Perfect Tense | Imperfect Tense | Imperative | Active Participle | Passive Participle | Noun Form |
--- |
--- |
--- |
--- |
--- |
--- |
یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حرفی ۔ پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں (۱) ما اسمی ہوتو واحد جمع اور تذکیر و تانیث کے لیے یکساں استعمال ہوتا ہے۔ پھر لفظاً مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے۔ یہ ما (۲) کبھی بمعنی اَلَّذِیْ ہوتا ہے۔ جیسے فرمایا ۔ (وَ یَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مَا لَا یَضُرُّہُمۡ ) (۱۰۔۱۸) اور یہ (لوگ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پرستش کرتے ہیں جونہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں تو یہاں مَا کی طرف یَضُرُّھُمْ میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے۔ اس کے بعد معنی جمع کی مناسبت سے ھوئُ لَائِ شُفَعَائُ نَا عِنْدَاﷲِ آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : (وَ یَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مَا لَا یَمۡلِکُ لَہُمۡ رِزۡقًا مِّنَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ) (۱۶۔۷۳) اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جو ان کو آسمانوں اور زمین میں روزی دینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے، میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ:۔ (بِئۡسَمَا یَاۡمُرُکُمۡ بِہٖۤ اِیۡمَانُکُمۡ ) (۲۔۹۳) کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں۔ اور کبھی (۲) نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا: (نِعِمَّا یَعِظُکُمۡ بِہٖ) (۴۔۵۸) بہت خوب نصیحت کرتا ہے۔ تو یہاں نِعِمَّا بمعنی نِعْمَ شَیْئًا ہے۔ نیز فرمایا (فَنَعِمًا ھِیَ) (۲۔۳۵) تو وہ بھی خوف ہے۔ اور آیت کریمہ: (مَّا بَعُوۡضَۃً فَمَا فَوۡقَہَا) (۲۔۲۶) کہ مجھر یا اس سے بڑھ کر کسی چیز کی۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مانکرہ بمعنی شَیْئًا ہو اور (۳) یہ بھی کہ مَا صلہ ہو اور اس کا مَا بعد یعنی بَعُوْ ضَۃٍّ مفعول ہو (1) اور نظم کلام دراصل یوں ہو۔ اَنْ یَّضْرِبَ مَثَلاً بَعُوْضَۃً۔ اور کبھی (۴) اِسْقِفْھَامِیَہ ہوتا ہے۔ اس صورت میں کبھی کسی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لیے آتا ہے۔ اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لیے آتا ہے۔ اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لیے بھی آجاتا ہے۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چنانچہ فرمایا: (اِلَّا عَلٰۤی اَزۡوَاجِہِمۡ اَوۡ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُہُمۡ ) (۲۳۔۶) مگر ان ہی بیویوں یا (کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہیں۔ اور آیت کریمہ: (اِنَّ اللّٰہَ یَعۡلَمُ مَا یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِہٖ مِنۡ شَیۡءٍ) (۲۹۔۴۲) جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں۔ خواہ وہ کچھ ہی ہو۔ خدا اسے جانتا ہے۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ مَاتَدْعُوْنَ میں ما استفہامیہ ہے اَیْ اَیُّ شَیْ ئٍ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ اور انھوں نے یہ تکلف اس لیے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور ما بعد کے متعلق استفہام کے لیے آتا ہے۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے۔ جیسا کہ آیت : (مَا یَفۡتَحِ اللّٰہُ لِلنَّاسِ مِنۡ رَّحۡمَۃٍ ) الایۃ (۳۵۔۲) خدا جو اپنی رحمت کا دروازہ کھول دے۔ اور مثال مَاتَضْرِبْ اَضْرِبْ میں ہے۔ اور کبھی (۵) تعجب کے لیے ہوتا ہے۔ چنانچہ فرمایا: (فَمَاۤ اَصۡبَرَہُمۡ عَلَی النَّارِ) (۲۔۱۷۵) یہ (آتش ) جہنم کی کیسی برداشت کرنے والے ہیں۔ ما ( ۶) حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے اول (۱) یہ کہ اس کا مابعد بمنزلہ مصدر کے ہو۔ جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے۔ چنانچہ فرمایا: (مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ ) (۲۔۳) اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے ۔ اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے۔ کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظًا یا تقدیراضمیر نہیں لوٹتی۔ اور آیت کریمہ: (بِمَا کَانُوۡا یَکۡذِبُوۡنَ) (۲۔۱۰) اور ان کے جھوٹ بولنے کے سبب۔ میں بھی ما مصدری معنی پر محمول ہے۔ اسی طرح اَتَانِی الْقَوْمُ مَا عَدَازَیْدًا میں بھی ما مصدریہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی مامصدریہ ہوتا ہے۔ چنانچہ فرمایا: (کُلَّمَاۤ اَضَآءَ لَہُمۡ مَّشَوۡا فِیۡہِ) (۲۔۲۰) جب بجلی (چمکتی اور) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں۔ (کُلَّمَاۤ اَوۡقَدُوۡا نَارًا لِّلۡحَرۡبِ اَطۡفَاَہَا اللّٰہُ ) (۵۔۶۴) یہ جب لڑائی کے لیے آگ جلاتے ہیں۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے۔ (کُلَّمَا خَبَتۡ زِدۡنٰہُمۡ سَعِیۡرًا) (۱۷۔۹۷) جب (اس کی آگ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو (عذاب دینے) کے لیے اور بھڑکا دیں گے اور آیت کریمہ: (فَاصۡدَعۡ بِمَا تُؤۡمَرُ) (۱۵۔۹۴) پس جو حکم تم کو (خدا کی طرف سے ) ملا ہے وہ (لوگوں کو) سنا دو۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدریہ ہو اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی اَلَّذِیْ ہو۔ یاد رکھو کہ مَا اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسمی ہوتو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ اُرِیْدُ اَنْ اَخْرُجَ میں اَنْ کی طرح ہوتا ہے جس طرح اَنْ کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد عائد (ضمیر) نہیں آتی۔ دو (۲) مانافیہ ہے۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں۔ چنانچہ فرمایا: (مَا ہٰذَا بَشَرًا) (۱۲۔۳۱) یہ آدمی نہیں ہے۔ تیسرا (۳) ماکافہ ہے جو اِنَّ وَاَخَوَاتُھَا اور رُبَّ کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے۔ جیسے فرمایا: (اِنَّمَا یَخۡشَی اللّٰہَ مِنۡ عِبَادِہِ الۡعُلَمٰٓؤُا) (۳۵۔۲۸) خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں۔ (اِنَّمَا نُمۡلِیۡ لَہُمۡ لِیَزۡدَادُوۡۤا اِثۡمًا) (۲۔۱۷۸) (نہیں بلکہ) ہم ان کو اس لیے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں۔ کَاَنَّمَا یُسَاقُوْنَ اِلَی الْمَوْتِ گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں۔ اور آیت کریمہ: (رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا) (۱۵۔۲) کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے۔ میں بھی مَا کافہ ہی ہے۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قَلَّمَا اور لَمَّا میں بھی ماکافہ ہوتا ہے۔ چہارم (۴) مامُسَلِطَۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بناکر ما بعد پر مسلط کر دیتا ہے جیسا کہ اِذْ مَا وَحَیْثُمَا کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے۔ لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں۔ اور فعل مضارع کو جزم دیتے ہیں۔ جیسے حَیْثُمَا تَقْعُذْ وغیرہ۔ پانچواں (۵) مازائدہ ہے۔ جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لیے آتا ہے۔ جیسے اِذَامَافَعَلْتَ کَذَا (جب تم ایسا کرو) اِمَّا تَخْرُجُ اَخْرُجْ (اگر تم باہر نکلوگے تو میں بھی نکلوں گا۔ قرآن پاک میں ہے۔ (فَاِمَّا تَرَیِنًّ مِنَ الْشَرَ اَحَدًا) (۱۹۔۲۶) اگر تم کسی آدمی کو دیکھو۔ (اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَک الْکِبَرَاَحَدُھُمَاَ) (۱۷۔۲۳) اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں۔
Surah:2Verse:14 |
بیشک
only
|
|
Surah:2Verse:16 |
تو نہ
So not
|
|
Surah:2Verse:16 |
اور نہ
and not
|
|
Surah:2Verse:17 |
اس کا
what
|
|
Surah:2Verse:23 |
اس سے جو
about what
|
|
Surah:2Verse:26 |
خواہ جو
(like) even
|
|
Surah:2Verse:26 |
یا اس کی جو
and (even) something
|
|
Surah:2Verse:26 |
اورنہیں
And not
|
|
Surah:2Verse:27 |
اسے جو
what
|
|
Surah:2Verse:29 |
جو کچھ ہے
what
|