Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 82

سورة التوبة

فَلۡیَضۡحَکُوۡا قَلِیۡلًا وَّ لۡیَبۡکُوۡا کَثِیۡرًا ۚ جَزَآءًۢ بِمَا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ ﴿۸۲﴾

So let them laugh a little and [then] weep much as recompense for what they used to earn.

پس انہیں چاہیے کہ بہت کم ہنسیں اور بہت زیادہ روئیں بدلے میں اس کے جو یہ کرتے تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَلْيَضْحَكُواْ قَلِيلً ... So let them laugh a little... Ibn Abi Talhah reported that Ibn Abbas commented, "Life is short, so let them laugh as much as they like in it. But when life ends and they are returned to Allah, the Exalted and Most Honored, they will start crying forever without end." ... وَلْيَبْكُواْ كَثِيرًا جَزَاء بِمَا كَانُواْ يَكْسِبُونَ and (they will) cry much as a recompense of what they used to earn (by committing sins).

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

28۔ 1 قلیلا اور کثیرا یا تو مصدریت (یعنی ضحکا اور بکآء اکثیرا یا ظرفیت یعنی (زمانا قلیلا و زمانا کثیرا) کی بنیاد پر منصوب ہے اور امر کے دونوں صیغے بمعنی خبر ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ہنسیں گے تو تھوڑا اور روئیں گے بہت زیادہ۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٧] جس قسم کے کام یہ دنیا میں کر رہے ہیں چاہیے تو یہ تھا کہ یہ بہت کم ہنستے اور روتے زیادہ۔ اور اگر آج انہیں یہ سمجھ نہیں آرہی تو قیامت میں انہیں یہی کچھ کرنا پڑے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَلْيَضْحَكُوْا قَلِيْلًا وَّلْيَبْكُوْا كَثِيْرًا : کیونکہ دنیا آخرت کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے، فانی اور باقی کا کیا مقابلہ ؟ اس لیے ان کا ہنسنا بہت ہی کم عرصے کے لیے اور رونا بیحد و حساب مدت کے لیے ہے جس کی انتہا ہی نہیں۔ یہ بظاہر حکم ہے مگر منافقین حکم ماننے والے کب تھے، اس لیے یہ امر کے الفاظ میں خبر دی جا رہی ہے، یعنی یہ لوگ بہت کم ہنسیں گے اور بہت زیادہ روئیں گے۔ ” جَزَاۗءًۢ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ “ سے اس امر کے بمعنی خبر ہونے کی تائید ہوتی ہے۔ اس میں حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ خبر میں تو صدق و کذب کا بھی احتمال ہوتا ہے، مگر انشاء (امر و نہی) میں اس کا احتمال ہی نہیں ہوتا، وہ حتمی ہوتی ہے (اگرچہ اللہ تعالیٰ کی خبر میں بھی کذب کا احتمال نہیں) ۔ (المنار) اسی آیت کی ہم معنی وہ حدیث ہے کہ اگر تم وہ کچھ جان لو جو میں جانتا ہوں تو یقیناً تم بہت کم ہنسو اور بہت زیادہ روؤ۔ [ بخاری، الکسوف، باب الصدقۃ فی الکسوف : ١٠٤٤ ]

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

After that it was said: فَلْيَضْحَكُوا قَلِيلًا (So, let them laugh a little, and weep a lot, being a reward of what they used to earn - 82). Though, the word ` falya dhak u& (So, laugh) has been used in the imperative form, but commentators interpret it in the sense of the predicate of a nomi¬nal clause. The wisdom behind the use of the imperative form given by them is that this is categorical and certain. In other words, this is go¬ing to happen as a matter of certainty. Such people could laugh for the days they have in the mortal world - but, in &Akhirah, they must weep and weep forever. Commentator Ibn Abi Hatim reports the explanation of this verse from Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) as follows: اَلدُنیِا قلیلُ فَلیَضحکُوا فِیھَا مَاشَآُء وافاِذَا انقَطعتِ الدُّنیَا و صَارُوآ اِلٰی اللہِ فَلیَستَانِفُوافلیستانِفُوا البُکَاءَ بُکَاًء لَا یَنقَطِع اَبَداً The dunya (present world) is short-lived. So, let them laugh therein as they wish but when ` dunya will come to an end and they will start coming to Allah, then, they will start weeping, a weeping which will never come to an end. (Mazhari)

(آیت) فَلْيَضْحَكُوْا قَلِيْلًا، جس کے لفظی معنی یہ ہیں کہ ہنسو تھوڑا روؤ زیادہ، یہ لفظ اگرچہ بصیغہ امر لایا گیا مگر حضرات مفسرین نے اس کو خبر کے معنی میں قرار دیا ہے، اور بصیغہ امر ذکر کرنے کی یہ حکمت بیان کی ہے کہ ایسا ہونا حتمی اور یقینی ہے، یعنی یہ بات یقینی طور پر ہونے والی ہے کہ ان لوگوں کی یہ خوشی و ہنسی صرف چند روز کی ہے، اس کے بعد آخرت میں ہمیشہ کے لئے رونا ہی رونا ہوگا، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس سے اس آیت کی تفسیر میں نقل کیا ہے : الدنیا قلیل فلیضحکوا فیھا ماشاؤ ا فاذا انقطعت الدنیا وصاروا الی اللہ فلیستانفوا البکاء بکاء لا ینقطع ابدا دنیا چند روز ہے اس میں جتنا چاہو ہنس لو، پھر جب دنیا ختم ہوگی اور اللہ کے پاس حاضر ہوگے تو رونا شر وع ہوگا جو کبھی ختم نہ ہوگا “۔ ( مظہری )

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَلْيَضْحَكُوْا قَلِيْلًا وَّلْيَبْكُوْا كَثِيْرًا۝ ٠ ۚ جَزَاۗءًۢ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ۝ ٨٢ ضحك الضَّحِكُ : انبساطُ الوجه وتكشّر الأسنان من سرور النّفس، ولظهور الأسنان عنده سمّيت مقدّمات الأسنان الضَّوَاحِكِ. قال تعالیٰ “ وَامْرَأَتُهُ قائِمَةٌ فَضَحِكَتْ [هود/ 71] ، وضَحِكُهَا کان للتّعجّب بدلالة قوله : أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ [هود/ 73] ، ويدلّ علی ذلك أيضا قوله : أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ إلى قوله : عَجِيبٌ [هود/ 72] ، وقول من قال : حاضت، فلیس ذلک تفسیرا لقوله : فَضَحِكَتْ كما تصوّره بعض المفسّرين «1» ، فقال : ضَحِكَتْ بمعنی حاضت، وإنّما ذکر ذلک تنصیصا لحالها، وأنّ اللہ تعالیٰ جعل ذلک أمارة لما بشّرت به، فحاضت في الوقت ليعلم أنّ حملها ليس بمنکر، إذ کانت المرأة ما دامت تحیض فإنها تحبل، ( ض ح ک ) الضحک ( س) کے معنی چہرہ کے انبساط اور خوشی سے دانتوں کا ظاہر ہوجانا کے ہیں اور ہنستے وقت چونکہ سامنے کے دانت ظاہر ہوجاتے ہیں اس لئے ان کو ضواحک کہاجاتا ہے اور بطور استعارہ ضحک بمعنی تمسخر بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ ضحکت منہ کے معنی ہیں میں نے اس کا مذاق اڑایا اور جس شخص کا لوگ مذاق اڑائیں اسے ضحکۃ اور جو دوسروں کا مذاق اڑائے اسے ضحکۃ ( بفتح الحاء ) کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَامْرَأَتُهُ قائِمَةٌ فَضَحِكَتْ [هود/ 71] اور حضرت ابراہیم کی بیوی ( جوپ اس ) کھڑیتی ہنس پڑی ۔ میں ان کی بیوی ہنسنا تعجب کی بنا پر تھا جیسا کہ اس کے بعد کی آیت : أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ [هود/ 73] کیا خدا کی قدرت سے تعجب کرتی ہو سے معلوم ہوتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ : أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ إلى قوله : عَجِيبٌ [هود/ 72] اسے ہے میرے بچو ہوگا ؟ میں تو بڑھیا ہوں ۔۔۔۔ بڑی عجیب بات ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ اور جن لوگوں نے یہاں ضحکت کے معنی حاضت کئے ہیں انہوں نے ضحکت کی تفسیر نہیں کی ہے ۔ جیسا کہ بعض مفسرین نے سمجھا سے بلکہ اس سے حضرت ابراہیم کی بیوی کی حالت کا بیان کرنا مقصود ہے کہ جب ان کو خوشخبری دی گئی تو بطور علامت کے انہیں اسی وقت حیض آگیا ۔ تاکہ معلوم ہوجائے کہ ان کا حاملہ ہونا بھی کچھ بعید نہیں ہے ۔ کیونکہ عورت کو جب تک حیض آتا ہے وہ حاملہ ہوسکتی ہے قل القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] ( ق ل ل ) القلۃ والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔ بكي بَكَى يَبْكِي بُكًا وبُكَاءً ، فالبکاء بالمدّ : سيلان الدمع عن حزن وعویل، يقال إذا کان الصوت أغلب کالرّغاء والثغاء وسائر هذه الأبنية الموضوعة للصوت، وبالقصر يقال إذا کان الحزن أغلب، وجمع البَاكِي بَاكُون وبُكِيّ ، قال اللہ تعالی: خَرُّوا سُجَّداً وَبُكِيًّا [ مریم/ 58] ( ب ک ی ) بکی یبکی کا مصدر بکی وبکاء یعنی ممدود اور مقصور دونوں طرح آتا ہے اور اس کے معنی غم کے ساتھ آنسو بہانے اور رونے کے ہیں اگر آواز غالب ہو تو اسے بکاء ( ممدود ) کہا جاتا ہے جیسے ؎ رغاء وثغاء اور اس نوع کے دیگر اوزاں جو صوت کے لئے وضع کئے گئے ہیں اور اگر غم غالب ہو تو اسے بکی ( بالقصر ) کہا جاتا ہے الباکی رونے والا غم اور اندوہ سے آنسو بہانے والا اس کی جمع باکون وب کی آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ خَرُّوا سُجَّداً وَبُكِيًّا [ مریم/ 58] تو سجدے میں کر پڑتے اور روتے رہتے تھے ۔ جزا الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان/ 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، ( ج ز ی ) الجزاء ( ض ) کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا } ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ كسب ( عمل رزق) الكَسْبُ : ما يتحرّاه الإنسان مما فيه اجتلاب نفع، و تحصیل حظّ ، كَكَسْبِ المال، وقد يستعمل فيما يظنّ الإنسان أنه يجلب منفعة، ثم استجلب به مضرّة . والکَسْبُ يقال فيما أخذه لنفسه ولغیره، ولهذا قد يتعدّى إلى مفعولین، فيقال : كَسَبْتُ فلانا کذا، والِاكْتِسَابُ لا يقال إلّا فيما استفدته لنفسک، فكلّ اكْتِسَابٍ کسب، ولیس کلّ كَسْبٍ اکتسابا، وذلک نحو : خبز واختبز، وشوی واشتوی، وطبخ واطّبخ، وقوله تعالی: أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة/ 267] روي أنه قيل للنّبي صلّى اللہ عليه وسلم «4» : أيّ الکسب أطيب ؟ فقال عليه الصلاة والسلام، «عمل الرجل بيده» ، وقال : «إنّ أطيب ما يأكل الرجل من کسبه وإنّ ولده من كَسْبِهِ» «1» ، وقال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] وقد ورد في القرآن في فعل الصالحات والسيئات، فممّا استعمل في الصالحات قوله : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام/ 158] ، وقوله : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة/ 201- 202] «2» . وممّا يستعمل في السّيّئات : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام/ 70] ، أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام/ 70] ( ک س ب ) الکسب ۔ اصل میں جلب نفع یا خوش نصیبی حاصل کرنے کے لئے کسی چیز کا قصد کرنے کو کسب کہتے ہیں جیسے کسب مال وغیرہ ایسے کام کے قصد پر بولا جاتا ہ جسے انسان اس خیال پر کرے کہ اس سے نفع حاصل ہوگا لیکن الٹا اس کو نقصان اٹھا نا پڑے ۔ پس الکسب ایسا کام کرنے کو کہتے ہیں جسے انسان اپنی ذا ت اور اس کے ساتھ دوسروں کے فائدہ کے لئے کرے اسی لئے یہ کبھی دو مفعولوں کو طرف متعدی ہوتا ہے جیسے کسبت فلانا کذا میں نے فلاں کو اتنا کچھ حاصل کرکے دیا ۔ مگر الاکتساب ایسا کام کرنے کو کت ہے ہیں جس میں انسان صرف اپنے مفاد کو پیش نظر رکھے لہذا ہر اکتساب لازم نہیں ہے ۔ اور یہ خبز و اختبرزو شوٰ ی واشتویٰ ، وطبخ و طبخ کی طرف ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة/ 267] جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کھاتے ہو ۔۔۔۔ اس میں سے راہ خدا میں خرچ کرو ۔ کے متعلق آنحضرت سے سوال کیا گیا ای الکسب اطیب کہ کونسا کسب زیادہ پاکیزہ ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عمل الرجل بیدہ کہ انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور نیز فرمایا : ان طیب مایکل الرجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ سب سے زیادہ پاکیزہ رزق وہ ہی جو انسان اپنے ہاتھ سے کماکر کھا اور اسکی اولاد اس کے کسب سے ہے : قرآن میں ہے : لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] اسی طرح ( یہ ریا کار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کرسکیں گے ۔ اور قرآن میں نیک وبددونوں قسم کے اعمال کے متعلق یہ فعل استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ اعمال صالحہ کے متعلق فرمایا : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام/ 158] یا اپنے ایمان کی حالت میں نیک عمل نہیں کئ ہونگے اور آیت کریمہ : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة/ 201- 202] کے بعد فرمایا : انکے کاموں کا ( حصہ ) اور اعمال بدکے متعلق فرمایا : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام/ 70] تاکہ ( قیامت کے دن کوئی شخص اپنے اعمال کی سزا میں ہلاکت میں نہ ڈالا جائے ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام/ 70] یہی لوگ ہیں کہ اپنے اعمال کے وبال میں ہلاکت میں ڈالے گئے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٢) اس کا نتیجہ یہ ہے کہ دنیا میں تھوڑے دن ہنس لیں اور آخرت میں بہت دنوں تک روتے رہیں جو ان معاصی اور گناوں کا بدلہ ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:82) فلیضحکوا۔ فعل امر۔ جمع مذکر غائب ۔ انہیں چاہیے کہ ہنسیں۔ ولیبکوا۔ فعل امر جمع مذکر غائب۔ انہیں چاہیے کہ روئیں۔ دونوں فعل امر بمعنی خبر آئے ہیں یعنی سیضحکون قلیلا ویبکون کثیرا۔ وہ تھوڑا ہنسیں گے۔ (اس چند روزہ زندگی میں) اور زیادہ روئیں گے (ابدی زندگی آخرت میں) امر کا صیغہ اس کے حتمی اور واجبی ہونے کے بیان کے لئے آیا ہے۔ یعنی یہ ان کا مال حتمی ہے ضرور ہوکر رہے گا۔ بما کانوا یکسبون۔ ان کے رویے اور ہنسنے کا سبب بیان کیا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی ہنسنا تھوڑے دنوں کا ہے پھر رونا ہمیشہ ہمیشہ کا ہے۔ فلیضحکوا گوصیغہ امر کا ہے مگر مراد اس سے خبر ہے اور مقصود مرتب کرنا مجموعہ ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہاں اگر کوئی ہنسے گا تو اس کی ہنسی مختصر ہوگی کیونکہ دنیا کی زندگی محدود ہے۔ اور آخرت میں پھر اسے ہمیشہ کے لیے رونا ہوگا۔ اور جیسا کرے گا ویسے بھرے گا۔ یہ نہایت ہی منصفانہ جزا ہے۔ یہ لوگ جنہوں نے جہاد کے مقابلے میں آرام کو پسند کیا اور اپنایا۔ اور مشکل حالات میں قافلہ اسلام سے پیچھے رہ گئے۔ یہ کسی بھی مشکل مہم کے لیے نااہل ثابت ہوچکے ہیں۔ یہ جہاد کے قابل ہی نہیں رہے۔ اس لیے ان کے ساتھ کسی قسم کی نرمی مناسب نہیں ہے۔ لہذا اب کسی بھی موقعہ پر انہیں شریک جہاد کرکے ان کو عزت نہ دی جائے کیونکہ اس اہم موقعہ پر انہوں نے خود اس اعزاز کو لات مار دی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (فَلْیَضْحَکُوْا قَلِیْلًا وَّلْیَبْکُوْا کَثِیْرًا) کہ یہ دنیا میں تھوڑا سا ہنس لیں اور آخرت میں زیادہ روئیں گے۔ یہاں تھوڑی سی خوشی ہے جس میں ہنسی بھی ہے اور دوسروں کا مذاق بنانا بھی ہے جس کو خوشی طبعی سے تعبیر کرتے ہیں لیکن آخرت میں کافروں کی جو بد حالی ہوگی اس پر جو روئیں گے اس رونے کا تصور کریں تو یہاں کی ذرا سی خوشی کو بھول جائیں۔ وہاں تو ان کا رونا ہی رونا ہے۔ حضرت عبداللہ بن قیس (یہ حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) کا نام ہے) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ دوزخی اتنا روئیں گے کہ ان کے آنسوؤں میں اگر کشتیاں چلائی جائیں تو جاری ہوجائیں (اور ان کے آنسو عام آنسو نہ ہوں گے بلکہ) وہ آنسوؤں کی جگہ خون سے روئیں گے۔ (رواہ الحاکم فی المستدرک (ص ٦٠٥ ج ٤) و قال ھذا حدیث صحیح الاسناد و أقرۃ الذھبی) (حاکم نے اسے مستدرک میں روایت کیا ہے اور کہا ہے اس حدیث کی سند صحیح ہے اور علامہ ذہبی نے بھی اسے یہی مقام دیا ہے) جو لوگ دنیا میں اللہ کے خوف سے روتے ہیں ان کا یہ رونا رحمت اور نعمت ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ دو آنکھیں ایسی ہیں جنہیں (دوزخ کی) آگ نہ چھوئے گی ایک وہ آنکھ جو اللہ کے ڈر سے روئی اور ایک وہ آنکھ جس نے فی سبیل اللہ (جہاد میں) چوکیداری کرتے ہوئے رات گزاری۔ (رواہ الترمذی و قال حدیث حسن غریب) حضرت عقبہ بن عامر (رض) نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کس چیز میں نجات ہے آپ نے فرمایا اپنی زبان کو قابو میں رکھ تاکہ تجھے نقصان نہ پہنچا دے اور تیرے گھر میں تیری گنجائش رہے۔ (یعنی بلا ضرورت گھر سے باہر نہ نکل کیونکہ باہر فتنے ہیں اور گناہوں کے کام ہیں اور اپنے گناہوں پر روتا رہ) (رواہ الترمذی و قال حدیث حسن غریب) جو لوگ آخرت کے فکر مند نہیں ہیں وہ یہاں نہیں روتے انہیں وہاں رونا ہوگا۔ (جَزَآءً بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ) (ان کاموں کے بدلے جو یہ کیا کرتے تھے) یعنی ان کا یہ بہت زیادہ رونا کفر و نفاق اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کی خلاف ورزی کی وجہ سے ہوگا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

78:“ فَلْیَضْحَکُوْا الخ ” امر بمعنی خبر ہے۔ منافقین جہاد میں شریک نہ ہو کر بہت خوش ہیں اور ہنس رہے ہیں لیکن دنیا کی یہ خوشی اور ہنسی اس افسوس اور رونے کے مقابلے میں بہت کم ہے جو آخرت میں ان کے حصے میں آئیں گے۔ “ اخبار عن عاجل امرھم و اٰجله من الضحک القلیل فی الدنیا والبکاء الکثیر فی الاخري ” (روح ج 10 ص 112) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

82 سو اب ان کو چاہئے تھوڑے دن ہنس لیں اور بہت دنوں روتے رہیں اس کمائی کے بدلے جو وہ کمایا کرتے تھے۔ یعنی دنیا کا ہنسنا اور آخرت میں ہمیشہ ہمیشہ کا رونا۔