Surat Abas
Surah: 80
Verse: 33
سورة عبس
فَاِذَا جَآءَتِ الصَّآخَّۃُ ﴿۫۳۳﴾
But when there comes the Deafening Blast
پس جب کہ کان بہرے کر دینے والی ( قیامت ) آ جائے گی ۔
فَاِذَا جَآءَتِ الصَّآخَّۃُ ﴿۫۳۳﴾
But when there comes the Deafening Blast
پس جب کہ کان بہرے کر دینے والی ( قیامت ) آ جائے گی ۔
The Day of Judgement and the fleeing of the People from Their Relatives during it Allah warns; فَإِذَا جَاءتِ الصَّاخَّةُ Then when there comes As-Sakhkhah. Ibn `Abbas said, "As-Sakhkhah is one of the names of the Day of Judgement that Allah has magnified and warned His servants of." Ibn Jarir said, "Perhaps it is a name for the blowing into Trumpet." Al-Baghawi said, "As-Sakhkhah means the thunderous shout of the Day of Judgement. It has been called this because it will deafen the ears. This means that it pierces the hearing to such an extent that it almost deafens the ears." يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ
ننگے پاؤں ، ننگے بدن ۔ ۔ پسینے کا لباس حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ صاختہ قیامت کا نام ہے اور اس نام کی وجہ یہ ہے کہ اس کے نفخہ کی آواز اور ان کا شور و غل کانوں کے پردے پھاڑ دیگا ۔ اس دن انسان اپنے ان قریبی رشتہ داروں کو دیکھے گا لیکن بھاگتا پھرے گا کوئی کسی کے کام نہ آئیگا ، میاں بیوی کو دیکھ کر کہے گا کہ بتا تیرے ساتھ میں نے دنیا میں کیسا کچھ سلوک کیا وہ کہے گی کہ بیشک آپ نے میرے ساتھ بہت ہی اچھا سلوک کیا بہت پیار محبت سے رکھا یہ کہے گا کہ آج مجھے ضرورت ہے صرف ایک نیکی دے دو تاکہ اس آفت سے چھوٹ جاؤں ، تو وہ جواب دے گی کہ سوال تھوڑی سی چیز کا ہی ہے مگر کیا کروں یہی ضرورت مجھے درپیش ہے اور اسی کا خوف مجھے لگ رہا ہے میں تو نیکی نہیں دے سکتی ، بیٹا باپ سے ملے گا یہی کہے گا اور یہی جواب پائے گا ، صحیح حدیث میں شفاعت کا بیان فرماتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اولولعزم پیغمبروں سے لوگ شفاعت کی طلب کریں گے اور ان میں سے ہر ایک یہی کہے گا کہ نفسی نفسی یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ روح اللہ علیہ صلوات اللہ بھی یہی فرمائیں گے کہ آج میں اللہ کے سوائے اپنی جان کے اور کسی کے لیے کچھ نہ کہوں گا میں تو آج اپنی والدہ حضرت مریم علیہا السلام کیلئے بھی کچھ نہ کہوں گا جن کے بطن سے میں پیدا ہوا ہوں ، الغرض دوست دوست سے رشتہ دار رشتہ دار سے منہ چھپاتا پھرے گا ۔ ہر ایک آپ صلی اللہ علیہ وسلم ادھاپی میں لگا ہو گا ، کسی کو دوسرے کا ہوش نہ ہو گا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں تم ننگے پیروں ننگے بدن اور بےختنہ اللہ کے ہاں جمع کیے جاؤ گے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی صاحبہ نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھر تو ایک دوسروں کی شرمگاہوں پر نظریں پڑیں گی فرمایا اس روز گھبراہٹ کا حیرت انگیز ہنگامہ ہر شخص کو مشغول کیے ہوئے ہو گا ، بھلا کسی کو دوسرے کی طرف دیکھنے کا موقعہ اس دن کہاں؟ ( ابن ابی حاتم ) بعض روایات میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اسی آیت کی تلاوت فرمائی لکل امری الخ دوسری روایت میں ہے کہ یہ بیوی صاحبہ حضرت ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عہما تھیں اور روایت میں ہے کہ ایک دن حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہوں میں ایک بات پوچھتی ہوں ذرا بتا دیجئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میں جانتا ہوں تو ضرور بتاؤں گا پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کا حشر کس طرح ہو گا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ننگے پیروں اور ننگے بدن تھوڑی دیر کے بعد پوچھا کیا عورتیں بھی اسی حالت میں ہوں گی؟ فرمایا ہاں ۔ یہ سن کر ام المومنین افسوس کرنے لگیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عائشہ اس آیت کو سن لو پھر تمہیں اس کا کوئی رنج و غم نہ رہے گا کہ کپڑے پہنے یا نہیں؟ پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہ آیت کونسی ہے فرمایا لکل امری الخ ، ایک روایت میں ہے کہ ام المومنین حضرت سودہ نے پوچھا یہ سن کر کہ لوگ اس طرح ننگے بدن ننگے پاؤں بےختنہ جمع کیے جائیں گے پسینے میں غرض ہوں گے کسی کے منہ تک پسینہ پہنچ جائے گا اور کسی کے کانوں تک تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھ سنائی ، پھر ارشاد ہوتا ہے کہ وہاں لوگوں کے دو گروہ ہوں گے بعض تو وہ ہوں گے جن کے چہرے خوشی سے چمک رہے ہوں گے دل خوشی سے مطمئن ہوں گے منہ خوبصورت اور نورانی ہوں گے یہ تو جتنی جماعت ہے دوسرا گروہ جہنمیوں کا ہو گا ان کے چہرے سیاہ ہوں گے گرد آلود ہوں گے ، حدیث میں ہے کہ ان کا پسینہ مثل لگا کے ہو رہا ہو گا پھر گرد و غبار پڑا ہوا ہو گا جن کے دلوں میں کفر تھا اور اعما میں بدکاری تھی جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَلَا يَلِدُوْٓا اِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًا 27 ) 71-نوح:27 ) یعنی ان کفار کی اولاد بھی بدکار کافر ہی ہو گی ۔ سورہ عبس کی تفسیر ختم ہوئی ، فالحمد اللہ !
33۔ 1 یعنی قیامت وہ ایک نہایت سخت چیخ کے ساتھ واقع ہوگی جو کانوں کو بہرہ کر دے گی۔
[١٩] الصَّاخَّۃُ ، صخّ ایسی آواز کو کہتے ہیں جو کانوں کو بہرہ کردے۔ ایسی سخت اور کرخت آواز جس سے کانوں کے پردے پھٹ جائیں اور الصاخہ سے مراد قیامت ہے اور یہ کیفیت پہلے نفخہ صور کے وقت ہوگی۔
فاذا جآء ت الضاحۃ : ” الضآختہ “ یعنی کانوں کو بہرا کردینے والی نفخ صور کی ہولناک آواز جس سے قیامت قائم ہوجائے گی۔
فَإِذَا جَاءَتِ الصَّاخَّةُ ( So when there will come the Deafening Noise..80:33). The word sakhkhah means &deafening cry or shout& and it refers to the blowing of the trumpet, which will be a deafening sound.
فَاِذَا جَاۗءَتِ الصَّاۗخَّةُ ، صاخہ ایسے شور اور شخت آواز کو کہتے ہیں جس سے انسان کے کان بہرے ہوجائیں مراد اس سے شور قیامت یعنی نفخ صور ہے۔
فَاِذَا جَاۗءَتِ الصَّاۗخَّۃُ ٣٣ ۡ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی) (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ) (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔ مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔ (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی) جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ صخ الصَّاخَّةُ : شدّة صوت ذي النّطق، يقال : صَخَّ يَصِخُّ صَخّاً فهو صَاخٌّ. قال تعالی: فَإِذا جاءَتِ الصَّاخَّةُ [ عبس/ 33] ، وهي عبارة عن القیامة حسب المشار إليه بقوله : يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ الأنعام/ 73] ، وقد قلب عنه : أَصَاخَ يُصِيخُ. ( ص خ خ ) الصاخۃ یہ صخ یصخ فھو صاخ سے اسم ہے جس کے معنی کسی ذی نطق کی آواز کی سختی اور کرخت پن کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : فَإِذا جاءَتِ الصَّاخَّةُ [ عبس/ 33] تو جب ( قیامت کا غل مچے گا ) ۔ میں صاخۃ سے مراد قیامت ہے جس کی طرف کہ آیت کریمہ : يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ الأنعام/ 73] میں اشارہ پایا جاتا ہے اور اسی سے اصاخ یصیخ مقلوب ہے جس کے معنی آواز کی سختی سے کسی کو بہرہ کردینا کے ہیں ۔
(٣٣۔ ٣٦) پھر جس وقت قیامت قائم ہوگی اور اس کا شور برپا ہوگا جس کا ہر ایک چیز جواب دے گی اور جان لیں گے کہ یقینا قیام قائم ہورہی ہے، اب وہ کب قائم ہوگی تو جس دن مومن اپنے کافر بھائی سے اور اپنی ماں سے اور اپنے باپ سے اور اپنی بیوی سے اور اپنی اولاد سے بھاگے گا۔ یا یہ کہ ہابیل قابیل سے اور محمد حضرت آمنہ سے اور ابراہیم اپنے باپ سے اور لوط اپنی بیوی سے اور نوح اپنے بیٹے کنعان سے بھاگیں گے۔
آیت ٣٣{ فَاِذَا جَآئَ تِ الصَّآخَّۃُ ۔ } ” تو جب وہ آجائے گی کان پھوڑنے والی (آواز) ۔ “ یعنی جب قیامت برپا کرنے کے لیے صور میں پھونکا جائے گا تو اس کی آواز سے کان پھٹ جائیں گے۔ اس آیت کی مشابہت سورة النازعات کی اس آیت سے ہے : { فَاِذَا جَآئَ تِ الطَّآمَّۃُ الْکُبْرٰی ۔ } ” پھر جب وہ آجائے گا بڑا ہنگامہ۔ “
21 The final terrible sounding of the Trumpet at which all dead men shall be ressurected to life.
سورة عَبَس حاشیہ نمبر :21 مراد ہے آخری نفخ صور کی قیامت خیز آواز جس کے بلند ہوتے ہی تمام مرے ہوئے انسان جی اٹھیں گے ۔
(80:33) فاذا جاءت الصاخۃ : ف ترتیب کا۔ مابعد کی ماقبل پر ترتیب کی دلالت کرتا ہے اذا ظرف زمان ہے زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے گو کبھی زمانہ ماضی کے لئے بھی آتا ہے۔ جیسے واذا رأوا تجارۃ او لھوا ن انفضوا الیہا (62:11) اور جب انہوں نے سودا بکتا دیکھا یا تماشہ ہوتا دیکھا تو جھٹک کر اسی طرف چل دئیے۔ اذا اکثر و بیشتر شرط ہی ہوتا ہے۔ مفاجات کے لئے بھی آتا ہے۔ آیت ہذا میں بطور ظرف زمان آیا ہے بمعنی جب (شرطیہ) الصاخۃ : (ص خ خ مادہ) یہ صخ یصخ صخا فھو صاخ سے ہے جس کے معنی کسی ذی نطق کی آواز کی سختی اور کرخت پن کے ہیں۔ پھر جب قیامت کا غل مچے گا۔ غل۔ کان پھوڑ دینے والی چیخ۔ ابو اسحاق نے کہا ہے کہ :۔ صاخہ وہ شور ہے جس میں قیامت برپا ہوگی اور جو کانوں کو پھوڑ ڈالے گا اور بہرا کر دے گا کہ بجز اس آواز کے جو زندہ ہونے کے لئے دی جائے گی اور کوئی چیز سنائی نہ دے گی۔ (تاج العروس) ۔ الصاخۃ : (1) کان بہرا کردینے والا شور۔ (ضیاء القرآن) (2) ای النفخۃ الثانیۃ۔ صور میں دوسری بار پھونک مارنا۔ (السیر التفاسیر) (3) کان بہرہ کردینے والی آواز۔ (تفہیم القرآن) (4) کانوں کو بہرا کردینے والا شور۔ (بیان القرآن) (5) صیحۃ القیامۃ (قیامت کی چیخ) ۔ (الخازن) (6) الصاخۃ الصحیۃ وسمیت بھا لشدید صو تھا کانھا تصخ الاذان الصاخۃ کو الصیحۃ اس کی آواز کی شدت کی وجہ سے کہتے ہیں کہ کانوں کو بہرہ کئے دیتی ہے۔ فاذا جاءت الصاخۃ۔ جملہ شرطیہ ہے اس کی جزاے محذوف ہے پورا جملہ شرطیہ انھا تذکرۃ (آیت 80:11) سے مربوط ہے اس طرح پورا معنی یوں ہوگا :۔ یہ قرآن ایک یا دداشت اور نصیحت ہے۔ جب صور کی آواز آئے گی اس وقت نصیحت قبول کرنے والوں کو حال قبول نہ کرنے والوں کے حال سے جدا ہوگا۔ اختلاف حال کیا ہوگا ؟ اس کا بیان آئندہ آیات : وجوہ یومئذ ۔۔ الخ میں کیا گیا ہے۔ (80:40)
فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلے انسان کو اس کی تخلیق اور اس کی خوراک کا حوالہ دے کر اس کا قیامت کے دن زندہ ہونا ثابت کیا اور اب محشر کے دن دوسرے نفخہ کے بعد لوگوں کی حالت بیان کی جاتی ہے۔ سورت النّازعات کی آیت ٣٤ میں قیامت کو ایک بڑی آفت قرار دیا گیا ہے قیامت کے بنیادی طور پر دو مرحلے ہوں گے۔ پہلے مرحلے میں ہر چیز تباہ کردی جائے گی اور اس کے بعد نامعلوم کتنے عرصے کے بعد قیامت کا دوسرا مرحلہ شروع ہوگا۔ دوسرے مرحلہ کی ابتدا بھی اسرافیل کے صور پھونکنے پر ہوگی جس سے ایک مرتبہ پھر پوری زمین ہل جائے گی اور لوگ اپنے اپنے مدفن سے نکل کر محشر کے میدان میں اکٹھے ہوجائیں گے جس کی تفصیل قرآن مجید اور حدیث کی کتب میں موجود ہے۔ جب لوگ محشر کے میدان میں جمع ہوں گے تو انہیں ان کے اعمال نامے دیئے جائیں گے۔ جن کے اعمال نامے دائیں ہاتھ میں دیئے جائیں گے ان کے چہرے مسکرائیں گے اور تابناک ہوں گے، جن کو ان کے اعمال نامے بائیں ہاتھ میں دیئے جائیں گے ان کے چہرے گرد آلود ہوں گے اور ان پر سیاہی اور ذلّت پھیل جائے گی یہ کافر اور برے لوگ ہوں گے جونہی برے لوگوں کو ان کے اعمال نامے دیئے جائیں گے تو وہ اپنے اعمال ناموں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ہاتھ کاٹیں گے اور اس خواہش کا اظہار کریں گے کہ کاش ! آج ہمارے بدلے کسی دوسرے کو پکڑ لیا جائے اس دن بھائی اپنے بھائی، اپنی ماں اپنے باپ، اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے بھاگ جائے گا۔ اس دن ہر شخص اپنی ہی فکر میں پریشان ہوگا، کوئی بھی کافر، مشرک اور مجرم ایک دوسرے کی مدد کرنے کے لیے تیار نہیں ہوگا کیونکہ اس دن کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ (الاعراف : ١٦٥) ” سیدہ عائشہ (رض) ایک دن جہنم کو یاد کر کے رورہی تھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا اے عائشہ ! تجھے کس چیز نے رلایا ہے سیدہ عائشہ نے کہا جہنم کی آگ یاد آئی تو میں رو پڑی کیا قیامت کے دن آپ اپنے اہل و عیال کو یاد رکھ پائیں گے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تین مواقع ایسے ہیں جن میں کوئی کسی کو یاد نہیں کرے گا۔ 1 اعمال تولے جانے کے وقت جب تلک یہ نہ پتہ چل جائے کہ اس کا نیکیوں والا پلڑا بھاری ہوا یا ہلکا۔ 2 نامہ اعمال دئیے جانے کے وقت جب کہنے والا کہے گا آؤ میرے نامہ اعمال کو پڑھ کر دیکھو حتٰی کہ اسے علم ہوجائے کہ اس کو نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں دیا جا رہا ہے یا پیٹھ کے پیچھے سے بائیں ہاتھ میں 3 ۔ جب جہنم کے اوپر پل صراط کو رکھا جائے گا۔ (رواہ ابوداؤد : باب فی ذکر المیزان) مسائل ١۔ قیامت کے دوسرے مرحلے پر بھی ہر چیز ہل کر رہ جائے گی۔ ٢۔ قیامت کے دن ہر شخص اپنے بارے میں ہی فکر مند ہوگا۔ ٣۔ قیامت کے دن کچھ لوگوں کے چہرے روشن اور مسکراتے ہوئے ہوں گے۔ ٤۔ قیامت کے دن جہنمیوں کے چہرے غبار آلود اور سیاہ ترین ہوں گے۔ ٥۔ قیامت کے دن آدمی اپنے بھائی، اپنی ماں، اپنے باپ، اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے بھاگ جائے گا۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن کوئی بھی کافر، مشرک اور مجرم کا ساتھ نہیں دے گا : ١۔ قیامت کے دن کوئی دوست کسی کے کام نہیں آئے گا۔ ( البقرۃ : ٢٥٤) ٢۔ قیامت کے دن کوئی رشتہ دار کسی کو فائدہ نہیں دے گا۔ ( عبس : ٣٤ تا ٣٦) ٣۔ قیامت کے دن کوئی دوست کسی دوست کے کام نہیں آئے گا۔ (الدخان : ٤١) ٤۔ قیامت کے دن کوئی کسی کو فائدہ نہیں دے سکے گا۔ (الانفطار : ١٩) ٥۔ قیامت کے دن دوستی اور سفارش کام نہ آئے گی۔ (ابراہیم : ٣١) ٦۔ قیامت کے دن سفارشی کسی کو فائدہ یا نقصان نہیں دیں گے۔ (یونس : ١٨)
یہ دنیا کے سازو سامان کا خاتمہ ہے۔ یہ اللہ کی طویل اسکیم ، اور ایک کلی اور جامع تدبیر کے ساتھ موافق ہے ، جس کے مطابق اللہ نے انسان کو مرحلہ وار پیدا کیا اور اس اسکیم کے مطابق آگے بڑھایا اور یوں آغاز کے عین مطابق اس کا خاتمہ ہوا۔ یہ آخری منظر ابتدائی منظر کے ساتھ ہم آہنگ ہے جس میں ایک شخص دوڑتا ہوا آیا ، اس کا پیمانہ خوف خدا سے لبریز تھا اور اس کے مقابلے میں ایک شخص تھا جو لاپرواہ اور ہدایت سے منہ موڑنے والا تھا۔ یہ دونوں کردار اللہ کے پیمانوں میں جو مقام رکھتے تھے اور یہ دونوں کا انجام ہے سورت کا آخر میں : الصاخة ایک ایسا لفظ ہے جو معنی کے ساتھ ساتھ آواز بھی سخت وکرخت رکھتا ہے۔ قریب ہے کہ کان کے پردے ہی پھٹ جائیں ۔ یہ لفظ اپنے زور تلفظ سے ہوا کو پھاڑتا ہے۔ اور کانوں میں آکر پیوست ہوجاتا ہے۔ یہ لفظ اپنے اس کرخت تلفظ کے ذریعہ اگلے منظر کی راہ ہموار کرتا ہے ، اگلا منظر کیا ہے۔ یہ منظر ایسا ہے جس میں انسان اپنے عزیز ترین تعلق داروں کو چھوڑ کر بھاگتے نظر آتے ہیں۔
ان آیات میں روز قیامت کے بعض مناظر بیان فرمائے ہیں۔ الصاخہ سخت آواز سے بولنے والی چیز کو کہتے ہیں اور بعض حضرات نے یہ فرمایا ہے کہ ایسی سخت آواز کو کہتے ہیں جو کانوں کو بہرا کر دے اس سے نفخہ ثانیہ مراد ہے جب یہ سخت آؤاز آئے گی تو انسان اپنی مصیبت میں ایسا مبتلا ہوگا کہ اسے کسی کی طرف کوئی توجہ نہ ہوگی جو خاص اپنے لوگ تھے ان سے بھی بھاگے گا ہر شخص کا اپنا حال جدا ہوگا۔ ایمان اور اعمال صالحہ کی وجہ سے نیک بندوں کے چہرے روشن ہوں گے ان کی صورتوں سے بشاشت اور خوشی ظاہر ہو رہی ہوگی اور جن نالائقوں نے دنیا میں خدا کو فراموش کیا ایمان اور اعمال صالحہ کے نور سے علیحدہ رہے اور کفر و فجور کی سیاہی میں گھسے رہے قیامت کے دن ان کے چہروں پر سیاہی چڑھی ہوگی ذلت اور رسوائی کے ساتھ حاضر محشر ہوں گے اپنے اعمال بد کی وجہ سے اداس ہو رہے ہوں گے اور خوف زدہ ہو کر یہ سوچتے ہوں گے کہ یہاں ہم سے برا برتاؤ ہونے والا ہے اور وہ آفت آنے والی ہے جو کمر توڑ دینے والی ہوگی ﴿ تَظُنُّ اَنْ يُّفْعَلَ بِهَا فَاقِرَةٌؕ٠٠٢٥﴾۔ سورة ٴ آل عمران میں فرمایا : ﴿يَّوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوْهٌ وَّ تَسْوَدُّ وُجُوْهٌ١ۚ فَاَمَّا الَّذِيْنَ اسْوَدَّتْ وُجُوْهُهُمْ ١۫ اَكَفَرْتُمْ بَعْدَ اِيْمَانِكُمْ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ ٠٠١٠٦ وَ اَمَّا الَّذِيْنَ ابْيَضَّتْ وُجُوْهُهُمْ فَفِيْ رَحْمَةِ اللّٰهِ ١ؕ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ ٠٠١٠٧﴾ ” اس روز بعض چہرے سفید ہوں گے اور بعض چہرے سیاہ ہوں گے جن کے چہرے سیاہ ہوں گے ان سے کہا جائے گا کیا تم لوگ کافر ہوگئے تھے اپنے ایمان لانے کے بعد سو سزا چکھو بسبب اپنے کفر کے، اور جن کے چہرے سفید ہوں گے وہ اللہ کی رحمت میں ہوں گے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ “ آخر تفسیر سورة عبس، والحمد للّٰہ اولاً وآخرًا
9:۔ ” فاذا جاءت “ یہ تخویف اخروی ہے اور اس میں سورت کا دعوی مذکور ہے علی سبیل الترقی۔ یہاں قیامت کی شدت اور ہولناکی کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ ہر شخص کو صرف اپنی جان کی فکر ہوگی یہاں تک آدمی اپنے بھائی، اپنے باپ اور اپنے بیوی بچوں سے بھی دور بھاگے گا اور کوئی کسی کے کام نہیں آسکے گا۔ ہر شخص کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوں گے اور وہ اپنے انجام کی فکر میں دوسروں سے بالکل بیخبر اور غافل ہوگا۔