Perfect Tense | Imperfect Tense | Imperative | Active Participle | Passive Participle | Noun Form |
--- |
--- |
--- |
--- |
--- |
--- |
اَلسَّبِیْلُ: اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے، اس کی جمع سُبُلٌ آتی ہے۔ چنانچہ قرآن پاک میں ہے: (وَ اَنۡہٰرًا وَّ سُبُلًا ) (۱۶:۱۵) دریا اور راستے۔ (وَّ جَعَلَ لَکُمۡ فِیۡہَا سُبُلًا ) (۴۳:۱۰) اور تمہارے لئے اس میں راستے بنادئیے۔ اور آیت: (وَ اِنَّہُمۡ لَیَصُدُّوۡنَہُمۡ عَنِ السَّبِیۡلِ ) (۴۳:۳۷) اور وہ صحیح راہ سے روکتے ہیں۔ میں ’’السَّبِیْل‘‘ سے مراد طریق حق ہے کیونکہ اسم جنس جب مطلق استعمال ہو تو حق (یعنی فرد کامل) ہی مراد ہوتا ہے۔ اور اسی معنیٰ میں فرمایا: (ثُمَّ السَّبِیۡلَ یَسَّرَہٗ ) (۸۰:۲۰) پھر (اس پر) راہ آسان کردی۔ اور راہ گیر کو سَابِلٌ کہا جاتا ہے اس کی جمع سَابِلَۃٌ ہے اور جس راہ پر بہت زیادہ آمدورفت ہو اسے سَبِیلٌ سَابِلٌ کہا جاتا ہے جیساکہ شِعْرُ شَاعِرٌ کا محاورہ ہے۔ (1) اِبْنُ السَّبِیْلِ اس مسافر کو کہتے ہیں جو اپنی منزل مقصود سے دور ہو اور سبیل کی طرف اس کی نسبت بوجہ ممارست کے ہے۔ پھر سبیل کا لفظ ہر اس چیز پر بولا جاتا ہے جو کسی دوسری چیز تک رسائی کا ذریعہ ہو عام اس سے کہ وہ چیز خیر ہو یا شر چنانچہ قرآن پاک میں ہے: (اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ ) (۱۶:۱۲۵) اﷲ کے راستہ کی طرف دعوت دو۔ (ہٰذِہٖ سَبِیۡلِیۡۤ ) (۱۲:۱۰۸) (اے پیغمبر! ان سے) کہو کہ یہ میرا راستہ ہے۔ ان دونوں آیتوں میں سبیل سے مراد راہ حق ہی ہے لیکن پہلی آیت میں مبلغ (پہنچانے والے) کی طرف نسبت ہے اور دوسری آیت میں ان کو لے کر چلنے والے یعنی پیغمبر کی طرف۔ (قُتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ) (۴۷:۴) جو اﷲ تعالیٰ کی راہ میں شہید ہوگئے۔ (اِلَّا سَبِیۡلَ الرَّشَادِ) (۴۰:۲۹) اور وہی راہ دکھاتا ہوں جو سیدھی ہے۔ (وَ لِتَسۡتَبِیۡنَ سَبِیۡلُ الۡمُجۡرِمِیۡنَ ) (۶:۵۵) تاکہ مجرموں کا راستہ واضح ہوجائے۔ (فَاسۡلُکِیۡ سُبُلَ رَبِّکِ ) (۱۶:۶۹) (مزے سے) اپنے پروردگار (کے تعلیم کئے ہوئے آسان) راستوں پر چل۔ اور سبیل کے معنیٰ شاہراہ بھی آتے ہیں۔ جیسے فرمایا: (قُلۡ ہٰذِہٖ سَبِیۡلِیۡۤ ) (۱۲:۱۰۸) (اے پیغمبر) کہہ دو یہی میرا راستہ ہے۔ اور آیت کریمہ: (سُبُلَ السَّلٰمِ) (۵:۱۶) سلامتی کے راستوں (کی طرف) میں سبل السلام سے جنت کے راستے مراد ہیں۔ (مَا عَلَی الۡمُحۡسِنِیۡنَ مِنۡ سَبِیۡلٍ) (۹:۹۱) محسنین پر کوئی الزام نہیں۔ (فَاُولٰٓئِکَ مَا عَلَیۡہِمۡ مِّنۡ سَبِیۡلٍ … اِنَّمَا السَّبِیۡلُ عَلَی الَّذِیۡنَ) (۴۲:۴۱،۴۲) تو یہ لوگ (معذور ہیں) ان پر کوئی الزام نہیں۔ الزام توان پر ہی ہے۔ (اِلٰی ذِی الۡعَرۡشِ سَبِیۡلًا) (۱۷:۴۲) مالک عرش (یعنی خدا تک پہنچنے کا راستہ ڈھونڈ نکالا ہوتا۔) عام محاورہ ہے: اَسْبَلَ السِّتْرَ وَالذَّیْلَ: اس نے پردہ دامن لٹکادیا۔ فَرَسٌ مُسْبِلُ الذَّنَبِ: دراز دم گھوڑا۔ سَبَلَ الْمَطَرُ وَاَسْبَلَ: بارش برسنا اور وہ بارش جو آسمان سے بہہ کر زمین کی طرف آرہی ہو اور ہنوز زمین پر نہ گری ہو اسے سَبَلٌ کہا جاتا ہے اور سَبَلَۃٌ خاص کر مونچھوں کے بالوں کو کہا جاتا ہے۔ کیونکہ وہ (بھی برھ کر) نیچے کو لٹکے پڑتے ہیں۔ اَلسُّنْبُلَۃُ: بال۔ اس کی جمع سَنَابِل آتی ہے۔ قرآن پاک میں ہے: (سَبۡعِ سُنۡۢبُلٰتٍ خُضۡرٍ ) (۱۲:۴۶) سات سبز بالیں۔ اَسْبَلَ الزَّرْعُ: کھیتی میں بالیں پڑگئیں (ماخذ کے ساتھ متصف ہونا کے معنیٰ پائے جاتے ہیں) جیسے اَحْصَدَ الزَّرْعُ واجنی النخل کا محاورہ ہے۔ اَلمُسْبِلُ: جوئے کے تیروں سے پانچواں تیر۔
Surah:4Verse:74 |
راستے
(the) way
|
|
Surah:4Verse:74 |
رستے میں
(the) way
|
|
Surah:4Verse:75 |
کے راستے میں
(the) way
|
|
Surah:4Verse:76 |
راستے
(the) way
|
|
Surah:4Verse:76 |
راستے
(the) way
|
|
Surah:4Verse:84 |
راہ
(the) way
|
|
Surah:4Verse:88 |
کوئی راستہ
a way
|
|
Surah:4Verse:89 |
راستے
(the) way
|
|
Surah:4Verse:90 |
کوئی راستہ
a way
|
|
Surah:4Verse:94 |
کے راستے
(the) way
|