Perfect Tense | Imperfect Tense | Imperative | Active Participle | Passive Participle | Noun Form |
خَيَّلَ |
يُخَيِلُ |
خَیّْلْ |
مُخَيِّل |
مُخَيَّل |
تَخْيِيْل |
اَلْخَیَالُ: اس کے اصل معنیٰ صورت مجردہ کے ہیں جیسے وہ صورت جو خواب یا آئینے میں نظر آتی ہے یا کسی کی عدم موجودگی میں دل کے اندر اس کا تصور آتا ہے۔پھر (مجازًا) ہر اس امر پر اس کا اطلاق ہوتا ہے جس کا تصور کیا جائے اور ہر اس پتلے دبلے شخص کو خیال کہا جاتا ہے جو بمنزلہ خیال اور تصور کے ہو۔ اَلتَّخْلِیلُ: (تفعیل) کے معنیٰ کسی کے نفس میں کسی چیز کا خیال یعنی تصور قائم کرنے کے ہیں اور اَلتَّخَیُّلُ معنیٰ از خود اس قسم کا تصور قائم کرلینے کے ہیں۔اور خِلْتْ بمعنیٰ ظَنَنْتُ آتا ہے اس اعتبار سے کہ مظنون چیز بھی بمنزلہ خیال کے ہوتی ہے۔ خَیَّلَتِ السَّمَائُ: آسمان میں بارش کا سماں نظر آنے لگا۔ فُلَانٌ مُخِیلٌ بِکَذَا: فلاں اس کا سزاوار ہے اصل میں اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ فلاں اس خیال کو ظاہر کرنے والا ہے ۔اَلْخَیْلَائُ تکبر جو کسی ایسی فضیلت کے تخیل پر مبنی ہو جو انسان اپنے اندر خیال کرتا ہو۔اسی سے لفظ خیل لیا گیا ہے کیونکہ جو شخص گھوڑے پر سوار ہو وہ اپنے اندر نخوت و غرور پاتا ہے۔دراصل خَیل کا لفظ گھوڑے اور سوار دونوں کے مجموعہ پر بولا جاتا ہے۔چنانچہ قرآن پاک میں ہے (وَّ مِنۡ رِّبَاطِ الۡخَیۡلِ ) (۸۔۶۰) اور گھوڑوں کے تیار رکھنے سے اور کبھی ہر ایک پر انفراداً بھی بولا جاتا ہے۔جیسا کہ ایک روایت میں ہے(1) : (۱۲۲) یَاخَیلَ اﷲِ ارْکَبِیْ: اے اﷲ!کے سوار!گھوڑے پر سوار ہوجا،تو یہاں خیل بمعنیٰ فارس کے ہے اور ایک حدیث میں ہے۔(2) (۱۲۳) عَفَوتُ لَکُم عَنْ صَدَقَۃِ الْخَیْلِ: شقرا (ایک پرندہ) کو کہا جاتا ہے کیونکہ وہ رنگ بدلتا رہتا ہے اور ہر لحظ خیال ہوتا ہے کہ دوسرے رنگ کا ہے۔اسی بنا پر شاعر نے کہا ہے(3) : (مجرد الکامل) (۱۴۹) کَاَبِیْ بِرَاقِشَ کُلُّ لَونٍ لونُہٗ یَتَخَیَّلُ ابوبراقش کی طرح جو ہر آن نیا رنگ بدلتا ہے۔
Surah:3Verse:14 |
اور گھوڑے سے
and [the] horses
|
|
Surah:8Verse:60 |
گھوڑے
horses
|
|
Surah:16Verse:8 |
اور گھوڑے
And horses
|
|
Surah:17Verse:64 |
سوار اپنے
with your cavalry
|
|
Surah:59Verse:6 |
گھوڑے
horses
|