی ہے اسے شمار کرلیا جائے کہ وہاں انسان کا بس نہیں اسے مستحقین تک پہنچانے کی ذمہ داری بھی حکومت کی ہے۔ تیسری شرط یہ ہے کہ بنی اسرائیل میں تو مسلسل انبیاء تشریف لائیں گے تو تمہیں میرے رسولوں کے ساتھ ایمان لانا ہوگا یہ نہ ہو کہ کسی نئے نبی کا زمانہ پاؤ تو اس کا انکار بیٹھو اور کافر شمار ہونے لگو اور رسولوں کے ساتھ ایمان کی دلیل ان کے مشن میں اپنی حیثیت کے مطابق ہاتھ بٹانا عقائد میں اعمال میں معاشرے کی اصلاح کا جو عظیم کام اللہ کے رسولوں کے ذمہ ہوتا ہے اس میں ان کی مدد کرنا ورنہ خالی دعوے کرکے خود بھی عمل نہ کرسکنا یا اپنی ذات کو بھی آمادہ نہ کرسکنا در اصل رسالت کے ساتھ ایمان کی نفی کرنے کے برابر ہے اور ساتھ تم صدقاتِ نافلہ بھی دیتے رہے اپنی کوششوں کے ساتھ اپنے اعمال کو بھی اور اپنے مال کو بھی زکوۃ کے علاوہ بھی ترویج دین کی خاطر خرچ کرتے رہے۔ یہ غالباً چار بنیادی شرائط ہوگئیں جن کے گرد پوری انسانی زندگی گھومتی ہے۔ عبادات ، عقائد ، معاملات اور اصلاح معاشرہ کے لیے جدوجہد۔ اگر تم اس پر قائم رہو تو میں ذاتی طور پر تمہارے ساتھ ہوں۔ تمہیں کام مشکل نظر آئے گا۔ مگر جب مستقل مزاجی سے کرنا چاہوگے تو ہوجائے گا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ اور زائد از ضرور رقم کو بھی عیاشی پہ خرچ کرنے کی بجائے اللہ کی راہ میں اور دین کی خدمت میں اور اصلاحی اور رفاہی کاموں میں لگاؤگے تو بحیثیت انسان جو کمزوری رہ جائے گی معاف کردوں گا اور تمہیں ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے تابع نہریں چلتی ہیں یعنی ابدی اور دائمی راحتیں نصیب ہوں گی لیکن اب اتنی تفصیل سے بات ہوجانے کے بعد بھی جو کفر کرے گا تو اس کے گمراہ ہونے میں کیا کسر رہ گئی اور اس کی تباہی میں کیا باقی ہے اب انہوں نے وعدہ خلافی کی اور عہد توڑ دیا تو ہم نے ان پر سزائیں مسلط کردیں۔ اول ، لعنھم۔ انہیں رحمت سے محروم کردیا اور طرح طرح کے عذاب ان پر وارد ہوئے بیماریوں کی صورت میں غرق ہونے کی صورت میں آسمان سے آگ برسی اور کبھی پتھر کبھی کسی ظالم بادشاہ نے قتل کردیا اور کبھی کوئی اور مصیبت ٹوٹ پڑی دوسری بات یہ ہوئی ، کہ رحمت سے محرومی کی وجہ سے ہم نے ان کے دلوں کو سخت کردیا یعنی ولایت سے جو شخص معزول و محروم ہوتا ہے وہ دو طرح کے عذابوں میں مبتلا ہوجاتا ہے ایک جسمانی اور مادی ایذاء بشرطیکہ وہ ایذا ہو باعتبار اپنے نتیجہ کے۔ اور دوسرے دل تباہ ہوجاتا ہے سخت ہوجاتا ہے سیاہ ہوجاتا ہے اور الٹ جاتا ہے برائی کو پسند کرنے لگتا ہے اور نیکی سے گھبراتا ہے جیسے ان کے جب دل تباہ ہوئے تو انہوں نے اللہ کی کتابوں میں ردوبدل شروع کردیا اور تحریف کردی۔ چند سکوں کے لیے یا وقت اقتدار کے لیے کبھی الفاظ بدل دئیے اور کبھی معانی بدل دئیے اور جو طریقہ اللہ سے برکات اور فیوضات حاصل کرنے کا سکھایا گیا تھا وہ بھول گئے یعنی دل کے تباہ ہونے سے روحانی برکات کا سارا نظام ہی تباہ ہو کر رہ گیا چناچہ آپ ہر روز ان کے کسی نہ کسی فریب ہی کی بات سنتے ہوں گے یہ کوئی نہ کوئی دھوکہ ہی کرتے ہوں گے کہاں نیکی میں اقوام عالم کی قیادت و سیادت اور کہاں چند ٹکڑوں کے لیے دھوکے فریب جھوٹ بندوں کے ساتھ خدا کے ساتھ ، اللہ کی کتاب کے ساتھ ہاں سوائے چند خوش نصیبوں کے جو مختص رہے تو انہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان بھی نصیب ہوگیا لیکن باوجود ان سب خرابیوں کے آپ ان سے درگذر کا معاملہ فرمائیے ان کا اپنا کردار ہے آپ کا اپنا مقام ہے سو ان کی خرابیوں کو نظر انداز فرماتے ہوئے ان تک اللہ کا پیغام پہنچاتے رہئے کہ اللہ احسان کرنے والوں کو ہی پسند کرتے ہیں ایسے لوگوں کو جو سینہ چیر کر سامنے رکھ دیں اور ساری قوت حکم بجا لانے پہ صرف کردیں وہی اللہ کو بھی پسند ہیں اور یہ جو اپنے نصرانی ہونے کے مدعی ہیں ان سے بھی عہد لیا تھا ان کے آباؤ اجداد کی طرح اور انہوں نے بھی اپنے پیشروؤں کی طرح بھلا دیا سو اس کی سزا انہیں ان دو سزاؤں کے ساتھ مزید یہ ملی کہ مذہب کی کئی شاخیں ہوگئیں جو ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے لئے ہرگز تیار نہیں اور یہ قیامت تک ایک دوسرے سے بخل اور دشمنی ہی کرتے رہیں گے حتی کہ اللہ ہی انہیں احساس دلائیں گے کہ یہ کیا کرتے رہے اور ان کا کردار کیا رہا ہے یعنی قیامت کو انہیں ان کے اعمال کا پتہ چلے گا اے اہل کتاب ! حق بات یہ ہے کہ ہمارا رسول حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لاچکا جو ساری انسانیت کے لیے مبعوث ہوا ہے وہی تمہاری طرف بھی اللہ کا رسول ہے اور اس کی نبوت کی بہت دلیلوں سے ایک دلیل یہ بھی ہے کہ خود اپنی کتاب میں سے بعض حقائق جو تم نے چھپا رکھے ہیں چونکہ معاشرے کو ان کی ضرورت ہے آپ ظاہر فرما دیتے ہیں حالانکہ آپ نے کسی سے بھی کوئی کتاب وغیرہ کبھی نہیں پڑھی اور بہت سی باتیں جن کا بتانا ضروری نہ ہو بلکہ محض تمہاری رسوائی ہوتی ہو ان سے در گذر فرماتے ہیں۔ یہ آپ کا اخلاق کریمانہ بھی دلیل نبوت ہے اور پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمرکاب تو روشنیاں سفر کرتی ہیں کہ کتاب لائے ہیں وہ بھی نور اور ہدایت ہے آپ کا وجود عالی بذات خود نور ہدایت ہے اخلاق کریمانہ نور ہدایت ہے آپ کے علوم نور ہدایت اور آپ کے پاس کتاب وہ بھی روشن روشن ، جو انسان بھی اللہ کی رضا کا اور اس کی خوشنودی کا طالب ہو اللہ کریم اسے اسی رسول اور اسی کتاب کے ذریعہ سے سلامتی کے راستوں پہ پہنچا دیتے ہیں اور انہیں تاریکیوں سے چھین لیتے ہیں اپنی قوت کے ساتھ اندھیروں سے نکال لیتے ہیں اور روشنی میں پہنچا دیتے ہیں یعنی برائی سے ہٹا کر نیکی پر لگا دیتے ہیں اور انہیں سیدھے راستے پہ چلنے کی توفیق ارزاں فرماتے ہیں آخرت اور بخشش کی راہیں ان پہ آسان فرما دیتے ہیں یہ رضائے الہی کی دلیل ہے اور اسی کو ولایت کہا جاتا ہے کہ نیکی کی توفیق ارزاں ہوجائے۔ جو لوگ حضرت مسیح (علیہ السلام) کو جو خود حضرت مریم کے بیٹے ہیں اللہ مانتے ہیں ان کے کفر مٰں تو کوئی شبہ نہیں عقل کے بھی اندھے ہیں کہ جو انسان پیدائش کے وقت یا اس سے پہلے ماں کے پیٹ میں کس قدر محتاج ہوتا ہے وہ خدا کیسے ہوسکتا ہے جو پیدا ہوسکتا ہے مر بھی تو سکتا ہے پھر پیدا ہونا خود اس بات کی دلیل ہے کہ پیدا کرنے والا کوئی اور ہے اب ان ہی سے پوچھیے اللہ جس نے مسیح (علیہ السلام) ہی کو نہیں ان کی والدہ کو بھی پیدا فرمایا تھا اگر انہیں موت دینا چاہے تو بھلا اسے کون روک سکے گا ؟ یا روئے زمین پر بسنے والے تمام ذوی الارواح کو موت دے دے تو کون ہے جو اس کا ہاتھ پکڑ سکتا ہے کوئی نہیں ، چناچہ حضرت مریم واقعی فوت ہوچکی ہے۔ عیسیٰ (علیہ السلام) بھی نزول کے بعد فوت ہوں گے کیونکہ ارض و سماء کی حکومت و پادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے یعنی سب پر اسی کا حکم چلتا ہے اور جو ان کے علاوہ ہے اس پر بھی حکمران وہی ہے اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی تخلیق اگر والد کے بغیر ہوئی تو یہ الوہیت کی دلیل تو نہیں بن سکتی کہ ہوئے تو پھر بھی مخلوق ہی اور اللہ قادر ہے جس طرح چاہے پیدا کرے اگر وہ بندوں کو کھیتوں میں اگانا چاہتا تو بھی کوئی اسے روکنے والا نہ تھا عیسیٰ (علیہ السلام) کے والد نہ تھے آدم (علیہ السلام) کی والدہ تھیں نہ والد۔ وہ جیسے چاہے پیدا کرے کہ ہر چیز پہ قادر ہے۔ یہ یہود و نصاری کہتے ہیں ہم خود سارے کے سارے سرے سے اولاد ہی اللہ کی ہیں اور اللہ کو بڑے محبوب ہیں ذرا ان کی بات سنیے اور حالات ملاحظہ فرمائیے کہ دل سیاہ عقائد تباہ اعمال برباد ظالم سود خور اور بدکار اور انجام کار کافر اور جہنم کے رہنے والے کیا اگر اللہ کی اولاد ہوتی تو یہی حالت ہوتی اور اس میں یہی اوصاف ہوتے وہ تو لاشریک ہے احد ہے اجزا سے پاک ہے اور اولاد تو والد کا جز ہوتی ہے پھر تمہارے عقائد اور کرتوتوں پر اخروی سزا کی وعید بار بار کیوں۔ اصل بات یہ ہے تم بھی عام انسان ہو جیسے دوسری مخلوق ہے تم بھی ہو اب اللہ کی مرضٰ کہ معاف کردے اور نیکی کتوفیق ارزاں فرما دے یا جسے چاہے اس کے گناہوں اور خطاؤں پہ عذاب کرے کہ ارض و سماء اور اس کے ماسوا پہ حکومت اسی ذات وحدہ لاشریک کی ہے اور وہی ہر چیز اور ہر نفس کا خالق بھی ہے اور سب نے اسی کی طرف لوٹ کر جانا بھی ہے۔ اے اہل کتاب ! ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے پاس ایسے حال میں تشریف لائے ہیں کہ عرصہ دراز سے کوئی نبی معبوث نہیں ہوا تھا۔ علماء فرماتے ہیں کہ پہلے دین کی کچھ نہ کچھ اساس ہوتی تھی کہ دوسرا نبی مبعوث ہوجاتا تھا۔ مگر عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد چھو سو سال کا عرصہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت تک کوئی نبی مبعوث نہ ہوا۔ اسی کو عہد فترت یعنی ایسا زمانہ زمانہ جس میں تعلیمات نبوت منقطع ہوگئی تھیں کہا جاتا ہے ایسے زمانے میں جہاں نور نبوت یا دین اسلام کی تبلیغ نہ پہنچی ہو وہاں دین عیسوی یا موسوی ہو کسی بھی دین کے نام پر رسومات رہی سہی ان پر کار بند رہنے والا بھی نجات پا جائے گا بشرطیکہ شرک میں مبتلا نہ ہوگیا کہ توحید باری پہ تو ذرہ ذرہ اور پتا پتا گواہی دے رہا ہے تو ارشاد ہوتا ہے کہ یہی دیکھ لو ! صدیوں کے انقطاع نے مخلوق کو کس قدر گمراہ اور سچائی سے دور کردیا تھا۔ لوگ کتنے جاہل تو ہم پرستی اور برائیوں میں مبتلا تھے انسانیت کی تھی ایک جان بلب مریض ، دیکھو ! میرے حبیب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کارنامہ کہ اس لاعلاج مریض کو کیسی صحت نصیب ہوئی کہ ایک بندے کے ہاتھوں پورا عہد پورا زمانہ ، پور انسانیت سدھر گئی پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی کہ کل روز حشر کہو ہمیں تو کوئی سیدھے راستہ پر چلانے یا برے راستے سے روکنے کو آیا ہی نہیں۔ ایک عالم سدھر گیا اور تمہیں خبر نہ ہوئی تم ایسے بد نصیب ہو کہ ابھی مخالفت کی سوچ رہے ہو یہی وہ آنے والا تھا جو تشریف لاچکا بشیر بھی یہی ہے اور نذیر بھی یہی ہستی ہے۔ اللہ کریم نے نے پوری انسانیت کی ہدایت کے لیے سارے زمانوں اور سارے ملکوں میں اسی کا پیغام ، پیغام حق قرار دیا ہے جو انشاء اللہ پہنچے گا بھی اور غالب بھی ہوگا کہ اللہ ہر چیز پہ قادر ہے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

آیت نمبر 12-13 لغات القرآن : بعثنا (ہم نے بھیجا) اثنی (اثنین) ۔ دو ۔ (نون گرگیا) ۔ اثنی عشر (بارہ) ۔ نقیباً (نگرانی کرنے والے سردار) ۔ عزرتموھم (تم نے ان کی مدد کی) ۔ اقرضتم (تم نے قرض دیا) ۔ قرضا حسنا (قرض حسن (جس میں اپنا لالچ نہ ہو اور دوسرے کو فائدہ پہنچے) ۔ لاکفرن (میں دور کر دوں گا) ۔ سیئات (سیئۃ) برائی) ۔ ادخلن (میں ضرور داخل کروں گا) ۔ ضل (بھٹک گیا) ۔ سوآء السبیل (سیدھا راستہ) ۔ نقض (توڑنا) ۔ لعنا (ہم نے لعنت کی۔ دور کیا ہم نے) ۔ قاسیۃ (سخت) ۔ یحرفون (وہ پھیرتے ہیں (تحریف۔ جگہ سے بےجگہ کرنا۔ تبدیل کرنا) ۔ مواضع (جگہیں) ۔ نسوا (وہ بھول گئے) ۔ ذکروا (یاد دلائے گئے۔ نصیحت کئے گئے) ۔ لاتزال (ہمیشہ) ۔ تطلع (تو مطلع ہوتا رہتا ہے۔ تجھے خبر ملتی رہتی ہے) ۔ خآئنۃ (خیانت کرنے والی۔ بےایمانی کرنے والی) ۔ اصفح (درگزر کر) ۔ تشریح : اللہ تعالیٰ نے عہد صرف مومنوں ہی سے نہیں لیا ہے بلکہ ان سے پہلے یہود سے اور نصاریٰ سے بھی عہد لیا تھا جس کا ذکر آگے آرہا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم سے بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں میں ہر ایک کے لئے جدا جدا ذیلی سردار مقرر کئے تھے جو اپنے اپنے قبیلوں کے نگراں تھے۔ بنی اسرائیل سے معاہدہ کی شرائط یہ تھیں۔ (1) اگر تم حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بعد آنے والے رسولوں پر ایمان لائے۔ (2) ان کی مدد کرتے رہے۔ (3) اللہ کو قرض حسنہ پیش کرتے رہے۔ (4) نماز اور زکوٰۃ کی پابندیوں پر قائم رہے تو اللہ تعالیٰ تمہارے چھوٹے چھوٹے گناہوں کو معاف کر دے گا اور تمہیں جنت میں داخل کر دے گا۔ لیکن اگر تم میں سے کسی نے کفر کیا تو وہ جہنم کی آگ کا مستحق ہوگا۔ مگر وہ اس پاکیزہ عہد سے پھرگئے اور اس حد تک پھرگئے کہ وہ اللہ کی رحمت سے دور ہوگئے۔ اب ان کے دلوں پر کسی نیک بات کا کوئی اثر تک نہیں ہوتا۔ ان کی لعنت زدہ ہونے کا خاص ثبوت یہ ہے کہ وہ توریت میں تحریف کرتے رہے ہیں اور اس تحریف کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ تحریف کیا ہے ؟ آیات الٰہی میں ترمیم، تنسیخ، اضافہ، جو چاہا کاٹ دیا۔ جو چاہا بدل دیا۔ جو چاہا بڑھا دیا۔ چناچہ اب یہ توریت بدل کر مصنوعی ہوگئی ہے۔ انہوں نے اصلی توریت سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا۔ صرف تحریف ہی نہیں بلکہ فتنہ گری اور سازش بھی ان کی فطرت میں داخل ہوگئی ہے۔ جس کا آئے دن پتہ چلتا رہتا ہے۔ ان میں تھوڑے اچھے لوگ ضرور ہیں لیکن اکثر و بیشتر برے لوگ ہیں۔ فرمایا گیا ہے اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کا نوٹس نہ لیجئے۔ ان کی پرواہ نہ کیجئے جو ذلیل حرکتیں یہ کرتے رہتے ہیں۔ اس کا علم اللہ کو ہے اور وہی ان کے درمیان فیصلہ فرما دے گا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ خٰر میں صرف کرنے کو مجازا قرض اس لیے فرمایا کہ جس طرح قرض لازم الادا ہوتا ہے اسی طرح اللہ اس کا بدلہ ضرور دیں گے۔ 2۔ یہاں اس شخص کا حال بیان نہیں فرمایا جو کفر نہ کرے لیکن اعمال کی پوری پابندی بھی نہ کرے اور اکثر جگہ قرآن میں یہی عادت ہے کہ اطاعت میں جو کامل ہوا وہ مخالفت میں جو کامل ہو زیادہ ذکر انہیں کا ہوتا ہے وجہ یہ ہے کہ طرفین کے حلال سے بین بین کا حال عقلاء کو خود مقائسہ سے معلوم ہوجاتا ہے نہ ان کی ایسی جزاء ہوگی نہ ایسی سزا ہوگی پھر حدیثوں میں تفصیل معلوم ہوگئی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : دین کے بنیادی اصول ہمیشہ سے ایک رہے ہیں۔ انہی کا بنی اسرائیل سے عہد لیا گیا تھا۔ جس کے بڑے بڑے اصول یہ ہیں، جن کی پاسداری کا اسلام نے حکم دیا ہے۔ لہٰذا یہود و نصاریٰ کو انہی پر ایمان لانا چاہیے۔ قرآن مجید نے مختلف مقامات پر بنی اسرائیل سے لیے گئے عہد کی اٹھارہ باتوں کا ذکر کیا ہے۔ ان پر عمل درآمد کروانے کے لیے کوہ طور کو ان کے سروں پر منڈلایا گیا اور ان کے قبائل کو مد نظر رکھتے ہوئے ان میں بارہ ١٢ نقیب مقرر کیے۔ نقیب کا معنیٰ ہے کڑی نگرانی اور دوسرے کے معاملات کو کنٹرول کرنے والا۔ ان نقباء کی تعیناتی کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب فرمایا ہے۔ کیونکہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان کو تعینات فرمایا تھا۔ جن باتوں کا بنی اسرائیل سے بار بارعہد لیا گیا ان کا خلاصہ اس آیت میں بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اے بنی اسرائیل اگر ان باتوں پر سختی سے عمل پیرا ہوجاؤ تو نہ صرف اللہ کی دستگیری اور معیت تمہیں حاصل ہوگی۔ بلکہ گناہوں کی معافی اور تمہارا جنت میں داخلہ یقینی ہوگا۔ جس نے اس عہد کی خلاف ورزی کی وہ ہماری دستگیری سے محروم اور صراط مستقیم سے گمراہ تصور ہوگا۔ ” سواء السبیل “ سے مراد شریعت کا متوازن اور معتدل راستہ ہے جو ہر قسم کی افراط وتفریط سے پاک ہے۔ عہد کی بنیادی شرائط اور اہمیت : ١۔ نماز قائم کرنا : ہر دین میں نماز اللہ تعالیٰ کی نہایت ہی پسندیدہ عبادت رہی ہے۔ جو فکر وعمل کی پاکیزگی کا ذریعہ اور اللہ تعالیٰ سے تعلق اور اس کے حقوق کی ترجمان ہے۔ ٢۔ زکوٰۃ : یہ غرباء سے عملی ہمدردی کا مظہر، بخل کا علاج اور تزکیۂ مال کے ساتھ غریبوں کے حقوق کی محافظ ہے۔ ٣۔ انبیاء پر ایمان لانا اور ان کی تکریم و معاونت کرنا کیونکہ انبیاء ہی اللہ تعالیٰ کے ترجمان اور اس کی مرضی کے مطابق عمل کرکے دکھلانے والے ہیں۔ لہٰذا ان کی تکریم اور تابعداری فرض ہے۔ ایمان لانے اور تکریم کرنے میں بدرجۂ اولیٰ نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شامل ہیں۔ کیونکہ ہر نبی اور رسول آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد کا اعلان کرتا رہا۔ اور سب انبیاء سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تائید کرنے کا عہد لیا گیا ہے۔ صدقہ سے مراد عام صدقہ بھی ہے اور زکوٰۃ بھی : صدقہ کرنے کی یہ کہہ کر تلقین فرمائی کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا درحقیقت اللہ تعالیٰ کو قرض دینے کے مترادف ہے قرض کا لفظ اس لیے استعمال فرمایا تاکہ دینے والے کے دل میں حوصلہ اور امید پیدا ہو کہ مجھے اس سے زیادہ ملنے والا ہے۔ عہد کی پاسداری کا صلہ : اے بنی اسرائیل اللہ تعالیٰ سے عہد کی پاسداری کرتے رہو اس سے تمہیں اللہ تعالیٰ کی دستگیری اور تائید حاصل ہوگی تمہاری بشری کوتاہیوں کو معاف کرکے تمہیں جنت میں داخل کردیا جائے گا۔ بنی اسرائیل سے لیے گئے عہد کی شرائط : ١۔ لاَ تَعْبُدُوْنَ إِلاَّ اللّٰہَ ۔ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا۔ ٢۔ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِ حْسَاناً ۔ والدین کے ساتھ احسان کرنا۔ ٣۔ وَذِي الْقُرْبٰی۔ قریبی رشتہ داروں کے ساتھ ٤۔ وَالْیَتَامٰی۔ یتیموں کے ساتھ ٥۔ وَالْمَسَاکِیْنِ ۔ اور غریبوں کے ساتھ احسان کرنا۔ ٦۔ وَقُوْلُوْا للنَّاسِ حُسْنًا۔ لوگوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا۔ ٧۔ وَأَقِیْمُوا الصَّلاَۃَ ۔ نماز قائم کرنا۔ ٨۔ وَآتُوا الزَّکٰوۃَ ۔ زکوٰۃ ادا کرنا۔ (البقرۃ : ٨٣) ٩۔ لاَ تَسْفِکُوْنَ دِمَاءَ کُمْ ۔ آپس میں خون نہ بہانا۔ ١٠۔ وَلاَ تُخْرِجُوْنَ أَنْفُسَکُم مِنْ دِیَارِکُم۔ کمزوروں کو ان کے گھروں سے نہ نکالنا۔ (البقرۃ : ٨٤) ١١۔ خُذُوْا مَا آتَیْنَاکُم بِقُوَّۃٍ ۔ اللہ کے احکام کو پوری قوت کے ساتھ پکڑے رکھنا۔ ١٢۔ وَاسْمَعُوْا۔ اللہ کے احکام سننا۔ (البقرۃ : ٩٣) ١٣۔ لَتُبَیِّنُنَّہٗ للنَّاس۔ انھیں لوگوں کے سامنے بیان کرنا۔ ١٤۔ وَلاَ تَکْتُمُوْنَہٗ ۔ انھیں ہرگز نہ چھپانا۔ (اٰل عمران : ١٨٧) ١٥۔ آمَنْتُمْ بِرُسُلِيْ ۔ اللہ کے انبیاء پر ایمان لانا۔ ١٦۔ وَعَزَّرْتُمُوْھُمْ ۔ ان کی تعظیم کرنا۔ ١٧۔ وَأَقْرَضْتُمُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا۔ اللہ کو قرض دینا یعنی صدقہ کرنا۔ (المائدۃ : ١٢) مسائل ١۔ بنی اسرائیل کے بارہ قبائل اور بارہ سردار تھے۔ ٢۔ نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے والوں کا اللہ مددگار ہوتا ہے۔ ٣۔ نیکی کے کام کرنے سے برائیاں مٹ جاتی ہیں۔ ٤۔ اللہ کے عہد کی پاسداری نہ کرنے والے گمراہ ہوجاتے ہیں۔ ٥۔ نیکی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ جنت عطا فرمائیں گے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ١٢ تا ١٤ ۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے ساتھ جو معاہدہ کیا تھا وہ دو فریقوں کے درمیان معاہدہ تھا ۔ اس معاہدے کی عبارت شرط اور جزائے شرط کے انداز میں تھی ۔ قرآن کریم نے اس معاہدے کی شرط اور اجزاء کو بعینہ نقل کیا ہے ۔ یہ اصل عبارت عہد کے حالات اور واقعہ عقد کے ذکر کے بعد دی گئی ہے ۔ یہ عہد اللہ تعالیٰ اور بنی اسرائیل کے ١٢ نمائندوں کے درمیان ہوا تھا ۔ یہ نمائندے بنی اسرائیل کے ١٢ قبائل کے نمائندے تھے ۔ یہ ١٢ قبائل حضرت یعقوب (علیہ السلام) (جن کا نام اسرائیل تھا) کے پوتے اور ان کی اولاد تھے ۔ ان نمائندوں کی تعداد ١٢ تھی اور اس معاہدے کی عبارت یہ تھی : (آیت) ” ً وَقَالَ اللّہُ إِنِّیْ مَعَکُمْ لَئِنْ أَقَمْتُمُ الصَّلاَۃَ وَآتَیْْتُمُ الزَّکَاۃَ وَآمَنتُم بِرُسُلِیْ وَعَزَّرْتُمُوہُمْ وَأَقْرَضْتُمُ اللّہَ قَرْضاً حَسَناً لَّأُکَفِّرَنَّ عَنکُمْ سَیِّئَاتِکُمْ وَلأُدْخِلَنَّکُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہَا الأَنْہَارُ فَمَن کَفَرَ بَعْدَ ذَلِکَ مِنکُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاء السَّبِیْلِ (12) ” اور ان سے کہا تھا کہ ” میں تمہارے ساتھ ہوں ، اگر تم نے نماز قائم رکھی اور زکوۃ دی اور میرے رسولوں کو مانا اور ان کی مدد کی اور اپنے خدا کو اچھا قرض دیتے رہے تو یقین رکھو کہ میں تمہاری برائیاں تم سے زائل کر دوں گا اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی مگر اس کے بعد جس نے تم میں سے کفر کی روش اختیار کی تو درحقیقت اس نے سواء السبیل گم کردی ۔ “ (انی معکم) میں تمہارے ساتھ ہوں ‘ کس قدر عظیم عہد ہے ۔ جس کی حمایت میں اللہ ہو ‘ اس کے خلاف کون ہو سکتا ۔ اور جو چیز بھی اس کے خلاف ہو ‘ نہ اس کی کوئی حقیقت ہوگی ‘ نہ اثر ہوگا اور جس کے ساتھ اللہ ہو اگا تو وہ ہر گز راستہ نہ بھولے گا ‘ اس لئے کہ اللہ جس کا ساتھی ہو وہ ہدایت پر ہی ہوگا ۔ پھر اللہ اس کے لئے کافی بھی ہوگا ۔ جس کے ساتھ اللہ ہو تو نہ ہو پریشان ہوگا اور نہ نامراد ہوگا کیونکہ اللہ کے ساتھ اس کی نزدیکی اور قرب اسے مطمئن کردیتا ہے اور اسے کامیاب کردیتا ہے ۔ غرض جو اللہ کا ساتھی ہو اور جس کا ساتھی اللہ ہوا تو اس کا ضامن اللہ ہوتا ہے ۔ وہ مراد کو پہنچ جاتا ہے ۔ اس مقام بلند پر اسے مزید کسی چیز کی ضرورت یا طلب نہیں رہتی ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی رفاقت کا یہ اعلان محض گپ اور مزاح میں نہیں کیا یا ان کے ساتھ کسی خاص دوستی کی وجہ سے نہیں کیا اور نہ یہ ان کی کوئی ذاتی بزرگی کا استحقاق ہے کہ جس کے نہ کوئی اسباب ہیں اور نہ اس کے لئے کچھ شرائط وقیود ہیں ۔ بلکہ یہ رفاقت ایک باقاعدہ معاہدے کے تحت طے پائی ہے ۔ یہ شرط وجزاء پر مبنی ہے ۔ وہ شرط یہ ہے کہ وہ نماز قائم کریں گے ۔ صرف نماز کی ادائیگی کافی نہیں ہے بلکہ اس کا قیام اس طرح ضروری ہے کہ اس کے پورے اصول اس کے اندر قائم ہوجائیں اور وہ اللہ اور اس کے بندے کے درمیان پورا رابطہ ہو ۔ نماز ان کے لئے ایک تہذیبی ‘ تربیتی عنصر ہو ‘ اللہ تعالیٰ کے سیدھے نظام تربیت اور نظام حیات کے مطابق ۔ اس طرح کہ یہ نماز نہیں تمام فحاشیوں سے روکتی ہو ‘ تمام برائیوں سے منع کرتی ہو اور نماز کو اس بات سے حیا آتی ہو کہ ہو فحاشی اور ناپسندیدہ افعال کے ذخیرے کے ساتھ اللہ کے دربار میں حاضر رہے ‘ منکرات لئے ہوئے ۔ اللہ نے انہیں جو رزق اور دولت دی ہے اس کا حق نعمت ادا کرتے ہوئے وہ زکوۃ کی ادائیگی باقاعدگی کے ساتھ کرتا ہو اور یہ خیال کرتا ہو کہ اصل مالک اللہ ہے اور وہ اس مال کے تصرف میں اللہ کی پیروی کر رہا ہے ۔ اس لئے کہ اللہ اصل مالک ہے اور اللہ کی مال میں لوگ بطوروکلاء اور ایجنٹ تصرفات کرتے ہیں ۔ پھر زکوۃ کی ادائیگی اس لئے بھی ضروری ہے تاکہ اسلامی معاشرے کی اجتماعی ضروریات کو اس کے ذریعے پورا کیا جاسکے ۔ نیز اسلامی نظام معیشت کے اس زریں اصول کو بروئے کار لایا جاسکے کہ دولت صرف مالداروں ہی کے درمیاں گردش نہ کرتی رہے بلکہ معاشی زندگی کو اجتماعی کفالتی نظام کے اصول پر قائم کیا جائے ۔ نیز دولت کا ارتکاز چند ہاتھوں میں نہ ہو ‘ جس کی وجہ سے عام معاشرے میں کساد بازاری پیدا ہوتی ہے اور لوگوں کی قوت خرید ختم ہوجاتی ہے ۔ اور جس کا آخری نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ معاشرے میں کساد بازاری پیدا ہوتی ہے اور لوگوں کی قوت خرید ختم ہوجاتی ہے ۔ اور جس کا آخری نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ معاشرے کے اندر پیداواری عمل معطل ہوجاتا ہے یا کم از کم بہت ہی سست پڑجاتا ہے ۔ اس کا واضح نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک قلیل تعداد عیاشی کرتی ہے اور عوام کی کثیر تعداد مفلوک الحال رہتی ہے اور غربت کی زندگی بسر کرتی ہے ‘ جس کے نتیجے میں معاشرتی بگاڑ اور فساد پیدا ہوتا ہے اور یہ بگاڑ مختلف رنگوں میں ظاہر ہوتا ہے ۔ یہ تمام فساد ادائیگی زکوۃ سے رکتا ہے اور اس فساد کو دفع کرنے میں اسلامی نظام کا تقسیم دولت کا نظام بہت بڑا کام کرتا ہے اور اسلام اپنا اقتصادی کردار ادا کرتا ہے ۔ اللہ کے رسولوں پر ایمان ‘ تمام رسولوں پر بغیر کی تفرقہ اور جدائی کے کہ یہ سب اللہ کی طرف سے آئے ہیں اور سب کے سب اللہ کی دین لے کر آئے اور ان میں سے کسی بھی ایک کا انکار مستلزم کفر ہے ۔ کیونکہ یہ اس ذات کا انکا رہے جس نے ان سب کو بھیجا ہے ۔ یہ عہد صرف ایمان اور مجرد عقیدہ ہی نہ ہو بلکہ ایک مثبت اقرار ہو اور اس کے ساتھ عملا رسولوں کی نصرت ہو ۔ ان فرائض میں ان کے ساتھ مدد اور تعاون بھی ہو جو فرائض ان پر اللہ نے عائد کئے ہیں اور جن کو بروئے کار لانے کے لئے ان رسولوں نے اپنی زندگیوں کو وقف کردیا ہے ۔ اللہ کے دین پر ایمان لازمی تقاضا یہ ہے کہ جو لوگ دین کو قائم کرنا چاہتے ہیں ہر مومن اٹھے اور انکی بھرپور امداد کرے ۔ اس دین کو اس کرہ ارض کی کسی سرزمین پر قائم کر دے اور یہ دین لوگوں کی زندگیوں میں ایک حقیقت بن کر اٹھے ۔ اس لئے کہ اللہ کا دین محض اعتقادی تصورات کا نام نہیں ہے ‘ نہ یہ دین صرف مراسم عبادت کا نام ہے بلکہ یہ زندگی کا ایک واقعی اور عملی نظام ہے یہ ایک متعین نظام ہے جو زندگی کے تمام امور میں تصرف اور عمل کرتا ہے ۔ اور جو نظام بھی ہو اور جو منہاج بھی ہو وہ نصرت اور امداد اور تعاون کا محتاج ہوتا ہے ۔ اسے قوت کی فراہمی ضروری ہوتی ہے ۔ اس کے لئے جدوجہد کرنی پڑتی ہے تاکہ وہ قائم ہو ‘ اس کی حمایت ہو اور اسے بچایا جائے ۔ اگر ایسی صورت حال نہ ہو تو مومن نے ‘ یہ سمجھا جائے گا ‘ کہ اپنے کیے ہوئے عہد کا ایفا نہیں کیا ہے ۔ زکوۃ کے بعد اب عام انفاق فی سبیل اللہ کا ذکر ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس نے یہ عام انفاق فرض کیا ہے لیکن یہ قرض ہے ۔ حالانکہ اللہ خود تمام دولت کا مالک ہے اور وہی داتا ہے ۔ لیکن یہ اس کا فضل وکرم ہے کہ وہ اپنی دی ہوئی چیز کو اپنے لئے بطور قرض مانگتا ہے ۔ یہ تمام امور تو شرط تھے ۔ اب اس شرط کی جزاء کیا ہے ؟ پہلی جزاء یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے گناہوں کو معاف کر دے ۔ انسان سے خطا کا صدور خواہ مخواہ ہوتا ہے اور وہ برائی پر مائل ہوتا ہے ۔ اگرچہ وہ بہت ہی نیکوکار ہو ۔ اس کی خطاؤں کو معاف کرنا بھی اس کے لئے ایک بہت ہی بڑا انعام ہے ۔ اور اللہ کی وسیع رحمت کی وجہ سے اس کے ضعف ‘ اس کی کمزوری اور اس کے عجز و قصور کا تدارک ہوتا ہے ۔ پھر اس کی جزاء میں ایسے باغات آتے ہیں جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں اور یہ اللہ کا خالص فضل وکرم ہے ۔ کوئی انسان اللہ کے اس درجہ فضل وکرم تک محض اپنے عمل کے بل بوتے پر نہیں پہنچ سکتا ۔ یہ محض اللہ کا فضل ہے جو کسی انسان کو اس مقام تک پہنچا سکتا ہے اور یہ مقام اس وقت حاصل ہوتا ہے جب انسان اس کے لئے جدوجہد کرتا ہے ۔ جہاں تک اس کا بس چلے اور جس قدر اس کی وسعت میں ہو۔ اور عہد ومیثاق میں ایک جزئی شرط یہ بھی تھی ۔ (آیت) ” فمن کفر بعد ذلک منکم فقد ضل سوآء السبیل “۔ (٥ : ١٢) ” مگر اس کے بعد تم میں سے جس نے کفر کی روش اختیار کی تو درحقیقت اس نے سواء السبیل گم کردی ۔ “ اس لئے اب اس کے لئے کوئی ہدایت نہ ہوگی اور نہ وہ گمراہی سے واپس ہوگا ۔ جب اس کے لئے ہدایت واضح ہو اور اس کے ساتھ معاہدہ ہوجائے اور راستہ واضح ہوجائے اور اس پر چلنے کی جزاء بھی متعین ہوجائے تو اب اس کی خلافت ورزی لازما گمراہی ہے ۔ یہ تھا اللہ تعالیٰ کا معاہدہ بنی اسرائیل کے نمائندوں کے ساتھ اور یہ پوری قوم بنی اسرائیل کے نمائندے تھے ۔ وہ سب ان کی نمائندگی پر راضی تھے ۔ اس طرح یہ میثاق گویا بنی اسرائیل کے ہر فرد کے ساتھ ہوگیا ۔ اس جماعت اور امت کے ساتھ بھی ہوگیا جو بنی اسرائیل پر مشتمل تھی لیکن ملاحظہ فرمائیں کہ بنی اسرائیل نے اس عہد کے ساتھ کیا کیا ۔ انہوں نے اپنے اللہ کے ساتھ کئے ہوئے اس عہد کو کھلے بندوں توڑ دیا ۔ انہوں نے اپنے نبیوں کو ناجائز طور پر قتل کیا ۔ انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل اور سزائے موت دلوانے کی سازش کی حالانکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ان کے انبیاء میں سے آخری نبی تھے ۔ انہوں نے اپنی کتاب توراۃ میں تحریف کی ۔ انہوں نے اپنی شریعتوں کو بھلا دیا اور کسی بھی شریعت کو نافذ نہ کیا ۔ انہوں نے نبی آخر الزماں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بابت نہایت ہی مکارانہ ‘ معاندانہ اور غیر شریفانہ موقف اختیار کیا ۔ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ خیانت کی اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کئے ہوئے معاہدوں کی خلاف ورزی کی اس لئے وہہ اللہ کی ہدایت سے نکل گئے ، ان کے دل سخت ہوگئے اور وہ اس قابل ہی نہ رہے کہ وہ ہدایت قبول کرسکیں ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ کا بنی اسرائیل سے عہد لینا پھر ان کا عہد توڑ دینا اس سے پہلے مسلمانوں کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا کہ جو اللہ سے عہد کیا ہے اور (سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا) کہہ کر جو فرمانبرداری کرنے کی ذمہ داری لے لی ہے اس کو پورا کرو۔ ان آیات میں بنی اسرائیل سے جو عہد لیا تھا اس عہد کو پورا کرنے پر جس انعام کا وعدہ فرمایا تھا اس کا ذکر پھر اس عہد شکنی پر جو انہیں سزا ملی اس کا تذکرہ فرمایا۔ اس میں مسلمانوں کو تنبیہ ہے کہ عہد پورا نہ کرنے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے گرفت ہوجاتی ہے ایسا نہ کرو کہ عہد شکنی کر کے اپنے اوپر وبال آنے کا ذریعہ بن جاؤ۔ اول یہ ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا تھا (جوان کے نبی سیدنا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ذریعہ سے لیا گیا تھا) پھر فرمایا کہ ہم نے ان میں سے بارہ سردار مقرر کر دئیے (بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے تھے ہر ہر قبیلہ کا ایک سردار مقرر فرما دیا جو ان کو اللہ کے عہد یاد دلاتا رہے اور عہد پر چلنے کی تلقین کرتا رہے) اللہ تعالیٰ شانہ، نے یہ بھی فرمایا کہ بلاشبہ میں تمہارے ساتھ ہوں مجھے تمہارے ہر عمل کی خبر ہے نیکی اور گناہ ہر چیز کا علم ہے۔ بنی اسرائیل سے جو عہد لیا تھا اسے (لَءِنْ اَقَمْتُمُ الصَّلٰوۃَ ) سے (قَرْضًا حَسَنًا) تک بیان فرمایا پھر لَاُ کَفِّرَنَّ عَنْکُمْ سے (تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ ) تک عہد پورا کرنے کا اجر بتایا۔ مطلب یہ ہے کہ اگر تم نماز قائم کرتے رہے اور زکوٰتیں دیتے رہے اور میرے رسولوں پر ایمان لائے اور رسولوں کی مدد کرتے رہے اور اللہ کو قرض اچھا دیتے رہے تو تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کردوں گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ معلوم ہوا کہ نماز اور زکوٰۃ کا حکم پہلی امتوں کو بھی تھا، رسولوں پر ایمان لانے اور ان کی مدد کرنے کا عہد اس لئے لیا کہ بنی اسرائیل میں بہت سے نبی ہوئے ایک نبی چلا جاتا تو دوسرا آجاتا۔ جیسا کہ عنقریب ہی آیت کریمہ (اِذْ جَعَلَ فِیْکُمْ اَنْبِیَآءَ وَ جَعَلَکُمْ مُّلُوْکًا) میں اس کا بیان آرہا ہے انشاء اللہ العزیز ! جب کوئی نبی آجاتا تو اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا ان پر فرض ہوجاتا تھا حتیٰ کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ نے رسول بنا کر بھیجا اور ان کے بعد خاتم الانبیاء سید المرسلین حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت ہوئی لیکن بنی اسرائیل عموماً ان دونوں رسولوں کی رسالت کے منکر ہوگئے۔ یہ جو فرمایا (وَ اَقْرَضْتُمُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا) اس کا مطلب یہ ہے کہ زکوٰۃ کے علاوہ دوسرے مصارف خیر میں بھی خرچ کرتے رہو۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو قرض حسن سے تعبیر فرمایا قرض اس لئے فرمایا کہ اس کا بدلہ ادھار ہے جو آخرت میں ملے گا اور حسن اس لئے فرمایا کہ وہ بدلہ بہت بڑا ہے ذرا سا خرچ کرنے پر آخرت میں بڑے بڑے اجور ملیں گے۔ سورۂ حدید میں فرمایا (مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَہٗ لہٗ وَ لَہٗٓ اَجْرٌ کَرِیْمٌ) (کون ہے جو قرض دے اللہ کو اچھا قرض سو اللہ بڑھا دے اس سے چند در چند اور اس کے لئے اجر ہے بہت عمدہ) یہ اللہ پاک کا کتنا بڑا احسان ہے کہ مال اسی کا دیا ہوا ہے جب کوئی اسے خرچ کرتا ہے (اور خرچ بھی اپنوں پر یا اپنے ہم جنس دوسرے افراد پر) تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنے ذمہ قرض شمار فرما لیتا ہے جس نے دیا اسے تو پورا اختیار ہے ساے مال کو خرچ کرنے کا حکم فرما دے اور ذرا سا بھی اجر نہ دے لیکن یہ محض اس کا کرم ہے کہ جو کچھ اس کی رضا کے لئے خرچ کیا جائے اسے اپنے ذمہ قرض شمار فرمالیا اور اس کا اجر خوب بڑھا چڑھا کردینے کا وعدہ فرمایا۔ پھر فرمایا (فَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ مِنْکُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآء السَّبِیْلِ ) (کہ اس کے بعد جو شخص تم میں سے کفر اختیار کرے سو وہ سیدھے راستہ سے بھٹک گیا) عہد لیتے وقت یہ تنبیہ فرما دی تھی لیکن انہوں نے عہد کو توڑ دیا جس کا ذکر آئندہ آیت میں ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

32 ابتدائے سورت میں ایفائے عقود اور اسلام کے حدود و احکام کی پابندی کا حکم دیا اس کے بعد تحلیل و تحریم کی کچھ حدود بیان فرمائیں اور آخر میں ماننے والوں اور مذکورہ عہود پورا کرنے والوں کو اخروی بشارت اور نہ ماننے والوں اور نقص عہد کرنے والوں کو اخروی عذاب کی وعید سنائی۔ اب یہاں سے نقض عہد (عہد توڑنے) کی سزا کے دو نمونے بیان فرمائے تاکہ مسلمان ان سے عبرت حاصل کریں اور نقض عہد سے بچیں پہلے بنی اسرائیل (یہود) سے عہد لینے کا ذکر فرمایا۔ میثاق سے یہاں اللہ کی توحید کو قائم کرنے، شرک سے بچنے اور اس کے رسولوں پر ایمان لانے اور اس کے احکام کی پیروی کرنے کا عہد مراد ہے اس کی طرف لَئِنْ اَقَمْتُمُ الصَّلٰوۃ الخ میں اشارہ ہے۔ ومعنی الایۃ ان اللہ اخذ میثاقہم ان یعبدوہ ولا یشرکوا بہ شیئا وان یعملوا بما فی التوراۃ من الاحکام والتکالیف (خازن ج 2 ص 21) ۔ وَ بَعَثْنَا مِنْھُمْ الخ نقیب کے معنی قوم کے سردار اور قوم کی طرف سے ذمہ داری اٹھانے والے کے ہیں۔ النقیب کبیر القوم (قرطبی ج 6 ص 112) قال ابن عباس النقیب الضمین (خازن) ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ وہ بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں میں سے ہر قبیلے کا ایک سردار منتخب کریں اور ہر سردار کے ذریعے اس کے قبیلے سے مذکورہ بالا عہد و پیمان کی پابندی کرائیں۔ امر جل شانہ موسیٰ (علیہ السلام) ان یاخذ من کل سبط کفیلا علیھم بالوفاء فیما امروا بہ فاخذ علیھم المیثاق الخ (روح ج 6 ص 85) ۔ 33 معیت سے یہاں مراد معیت معنوی ہے۔ اس میں خطاب نقباء سے ہے یا تمام بنی اسرائیل سے یعنی میں تمہارے ساتھ ہوں تمہارے افعال کو دیکھتا اور تمہارے اقوال کو سنتا ہوں اگر عہد پورا کرو گے تو میری حمایت اور تائید و نصرت تمہارے ساتھ ہوگی اور اگر نقض عہد کرو گے تو میں سزا دینے پر بھی قادر ہوں۔ والمعنی انی معکم بالعلم والقدرۃ فاسمع کلامکم واری افعالکم واعلم ضمایرکم واقدر علی ایصال الجزاء الیکم (کبیر ج 3 ص 564) ۔34 یہ جملہ شرطیہ ہے جو میثاق مذکور سے متعلق پانچ امور پر مشتمل ہے۔ 1 ۔ اگر تم نماز قائم کرو گے۔ 2 ۔ وَ اٰتَیْتُمُ الزَّکٰوۃَ اور صدقاتِ واجبہ ادا کروگے۔ 3 ۔ وَ اٰمَنْتُمْ بِرُسُلِیْ اور میرے تمام رسولوں پر ایمان لاؤ گے۔ 4 ۔ وَ عَزَّرْتُمُوْھُمْ اور دشمنوں کے مقابلے میں ان کی مدد کروگے اور ان کا ساتھ دو گے۔ 5 ۔ وَ اَقْرَضْتُمُ اللہَ اور نفلی صدقات سے قوم کے غرباء کی امداد کرتے رہو گے۔ لَاُکَفِّرَنَّ عَنْکُمْ سَیِّئَاتِکُمْ ۔ یہ شرط مذکور کی جزا ہے یعنی اگر تم مذکورہ احکام بجا لاؤ گے تو ہم اس کی جزا یہ دینگے کہ تمہارے گناہ معاف کردینگے اور تمہیں جنت میں داخل کرینگے۔ 35 جس نے اس مؤکد عہد اور پختہ میثاق کے بعد اس کی کسی ایک شق کو توڑ دیا تو وہ بلاشبہ سیدھی راہ سے بھٹک گیا اور کھلی گمراہی میں جا پڑا اور اس کی کوئی معذرت قبول نہ ہوگی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے بھی عہد لیا تھا اور ہم نے ان میں سے ان کے قائل کی تعداد کے موافق بارہ سردار یعنی بارہ آدمیوں کو ذمہ دار مقرر کیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے تاکید کے طور پر یہ بھی فرما دیا تھا کہ دیکھو میں تمہارے ساتھ ہوں اگر تم نماز کی پابندی رکھو گے اور زکوۃ ادا کرتے رہو گے اور میرے سب رسولوں پر جو آئندہ آتے رہیں گے ایمان لائو گے اور ان سب رسولوں کی مدد کرو گے اور اللہ تعالیٰ کو اچھے طور پر قرض دیتے رہو گے تو میں یقینا تمہاری خطائیں تم سے دور کر دوں گا اور تمہارے گناہ تم سے زائل کر دوں گا اور یقینا تم کو ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے پائیں نہریں بہ رہی ہوں گی پھر جس شخص نے تم میں سے اس عہد و پیمان کے بعد کافر انہ روش اختیار کی تو بلاشبہ وہ سیدھی راہ سے بھٹک گیا اور راہ راست سے دور جا پڑا۔ (تیسیر) پہاڑ میں جو راستہ ہوتا ہے اس کو نقیب کہتے ہیں قوم کا نقیب وہ ہوتا ہے جو قوم کی رہنمائی کرتا ہے اور تمام قومی کا موں میں قوم کا نگراں ہوتا ہے قوم کا بڑا، سردار، چودھری، نگراں ذمہ دار وغیرہ سب کو نقیب کہتے ہیں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لیلتہ عقبہ میں جن لوگوں سے بیعت لی تھی ان کے بھی بارہ نقیب تھے ان بارہ میں سے نو قبیلہ خزرج کے آدمی تھے ان نو کے نام یہ ہیں۔ (1 ) ابو امامہ اسعد بن زرارہ (2) سعد بن ربیع (3) عبد اللہ بن رواحہ (4) رافع بن مالک بن عجلان (5) براء بن معرور (6) عبادہ بن صامت (7) سعد بن عبادہ (8) عبداللہ بن عمرو بن حرام (9) منذرین خیش (رض) اجمعین ان نو کے علاوہ تین کے نام یہ ہیں۔ (1) حضرت اسید بن حضیر (2) سعد بن خثیمہ (3) رفاعہ بن عبدالمنذر یا ابوالہشیم بن تیہان حدیث شریف میں آتا ہے میری امت کے خلفاء کی تعداد بھی مثل بنی اسرائیل کے نقبا کی ہوگی اور یہ سب قریش میں سے ہوں گے اس حدیث کا محدثین نے یہ مطلب بیان کیا کہ بارہ خلیفہ صالح متقی اور عدل قائم کرنے والے ہوں گے مگر یہ ضروری نہیں کہ یہ سب کے سب یکے بعد دیرگے ہوں بلکہ قیامت تک یہ تعداد پوری ہوجائے گی انہی بارہ میں سے ایک امام مہدی بھی ہوں گے جن کی بشارت احادیث میں آتی ہے۔ (واللہ اعلم) بہرحال ! آیت کا مطلب یہ ہے کہ یوں تو بنی اسرائیل سے مختلف مواقع پر مختلف عہد لئے جاتے رہے ہیں۔ مگر یہاں جس کا ذکر ہے اس کے الفاظ یہاں مذکور ہیں اس عہد کی تاکید اور دیکھ بھال کے لئے حضرت موسیٰ نے بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں میں سے ہر قبیلہ کے لئے ایک ایک شخص کو نگراں اور ذمہ دار مقرر کردیا تھا تاکہ بنی اسرائیل اپنے عہد پر قائم رہیں اور اپنے عہد کو پورا کریں اور کسی قسم کی کوتاہی کو راہ نہ دیں اور وہ ان کے لئے ضروری کاموں کی دیکھ بھال رکھیں اور بنی اسرائیل سے یہ بھی فرما دیا تھا کہ میں تمہارے پاس ہی ہوں اس سے بھی تاکید مقصود تھی گویا تاکید در تاکید فرما دی تھی کہ جو عہد کر رہے ہو اس کو پورا کرنا کیونکہ میں ہر وقت تمہارے ساتھ ہوں اور ہوسکتا ہے کہ انی معکم کا خطاب ان بارہ سرداروں کو ہو کہ میں تمہاری اعانت اور تمہاری مدد کے لئے تمہارے ساتھ ہوں اور تمہارے پاس ہوں۔ بنی اسرائیل سے جن امور پر عہد لیا گیا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر تم نماز کے پابند رہو گے اور زکوۃ ادا کرتے رہو گے اور میرے تمام رسولوں پر جو وقتاً فوقتاً آتے رہیں گے جن میں حضرت عیسیٰ اور نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی داخل ہیں ان پر ایمان لائو گے اور ان کی عزت و عظمت کرو گے اور دشمنوں کے مقابلہ میں ان کی مدد کرو گے اور زکوۃ کے علاوہ دوسرے اور مصارف خیر میں بھی خرچ کرو گے اور اللہ تعالیٰ کو قرض حسنہ یعنی اخلاص کے ساتھ قرض دو گے کیونکہ اللہ کی راہ میں دنیا حقیقت میں اللہ تعالیٰ کو قرض دینا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ انبیاء پر ایمان لانے کے ساتھ اپنی جانوں اور اپنے مالوں سے ان کی مدد بھی کرو گے تو ہم تم کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم تمہارے تمام صغیرہ گناہ تم سے دور کردیں گے۔ جیسا کہ عام قاعدہ ہے ان الحسنات یذھبن السیات اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عذاب کو تم سے دور کردیں گے یعنی صغائر اور کبائر کو اپنے فضل سے معاف کردیں گے اور عذاب کو تم سے دور کردیں گے اور اس کا بھی یقین دلاتے ہیں کہ صرف گناہ ہی تم سے زائل نہ ہوں گے بلکہ تم کو ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ البتہ اس عہد و میثاق کے بعد یا اس شرط مذکور کے بعد جو شخص کفر کرے گا تو وہ یقینا سیدھی راہ سے بھٹک جائے گا اور جس نے اس موثق اور مضبوط عہد و پیمان کے بعد کفر کیا تو وہ یقینا سیدھی راہ سے دور جا پڑا۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یہ فرمایا بنیاسرائیل سے عہد لینا حضرت موسیٰ کی آخری عمر میں یہ قرار لئے ہیں یہ سورت حضرت کی آخر عمر میں نازلہوئی شاید ہم کو سنایا اسی واسطے کہ ہم کو بھی یہی تقید ہے ایک عہد اس امت سے تھا کہ رسول جو پیچھے پیدا ہوں ان کی مدد کرو اس کے بدل ہم سے یہ ہے کہ خلفاء کی اطاعت کرو یہ مذکورہ بارہ سرداروں کا یہاں ذکر فرمایا۔ اسی اشارہ کو کہ حضرت نے بتایا ہے میری امت میں بارہ خلیفہ ہوں گے قوم قریش سے اور فرمایا کہ جو خرابی ہوئی پہلی امت میں سو ہوگی تم میں سے جیسے وہ خراب ہوئے پیغمبروں کی مخالفت سے یہ امت ہوئی خلیفہ پر خرچ کر کے ۔ (موضح القرآن) حضرت شاہ صاحب نے کس قدر لطیف پیرایہ اختیار کیا ہے بڑوں کی باتیں بڑی ہی ہوتی ہیں حضرت شاہ صاحب نے جو کچھ فرمایا بالکل سچ فرمایا۔ تعزیر کے معنی بعض نے توقیر اور بعض نے اعانت کئے تھے ہم نے دونوں کو تسہیل میں ظاہر کردیا ہے۔ سواء السبیل سے مراد صراط مستقیم ہے قرض حسنہ سے یہاں مراد جہاں میں خرچ کرنا ہے یا زکوۃ کے علاوہ اور دوسرے صدقات مراد ہیں۔ آیت عہد کی پابندی کرنے والوں کا صلہ اور کفر کرنے والوں کی سزا کا بیان ہے درمیانی درجے کے لوگوں کا ذکر نہیں ہے یعنی ان لوگوں کا ذکر نہیں جو نہ کفر کریں اور نہ پوری طرح پابندی کریں۔ ظاہر ہے کہ ان کا صلہ اور ان کی سزا بھی درمیانی ہوگی نہ کافروں کی سی سزا اور نہ کاملوں کا سا صلہ سیات کے مفسرین نے دو مطلب بیان کئے تھے ہم نے تسہیل میں دونوں کو ظاہر کردیا ہے۔ اب آگے عہد شکنوں کی مختلف سزائوں کا ذکر ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)