Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 66

سورة البقرة

فَجَعَلۡنٰہَا نَکَالًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡہَا وَ مَا خَلۡفَہَا وَ مَوۡعِظَۃً لِّلۡمُتَّقِیۡنَ ﴿۶۶﴾

And We made it a deterrent punishment for those who were present and those who succeeded [them] and a lesson for those who fear Allah .

اسے ہم نے اگلوں پچھلوں کے لئے عبرت کا سبب بنا دیا اور پرہیزگاروں کے لئے وعظ و نصیحت کا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَجَعَلْنَاهَا نَكَالاً ... So We made this punishment an example, means, Allah made the people of this village, who violated the sanctity of the Sabbath, نَكَالاً (an example) via the way they were punished. Similarly, Allah said about Pharaoh, فَأَخَذَهُ اللَّهُ نَكَالَ الاٌّخِرَةِ وَالاٍّوْلَى So Allah, seized him with punishing example for his last and first transgression. (79:25) Allah's statement, ... لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهَا وَمَا خَلْفَهَا ... for those in front of it and those behind it, meaning, for the other villages. Ibn Abbas commented, "Meaning, `We made this village an example for the villages around it by the manner in which We punished its people."' Similarly, Allah said, وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا مَا حَوْلَكُمْ مِّنَ الْقُرَى وَصَرَّفْنَا الاٌّيَـتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ And indeed We have destroyed towns (populations) round about you, and We have (repeatedly) shown (them) the Ayat (proofs, evidences, verses, lessons, signs, revelations, etc.) in various ways that they might return (to the truth and believe in the Oneness of Allah ـ Islamic Monotheism).(46:27) Therefore, Allah made them an example for those who lived during their time as well as a reminder for those to come, by preserving their story. This is why Allah said, ... وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِينَ and a lesson for Al-Muttaqin (the pious), meaning, a reminder. This Ayah means, "The torment and punishment that this village suffered was a result of indulging in Allah's prohibitions and their deceit. Hence, those who have Taqwa should be aware of their evil behavior, so that what occurred to this village does not befall them as well." Also, Imam Abu Abdullah bin Battah reported that Abu Hurayrah said that the Messenger of Allah said, لاَا تَرْتَكِبُوا مَا ارْتَكَبَتِ الْيَهُودُ فَتَسْتَحِلُّوا مَحَارِمَ اللهِ بِأَدْنَى الْحِيَل Do not commit what the Jews committed, breaching what Allah has forbidden, by resorting to the lowest types of deceit. This Hadith has a good (Jayid) chain of narration. Allah knows best.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اللہ تعالیٰ نے یہ واقعہ اس وقت کے لوگوں کے لیے اور بعد میں آنے والوں کے لیے باعث عبرت بنادیا۔ ڈرنے والوں کے لیے نصیحت میں یہ بھی شامل ہے کہ امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنی اسرائیل کی ان نافرمانیوں اور ان پر ملنے والی سزاؤں کو دیکھ کر نصیحت حاصل کرے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَجَــعَلْنٰھَا نَكَالًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْہَا وَمَا خَلْفَہَا وَمَوْعِظَۃً لِّلْمُتَّقِيْنَ۝ ٦٦ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ نكل يقال : نَكَلَ عَنِ الشَّيْءِ : ضَعُفَ وعَجَزَ ونَكَلْتُهُ : قَيَّدْتُهُ ، والنِّكْلُ : قَيْدُ الدَّابَّةِ ، وحدیدةُ اللِّجَامِ ، لکونهما مانِعَيْنِ ، والجمْعُ : الأَنْكَالُ. قال تعالی: إِنَّ لَدَيْنا أَنْكالًا وَجَحِيماً [ المزمل/ 12] ونَكَّلْتُ به : إذا فَعَلْتُ به ما يُنَكَّلُ به غيرُه، واسم ذلک الفعل نَكَالٌ. قال تعالی: فَجَعَلْناها نَكالًا لِما بَيْنَ يَدَيْها وَما خَلْفَها[ البقرة/ 66] ، وقال : جَزاءً بِما كَسَبا نَكالًا مِنَ اللَّهِ [ المائدة/ 38] وفي الحدیث : «إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ النَّكَلَ عَلَى النَّكَلِ» أي : الرَّجُلَ القَوِيَّ عَلَى الفَرَسِ القَوِيِّ. ( ن ک ل ) نکل عن الشئی ۔ کسی کام سے کمزور اور عاجز ہوجانا ۔ نکلتہ ۔ کسی کے پاوں میں بیڑیاں ڈال دینا ۔ اور نکل ۔ جانور کی بیڑی اور لگام کے لوہے کو کہتے ہیں ۔ کیوں کہ یہ بھی چلنے سے مانع ہوتے ہیں ۔ اس کی جمع انکال ہے ۔ قرآن پاک میں ہے :إِنَّ لَدَيْنا أَنْكالًا وَجَحِيماً [ المزمل/ 12] کچھ شک نہیں کہ ہمارے پاس بیڑیاں ہیں اور بھڑکتی آگ ہی ۔ نکلتہ ۔ کسی کو عبرت ناک سزا دینا ۔ اس سے اسم نکال سے ۔ جس کے معنی عبرت ناک سزا کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : فَجَعَلْناها نَكالًا لِما بَيْنَ يَدَيْها وَما خَلْفَها[ البقرة/ 66] اور اس قصے کو اس وقت کے لوگوں کے لئے اور جوان کے بعد آنے والے تھے ۔ عبرت بنادیا ۔ جَزاءً بِما كَسَبا نَكالًا مِنَ اللَّهِ [ المائدة/ 38] ان کے فعلوں کی سزا اور خدا کی طرف سے عبرت ہے ۔ اور حدیث میں ہے (133) ان اللہ یحب النکل علی النکل کہ قوی آدمی جو طاقت ور گھوڑے پر سوار ہو اللہ تعالیٰ کو پیارا لگتا ہے ۔ «بَيْن»يدي و «بَيْن» يستعمل تارة اسما وتارة ظرفا، فمن قرأ : بينكم [ الأنعام/ 94] ، جعله اسما، ومن قرأ : بَيْنَكُمْ جعله ظرفا غير متمکن وترکه مفتوحا، فمن الظرف قوله : لا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ الحجرات/ 1] ، وقوله : فَقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْواكُمْ صَدَقَةً [ المجادلة/ 12] ، فَاحْكُمْ بَيْنَنا بِالْحَقِّ [ ص/ 22] ، وقوله تعالی: فَلَمَّا بَلَغا مَجْمَعَ بَيْنِهِما [ الكهف/ 61] ، فيجوز أن يكون مصدرا، أي : موضع المفترق . وَإِنْ كانَ مِنْ قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِيثاقٌ [ النساء/ 92] . ولا يستعمل «بين» إلا فيما کان له مسافة، نحو : بين البلدین، أو له عدد ما اثنان فصاعدا نحو : الرجلین، وبین القوم، ولا يضاف إلى ما يقتضي معنی الوحدة إلا إذا کرّر، نحو : وَمِنْ بَيْنِنا وَبَيْنِكَ حِجابٌ [ فصلت/ 5] ، فَاجْعَلْ بَيْنَنا وَبَيْنَكَ مَوْعِداً [ طه/ 58] ، ويقال : هذا الشیء بين يديك، أي : متقدما لك، ويقال : هو بين يديك أي : قریب منك، وعلی هذا قوله : ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ [ الأعراف/ 17] ، ولَهُ ما بَيْنَ أَيْدِينا وَما خَلْفَنا [ مریم/ 64] ، وَجَعَلْنا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا [يس/ 9] ، مُصَدِّقاً لِما بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْراةِ [ المائدة/ 46] ، أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص/ 8] ، أي : من جملتنا، وقوله : وَقالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَنْ نُؤْمِنَ بِهذَا الْقُرْآنِ وَلا بِالَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ [ سبأ/ 31] ، أي : متقدّما له من الإنجیل ونحوه، وقوله : فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذاتَ بَيْنِكُمْ [ الأنفال/ 1] ، أي : راعوا الأحوال التي تجمعکم من القرابة والوصلة والمودة . ويزاد في بين «ما» أو الألف، فيجعل بمنزلة «حين» ، نحو : بَيْنَمَا زيد يفعل کذا، وبَيْنَا يفعل کذا، بین کا لفظ یا تو وہاں استعمال ہوتا ہے ۔ جہاں مسافت پائی جائے جیسے ( دو شہروں کے درمیان ) یا جہاں دو یا دو سے زیادہ چیزیں موجود ہوں جیسے اور واھد کی طرف مضاف ہونے کی صورت میں بین کو مکرر لانا ضروری ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَمِنْ بَيْنِنا وَبَيْنِكَ حِجابٌ [ فصلت/ 5] اور ہمارے اور تمہارے درمیان پردہ ہے فَاجْعَلْ بَيْنَنا وَبَيْنَكَ مَوْعِداً [ طه/ 58] ۔ تو ہمارے اور اپنے درمیان ایک وقت مقرر کرلو ۔ اور کہا جاتا ہے : / یعنی یہ چیز تیرے قریب اور سامنے ہے ۔ اسی معنی میں فرمایا : ۔ ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ [ الأعراف/ 17] پھر ان کے آگے ۔۔۔۔۔ ( غرض ہر طرف سے ) آؤنگا ۔ ولَهُ ما بَيْنَ أَيْدِينا وَما خَلْفَنا [ مریم/ 64] جو کچھ ہمارے آگے ہے اور جو پیچھے ۔۔۔ سب اسی کا ہے ۔ وَجَعَلْنا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا [يس/ 9] اور ہم نے ان کے آگے بھی دیوار بنادی ۔ اور ان کے پیچھے بھی ۔ مُصَدِّقاً لِما بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْراةِ [ المائدة/ 46] جو اپنے سے پہلے کی کتاب تورات کی تصدیق کرتے تھے ۔ أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص/ 8] کیا ہم سب میں سے اسی نصیحت ۃ ( کی کتاب ) اتری ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَقالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَنْ نُؤْمِنَ بِهذَا الْقُرْآنِ وَلا بِالَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ [ سبأ/ 31] اور جو کافر ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نہ تو اس قرآن کو مانیں گے اور نہ ان کتابوں ) کو جو اس سے پہلے کی ہیں ۔ میں سے انجیل اور دیگر کتب سماویہ مراد ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذاتَ بَيْنِكُمْ [ الأنفال/ 1] خدا سے ڈرو اور آپس میں صلح رکھو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ صلہ رحمی ، قرابت ، دوستی وغیرہ باہمی رشتوں کا لحاظ کرد جو باہم تم سب کے درمیان مشترک ہیں اور بین کے م، ابعد یا الف کا اضافہ کرکے حین کے معنی میں استعمال کرلینے ہیں خلف ( پیچھے ) خَلْفُ : ضدّ القُدَّام، قال تعالی: يَعْلَمُ ما بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَما خَلْفَهُمْ [ البقرة/ 255] ، وقال تعالی: لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد/ 11] ( خ ل ف ) خلف ( پیچھے ) یہ قدام کی ضد ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ يَعْلَمُ ما بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَما خَلْفَهُمْ [ البقرة/ 255] جو کچھ ان کے روبرو ہو راہا ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہوچکا ہے اسے سب معلوم ہے ۔ لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد/ 11] اس کے آگے پیچھے خدا کے جو کیدار ہیں ۔ وعظ الوَعْظُ : زجر مقترن بتخویف . قال الخلیل . هو التّذكير بالخیر فيما يرقّ له القلب، والعِظَةُ والمَوْعِظَةُ : الاسم . قال تعالی: يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [ النحل/ 90] ( و ع ظ ) الوعظ کے معنی ایسی زجر تو بیخ کے ہیں جس میں خوف کی آمیزش ہو خلیل نے اس کے معنی کئے ہیں خیر کا اس طرح تذکرہ کرنا جس سے دل میں رقت پیدا ہوا عظۃ وموعضۃ دونوں اسم ہیں قرآن میں ہے : ۔ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [ النحل/ 90] نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاد رکھو ۔ تَّقْوَى والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، ثمّ يسمّى الخوف تارة تَقْوًى، والتَّقْوَى خوفاً حسب تسمية مقتضی الشیء بمقتضيه والمقتضي بمقتضاه، وصار التَّقْوَى في تعارف الشّرع حفظ النّفس عمّا يؤثم، وذلک بترک المحظور، ويتمّ ذلک بترک بعض المباحات لما روي : «الحلال بيّن، والحرام بيّن، ومن رتع حول الحمی فحقیق أن يقع فيه» قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] ، إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا [ النحل/ 128] ، وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر/ 73] ولجعل التَّقْوَى منازل قال : وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة/ 281] ، واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء/ 1] ، وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ [ النور/ 52] ، وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسائَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحامَ [ النساء/ 1] ، اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران/ 102] . و تخصیص کلّ واحد من هذه الألفاظ له ما بعد هذا الکتاب . ويقال : اتَّقَى فلانٌ بکذا : إذا جعله وِقَايَةً لنفسه، وقوله : أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 24] تنبيه علی شدّة ما ينالهم، وأنّ أجدر شيء يَتَّقُونَ به من العذاب يوم القیامة هو وجوههم، فصار ذلک کقوله : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم/ 50] ، يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر/ 48] . التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز سے بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ جس طرح کہ سبب بول کر مسبب اور مسبب بولکر سبب مراد لیا جاتا ہے اور اصطلاح شریعت میں نفس کو ہر اس چیز سے بچا نیکا نام تقوی ہے جو گناہوں کا موجب ہو ۔ اور یہ بات محظو رات شرعیہ کے ترک کرنے سے حاصل ہوجاتی ہے مگر اس میں درجہ کمال حاصل کرنے کے لئے بعض مباحات کو بھی ترک کرنا پڑتا ہے ۔ چناچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے ۔ ( 149 ) الحلال بین واحرام بین ومن وقع حول الحمی فحقیق ان یقع فیہ کہ حلال بھی بین ہے اور حرام بھی بین ہے اور جو شخص چراگاہ کے اردگرد چرائے گا تو ہوسکتا ہے کہ وہ اس میں داخل ہوجائے ( یعنی مشتبہ چیزیں اگرچہ درجہ اباحت میں ہوتی ہیں لیکن ورع کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں بھی چھوڑ دایا جائے ) قرآن پاک میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا[ النحل/ 128] کچھ شک نہیں کہ جو پرہیز گار ہیں اللہ ان کا مدد گار ہے ۔ وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر/ 73] اور جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کو گروہ بناکر بہشت کی طرف لے جائیں گے ۔ پھر تقویٰ کے چونکہ بہت سے مدارج ہیں اس لئے آیات وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة/ 281] اور اس دن سے ڈرو جب کہ تم خدا کے حضور میں لوٹ کر جاؤ گے ۔ واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء/ 1] اپنے پروردگار سے ڈرو ۔ اور اس سے ڈرے گا ۔ اور خدا سے جس کا نام کو تم اپنی حاجت برآری کا ذریعہ بناتے ہو ڈرو ۔ اور قطع مودت ارجام سے ۔ اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران/ 102] خدا سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے ۔ میں ہر جگہ تقویٰ کا ایک خاص معنی مراد ہے جس کی تفصیل اس کتاب کے اور بعد بیان ہوگی ۔ اتقٰی فلان بکذا کے معنی کسی چیز کے ذریعہ بچاؤ حاصل کرنے کے ہیں ۔ اور آیت : ۔ أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 24] بھلا جو شخص قیامت کے دن اپنے منہ سے برے عذاب کو روکتا ہوا ۔ میں اس عذاب شدید پر تنبیہ کی ہے جو قیامت کے دن ان پر نازل ہوگا اور یہ کہ سب سے بڑی چیز جس کے ذریعہ وہ و عذاب سے بچنے کی کوشش کریں گے وہ ان کے چہرے ہی ہوں گے تو یہ ایسے ہی ہے جیسے دوسری جگہ فرمایا : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم/ 50] اور ان کے مونہوں کو آگ لپٹ رہی ہوگی ۔ يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر/ 48] اس روز منہ کے بل دوزخ میں گھسٹیے جائیں گے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٦) اور بعد میں آنے والوں کے لیے عبرت کا باعث ہو، تاکہ وہ لوگ ان کے راستے پر نہ چلیں اور حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جماعت اور نیک لوگوں کے لئے نصیحت کا ذریعہ ہو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

نکالا۔ نکل جانور کی بیڑی اور لوہے کی لگام کو کہتے ہیں۔ اس کی جمع انکال ہے۔ قرآن مجید میں ہے ان لدینا انکالا وجحیما (73:12) بیشک ہمارے پاس بیڑیاں ہیں اور بھڑکتی ہوئی آگ۔ نکالا مفعول ثانی ہے جعلنا کا مابین یدیھا جو اس کے سامنے ہے وما خلفھا اور جو اس کے بعد میں ہے۔ ہر دو جملہ میں ما بمعنی من ہے اور مراد اس وقت کے موجود لوگ اور اس زمانہ کے بعد میں آنے والے لوگ ہیں ھا ضمیر کا مرجع وہی ہے جو جعلناھا میں اوپر بیان ہوا۔ وموعظۃ۔ ای وجعلناھا موعظۃ۔ اور ہم نے بنادیا یا اس واقعہ کو متقیوں پرہیزگاروں کے لئے نصیحت۔ موعظۃ اسم مصدر بمعنی نصیحت ہے۔ قاموس القرآن میں ہے موعظۃ اس نصیحت کو کہتے ہیں جس میں مخاطب کو ڈرایا جائے۔ خلیل نحوی کا قول یہ ہے کہ کسی شخص کو بھلائی کی یاد دہانی کرانا اس طرح پر کہ اس کے دل پر اثر ہو موعظۃ اور وعظ کہلاتا ہے اور بقول بعضے موعظۃ وہ کلام ہے جس میں ترغیب و ترہیب کے ذریعہ خیر و صلاح کی دعوت دی گئی ہو۔ (تفسیر خازن) علامہ عبد اللہ بن احمد نسفی (رح) لکھتے ہیں : موعظۃ وہ نصیحت ہے جس میں محبوب و مرغوب چیز کی طرف دعوت دی جائے اور ہر مکروہ و ناپسند چیز سے روکا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی صفت موعظۃ فرمائی ہے یایھا الناس قد جاء تکم موعظۃ من ربکم (10:57) اے لوگو ! تمہارے پاس پروردگار کی طرف سے نصیحت آچکی ہے۔ المتقین۔ اسم فاعل جمع مذکر۔ پرہیزگار۔ تقوی والے۔ اتقاء مصدر۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ بنی اسرائیل کے لیے ہفتہ کا دن معظم اور عبادت کے لیے مقرر تھا اور مچھلی کا شکار بھی اس روز ممنوع تھا یہ لوگ سمندر کے کنارے آباد تھے مچھلی کے شوقین ہزار جال ڈال کر شکار کرنا تھا سو کیا اس پر اللہ کا یہ عذاب شکل کے مسخ کرنے کا نازل ہوا اور تین دن پیچھے وہ سب مرگئے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ واقعہ اس دور میں اور اس کے متصلاً مابعد کے ادوار میں مخالفین حق کے لئے ایک نہایت ہی عبرت آموز واقعہ تھا اور مومنین کے لئے ہر دور میں یہ ایک بہترین نصیحت ہے فَجَعَلْنَاهَا نَكَالا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهَا وَمَا خَلْفَهَا وَمَوْعِظَةً لِلْمُتَّقِينَ ” اس طرح ہم نے ان کے انجام کو ، اس زمانے کے لوگوں اور بعد کی آنے والی نسلوں کے لئے عبرت اور ڈرنے والوں کے لئے نصیحت بناکر چھوڑا “ اس سبق کے آخر میں اب گائے ذبح کرنے کا مشہور قصہ بیان کیا جاتا ہے ۔ یہ قصہ ایک کہانی کی شکل میں بڑی تفصیل سے بیان کیا جاتا ہے ۔ اور اس سے قبل سورت میں بنی اسرائیل کے جو تاریخی واقعات بیان ہوئے ہیں ، ان میں اجمال واختصار سے کام لیا گیا ہے ۔ کیونکہ وہ تمام واقعات سورة بقرہ سے پہلے نازل ہونے والی مکی سورتوں میں بیان ہوچکے تھے لیکن یہ واقعہ کسی دوری جگہ بیان نہیں ہوا تھا ۔ یہ قصہ بنی اسرائیل کی لجاجت ، نافرمانی اور تعمیل حکم میں لیت ولعل اور عذر سازی کی واضح تصویر کھینچ کر رکھ دیتا ہے ، جس میں مدینہ کے یہودی ممتاز تھے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

137 ھا کی ضمیر مذکورہ سزا کی طرف راجع ہے نکالا۔ نکال کے معنی عبرت کے ہیں نکالا عبرۃ تنکل المعتبر بھا ای تمنعہ وتروغہ (ابو السعود ص 557 ج 1 لما بین یدیہا۔ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو اس واقعہ کے ظہور کے وقت قرب و جوار میں موجد تھے۔ ای لمن قرب منھا (ص 247 ج 1) لما حولہا من القری (بحر ص 247 ج 1) وما خلفہا وہ لوگ جو اس زمانہ کے بعد ہوں گے۔ ای من جاء بعدھم (نہر) وما یحدچ بعدھا من القری التی لم تکن (بحر) یعنی ہم نے اس سزا کو موجودہ لوگوں اور آنے والی نسلوں کے لیے عبرت بنا دیا کہ وہ اسے یاد کر کے خدا سے ڈرتے رہیں اور اس کی حدود کی پابندی کرنے کی زیادہ سے زیادہ ترغیب دیتا ہے یا متقین سے عام پرہیزگار اور خدا ترس لوگ مراد ہیں الذین نھوھم عن الاعتداٗ من صالحی قومہم او لکل متق سمعھا (مدارک ص 42 ج 1) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3 اور تم ان لوگوں کا حال تو خواب اچھی طرح جانتے ہو جنہوں نے تم میں سے ہفتہ کے بارے میں زیادتی کی تھی اور جو احکام ہفتہ کے دن کے لئے ان کو دیئے گئے تھے۔ ان احکام کی مخالفت میں حد سے تجاوز کر گئے تھے۔ پھر ہم نے ان کو حکم دیا کہ تم بندر ہو جائو۔ ذلیل و خوار اور پھٹکارے ہوئے پھر ہم نے اس واقعہ مسخ اور عقوبت کو ان لوگوں کے لئے جو وہاں موجود تھے اور جو پیچھے تھے ، ایک عبرت آموز واقعہ بنادیا اور جو لوگ خدا سے ڈرنے والے ہیں ان کے لئے اس واقعہ کو موجب نصیحت و موعظت بنایا۔ (تیسیر) منجملہ اور احاکم کے یہود کو یہ بھی حکم تھا کہ ہفتہ کے دن عبادت میں مشغول رہا کرو اور اس دن مچھلیاں نہ پکڑا کرو۔ لیکن کچھ لوگوں نے کھلم کھلا اور کچھ لوگوں نے حیلہ اور فریب کر کے ہفتہ کے دن مچھلیاں پکڑنی شروع کردیں، آخر ان پر مسخ کا عذاب نازل ہوا اور اللہ تعالیٰ کے امر تکوینی سے یہ لوگ بندر بنا دیئے گئے، ان کی صورتیں تو بندروں کی سی ہوگئیں مگر فہم باقی رہا ایک دوسرے کو دیکھتے اور پہچانتے تھے اور روتے تھے، آخر تیسرے دن سب مرگئے۔ ان پر ایسا خوفناک قہر نازل ہوا کہ صرف بندر ہو جائو پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ خاسئین بھی فرمایا جس کے معنی ذلیل اور رحمت سے دور اور پھٹکارے ہوئے کے ہیں ان بندر نما انسانوں نے تین دن تک نہ کچھ کھایا نہ کچھ پیا اور نہ ان کی نسل باقی رہی بلکہ وہ سب مرگئے اور یہ بات بھی صحیح نہیں ہے کہ آج کل جو بندر ہیں یہ ان کی اولاد ہیں بلکہ بندر ایک مستقل جانور ہے جو ہمیشہ سے چلا آتا ہے یہ لوگ تو ان بندروں کی شکل بنا دیئے گئے تھے باقی عقل و شعور سب آدمیوں کا سا موجود تھا، حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ ان کے جوان بندر اور بوڑھے سوئر کی شکل میں منتقل کردیئے گئے، مابین یدیھا کا ایک مطلب تو وہ ہے جو ہم نے اختیار کیا کہ جو لوگ وہاں موجود تھے اور جو بعد میں آئے ان کے لئے یہ واقعہ عبرت انگیز اور سبق آموز کردیا گیا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ بستیاں مراد ہوں جو شہر کے آگے اور پیچھے آباد تھیں، بہرحال جو لوگ اس واقعہ کے دیکھنے والے ہیں اور جو بعد میں آنیوالے ہیں ان کے لئے یہ درد ناک واقعہ نکال یعنی عبرت ہے اور جو اہل خوف وتقویٰ ہیں ان کے لئے موعظت و نصیحت ہے اس لئے کہ لوگ دو ہی قسم کے ہوتے ہیں، نافرمان اور فرمانبردار سونا فرمانوں کے لئے اس واقعہ کو نکال فرمایا اور فرمانبرداروں کے لئے موعظت ارشاد ہوا، یہ واقعہ حضرت دائود (علیہ السلام) کے زمانے میں ہوا تھا، تفصیل انشاء اللہ تعالیٰ نویں پارے میں آ جائیگی۔ حضرت شاہ صاحب نے بھی سورة اعراف پر محول کیا ہے۔ (تسہیل)