Perfect Tense | Imperfect Tense | Imperative | Active Participle | Passive Participle | Noun Form |
ثَنَى |
يَثْنِي |
اِثْنِ |
ثانٍ |
مَثْنِىّ |
ثَنْي |
اَلثِّنْیُ وَالْاِثْنَانُ: یہ دونوں ان تمام کلمات کیاصل ہیں جو اس مادہ سے بنتے ہیں یہ کبھی معنی عدو کے اعتبار سے استعمال ہوتے ہیں اور کبھی تکرار معنی کے لحاظ سے جو ان کے اصل مادہ میں پایا جاتا ہے اور کبھی ان میں عدد و تکرار دونوں ملحوظ ہوتے ہیں۔ قرآن پاک میں ہے: (ثَانِیَ اثۡنَیۡنِ ) (۹:۴۰) دو میں دوسرا۔ (اثۡنَتَاعَشۡرَۃَ عَیۡنًا) (۲:۶۰) بارہ چشمے۔ مَثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبَاعَ (۴:۳) دو دو یا تین تین یا چار چار۔ کہا جاتا ہے: ثَنَّیَتُہٗ تَثْنِیَۃً: میں دوسرا تھا، میں نے اس کا نصف مال لے لیا۔ ایک چیز کے ساتھ دوسری چیز کو ملا کر دینا۔ اَلثِنٰی: جس کا دو مرتبہ اعادہ ہو حدیث میں ہے: (1) لاَثِنٰی فِی الصَّدَقَۃِ … یعنی صدقہ سے سال میں دو مرتبہ نہ لیا جائے۔ شاعر نے کہا ہے(2) (طویل) (۸۲) لَقَد کَانَتْ مَلامتھا ثِنٰی ’’بے شک اس نے باربار ملامت کی۔‘‘ اِمْرَئَ ۃٌ ثنِیٌ: جس عورت نے دو بچے جنے ہوں اس دوسرے بچہ کو ثِنیٌ کہا جاتا ہے۔ حَلَفَ یَمِیْنًا فِیْھَا ثِنْیٌ وَثَنْویٰ وَثَنِیَّۃٌ وَمَثْنَوِیَّۃٌ اس نے استثناء کے ساتھ قسم اٹھائی۔ ثَنَا (ض) ثَنْیَا۔ اَلشَّیئَ کسی چیز کو موڑنا، دوہرا کرنا لپیٹنا قرآن پاک میں ہے: (اَلَاۤ اِنَّہُمۡ یَثۡنُوۡنَ صُدُوۡرَہُمۡ ) (۱۱:۵) دیکھو یہ اپنے سینوں کو دوہرا کرتے ہیں۔ حضرت ابن عباسؓ کی قرأت یَثْنَوْنٰی صُدْوْرَھُم ہے۔ جو اِثْنَوْنَیْتُ کا مضارع ہے۔ (3) اور آیت کریمہ: (ثَانِیَ عِطۡفِہٖ ) (۲۲:۹) (اور تکبر سے) گردن موڑ لیتا ہے۔ میں گردن موڑنے سے مراد تکبر اور اعراض کرنا ہے جیساکہ لَویٰ شِدْقَہٗ وَنَأی بِجَانبہٖ کا محاورہ ہے۔ اَلثِّنْیُ (ایضًا بکری) جو دوسرے سال میں داخل ہو (اونٹ) جس کے ثنیہ دانت گرگئے ہوں اور اس معنی میں فعل اَثْنٰی ہے۔ ثَنَیْتُ الشَّیْئَ اَثْنِیْہِ۔ کسی کو ثنایین رسی کے ساتھ باندھنا۔ یہ غیر مہموز ہے بعض نے اس کے غیر مہموز ہونے کی یہ وجہ بیان کی ہے کہ یہ کلمہ تثنیہ ہی استعمال ہوتا ہے اور اس کا واحد ثنائٌ نہیں بولا جاتا۔ (4) اَلْمُثَنَّاۃُ: دوسری رسی۔ الثُّنْیَان: سادات کے شمرا کے وقت دوسرے درجہ کا سردار۔ ثنْیَۃٌ فروما یہ محاورہ ہے۔ فُلانٌ ثِنْیَۃُ اَھْلِ بَیْتِہٖ فلاں اپنے اہل میں ثنیہ یعنی سب سے کم مرتبہ یہ۔ ثِنِیَّۃٌ: وہ پہاڑ جسے عبور کرتے وقت اوپر چڑھنا اور نیچے اترنا پڑے گویا دوہرا سفر کرنا پڑ رہا ہے، شکل و صورت اور صلابت کے لحاظ سے پہاڑ کے ساتھ تشبیہ دے کر سامنے کے چار دانت (دوازفوق دوازتحت) میں سے ہر ایک کو ثنیَّۃ کہا جاتا ہے،(جمع ثنایا) ۔ اَلثَّنْیَا: (من الجزور) ذبح کیے گئے اونٹ کا سر او رصلب جو قصاب اپنے لیے مستثنیٰ کرلیتا ہے۔ (5) اور ان کو ثُنْویٰ بھی کہا جاتا ہے۔ اَلثَّنَائُ: کے معنی باربار کسی کی خوبیاں بیان کرنے کے ہیں اور اَثْنٰی عَلَیْہِ کے معنی کسی کی ثنا کرنے کے ہیں۔ تَثَنّٰی (تفعل) فِیْ مِشْیَتِہٖ: تکبر سے لڑکھڑا کر چلنا۔ اور آیت کریمہ: (وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنٰکَ سَبۡعًا مِّنَ الۡمَثَانِیۡ ) (۱۵:۸۷) اور ہم نے آپ کو سات مثانی (سورتیں) عطا کیں۔ میں قرآن کی سورتوں کو مثانی کہا ہے۔ (6) کیونکہ مرور ایام کے ساتھ باربار ان کا ذکر اور اعادہ ہوتا رہے گا۔ لیکن زمانہ کے گزرنے کے ساتھ نہ تو ان میں کسی قسم کا تغیر آئے گا اور نہ ہی دوسری اشیاء کی طرح یہ زوال پذیر ہیں۔ اسی بنا پر فرمایا: (اَللّٰہُ نَزَّلَ اَحۡسَنَ الۡحَدِیۡثِ کِتٰبًا مُّتَشَابِہًا ) (۳۹:۲۳) خدا نے نہایت اچھی باتیں نازل فرمائی ہیں (یعنی) کتاب (جس کی آیتیں باہم) ملتی جلتی (ہیں) اور دوہرائی جاتی ہیں۔ اور قرآن پاک کو مثانی کہنے کی یہ وجہ بھی ہوسکتی ہے کہ باربار اعادہ سے اس کے عجائب و غرائب منقطع نہیں ہوتے اور ہر بار نئے حقائق سامنے آتے ہیں۔ جیساکہ اس کے وصف میں ایک روایت مروی ہے۔ (7) (۵۳) لَایُعوَجُّ فَیَقَوَّمُ وَلَا یَزِیْغُ فَیُسْتَعْتَبُ وَلَا تَنْقَضِیْ عَجَائِبُہٗ۔ کہ اس میں کجی نہیں آئے گی کہ اسے سیدھا کرنے کی ضرورت پیش آئے او رنہ اس میں زیغ پیدا ہوگا کہ اس کا ازالہ کرنا پڑے اور اس کے عجائب و غرائب کبھی منقطع نہیں ہوں گے۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مَثَانِیْ ثناء سے مشتق ہو تو اس سے اس امر پر متنبہ کیا ہے کہ قرآنِ پاک سے ہمیشہ ایسے مضامین ظاہر ہوتے رہیں گے جو اس کی، اس کو پڑھنے والوں، اس کا علم حاصل کرنے والوں اور اس پر عمل کرنے والوں کی تعریف کا موجب ہوں گے اور اسی معنی میں قرآن پاک کو آیت: (اِنَّہٗ لَقُرۡاٰنٌ کَرِیۡمٌ ) (۵۶:۷۷) کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے۔ میں کرم کے ساتھ متصف کیا ہے اور آیت: (بَلۡ ہُوَ قُرۡاٰنٌ مَّجِیۡدٌ ) (۸۵:۲۱) بلکہ یہ قرآن عظیم الشان ہے۔ اس کے وصف میں مجید کا لفظ ذکر کیا ہے۔ اَلْاِسْتِثْنَاء کے معنی کلام میں ایسا لفظ لانے کے ہیں جو پہلے عام حکم سے بعض افراد کی تخصیص یا اس عام حکم کے کلیۃ مرتفع ہونے کا فائدہ دے، چنانچہ عموم حکم سے بعض افراد کی تخصیص کے متعلق فرمایا: (قُلۡ لَّاۤ اَجِدُ فِیۡ مَاۤ اُوۡحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلٰی طَاعِمٍ یَّطۡعَمُہٗۤ اِلَّاۤ اَنۡ یَّکُوۡنَ مَیۡتَۃً) (۶:۱۴۵) کہو کہ جو احکام مجھ پر نازل ہوئے ہیں، میں ان میں کوئی چیز جسے کھانے والا کھائے، حرام نہیں پاتا بجز اس کے کہ وہ مرا ہوا جانور ہو۔ اور پہلے کلام کی کلیۃ نفی جیسے: وَاﷲِ لَاَفْعَلَنَّ کَذَا اِنْ شَآئَ اﷲُ: میں یہ کام ضرور کروں گا ان شاء اﷲ۔ اِمْرَئَ تُہٗ طَالِقٌ اِنْ شَآءؒ اﷲُ: اس کی عورت کو طلاق ہے، ان شاء اﷲ۔ عَبْدُہٗ عَتِیْقٌ اِنْ شَائَ اﷲ۔ اس کا غلام آزاد ہے، ان شاء اﷲ۔ اور آیت کریمہ: (اِذۡ اَقۡسَمُوۡا لَیَصۡرِمُنَّہَا مُصۡبِحِیۡنَ … وَ لَا یَسۡتَثۡنُوۡنَ ) (۶۸:۱۷،۱۸) جب انہوں نے قسمیں کھاکھا کر کہا کہ صبح ہوتے ہی ہم اس کا میوہ توڑ لیں گے۔ اور ان شاء اﷲ نہ کہا۔ میں وَلَایَسْتَثْنُوْنَ سے بھی یہی مراد ہیں۔
Surah:2Verse:60 |
دو
(of)
|
|
Surah:4Verse:11 |
دو سے اوپر
two
|
|
Surah:4Verse:176 |
دو بہنیں
two females
|
|
Surah:7Verse:160 |
دو ۔
(into) two
|
|
Surah:7Verse:160 |
دو ۔
two
|
|
Surah:40Verse:11 |
دو بار
twice
|
|
Surah:40Verse:11 |
دو بار
twice
|