NounPersonal Pronoun

شُهَدَآءَكُم

your witnesses

اپنے گواہوں کو / موجود لوگوں کو / حاضرین کو

Verb Form
Perfect Tense Imperfect Tense Imperative Active Participle Passive Participle Noun Form
شَهِدَ
يَشْهَدُ
اِشْهَدْ
شَاهِد
مَشْهُوْد
شُهُوْد/شَهَادَة
Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلْمَشْھُودُ وَالشَّھَادَۃُ کے معنیٰ کسی چیز کا مشاہدہ کرنے کے ہیں خواہ بصر سے ہو یا بصیرت سے اور صرف حاضر ہونے کے معنیٰ میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ قرآن پاک میں ہے: (عٰلِمُ الۡغَیۡبِ وَ الشَّہَادَۃِ) (۵۹:۲۲) پوشیدہ اور ظاہر کو جاننے والا۔ لیکن اولیٰ یہ ہے کہ شَھُوْدٌ کے معنیٰ صرف حاضر ہونا ہوں اور شَھَادَۃٌ میں حاضر ہونے کے ساتھ مشاہدہ کا بھی اعتبار کیا جائے۔ اَلْمَحْضَرُ: بمعنیٰ مشھد یعنی حاضر ہونے کی جگہ کو کہا جاتا ہے مُشْھِدٌ وہ عورت جس کا خاوند حاضر ہو اور مَشْھَدٌ کی جمع مَشَاھِدُ آتی ہے اسی سے مَشَاھِدُ الْحَجِّ ہیں یعنی وہ مواضع شریفہ جہاں کہ فرشتے اور نیک لوگ حاضر ہوتے ہیں بعض نے کہا ہے کہ مَشَاھِدُ الحَجِّ کے معنی مناسک حج کے ہیں۔ قرآن پاک میں ہے: (لِّیَشۡہَدُوۡا مَنَافِعَ لَہُمۡ ) (۲۲:۲۸) تاکہ وہ اپنے فائدہ کے لئے حاضر ہوں۔ (وَ لۡیَشۡہَدۡ عَذَابَہُمَا) (۲۴:۲) اور ان کی سزا کے وقت … موجود ہو۔ (مَا شَہِدۡنَا مَہۡلِکَ اَہۡلِہٖ ) (۲۷:۴۹) ہم تو اس کے گھر والوں کے موقع ہلاکت پر گئے ہی نہیں۔ (وَ الَّذِیۡنَ لَا یَشۡہَدُوۡنَ الزُّوۡرَ) (۲۵:۷۲) اور وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔ یعنی نہ تو زَورٌ کے موقع پر خود ہی حاضر ہوتے ہیں اور نہ ہی اس کا قصد یا ارادہ کرتے ہیں۔ اَلشَّھَادَۃُ: وہ بات جو کامل علم و یقین سے کہی جائے خواہ وہ علم مشاہدۂ بصر سے حاصل ہوا ہو یا بصیرت سے۔ اور آیت کریمہ: (اَشَہِدُوۡا خَلۡقَہُمۡ) (۴۳:۹) کیا یہ ان کی پیدائش کے وقت حاضر تھے۔ میں مشاہدہ بصر مراد ہے اور پھر سَتُکْتَبُ شَھَادَتُھُمْ (عنقریب ان کی شہادت لکھ لی جائے گی) سے اس بات پر تنبیہ کی ہے کہ شہادت میں حاضر ہونا ضروری ہوتا ہے اور آیت کریمہ: (وَ اَنۡتُمۡ تَشۡہَدُوۡنَ) (۲:۸۴) اور تم اس بات کے گواہ ہو۔ میں تَشْھَدُونَ کے معنیٰ تَعْلَمُوْنَ کے ہیں یعنی تم اس بات کو یقین کے ساتھ جانتے ہو۔ اور آیت کریمہ: (مَاۤ اَشۡہَدۡتُّہُمۡ خَلۡقَ السَّمٰوٰتِ) (۱۸:۵۱) میں نے نہ تو ان کو آسمان کے پیدا کرنے وقت بلایا تھا۔ میں تنبیہ کی ہے کہ اس لائق نہیں ہیں کہ اپنی بصیرت سے خلق آسمان پر مطلع ہوجائیں اور آیت کریمہ: (عٰلِمِ الۡغَیۡبِ وَ الشَّہَادَۃِ ) (۲۳:۹۲) وہ پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ہے۔ میں غائب سے وہ چیزیں مراد ہیں جن کا ادارک نہ تو ظاہری حواس سے ہوسکتا ہو اور نہ بصیرت سے اور شہادت سے مراد وہ اشیاء ہیں جنہیں لوگ ظاہری آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ شَھِدْتُّ کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے۔ (۱) علم کی جگہ آتا ہے اور اسی سے شہادت ادا ہوتی ہے مگر اَشْھَدُ بِکَذَا کی بجائے اگر اَعْلَمُ کہا جائے تو شہادت قبول نہیں ہوگی بلکہ اَشْھَدُ ہی کہنا ضروری ہے۔ (۲) قسم کی جگہ پر آتا ہے چنانچہ اَشْھَدُ بِاﷲِ اَنَّ زَیْدًا مُنْطَلِقٌ میں اَشْھَدُ بمعنیٰ اُقْسِمُ ہے بعض نے کہا ہے کہ اگر اَشْھَدُ کے ساتھ بااﷲِ نہ بھی ہو تب بھی یہ قسم کے معنیٰ میں ہوگا اور کبھی عَلِمْتُ بھی اس کے قائم مقام ہوکر قسم کے معنیٰ دیتا ہے اور اس کا جواب بھی جواب قسم کی طرح ہوتا ہے۔ جیساکہ شاعر نے کہا یہ۔ (1) (الکامل) (۲۶۷) وَلَقَدْ عَلِمْتُ کِتَاتِیَنّ مَنِیَّتِیْ مجھے یقین ہے کہ میری موت ضرور آکر رہے گی۔ شَاھِدٌ اور شَھِیْدٌ کے ایک ہی معنیٰ ہیں شَھِیْدٌ کی جمع شُھَدَائُ آتی ہے قرآن پاک میں ہے: (وَ لَا یَاۡبَ الشُّہَدَآءُ) (۲:۲۸۲) اور وہ مردوں کو گواہ کرلیا کرو۔ شَھِدتُ کے معنیٰ کسی جگہ پر حاضر ہونے کے ہیں اور شَھِدتُ عَلٰی کَذَا کے معنیٰ کسی واقعہ کی شہادت دینے کے قرآن پاک میں ہے: (شَہِدَ عَلَیۡہِمۡ سَمۡعُہُمۡ ) (۴۱:۲۰) ان کے کان ان کے خلاف (ان کے اعمال کی) شہادت دیں گے۔ اور کبھی شہادت کے معنیٰ فیصلہ اور حکم کے ہوتے ہیں۔ جیساکہ فرمایا: (وَ شَہِدَ شَاہِدٌ مِّنۡ اَہۡلِہَا) (۱۲:۲۶) اس کے قبیلہ میں سے ایک فیصلہ کرنے والے نے فیصلہ کیا۔ اور جب شہادت اپنی ذات کے متعلق ہو تو اس کے معنیٰ اقرار کے ہوتے ہیں۔ جیسے فرمایا: (وَ لَمۡ یَکُنۡ لَّہُمۡ شُہَدَآءُ اِلَّاۤ اَنۡفُسُہُمۡ فَشَہَادَۃُ اَحَدِہِمۡ اَرۡبَعُ شَہٰدٰتٍۭ بِاللّٰہِ) (۲۴:۶) اور خود ان کے سوا ان کے گواہ نہ ہوں تو ہر ایک کی شہادت یہ ہے کہ چار بار خدا کی قسم کھائے۔ اور آیت کریمہ: (ماشھدنا الا بما علمنا) (۱۲:۸۱) اور ہم نے تو اپنی دانست کے مطابق (اس کے لے آنے کا) عہد کیا تھا۔ میں شَھِدْنَا بمعنیٰ اَخْبَرنَا کے ہے اور آیت کریمہ: (شٰہِدِیۡنَ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ بِالۡکُفۡرِ) (۹:۱۷) جب کہ وہ اپنے آپ پر کفر کی گواہی دے رہے ہوں گے۔ میں شَاھِدِیْنَ بمعنیٰ مُقِرِّیْنَ کے ہیں یعنی کفر کا اقرار کرتے ہوئے۔ (لِمَ شَہِدۡتُّمۡ عَلَیۡنَا) (۴۱:۲۱) تم نے ہمارے خلاف کیوں شہادت دی۔ اور آیت کریمہ: (شَہِدَ اللّٰہُ اَنَّہٗ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۙ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَ اُولُوا الۡعِلۡمِ ) (۳:۱۸) خدا تو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتے اور علم والے لوگ۔ میں اﷲ تعالیٰ کے اپنی وحدانیت کی شہادت دینے سے مراد عالم اور انفس میں ایسے شواہد قائم کرنا ہے جو اس کی واحدانیت پر دلالت کرتے ہیں۔ جیساکہ شاعر نے کہا ہے۔ (2) (۲۶۸) فَفِیْ کُلِّ شِیئٍ لَہٗ اٰیَۃٌ تدل علٰی اَنَّہٗ وَاحدٌ ہر چیز کے اندر ایسے دلائل موجود ہیں جو اس کے یگانہ ہونے پر دلالت کررہے۔ بعض نے کہا ہے کہ باری تعالیٰ کے اپنی ذات کے لئے شہادت دینے سے مراد یہ ہے کہ اس نے ہر چیز کو نطق بخشا اور ان سب سے اس کی وحدانیت کا اقرار کیا۔ (اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ ؕ قَالُوۡا بَلٰی) اور فرشتوں کی شہادت سے مراد ان کا ان افعال کو سرانجام دینا ہے جن پر وہ مامور ہیں۔ جس پر کہ آیت: (فَالۡمُدَبِّرٰتِ اَمۡرًا) (۷۹:۵) پھر دنیا کے کاموں کا انتظام کرتے ہیں۔ دلالت کرتی ہے اور اُولوالعزم کی شہادت سے مراد یہ ہے کہ وہ مخلوق کے رموز و اسرار پر مطلع ہوتے اور ان کا اقرار کرتے ہیں۔ اور شہادت بایں معنیٰ اہل علم کے ساتھ ہی مخصوص ہے کیونکہ جہلاء اس قسم کی شہادت سے کوسوں دور ہیں اسی لئے کفار کے متعلق فرمایا: (مَاۤ اَشۡہَدۡتُّہُمۡ خَلۡقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ لَا خَلۡقَ اَنۡفُسِہِمۡ ) (۱۸:۵۱) میں نے ان کو نہ تو آسمان اور زمین کے پیدا کرنے کے وقت بلایا تھا اور نہ خود ان کے پیدا کرنے کے وقت۔ اور آیت کریمہ: (اِنَّمَا یَخۡشَی اللّٰہَ مِنۡ عِبَادِہِ الۡعُلَمٰٓؤُا) (۳۵:۳۸) خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں۔ میں بھی اسی معنیٰ پر تنبیہ کی ہے اور آیت: (وَ الصِّدِّیۡقِیۡنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیۡنَ) (۴:۶۹) اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ۔ میں بھی شہداء سے یہی لوگ مراد ہیں۔ شَھِیْدٌ: یہ کبھی شاہد یعنی گواہ آتا ہے۔ چنانچہ آیت: (سَآئِقٌ وَّ شَہِیۡدٌ) (۵۰:۲۱) اس کے ساتھ (ایک چلانے والا) اور ایک گواہ ہوگا۔ میں شہید بمعنیٰ گواہ ہی ہے جو اس کے لئے یا اس پر گواہی دے گا۔ اسی طرح آیت: (فَکَیۡفَ اِذَا جِئۡنَا مِنۡ کُلِّ اُمَّۃٍۭ بِشَہِیۡدٍ وَّ جِئۡنَا بِکَ عَلٰی ہٰۤؤُلَآءِ شَہِیۡدًا) (۴:۴۱) بھلا اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے احوال بتانے والے کو بلائیں گے اور تم کو لوگوں کا حال بتانے کو گواہ طلب کریں گے۔ میں بھی شہید بمعنی شاہد ہی ہے اور آیت کریمہ: (اَوۡ اَلۡقَی السَّمۡعَ وَ ہُوَ شَہِیۡدٌ ) (۵۰:۳۷) یا دل سے متوجہ ہوکر سنتا ہے۔ کے معنیٰ یہ ہیں کہ وہ جو کچھ سنتے ہیں ان کے دل اس کی شہادت دیتے ہیں بخلاف ان لوگوں کے جن کے متعلق فرمایا ہے: (اُولٰٓئِکَ یُنَادَوۡنَ مِنۡ مَّکَانٍۭ بَعِیۡدٍ) (۴۱:۴۴) ان کو (گویا) دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے۔ اور آیت کریمہ: (اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوۡکِ الشَّمۡسِ اِلٰی غَسَقِ الَّیۡلِ وَ قُرۡاٰنَ الۡفَجۡرِ ؕ اِنَّ قُرۡاٰنَ الۡفَجۡرِ کَانَ مَشۡہُوۡدًا) (۱۷:۷۸) کیونکہ صبح کے وقت … قرآن پاک کا پڑھنا موجب حضور ملائکہ ہے۔ میں قرآن پاک کے مشہود ہونے کے معنیٰ یہ ہیں کہ اس کی قرأت کرنے والے پر شفا، رحمت، توفیق، سکنیت، اور ارواح نازل ہوتی ہیں۔ جن کا کہ آیت: (وَ نُنَزِّلُ مِنَ الۡقُرۡاٰنِ مَا ہُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحۡمَۃٌ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ) (۱۷:۸۲) اور ہم قرآن پاک کے ذریعہ سے وہ کچھ نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لئے شفا اور رحمت ہے۔ میں ذکر پایا جاتا ہے۔ اور آیت: (وَ ادۡعُوۡا شُہَدَآءَکُمۡ) (۲:۲۳) اور جو تمہارے مددگار ہیں ان کو بلالو۔ میں شُھَدَاء کی تفسیر میں مختلف اقوال ہیں جن پر معنیٰ شہادت مشتمل ہے چنانچہ ابن عباس نے اس کے معنیٰ اَعْوَان یعنی مددگار کے لئے ہیں اور مجاہد ے اس کے معنیٰ یہ کئے ہیں کہ جو تمہارے حق میں گواہی دیں اور بعض نے شہداء سے وہ لوگ مراد لئے ہیں جن کے موجود ہونے کو قابل قدر اور معتبر سمجھا جائے یعنی وہ ایسے لوگ نہ ہوں جن کے متعلق کہا گیا ہے۔ (3) (البسیط) (۲۶۹) مُخْلِفُوْنَ وَیَقْضِیْ النَّاسُ اَمْرَ ھَمُوْ وَھُمْ بِغَیْبٍ وَفِیْ عَمْیَائَ مَا شَعَرُوا وہ پیچھے رہتے ہیں اور لوگ اپنے معاملات کا فیصلہ کرلیتے ہیں وہ عیرحاضر اور بے خبر ہوتے ہیں اور ان کو اس بات کا علم تک نہیں ہوتا اور آیت: (وَ نَزَعۡنَا مِنۡ کُلِّ اُمَّۃٍ شَہِیۡدًا) (۲۸:۷۵) اور ہم امت میں سے گواہ نکال لیں گے۔ میں بھی شہید کا لفظ انہی معانی پر حمل کیا گیا ہے۔ اور آیت کریمہ: (وَ اِنَّہٗ عَلٰی ذٰلِکَ لَشَہِیۡدٌ ) (۱۰۰:۷) اور وہ اس سے آگاہ بھی ہے۔ (اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ شَہِیۡدًا) (۴:۳۳) اور (حق ظاہر کرنے کو) خدا ہی کافی ہے۔ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حق تعالیٰ سے کوئی چیز مخفی نہیں ہے۔ جیساکہ فرمایا: (لَا یَخْفَی عَلَی اللَّہِ مِنْہُمْ شَیْْء ٌ) (۴۰:۱۶) اور کوئی چیز خدا سے مخفی نہیں رہے گی۔ (یَعۡلَمُ السِّرَّ وَ اَخۡفٰی) (۲۰:۷) وہ تو چھپے بھید اور پوشیدہ بات تک کو جانتا ہے۔ علیٰ ہذا القیاس متعدد آیات ایسی ہیں جو اس معنیٰ (یعنی علم باری تعالیٰ) کے محیط ہونے پر دال ہیں۔ اور قریب المرگ شخص کو بھی شہید کہا جاتا ہے کیونک ہاس کے پاس فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ چنانچہ آیت کریمہ: (تَتَنَزَّلُ عَلَیۡہِمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوۡا) (۴۱:۳۰) ان پر فرشتے اتریں گے اور کہیں گے کہ خوف نہ کرو۔ میں بھی اسی معنیٰ کی طرف اشارہ فرمایا ہے اور فرمایا: (وَ الشُّہَدَآءُ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ؕ لَہُمۡ اَجۡرُہُمۡ ) (۵۷:۱۹) اور اپنے پروردگار کے نزدیک شہید ہیں ان کے لیے ان کے اعمال کا صلہ ہوگا۔ اور شُھَدَائٌ کو شُھَداء یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ حالت نزع میں ان نعمتوں کو مشاہدہ کرلیتے ہیں جو اﷲ تعالیٰ نے ان کے لئے تیار کی ہیں اور یا اس لئے کہ ان کے ارواح باری تعالیٰ کے ہاں حاضر کئے جاتے ہیں۔ جیساکہ فرمایا: (وَ لَا تَحۡسَبَنَّ الَّذِیۡنَ قُتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَمۡوَاتًا) (۳:۱۶۹) اور جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مردہ مت سمجھنا اور آیت کریمہ: (وَ الشُّہَدَآءُ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ) (۵۷:۱۹) اور پروردگار کے نزدیک شہید ہیں۔ بھی اسی معنیٰ پر دلالت کرتی ہے اور آیت کریمہ: (وَ شَاہِدٍ وَّ مَشۡہُوۡدٍ ؕ) (۸۵:۳) اور حاضر ہونے والے کی اور جو اس کے پاس حاضر کیا جائے اس کی قسم۔ میں بعض نے کہا ہے کہ مَشْھُودٌ سے یوم جمعہ مراد ہے اور بعض نے یوم عرفہ مراد لیا ہے اور بعض نے یوم قیامت اور شَاھِدٌ سے ہر وہ شخص مراد لیا ہوسکتا جو اس روز میں حاضر ہوگا اور آیت کریمہ: (یَوۡمٌ مَّشۡہُوۡدٌ ) (۱۱:۱۰۳) (او ریہی وہ) دن ہے (جس میں خدا کے روبرو) حاضر کئے جائیں گے۔ میں مَشْھُودٌ بمعنیٰ مُشَاھِدٌ ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ وہ دن ضرور آکر رہے گا۔ اَلتَّشَھُّدُ کے معنیٰ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اﷲِ پڑھنے کے ہیں اور عرف میں تشہد کے معنیٰ اَلتَّحِیَّاتُ اور ان اذکار کے ہیں جو حالت تشہد (جسلہ) میں پڑھے جاتے ہیں۔

Lemma/Derivative

56 Results
شَهِيد
Surah:2
Verse:23
اپنے گواہوں کو / موجود لوگوں کو / حاضرین کو
your witnesses
Surah:2
Verse:133
حاضر / موجود
witnesses
Surah:2
Verse:143
گواہ
witnesses
Surah:2
Verse:143
گواہ
a witness
Surah:2
Verse:282
دو گواہ
two witnesses
Surah:2
Verse:282
گواہوں میں
[the] witnesses
Surah:2
Verse:282
گواہ
the witnesses
Surah:2
Verse:282
گواہ کو
(the) witness
Surah:3
Verse:98
گواہ ہے
(is) a Witness
Surah:3
Verse:99
گواہ ہو
(are) witnesses?