Locative

بَيْنَ

(in) front

درمیان

Verb Form
Perfect Tense Imperfect Tense Imperative Active Participle Passive Participle Noun Form
اِسْتَبَانَ
يَسْتَبِيْنُ
اِسْتَبِنْ
مُسْتَبِيْن
مُسْتَبَان
اِسْتِبَانَة
Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلْبَیْنُ کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں۔ قرآن پاک میں ہے: (وَّ جَعَلۡنَا بَیۡنَہُمَا زَرۡعًا) (۱۸:۳۲) اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی۔ محاورہ ہے بَان کَذَا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو، اس کا ظاہر ہوجانا۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اگر گہرے کنویں کو یَبُوْنٌ کہا جاتا ہے کیونکہ پانی نیچے اتر جانے کے سبب اس سے پانی نکالتے وقت رسی کو ہاتھ سے جدا کرنا پڑتا ہے، تو اس میں انفصال کا معنی ملحوظ ہے۔ بَانَ الصُّبْحُ: صبح نمودار ہوگئی اور آیت کریمہ: (لَقَدۡ تَّقَطَّعَ بَیۡنَکُمۡ ) (۶:۹۴) آج تمہارے آپس کے سب تعلقات منقطع ہوگئے۔ میں بَیْنَ کے معنی رشتہ اور تعلق کے ہیں اور معنی یہ ہیں کہ تمہارے اموال، قبیلہ اور اعمال جن پر تم اعتماد کرتے تھے۔ سب ضائع ہوگئے جس کی طرف کہ آیت: (یَوۡمَ لَا یَنۡفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنُوۡنَ ) (۲۶:۸۸) جس دن نہ مال ہی کچھ فائدہ دے سکے گا اور نہ بیٹے۔ میں اشارہ پایا جاتا ہے اور یہی معنی آیت (وَ لَقَدۡ جِئۡتُمُوۡنَا فُرَادٰی) (۶:۹۴) ایسے ہی آج اکیلے اکیلے ہمارے پاس آئے۔ کے ہیں۔ واضح رہے کہ لفظ بَین کبھی اسم بن کر استعمال ہوتا ہے اور کبھی ظرف۔ چنانچہ آیت مذکورہ میں دو قراء تیں ہیں جو اسے اسم قرار دیتے ہیں وہ بَیْنُکُمْ (بضمہ نون) پڑھتے ہیں اور جن کے نزدیک ظرف ہے وہ بَیْنَکُمْ (بفتح نون) پڑھتے ہیں اور ظرف غیر متمکن ہونے کی بنا پر اسے مفتوح رہنے دیتے یہں۔ (1) چنانچہ آیات : (لَا تُقَدِّمُوۡا بَیۡنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ) (۴۹:۱) (کسی بات کے جواب میں) خدا اور اس کے رسول سے پہلے نہ بول اٹھا کرو۔ (فَقَدِّمُوۡا بَیۡنَ یَدَیۡ نَجۡوٰىکُمۡ صَدَقَۃً ) (۵۸:۱۲) تو بات کہنے سے پہلے (مساکین کو) کچھ خیرات دے دیا کرو۔ (فَاحۡکُمۡ بَیۡنَنَا بِالۡحَقِّ ) (۳۸:۲۲) تو آپ ہم میں انصاف کا فیصلہ کردیجیے۔ (وَ اِنۡ کَانَ مِنۡ قَوۡمٍۭ بَیۡنَکُمۡ وَ بَیۡنَہُمۡ مِّیۡثَاقٌ ) (۴:۹۲) اور اگر مقتول ایسے لوگوں میں سے ہو جن میں اور تم میں صلح کا عہد ہو۔ میں بَیْنَ ظرف واقع ہوا ہے اور آیت : (فَلَمَّا بَلَغَا مَجۡمَعَ بَیۡنِہِمَا) (۱۸:۶۱) جب ان کے ملنے کے مقام پر پہنچے۔ میں بَیْنَ کا لفظ اسم ظرف بھی ہوسکتا یہ اور بمعنی مصدر بھی یعنی جب وہ ان کے الگ ہونے کے مقام پر پہنچے۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ بَیْنَ کا لفظ یا تو وہاں استعمال ہوتا ہے۔ جہاں مسافت پائی جائے بَیْنَ الْبَلَدَیْنِ (دو شہروں کے درمیان) یا جہاں دو یا دو سے زیادہ چیزیں موجود ہوں۔ جیسے: بَیْنَ الرَّجُلَیْنِ بَیْنَ الْقَوْمِ اور واحد کی طرف مضاف ہونے کی صورت میں بَیْنَ کو مکرر لانا ضروری ہوتا ہے۔ (2) جیسے فرمایا: (وَّ مِنۡۢ بَیۡنِنَا وَ بَیۡنِکَ حِجَابٌ ) (۴۱:۵) اور ہمارے اور تمہارے درمیان پردہ ہے۔ (فَاجۡعَلۡ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَکَ مَوۡعِدًا) (۲۰:۵۸) تو ہمارے اور اپنے درمیان ایک وقت مقرر کرلو۔ اور کہا جاتا ہے: ھٰذَ الشَّیْئُ بَیْنَ یَدَیْکَ: یعنی یہ چیز تیرے قریب اور سامنے ہے۔ اسی معنی میں فرمایا: (ثُمَّ لَاٰتِیَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَیۡنِ اَیۡدِیۡہِمۡ ) (۷:۱۷) پھر ان کے آگے … (غرض ہر طرف سے) آؤنگا۔ (لَہٗ مَا بَیۡنَ اَیۡدِیۡنَا وَ مَا خَلۡفَنَا) (۱۹:۶۴) جو کچھ ہمارے آگے ہے اور جو پیچھے … سب اسی کا ہے۔ (وَ جَعَلۡنَا مِنۡۢ بَیۡنِ اَیۡدِیۡہِمۡ سَدًّا) (۳۶:۹) اور ہم نے ان کے آگے بھی دیوار بنادی۔ اور ان کے پیچھے بھی۔ (مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوۡرٰىۃِ ) (۶۱:۶) جو اپنے سے پہلے کی کتاب تورات کی تصدیق کرتے تھے۔ (ءَ اُنۡزِلَ عَلَیۡہِ الذِّکۡرُ مِنۡۢ بَیۡنِنَا) (۳۸:۸) کیا ہم سب میں سے اسی پر نصیحت (کی کتاب) اتری ہے اور آیت کریمہ: (وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَنۡ نُّؤۡمِنَ بِہٰذَا الۡقُرۡاٰنِ وَ لَا بِالَّذِیۡ بَیۡنَ یَدَیۡہِ ) (۳۴:۳۱) اور جو کافر ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم نہ تو اس قرآن کو مانیں گے اور نہ ان (کتابوں) کو جو اس سے پہلے کی ہیں۔ میں بَیْنَ یَدَیْہِ سے انجیل اور دیگر کتب سماویہ مراد ہیں اور آیت کریمہ : (فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَ اَصۡلِحُوۡا ذَاتَ بَیۡنِکُمۡ) (۸:۱) خدا سے ڈرو اور آپس میں صلح رکھو۔ کے معنی یہ ہیں کہ صلح رحمی، قرابت، دوستی وغیرہ باہمی رشتوں کا لحاظ کرو جو باہم تم سب کے درمیان مشترک ہیں اور بَیْنَ کے بعد مَا یا الف کا اضافہ کرکے حین کے معنی میں استعمال کرلیتے ہیں(3) جیسے بَیْنَمَا زَیْدٌ یَفْعَلُ کَذَا وَبَیْنَا نَفْعَل تو یعنی درآنحالیکہ زید یہ کام کررہا تھا۔ شاعر نے کہا ہے(4) ع (کامل) (۷۶) بَیْنَا تَعَنِّقْہُ الْکُمَاۃَ وَرَوْعَۃٌ، یَوْمًا اُتِیْحَ لَہٗ جَرِیٌٔ سَلْفَعٗ۔ اس حال میں کہ وہ ایک روز بہادروں سے مقابلہ اور مرادغہ کررہا تھا کہ اس کے لیے ایک دلیر بہادر مقصد ہوگیا۔ بَانَ وَاسْتَبَانَ وَتَبَیَّنَ کے معنی ظاہر اور واضح ہوجانے کے ہیں اور بَیَّنْتُہٗ کے معنی کسی چیز کو ظاہر اور واضح کردینے کے۔ قرآن پاک میں ہے: (وَ تَبَیَّنَ لَکُمۡ کَیۡفَ فَعَلۡنَا بِہِمۡ ) (۱۴:۴۵) اور تم پر ظاہر ہوچکا تھا کہ ہم نے ان لوگوں کے ساتھ کس طرح (کا معاملہ) کیا تھا۔ (وَ قَدۡ تَّبَیَّنَ لَکُمۡ مِّنۡ مَّسٰکِنِہِمۡ) (۲۹:۳۸) چنانچہ ان کے (ویران) گھر تمہاری آنکھوں کے سامنے ہیں۔ (وَ لِتَسۡتَبِیۡنَ سَبِیۡلُ الۡمُجۡرِمِیۡنَ ) (۶:۵۵) اور اس لیے کہ گنہگاروں کا رستہ ظاہر ہوجائے۔ (قَدۡ تَّبَیَّنَ الرُّشۡدُ مِنَ الۡغَیِّ ) (۲:۲۵۶) ہدایت صاف طور پر ظاہر (اور) گمراہی سے الگ ہوچکی ہے۔ (قَدۡ بَیَّنَّا لَکُمُ الۡاٰیٰتِ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ ) (۳:۱۱۸) ہم نے تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سنادیں۔ (وَ لِاُبَیِّنَ لَکُمۡ بَعۡضَ الَّذِیۡ تَخۡتَلِفُوۡنَ فِیۡہِ ) (۴۳:۶۳) نیز اس لیے کہ بعض باتیں جن میں تم اختلاف کررہے ہو تم کو سمجھا دوں۔ (اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الذِّکۡرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیۡہِمۡ ) (۱۶:۴۴) ہم نے تم پر کبھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو (ارشادات) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو۔ (لِیُبَیِّنَ لَہُمُ الَّذِیۡ یَخۡتَلِفُوۡنَ فِیۡہِ ) (۱۶:۳۹) تاکہ جن باتوں میں یہ اختلاف کرتے ہیں وہ ان پر ظاہر کردے۔ (فِیۡہِ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ ) (۳:۹۷) اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں۔ (شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ ) (۲:۱۸۵) (روزوں کا مہینہ) رمضان کا مہینہ ہے، جس میں قرآن (اول اول) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے۔ اور بیان کرنے والے کے اعتبار سے آیت کو مُبَیِّنَۃٌ بھی کہا جاتا ہے، جیسے اٰیۃُ مُبَیِّنَۃٌ وَمُبَیِّنَۃٌ وَمُبَیِّنَۃٌ وَمُبَیَّنَاتٌ اَلْبَیِّنَۃُ کے معنی واضح دلیل کے ہیں۔ خواہ وہ دلالت عقلیہ ہو یا محسوسۃ اور شَاھِدَان (دوگواہ) کو بھی بَیِّنَۃ کہا جاتا ہے۔ جیساکہ آنحضرتؐ نے فرمایا ہے(5) (۴۷) اَلْبَیِّنَۃُ عَلَی الْمُدَّعِیْ وَالْیَمِیْنُ عَلٰی مَنْ اَنْکَرَ۔ کہ مدعی پر گواہ لانا ہے اور مدعا علیہ پر حلف۔ قرآن میں ہے: (اَفَمَنۡ کَانَ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنۡ رَّبِّہٖ ) (۱۱:۱۷) بھلا جو لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل (روشن) رکھتے ہیں۔ ( لِّیَہۡلِکَ مَنۡ ہَلَکَ عَنۡۢ بَیِّنَۃٍ وَّ یَحۡیٰی مَنۡ حَیَّ عَنۡۢ بَیِّنَۃٍ ) (۸:۴۲) تاکہ جو مرے بصیرت پر (یعنی یقین جان کر) مرے او رجو جیتا رہے وہ بھی بصیرت پر (یعنی حق پہچان کر) جیتا رہے۔ (جَآءَتۡہُمۡ رُسُلُہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ) (۷:۱۰۱) ان کے پاس ان کے پیغمبر نشانیاں لے کرآئے۔ اَلْبَیَانُ کے معنی کسی چیز کو واضح کرنے کے ہیں اور یہ نطق سے عام ہے۔ کیونکہ نطق انسان کے ساتھ مختص ہے اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے۔ اسے بھی بَیَانٌ کہہ دیتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ ’’بَیَانٌ‘‘ دو قسم پر ہے۔ ایک بیان بِالتَّخْبِیْرُ یعنی وہ اشیاء جو اس کے آثار صنعت میں سے کسی حالت پر دال ہوں۔ دوسرے بیان بالاختیار او ریہ یا تو زبان کے ذریعہ ہوگا اور یا بذریعہ کتابت اور اشارہ کے چنانچہ بیان حالت کے متعلق فرمایا: (وَ لَا یَصُدَّنَّکُمُ الشَّیۡطٰنُ ۚ اِنَّہٗ لَکُمۡ عَدُوٌّ مُّبِیۡنٌ ) (۴۳:۶۲) اور (کہیں) شیطان تم کو (اس سے) روک نہ دے وہ تو تمہارا اعلانیہ دشمن ہے۔ یعنی اس کا دشمن ہونا اس کی حالت اور آثار سے ظاہر ہے۔ اور بیان بالاختیار کے متعلق فرمایا: (فَسۡـَٔلُوۡۤا اَہۡلَ الذِّکۡرِ اِنۡ کُنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ …بِالۡبَیِّنٰتِ وَ الزُّبُرِ ) (۱۶:۴۳،۴۴) اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو۔ اور ان پیغمبروں (کو) دلیلیں اور کتابیں دے کر بھیجا تھا۔ (وَ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الذِّکۡرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیۡہِمۡ ) (۱۶:۴۴) اور ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو (ارشادات) لوگوں پر نازل ہوئے وہ ان پر ظاہر کردو۔ اور کلام کو بیان کیا جاتا ہے کیونکہ انسان اس کے ذریعہ اپنے مافی الضمیر کو ظاہر کرتا ہے۔ جیسے فرمایا: (ہٰذَا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ ) (۳:۱۳۸) یہ (قرآن) لوگوں کے لیے بیان صریح ہے۔ اور مجمل و مبہم کلام کی تشریح کو بھی بیان کہا جاتا ہے۔ جیسے: (ثُمَّ اِنَّ عَلَیۡنَا بَیَانَہٗ ﴿) (۷۵:۱۹) پھر اس (کے معانی) کا بیان بھی ہمارے ذمہ ہے۔ بَیَّنْتُہٗ وَاَبَنْتُہٗ کسی چیز کی شرح کرنا۔ جیسے فرمایا: (لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیۡہِمۡ ) (۱۶:۴۴) تاکہ جو (ارشادات) لوگوں پر نازل ہوئے وہ ان پر ظاہر کردو۔ (نَذِیۡرٌ مُّبِیۡنٌ ) (۶۷:۲۶) کھول کر ڈرانے والا ہوں۔ (اِنَّ ہٰذَا لَہُوَ الۡبَلٰٓـؤُا الۡمُبِیۡنُ ) (۳۷:۱۰۶) بلاشبہ یہ صریح آزمائش تھی۔ (وَّ لَا یَکَادُ یُبِیۡنُ ) (۴۳:۵۲) اور صاف گفتگو بھی نہیں کرسکتا۔ ( وَ ہُوَ فِی الۡخِصَامِ غَیۡرُ مُبِیۡنٍ) (۴۳:۱۸) اور جھگڑے کے وقت بات نہ کرسکے۔

Lemma/Derivative

266 Results
بَيْن