Perfect Tense | Imperfect Tense | Imperative | Active Participle | Passive Participle | Noun Form |
عَقَّبَ |
يُعَقِّبُ |
عَقِّبْ |
مُعَقِّب |
مُعَقَّب |
تِعْقِيْب |
اَلْعَقِبُ وَالْعَقْب: پاؤں کا پچھلا حصہ یعنی ایڑی اس کی جمع اَعْقَابٌ ہے۔ حدیث میں ہے۔(1) (۴۵) (وَیْلٌ لِلْاَعْقَابِ مِنَ النَّارِ) کہ (وضو میں خشک رہنے والی) ایڑیوں کے لیے دوزخ کا عذاب ہے اور بطور استعارہ عَقِبٌ کا لفظ بیٹے پوتے پر بھی بولا جاتا ہے۔ قرآن پاک میں ہے۔ (وَ جَعَلَہَا کَلِمَۃًۢ بَاقِیَۃً فِیۡ عَقِبِہٖ ) (۴۳:۲۸) اور یہی بات اپنی اولاد میں پیچھے چھوڑ گئے۔ جَآئَ فشیْ عَقِبِ الشَّھْرِ: مہینے کے آخری دنوں میں آیا۔ رَجَعَ عَلٰی عَقِبِہٖ: الٹے پاؤں واپس لوٹا۔ اِنْقَلَبَ عَلٰی عَقِبَیْہِ: وہ الٹے پاؤں واپس لوٹا۔ جیسے: رَجَعَ عَلٰی حَافِرَتِہٖ: کا محاورہ ہے اور جیساکہ قرآن پاک میں ہے۔ (فَارۡتَدَّا عَلٰۤی اٰثَارِہِمَا قَصَصًا ) (۱۸:۶۴) تو وہ اپنے پاؤں کے نشان دیکھتے دیکھتے لوٹ گئے۔ نیز کہا جاتا ہے۔ رَجَعَ عَوْدُہٗ عَلٰٓی بَدْئِہٖ: یعنی جس راستہ پر گیا تھا اسی راستہ سے واپس لوٹ آیا۔ قرآن پاک میں ہے: (وَ نُرَدُّ عَلٰۤی اَعۡقَابِنَا ) (۶:۷۱) تو کیا ہم الٹے پاؤں پھر جائیں۔ (انۡقَلَبۡتُمۡ عَلٰۤی اَعۡقَابِکُمۡ ؕ وَ مَنۡ یَّنۡقَلِبۡ عَلٰی عَقِبَیۡہِ ) (۳:۱۴۴) تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ (یعنی مرتد ہوجاؤ) اور جو الٹے پاؤں پھر جائے گا۔ (نَکَصَ عَلٰی عَقِبَیۡہِ ) (۸:۴۸) تو پسپا ہوکر چل دیا۔ (فَکُنۡتُمۡ عَلٰۤی اَعۡقَابِکُمۡ تَنۡکِصُوۡنَ ) (۲۳:۶۶) اور تم الٹے پاؤں پھر جاتے تھے۔ عَقَبَہٗ: وہ اس کے پیچھے پیچھے چلا، اس کا جانشین ہوا۔ جیساکہ دَبَرَہٗ وَقَفَاہٗ کا محاورہ ہے۔ اَلْعَقَبُ وَالْعُقْبٰی: خاص کر ثواب۔ یعنی اچھے بدلے پر بولے جاتے ہیں۔ جیسے فرمایا: (خَیۡرٌ ثَوَابًا وَّ خَیۡرٌ عُقۡبًا ) (۱۸:۴۴) اس کا صلہ بہتر اور (اس کا) بدلہ اچھا ہے۔ (اُولٰٓئِکَ لَہُمۡ عُقۡبَی الدَّارِ ) (۱۳:۲۲) یہی لوگ ہیں جن کے لیے عاقبت کا گھر ہے۔ اور عَاقِبَۃٌ کا لفظ بھی ثواب کے لیے مخصوص ہے۔ جیسے فرمایا: (وَ الۡعَاقِبَۃُ لِلۡمُتَّقِیۡنَ ) (۲۸:۸۳) اور انجام نیک تو پرہیزگاروں ہی کا ہے۔ مگر یہ اضافت کی صورت میں کبھی عُقُوْبَۃٌ کے معنی میں بھی آجاتا ہے، جیسے فرمایا: (ثُمَّ کَانَ عَاقِبَۃَ الَّذِیۡنَ اَسَآءُوا السُّوۡٓاٰۤی ) (۳۰:۱۰) پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا۔ اور آیت کریمہ: (فَکَانَ عَاقِبَتَہُمَاۤ اَنَّہُمَا فِی النَّارِ) (۵۹:۱۷) تو دونوں کا انجام یہ ہوا کہ دونوں دوزخ میں داخل ہوئے۔ میں عَاقِبَۃ کا لفظ استعارتاً عذاب کے لیے استعمال ہوا ہے جیساکہ آیت کریمہ: (فَبَشِّرۡہُمۡ بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ ) (۹:۳۴) ان کو اس دن کے عذاب الیم کی خوشخبری سنادو۔ میں عذاب کے ساتھ بشارت کا لفظ لایا گیا ہے اور عِقَاب، عُقُوْبَۃٌ اور مَعَاقَبَۃٌ عذاب کے ساتھ مخصوص ہیں۔ چنانچہ قرآن پاک میں ہے: (فَحَقَّ عِقَابِ ) (۳۸:۱۴) تو سخت عذاب کرنے والا۔ (وَ اِنۡ عَاقَبۡتُمۡ فَعَاقِبُوۡا بِمِثۡلِ مَا عُوۡقِبۡتُمۡ بِہٖ) (۱۶:۱۲۶) اگر تم ان کو تکلیف دینی چاہو تو اتنی ہی دو جتنی تکلیف تم کو ان سے پہنچی ہے۔ (وَ مَنۡ عَاقَبَ بِمِثۡلِ مَا عُوۡقِبَ بِہٖ …) (۲۲:۶۰) جو شخص کسی کو اتنی ہی سزا دے جتنی سزا کہ اس کو دی گئی ہے۔ اَلتَّعْقِیْبُ: ایک چیز کے بعد دوسری لانا۔ عَقَّبَ الْفَرْسُ فِیْ عَدْوِہِ: گھوڑے نے ایک دوڑ کے بعد دوسری دوڑ لگائی۔ قرآن پاک میں ہے: (لَہٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنۡۢ بَیۡنِ یَدَیۡہِ وَ مِنۡ خَلۡفِہٖ ) (۱۳:۱۱) اس کے آگے اور پیچھے خدا کے چوکیدار ہیں اور آیت کریمہ: (لَا مُعَقِّبَ لِحُکۡمِہٖ) (۱۳:۴۱) کے معنی ہیں کہ اﷲ کے فیصلے کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا اور نہ اس پر بحث کرسکتا ہے۔ یہ عَقَّبَ الْحَاکِمُ عَلٰی حُکْمِ مَنْ قَبْلَہٗ کے محاورہ سے ماخوذ ہے یعنی حاکم نے اپنے پیشتر و حاکم کے خلاف فیصلہ دیا۔ شاعر نے کہا ہے۔(2) (۳۱۷) وَمَا بَعْدَ حُکْمِ اﷲِ تَعْقِیْبُ اﷲ کے فیصلہ کے بعد کسی اور کا فیصلہ نہیں آسکتا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آیت مذکورہ میں لوگوں کو اﷲ کے حکم اور اس کی مخفی حکمتوں میں خوض کرنے سے منع فرمایا گیا ہو۔ جیساکہ قضا وقدر کے اسرار میں غوروخوض سے منع کیا گیا ہے۔ اور آیت کریمہ: (وَّلّٰی مُدۡبِرًا وَّ لَمۡ یُعَقِّبۡ) (۲۷:۱۰) میں لَمْ یُعَقِّبْ کے معنی ہیں اس نے مڑ کر پیچھے کو نہ دیکھا۔ اَلْاِعْتِقَابُ کے معنی ایک چیز کے بعد دوسری آنے کے ہیں۔ جیسے شب و روز کہ یہ دونوں یکے بعد دیگرے آتے ہیں۔ اسی سے اَلْعَقْبَۃُ ہے یعنی دو مسافروں کا یکے بعد دیگرے ایک سواری پر سوار ہونا۔ عُقْبَۃُ الطَّائِرِ: پرند کا کبھی اوپر چڑھنا اور کبھی نیچے اترنا۔ اَعْقَبَہٗ کَذَا: کسی چیز کا وارث بنادینا ایک چیز کی جگہ دوسری چیز کو اس کا جانشین بنانا۔ قرآن پاک میں ہے: (فَاَعۡقَبَہُمۡ نِفَاقًا ) (۹:۷۷) تو خدا نے … ان کے (دلوں میں) نفاق ڈالدیا۔ شاعر نے کہا ہے۔(3) (الطّویل) (۳۱۸) لَہٗ طَائِفَۃٌ مِنْ جِنَّۃٍ غَیْرُ مُعْقِبٍ یعنی اسے جنون کا دورہ پڑتا ہے جس کے بعد افاقہ نہیں ہوتا۔ فُلَانٌ لَمْ یُعْقِبْ: اس نے اولاد نہیں چھوڑی اور اَعْقَابُ الرَّجُلِ کے معنی آدمی کی اولاد کے ہیں اہل لغت کا قول ہے کہ اس کے تحت لڑکی کی اولاد نہیں آتی کیونکہ وہ نسباً اس کی جانشین نہیں ہوتی لیکن ذُرِّیَّۃٌ کے لفظ میں لڑکی کی اولاد بھی داخل ہوتی ہے۔ اِمْرَئَ ۃٌ مِعْقَابٌ: وہ عورت جو ایک بار لڑکا اور دوسری بار لڑکی جنے عَقَبْتُ الرُّمْحَ کے معنی نیزے کو عقب یعنی پالان کے پچھلے حصہ کے ساتھ باندھ دیا۔ جیسے عَصَبْتُہٗ کے معنی ہیں میں نے اسے عَصَبٌ یعنی تانت سے باندھ دیا اَلْعَقَبَۃُ پہاڑ پر چڑھنے کا دشوار گزار راستہ اس کی جمع عُقَبٌ وَعِقَابٌ ہے اور شاہین کو بھی عُقَابٌ کہا جاتا ہے کیونکہ شکار کا تعاقب کرتا ہے اور تشبیہ کے طور پر عِقَابٌ کا لفظ (۱) جھنڈے (۲) کنوئیں کے پتھر جس پر پانی پلانے والا کھڑا ہوتا ہے اور (۳) کان کی بالی کے دھاگے پر بھی بولا جاتا ہے۔ اَلْیَعْقُوْبُ: مذکر چکور۔ کیونکہ اس کی عادت یہ ہے کہ ایک مرتبہ دوڑنے کے بعد ٹھہر جاتا ہے اور پھر دوسری بار دوڑتا ہے۔
Surah:2Verse:143 |
اپنی دونوں ایڑیوں
his heels
|
|
Surah:3Verse:144 |
اپنی ایڑیوں کے
your heels?
|
|
Surah:3Verse:144 |
اپنی دونوں ایڑیوں کے
his heels
|
|
Surah:3Verse:149 |
تمہاری ایڑیوں کے
your heels
|
|
Surah:6Verse:71 |
اپنی ایڑیوں کے
our heels
|
|
Surah:8Verse:48 |
اپنی دونوں ایڑیوں پر
his heels
|
|
Surah:23Verse:66 |
اپنی ایڑیوں پر
your heels
|
|
Surah:43Verse:28 |
اس کی اولاد میں۔ اس کے پیچھے
his descendents
|