Noun

خَوْفٌ

fear

کوئی خوف / ڈر

Verb Form
Perfect Tense Imperfect Tense Imperative Active Participle Passive Participle Noun Form
خَافَ
يَخَافُ
خَفْ
خَائِف
مَخُوْف
خَوْف
Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلْخَوْفُ: (س) کے معنیٰ ہیں قرائن و شواہد سے کسی آنے والے خطرہ کا اندیشہ کرنا۔جیسا کہ رجاء اور طمع کا لفظ قرائن و شواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے خوف کی ضدامن آتی ہے۔اور یہ امور دنیوی اور اخروری دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے۔قرآن پاک میں ہے: (وَ یَرۡجُوۡنَ رَحۡمَتَہٗ وَ یَخَافُوۡنَ عَذَابَہٗ ) (۱۷۔۵۷) اور اس کی رحمت کے امیدوار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں۔ (تَتَجَافٰی جُنُوۡبُہُمۡ عَنِ الۡمَضَاجِعِ یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمۡ خَوۡفًا وَّ طَمَعًا) (۳۲۔۱۶) ان کے پہلو بچھونوں سے الگ رہتے ہیں۔ (اور) وہ اپنے پروردگار کو خوف اور امید سے پکارتے ہیں۔ (وَ اِنۡ خِفۡتُمۡ اَلَّا تُقۡسِطُوۡا) (۴۔۳) اور اگر تم کو اس بات کا خوف ہو کہ۔۔۔۔۔انصاف نہ کرسکوگے اور آیت کریمہ: (وَ اِنۡ خِفۡتُمۡ شِقَاقَ بَیۡنِہِمَا ) (۴۔۳۵) اور اگر تم کو معلوم ہو کہ میاں بیوی میں اَن بن ہے۔میں بعض نے خِِفْتُمْ کے معنیٰ عَرَفْتُمْ کئے ہیں یعنی اگر تمہیں معلوم ہومگر اس کے اصل معنیٰ یہ ہیں کہ اگر حالات سے واقفیت کی بنا پر تمہیں اندیشہ ہوکہ اَلخَوفُ مِنَ اﷲِ: (اﷲ تعالیٰ سے ڈرنے) کے یہ معنیٰ نہیں ہوتے کہ جس طرح انسان شیر کے دیکھنے سے ڈر محسوس کرتا ہے۔اسی قسم کا رعب اﷲ تعالیٰ کے تصور سے انسان کے قلب پر طاری ہوجائے بلکہ خوف الہیٰ کے معنیٰ یہ ہیں کہ انسان گناہوں سے بچتا رہے۔اور طاعات کو اختیار کرے۔اسی بناء پر کہا گیا ہے کہ جو شخص گناہ ترک نہیں کرتا وہ خائف یعنی اﷲ تعالیٰ سے ڈرنے والا نہیں ہوسکتا۔ اَلتخْوِیْفُ: (تفعیل) ڈرنا اﷲ تعالیٰ کے لوگوں کو ڈرانے کے معنیٰ یہ ہیں کہ وہ لوگوں کو برے کاموں سے بچتے رہنے کی ترغیب دیتا ہے۔اور آیت کریمہ: (ذٰلِکَ یُخَوِّفُ اللّٰہُ بِہٖ عِبَادَہٗ ) (۳۹۔۱۶) بھی اسی معنیٰ پہر محمول ہے اور باری تعالیٰ نے شیطان سے ڈرنے اور اس کی تخویف کی پرواہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔چنانچہ ارشاد ہے: (اِنَّمَا ذٰلِکُمُ الشَّیۡطٰنُ یُخَوِّفُ اَوۡلِیَآءَہٗ ۪ فَلَا تَخَافُوۡہُمۡ وَ خَافُوۡنِ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ ) (۳۔۱۷۵) یہ (خوف دلانے والا) تو شیطان ہے جو اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے لہذا اگر تم مومن ہو تو ان سے مت ڈرو اور مجھ ہی سے ڈرتے رہو۔یعنی شیطان کا حکم مت بجالاؤ بلکہ اﷲ تعالیٰ کے فرمانبردار ہوکر رہو۔اور آیت کریمہ: (وَ اِنِّیۡ خِفۡتُ الۡمَوَالِیَ مِنۡ وَّرَآءِیۡ ) (۱۹۔۵) اور میں اپنے بعد اپنے بھائی بندوں سے ڈرتا ہوں۔میں خوف کے معنیٰ یہ نہیں ہیں کہ حضرت زکریا علیہ السلام کو اپنے مال کی فکر تھی کہ موالی اس کے وارث بن جائیں گے۔جیسا کہ بعض جہلاء نے سمجھا ہے۔کیونکہ انبیاء علیہ السلام کا درجہ اس سے کہیں بلند ہوتا ہے کہ وہ دینوی مال و اسباب کی فکر کریں بلکہ موالی سے انہیں یہ اندیشہ تھا کہ وہ ان کے مرنے کے بعد شریعت کی رعایت اور نظام دین کی حفاظت نہیں کریں گے۔ اَلْخِیْفَۃُ: کے معنیٰ خوف کی حالت کے ہیں قرآن پاک میں ہے: (فَاَوۡجَسَ فِیۡ نَفۡسِہٖ خِیۡفَۃً مُّوۡسٰی ﴿۶۷﴾ قُلۡنَا لَا تَخَفۡ ) (۲۰۔۶۷) (اس وقت) موسیٰ علیہ السلام نے اپنے دل میں خوف معلوم کیا۔ اور کبھی خِیفَۃ بمعنیٰ خوف بھی آجاتا ہے جیسے فرمایا: (وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ مِنۡ خِیۡفَتِہٖ ) (۱۳۔۱۳) اور فرشتے سب اس کے خوف سے۔ (تَخَافُوۡنَہُمۡ کَخِیۡفَتِکُمۡ اَنۡفُسَکُمۡ ) (۳۰۔۲۸) اور کیا تم ان سے اس طرح ڈرتے رہو جس طرح اپنوں سے ڈرتے ہو۔یہاں خوف کی بجائے خیفۃ کا لفظ لانے سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کی حالت لازمہ بن چکی تھی جو ان پر ہر آن طاری رہتی تھی۔ اَلتَّخوُّفُ: (تفعل) کسی انسان کا اظہار خوف کرنا۔ تَخَوَّفْنَاھُمْ: ہم نے انہیں اتنا کم کیا جس قدر کہ خوف اس کا مقضی تھا۔قرآن پاک میں ہے: (اَوۡ یَاۡخُذَہُمۡ عَلٰی تَخَوُّفٍ ) (۱۶۔۴۷) یا جب ان کو عذاب کا ڈر پیدا ہوگیا ہو اس وقت پکڑے۔ (1)

Lemma/Derivative

26 Results
خَوْف
Surah:2
Verse:38
کوئی خوف / ڈر
fear
Surah:2
Verse:62
کوئی خوف
fear
Surah:2
Verse:112
کوئی خوف
fear
Surah:2
Verse:155
(یعنی) خوف سے
[the] fear
Surah:2
Verse:262
کوئی خوف ہوگا
fear
Surah:2
Verse:274
کوئی خوف ہوگا
fear
Surah:2
Verse:277
کوئی خوف ہوگا
fear
Surah:3
Verse:170
کوئی خوف
fear
Surah:4
Verse:83
خوف میں سے
[the] fear
Surah:5
Verse:69
کوئی خوف
fear