Perfect Tense | Imperfect Tense | Imperative | Active Participle | Passive Participle | Noun Form |
سَقَطَ |
يَسْقُطُ |
اُسْقُطْ |
سَاقِط |
مَسْقُوْط |
سَقْط/سُقُوْط |
اَلسُّقُوْطُ: (ن) اس کے اصل معنیٰ کسی چیز کے اوپر سے نیچے جھک جانا کے ہیں۔ قرآن پاک میں ہے: (وَ اِنۡ یَّرَوۡا کِسۡفًا مِّنَ السَّمَآءِ سَاقِطًا ) (۵۲:۴۴) اور اگر یہ آسمان (سے عذاب) کا کوئی ٹکڑا گرتا ہوا دیکھیں۔ (فَاَسۡقِطۡ عَلَیۡنَا کِسَفًا مِّنَ السَّمَآءِ ) (۲۶:۱۸۷) تو ہم پر آسمان سے ایک ٹکڑا لاگراؤ۔ اور اس کے معنیٰ قدروقیمت اور مرتبہ کے لحاظ سے گرجانا بھی آتے ہیں۔ جیسے فرمایا: (اَلَا فِی الۡفِتۡنَۃِ سَقَطُوۡا) (۹:۴۹) دیکھو یہ آفت میں پڑگئے۔ اَلسَّقَطُ وَالسُّقَاطَۃُ: ناکاری اور روی چیز کو کہتے ہیں اور اسی سے رَجُلٌ سَاقِطٌ ہے جس کے معنیٰ کمینے آدمی کے ہیں۔ اَسقَطَہٗ کَذَا: فلاں چیز نے اس کو ساقط کردیا۔ اور اَسْقَطَ الْمَرْئَۃُ: (عورت نے ناتمام حمل گرادیا) میں اوپر سے نیچے گرنا اور ردی ہونا دونوں معنیٰ اکٹھے پائے جاتے ہیں۔ کیونکہ اَسْقَطَتِ الْمَرْأۃُ: اس وقت بولتے ہیں جب عورت ناتمام بچہ گرا دے اور اسی سے ناتمام بچہ کو سَقلطٌ یا سِقْطٌ کہا جاتا ہے۔ پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر چقماق کی ہلکی سی (ناقص) چنگاری کو سِقْطُ الزَّنْدِ کہا جاتا ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ کبھی اس کے ساتھ بچہ کو بھی موسوم کیا جاتا ہے۔ اور آیت کریمہ: (وَ لَمَّا سُقِطَ فِیۡۤ اَیۡدِیۡہِمۡ) (۷:۱۴۹) اور جب وہ نادم ہوئے۔ میں پشیمان ہونا مراد ہے۔ (1) اور آیت: (تُسٰقِطۡ عَلَیۡکِ رُطَبًا جَنِیًّا) (۱۹:۲۵) تم پر تازہ کھجوریں جھڑ پڑیں گی۔ میں ایک قرأت تَسَّاقَطُ بھی ہے اور اس کا فاعل نَخْلَۃُ ہے اور ایک قرأت تَسَاقَطُ ہے جو اصل میں تَتَسَاقَطْ فعل مضارع کا صیغہ ہے اس میں ایک تاء محذوف ہے اس صورت میں یہ باب تفاعل سے ہوگا اور یہ اگرچہ فَاعَلَ کا مطاوع آتا ہے لیکن کبھی متعدی بھی ہوجاتا ہے۔ اور ایک دوسری قرأت میں یقٍَّاقَطْ (صیغہ مذکر) ہے اس صورت میں اس کا فعل جِذْع ہوگا۔ (2)
Surah:6Verse:59 |
گرتا
falls
|
|
Surah:7Verse:149 |
وہ گرائے گئے
(it was made to) fall
|
|
Surah:9Verse:49 |
وہ پڑچکے ہیں
they have fallen
|