Perfect Tense | Imperfect Tense | Imperative | Active Participle | Passive Participle | Noun Form |
نِسِيَ |
يَنْسٰى |
اِنْسَ |
نَاسٍ |
مَنْسِىّ |
نِسْيَان |
اَلنِّسْیَانُ یہ نَسِیْتُہٗ نِسْیَاناَ کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کوضبط میں نہ رکھنے کے ہیں خواہ یہ ترک ضبط ضعف قلب کی وجہ سے ہو یا ازراہ غفلت ہو یا قصداً کسی چیز کی یاد بھلا دی جائے حتیٰ کہ وہ دل سے محو ہوجائے۔قرآن پاک میں ہے:۔ (وَ لَقَدۡ عَہِدۡنَاۤ اِلٰۤی اٰدَمَ مِنۡ قَبۡلُ فَنَسِیَ وَ لَمۡ نَجِدۡ لَہٗ عَزۡمًا) (۲۰۔۱۱۵) ہم نے پہلے آدم علیہ السلام سے عہد لیا تھا مگر وہ اسے بھول گئے اور ہم نے ان میں صبر و ثبات نہ دیکھا۔ (فَذُوۡقُوۡا بِمَا نَسِیۡتُمۡ ) (۳۲۔۱۴) سو اب آگ کے مزے چکھو۔اس لئے کہ تم نے اس دن کے آنے کو بھلا رکھا تھا۔ (فَاِنِّیۡ نَسِیۡتُ الۡحُوۡتَ ۫ وَ مَاۤ اَنۡسٰنِیۡہُ اِلَّا الشَّیۡطٰنُ ) (۱۸۔۶۳) تو میں مچھلی وہیں بھول گیا اورمجھے آپ سے اس کا ذکر کرنا شیطان سے بھلادیا۔ (لَا تُؤَاخِذۡنِیۡ بِمَا نَسِیۡتُ ) (۱۸۔۷۳) کہ جو بھول مجھ سے ہوئی اس پر مواخذہ نہ کیجیے۔ (فَنَسُوۡا حَظًّا مِّمَّا ذُکِّرُوۡا بِہٖ) (۵۔۱۴) مگر انہون نے بھی اس نصیحت کو جو ان کو کی گئی تھی ایک حصہ فراموش کردیا۔ (ثُمَّ اِذَا خَوَّلَہٗ نِعۡمَۃً مِّنۡہُ نَسِیَ مَا کَانَ یَدۡعُوۡۤا اِلَیۡہِ مِنۡ قَبۡلُ ) (۳۹۔۸) پھر جب وہ اس کو اپنی طرف سے کوئی نعمت دے دیتا ہے تو جس کام کے لئے پہلے اسکو پکارتا ہے اسے بھول جاتا ہے اور آیت (سَنُقۡرِئُکَ فَلَا تَنۡسٰۤی ۙ) (۸۷۔۶) ہم تمہیں پڑھائیں گے۔کہ تم فراموش نہ کروگے۔میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ اﷲ تعالیٰ تجھے ایسا بنادے گا کہ جو کچھ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے سنوگے اسے بھولنے نہیں پاؤگے۔پھر ہر وہ نسیان جو انسان کے قصد اور ارادہ سے ہو وہ مذموم ہے اور جو بغیر قصد اور ارادہ کے ہو اس میں انسان معذور ہے اور حدیث میں جو مروی ہے۔ (1) (۱۲۸) ۔ (رُفِعَ عَنْ اُمَّتِیْ الْخَطَأُ وَالنِّسْیَانُ) کہ میری امت کو خطاب اور نسیان معاف ہے تو اس سے یہی دوسری قسم کا نسیان مراد ہے یعنی وہ جس میں انسان کے ارادہ کو دخل نہ ہو۔اور آیت کریمہ:۔ (فَذُوۡقُوۡا بِمَا نَسِیۡتُمۡ لِقَآءَ یَوۡمِکُمۡ ہٰذَا ۚ اِنَّا نَسِیۡنٰکُمۡ ) (۳۲۔۱۴) سو اب آگ کے مزے چکھو اس لئے کہ تم نے اس دن کے آنے کو بھلا رکھا تھا۔میں نسیان بمعنی اول ہے یعنی وہ جس میں انسان کے قصد اور ارادہ کو دخل ہو اور کسی چیز کو حقیر سمجھ کر اسے چھوڑدیا جائے۔پھر جب نسیان کی نسبت اﷲ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس سے ازارہِ اہانت انسان کو چھوڑدینے اور احکام الہیٰ کے ترک کرنے کی وجہ سے اسے سزا دینے کے معنی مراد ہوتے ہیں چنانچہ قرآن پاک میں ہے:۔ (فَالۡیَوۡمَ نَنۡسٰہُمۡ کَمَا نَسُوۡا لِقَآءَ یَوۡمِہِمۡ ہٰذَا) (۷۔۵۱) تو جس طرح یہ لوگ اس دن کے آنے کو بھولے ہوئے تھے اس طرح آج ہم بھی انہیں بھلادیں گے۔ (نَسُوا اللّٰہَ فَنَسِیَہُمۡ) (۹۔۶۷) انہوں نے خدا کو بھلایا تو خدا نے بھی ان کو بھلادیا۔ (وَ لَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ نَسُوا اللّٰہَ فَاَنۡسٰہُمۡ اَنۡفُسَہُمۡ) (۵۹۔۱۹) اور ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے خدا کو بھلادیا تو خدا نے انہیں ایسا کردیا کہ خود اپنے تئیں بھول گئے۔میں متنبہ کیا ہے کہ انسان اپنے نفس کی معرفت حاصل کرنے سے ہی معرفت الہیٰ حاصل کرسکتا ہے لہذا انسان کا اﷲ تعالیٰ کو بھلادینا خود اپنے آپ کو بھلادینے کے مترادف ہے اور آیت کریمہ: (وَ اذۡکُرۡ رَّبَّکَ اِذَا نَسِیۡتَ ) (۱۸۔۲۴) اور جب خدا کا نام لینا بھول جاؤتو یاد آنے پر لے لو کے ابن عباسؓ نے یہ معنی کیے ہیں کہ جب تم کوئی بات کہو اور اس کے ساتھ انشاء اﷲ کہنا بھول جاؤ تو یاد آنے پر انشاء اﷲ کہہ لیا کرو۔اسی لئے ابن عباسؓ کے نزدیک حلف میں کچھ مدت کے بعد بھی انشاء اﷲ کہنا جائز ہے اور عکرمہ رحمہ اﷲ نے کہا ہے کہ نَسِیْتَ بمعنی اِرْتَکَبْتَ ذَنْبَا کے ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ جب تمہیں کسی گناہ کے ارتکاب کا خیال آئے تو اس وسوسہ کو دفع کرنے کیلئے خدا کے ذکر میں مشغول ہوجایا کرو تاکہ وہ وسوسہ دفع ہوجائے۔ (2) النِّسْیُ کے اصل معنی مَایُنْسٰی یعنی فراموش شدہ چیز کے ہیں جیسے نِقْضٌ بمعنی مَایُنْقَضُ آتا ہے مگر عرف میں نِسْیٌ اس معمولی چیز کو کہتے ہیں جو درخور اعتنا، نہ سمجھی جائے اور اسی سے اہل عرب کا مقولہ ہے اِحْفَظُوْا اَنْسَائَ کُمْ (کوچ کے وقت اپنی) معمولی چیزوں کا خیال رکھو جو عموماً بھول جاتی ہیں۔شاعر نے کہا ہے (3) (الطویل) (۴۲۳) کَانَّ لَہٗ فِیْ الْاَرْضِ نِسْیَا تَقُصُّہٗ۔ گویا زمین میں اس کی کوئی چیز گری ہوئی ہے جسے وہ تلاش کررہا ہے اور آیت کریمہ: (وَ کُنۡتُ نَسۡیًا مَّنۡسِیًّا) (۱۹۔۲۳) اور میں بھولی بسری ہوگئی ہوتی۔میں نَسْیَا کے معنی ہیں کہ میں اس حقیر چیز کے بمنزلہ ہوتی جس کی طرف کوئی دھیان نہیں دیتا اگرچہ وہ بھولی ہوئی نہ ہو پھر بھولی بسری ہوئی چیز کے معنی کو ظاہر کرنے کیلئے مَنْسِیَّا کا لفظ لایا گیا ہے کیونکہ نَسْیٌ کے معنی اس معمولی چیز کے ہیں جو درخور اعتنا نہ ہو اور اس کا فراموش ہونا ضروری ہے۔اور ایک قرآت میں نَسِیَّا ہے جو کہ مصدر بمعنی مفعول کے ہیں جیسے عَصٰ عَصِیَّا وَّصْیَانَا اور آیت کریمہ:۔ (مَا نَنۡسَخۡ مِنۡ اٰیَۃٍ اَوۡ نُنۡسِہَا) (۲۔۱۰۶) ہم جس آیت کو منسوخ کردیتے ہیں یا فراموش کردیتے ہیں میں اِنْسَا کے معنی قوت الہیہ کے ذریعہ دلوں سے محو کرنے اور فراموش کرادینے کے ہیں۔ اَلنِّسَآئُ وَالنِّسْوَانُ وَالنِّسْوَۃُ:یہ تینوں اِمْرَرَۃٌ کی جمع مِنْ غَیْرِ لَفْظِہ ہیں جیسے مَرْئٌ کی جمع قوم آجاتی ہے۔چنانچہ قرآن پاک میں ہے:۔ (لَا یَسۡخَرۡ قَوۡمٌ مِّنۡ قَوۡمٍ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُوۡنُوۡا خَیۡرًا مِّنۡہُمۡ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنۡ نِّسَآءٍ ) (۴۹۔۱۱) اور نہ عورتیں عورتوں سے تمسخر کریں۔ (نِسَآؤُکُمۡ حَرۡثٌ لَّکُمۡ ) (۲۔۲۲۳) تمہاری عورتیں تمہاری کھیتی ہے۔ (یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ ) (۳۳۔۳۰) اے پیغمبر کی بیویو! (وَ قَالَ نِسۡوَۃٌ فِی الۡمَدِیۡنَۃِ ) (۱۲۔۳۰) اور شہر میں عورتیں گفتگوئیں کرنے لگیں۔ (مَا بَالُ النِّسۡوَۃِ الّٰتِیۡ قَطَّعۡنَ اَیۡدِیَہُنَّ) (۱۲۔۵۰) کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے۔اَلنَّسَا (عرق النساء) ایک رگ کا نام ہے اسکا تثنیہ نَسَیَانِ اور جمع اَنْسَائٌ آتی ہے۔
Surah:2Verse:44 |
اورتم بھول جاتے ہو
and you forget
|
|
Surah:2Verse:237 |
تم بھولو
forget
|
|
Surah:2Verse:286 |
ہم بھول جائیں
we forget
|
|
Surah:5Verse:13 |
اور وہ بھول گئے ہیں
and forgot
|
|
Surah:5Verse:14 |
تو وہ بھول گئے
but they forgot
|
|
Surah:6Verse:41 |
اور تم بھول جاتے ہو
and you will forget
|
|
Surah:6Verse:44 |
وہ بھول گئے
they forgot
|
|
Surah:7Verse:51 |
ہم بھلادیں گے ان کو
We forget them
|
|
Surah:7Verse:51 |
وہ بھول گئے تھے
they forgot
|
|
Surah:7Verse:53 |
وہ بھول گئے تھے اس کو
had forgotten it
|