NounPersonal Pronoun

يَدَيْهَا

(of) them

اس کے ساتھ

Verb Form
Perfect Tense Imperfect Tense Imperative Active Participle Passive Participle Noun Form
أَدّٰى
يُؤَدِّى
أَدِّ
مُوَدٍّ
مُوَدًّى
تَأْدِيَة
Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلْیَدُ: کے اصل معنی تو ہاتھ کے ہیں یہ اصل میں یَدْیٌ (ناقص یائی) ہے کیونکہ اس کی جمع اَیْدِ وَیَدِیٌّ اور تثنیہ یَدَیَانِ اور فعل یَدَیْتُہ‘ آتا ہے جس کے معنی ہاتھ مارنے کے ہیں۔عام طور پر اس کی جمع اَیْدِ (افعل) آتی ہے کیونکہ اکثر طور پر فعل (بسکون عین) کی جمع افعل استعمال ہوتی ہے۔جیسے فَلْسٌ وَاَفْلُسٌ وَکَلْبٌ وَاَکْلُبٌ لیکن کبھی اسکی جمع یَدِیٌّ (فعیل) بھی آجاتی ہے جیسے عَبْدٌ وَعَبِیْدٌ اور کبھی فَعَلٌ (بفتح العین) کی جمع بھی اَفْعَلٌ کے وزن پر آجاتی ہے جیسے زَمَنٌ،اَزْمُنٌ وَجَبَلٌ،اَجْبُلٌ۔قرآن پاک میں ہے۔ (اِذۡ ہَمَّ قَوۡمٌ اَنۡ یَّبۡسُطُوۡۤا اِلَیۡکُمۡ اَیۡدِیَہُمۡ فَکَفَّ اَیۡدِیَہُمۡ عَنۡکُمۡ) (۵۔۱۱) جب ایک جماعت نے ارادہ کیا کہ تم پر دست درازی کریں تو اس نے ان کے ہاتھ روک دیئے۔ (اَمۡ لَہُمۡ اٰذَانٌ یَّسۡمَعُوۡنَ بِہَا) (۷۔۱۹۵) یا ہاتھ ہیں جن سے پکڑیں۔استعارہ کے طور پر یَدٌ کا لفظ متعدد معانی میں استعمال ہوتا ہے بمعنی نعمت اور اسی سی یَدَیْتُ اِلَیْہِ کا محاورہ ہے جس کے معنی کسی پر احسان کرنے کے ہیں۔اس کی جمع اَیَادِ آتی ہے اور کبھی یَدِیٌّ بھی آجاتی ہے۔شاعر نے کہا ہے (1) (۹۵۹) فَاِنَّ لَہ‘ عِنْدِیْ یَدِیَّا وَاَنْعُمَا کیونکہ اس کے مجھ پر بہت سے احسانات ہیں۔ (۲) کسی چیز پر قبضہ یا ملک جیسے ہٰذَا فِیْ یَدِ فُلَانِ (یہ فلاں کے اختیار میں ہے) قرآن پاک میں ہے: ۔ (اِلَّاۤ اَنۡ یَّعۡفُوۡنَ اَوۡ یَعۡفُوَا الَّذِیۡ بِیَدِہٖ عُقۡدَۃُ النِّکَاحِ) (۲۔۲۳۷) ہاں اگر عورتیں مہر بخش دیں یا مرد، جن کے قبضہ قدرت میں عقد نکاح ہے (اپنا حق) چھوڑدیں۔نیز محاورہ: وَقَعَ فِیْ یَدَی عَدْلِ: وہ عدل کے ہاتھوں میں چلاگیا۔ (۳) بمعنی قوت جیسے لِقُلَان یَدٌ عَلٰی کَذَا فلاں کو اس پر قدرت حاصل ہے۔مَالِیّْ لِکَذَا یَدٌ اَوْمَالِیْ بِہ یَدانِ: یہ میری قدرت سے باہر ہے۔شاعر نے کہا ہے (2) (الکامل) (۴۶۰) فَاعْمَدْ لَمَا تَعْلُوْفَمَا لَکَ بِالَّذِیْ لَاتَسْتَطِیْعُ مِنَ الْاَمُوْرِ یَدَانِ جو کام تو کرسکتا ہے اسکا قصد کیجئے اور جو امور تیری استطاعت سے بالا ہیں ان سے تعلق مت رکھیے۔اس معنی کے لحاظ سے تشبیہ کے طور پر دَھْرٌ کی طرف بھی یَدٌ کی اضافت ہوتی ہے جیسے یَدُ الدَّھْرِ اَوْیَدُ الْمِسْنَدِ اور شاعر نے ہوا کی طرف ید کی نسبت کرتے ہوئے کہا ہے (3) (الکامل) (۴۶۱) بِیَدِ الشَّمَالِ زِمَامُھَا جبکہ اس کی باگ دوڑ شمالی ہوا کے ہاتھ میں تھی کیونکہ ہوا میں زور اور قوت ہوتی ہے۔وَضَعَ یَدَہ‘ فَیْ کَذَا کے معنی کسی کام کو شروع کرنے کے ہیں اور اطلاق اَلْبَدِ وَاِمْسَاکُھَا: سخاوت اور بخل سے کیا ہوتا ہے جیسا کہ سخی کے متعلق یَدُہ‘ مُطْلَقَۃٌ بخیل کے متعلق یَدُہ‘ مَغْلُوْلَۃٌ کہا جاتا ہے۔قرآن پاک میں ہے: ۔ (وَ قَالَتِ الۡیَہُوۡدُ یَدُ اللّٰہِ مَغۡلُوۡلَۃٌ ؕ غُلَّتۡ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ لُعِنُوۡا بِمَا قَالُوۡا ۘ بَلۡ یَدٰہُ مَبۡسُوۡطَتٰنِ) (۵۔۶۴) اور یہود کہتے ہیں کہ خدا کا ہاتھ (گردن سے) بندھا ہوا ہے (یعنی اﷲ بخیل ہے) انہی کے ہاتھ بندھے جائیں اور ایسا کہنے کے سبب ان پر لعنت ہو،بلکہ اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہیں۔محاورہ ہے: نَفَضْتُ یَدِیْ عَنْ کَذَا: میں نے فلاں چیز سے ہاتھ جھاڑلیا یعنی اسے چھوڑدیا۔اَیَّدَ (تفعیل) کے معنی کسی کی تائید یا اس کی مدد کرنے کے ہیں۔قرآن پاک میں ہے۔ (اِذۡ اَیَّدۡتُّکَ بِرُوۡحِ الۡقُدُسِ) (۵۔۱۱۰) جب میں نے روح القدس (یعنی جبرائیل) سے تمہاری مدد کی اور آیت کریمہ: ۔ (فَوَیۡلٌ لِّلَّذِیۡنَ یَکۡتُبُوۡنَ الۡکِتٰبَ بِاَیۡدِیۡہِمۡ ) (۲۔۷۹) ان پر افسوس ہے اس لئے کہ (بے اصل باتیں) اپنے ہاتھ سے لکھتے ہیں۔میں کتابت کو ہاتھوں کی طرف نسبت کرکے ان تحریروں کے بناوٹی ہونے پر تنبیہ کی ہے جس طرح کہ آیت کریمہ: ۔ (ذٰلِکَ قَوۡلُہُمۡ بِاَفۡوَاہِہِمۡ) یہ ان کے منہ کی باتیں ہیں ان کی دروغ بیانی پر تنبیہ کرنے کیلئے قول کی نسبت اَفَوَاہ کی طرف کی ہے اور آیت کریمہ: (اَمۡ لَہُمۡ اَیۡدٍ یَّبۡطِشُوۡنَ بِہَاۤ ) (۷۔۱۹۵) یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے پکڑیں۔میں اَیْدِ (ہاتھ) سے مراد قوت ہے اسی معنی میں فرمایا: (اُولِی الۡاَیۡدِیۡ وَ الۡاَبۡصَارِ) (۳۸۔۴۵) جو قوت والے اور صاحب نظر تھے۔ (وَ اذۡکُرۡ عَبۡدَنَا دَاوٗدَ ذَا الۡاَیۡدِ) (۳۸۔۱۷) اور ہمارے بندے داؤد علیہ السلام کو یاد کرو جو صاحب قوت تھے اور آیت کریمہ: ۔ (حَتّٰی یُعۡطُوا الۡجِزۡیَۃَ عَنۡ ‌یَّدٍ وَّ ہُمۡ صٰغِرُوۡنَ) (۹۔۲۹) یہاں تک کہ ذلیل ہوکر اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں۔میں عَنْ یَّدِ سے مراد یہ ہے کہ اس نعمت کے عوض جو ان کی سکونت گاہوں میں برقرار رکھے جانے سے انہیں حاصل ہوئی ہے،جزیہ ادا کریں تو عَنْ یَّدِ موضع حال میں ہے۔اور بعض نے یہ معنی کیے ہیں کہ تمہاری حاکمیت اور اپنی محکومی کا اقرار کرتے ہوئے جزیہ ادا کریں۔محاورہ ہے: خُذْ کَذَا اَثَرَ ذِیْ یَدَیْنِ (۴) یَدٌ بمعنی حامی اور مددگار کے آتا ہے جیسے اَنَا یَدُکَ (میں تمہارا مددگار ہو) فُلَانٌ یَدُ فُلَان (وہ فلاں کا مددگار ہے) اسی معنی میں اولیاء اﷲ کو اَیْدِ اﷲِ کہا جاتا ہے اسی بناء پر آیت کریمہ: ۔ (اِنَّ الَّذِیۡنَ یُبَایِعُوۡنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوۡنَ اللّٰہَ ؕ یَدُ اللّٰہِ فَوۡقَ اَیۡدِیۡہِمۡ) (۴۸۔۱۰) جو لوگ تم سے بیعت کرتے ہیں خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے۔میں آنحضرتﷺ کے ہاتھ کو اﷲ کا ہاتھ قرار دیا ہے۔یعنی جب آپﷺ کا ہاتھ ان کے ہاتھ پر ہے تو گویا اﷲ تعالیٰ کا ہاتھ ان پر ہے اس کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں اﷲ عزوجل فرماتے ہیں۔ (4) (۱۶۲) (لَا یَزَالَ الْعَبْدُ یتقرب الی بالنوافل حتی احبہ فاذا احببتہ کنت سمعہ الذی یسمع بہ وبصرہ الذی یبصرہ ویدہ التی یبطش بھا) بندہ نوافل کے ذریعے برابر میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ میں اسے اپنا محبوب بنالیتا ہوں پھر جب وہ میرا محبوب بن جاتا ہے تو میں ہی اس کا کان ہوتا ہوں جس سے سنتا ہے اور میں ہی آنکھ ہوتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور میں ہی اس کا ہاتھ ہوتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے۔ (مِّمَّا عَمِلَتۡ اَیۡدِیۡنَاۤ ) (۳۶۔۷۱) جو چیزیں ہم نے اپنے ہاتھ سے بنائیں۔اسی طرح آیت کریمہ: (لِمَا خَلَقۡتُ بِیَدَیَّ) (۳۸۔۷۵) جس شخص کو میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا۔میں اﷲ کے اپنے ہاتھ کے ساتھ پیدا کرنے سے وہ خصوصی تولیت مراد ہے جو اﷲ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ مختص ہے اور اس عنایت ربانی کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے لفظ یَدٌ کو اس لئے اختیار کیا ہے کہ وہ اعضاء انسانی میں سب سے اعلیٰ عضو ہے جس کے ذریعہ انسان کوئی کام سرانجام دیتا ہے لہذا یہاں لفظ ید سے تشبیہ کا وہم نہیں ہونا چاہیئے۔بعض نے کہا ہے کہ بِیَدَیَّ کے معنی بِنِعْمَتِہ ہے اور فَطَعْتُہ‘ بِالسِّکِّیْنِ کی طرح یہاں باء آلہ کے لئے نہیں ہے بلکہ خَرَجَ بِسَیْفِہ کی طرح باء بمعنی مع کے ہے پس آیت کے معنی یہ ہیں کہ میں نے اسے پیدا کیا درآں حالانکہ ہماری دنیوی اور اخروی انعامات اس کے شامل حال تھے جن کی رعایت کرکے وہ سعادت کبریٰ حاصل کرسکتا ہے۔رَجُلٌ یَدِیٌّ وَامْرَئَ ۃٌ یَدِیَّۃٌ: ماہر کاریگر مرد و عورت اور آیت کریمہ: ۔ (وَ لَمَّا سُقِطَ فِیۡۤ اَیۡدِیۡہِمۡ ) (۷۔۱۴۹) اور جب وہ نادم ہوئے۔میں سُقِطَ فِیْ اَیْدِیْھِمْ معنی نادم ہونے کے ہیں۔چنانچہ محاورہ ہے: فُلَانٌ سُقِطَ فِیْ یَدِہ وَاُوْقِطَ وہ پشیمان ہوا یا اس کے معنی حسرت سے ہاتھ ملنے کے ہیں۔جسے فرمایا: ۔ (فَاَصۡبَحَ یُقَلِّبُ کَفَّیۡہِ عَلٰی مَاۤ اَنۡفَقَ فِیۡہَا) (۱۸۔۴۲) تو جو مال اس نے اس پر خرچ کیا تھا اس پر حسرت سے ہاتھ ملنے لگا۔اور آیت کریمہ: ۔ (فَرَدُّوۡۤا اَیۡدِیَہُمۡ فِیۡۤ اَفۡوَاہِہِمۡ ) (۱۴۔۹) تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دیئے۔کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے حق بات کو قبول نہ کیا جس کے قبول کرنے کا انہیں حکم دیا گیا تھا جیسا کہ محاورہ ہے۔رَدَّ یَدَہ‘ فِیْ فَمِہ: یعنی اس کی بات نہ مانی۔بعض نے اس کے معنی یہ کیئے ہیں کہ انہوں نے انبیاء کرام کے ہاتھوں کو ان کے مونہوں پر ہاتھ رکھ کر خاموش رہو اور بعض نے اَیْدِیْھِمْ سے مراد انعامات لیئے ہیں یعنی انہون نے پیغمبروں تک کی تکذیب کرکے ان کے احسانات کو ان کے مونہوں پر دے مارا یعنی ان کے نصائح اور مواعظ پر کان نہ دھرا جو ان کیلئے بہت بڑی نعمت ہے۔

Lemma/Derivative

120 Results
يَد
Surah:2
Verse:66
اس کے ساتھ
(of) them
Surah:2
Verse:79
ساتھ اپنے ہاتھوں کے
with their (own) hands
Surah:2
Verse:79
ان کے ہاتھوں سے
their hands
Surah:2
Verse:95
ان کے ہاتھوں کے
their hands
Surah:2
Verse:97
اس کے ہاتھوں کے
before it
Surah:2
Verse:195
ساتھ اپنے ہاتھوں کو
[with your hands]
Surah:2
Verse:237
اس کے ہاتھ میں ہے
in whose hands
Surah:2
Verse:249
ساتھ اپنے ہاتھ کے
(of) his hand"
Surah:2
Verse:255
ان کے دونو ہاتھوں کےجو ان کے سامنے ہے
before them
Surah:3
Verse:3
اس سے پہلے ہے
before it