Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 164

سورة البقرة

اِنَّ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ اخۡتِلَافِ الَّیۡلِ وَ النَّہَارِ وَ الۡفُلۡکِ الَّتِیۡ تَجۡرِیۡ فِی الۡبَحۡرِ بِمَا یَنۡفَعُ النَّاسَ وَ مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآءِ مِنۡ مَّآءٍ فَاَحۡیَا بِہِ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِہَا وَ بَثَّ فِیۡہَا مِنۡ کُلِّ دَآبَّۃٍ ۪ وَّ تَصۡرِیۡفِ الرِّیٰحِ وَ السَّحَابِ الۡمُسَخَّرِ بَیۡنَ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّعۡقِلُوۡنَ ﴿۱۶۴﴾

Indeed, in the creation of the heavens and earth, and the alternation of the night and the day, and the [great] ships which sail through the sea with that which benefits people, and what Allah has sent down from the heavens of rain, giving life thereby to the earth after its lifelessness and dispersing therein every [kind of] moving creature, and [His] directing of the winds and the clouds controlled between the heaven and the earth are signs for a people who use reason.

آسمانوں اور زمین کی پیدائش ، رات دن کا ہیر پھیر ، کشتیوں کا لوگوں کونفع دینے والی چیزوں کو لئے ہوئے سمندروں میں چلنا آسمان سے پانی اتار کر ، مردہ زمین کو زندہ کر دینا اس میں ہر قسم کے جانوروں کو پھیلا دینا ، ہواؤں کے رخ بدلنا ، اور بادل ، جو آسمان اور زمین کے درمیان مسخر ہیں ، ان میں عقلمندوں کے لئے قدرت الٰہی کی نشانیاں ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Proofs for Tawhid Allah said: إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالاَرْضِ ... Verily, in the creation of the heavens and the earth..., Therefore, the sky, with its height, intricate design, vastness, the heavenly objects in orbit, and this earth, with its density, its lowlands, mountains, seas, deserts, valleys, and other structures, and beneficial things that it has. Allah continues: ... وَاخْتِلَفِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ ... ...and in the alternation of night and day. This (the night) comes and then goes followed by the other (the day) which does not delay for even an instant, just as Allah said: لااَ الشَّمْسُ يَنبَغِى لَهَأ أَن تدْرِكَ القَمَرَ وَلااَ الَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ وَكُلٌّ فِى فَلَكٍ يَسْبَحُونَ It is not for the sun to overtake the moon, nor does the night outstrip the day. They all float, each in an orbit. (36:40) Sometimes, the day grows shorter and the night longer, and sometimes vice versa, one takes from the length of the other. Similarly Allah said: يُولِجُ الَّيْلَ فِى النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارَ فِى الَّيْلِ Allah merges the night into the day, and He merges the day into the night. (57:6) meaning, He extends the length of one from the other and vice versa. Allah then continues: ... وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنفَعُ النَّاسَ ... ...and the ships which sail through the sea with that which is of use to mankind, Shaping the sea in this manner, so that it is able to carry ships from one shore to another, so people benefit from what the other region has, and export what they have to them and vice versa. Allah then continues: ... وَمَا أَنزَلَ اللّهُ مِنَ السَّمَاء مِن مَّاء فَأَحْيَا بِهِ الارْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ... ...and the water (rain) which Allah sends down from the sky and makes the earth alive therewith after its death, which is similar to Allah's statement: وَايَةٌ لَّهُمُ الاْاَرْضُ الْمَيْتَةُ أَحْيَيْنَاهَا وَأَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبًّا فَمِنْهُ يَأْكُلُونَ And a sign for them is the dead land. We give it life, and We bring forth from it grains, so that they eat thereof. (36:33), until: وَمِمَّا لاَ يَعْلَمُونَ (which they know not). (36:36) Allah continues: ... وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَابَّةٍ ... and the moving (living) creatures of all kinds that He has scattered therein, meaning, in various shapes, colors, uses and sizes, whether small or large. Allah knows all that, sustains it, and nothing is concealed from Him. Similarly, Allah said: وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الاٌّرْضِ إِلاَّ عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا كُلٌّ فِى كِتَابٍ مُّبِينٍ And no moving (living) creature is there on earth but its provision is due from Allah. And He knows its dwelling place and its deposit (in the uterus or grave). All is in a Clear Book (Al-Lawh Al-Mahfuz ـ the Book of Decrees with Allah). (11:6) ... وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ ... ...and in the veering of winds..., Sometimes, the wind brings mercy and sometimes torment. Sometimes it brings the good news of the clouds that follow it, sometimes it leads the clouds, herding them, scattering them or directing them. Sometimes, the wind comes from the north (the northern wind), and sometimes from the south, sometimes from the east, and striking the front of the Ka`bah, sometimes from the west, striking its back. There are many books about the wind rain, stars and the regulations related to them, but here is not the place to elaborate on that, and Allah knows best. Allah continues: ... وَالسَّحَابِ الْمُسَخِّرِ بَيْنَ السَّمَاء وَالاَرْضِ ... ...and clouds which are held between the sky and the earth, The clouds run between the sky and the earth to wherever Allah wills of lands and areas. Allah said next: ... لاايَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ ...are indeed Ayat for people of understanding. meaning, all these things are clear signs that testify to Allah's Oneness. Similarly, Allah said: إِنَّ فِى خَلْقِ السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ وَاخْتِلَـفِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لاّيَـتٍ لاٌّوْلِى الاٌّلْبَـبِ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَـماً وَقُعُوداً وَعَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِى خَلْقِ السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ رَبَّنَأ مَا خَلَقْتَ هَذا بَـطِلً سُبْحَـنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ Verily, in the creation of the heavens and the earth, and in the alternation of night and day, there are indeed signs for men of understanding. Those who remember Allah (always, and in prayers) standing, sitting, and lying down on their sides, and think deeply about the creation of the heavens and the earth, (saying): "Our Lord! You have not created (all) this without purpose, glory to You! (Exalted are You above all that they associate with You as partners). Give us salvation from the torment of the Fire." (3:190-191)

ٹھوس دلائل مطلب یہ ہے کہ اس اللہ کی فرماں روائی اور اس کی توحید کی دلیل ایک تو یہ آسمان ہے جس کی بلندی لطافت کشادگی جس کے ٹھہرے ہوئے اور چلتے پھرتے والے روشن ستارے تم دیکھ رہے ہو ، پھر زمین کی پیدائش جو کثیف چیز ہے جو تمہارے قدموں تلے بچھی ہوئی ہے ، جس میں بلند بلند چوٹیوں کے سر بہ فلک پہاڑ ہیں جس میں موجیں مارنے والے بےپایاں سمندر ہیں جس میں انواع واقسام کے خوش رنگ بیل بوٹے ہیں جس میں طرح طرح کی پیداوار ہوتی ہے جس میں تم رہتے سہتے ہو اور اپنی مرضی کے مطابق آرام دہ مکانات بنا کر بستے ہو اور جس سے سینکڑوں طرح کا نفع اٹھاتے ہو ، پھر رات دن کا آنا جانا رات گئی دن گیا رات آ گئی ۔ نہ وہ اس پر سبقت کرے نہ یہ اس پر ۔ ہر ایک اپنے صحیح انداز سے آئے اور جائے کبھی کے دن بڑے کبھی کی راتیں ، کبھی دن کا کچھ حصہ رات میں جائے کبھی رات کا کچھ حصہ دن میں آجائے ، پھر کشتیوں کو دیکھوں جو خود تمہیں اور تمہارے مال واسباب اور تجارتی چیزوں کو لے کر سمندر میں ادھر سے ادھرجاتی آتی رہتی ہیں ، جن کے ذریعہ اس ملک والے اس ملک والوں سے اور اس ملک والے اس ملک والوں سے رابطہ اور لین دین کرسکتے ہیں ، یہاں کی چیزیں وہاں اور وہاں کی یہاں پہنچ سکتی ہیں ، پھر اللہ تعالیٰ کا اپنی رحمت کاملہ سے بارش برسانا اور اس سے مردہ زمین کو زندہ کر دینا ، اس سے اناج اور کھیتیاں پیدا کرنا ، چاروں طرف ریل پیل کر دینا ، زمین میں مختلف قسم کے چھوٹے بڑے کار آمد جانوروں کو پیدا کرنا ان سب کی حفاظت کرنا ، انہیں روزیاں پہنچانا ان کے لئے سونے بیٹھنے چرنے چگنے کی جگہ تیار کرنا ، ہواؤں کو پورب پچھم چلانا ، کبھی ٹھنڈی کبھی گرم کبھی کم کبھی زیادہ ، بادلوں کو آسمان و زمین کے درمیان مسخر کرنا ، انہیں ایک طرف سے دوسری کی طرف لے جانا ، ضرورت کی جگہ برسانا وغیرہ یہ سب اللہ کی قدرت کی نشانیاں ہیں جن سے عقل مند اپنے اللہ کے وجود کو اور اس کی وحدانیت کو پالیتے ہیں ، جیسے اور جگہ فرمایا کہ آسمان وزمین کی پیدائش اور رات دن کے آنے جانے میں عقل مندوں کے لئے نشانیاں ہیں ، جو اٹھتے بیٹھتے لیٹتے اللہ تعالیٰ کا نام لیا کرتے ہیں اور زمین وآسمان کی پیدائش میں غور فکر سے کام لیتے ہیں اور کہتے ہیں اے ہمارے رب تو نے انہیں بیکار نہیں بنایا تیری ذات پاک ہے تو ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا ، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ قریشی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ صفا پہاڑ کو سونے کا بنا دے ہم اس سے گھوڑے اور ہتھیار وغیرہ خریدیں اور تیرا ساتھ دیں اور ایمان بھی لائیں آپ نے فرمایا پختہ وعدے کرتے ہو؟ انہوں نے کہا ہاں پختہ وعدہ ہے آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور فرمایا تمہاری دعا تو قبول ہے لیکن اگر یہ لوگ پھر بھی ایمان نہ لائے تو ان پر اللہ کا وہ عذاب آئے گا جو آج سے پہلے کسی پر نہ آیا ہو ، آپ کانپ اٹھے اور عرض کرنے لگے نہیں اللہ تو انہیں یونہی رہنے دے میں انہیں تیری طرف بلاتا رہوں گا کیا عجب آج نہیں کل اور کل نہیں تو پرسوں ان میں سے کوئی نہ تیری جھک جائے اس پر یہ آیت اتری کہ اگر انہیں قدرت کی نشانیاں دیکھنی ہیں تو کیا یہ نشانیاں کچھ کم ہیں؟ ایک اور شان نزول بھی مروی ہے کہ جب آیت ( والھکم ) الخ اتری تو مشرکین کہنے لگے ایک اللہ تمام جہاں کا بندوبست کیسے کریگا ؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ وہ اللہ اتنی بڑی قدرت والا ہے ، بعض روایتوں میں ہے اللہ کا ایک ہونا سن کر انہوں نے دلیل طلب کی جس پر یہ آیت نازل ہوئی اور قدرت کے نشان ہائے ان پر ظاہر کئے گئے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

164۔ 1 یہ آیت اس لحاظ سے بڑی جامع ہے کہ کائنات کی تخلیق اور اس کے نظم و تدبیر کے متعلق سات اہم امور کا اس میں یکجا تذکرہ ہے، جو کسی آیت میں نہیں 1۔ آسمان اور زمین کی پیدائش، جن کی وسعت و عظمت محتاج بیان نہیں۔ 2۔ رات اور دن کا یکے بعد دیگرے آنا، دن کو روشنی اور رات کو اندھیرا کردینا تاکہ کاروبار معاش بھی ہو سکے اور آرام بھی۔ پھر رات کا لمبا اور دن کا چھوٹا ہونا اور پھر اس کے برعکس دن کا لمبا اور رات کا چھوٹا ہونا۔ 3۔ سمندر میں کشتیوں اور جہازوں کا چلنا، جن کے ذریعے سے تجارتی سفر بھی ہوتے ہیں اور ٹنوں کے حساب سے سامان رزق و آسائش ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا ہے۔ 4۔ بارش جو زمین کی شادابی و روئیدگی کے لئے نہایت ضروری ہے۔ 5۔ ہر قسم کے جانوروں کی پیدائش، جو نقل و حمل، کھیتی باڑی اور جنگ میں بھی کام آتے ہیں اور انسانی خوراک کی بھی ایک بڑی مقدار ان سے پوری ہوتی ہے۔ 6۔ ہر قسم کی ہوائیں ٹھنڈی بھی گرم بھی، بارآور بھی اور غیر بارآور بھی، مشرقی مغربی بھی اور شمالی جنوبی بھی۔ انسانی زندگی اور ان کی ضروریات کے مطابق۔ 7۔ بادل جنہیں اللہ تعالیٰ جہاں چاہتا ہے، برساتا ہے۔ یہ سارے امور کیا اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی وحدانیت پر دلالت نہیں کرتے، یقینا کرتے ہیں۔ کیا اس تخلیق میں اور اس نظم و تدبیر میں اس کا کوئی شریک ہے ؟ نہیں۔ یقینا نہیں۔ تو پھر اس کو چھوڑ کر دوسروں کو معبود اور حاجت روا سمجھنا کہاں کی عقلمندی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٠٢] اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے غور و فکر کرنے والوں کے لیے آٹھ ایسے امور کا ذکر فرمایا ہے جو اللہ تعالیٰ کے وجود پر اور اس کی لامحدود قدرت و تصرف پر واضح دلائل ہیں۔ مثلاً اتنے عظیم الشان آسمان کو بغیر ستونوں کے پیدا کرنا اور زمین کو اس طرح بنانا کہ اس پر بسنے والی تمام مخلوق کی ضروریات کی کفیل ہے۔ دن رات کا یکے بعد دیگرے آنا جانا اور ان کے اوقات کا گھٹنا بڑھنا، جہازوں کا بڑے بڑے مہیب اور متلاطم سمندروں میں رواں ہونا آسمان سے بارش برسانا جس سے مردہ زمین زندہ ہوجاتی ہے۔ ہر جاندار میں توالدو تناسل کا سلسلہ قائم کرنا انہیں تمام روئے زمین پر پھیلا دینا، ہواؤں کے رخ میں تبدیلی پیدا کرنا اور بلندیوں پر بادلوں کو اپنی مرضی کے مطابق چلانا۔ یہ سب کام ایسے ہیں جنہیں اللہ کے سوا کوئی بھی ہستی سرانجام نہیں دے سکتی۔ پھر اور کون سے کام ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کو دوسرے دیوی دیوتاؤں کی ضرورت پیش آسکتی ہے ؟ پھر مندرجہ بالا امور بیان کرنے کے بعد ساتھ ہی یہ بھی بتلا دیا کہ غور و فکر کرنے والوں کے لیے اس کائنات میں ان کے علاوہ اور بھی ایسی بہت سی نشانیاں موجود ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اوپر کی آیت میں اللہ تعالیٰ کے الٰہ واحد (ایک معبود) ہونے کا بیان تھا، اس آیت میں اس کے ایک ہونے کے دلائل کا بیان ہے۔ قرآن نے ان آٹھ چیزوں کو اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کے ایک ہونے کے ثبوت میں کئی جگہ الگ الگ ذکر فرمایا ہے، مگر یہاں ان سب کو جمع کردیا ہے۔ کائنات کی ان چیزوں کو خاص طور پر ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کے متعلق خود مشرکین بھی مانتے تھے کہ ان کے پیدا کرنے میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی دوسرا شریک نہیں ہے۔ (کبیر) مفسر قرآن امین شنقیطی (رض) نے فرمایا ہے کہ یہاں آسمان و زمین کی پیدائش میں توحید کی نشانی ہونے کی تفصیل بیان نہیں ہوئی، دوسرے مقامات پر تفصیل موجود ہے، مثلاً دیکھیے سورة ق (٦ تا ٨) سورة ملک (٣ تا ٥، ١٥) اور سورة لقمان (١١، ١٢) اسی طرح دن رات کے بدلنے میں توحید کی نشانی ہونے کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة قصص (٧١ تا ٧٣) اور اعراف (٥٤) آسمان و زمین کے درمیان بادل کے مسخر ہونے کی کیفیت کے لیے دیکھیے سورة اعراف (٥٧) اور سورة نور (٤٣) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Now in Verse 164, there is a series of signs and proofs in support of the premise that Allah Almighty is really One. Stated simply, these can be grasped by the learned and the ignorant alike. How can one bypass the wonder of the creation of the heavens and the earth? Who can ignore the constant alternation of the night and the day? The message is simple and clear. Their origination and their perpetuity is the work of His perfect power alone and that there is absolutely no being other than Him who can take that credit. Similarly, the movement of boats on the surface of waters, is a formidable indicator of Allah&s power which gave water, a substance so liquid and fluid, the property of lifting on its back ships which carry tons and tons of weight all the way from the East to the West. Then, there is the movement of winds which Allah harnesses into the service of man, and in His wisdom, keeps changing their direction. These are great signs; they tell us that they were created and operated by a supreme being, the One who is All-Knowing, All-Aware, All-Wise. If the substance of water was not given a state in which the molecules move freely among themselves while remaining in one mass, a functional fluidity in other words, all this maritime activity would not be there. Even if this fluidity of sea-surface was there, help from winds was still needed in order to cover all those thousands of nautical miles across the seas of the world. The Holy Qur&an has summarized the subject by saying: إِن يَشَأْ يُسْكِنِ الرِّ‌يحَ فَيَظْلَلْنَ رَ‌وَاكِدَ عَلَىٰ ظَهْرِ‌هِ |"If He wills, He can still the winds, then, ships shall remain standing on the back of the seas.|" (42:33) The use of the expression بِمَا يَنفَعُ النَّاسَ :&with what benefits men& points out to the countless benefits that accrue to human beings when they mutually trade their goods through sea freighters. It is interesting to keep in mind the variations these benefits take from country to country and from age to age. Then comes the marvel of water descending from the sky, drop by drop, released in a measure and manner that it hurts nothing. If it always came in the form of a flood, nothing would have survived, man or animal or things. Then, the raining of water is not all; it is the storage of water on earth that baffles the human ingenuity. Risking a simplicity, let us imagine if everyone was asked to store for personal use a quota of water for six month, how would everyone manage that? Even if such an impossible storage was somehow done, how could it be made to remain potable and hygienic all this time? Allah Almighty, in His infinite mercy, took care of this too. The Holy Qur&an says: فَأَسْكَنَّاهُ فِي الْأَرْ‌ضِ ۖ وَإِنَّا عَلَىٰ ذَهَابٍ بِهِ لَقَادِرُ‌ونَ &Then, We made water stay in the earth, although, We were capable of letting it flow away& (23:18) But, nature did not allow this to happen. For the inhabitants of the earth, human and animal, water was stored in ponds and lakes openly. Then, the same water was lowered into the earth under the mountains and valleys in the form of an unsensed network of hidden pipelines of water accessible to everyone taking the trouble of digging and finding water. Further still, is it not that a huge sea of ice was stored out on top of the mountain ranges which is secure against spoilage and melts out slowly reaching all over the world through nature&s own water lines. To sum up, it can be said that Allah&s Oneness has been proved in these verses with the citation of some manifestations of His perfect power. Commentators of the Qur&an have taken up this subject in great details. Those interested may see al-Jassas, al-Qurtubi and others.

اس کے بعد حق تعالیٰ کے واحد حقیقی ہونے پر تکوینی علامات و دلائل بتلائے گئے ہیں جن کو ہر عالم و جاہل سمجھ سکتا ہے کہ آسمان و زمین کی تخلیق اور رات دن کے دائمی انقلاب اس کی قدرت کاملہ اور توحید کے واضح دلائل ہیں کہ ان چیزوں کی پیدائش اور بقاء میں کسی دوسری ہستی کا کوئی دخل نہیں۔ اسی طرح پانی پر کشتیوں کا چلنا ایک بڑی آیت قدرت ہے کہ پانی کو حق تعالیٰ نے ایسا جوہر سیال بنادیا کہ رقیق اور سیال ہونے کے باوجود اس کی پیٹھ پر لاکھوں من وزن کے جہاز بڑے بڑے وزن کو لے کر مشرق سے مغرب تک منتقل کردیتے ہیں اور ان کو حرکت میں لانے کے لئے ہواؤں کا چلانا اور پھر اپنی حکمت کے ساتھ ان کے رخ بدلتے رہنا یہ سب اس کا پتہ دیتے ہیں کہ ان چیزوں کا پیدا کرنیوالا اور چلانے والا کوئی بڑا علیم وخبیر اور حکیم ہے اگر پانی کا مادہ سیال نہ ہو تو یہ کام نہیں ہوسکتا اور مادہ سیال بھی ہو تو جب تک ہوائیں نہ چلیں جو ان جہازوں کو حرکت میں لاتی ہیں جہازوں کا لمبی لمبی مسافتیں طے کرنا ممکن نہیں قرآن کریم نے اسی مضمون کو فرمایا، اِنْ يَّشَاْ يُسْكِنِ الرِّيْحَ فَيَظْلَلْنَ رَوَاكِدَ عَلٰي ظَهْرِهٖ (٣٣: ٤٢) اگر اللہ تعالیٰ چاہیں تو ہواؤں کو ساکن کردیں اور یہ جہاز سمندر کی پشت پر کھڑے کے کھڑے رہ جائیں۔ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ کے لفظ میں اشارہ کردیا گیا کہ بحری جہازوں کے ذریعہ ایک ملک کا سامان دوسرے ملک میں درآمد وبرآمد کرنے کے ذریعہ عام انسانوں کے بیشمار فائدے ہیں جن کو شمار بھی نہیں کیا جاسکتا اور یہ فائدے ہر زمانے ہر ملک میں نئی نئی صورتیں پیدا کردیتے ہیں، اسی طرح آسمان سے پانی کو قطرہ قطرہ کرکے اس طرح نازل کرنا کہ اس سے کسی چیز کو نقصان نہ پہنچنے اگر سیلاب کی طرح آتا تو کوئی آدمی جانور، سامان کچھ نہ رہتا پھر پانی برسنے کے بعد اس کا زمین پر محفوظ رکھنا، انسان کے بس کا نہیں اگر کہہ دیا جاتا کہ چھ مہینہ کے پانی کا کوٹہ اپنا اپنا ہر شخص رکھ لے تو ہر شخص اس کے رکھنے کا کیا انتظام کرتا اور کسی طرح رکھ بھی لیتا تو اس کو سڑنے اور خراب ہوجانے سے کیسے بچاتا قدرت نے یہ سب انتظامات خود فرمادئیے ارشاد فرمایا : فَاَسْكَنّٰهُ فِي الْاَرْضِ وَاِنَّا عَلٰي ذَهَابٍۢ بِهٖ لَقٰدِرُوْنَ (١٨: ٢٣) یعنی ہم نے ہی پانی کو زمین کے اندر ٹھہرا دیا اگرچہ ہمیں اس کی بھی قدرت تھی کہ بارش کا پانی برسنے کے بعد بہہ کر ختم ہوجاتا، مگر قدرت نے پانی کو اہل زمین انسان اور جانوروں کے لئے کہیں کھلے طور پر تالابوں اور حوضوں میں جمع کردیا کہیں پہاڑوں کی زمین میں پھیلی ہوئی رگوں کے ذریعہ زمین کے اندر اتار دیا اور پھر ایک غیر محسوس پائپ لائن ساری زمین میں بچھا دی ہر شخص جہاں چاہئے کھود کر پانی نکال لیتا ہے اور اسی پانی کا ایک بہت بڑا ذخیرہ بحر منجمد بنا کر برف کی صورت میں پہاڑوں کے اوپر لاد دیا جو سڑنے اور خراب ہونے سے بھی محفوظ ہے اور آہستہ آہستہ پگھل کر زمین کے اندر قدرتی پائپ لائن کے ذریعہ پورے عالم میں پہونچتا ہے غرض آیت مذکورہ میں قدرت کاملہ کے چند مظاہر کا بیان کرکے توحید کو ثابت کیا گیا علماء مفسرین نے ان تمام چیزوں پر تفصیلی بحث کی ہے دیکھئے۔ جصاص، قرطبی وغیرہ۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّہَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِىْ تَجْرِيْ فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَنْزَلَ اللہُ مِنَ السَّمَاۗءِ مِنْ مَّاۗءٍ فَاَحْيَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا وَبَثَّ فِيْہَا مِنْ كُلِّ دَاۗبَّۃٍ۝ ٠ ۠ وَّتَصْرِيْفِ الرِّيٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ۝ ١٦٤ إِنَّ وأَنَ إِنَّ أَنَّ ينصبان الاسم ويرفعان الخبر، والفرق بينهما أنّ «إِنَّ» يكون ما بعده جملة مستقلة، و «أَنَّ» يكون ما بعده في حکم مفرد يقع موقع مرفوع ومنصوب ومجرور، نحو : أعجبني أَنَّك تخرج، وعلمت أَنَّكَ تخرج، وتعجّبت من أَنَّك تخرج . وإذا أدخل عليه «ما» يبطل عمله، ويقتضي إثبات الحکم للمذکور وصرفه عمّا عداه، نحو : إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ [ التوبة/ 28] تنبيها علی أنّ النجاسة التامة هي حاصلة للمختص بالشرک، وقوله عزّ وجل : إِنَّما حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ [ البقرة/ 173] أي : ما حرّم ذلك إلا تنبيها علی أنّ أعظم المحرمات من المطعومات في أصل الشرع هو هذه المذکورات . وأَنْ علی أربعة أوجه : الداخلة علی المعدومین من الفعل الماضي أو المستقبل، ويكون ما بعده في تقدیر مصدر، وينصب المستقبل نحو : أعجبني أن تخرج وأن خرجت . والمخفّفة من الثقیلة نحو : أعجبني أن زيدا منطلق . والمؤكّدة ل «لمّا» نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] . والمفسّرة لما يكون بمعنی القول، نحو : وَانْطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ أَنِ امْشُوا وَاصْبِرُوا [ ص/ 6] أي : قالوا : امشوا . وكذلك «إِنْ» علی أربعة أوجه : للشرط نحو : إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبادُكَ [ المائدة/ 118] ، والمخفّفة من الثقیلة ويلزمها اللام نحو : إِنْ كادَ لَيُضِلُّنا [ الفرقان/ 42] ، والنافية، وأكثر ما يجيء يتعقّبه «إلا» ، نحو : إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا [ الجاثية/ 32] ، إِنْ هذا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ [ المدثر/ 25] ، إِنْ نَقُولُ إِلَّا اعْتَراكَ بَعْضُ آلِهَتِنا بِسُوءٍ [هود/ 54] . والمؤكّدة ل «ما» النافية، نحو : ما إن يخرج زيد ( ان حرف ) ان وان ( حرف ) یہ دونوں اسم کو نصب اور خبر کو رفع دیتے ہیں اور دونوں میں فرق یہ ہے کہ ان جملہ مستقل پر آتا ہے اور ان کا مابعد ایسے مفرد کے حکم میں ہوتا ہے جو اسم مرفوع ، منصوب اور مجرور کی جگہ پر واقع ہوتا ہے جیسے اعجبنی انک تخرج وعجبت انک تخرج اور تعجب من انک تخرج جب ان کے بعد ما ( کافہ ) آجائے تو یہ عمل نہیں کرتا اور کلمہ حصر کے معنی دیتا ہے ۔ فرمایا :۔ { إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ } ( سورة التوبة 28) ۔ مشرک تو پلید ہیں (9 ۔ 28) یعنی نجاست تامہ تو مشرکین کے ساتھ مختص ہے ۔ نیز فرمایا :۔ { إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ } ( سورة البقرة 173) اس نے تم امر ہوا جانور اور لہو حرام کردیا ہے (2 ۔ 173) یعنی مذکورہ اشیاء کے سوا اور کسی چیز کو حرام قرار نہیں دیا اس میں تنبیہ ہے کہ معلومات میں سے جو چیزیں اصول شریعت میں حرام ہیں ان میں سے یہ چیزیں سب سے بڑھ کر ہیں ۔ ( ان ) یہ چار طرح پر استعمال ہوتا ہے (1) ان مصدریہ ۔ یہ ماضی اور مضارع دونوں پر داخل ہوتا ہے اور اس کا مابعد تاویل مصدر میں ہوتا ہے ۔ ایسی صورت میں یہ مضارع کو نصب دیتا ہے جیسے :۔ اعجبنی ان تخرج وان خرجت ۔ ان المخففہ من المثقلۃ یعنی وہ ان جو ثقیلہ سے خفیفہ کرلیا گیا ہو ( یہ کسی شے کی تحقیق اور ثبوت کے معنی دیتا ہے جیسے ۔ اعجبنی ان زید منطلق ان ( زائدہ ) جو لما کی توکید کے لئے آتا ہے ۔ جیسے فرمایا { فَلَمَّا أَنْ جَاءَ الْبَشِيرُ } ( سورة يوسف 96) جب خوشخبری دینے والا آپہنچا (12 ۔ 92) ان مفسرہ ۔ یہ ہمیشہ اس فعل کے بعد آتا ہے جو قول کے معنیٰ پر مشتمل ہو ( خواہ وہ لفظا ہو یا معنی جیسے فرمایا :۔ { وَانْطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ } ( سورة ص 6) ان امشوا اور ان میں جو معزز تھے وہ چل کھڑے ہوئے ( اور بولے ) کہ چلو (38 ۔ 6) یہاں ان امشوا ، قالوا کے معنی کو متضمن ہے ان ان کی طرح یہ بھی چار طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ ان شرطیہ جیسے فرمایا :۔ { إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ } ( سورة المائدة 118) اگر تو ان کو عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں (5 ۔ 118) ان مخففہ جو ان ثقیلہ سے مخفف ہوتا ہے ( یہ تا کید کے معنی دیتا ہے اور ) اس کے بعد لام ( مفتوح ) کا آنا ضروری ہے جیسے فرمایا :۔ { إِنْ كَادَ لَيُضِلُّنَا } ( سورة الفرقان 42) ( تو ) یہ ضرور ہم کو بہکا دیتا ہے (25 ۔ 42) ان نافیہ اس کے بعداکثر الا آتا ہے جیسے فرمایا :۔ { إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا } ( سورة الجاثية 32) ۔۔ ،۔ ہم اس کو محض ظنی خیال کرتے ہیں (45 ۔ 32) { إِنْ هَذَا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ } ( سورة المدثر 25) (ٌپھر بولا) یہ ( خدا کا کلام ) نہیں بلکہ ) بشر کا کلام سے (74 ۔ 25) { إِنْ نَقُولُ إِلَّا اعْتَرَاكَ بَعْضُ آلِهَتِنَا بِسُوءٍ } ( سورة هود 54) ۔ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے کسی معبود نے تمہیں آسیب پہنچا ( کر دیوانہ کر ) دیا ہے (11 ۔ 54) ان ( زائدہ ) جو ( ما) نافیہ کی تاکید کے لئے آتا ہے جیسے : مان یخرج زید ۔ زید باہر نہیں نکلے گا ۔ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ الاختلافُ والمخالفة والاختلافُ والمخالفة : أن يأخذ کلّ واحد طریقا غير طریق الآخر في حاله أو قوله، والخِلَاف أعمّ من الضّدّ ، لأنّ كلّ ضدّين مختلفان، ولیس کلّ مختلفین ضدّين، ولمّا کان الاختلاف بين النّاس في القول قد يقتضي التّنازع استعیر ذلک للمنازعة والمجادلة، قال : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم/ 37] ( خ ل ف ) الاختلاف والمخالفۃ الاختلاف والمخالفۃ کے معنی کسی حالت یا قول میں ایک دوسرے کے خلاف کا لفظ ان دونوں سے اعم ہے کیونکہ ضدین کا مختلف ہونا تو ضروری ہوتا ہے مگر مختلفین کا ضدین ہونا ضروری نہیں ہوتا ۔ پھر لوگوں کا باہم کسی بات میں اختلاف کرنا عموما نزاع کا سبب بنتا ہے ۔ اس لئے استعارۃ اختلاف کا لفظ نزاع اور جدال کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم/ 37] پھر کتنے فرقے پھٹ گئے ۔ ليل يقال : لَيْلٌ ولَيْلَةٌ ، وجمعها : لَيَالٍ ولَيَائِلُ ولَيْلَاتٌ ، وقیل : لَيْلٌ أَلْيَلُ ، ولیلة لَيْلَاءُ. وقیل : أصل ليلة لَيْلَاةٌ بدلیل تصغیرها علی لُيَيْلَةٍ ، وجمعها علی ليال . قال اللہ تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم/ 33] ( ل ی ل ) لیل ولیلۃ کے معنی رات کے ہیں اس کی جمع لیال ولیا ئل ولیلات آتی ہے اور نہایت تاریک رات کو لیل الیل ولیلہ لیلاء کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ لیلۃ اصل میں لیلاۃ ہے کیونکہ اس کی تصغیر لیلۃ اور جمع لیال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر/ 1] ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل ( کرنا شروع ) وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم/ 33] اور رات اور دن کو تمہاری خاطر کام میں لگا دیا ۔ نهار والنهارُ : الوقت الذي ينتشر فيه الضّوء، وهو في الشرع : ما بين طلوع الفجر إلى وقت غروب الشمس، وفي الأصل ما بين طلوع الشمس إلى غروبها . قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان/ 62] ( ن ھ ر ) النھر النھار ( ن ) شرعا طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب کے وقت گو نھار کہاجاتا ہے ۔ لیکن لغوی لحاظ سے اس کی حد طلوع شمس سے لیکر غروب آفتاب تک ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ خِلْفَةً [ الفرقان/ 62] اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بیانا ۔ فلك الْفُلْكُ : السّفينة، ويستعمل ذلک للواحد والجمع، وتقدیراهما مختلفان، فإنّ الفُلْكَ إن کان واحدا کان کبناء قفل، وإن کان جمعا فکبناء حمر . قال تعالی: حَتَّى إِذا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ [يونس/ 22] ، وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ [ البقرة/ 164] ، وَتَرَى الْفُلْكَ فِيهِ مَواخِرَ [ فاطر/ 12] ، وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف/ 12] . والفَلَكُ : مجری الکواكب، وتسمیته بذلک لکونه کالفلک، قال : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [يس/ 40] . وفَلْكَةُ المِغْزَلِ ، ومنه اشتقّ : فَلَّكَ ثديُ المرأة «1» ، وفَلَكْتُ الجديَ : إذا جعلت في لسانه مثل فَلْكَةٍ يمنعه عن الرّضاع . ( ف ل ک ) الفلک کے معنی سفینہ یعنی کشتی کے ہیں اور یہ واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ لیکن دونوں میں اصل کے لحاظ سے اختلاف ہ فلک اگر مفرد کے لئے ہو تو یہ بروزن تفل ہوگا ۔ اور اگر بمعنی جمع ہو تو حمر کی طرح ہوگا ۔ قرآن میں ہے : حَتَّى إِذا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ [يونس/ 22] یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں سوار ہوتے ہو۔ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ [ البقرة/ 164] اور کشتیوں ( اور جہازوں ) میں جو دریا میں ۔۔ رواں ہیں ۔ وَتَرَى الْفُلْكَ فِيهِ مَواخِرَ [ فاطر/ 12] اور تم دیکھتے ہو کہ کشتیاں دریا میں پانی کو پھاڑتی چلی جاتی ہیں ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف/ 12] اور تمہارے لئے کشتیاں اور چار پائے بنائے جن پر تم سوار ہوتے ہو۔ اور فلک کے معنی ستاروں کا مدار ( مجرٰی) کے ہیں اور اس فلک یعنی کشتی نما ہونے کی وجہ سے فلک کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [يس/ 40] سب اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں ۔ اور نلکتہ المغزل کے معنی چرخے کا دم کرہ کے ہیں اور اسی سے فلک ثدی المرءۃ کا محاورہ ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں عورت کی چھاتی کے دم کزہ طرح ابھر آنے کے ہیں اور فلقت الجدی کے معنی بکری کے بچے کی زبان پھاڑ کر اس میں پھر کی سی ڈال دینے کے ہیں ۔ تاکہ وہ اپنی ماں کے پستانوں سے دودھ نہ چوس سکے ۔ جری الجَرْي : المرّ السریع، وأصله كمرّ الماء، ولما يجري بجريه . يقال : جَرَى يَجْرِي جِرْيَة وجَرَيَاناً. قال عزّ وجل : وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف/ 51] وقال تعالی: جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهارُ [ الكهف/ 31] ، وقال : وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ [ الروم/ 46] ، وقال تعالی: فِيها عَيْنٌ جارِيَةٌ [ الغاشية/ 12] ، وقال : إِنَّا لَمَّا طَغَى الْماءُ حَمَلْناكُمْ فِي الْجارِيَةِ [ الحاقة/ 11] ، أي : السفینة التي تجري في البحر، وجمعها : جَوَارٍ ، قال عزّ وجلّ : وَلَهُ الْجَوارِ الْمُنْشَآتُ [ الرحمن/ 24] ، وقال تعالی: وَمِنْ آياتِهِ الْجَوارِ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلامِ [ الشوری/ 32] ، ويقال للحوصلة : جِرِّيَّة إمّا لانتهاء الطعام إليها في جريه، أو لأنها مجری الطعام . والإِجْرِيَّا : العادة التي يجري عليها الإنسان، والجَرِيُّ : الوکيل والرسول الجاري في الأمر، وهو أخصّ من لفظ الرسول والوکيل، وقد جَرَيْتُ جَرْياً. وقوله عليه السلام : «لا يستجرینّكم الشّيطان» يصح أن يدّعى فيه معنی الأصل . أي : لا يحملنّكم أن تجروا في ائتماره وطاعته، ويصح أن تجعله من الجري، أي : الرسول والوکيل ومعناه : لا تتولوا وکالة الشیطان ورسالته، وذلک إشارة إلى نحو قوله عزّ وجل : فَقاتِلُوا أَوْلِياءَ الشَّيْطانِ [ النساء/ 76] ، وقال عزّ وجل : إِنَّما ذلِكُمُ الشَّيْطانُ يُخَوِّفُ أَوْلِياءَهُ [ آل عمران/ 175] . ( ج ر ی ) جریٰ ( ض) جریۃ وجریا وجریا نا کے معنی تیزی سے چلنے کے ہیں ۔ اصل میں یہ لفظ پانی اور پانی کی طرح چلنے والی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف/ 51] اور یہ نہریں جو میرے ( محلوں کے ) نیچے بہ رہی ہیں ۔ میری نہیں ہیں ۔ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهارُ [ الكهف/ 31] باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ۔ وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ [ الروم/ 46] اور تاکہ کشتیاں چلیں فِيها عَيْنٌ جارِيَةٌ [ الغاشية/ 12] اس میں چشمے بہ رہے ہوں گے اور آیت کریمہ ؛ إِنَّا لَمَّا طَغَى الْماءُ حَمَلْناكُمْ فِي الْجارِيَةِ [ الحاقة/ 11] جب پانی طغیانی پر آیا تو ہم نے تم لو گوں کو کشتی میں سوار کرلیا ۔ میں جاریۃ سے مراد کشتی ہے اس کی جمع جوار آتی ہے جیسے فرمایا ؛۔ وَلَهُ الْجَوارِ الْمُنْشَآتُ [ الرحمن/ 24] اور جہاز جو اونچے کھڑے ہوتے ہیں ۔ وَمِنْ آياتِهِ الْجَوارِ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلامِ [ الشوری/ 32] اور اسی کی نشانیوں میں سے سمندر کے جہاز ہیں ( جو ) گویا یا پہاڑ ہیں ۔ اور پرند کے سنکدانہ کو جریۃ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ کھانا چل کر وہاں پہنچتا ہے اور یا اس لئے کہ وہ طعام کا مجریٰ بنتا ہے ۔ الاجریات عاوت جس پر انسان چلتا ہے ۔ الجری وکیل ۔ یہ لفظ رسول اور وکیل سے اخص ہی ۔ اور جرمت جریا کے معنی وکیل بنا کر بھینے کے ہیں اور حدیث میں ہے :۔ یہاں یہ لفظ اپنے اصل معنی پر بھی محمول ہوسکتا ہے یعنی شیطان اپنے حکم کی بجا آوری اور اطاعت میں بہ جانے پر تمہیں بر انگیختہ نہ کرے اور یہ بھی ہوسکتا ہے ۔ کہ جری بمعنی رسول یا وکیل سے مشتق ہو اور معنی یہ ہونگے کہ شیطان کی وکالت اور رسالت کے سرپر ست مت بنو گویا یہ آیت کریمہ ؛ فَقاتِلُوا أَوْلِياءَ الشَّيْطانِ [ النساء/ 76] شیطان کے مددگاروں سے لڑو ۔ کے مضمون کی طرف اشارہ ہے اور فرمایا :إِنَّما ذلِكُمُ الشَّيْطانُ يُخَوِّفُ أَوْلِياءَهُ [ آل عمران/ 175] یہ ( خوف دلانے والا ) تو شیطان ہے جو اپنے دوستوں سے ڈرتا ہے ۔ بحر أصل البَحْر : كل مکان واسع جامع للماء الکثير، هذا هو الأصل، ثم اعتبر تارة سعته المعاینة، فيقال : بَحَرْتُ كذا : أوسعته سعة البحر، تشبيها به، ومنه : بَحرْتُ البعیر : شققت أذنه شقا واسعا، ومنه سمیت البَحِيرَة . قال تعالی: ما جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ [ المائدة/ 103] ، وذلک ما کانوا يجعلونه بالناقة إذا ولدت عشرة أبطن شقوا أذنها فيسيبونها، فلا ترکب ولا يحمل عليها، وسموا کلّ متوسّع في شيء بَحْراً ، حتی قالوا : فرس بحر، باعتبار سعة جريه، وقال عليه الصلاة والسلام في فرس ركبه : «وجدته بحرا» «1» وللمتوسع في علمه بحر، وقد تَبَحَّرَ أي : توسع في كذا، والتَبَحُّرُ في العلم : التوسع واعتبر من البحر تارة ملوحته فقیل : ماء بَحْرَانِي، أي : ملح، وقد أَبْحَرَ الماء . قال الشاعر : 39- قد عاد ماء الأرض بحرا فزادني ... إلى مرضي أن أبحر المشرب العذب «2» وقال بعضهم : البَحْرُ يقال في الأصل للماء الملح دون العذب «3» ، وقوله تعالی: مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هذا عَذْبٌ فُراتٌ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان/ 53] إنما سمي العذب بحرا لکونه مع الملح، كما يقال للشمس والقمر : قمران، وقیل السحاب الذي كثر ماؤه : بنات بحر «4» . وقوله تعالی: ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم/ 41] قيل : أراد في البوادي والأرياف لا فيما بين الماء، وقولهم : لقیته صحرة بحرة، أي : ظاهرا حيث لا بناء يستره . ( ب ح ر) البحر ( سمندر ) اصل میں اس وسیع مقام کو کہتے ہیں جہاں کثرت سے پانی جمع ہو پھر کبھی اس کی ظاہری وسعت کے اعتبار سے بطور تشبیہ بحرت کذا کا محارہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی سمندر کی طرح کسی چیز کو وسیع کردینا کے ہیں اسی سے بحرت البعیر ہے یعنی میں نے بہت زیادہ اونٹ کے کان کو چیز ڈالا یا پھاڑ دیا اور اس طرح کان چر ہے ہوئے اونٹ کو البحیرۃ کہا جا تا ہے قرآن میں ہے ما جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ [ المائدة/ 103] یعنی للہ تعالیٰ نے بحیرہ جانور کا حکم نہیں دیا کفار کی عادت تھی کہ جو اونٹنی دس بچے جن چکتی تو اس کا کان پھاڑ کر بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے نہ اس پر سواری کرتے اور نہ بوجھ لادیتے ۔ اور جس کو کسی صنعت میں وسعت حاصل ہوجائے اسے بحر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ بہت زیادہ دوڑ نے والے گھوڑے کو بحر کہہ دیا جاتا ہے ۔ آنحضرت نے ایک گھوڑے پر سواری کے بعد فرمایا : ( 26 ) وجدتہ بحرا کہ میں نے اسے سمندر پایا ۔ اسی طرح وسعت علمی کے اعتبار سے بھی بحر کہہ دیا جاتا ہے اور تبحر فی کذا کے معنی ہیں اس نے فلاں چیز میں بہت وسعت حاصل کرلی اور البتحرفی العلم علم میں وسعت حاصل کرنا ۔ اور کبھی سمندر کی ملوحت اور نمکین کے اعتبار سے کھاری اور کڑوے پانی کو بحر انی کہد یتے ہیں ۔ ابحرالماء ۔ پانی کڑھا ہوگیا ۔ شاعر نے کہا ہے : ( 39 ) قدعا دماء الا رض بحر فزادنی الی مرض ان ابحر المشراب العذاب زمین کا پانی کڑوا ہوگیا تو شریں گھاٹ کے تلخ ہونے سے میرے مرض میں اضافہ کردیا اور آیت کریمہ : مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هذا عَذْبٌ فُراتٌ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان/ 53] بحرین ھذا عذاب فرات ولھذا وھذا ملح اجاج ( 25 ۔ 53 ) دو دریا ایک کا پانی شیریں ہے پیاس بجھانے والا اور دوسرے کا کھاری ہے چھاتی جلانے والا میں عذاب کو بحر کہنا ملح کے بالمقابل آنے کی وجہ سے ہے جیسا کہ سورج اور چاند کو قمران کہا جاتا ہے اور بنات بحر کے معنی زیادہ بارش برسانے والے بادلوں کے ہیں ۔ اور آیت : ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم/ 41] کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ بحر سے سمندر مراد نہیں ہے بلکہ بر سے جنگلات اور بحر سے زرخیز علاقے مراد ہیں ۔ لقیتہ صحرۃ بحرۃ میں اسے ایسے میدان میں ملا جہاں کوئی اوٹ نہ تھی ؟ نفع النَّفْعُ : ما يُسْتَعَانُ به في الوُصُولِ إلى الخَيْرَاتِ ، وما يُتَوَصَّلُ به إلى الخَيْرِ فهو خَيْرٌ ، فَالنَّفْعُ خَيْرٌ ، وضِدُّهُ الضُّرُّ. قال تعالی: وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان/ 3] ( ن ف ع ) النفع ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے خیرات تک رسائی کے لئے استعانت حاصل کی جائے یا وسیلہ بنایا جائے پس نفع خیر کا نام ہے اور اس کی ضد ضر ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان/ 3] اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں ۔ نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا ماء قال تعالی: وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء/ 30] ، وقال : وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان/ 48] ، ويقال مَاهُ بني فلان، وأصل ماء مَوَهٌ ، بدلالة قولهم في جمعه : أَمْوَاهٌ ، ومِيَاهٌ. في تصغیره مُوَيْهٌ ، فحذف الهاء وقلب الواو، ( م ی ہ ) الماء کے معنی پانی کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء/ 30] اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں ۔ وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان/ 48] پاک ( اور نتھرا ہوا پانی اور محاورہ ہے : ۔ ماء بنی فلان فلاں قبیلے کا پانی یعنی ان کی آبادی ماء اصل میں موہ ہے کیونکہ اس کی جمع امراۃ اور میاہ آتی ہے ۔ اور تصغیر مویۃ پھر ہا کو حزف کر کے واؤ کو الف سے تبدیل کرلیا گیا ہے حيى الحیاة تستعمل علی أوجه : الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] ، الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا، قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] ، الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی: أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة، وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري، فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ. ( ح ی ی ) الحیاۃ ) زندگی ، جینا یہ اصل میں حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔ ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔ ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات/ 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔ موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] . الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] . الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ بِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی مینٍ مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے بث أصل البَثِّ : التفریق وإثارة الشیء کبث الریح التراب، وبثّ النفس ما انطوت عليه من الغمّ والسّرّ ، يقال : بَثَثْتُهُ فَانْبَثَّ ، ومنه قوله عزّ وجل : فَكانَتْ هَباءً مُنْبَثًّا[ الواقعة/ 6] ، وقوله عزّ وجل : وَبَثَّ فِيها مِنْ كُلِّ دَابَّةٍ [ البقرة/ 164] إشارة إلى إيجاده تعالیٰ ما لم يكن موجودا وإظهاره إياه . وقوله عزّ وجلّ : كَالْفَراشِ الْمَبْثُوثِ [ القارعة/ 4] أي : المهيّج بعد رکونه وخفائه . وقوله عزّ وجل : نَّما أَشْكُوا بَثِّي وَحُزْنِي[يوسف/ 86] أي : غمّي الذي أبثّه عن کتمان، فهو مصدر في تقدیر مفعول، أو بمعنی: غمّي الذي بثّ فكري، نحو : توزّعني الفکر، فيكون في معنی الفاعل . ( ب ث ث) البث البث ( ن ض) اصل میں بث کے معنی کسی چیز کو متفرق اور پراگندہ کرنا کے ہیں جیسے بث الریح التراب ۔ ہوانے خاک اڑائی ۔ اور نفس کے سخت تریں غم یا بھید کو بت النفس کہا جاتا ہے شتتہ فانبث بیں نے اسے منتشر کیا چناچہ وہ منتشر ہوگیا اور اسی سے فَكانَتْ هَباءً مُنْبَثًّا[ الواقعة/ 6] ہے یعنی پھر وہ منتشراذرات کی طرح اڑنے لگیں اور آیت کریمہ وَبَثَّ فِيها مِنْ كُلِّ دَابَّةٍ [ البقرة/ 164] کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے زمین میں ہر قسم کے جانوروں کو پیدا کیا اور ان کو ظہور بخشا اور آیت : كَالْفَراشِ الْمَبْثُوثِ [ القارعة/ 4] میں المبثوث سے مراد وہ پر وانے ہیں جو مخفی اور پر سکون جگہوں میں بیٹھے ہوں اور ان کو پریشان کردیا گیا ہو ۔ اور آیت نَّما أَشْكُوا بَثِّي وَحُزْنِي[يوسف/ 86] میں بث کے معنی سخت تریں اور یہ پوشیدہ غم کے ہیں جو وہ ظاہر کررہے ہیں اس صورت میں مصدر بمعنی مفعول ہوگا ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مصدربمعنی فاعل ہو یعنی وہ غم جس نے میرے فکر کو منتشتر کر رکھا ہے جیسا کہ توذعنی الفکر کا محاورہ ہے یعنی مجھے فکر نے پریشان کردیا ۔ دب الدَّبُّ والدَّبِيبُ : مشي خفیف، ويستعمل ذلک في الحیوان، وفي الحشرات أكثر، ويستعمل في الشّراب ويستعمل في كلّ حيوان وإن اختصّت في التّعارف بالفرس : وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُها [هود/ 6] ( د ب ب ) دب الدب والدبیب ( ض ) کے معنی آہستہ آہستہ چلنے اور رینگنے کے ہیں ۔ یہ لفظ حیوانات اور زیادہ نر حشرات الارض کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور شراب اور مگر ( لغۃ ) ہر حیوان یعنی ذی حیات چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُها [هود/ 6] اور زمین پر چلنے پھرنے والا نہیں مگر اس کا رزق خدا کے ذمے ہے ۔ صرف الصَّرْفُ : ردّ الشیء من حالة إلى حالة، أو إبداله بغیره، يقال : صَرَفْتُهُ فَانْصَرَفَ. قال تعالی: ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ [ آل عمران/ 152] ، ( ص ر ف ) الصرف کے معنی ہیں کسی چیز کو ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پھیر دینا یا کسی اور چیز سے بدل دینا ۔ محاور ہ ہے ۔ صرفتہ فانصرف میں نے اسے پھیر دیا چناچہ وہ پھر گیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ [ آل عمران/ 152] پھر خدا نے تم کو ان کے مقابلے سے پھیر کر بھگادیا ۔ الرِّيحُ معروف، وهي فيما قيل الهواء المتحرّك . وعامّة المواضع الّتي ذکر اللہ تعالیٰ فيها إرسال الرّيح بلفظ الواحد فعبارة عن العذاب، وكلّ موضع ذکر فيه بلفظ الجمع فعبارة عن الرّحمة، فمن الرِّيحِ : إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً [ القمر/ 19] ، فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً وَجُنُوداً [ الأحزاب/ 9] ، مَثَلِ رِيحٍ فِيها صِرٌّ [ آل عمران/ 117] ، اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ [إبراهيم/ 18] . وقال في الجمع : وَأَرْسَلْنَا الرِّياحَ لَواقِحَ [ الحجر/ 22] ، أَنْ يُرْسِلَ الرِّياحَ مُبَشِّراتٍ [ الروم/ 46] ، يُرْسِلُ الرِّياحَ بُشْراً [ الأعراف/ 57] . وأمّا قوله : يرسل الرّيح فتثیر سحابا «3» فالأظهر فيه الرّحمة، وقرئ بلفظ الجمع «4» ، وهو أصحّ. وقد يستعار الرّيح للغلبة في قوله : وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ [ الأنفال/ 46] ، وقیل : أَرْوَحَ الماءُ : تغيّرت ريحه، واختصّ ذلک بالنّتن . ورِيحَ الغدیرُ يَرَاحُ : أصابته الرِّيحُ ، وأَرَاحُوا : دخلوا في الرَّوَاحِ ، ودهن مُرَوَّحٌ: مطيّب الرّيح . وروي :«لم يَرَحْ رَائِحَةَ الجنّة» «5» أي : لم يجد ريحها، والمَرْوَحَةُ : مهبّ الرّيح، والمِرْوَحَةُ : الآلة التي بها تستجلب الرّيح، والرَّائِحَةُ : تَرَوُّحُ هواء . ورَاحَ فلان إلى أهله إمّا أنه أتاهم في السّرعة کالرّيح، أو أنّه استفاد برجوعه إليهم روحا من المسرّة . والرَّاحةُ من الرَّوْح، ويقال : افعل ذلک في سراح ورَوَاحٍ ، أي : سهولة . والمُرَاوَحَةُ في العمل : أن يعمل هذا مرّة، وذلک مرّة، واستعیر الرَّوَاحُ للوقت الذي يراح الإنسان فيه من نصف النّهار، ومنه قيل : أَرَحْنَا إبلَنا، وأَرَحْتُ إليه حقّه مستعار من : أرحت الإبل، والْمُرَاحُ : حيث تُرَاحُ الإبل، وتَرَوَّحَ الشجر ورَاحَ يَراحُ : تفطّر . وتصوّر من الرّوح السّعة، فقیل : قصعة رَوْحَاءُ ، وقوله : لا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ [يوسف/ 87] ، أي : من فرجه ورحمته، وذلک بعض الرّوح . الریح کے معنی معروف ہیں ۔ یعنی ہوا متحرک کو کہتے ہیں عام طور پر جن مواضع میں ( رسال الریح صیغہ مفرد کے ساتھ مذکور ہے وہاں عذاب مراد ہے اور جہاں کہیں لفظ جمع کے ساتھ مذکور ہے وہاں رحمت مراد ہے ۔ چناچہ ریح کے متعلق فرمایا : إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً [ القمر/ 19] ہم نے ان پر ایک زنانے کی اندھی چلائی ۔ فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً وَجُنُوداً [ الأحزاب/ 9] تو ہم نے ان پر آندھی چلائی ۔ مَثَلِ رِيحٍ فِيها صِرٌّ [ آل عمران/ 117] مثال اس ہوا کی ہے ۔ جس میں بڑی ٹھر بھی ہوا۔ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ [إبراهيم/ 18] اس کو سخت ہوا لے اڑی ۔ اور ریاح ( جمع کا لفظ ) کے متعلق فرمایا : وَأَرْسَلْنَا الرِّياحَ لَواقِحَ [ الحجر/ 22] اور ہم ہی ہوا کو چلاتے ہیں جو بادلوں کو پانی بار وار کرتی ہے ۔ أَنْ يُرْسِلَ الرِّياحَ مُبَشِّراتٍ [ الروم/ 46] کہ وہ ہواؤں کو اس غرض سے بھیجتا ہے کہ لوگوں کو بارش کی خوشخبری پہنچائیں ۔ يُرْسِلُ الرِّياحَ بُشْراً [ الأعراف/ 57] باران رحمت کے آگے آگے ہواؤں کو بھیجتا ہے تاکہ لوگوں کو مینہ کی آمد کی خوشخبری پہنچادیں ۔ اور آیت ير سل الرّيح فتثیر سحابا «3»اور وہ قادرمطلق ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے اور وہ ہوائیں بادلوں کو ان کی جگہ سے ابھارتی ہے ۔ میں بھی چونکہ معنی رحمت اغلب ہے اس لئے یہاں لفظ جمع کی قرات زیادہ صحیح ہے ۔ کبھی مجازا ریح بمعنی غلبہ بھی آجاتا ہے چناچہ فرمایا : وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ [ الأنفال/ 46] اور تمہاری وہوا اکھڑ جائے گی ۔ محاورہ : اروح الماء پانی متغیر ہوگیا خاص کر بدبو دار ہونے کے وقت بولتے ہیں ۔ ریح الغد یرییراح جوہڑ پر ہوا کا چلنا ۔ اور اراحوا کے معنی رواح یعنی شام کے وقت میں داخل ہونے کے ہیں اور خشبودار تیل کو دھن مروح کہا جاتا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے ۔ ( 163) لم یرح راحئتہ الجنتہ کہ وہ جنت کی کو شبوتک نہیں پائے گا ۔ المروحبتہ ہوا چلنے کی سمت المروحتہ ( آلہ ) پنکھا ۔ الرئحتہ مہکنے والی خوشبو ۔ محاورہ ہے ۔ راح فلان الیٰ اھلہ ( 1) فلاں اپنئ اہل کیطرف ہوا کی طرح تیزی کے ساتھ گیا ۔ ۔ ( 2) اس نے اپنے اہل و عیال میں پہنچ کر راحت حاصل کی ۔ الرحتہ آرام ۔ یہ بھی روح سے موخوذ ہے ۔ مشہور محاورہ ہے ۔ افعل ذالک فی مراح وراح کہ آرام سے یہ کام کرو ۔ المراوحتہ کے معنی ہیں دو کاموں کو باری باری کرنا ۔ اور استعارہ کے طور پر رواح سے دوپہر کو آرام کا وقت مراد لیا جاتا ہے اور اسی سے کہا جاتا ہے ۔ ارحنا ابلنا کہ ہم نے اونٹوں کو آرام دیا ( یعنی بازہ میں لے آئے ) اور پھر ارحت الابل سے بطور استعارہ کہا جاتا ہے ۔ کہ میں نے اس کا حق واپس لوٹا دیا اور مراح باڑے کو کہا جاتا ہے اور تروح الشجرہ وراح یراح کے معنی درخت کے شکوفہ دار ہونے اور نئے پتے نکالنے کے ہیں اور کبھی روح سے وسعت اور فراخی کے معنی بھی مراد لئے جاتے ہیں چناچہ کہا جاتا ہے ۔ قصعتہ روحاء فراخ پیالہ اور آیت کریمہ : لا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ [يوسف/ 87] اور خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ ۔ میں بھی وسعت رحمت مراد ہے جو لفظ روح سے مفہوم ہوتی ہے ۔ سحب أصل السَّحْبِ : الجرّ کسحب الذّيل، والإنسان علی الوجه، ومنه : السَّحَابُ ، إمّا لجرّ الرّيح له، أو لجرّه الماء، أو لانجراره في مرّه، قال تعالی: يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر/ 48] ، وقال تعالی: يُسْحَبُونَ فِي الْحَمِيمِ [ غافر/ 71] ، وقیل : فلان يَتَسَحَّبُ علی فلان، کقولک : ينجرّ ، وذلک إذا تجرّأ عليه، والسَّحَابُ : الغیم فيها ماء أو لم يكن، ولهذا يقال : سحاب جهام «4» ، قال تعالی: أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُزْجِي سَحاباً [ النور/ 43] ، حَتَّى إِذا أَقَلَّتْ سَحاباً [ الأعراف/ 57] ، وقال : وَيُنْشِئُ السَّحابَ الثِّقالَ [ الرعد/ 12] ، وقد يذكر لفظه ويراد به الظّلّ والظّلمة، علی طریق التّشبيه، قال تعالی: أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍّ يَغْشاهُ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ سَحابٌ ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور/ 40] . ( س ح ب ) السحب اس کے اصل معنی کھینچنے کے ہیں ۔ چناچہ دامن زمین پر گھسیٹ کر چلنے یا کسی انسان کو منہ کے بل گھسیٹنے پر سحب کا لفظ بولا جاتا ہے اسی سے بادل کو سحاب کہا جاتا ہے یا تو اس لئے کہ ہوا اسے کھینچ کرلے چلتی ہے اور یا اس بنا پر کہ وہ چلنے میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گھسٹتا ہوا چل رہا ہے قرآن میں ہے :۔ يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر/ 48] جس دن ان کو انکے منہ کے بل ( دوزخ کی ) آگ میں گھسیٹا جائیگا ۔ اور فرمایا : يُسْحَبُونَ فِي الْحَمِيمِ [ غافر/ 71] انہیں دوزخ میں کھینچا جائے گا ۔ محاورہ ہے :۔ فلان یتسحب علی فلان : کہ فلاں اس پر جرات کرتا ہے ۔ جیسا کہ یتجرء علیہ کہا جاتا ہے ۔ السحاب ۔ ابر کو کہتے ہیں خواہ وہ پانی سے پر ہو یا خالی اس لئے خالی بادل کو سحاب جھام کہا جاتا ہے قرآن میں ہے :۔ أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُزْجِي سَحاباً [ النور/ 43] کیا تو نے غور نہیں کیا کہ اللہ بادل کو چلاتا ہے ۔ حَتَّى إِذا أَقَلَّتْ سَحاباً [ الأعراف/ 57] حتی کہ جب وہ بھاری بادل کو اٹھا لاتی ہیں ۔ وَيُنْشِئُ السَّحابَ الثِّقالَ [ الرعد/ 12] اور وہ بھاری بادل اٹھاتا ہے ۔ اور کبھی لفظ سحاب بول کر بطور تشبیہ کے اس سے سایہ اور تاریکی مراد لی جاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍّ يَغْشاهُ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ سَحابٌ ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور/ 40] یا ( ان کے اعمال کی مثال ) بڑے گہرے دریا کے اندورنی اندھیروں کی سی ہے کہ دریا کو لہر نے ڈھانپ رکھا ہے اور ( لہر بھی ایک نہیں بلکہ ) لہر کے اوپر لہر ان کے اوپر بادل ( کی تاریکی غرض اندھیرے ہیں ایک کے اوپر ایک ۔ سخر التَّسْخِيرُ : سياقة إلى الغرض المختصّ قهرا، قال تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية/ 13] ( س خ ر ) التسخیر ( تفعیل ) کے معنی کسی کو کسی خاص مقصد کی طرف زبر دستی لیجانا کے ہیں قرآن میں ہے وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية/ 13] اور جو کچھ آسمان میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اس نے ( اپنے کرم سے ) ان سب کو تمہارے کام میں لگا رکھا ہے ۔ بين بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها . ( ب ی ن ) البین کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] عقل العَقْل يقال للقوّة المتهيّئة لقبول العلم، ويقال للعلم الذي يستفیده الإنسان بتلک القوّة عَقْلٌ ، وهذا العقل هو المعنيّ بقوله : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] ، ( ع ق ل ) العقل اس قوت کو کہتے ہیں جو قبول علم کے لئے تیار رہتی ہے اور وہ علم جو اس قوت کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی عقل کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] اور سے توا ہل دانش ہی سمجھتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے : ان فی خلق السموت والارض واختلاف اللیل والنھار ( آسمانوں اور زمین کی ساخت میں اور رات اور دن کے پیہم ایک دوسرے کے بعد آنے میں) تا آخر آیت۔ یہ آیت توحید باری پر نیز اس بات پر کہ اس کی کوئی نظیر ہے نہ شبیہ، کئی قسم کی دلالتوں کو متضمن ہے۔ اس آیت میں ہمارے لیے یہ حکم بھی ہے کہ ہم ان دلالتوں سے استدلال کریں ، چناچہ ارشاد ہے : لا یات لقوم یعقلون ( جو لوگ عقل سے کام لیتے ہیں ان کے لئے بیشمار نشانیاں ہیں) اس نے یہ نشانیاں اس لئے قائم کی ہیں کہ ان سے استدلال کرکے اس کی معرفت، اس کی توحید کی پہچان نیز اس کی ذات سے اشباہ و امثال کی نفی تک رسائی حال کی جائے۔ اس میں ان لوگوں کے قول کا ابطال ہے جو اس بات کے قائل ہیں کہ اللہ کی ذات کی معرفت صرف خبر کے ذریعے ہوسکتی ہے اور اس کی ذات کی معرفت تک رسائی میں انسانی عقول کا کوئی دخل نہیں۔ اللہ کی ذات پر آسمانوں اور زمین کی دلالت کی صورت یہ ہے کہ آسمان اپنی وسعت اور حجم کے پھیلائو کے باوجود کسی ستون اور سہارے کے بغیر ہمارے اوپر قائم ہے اور اپنی جگہ نہیں چھوڑتا۔ اسی طرح زمین بھی اپنی عظیم ساخت کے باوجود ہمارے نیچے قائم اور موجود ہے۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ ان میں سے ہر ایک کی کوئی نہ کوئی انتہا ہے کیونکہ ان میں سے ہر ایک وقت واحد کے اندر موجود ہے اور کمی بیشی کا احتمال رکھتا ہے۔ ہمیں یہ معلوم ہے کہ اگر ساری مخلوق اکٹھی ہوکر ایک پتھر کو سہارے کے بغیر ہوا میں معلق رکھنا چاہیے تو وہ ایسا نہیں کرسکتی۔ اس سے ہمیں اس بات عا علم ہوتا ہے کہ آسمانوں کو ستونوں کے بغیر اور زمین کو سہارے کے بغیر قائم رکھنے والی کوئی نہ کوئی ذات ضرور ہے، گویا یہ بات ذات باری کے وجود پر دلالت کرتی ہے اور یہ واضح کردیتی ہے کہ اللہ ہی ان کا خالق ہے اس میں اس امر کی دلیل بھی موجود ہے کہ اللہ کی ذات اجسام کی مشابہ نہیں ہے، نیز وہ قادر مطلق ہے اور کوئی بھی چیز اسے عاجز نہیں کرسکتی اور جب یہ بات ثابت ہوگئی تو اس سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ وہ اجسام کے اختراع پر قادر ہے کیونکہ عقول کے نزدیک اجسام و اجرام کا اختراع اور ان کی ایجاد ان کے حجم کے پھیلائو اور کثافت ( بھاری پن) کے باوجود انہیں ستونوں اور سہاروں کے بغیر قائم رکھنے کی بہ نسبت زیادہ مشکل نہیں ہے۔ یہ باتیں ایک اور جہت سے ان اجسام کے حدوث پر بھی دلالت کرتی ہیں۔ وہ یوں کہ متضاد اعراض ( پیدا ہونے والی متنوع قسم کی کیفیات ) سے ان اجسام کے خالی رہنے کا جواز ممتنع ہے۔ یہ بات تو معلوم ہی ہے کہ مذکورہ اعراض حادث ہیں۔ اس لئے کہ ان میں سے ہر ایک پہلے معدوم تھا اور پھر موجود ہوا۔ اور جو چیز احداث سے پہلے موجود نہ ہو وہ حادث ہوتی ہے۔ اس استدلال سے مذکورہ اجسام و اجرام کے حدوث کا دعویٰ درست ہوگیا۔ حادث اشیاء کسی محدث (وجود میں لانے والے) کی متقضی ہوتی ہیں۔ جس طرح عمارت تعمیر کنندہ کی اور کتابت کاتب کی نیز تاثیر موثر کی۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ آسمان و زمین اور ان کے مابین موجود ساری کائنات اللہ کی آیات ہیں اور اس کی ذات کی نشاندہی کرتی ہیں۔ حضرت سعدی نے کیا خوب کہا ہے ؎ برگ درختان سبز در نظر ہوشیار ہر درقے دفتریست معرفت کردگار رات اور دن کے پیہم ایک دوسرے کے بعد آنے کا سلسلہ اللہ کی ذات پر اس جہت سے دلالت کرتا ہے کہ ان دونوں میں سے ہر ایک کا دوسرے کے بعد حدوث ہوتا ہے اور حادث کسی محدث ( وجود میں لانے والے) کا متقضی ہوتا ہے۔ اس طرح رات اور دن اپنے محدث پر دلالت کرتے ہیں، نیز اس بات کی نشاندہی بھی کرتے ہیں کہ ان کا محدث ان کے مشابہ نہیں ہے، کیونکہ غافل اپنے فعل کے مشابہ نہیں ہوتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ معمار اپنی عمارت کے اور کاتب اپنی کتابت کے مشابہ نہیں ہوتا۔ اسے ایک اور جہت سے دیکھئے، اگر محدث حادث کے مشابہ ہوتا تو اس پر بھی حدوث کی وہی دلالت جاری ہوتی جو حادث پر جاری ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں حدوث کے اندر حادث اپنے محدث کی بہ نسبت اولیٰ نہ ہوتا۔ جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ اجسام و احرام نیز لیل و نہار کا محدث قدیم ہے تو یہ بات بھی درست ہوگئی کہ وہ ان کے ساتھ مشابہت نہیں رکھتا، نیز اس بات کی نشاندہی ہوگئی کہ مذکورہ اشیاء کا محدث قادر بھی ہے کیونکہ اس کے بغیر فعل کا وجود صرف اس ذات سے ممکن ہوتا ہے جو قادر اور زندہ ہو، نیز اس کے علام ہونے پر دلالت ہورہی ہے۔ اس لیے کہ ایک محکم، متقن اور متسق فعل کو صرف وہی ذات وجود میں لاسکتی ہے جو اس کے وجود میں آنے سے پہلے اس کا پورا علم رکھتی ہو۔ پھر جب ہم دیکھتے ہیں کہ رات اور دن کی ایک دوسرے کے بعد پیہم آمد ایک ہی ڈھنگ اور طریقے پر جاری ہے اور دنیا کے کسی بھی خطے میں سال کی مقدار کے اندر دن اور رات کے چھوٹے بڑے ہونے کا کوئی اثر نہیں ہوتا تو یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ رات اور دن کا مخترع قادر اور علیم ہے۔ اگر وہ قادر نہ ہوتا تو اس سے فعل وجود میں نہ آتا اور اگر علیم نہ ہوتا تو اس کے فعل میں یہ اتقان اور یہ نظم نہ ہوتا۔ سمندر میں چلنے والی کشتی کی اللہ کی توحید پر دلالت کی جہلت یہ ہے کہ سب کے علم میں ہے کہ اگر کائنات کے تمام اجسام پانی جیسا رقیق اور سیال جسم جس نے کشتی کو اپنی پیٹھ پر لا د رکھا ہے ، پیدا کرنے نیز کشتی کو چلانے والی ہوائوں کو وجود میں لانے کے لیے یکجا ہوجائیں تو وہ ایسا نہیں کرسکتے۔ اگر ہوائیں رک جائیں تو کشتی سمندر میں ٹھہر جائے اور اس صورت میں کوئی مخلوق بھی اسے چلا نہ سکے جس طرح ایک اور مقام پر ارشاد باری ہے : ان یشا یسکن الریح فیضللن روالدعلی ظھرہ ( اگر اللہ چاہے تو ہوا کو ساکن کردے اور پھر یہ کشتیاں سمندر کی پشت پر رکی رہیں) اللہ تعالیٰ نے کشتیوں کا بوجھ اٹھانے کے لیے پانی کو مسخر کردیا اور ان کشتیوں کو چلانے کے لیے ہوائوں کو تابع فرمان بنادیا۔ یہ باتیں وہ عظیم ترین دلیلیں ہیں جن سے اللہ سبحانہ کی وحدانیت کا اثبات ہوتا ہے۔ اور یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ قدیم وقادر اور علیم، نیز حی و قیوم ہے، اس کی کوئی نظیر ہے نہ شبیہ کیونکہ اجسام کو ان افعال کے سرانجام دینے کی قدرت ہی نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے پانی کو اپنا تابع فرمان کردیا، تاکہ وہ اپنی پشت پر کشتیوں کا بوجھ اٹھائے رکھے۔ ہوائوں کو انہیں چلانے کے لیے مسخر کردیا۔ تاکہ کشتیوں اور جہازوں کی آمدورفت سے مخلوقات کو فائدہ دینے والی اشیاء ایک مقام سے دوسرے مقام کو منتقل ہوتی رہیں اور کارہائے نمایاں کے ذریعے انسانوں کو اپنی وحدانیت اور اپنی نعمتوں کی ہمہ گیری سے آگاہ کردیا اور ان سے مطالبہ کیا کہ وہ ان باتوں پر غور و فکر کریں تاکہ انہیں پتہ چل جائے کہ ان کے خالق نے ان نعمتوں سے انہیں نوازا ہے اور اس کے نتیجے میں وہ اس کے شکر گزار بندے بن کر آخرت میں دائمی ثواب کے مستحق قرار پائیں۔ ابو بکر حصاص کہتے ہیں کہ آسمان سے پانی کا برسنا اللہ کی توحید پر اس جہت سے دلالت کرتا ہے کہ ہر عاقل کو اس بات کا اندازہ ہے کہ اوپر سے نیچے کی طرف بہنا پانی کی خصوصیت ہے۔ اور نیچے سے اوپر کی طرف پانی کا بلند ہونا صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب کوئی فاعل یہ کام کرے۔ بادلوں میں موجود پانی سے ایک تو جیہ ضروری ہے۔ یا تو کسی محدث نے بادلوں کے اندر ہی اس پانی کا احداث کیا ہے یا اس نے پانی کو اس کی ذخیرہ گاہوں یعنی سمندروں سے اٹھا کر ان تک پہنچایا ہے ( دوسری بات موجودہ سائنس کے عین مطابق ہے جس کا کہنا ہے کہ سورج کی تیز شعاعوں سے سمندر کا پانی بھاپ بن کر اڑ جاتا ہے اور فضا کے اندر منطقۂ باردہ میں پہنچ کر دوبارہ قطرات کی شکل اختیار کرلیتا اور بادلوں سے برس پڑتا ہے۔ مترجم) ان دونوں میں سے جو توجیہ بھی قبول کرلی جائے وہ اللہ کے واحد اور قدیم ہونے کے اثبات پر دلالت کرے گی۔ پھر دیکھئے اللہ اپنی قدرت کاملہ سے اس پانی کو بادلوں کے اندر روکے رکھتا، بلکہ دنیا کے جس خطے میں چاہتا ہے تابع فرمان ہوائوں کے ذریعے پہنچا دیتا اور بارش برسا دیتا ہے۔ یہ ساری کیفیت اللہ کی وحدانیت اور اس کی کامل قدرت کی قول ترین دلیل ہے کیونکہ اس نے بادلوں کو پانی کا مرکب اور ہوائوں کو بادلوں کا مرکب بنادیا ہے کہ یہ ہوائیں ان بادلوں کو ایک مقام سے دوسرے مقام پر پہنچا دیتی ہیں تاکہ تمام مخلوقات کو اس کا فائدہ پہنچ سکے۔ چناچہ ارشاد ہے : اولم یروا انا نسوق الماء الی الارض الجرز فنخرج بہ زرعاً تاکل منہ انعامھم وانفسھم ( کیا انہوں نے اس بات پر نظر نہیں ڈالی کہ ہم خشک افتادہ زمین کی طرف پانی پہنچاتے رہتے ہیں ، پھر اس کے ذریعے سے کھیتی پیدا کردیتے ہیں جس سے ان کے مویشی کھاتے ہیں اور وہ خود بھی) پھر اللہ تعالیٰ اس پانی کو قطرہ قطرہ کرکے نازل کرتا ہے کہ فضا میں ایک قطرہ دوسرے قطرے کے ساتھ نہیں ملتا حالانکہ ہوائیں ان تمام قطرات کو ایک ساتھ حرکت میں لے آتی ہیں، حتیٰ کہ یہ تمام قطرے علیحدہ علیحدہ زمین پر اپنی اپنی جگہ برس جاتے ہیں۔ اگر ایک حکیم، علیم اور قادر ذات بارش برسانے کا یہ انتظام ن ہ کرتی تو بادلوں سے بارش کے برسنے کی یہ ترتیب اور یہ نظام کس طرح وجود میں آتا ؟ جبکہ پانی کی خاصیت یہ ہے کہ وہ سیلاب کی شکل میں ایک ساتھ بہہ پڑتا ہے۔ اگر یہ قطرات فضا میں یکجا ہوکر ایک دوسرے کے ساتھ مل جائے تو پھر بارش کی بجائے آسمان سے سیلاب کا نزول ہوتا اور زمین پر پہنچ کر یہ سیلاب تمام حیوانات و نباتات کی تباہی کا باعث بن جاتا اور صورت حال وہ ہوتی جس کا ذکر طوفان نوح کے سلسلے میں ہوا۔ ارشاد باری ہے : ففتحنا ابواب السماء بماء منھر ( اور ہم نے آسمان کے دروازے کھول دیے بکثرت برسنے والے پانی سے) اس آیت کی تفسیر میں کہا جاتا ہے کہ آسمان سے پانی اس طرح برسا جیسے زمین پر سیلابوں کا پانی بہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فضا میں بادلوں کا پیدا کرنا، ان بالدوں کو پانی سے بھر دینا اور اور انہیں ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف چلانا اس کی وحدانیت اور قوت کے قوی ترین دلائل ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اللہ کی ذات جسم اور جسمانیت سے پاک ہے اور اجسام کے ساتھ اس کی کوئی مشابہت نہیں ہے کیونکہ اجسام کے لئے ایسے کارہائے عظیم سرانجام دینا ممکن ہی نہیں ہے، بلکہ اجسام ان کے بارے میں سوچ نہیں سکتے اور نہ ہی ان کی توقع کرسکتے ہیں۔ مردہ زمین کو زندگی بخشنے کا عمل اللہ کی توحید پر اس جہت سے دلالت کرتا ہے کہ اگر ساری مخلوق مردہ زمین کے کسی حصے کو زندہ کرنے کے لیے یکجا ہوجائے تو بھی وہ ایسا نہیں کرسکتی اور نہ زمین پر ایک پودا بھی اگا سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے پانی کے ذریعے زمین کو زندہ کردینا اور اس میں طرح طرح کی فصلیں اور نبانات اگانا ( ہمیں یہ بات یقین اور مشاہدہ سے معلوم ہے کہ زمین میں پہلے یہ فصلیں موجود نہ ہوتیں اور پھر خدا کے حکم سے یہ فصلیں اگ آتی ہیں) دراصل ہمیں دعوت فکر دیتا ہے کہ اگر ہم صرف اس عمل پر غور کریں تو ہمیں معلوم ہوجائے گا کہ یہ سب کچھ ایک صانع و حکیم اور قادر و علیم کی قدرت کا کرشمہ ہے جس نے اپنی قدرت سے کام لے کر مٹی کے اجزاء کو ترتیب دے کر انہیں ایک مربوط و مستحکم نظام کے تحت منظم کردیا۔ یہ بات اس امر کی ایک قوی ترین دلیل ہے کہ تمام چیزوں کا ایک خالق ہے اور وہ قادر و علیم ہے، نی یہ کہ یہ سارا نظام فطرت کے عمل کا نتیجہ نہیں ہے جیسا کہ اللہ کی ان آیات کے بارے میں ملحدین کا دعویٰ ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ آسمان سے برسنے والا پانی یکساں خصوصیت کا حامل ہوتا ہے اسی طرح زمین کے اجزاء میں بھی یکسانیت ہوتی ہے اور اسی طرح ہوا بھی یکساں خاصیت رکھتی ہے لیکن اس تمام یکسانیت کے باوجود زمین پانی اور ہوا کے ملاپ کے نتیجے میں طرح طرح کے نباتات اور رنگ برنگے پھول پیدا ہوتے ہیں، درختوں پر لگنے والے پھلوں کے اشکال والو ان مختلف ہوتے اور ان کا مزہ ایک دوسرے سے جدا ہوتا ہے۔ اگر یہ سب کچھ فطرت کے عمل کا نتیجہ ہوتا تو ان تما م چیزوں میں یکسانیت پائی جاتی کیونکہ یکسانیت کا حامل عمل عدم یکسانیت اور رنگ برنگے مظاہرہ و نتائج کا موجب نہیں ہوتا۔ یہ بات اس امر کی دلیل ہے کہ یہ سب کچھ ایک صانع و حکیم اور قادر وعلیم ذات کی کرشمہ سازی جس نے اپنی قدرت کاملہ سے ان کی تخلیق اور انہیں مختلف انواع و اقسام اور الوان و اشکال میں پیدا کرکے بندوں کی روزی کا سامان کردیا اور انہیں اس بات سے آگاہ کردیا کہ یہ سب کچھ اس کی کاریگری اور اس کے انعام کا مظہر ہے۔ زمین پر ہر قسم کی جاندار مخلوق پھیلا دینے کا عمل اللہ سبحانہ کی وحدانیت پر اس جہت سے دلالت کرتا ہے کہ یہ مختلف الانواع جاندار اس کی قدرت کا ملہ کے عظیم مظاہر ہیں۔ یہ بات درست نہیں ہوسکتی کہ ان جانداروں نے اپنی تخلیق آپ کی ہو۔ کیونکہ ایسی صورت میں یا تو نہوں نے اپنی تخلیق اپنی موجودگی کی حالت میں کی ہوگی یا اپنی معدومیت کی حالت میں۔ اگر یہ پہلے سے ہی موجود ہوں تو پھر ان کے احداث کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی اور اگر معدوم ہوں تو معدوم کی ذات سے کسی فعل کو وجود میں لانا محال ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ یہ وجود میں آ جانے کے باوجود اجسام کے اختراع اور اجرام کی تخلیق کی قدرت نہیں رکھتے، تو جب موجود ہونے کی صورت میں وہ تخلیق کے عمل کی قدرت نہیں رکھتے تو معدوم ہونے کی حالت میں بطریق اولیٰ اس کی قدرت نہیں رکھیں گے، نیز ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی جاندار اپنے جسم کے کسی حصے کے اضافے کی قدرت نہیں رکھتا، تو پھر پورے جسم کی تخلیق کی کس طرح قدرت رکھ سکتا ہے ؟ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ان جانداروں کا محدث و موجد اللہ ہی ہے جو قادر و حکیم ہے اور جس کی کسی چیز کے ساتھ مشابہت نہیں ہے۔ اگر ان جانداروں کا محدث ان کے ساتھ کسی جہت سے بھی مشابہت رکھتا تو اجسام کے احداث کو عمل میں لانے کے جواز کے امتناع میں اس کا حکم بھی وہی ہوتا جو ان جانداروں کا ہے۔ ہوائوں کی گردش اللہ کی وحدانیت اور قدرت پر اس جہت سے دلالت کرتی ہے کہ اگر ساری مخلوق ان ہوائوں کو چلانے کی کوشش میں یکجا ہوجائے تو بھی وہ ایسا نہیں کرسکتی۔ جب ہم ہائوں کو کبھی شمال اور کبھی جنوب کی طرف کبھی باد صبا کی صورت میں اور کبھی دبور ( بچھوائی ہوا) کی شکل میں چلتے دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوجاتا ہے کہ ان کا احداث ہوا ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی ہمیں یہ علم بھی ہوجاتا ہے کہ ان کی گردش کا محدث و موجد و قادر و حکیم ہے جس کی کوئی نظیر و شبیہ نہیں ہے۔ یہ ہیں وہ دلائل جن سے اللہ تعالیٰ نے عقلاء کو آگاہ کرکے انہیں ان کے ذریعے استدلال کرنے کا حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اگرچہ یہ قدرت بھی حاصل ہے کہ وہ پانی اور زراعت کے بغیر نبانات پیدا کردیتا اور نر و مادہ کی جفتی کے بغیر جانور وجود میں لے آتا۔ لیکن اس نے موجودہ نظام کے تحت تخلیق کے عمل کو اس لیے جاری کیا کہ ہر نئی چیز کی آمد پر دیکھنے والوں کا دھیان خالق کی قدرت کی طرف جائے اور وہ اس کی عظمت پر غور وفکر کرنے پر مجبور ہوجائیں، نیز ان کے ذہنوں سے غفلت کا پردہ ہٹ جائے اور ذات باری کے متعلق ان کی سوچ کی راہیں ہموار ہوجائیں۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی اس طرح تخلیق فرمائی کہ وہ اپنے اپنے مقام پر قائم و دائم ہیں اور تخلیق کے وقت ان کی جو کیفیت تھی وہی آج تک باقی ہے۔ اس میں ذرہ برار بھی تغیر واقع نہیں ہوا۔ یہی کیفیت ان کی فنا کے وقت تک باقی رہے گی، پھر اس نے زمین سے انسانوں اور دیگرجانوروں کی تخلیق کی اور پھر زمین ہی سیان سب کے لئے رزق پیدا کیا اور تھوڑا تھوڑا کرکے انہیں دیا تاکہ وہ یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ اب انہیں مزید کسی چیز کی حاجت نہیں ہے۔ اللہ سبحانہ نے سالانہ پیداوار کی شکل میں ان کی خوراک کا اتنی مقدار میں بندوبست کردیا جو ان کی کفایت کرسکے تاکہ وہ خود سر نہ ہوجائیں بلکہ انہیں اللہ کی طرف اپنی حاجت مندی کا ہر وقت احساس رہے۔ اس کے ساتھ اللہ سبحانہ نے انسانوں کو زراعت اور کھیتی باڑی کی شکل میں زمین سے پیداوار حاصل کرنے کے کچھ گر سکھا دئیے تاکہ انہیں اس حقیقت سے آگاہ کردے اور اس کا شعور دلالے کہ اعمال کے ثمرات اور اچھے برے نتائج ہوتے ہیں اور اس طرح وہ اچھے اعمال کرکے ان کے ثمرات سے مستفید ہونے اور برے اعمال سے اجتناب کرکے ان کے عواقب سے بچ جانے کے قابل ہوجائیں۔ جہاں تک آسمان سے پانی برسانے کا تعلق تھا تو اس کا م کی ذمہ داری خود ذات باری نے سنبھال لی کیونکہ اپنے لئے بارش برسانا انسانوں کی قدرت میں نہیں تھا۔ اس مقصد کے لئے اللہ سبحانہ نے فضائے آسمانی میں بادل پیدا کیے، پھر انہیں پانی سے بھر دیا اور پھر ضرورت کے مطابق بارش کی شکل میں زمین پر برسایا اور اس پانی کے ذریعے زمین سے وہ تمام چیزیں پیدا کیں جو مخلوق کی خوراک و پوشاک کے لئے ضروری تھیں نیز اللہ سبحانہ نے بارش کے ذریعے برسنے والے پانی کو اس طرح نہیں کہ بس برسنے کے وقت ہی اس سے فائدہ اٹھا لیا جائے بلکہ اس نے اس پانی کے لئے زمین میں بڑی بڑی ذخیرہ گاہیں اور چشمے بنادئیے کہ یہی پانی ان میں جمع ہوکر حسب ضرورت بہتا رہتا ہے۔ ارشاد باری ہے : الم تر ان اللہ انزل من السماء ماء مسل کہ ینابیع فی الارض ( کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی برسایا اور پھر زمین میں اس کے چشمے جاری کردئیے) اگر آسمان سے برسنے والے پانی کو ضرورت کے وقت تک محفوظ کرنے کے لیے زمین میں انتظامات نہ ہوتے تو پھر سارا پانی بہہ جاتا اور اس میں ایک طرف جاندار ڈوب کر ہلاک ہوجاتے اور دوسری طرف پانی کی عدم موجودگی میں پیاس سے ہلاک ہوجاتے۔ بڑی با برکت ہے وہ ذات جس نے زمین کو گھر اور ٹھکانے کی حیثیت عطا کردی کہ انسان کو اس میں پناہ ملتی ہے اور آسمان کو چھت کی شکل دے دی اور بارش نیز نباتات و حیوانات کو ان چیزوں کی مثل بنادیا جنہیں انسان اپنی ضروریات کے پیش نظر اپنے گھر لے جاتا ہے۔ پھر اللہ سبحانہ نے ہمارے لیے زمین کو اس طرح مسخر کردیا کہ ہم بہ آسانی اس پر چل پھر سکتے ہیں اور اس کی راہوں سے گزر سکتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ ہمیں اس بات کی قدرت بھی عطا کردی کہ ہم اس پر مکانات تعمیر کرلیں اور ان میں رہائش رکھ کر بارش اور سردی اور گرمی کے اثرات سے محفوظ رہیں نیز دشمنوں سے بھی اپنا بچائو کرسکیں۔ ہمیں اپنے مکانات کی تعمیر کے لیے زمین کے سوا کسی اور سیارے میں جانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہم زمین کے اندر جہاں بھی مکان بناناچا ہیں وہاں ہمیں تعمیراتی سامان یعنی مٹی، گارا، پتھر، چونا اور لکڑی وغیرہ سب مل جائے گا۔ علاوہ ازیں اللہ سبحانہ نے ہمارے لئے زمین کے معدنیات کی صورت میں سونا، چاندی، لوہا، تانبا اور سیسہ وغیرہ پیدا کردیا۔ ان کے علاوہ ہیرے اور جواہرات کے ذخائر بھی مہیا کردیے تاکہ ہم جس طرح زمین کے بیرونی حصے سے پیداوار کی شکل میں فائدہ اٹھاتے ہیں اسی طرح زمین کے اندرونی حصے سے بھی معدنیات کی صورت میں فائدہ اٹھائیں۔ ارشاد باری ہے۔ وقد رفیھا اقواتھا ( اور اس نے اسی (زمین ) میں (اس پر رہنے والوں کی) غذائیں رکھ دیں۔ یہ تمام اشیاء زمین کی برکات اور منافع ہیں جن کی تعداد شمار وقطار سے باہر ہے پھر چونکہ ہماری اور دیگر جانداروں کی عمروں کی مدت محدود ہے اس لئے زمین ہی کو بعد الموت بھی ہمیں سمیٹ لینے والی بنادیا۔ ارشاد ہے : الم نجعل الارض کفا تا احیاء و امواً ( کیا ہم نے زمین کو زندوں اور مردوں کو سمیٹ لینے والی نہیں بنایا) مزید فرمایا : ان جعلنا ما علی الارض زینۃً لھا لنبلوھم ایھم احسن عملاً وانا لجاعلون ما علیھا صعیداً اجززا۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ جو کچھ سرو سامان بھی زمین پر ہے اس کو ہم نے زمین کی زینت بنایا ہے تاکہ ان لوگوں کو آزمائیں کہ ان میں بہتر عمل کرنے والا کون ہے۔ آخر کار اس سب کو ہم ایک چٹیل میدان بنادینے والے ہیں) پھر حق سبحانہ نے نبانات و حیوانات کی تخلیق میں لذت نجش نیز غذا بننے والی چیزوں پر اقتصار نہیں کیا، بلکہ ان کے ساتھ تلخ اور زہریلی چیزیں بھی پیدا کیں تاکہ نفع بخش اور نقصان دہ چیزوں کے امتزاج سے ہمیں یہ احساس دلائے کہ وہ یہ نہیں چاہتا کہ ہم ان تلذات کی طرف ہی مائل رہیں اور ان میں منہمک ہوکر آخرت کو فراموش کربیٹھیں۔ دوسرے الفاظ میں نقصان دہ چیزوں کے اندر اللہ سبحانہ نے ہمارے لئے نفع اور خیر کا پہلو اسی طرح رکھ دیا ہے جس طر ح خوش کن لذت انگیز چیزوں کے اندر ہے۔ دنیاوی زندگی میں جب ہم آلام و شدائد کا مزہ چکھیں گے تو اس سے ہمیں آخرت کے آلام کا احساس ہوگا۔ یہ احساس ہمیں قبائح اور آثام سے روک دے گا اور اسکے نتیجے میں ہم آخرت کی اس لازوال راحت و نعمت کے مستحق قرار پائیں گے جس میں تکلیف و الم کا شائبہ تک نہیں ہے اور جو ہر قسم کی متعصات سے پاک ہے۔ اس ایک آیت کے اندر اللہ کی وحدانیت کے جو دلائل بیان ہوئے ہیں۔ اگر غافل انسان صرف ان پر ہی غور کرلے تو ان تمام اقوال کا بطلان ہوجائے گا جن کا تعلق گمراہ فرقوں سے ہے۔ یہ فرقے وہ ہیں جو نظام کائنات میں فطرت یعنی نیچر کی کارروائی کے قائل ہیں یا ثنویت پرست ہیں یعنی ان کا عقیدہ ہے کہ کائنات کا نظام دو خدا چلا رہے ہیں۔ ایک یزدان، دوسرا ہرمن۔ یزدان خالق خیرا اور راہرسن خالق شر ہے۔ یا وہ فرقہ جو تشبیہ کا عقیدہ رکھتا ہے اور ذات باری کو اجسام و اجرام کے مشابہ قرار دیتا ہے۔ اگر ہم زیر بحث آیت کے معانی و مطالب نیز اس کے ضمن میں موجود دلائل توحید کو صفحہ قرطاس پر پھیلا دیں تو بحث طویل ہوجائے گی۔ ہم نے درج بالا سطور میں آیت کے معانی و مطالب میں جتنا کچھ لکھ دیا ہے ہمارے خیال میں وہ کافی ہے۔ ہم اللہ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ ہمیں اپنے بیان کردہ دلائل سے استدلال کرنے اور اسکے ذریعے راہ ہدایت حاصل کرنے کی عمدہ توفیق عطا فرمائے وہی ہمارے لئے کافی ہے اور وہی ہمارا بہترین کارساز ہے۔ بحری سفر کی اباحت قول باری : والفلک التی تجری فی البحر بما ینفع الناس ( اور ان کشتیوں میں جو انسان کے نفع کی چیزیں لیے ہوئے دریائوں اور سمندروں میں چلتی پھرتی ہیں) میں بحری سفر کی اباحت کا ذکر ہے خواہ یہ سفر اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کی غرض سے کیا یا تجارت کی غرض سے یا دیگر منافع کی تلاش میں ۔ کیونکہ آیت میں منفعت کی کسی ایک صورت کی تخصیص نہیں کی گئی۔ کہ دیگر صورتیں اس میں شامل نہ ہوسکیں۔ ایک جگہ ارشاد ہے : ھو الذی یسیرکم فی البر والبحر ( وہی ہے جو تمہیں خشکی اور سمندر میں چلاتا ہے) نیز ارشاد ہے : ربکم الذی یرجی لکم الفلک فی البحر لتبتغو ا من فضلہ ( تمہارا رب وہ ہے جو تمہارے لیے سمندر اور دریا میں کشتیاں چلتا ہے تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرسکو) قول باری : لتبتغوا من فضلہ تجارت وغیرہ سب کو شامل ہے، جس طرح یہ ارشاد باری ہے : فاذا قضیت الصلوٰۃ فانتشرو ا فی الارض وابتغو ا من فضل اللہ جب ( جمعہ کی) نماز ادا کرلی جائے تو تم زمین میں بکھر جائو اور اللہ کا فضل تلاش کرو) نیز ارشاد ہے : لیس علیکم جناح ان تبتغو ا فضلاً من ربکم ( اس بات میں تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو) صحابہ کرام کی ایک جماعت سے بحری سفر کے ذریعے تجارت کرنے کی اباحت مروی ہے۔ حضرت عمر (رض) نے مسلمانوں کی جانوں کو لاحق ہونے والے خطرا ت کے پیش نظر جہاد کی غرض سے بحری سفر کی ممانعت کردی تھی، نیز حضرت ابن عباس (رض) سے ان کا قول مروی ہے کہ کوئی شخص بحری سفر اختیار نہ کرے، البتہ اگر وہ جہاز پر جاناچاہتا ہے یا حج یا عمرے کی نیت سے یہ سفر کرے تو وہ ایسا کرسکتا ہے۔ یہاں یہ کہنا ممکن ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) نے یہ بات مشورے کے طورپر کہی ہو یا ان کے پیش نظر بحری سفر کے خطرات ہوں۔ یہی بات ایک حدیث میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی مروی ہے محمد بن بکر البصری نے یہ حدیث بیان کی ہے ان سے ابو دائود نے ان سے سعید بن المنصور نے، ان سے اسماعیل بن زکریا نے عبداللہ بن عمر (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” کوئی شخص بحری سفر نہ کرے الا یہ کہ وہ حج یا عمرہ کرنے والا ہو یا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا ہو کیونکہ سمندر کے نیچے آگ ہے اور آگ کے نیچے سمندر ہے۔ “ یہاں یہ کہنا جائز ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد استحباب کے طورپر ہوتا کہ کوئی مسلمان دنیا کی طلب میں اپنی جان خطرے میں نہ ڈالے چونکہ یہ بات حج، عمرہ اور جہاد فی سبیل اللہ کے اندر نہیں ہے، اگر کوئی شخص مذکورہ مقاصد میں سے کسی مقصد کے تحت بحری سفر کرے اور ڈوب جائے تو وہ شہید قرار پائے گا۔ محمد بن بکر نے روایت بیان کی، ان سے ابو دائود نے، ان سے سلیمان بن دائود العتکی نے، ان سے حماد بن زید نے یحییٰ بن سعید سے، انہوں نے محمد بن یحییٰ بن حبان سے اور انہوں نے حضرت انس بن مالک (رض) سے، انہوں نے فرمایا کہ حضرت ام سلیم (رض) کی بہن حضرت ام حرام (رض) بنت ملحان نے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے گھر میں آرام فرما تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے، حضرت ام حرام نے مسکرانے کی وجہ پوچھی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب میں فرمایا :” میں نے اپنی امت کے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ وہ اس سمندر کی پشت پر اس طرح سوار ہیں جس طرح بادشاہ لوگ اپنے اپنے تخت پر سوار ہوتے ہیں۔ “ یہ سن کر حضرت ام حرام (رض) نے عرض کیا :” اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعا فرمائیے کہ مجھے بھی اللہ ان لوگوں میں سے کردے۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم بھی ان میں سے ہو۔ “ اس کے بعد آپ پھر سو گئے اور پھر مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے، جب حضرت ام حرام (رض) نے مسکرانے کی وجہ پوچھی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں حسب سابق جواب دیا۔ انہوں نے اپنی درخواست دہرائی جسے سن کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم اولین میں سے ہو “۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت عبادہ (رض) بن الصامت (رض) نے ان سے نکاح کرلیا اور جب جہاد پر جانے کے لیے بحری سفر اختیار کیا تو ان کو بھی ساتھ لے گئے۔ جہاد سے واپس آئے تو حضرت ام حرام (رض) کو سواری کے لیے ایک مادہ خچر پیش کی گئی جس نے انہیں گرا دیا اور ان کی گردن ٹوٹ گئی اور وہ وفات پا گئیں۔ محمد بن بکر نے روایت بیان کی ہے، ان سے ابو دائود نے، ان سے عبدالوہاب بن الرحیم الجوہری الدمشقی نے، ان سے مروان نے، ان سے ہلال بن میمون الرملی نے یحییٰ بن شداد سے، انہوں نے حضرت ام حرام (رض) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بحری سفر کرنے والا شخص جس کا سر چکرائے اور اسے الٹیاں شروع ہوجائیں اور وہ فوت ہوجائے تو اسے ایک شہید کا اجر ملے گا اور ڈوب کر فوت ہوجانے والے شخص کو دو شہیدوں کا اجر ملے گا۔ “

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٦٤) ان دونوں چیزوں کی پیدائش میں یہ تفسیر کی گئی ہے کہ ان دونوں یعنی زمین و آسمان میں جو چیزیں پیدا کی گئی ہیں ان کے لیے بھی شفیق اور مہربان ہے۔ اور رات دن کو تبدیل اور ان کی کمی وبیشی میں اور کشتیوں میں جو لوگوں کی معاشی وزندگی کے لیے چلتی ہیں اور اس چیز میں جو اللہ تعالیٰ نے آسمان سے بارش برسائی ہے اور پھر قحط سالی اور زمین کے خشک ہونے کے بعد پھر اس بارش سے سبزہ پیدا کرنے میں۔ اور پھر اس زمین میں ہر طرح کے جانور نر و مادہ پیدا کیے اور ہواؤں کی دائیں بائیں، آگے پیچھے تبدیلی میں اور کبھی رحمت کا باعث اور کبھی عذاب کا باعث کرنے میں اور لٹکے ہوئے بادلوں میں، ان تمام چیزوں میں اللہ تعالیٰ کی توحید کی ایسی قوم کے لیے نشانیاں ہیں جو اس بات کا یقین رکھے کہ یہ تمام چیزیں اللہ تعالیٰ کی ہی طرف سے ہیں۔ شان نزول : (آیت) ” ان فی خلق السموت (الخ) سعید بن منصور (رح) نے اپنی سنن اور فریابی (رح) نے اپنی تفسیر اور امام بیہقی (رح) نے اپنی کتاب شعب الایمان میں ابو الضحی (رح) سے روایت کیا ہے کہ جب آیت) ” والھکم الہ واحد (الخ) نازل ہوئی تو مشرکین نے اظہار تعجب کیا اور کہنے لگے کہ وہ وحدہ لاشریک ہے اگر وہ اپنے قول میں سچا ہے تو کوئی دلیل لائے، اس پر اللہ تعالیٰ نے (آیت) ” ان فی خلق السموت “ سے (آیت) ” یعقلون “ تک آیت نازل فرمائی۔ ابن ابی حاتم (رح) اور ابن مردویہ (رح) نے متصلا حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ قریش مکہ نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجیے کہ وہ صفا پہاڑی کو سونے کا بنا دے تاکہ ہم اس کے ذریعے اپنے دشمنوں پر قابوپاسکیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرمایا کہ آپ ان سے وعدہ فرما لیں، میں ایسا ہی کردوں گا لیکن اگر انہوں نے اس کے بعد کفر کیا تو ان لوگوں کو ایسی سزا دوں گا کہ پوری دنیا میں سے ویسی سزا کسی کو بھی نہ دی ہوگی ، حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عرض کیا پروردگار عالم مجھے اور میری قوم کو رہنے دیجیے، میں اپنی قوم کے لیے روز بروز دعا کرتا رہوں گا اس پر (آیت) ” ان فی خلق السموت “۔ الخ نازل ہوئی۔ یہ لوگ کیسے صفا پہاڑ کو کے سونے ہونے کے متعلق سوال کرتے ہیں، جب کہ اس سے عمدہ اور واضح دلائل الوہیت خداوندی پر موجود ہیں (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

اب جو آیت آرہی ہے اس کے مطالعہ سے پہلے ایک بات سمجھ لیجیے کہ سورة البقرۃ کا نصف ثانی جو بائیس رکوعوں پر مشتمل ہے اور جس کا آغاز انیسویں رکوع سے ہوا ہے ‘ اس میں ترتیب کیا ہے۔ سورة البقرۃ کے پہلے اٹھارہ رکوعوں کی تقسیم عمودی (verticle) ہے۔ یعنی چار رکوع ادھر ‘ دس درمیان میں ‘ پھر چار ادھر۔ لیکن انیسویں رکوع سے اب افقی (horizontal) تقسیم کا آغاز ہوگیا ہے۔ اس حصے ّ میں چار مضامین تانے بانے کی طرح بنے ہوئے ہیں۔ یا یوں کہہ لیں کہ چار لڑیاں ہیں جن کو بٹ کر رسّی بنا دیا گیا ہے۔ ان چار میں سے دو لڑیاں تو شریعت کی ہیں ‘ جن میں سے ایک عبادات کی اور دوسری احکام و شرائع کی ہے کہ یہ واجب ہے ‘ یہ کرنا ہے ‘ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے۔ نماز فرض ہے ‘ روزہ فرض ہے ‘ وغیرہ وغیرہ۔ احکام و شرائع میں خاص طور پر شوہر اور بیوی کے تعلق کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ اس لیے کہ معاشرت انسانی کی بنیاد یہی ہے۔ لہٰذا اس سورت میں آپ دیکھیں گے کہ عائلی قوانین کے ضمن میں تفصیلی احکام آئیں گے۔ جبکہ دوسری دو لڑیاں جہاد بالمال اور جہاد بالنفس کی ہیں۔ جہاد بالنفس کی آخری انتہا قتال ہے جہاں انسان نقد جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان کارزار میں حاضر ہوجاتا ہے۔ اب ان چاروں مضامین یا چاروں لڑیوں کو ایک مثال سے سمجھ لیجیے۔ فرض کیجیے ایک سرخ لڑی ہے ‘ ایک پیلی ہے ‘ ایک نیلی ہے اور ایک سبز ہے ‘ اور ان چاروں لڑیوں کو ایک رسّی کی صورت میں بٹ دیا گیا ہے۔ آپ اس رسّی کو دیکھیں گے تو چاروں رنگ کٹے پھٹے نظر آئیں گے۔ پہلے سرخ ‘ پھر پیلا ‘ پھر نیلا اور پھر سبز نظر آئے گا۔ لیکن اگر رسّی کے بل کھول دیں تو ہر لڑی مسلسل نظر آئے گی۔ چناچہ سورة البقرۃ کے نصف آخر میں عبادات ‘ احکام شریعت ‘ جہاد بالمال اور جہاد بالنفس کے چار مضامین چار لڑیوں کی مانند گتھے ہوئے ہیں۔ یہ چاروں لڑیاں تانے بانے کی طرح بنی ہوئی ہیں۔ لیکن اسی بنتی میں بہت بڑے بڑے پھول موجود ہیں۔ یہ پھول قرآن مجید کی عظیم ترین اور طویل آیات ہیں ‘ جن کی نمایاں ترین مثال آیت الکرسی کی ہے۔ ان عظیم آیات میں سے ایک آیت یہاں بیسویں رکوع کے آغاز میں آرہی ہے ‘ جسے میں نے آیت الآیات کا عنوان دیا ہے۔ اس لیے کہ قرآن مجید کی کسی اور آیت میں اس قدر مظاہر فطرت (phenomena of nature) یکجا نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ تمام مظاہر فطرت کو اپنی آیات قرار دیتا ہے۔ آسمان اور زمین کی تخلیق ‘ رات اور دن کا الٹ پھیر ‘ آسمان کے ستارے اور زمین کی نباتات ‘ یہ سب آیات ہیں جن کا ذکر قرآن مجید میں مختلف مقامات پر کیا گیا ہے ‘ لیکن یہاں بہت سے مظاہر فطرت کو جس طرح ایک آیت میں سمو یا گیا ہے یہ حکمت قرآنی کا ایک بہت بڑا پھول ہے جو ان چار لڑیوں کی بنتی کے اندر آگیا ہے۔ آیت ١٦٤ (اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلاَفِ الَّیْلِ وَالنَّہَارِ ) (وَالْفُلْکِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِی الْْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ ) (وَمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ مَّآءٍ ) (فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا) بے آب وگیاہ زمین پڑی تھی ‘ بارش ہوئی تو اسی میں سے روئیدگی آگئی۔ (وَبَثَّ فِیْہَا مِنْ کُلِّ دَآبَّۃٍص ) (وَّتَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ ) ہواؤں کی گردش کے مختلف انداز اور مختلف پہلو ہیں۔ کبھی شمالاً جنوباً چل رہی ہے ‘ کبھی مشرق سے آرہی ہے ‘ کبھی مغرب سے آرہی ہے۔ اس گردش میں بڑی حکمتیں کارفرما ہیں۔ (وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ ) (لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ ) ۔ ان مظاہر فطرت کو دیکھو اور ان کے خالق اورّ مدبر کو پہچانو ! ان آیات آفاقی پر غور و فکر اور ان کے خالق کو پہچاننے کا جو عملی نتیجہ نکلنا چاہیے اور جس تک عام طور پر لوگ نہیں پہنچ پاتے اب اگلی آیت میں اس کا تذکرہ ہے۔ نتیجہ تو یہ نکلنا چاہیے کہ پھر محبوب اللہ ہی ہو ‘ شکر اسی کا ہو ‘ اطاعت اسی کی ہو ‘ عبادت اسی کی ہو۔ جب سورج میں اپنا کچھ نہیں ‘ اسے اللہ نے بنایا ہے اور اسے حرارت عطا کی ہے ‘ چاند میں کچھ نہیں ‘ ہوائیں چلانے والا بھی وہی ہے تو اور کسی شے کے لیے کوئی شکر نہیں ‘ کوئی عبادت نہیں ‘ کوئی ڈنڈوت نہیں ‘ کوئی سجدہ نہیں۔ چناچہ اللہ تعالیٰ ہی مطلوب و مقصود بن جائے ‘ وہی محبوب ہو۔ لَا مَحْبُوْبَ اِلَّا اللّٰہُ ‘ لَا مَقْصُوْدَ الاَّ اللّٰہُ ‘ لَا مَطْلُوْبَ اِلَّا اللّٰہُ جن لوگوں کی یہاں تک رسائی نہیں ہو پاتی وہ کسی اور شے کو اپنا محبوب و مطلوب بنا کر اس کی پرستش شروع کردیتے ہیں۔ خدا تک نہیں پہنچے تو ع اپنے ہی حسن کا دیوانہ بنا پھرتا ہوں کے مصداق اپنے نفس ہی کو معبود بنا لیا اور خواہشات نفس کی پیروی میں لگ گئے۔ کچھ لوگوں نے اپنی قوم کو معبود بنا لیا اور قوم کی برتری اور سربلندی کے لیے جانیں بھی دے رہے ہیں۔ بعض نے وطن کو معبود بنا لیا۔ اس حقیقت کو علامہ اقبال نے سمجھا ہے کہ اس دور کا سب سے بڑا بت وطن ہے۔ ان کی نظم وطنیّت ملاحظہ کیجیے : ؂ اِس دور میں مَے اور ہے ‘ جام اور ہے ‘ جم اور ساقی نے بنا کی روش لطف و ستم اور تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور اِن تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے جوپیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے ! اگلی آیت میں تمام معبودان باطل کی نفی کر کے ایک اللہ کو اپنا محبوب اور مطلوب و مقصود بنانے کی دعوت دی گئی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

162. If a man were to observe the constant operation of this universe, reflect on it in a manner befitting a rational being, and think about it without either stubbornness or bias, he would find sufficient signs to convince him that this gigantic system is absolutely subservient to the will of the Omnipotent and Wise Being, Who alone wields all power and authority. Moreover, this system seems to be such as to rule out all possibility of any interference from others whether independent of the Creator of the universe or in partnership with Him. Since this One True God is the Lord of all creation and none else is in possession of any power or authority, none is entitled to any share in His godhead or overlordship.

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :162 یعنی اگر انسان کائنات کے اس کارخانے کو ، جو شب و روز اس کی آنکھوں کے سامنے چل رہا ہے ، محض جانوروں کی طرح نہ دیکھے بلکہ عقل سے کام لے کر اس نظام پر غور کرے ، اور ضد یا تعصّب سے آزاد ہو کر سوچے ، تو یہ آثار جو اس کے مشاہدے میں آرہے ہیں اس نتیجے پر پہنچانے کے لیے بالکل کافی ہیں کہ یہ عظیم الشان نظام ایک ہی قادر مطلق حکیم کے زیرِ فرمان ہے ، تمام اختیار و اقتدار بالکل اسی ایک کے ہاتھ میں ہے ، کسی دُوسرے کی خود مختارانہ مداخلت یا مشارکت کے لیے اس نظام میں ذرہ برابر کوئی گنجائش نہیں ، لہٰذا فی الحقیقت وہی ایک خدا تمام موجوداتِ عالم کا خدا ہے ، اس کے سوا کوئی ہستی کسی قسم کے اختیارات رکھتی ہی نہیں کہ خدائی اور اُلوہیّت میں اس کا کوئی حصّہ ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

105: اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جگہ جگہ کائنات کے ان حقائق کی طرف توجہ دلائی ہے جو ہماری آنکھوں کے سامنے پھیلے پڑے ہیں اور اگر ان پر معقولیت کے ساتھ غور کیا جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی توحید پر دلالت کرتے ہیں ؛ چونکہ روزہ مرہ ان کو دیکھتے دیکھتے ہماری نگاہیں ان کی عادی ہوگئی ہیں، اس لئے ان میں کوئی حیرت کی بات ہمیں محسوس نہیں ہوتی ورنہ ان میں سے ایک ایک چیز ایسے محیرالعقول نظام کا حصہ ہے جس کی تخلیق اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کے سوا کائنات کی کسی طاقت کے بس میں نہیں ہے، آسمان اور زمین کی تمام مخلوقات جس طرح کام کررہی ہیں، چاند اور سورج جس طرح ایک لگے بندھے نظام الاوقات کے تحت دن رات سفر میں ہیں، سمندر جس طرح نہ صرف پانی کا ذخیرہ کئے ہوئے ہے ؛ بلکہ کشتیوں کے ذریعے خشکی کے مختلف حصوں کو جوڑے ہوئے ہے اور ان کی ضرورت کاسامان ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کررہا ہے، بادل اور ہوائیں جس انداز میں انسانوں کی زندگی کا سامان مہیا کررہے ہیں ان سب چیزوں کے بارے میں بدترین حماقت کے بغیر یہ سمجھنا ممکن نہیں ہے کہ یہ سب کچھ خود بخود کسی خالق کے بغیر ہورہا ہے، مشرکین عرب بھی یہ مانتے تھے کے یہ ساری کائنات اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی ہے ؛ لیکن ساتھ ہی وہ عقیدہ رکھتے تھے کہ ان تمام کاموں میں کئی دیوتا اس کے مددگار ہیں، قرآن کریم فرماتا ہے کہ جس ذات کی قدرت اتنی عظیم ہے کہ یہ سارا نظام کائنات اس نے بلا شرکت غیرے پیدا کردیا ہے آخر اسے چھوٹے چھوٹے کاموں کے لئے کسی شریک یا مددگار کی کیا ضرورت ہے، لہذا جو شخص بھی اپنی عقل کو کام میں لائے گا اسے کائنات کی ہر چیز میں اللہ تعالیٰ کی توحید نظر آئے گی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

تفسیر ابن کثیر حاتم وغیرہ معتبر سند سے ان آیتوں کی شان نزول جو حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کی روایت سے لکھی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ قریش نے ایک دفعہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ آپ کی دعا سے اگر یہ مکہ کا صفا پہاڑ سونے کا ہوجاوے تو ہم لوگ آپ پر ایمان لے آئیں اور اس سونے سے ہتھیار اور گھوڑے خرید کر آپ کے ساتھ جہاد کریں گے اس پر آپ نے قریش سے مضبوط وعدہ ایمان کا لیا اور اللہ تعالیٰ سے صفا پہاڑ کے سونے کے ہوجانے کی دعا کی حضرت جبرئیل آں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور اللہ تعالیٰ کا یہ پیغام پہنچایا کہ صفا پہاڑ کے سونے کے ہوجانے کے بعد اگر یہ لوگ ایمان نہ لائیں گے تو ان پر بہت سخت عذاب نازل کیا جائے گا اگر یہ شرط ان کو منظور ہے تو صفا پہاڑی کو بھی سونے کا کردیا جائے گا اس پر آں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا کی کہ یا اللہ ان لوگوں کو اور مجھ کو اسی حال پر چھوڑ دیاجائے۔ رفتہ رفتہ میں ان کو دعوت اسلام پہنچاتا رہوں گا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائیں ١۔ مضمون آیت میں جو تنبیہ ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ صفا پہاڑ کا سونے کا ہوجانا دور ازعقل خیال کر کے ان لوگوں نے اپنے ایمان لانے کو جو اس پر منحصر رکھا ہے عقل مند کے لئے اس سے بڑھ کر دور از عقل نشانیاں اللہ تعالیٰ کی قدرت کی دنیا میں موجود ہیں۔ مثلاً آسمان کا بلا ستون قائم ہونا اور تاروں کا اس خوبی کے ساتھ اس میں معلق ہونا ہوا کا بادلوں کو اکٹھا کرنا اور موسم پر ہر سال ضرورت کے موافق مینہ کا برسنا اور اس سے طرح طرح کی پیداوار کا زمین سے حاصل ہونا زمین کی خاصیت تو یہ ہے کہ اس میں جو چیز دبائی جاوے وہ خاک ہوجاتی ہے یہاں تک کہ لوہا جیسی سخت چیز کا بھی زمین میں وہی حال ہے۔ لیکن بحکم خدا جب بیج اس میں دبایا جائے تو بجائے خاک ہوجانے کے وہ اگتا ہے پھلتا ہے پھولتا ہے کیا یہ بات زمین کی خاصیت میں اللہ تعالیٰ نے نہیں رکھی ہے کہ اس خاصیت کے سبب سے زمین کے اندر ہی اندر مٹی اور پتھر سونا ہوجاتے ہیں۔ اور جگہ جگہ زمین میں سونے کی کان نکلتی ہیں جو سونا دنیا بھر میں برتا جاتا ہے اس خاصیت سے ایک صفا پہاڑ سونے کا ہوجائے تو کیا اچنبے کی بات ہے اور اس پر ایمان کا لانا کیا منحصر ہوسکتا ہے بلکہ وہ تو اتنی بات ہے کہ جس طرح اور سونے کی کانیں زمین میں ہیں اسی طرح یہ بھی ایک کان گنی جائے گی اگر یہ لوگ اللہ کی قدرت کے نمونے دیکھ کر اس کو پہچاننا اور اس پر ایمان لانا چاہتے ہیں تو ہزاروں لاکھوں اور کروڑوں نمونے اللہ کی قدرت کے عقل مند کے لئے ایسے دنیا میں موجود ہیں جس طرح کی چند باتیں اس آیت میں ذکر کی گئیں ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:164) ان حرف مشبہ بالفعل۔ (1) فی خلق المسوت والارض (2) واختلاف اللیل والنھار (3) والفلک التی تجری فی البحر بما ینفع الناس (4) وما انزل اللہ من السماء من مائ یہ سب جملے یکے بعد دیگرے ان کی خبر ہیں۔ (ا) ماحیا بہ الارض بعد موتھا (ب) وبث فیہما من کل دابۃ (5) ونتصریف الریاح (6) والسماب المسخر بین السماء والارض لایت تقوم تعقلون ۔۔ اسم ان۔ (لام کو ان کے اسم کی خبر کے بعد میں آنے کی وجہ سے لایا گیا ہے) ۔ اختلاف اللیل والنھار سے مراد دن رات کا آگے پیچھے آنا۔ ان کا چھوٹا بڑا ہونا۔ کرہ ارضی پر مختلف مقامات پر ان کا طوالت میں کم و بیش ہونا ہے۔ الفلک۔ یہ لفظ مذکر مؤنث، واحد، جمع سب کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ کشتی۔ جہاز۔ تجری بما۔ تجری۔ مضارع واحد مؤنث غائب۔ وہ چلتی ہے۔ وہ جاری ہے ۔ بما میں ب تعدیہ کا ہے تجری ب۔ وہ لے جاتی ہے۔ وہ لے کر چلتی ہے۔ اور ما موصولہ ہے۔ ینفع الناس (جو) نفع پہنچاتی ہے لوگوں کو ، یعنی اور جہازوں میں، کشتیوں میں جو چلتے ہیں سمندر میں وہ چیزیں لے کر جو لوگوں کو نفع پہنچاتی ہیں۔ سامان تجارت وغیرہ۔ احیا بہ۔ ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب۔ (بمعنی مضارع) وہ زندہ کرتا ہے ہ ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع ماء سے۔ بث۔ ماضی واحد مذکر غائب (بمعنی مضارع) وہ پھیلاتا ہے وہ بکھیرتا ہے (باب نصر، ضرب) اصل میں بث کے معنی کسی چیز کے پراگندہ کرنے اور ابھارنے کے ہیں اس لئے ہوا سے خاک اڑنے۔ غم سے بےقرار ہونے۔ اور راز کے افشاء کرنے کے لئے بث کا استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً فکانت ھباء منبثا (56:6) پھر وہ منتشر ذرات کی طرح اذنے لگیں۔ اور یوم یکون الناس کالفراز المبثوث (101:4) جس دن لوگ ایسے ہوں گے جیسے بکھرے ہوئے پتنگے۔ فیہا۔ اور اس سے قبل بعد موتھا میں ہا ضمیر واحد مؤنث غائب۔ الارض کے لئے ہے۔ دابۃ۔ الدب اور الدبیب (باب ضرب) سے اسم فاعل کا صیغہ ہے۔ مذکر اور مؤنث دونوں کے لئے مستعمل ہے۔ اس میں ۃ وحدت کی ہے دواب جمع ہے اگرچہ عرف میں یہ لفظ گھوڑے کے لئے مخصوص ہے مگر سب جانوروں کے لئے استعمال ہوتا ہے قرآن مجید میں اس کا استعمال ہر ذی حیات چیز کے لئے ہوا ہے۔ دابۃ الارض۔ جس کا ذکر آیت شریفہ (27:82) میں آیا ہے اس سے ایک خاص جانور مراد ہے جو قیامت سے پہلے زمین سے نکلے گا۔ (بعض کے نزدیک مکہ معظمہ میں کوہ صفا کے پھٹنے سے زمین سے نمودار ہوگا ) جو کہ لوگوں سے باتیں کرے گا اور نشان لگا کر سچے ایمانداروں اور چھپے ہوئے منکروں کو ایک دوسرے سے ممتاز کر دیگا۔ تصریف الریاح۔ مضاف مضاف الیہ۔ ہواؤں کا بدلنا تصریف (تفعیل) مصدر۔ صرف یصرف کا۔ بمعنی پھیرنا۔ بالنا۔ قرآن مجید میں اور جگہ آیا ہے صرفنا الایات (46:27) اور ہم نے (اپنی) نشانیاں پھیر پھیر کر (بیان کردی ہیں) الریاح۔ ریح کی جمع ہے۔ فائدہ : قرآن مجید میں جہاں ارسال ریح کا ذکر ہے اگر بہ لفظ جمع ہے یعنی ریاح کا لفظ استعمال ہوا ہے تو وہاں عام طور پر رحمت کی ہوائیں مراد ہیں۔ اور اگر ریح یعنی واحد کا لفظ استعمال ہوا ہے تو عذاب کے معنی مراد ہیں۔ چناچہ ریاح (جمع) کے متعلق ارشاد ہے وارسلنا الریاح لواقح (15:22) اور ہم ہی ہوا کو چلاتے ہیں جو بادلوں کو پانی بردار کرتی ہے اور ان یرسل الریاح مبشرات (30:6) کہ ہواؤں کو اس غرض سے بھیجتا ہے کہ لوگوں کو بارش کی خوشخبری پہنچائیں۔ اور ریح (واحد) کے متعلق فرمایا انا ارسلنا علیہم ریحا صرصرا (54:19) ہم نے ان پر ایک زناٹے کی آندھی چلائی۔ اور اشتدت بہ الریح (14:18) اس کو سخت ہوا لے اڑی۔ السحاب المسخر۔ موصوف و صفت۔ تابع فرمان بادل (جو آسمان اور زمین کے درمیان معلق ہے) یعنی وہ بادل جو اس کے یعنی اللہ تعالیٰ کے تابع فرمان ہیں جدھر اس کا حکم ہوتا ہے ادھر کو وہ چلتے ہیں۔ اور جہاں وہ چاہتا ہے برستے ہیں۔ بعض نے السحاب کو موصوف اور المسخر بین السماء والارض کو اس کی صفت لکھا ہے۔ اور ترجمہ یوں کیا ہے۔ اور بادلوں میں جو زمین اور آسمان کے درمیان مقید ہیں نہ اوپر جاتے ہیں نہ نیچے گرتے ہیں۔ سحاب اسم جنس جمعی ہے۔ اس کا واحد سحایۃ ہے یہ مذکر بھی آتا ہے اور مؤنث بھی۔ مفرد بھی آتا ہے اور جمع بھی۔ لفظ کی رعایت سے اس کی صفت مفرد آتی ہے جیسے آیت مندرجہ بالا والسحاب والمسخر بین السماء والارض اور معنی کی رعایت سے جمع بھی لائی جاتی ہے جیسے وینشئی السحاب الثقال (13:12) اور اٹھاتا ہے۔ بھاری بادل۔ مذکر کی مثال جیسے آیت مذکورہ (والسحاب المسخر ۔۔ ) یعقلون۔ مضارع جمع مذکر غائب۔ عقل (ضرب) مصدر، وہ سمجھتے ہیں۔ وہ غور کرتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 اوپر کی آیت میں اللہ تعالیٰ کے الا واحد ہونے کا بیان تھا اس آیت میں وحدنیت پر دلائل کا بیان ہے۔ قرآن نے ان امور ثمانیہ کو وجود باری تعالیٰ اور اس کی وحدانیت کے ثبوت میں متفرق طور پر جا بجا ذکر کیا ہے مگر یہاں ان سب کو جمع کردیا ہے۔ ان امو رر تکو ینیہ سے ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کے متعلق خود مشرکین کو بھی اعتراف تھا کہ ان کی خلق میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی دوسرا شریک نہیں ہے۔ (کبیر) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ قریش نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کیجئے کہ وہ ہمارے لیے کوہ صفا کو سونا بنا دے اگر اس نے ایسا کردیا تو ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آئیں گے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ یہ لوگ صفا کے سونا بن جانے کا کیسے مطالبہ کررہے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور قدرت کے بڑے بڑے دلائل موجود ہیں صرف عقل وفکر کی ضرورت ہے۔ (ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات 164 167 اسرارو معارف ان فی خلق اسلوت والارض…………………لایت لقوم یعقلون۔ توحید باری کے لئے تکوینی دلائل : یہ بات کہ وہ اکیلا ہی مستحق عبادت ہے اور وہی ہے ہر کہ دمہ پہ رحم کرنے والا ، سب کا خالق ومالک اور رازق معاندین کے لئے بیحد ثقیل تھی۔ خصوصاً نزول کلام کے وقت تو حال یہ تھا کہ گھر کے ہر فرد نے اپنا علیحدہ بت بنارکھا تھا اور پھر مختلف امور کے لئے مختلف خدا ادر الہٰ ۔ تو آج بھی مذاہب باطلہ میں دیکھے جاسکتے ہیں کہ انسان اپنی عقل کے مطابق سوچتا ہے تو یہ کام کہ ساری کائنات کا رب واحد ہے اور تمام امور اکیلا ہی انجام دے رہا ہے اس کی رسائی سے بالاتر ہے۔ ان حقائق تک پہنچنے کے لئے نور نبوت سے اکتساب ضروری ہے اور وہی ان بلندیوں تک رہنمائی کرسکتا ہے۔ یہ اتنی عظیم بات ہے کہ لوگ کلمہ پڑھنے اور اقرار توحید و رسالت کرنے کے بعد بھی بھٹک رہے ہیں۔ عہد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مثالی عہد تھا ، پھر اس کے بعد دور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور پھر تابعین کا زمانہ۔ اس کے بعد اگرچہ ” لا الہ “ کی ضرب اس قدر شدید کاری تھی کہ کوئی کلمہ گو پتھر کو مورت نہ بنا سکا مگر خیال مشکل کشائوں اور حاجت براری کرنے والوں کی ایک فوج نظر آتی ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ لوگوں نے رواجاً کلمہ پڑھ لیا ہے کہ نسل بعد نسل آرہا ہے۔ اس کے حقائق کی طرف توجہ نہیں دے سکے۔ کہ اس کے لئے انوارات نبوت کی ضرورت تھی جن سے لوگوں کے دل خالی ہیں مگر اسی حقیقت کو جاننے کے لئے دلائل تکوینی بھی تو موجود ہیں جو بنظر غور مطالعہ کیا جائے تو انسان کا رخ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف پھیرنے کے لئے بہت کافی ہیں۔ یہاں انہی سے بحث فرمائی ہے کہ بلا شبہ آسمانوں کی بناوٹ ، اس میں فرشتوں کا قیام اور ان کا امور دنیا پہ مقرر کیا جانا یا بیت المعمور اور بیت العزہ کہ نزول تجلیات کا سبب ہیں کا بنانا ، ان بیشمار حقائق کا ان میں سمودینا جو ان کو نظام دنیا کے لئے بھی ایک سیکرٹریٹ کا درجہ دے رہے ہیں اور زمین کی بناوٹ کہ جملہ سیاروں کی توجہ کا مرکز ہے خزانوں سے معمور رزق سے بھری ہوئی ، پانی سے لبالب اور مخلوق خدا کو اپنی گود میں لئے ہوئے۔ اس پر دن اور رات کی آمد وشد کا نظام دنیا کے قیام میں ان کو ایک خاص دخل ہے اور تعمیر حیات کے لئے جہاں سورج کی تمازت کی ضرورت ہے وہاں رات کی پنہائیاں بھی کم ضروری نہیں اور پھر اسی نظام کو قائم رکھنے کے لئے سمندروں کی تخلیق اور ان کے سینوں پر ٹنوں وزنی جہازوں کی آمدورفت کہ انسانی زندگی کی بقاء کا اور انسانوں کے منافع کا ایک بہت بڑا سبب ہیں اور پھر اس پانی کے خزانے کو آسمانوں سے یا بادل سے نازل کرنے کا اسلوب کہ عین وقت پر اور صحیح جگہ پر اور ٹھیک اندازے کے مطابق نازل ہوتا ہے پھر قطرہ قطرہ برس کر جل تھل کردیتا ہے اور دریائوں کو کناروں سے باہر اچھال دیتا ہے۔ اگر اسی طرح کا دریا اوپر سے انڈیل دیتا تو آبادیاں تباہ ہو کر رہ جاتیں مگر ایسا نہیں ، بلکہ ایک خاص طریقے سے اترتا ہے اور زمین کی نس نس میں پہنچ کر اس کی تازگی کا سبب بنتا ہے اور ہوائوں کو خاص اندازے سے خاص موسموں میں چلاتے ہیں کہ سب چیزوں کو زندگی بخشی ہے اور ان کی پرورش کرتی ہے۔ کبھی گرم ہو کر کبھی سرد ہو کر ، کبھی پروا تو کبھی پچھوا ہے اور پانی کے اس سمندر پر مقرر فرمانا کہ جو زمین وآسمان کے درمیان بادل کی صورت میں معلق ہے اگر کچھ حصہ برسے ، تو برداشت نہیں ہوسکتا۔ خدانخواستہ سارا گر پڑے تو کیا ہوتا۔ تو گویا یہ جملہ امور ایسے ہیں کہ ایک دوسرے کے لئے مدار کی حیثیت رکھتا ہے اور سب کاموں کا اپنے صحیح وقت پر درست انداز میں پورا ہونا ہی جہاں کی آبادی کا سبب ہے اور جو واقعی ہورہا ہے اس میں توحید باری کی بہت بڑی دلیل موجود ہے۔ اگر متعدد رب ہوتے تو یہ نظام کسی تصادم کی نذر ہو کر تباہ ہوجاتا۔ ان استدلالات کو سمجھنے کے لئے عقل سلیم کی ضرورت ہے۔ معاذ اللہ ! اگر کہیں اس نظام کی کوئی کڑی کسی اور کے ہاتھ میں ہوتی تو یقینا کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی مقام پر ضرور اختلاف پیدا ہوتا جو دنیا کی ویرانی کا سبب بن جاتا۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ ہر شے اور ہر کام اپنے وقت مقررہ پر انجام پارہا ہے۔ عرش علی سے تحت الثری تک ہر چیز اپنے اپنے کام میں لگی ہے تو یقینا یہ ایک ہی حاکم کے حکم پر عمل ہورہا ہے اور وہی اکیلا عبادت کا مستحق بھی ہے۔ مگر لوگوں کا حال عجیب ہے ، ومن الناس……………ان اللہ شدیدا۔ مومن اور محبت الٰہی : کچھ لوگ ایسے ہیں کہ اللہ کے علاوہ اوروں کو بھی کار ساز سمجھتے ہیں اور اس طرح ان کو خدائی میں شریک قرار دیتے ہیں چناچہ جو محبت اللہ سے رکھنی چاہیے تھی وہ محبت ان باطل خدائوں سے رکھتے ہیں کہ جب ان سے توقع کارسازی کی رکھتے ہیں تو یقینا محبت بھی رکھیں گے مگر مومنین ایسا ہرگز نہیں کرتے بلکہ سب سے اشد محبت اللہ سے رکھتے ہیں۔ مشرکین کی محبت تو جلب منفعت کی ہے ہر دروازے پر کسی شے کو حاصل کرنے کی لالچ میں سرکھتے ہیں ، اگر جان یا مال اور اولاد پر زد پڑتی نظر آئے تو چونکہ ان کی محبت مشرک پر اپنے معبود کی نسبت غالب ہوتی ہے اپنے معبود کو چھوڑ دیتا ہے ان کو نہیں چھوڑ سکتا مگر مومن کی شان دوسری ہے کہ طبعاً مال ، جان ، اولاد سے محبت تو رکھتا ہے مگر ایسی نہیں کہ یہ چیزیں اسے اللہ سے بیگانہ کردیں اگر کبھی ضرورت پڑجائے تو اللہ کے نام پر سب کو قربان کردیتا ہے مگر اس کے در کو اور اس کے نام کو نہیں چھوڑتا ، کہ تمام محبتوں پر اسی کی محبت کو غالب رکھتا ہے۔ یہی ماحصل ہے تصوف کا۔ کہ اس قدر اللہ ، اللہ کرے کے دل و دماغ میں رچ بس جائے۔ سارا جہان چھوٹ جائے مگر اللہ کا نام نہ چھوٹے۔ سبحان اللہ ! کیا ہی بہتر ہوتا کہ ظالم بھی مصائب کو دیکھ کر سمجھ پاتے کہ بجز اللہ کے کوئی ان کو روکنے نہیں ، نہ کسی کی جرات ہے کہ ان کو ٹال سکے اور نہ کوئی شدت مصیبت میں یاد ہی رہا کہ یہ حال اگر دنیوی مصائب میں ہے تو اخروی گرفت تو اس سے شدید تر ہوگی ، وہاں کون آڑ بن سکے گا کہ ساری قوت و طاقت اسی ذات واحد کو سزاوار ہے کام آنا تو دور کی بات ہے۔ باطل میں اپنی پیروی کرانے والے تو الٹے اس روز اپنے پیروکاروں سے بیزار ہوجائیں گے ان کے اعمال کی سزا کا تصور ہی جان لیوا ہوگا جبکہ اپنے ذاتی اعمال ہی انہیں دوزخ میں دھکیل رہے ہوں گے۔ تو جن لوگوں نے ان کے پیچھے لگ کر باطل راہ اپنائی ان کا بوجھ بھی اوپر لادا جائے گا وہ ان سے سخت بیزار ہوں گے مگر اس وقت اسباب منقطع ہوچکے ہوں گے اور جان چھڑانے کا کوئی ذریعہ نہ پاسکیں گے ۔ نیز غلط کاروں کے پیر خود ان کی حالت دیکھ کر سیر ہوجائیں گے کہ یہ رفاقت تو جہنم کو لے چلی تو خواہش کریں گے کہ کاش دنیا میں لوٹ کرجاتا تو جیسے یہ آج ہمیں آنکھیں دکھا رہے ہیں ہم بھی ان کو کھری کھری سناتے مگر یہ سب صرف ان کو اپنے کئے پر حسرت دلانے کے لئے ہوگا ورنہ تو دونوں گروہوں کو اس سے کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ بلکہ رہیں گے دوزخ ہی میں اور کبھی آگ سے نہ نکل سکیں گے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات : آیت نمبر 164 خلق (پیدائش، بناوٹ ) ۔ اختلاف (آنا، جانا) ۔ اللیل (رات ) النھار (دن) ۔ الفلک (کشتی، جہاز) ۔ ینفع (نفع دیتا ہے) ۔ السماء (بلندی، آسمان ) بث (اس نے پھیلا دیا) دابۃ (زمین پر رینگنے والے ہر جاندار کو کہتے ہیں۔ ہر طرح کے جانور) ۔ تصریف (الٹنا پلٹنا) ۔ الریح (ہوائیں، (ریح کی جمع ہے) ۔ السحاب (بادل) ۔ المسخر (تابع، حکم ماننے والا) ۔ لایت (البتہ نشانیاں ہیں) ۔ تشریح : آیت نمبر 164 قرآن کریم انسان کو شک و شبہ کی دلدل سے نکال کر یقین کی منزل تک پہنچانے کے لئے ایسی کھلی ہوئی دلیلیں پیش کرتا ہے جس سے ہر شخص اپنی اہلیت و صلاحیت کے مطابق حق کی معرفت حاصل کرسکتا ہے ۔ ان دلائل میں جو شخص بھی سنجیدگی سے غور کرے گا یقین و تصدیق کی دولت سے مالا مال ہوگا۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے کائنات اور اس کے مرتب نظام کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا ہے کہ کیا زمین و آسمان کی پیدائش ، چاند، سورج ، ستاروں، سیاروں اور سورج کے طلوع و غروب کا نظام ، رات دن کی پیہیم گردش ان کا گھٹنا بڑھنا، بیکراں سمندر کے سینے پر مسافروں اور سامان سے بھری ہوئی کشتیوں اور جہازوں کا آنا جانا بارشوں کا نظام جس سے مردہ زمین ہری بھری ہوجاتی ہے کرۂ ہوائی میں بادلوں کا منڈلانا ، کہیں برسنا اور کہیں نہ برسنا، طرح طرح کے چرند، پرند، درند۔ یہ تمام چیزیں آنکھیں اور عقل رکھنے والوں کے لئے کھلی نشانیاں ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا یہ سارا نظام بغیر کسی علیم وخبیر ہستی کے چلائے ہوئے چل رہا ہے۔ یقیناً اس ساری کائنات کے پیدا کرنے اور چلانے میں ایک ایسی ہستی کا ہاتھ ہے جو انسان کے تمام احوال سے بھی اچھی طرح واقف ہے اور وہ اللہ کی ذات پاک ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ اوپر کی آیات میں توحید کا اثبات تھا آگے مشرکین کی غلطی اور وعید کا بیان فرماتے ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اسی طرح پوری کائنات اور اس کی ہرگز رگاہ اللہ کی رحمت اور اس کی وحدانیت پر شاہد عادل ہے ۔ احساس و شعور کو بیدار کرنے کے لئے یہ بالکل ایک نیا انداز ہے ۔ اس کے ذریعے عجائبات دنیا کے نظاروں اور کائنات کے گہرے مطالعہ سے قلب ونظر کے دروازے کھل جاتے ہیں ۔ اس کائنات کے عجائب سے چونکہ ہم مانوس ہوچکے ہیں ، رات دن انہیں دیکھتے رہتے ہیں ۔ اس لئے ان کی جدت وندرت ، احساس و شعور پر اثر انداز نہیں ہوتی ۔ کائنات انسان کے لئے ایک معمولی چیز بن گئی ہے ۔ اس لئے انسان سے کہا گیا ہے کہ وہ ایک دفعہ لوٹ کر ، کھلی آنکھوں کے ساتھ ، تیز احساس کے ساتھ اور زندہ دل کے ساتھ ، اس کائنات پر یوں نظر ڈالے جیسے وہ اسے پہلی مرتبہ دیکھ رہا ہو اور پھر وہ بار بار مشاہدہ کرے ۔ یوں وہ اس کائنات میں عجیب و غریب مشاہدات کرسکے گا ۔ یہاں بیشمار مناظر ایسے ہیں کہ جب ان پر انسان نے پہلی نظر ڈالی تو آنکھیں خیرہ ہوگئیں اور دل متحیر ہوگئے لیکن پھر کیا ہوا ؟ قلب ونظر کے لئے وہ مناظر معمول بن گئے ۔ دنیا کے اس عجیب میلے کو ہر روز دیکھتے رہے ۔ ہم اس سے مانوس ہوگئے ۔ گردش ایام کوئی اچھنبے کی بات نہ رہی ۔ اس کا انوکھا پن یک لخت ختم ہوگیا اور یہ رونگٹے کھڑے کردینے والے مناظر فطرت تو اب ہمارے لئے جاذب نظر ہی نہ رہے ۔ یہ آسمان و زمین ، یہ خوفناک فاصلے ، یہ دیوہیکل اجرام فلکی ، یہ حیران کن آفاق اور پھر یہ معلوم اور نامعلوم بیشمار جہاں اس فضا میں ان جہانوں کی گردش ، انکے مواقع ومدارات ، یہ سب ایسی چیزیں ہیں جن کے تصور ہی سے سرچکرانے لگتا ہے۔ یہ اسرار کائنات جو پردہ غیب میں نہاں ہیں ، جو کائنات کے پردوں سے نفس انسانی کو جھانکتے ہیں ۔ آسمان و زمین پر مشتمل یہ عظیم کائنات ۔ اور پھر یہ انسان ان ابعاد اور فاصلوں سے بیخبر ، ان کے حجم اور عظمت سے بیخبر اور ان کے اسرار و رموز سے عاجز ۔ ہاں جب انسانی ادراک ترقی کرجائے گا اور جدید علوم اور انکشافات اس کی ممد ومعاون ہوجائیں گے تو اللہ تعالیٰ اسے کچھ راز ہائے دروں سے خبردار کرے گا۔ (سید قطب شہید کی پیش گوئی کے عین مطابق یہ سلسلہ بڑی تیزی سے جاری ہے۔ مترجم) شب وروز کا اختلاف ، نور وظلمت کا باہمی تعاقب ۔ صبح شام کی گردش یہ طلوع اور وہ غروب ، اور نگہ اولیں پر ابتدائے آفرینش سے چٹکیاں لینے لگتا تھا ، دل دھڑکتے تھے اور سب مناظر انسان کے لئے عجب العجائب تھے ، پھر کیا ہوا ؟ انسان بار بار مشاہدہ کرتارہا ، اور یہ سب کچھ اس کے لئے ایک معمول بن گیا ۔ انوکھا پن نہ رہا ۔ کشش ختم ہوگئی ۔ اور انسان غافل ہوگیا لیکن قلب مومن ہمیشہ بیدار رہتا ہے ۔ اس کے احساس میں یہ بات مشاہدات تازہ بتازہ ہوبہو رہتے ہیں ۔ وہ ہمیشہ ان میں اللہ کو دیکھتا ہے ، اسے یاد کرتا ہے اور وہ ان مشاہد و عجائب کو ہر باریوں دیکھتا ہے کہ ایک جہان نو ، ایک تخلیق نو ابھی ابھی اس دکھائی گئی ہو ۔ دیکھئے لوگوں کی ضروریات لئے ہوئے بحری جہاز جارہا ہے (اور اس منظر کا بقدر حصہ میں نے خود احساس کیا ہے ) کیا ہی منظر ہے ۔ ایک عظیم سمندر میں سیاہ نقطہ ہے جس پر ہم سوار ہیں جو ہمیں لے کر رواں دواں ہے ، ہر طرف سے متلاطم موجوں کے تھپیڑے ہیں اور تاحد نظر نیلگوں بحر بیکراں کی وسعت ہے ۔ یہ کشتی تیر رہی ہے ۔ ادھر کرتی ، ادھر پڑتی جارہی ہے ۔ اللہ کی قدرت اور اللہ کی نگہبانی کے سوا کوئی اور طاقت نہیں ، جس کا یہاں بس چل سکے ۔ یہاں اللہ کے بنائے ہوئے قانون کی حکمرانی ہے ۔ ایک چھوٹا سانقطہ ہے ، لہروں کے مٹتے ہوئے خطوط پر ، خوفناک بیکراں کے سینے پر ۔ بس وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں کی بلندیوں سے پانی اتارا۔ باغ دراغ اجڑے ہوئے تھے ۔ خزاں کا دوردورہ تھا۔ زمین مرچکی تھی ۔ یکایک وہ پھر سرسبز و شاداب ہوجاتی ہے ۔ مرنے کے بعد پھر زندہ ہوجاتی ہے ۔ نوع بنوع کے جانور اس پر دوڑتے پھرتے ہیں ۔ قسم قسم کے پرندے اڑتے اور چہچہاتے ہیں ۔ ہوائیں چلتی ہیں جن میں درخت جھومتے ہیں ۔ زمین و آسمان کے درمیان بادل جھومتے ہیں مگر ہیں قید میں ۔ کیا مناظر ہیں یہ اگر انسان ، قرآنی اشارات کی سمت میں ان پر قرآنی زاویہ نگاہ سے غور وفکر کرے تو اللہ کی عظیم قدرت اور پھر اس کی وسیع شان رحیمی دیکھ کر ، اس کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں ۔ یہ زندگی جس کے ادراک سے ہم قاصر ہیں ۔ جس کا جوہر لطیف سرحدات ادراک سے ماورائی ہے ۔ جو بڑے لطف سے کرہ ارض پر نمودار ہوتی ہے ۔ پھر یک لخت کھل کر سامنے آجاتی اور طاقتور بن جاتی ۔ گٹھلی سے درخت بن جاتا ہے ۔ یہ کہاں سے آگئی ؟ اگر تخم اور گٹھلی کے اندر پوشیدہ تھی تو پھر گٹھلی اور تخم کہاں سے آئے ؟ اور ان میں یہ زندگی کیسے داخل ہوئی ؟ اس کا اصل کیا ہے ؟ اس کا پہلا مصدر کیا ہے ؟ آپ بھاگ نہیں سکیں گے ۔ ٹھہرئیے ! فطرت اصرار کرتی ہے کہ آپ اس سوال کا جواب دیں ۔ ملحدین نے اس سوال کے جواب سے ہمیشہ راہ فرار اختیار کی ہے ۔ بیشک بہت مشکل سوال ہے ۔ اس کا جواب صرف یہ ہے کہ ایک قادر مطلق ، تخلیق کنندہ موجود ہے ۔ وہی ہے جو مردے کو زندگی بخشتا ہے ۔ ملحدین مغرب ، لوگوں کو یہ تاثر دیتے ہیں کہ وہ مردہ چیز کو زندگی بخشنے کی تحقیق کررہے ہیں تاکہ اللہ کو ماننے کی ضرورت ہی نہ رہے لکن سعی وپیہم کے بعد اپنے کفر والحاد کے باجود آخرکار انہیں اقرار کرنا پڑا کہ ہم اس سلسلے میں ناکام ہیں۔ زندگی کی ایجاد محال ہے آج ملحد روس میں ، حیاتیات کے ماہرین کو یہ اعلان کرنا پڑا ہے ہم اس راز کے ادراک سے عاجز ہیں ۔ اس سے قبل بھی حیاتیات کے ایک مشہور عالم ڈارون نے اس سوال کا جواب دینے سے گریز کیا تھا ۔ اور پھر یہ ہوائیں ، کبھی ادھر رواں ہیں ، کبھی ادھر چلتی ہیں ، اپنے کندھوں پر بادل لئے ہوئے ۔ بادل زمین و آسمان کے درمیان مقید ہیں ۔ کرہ ارض پر اللہ تعالیٰ نے جو قوانین مقرر کئے ہیں ان کے عین مطابق ان کی حقیقت کیا ہے ؟ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ صرف یہی کافی نہیں ہے کہ ہواؤں کے چلنے کے اسباب گنوادیں ۔ مادہ پرستوں کے نظریات پڑھ دیں ۔ یہ بتادیں کہ بادل یوں بنتے ہیں اور یوں برستے ہیں ۔ راز تو کچھ اور ہے ۔ سوال یہ ہے کہ ان اسباب کی حقیقت کیا ہے ؟ قدرت ، اس کا منبع اس کا موجودہ توازن اور اس کے موجودہ قوانین ، جو زندگی کو یہ سہولت فراہم کرتے ہیں ۔ زندگی کے اسباب بادل ، بارش اور شبنم ان سب کا سر حلقہ کیا ہے ؟ یہ سہولتیں ، جو ہم معلوم کرسکے ہیں ہزاروں ہیں اور اگر ان سب سے صرف ایک ہی نہ تو زندگی یک لخت معدوم ہوجائے یا اس طرح خوشگواری سے نہ چلے ۔ جس طرح رواں دواں ہے ۔ عناصر فطرت کی یہ پیچیدہ ہم آہنگی بتاتی ہے کہ زندگی کوئی اتفاقی چیز نہیں ہے ۔ یقیناً اس کے پس منظر میں ایک ارادہ کارفرما ہے ۔ ایک اختیار کارگر ہے ۔ یہ ارادہ صرف ایک ہے ۔ اس میں دوئی نہیں کیوں ؟ اس لئے کہ کوئی اس میں تضاد نہیں اور نہایت مشفقانہ ہے اس لئے اس کی ہر حرکت زندگی کے لئے معاون ہے ۔ (بےشمار نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو عقل سے کام لیتے ہیں) انسان کو دنیا کی الفت اور غفلت نے کند کردیا ہے ۔ اگر وہ الفت اور غفلت کے ان پردوں کو دماغ سے اتار پھینکے تو یقیناً ان مشاہدات فطرت کو ایک جدید احساس کے ساتھ دیکھ سکے گا ۔ بالغ نظری سے دیکھ سکے گا ۔ وہ ایک ایسے دل کے ساتھ غور کرسکے گا ، جو نور ایمان سے لبریز ہو ۔ اگر وہ اس کرہ ارض پر ایک نووارد کی طرح نگاہ ڈالے گا جو گویا کسی دوسرے جہان سے اس زمین پر پہلی مرتبہ اترا ہے ، تو وہ ہر چمک کی طرف ملتفت ہوجائے ۔ اس کے کان ہر آواز کی طرف متوجہ ہوں ۔ اس کا احساس ہر حرکت نوٹ کرے اور قلب ونظر اور حس و شعور نئی نئی واردات سے دوچار ہوں اور وہ حیرت واستعجاب سے کانپ اٹھے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

توحید کے دلائل کا بیان تفسیر در منثور ص ١٦٣ ج ١ میں ہے کہ جب آیت (وَ اِلٰھُکُمْ الہٌ وَّاحِدٌ) نازل ہوئی تو مشرکین کو تعجب ہوا اور کہنے لگے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ کہتے ہیں کہ معبود صرف ایک ہی ہے۔ اگر وہ سچے ہیں تو کوئی نشانی دکھائیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور اپنے خالق ومالک ہونے کا اور کائنات میں تصرف فرمانے کا تذکرہ فرمایا۔ مشرک بھی جانتے ہیں کہ یہ تصرفات اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں کرتا۔ سمجھ سے کام لیں تو اللہ تعالیٰ کو واحد ماننے کے سوا کوئی راستہ نہیں اور حضرت عطاء سے منقول ہے کہ جب مدینہ منورہ میں آیت کریمہ (وَ اِلٰھُکُمْ الہٌ وَّاحِدٌ) نازل ہوئی تو مکہ میں کفار قریش نے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ سب لوگوں کا ایک ہی معبود ہو اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت (اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ) (آخر تک) نازل فرمائی۔ ان آیات میں غور کریں سو سمجھ میں آجائے گا کہ اللہ تعالیٰ ہی معبود ہے اور واحد ہے اور وہ ہر چیز کا معبود ہے اور ہر چیز کا خالق ہے (ایضاً ص ١٧٤) ۔ مشرکین کا عجیب طریقہ تھا اور اب بھی ہے کہ پیدا کیا اللہ تعالیٰ نے رزق دیا اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کی پرورش اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اولاد وہ دیتا ہے۔ کھانے پینے کی چیزیں وہ پیدا فرماتا ہے لیکن مشرکین عبادت دوسروں کی کرتے ہیں اور عجیب تربات ہے کہ جب مشرکین مکہ کے سامنے یہ بات آئی کہ معبود صرف ایک ہی ہے تو تعجب سے کہنے لگے۔ (اَجَعَلَ الْاٰلِہَۃَ اِِلٰہًا وَّاحِدًا اِِنَّ ھٰذَا لَشَیْءٌ عُجَابٌ) (کیا تمام معبودوں کو ایک ہی معبود بنا دیا بلاشبہ یہ تو بڑے تعجب کی بات ہے) دنیا بھی عجیب جگہ ہے جو بھی چیز رواج پا جائے خواہ کیسی ہی باطل اور بری ہو رواج کی وجہ سے لوگ اسے اچھی چیز سمجھنے لگتے ہیں۔ انسانوں پر فرض ہے کہ وہ صرف اپنے خالق مالک کی عبادت کریں۔ اس کے علاوہ کسی دوسرے کو معبود نہ بنائیں۔ یہی انسانوں کا دین ہے جو ان کے باپ حضرت آدم (علیہ السلام) نے بتایا اور اختیار کیا اور ان کے بعد تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) اس کی دعوت دیتے رہے۔ جب لوگوں میں شرک پھیل گیا تو اسی سے مانوس ہوگئے اور توحید کی دعوت پر تعجب کرنے لگے۔ مذکورہ بالا آیت میں چند ایسی چیزوں کا ذکر ہے جو سب کے سامنے ہیں اور سب کو اقرار ہے کہ یہ ساری چیزیں صرف اللہ تعالیٰ کی مشیت اور قدرت اور تصرف سے وجود میں آئی ہیں اور ان کی بقاء اور وجود صرف اس کی مشیت سے ہے۔ کسی دوسرے کو ذرہ بھی ان کے وجود و بقا میں دخل نہیں۔ آسمان و زمین کی تخلیق : سب سے پہلے آسمان و زمین کی تخلیق کا تذکرہ فرمایا ان کی تخلیق صرف اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے۔ سورة زمر میں فرمایا : (وَ لَءِنْ سَاَلْتَھُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰہُ ) ” اگر آپ ان سے پوچھیں کہ کس نے پیدا فرمایا آسمانوں کو اور زمین کو تو وہ کہیں گے اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا۔ “ سورة احقاف میں فرمایا (قُلْ اَرَءَ یْتُمْ مَّا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَرُوْنِیْ مَاذَا خَلَقُوْا مِنَ الْاَرْضِ اَمْ لَہُمْ شِرْکٌ فِی السَّمٰوٰتِ اِءْتُوْنِیْ بِکِتَابٍ مِّنْ قَبْلِ ھٰذَا اَوْ اَثَارَۃٍ مِّنْ عِلْمٍ اِِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ ) ” آپ کہیے کہ یہ تو بتاؤ جن چیزوں کی تم خدا کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو مجھ کو یہ دکھلاؤ کہ انہوں نے کون سی زمین پیدا کی یا ان کا آسمانوں میں کچھ ساجھا ہے۔ میرے پاس کوئی کتاب جو اس سے پہلے کی ہو یا اور کوئی مضمون منقول ہو لے آؤ۔ اگر تم سچے ہو۔ “ رات دن کا آنا جانا : آسمان و زمین کی پیدائش کا ذکر فرمانے کے بعد اختلاف اللیل و النہار یعنی رات دن کے آگے پیچھے آنے ایک کے کم ہونے دوسرے کے زیادہ ہونے کا تذکرہ فرمایا۔ سورة فرقان میں ارشاد ہے (وَھُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الَّیْلَ وَالنَّہَارَ خِلْفَۃً لِّمَنْ اَرَادَ اَنْ یَّذَّکَّرَ اَوْ اَرَادَ شُکُوْرًا) ” اور وہ وہی ذات پاک ہے جس نے بنا دیا رات و دن کو آگے پیچھے آنے والا اس شخص کے لیے جو نصیحت حاصل کرنے کا ارادہ کرے یا ارادہ کرے شکر گزار ہونے گا “۔ سورة زمر میں فرمایا (خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بالْحَقِّ یُکَوِّرُ الَّیْلَ عَلَی النَّہَارِ وَیُکَوِّرُ النَّہَارَ عَلَی الَّیْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ) ” پیدا فرمایا آسمانوں کو اور زمین کو حق کے ساتھ، وہ لپیٹتا ہے رات کو دن پر، اور اس نے مسخر فرمایا سورج کو اور چاند کو “ سورۂ فاطر میں فرمایا (یُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّھَارِ وَ یُوْلِجُ النَّھَارَ فِی الَّیْلِ وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ کُلٌّ یَّجْرِیْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّی ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ لَہُ الْمُلْکُ وَ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ مَا یَمْلِکُوْنَ مِنْ قِطْمِیْرٍ ) (وہ داخل فرماتا ہے رات کو دن میں اور داخل فرماتا ہے دن کو رات میں اور اس نے مسخر فرمایا سورج کو اور چاند کو ہر ایک چلتا ہے اپنی مقررہ اجل کے لیے، یہ اللہ ہے تمہارا رب ہے اسی کے لیے ملک ہے اور جب لوگوں کو تم اس کے علاوہ پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے بھی مالک نہیں) ۔ رات اور دن کا وجود میں آنا کم و بیش ہونا کسی علاقہ میں کسی زمانہ میں رات کا زیادہ ہونا اور کسی علاقہ میں کسی زمانہ میں دن کا زیادہ ہونا سب اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ نظام کے تحت ہے کسی کو اس میں ذرا بھی دخل نہیں سب اہل عقل اس کو جانتے اور مانتے ہیں۔ سمندروں میں جہازوں کا چلنا : پھر تیسری نشانی کا ذکر فرمایا (وَ الْفُلْکِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِیْ الْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ ) (یعنی جو کشتیاں سمندر میں چلتی ہیں وہ سامان لے کر جس سے لوگ نفع اٹھاتے ہیں) ان کشتیوں کا چلنا بھی اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہے سمندر خود اللہ تعالیٰ کی بڑی مخلوق ہے اس میں طرح طرح کے جانور بہت سی چیزیں ہیں جو انسانوں کے کام آنے والی ہیں۔ سمندروں نے ایک براعظم کو دوسرے براعظم میں ملا رکھا ہے۔ اگر سمندر نہ ہوتے تو خشکی ہی کے ذریعہ دور و نزدیک کے سامان کو منتقل کرنا پڑتا۔ اللہ تعالیٰ نے سمندر میں کشتیاں جاری فرما دیں اگر اللہ چاہتا تو کوئی کشتی سمندر کی سطح پر نہ چلتی بلکہ ڈوب کر رہ جاتی۔ یہ سامان یورپ سے ایشیا اور ایشیا سے یورپ تک جاتا ہے۔ اگر براعظم کے لوگ دوسرے براعظم کی پیداوار سے منتفع ہوتے ہیں باوجودیکہ ہوائی جہازوں کی سروس بہت زیادہ ہوگئی ہے اور ٹرینیں بھی کثیر تعداد میں چلنے لگی ہیں لیکن سامان کو نقل و حمل کے لیے آج تک بحری جہازوں سے بےنیازی نہیں ہے۔ سورۂ نحل میں فرمایا (وَ تَرَی الْفُلْکَ مَوَاخِرَ فِیْہِ وَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ وَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ ) (اور تو کشتیوں کو دیکھتا ہے کہ سمندر میں پانی کو چیرتی ہوئی چلی جاتی ہیں اور تاکہ تم اللہ کا فضل تلاش کرو اور تاکہ شکر کرو) ۔ سمندر کا سفر ہے نیچے پانی ہے۔ اوپر آسمان ہے۔ بھاری بھر کم جہاز، دریا کا تلاطم، ہواؤں کے تھپیڑے اور ڈوبنے کا ڈر۔ اس حالت میں اللہ تعالیٰ ہی حفاظت فرماتے ہیں۔ ڈوبنے سے بچاتے ہیں۔ جو سامان لدا ہوا ہے اور جو لوگ اس میں سوار ہیں۔ صرف اللہ کی حفاظت سے منزل مقصود تک پہنچتے ہیں جب سمندر میں طغیانی آجائے تو ڈرتے ہیں اور لرزتے ہیں اور اس وقت اللہ تعالیٰ کے سوا کسی پر نظر نہیں جاتی اور صرف اسی کو پکارتے ہیں۔ سارے باطل معبودوں کی یاد یوں ہی دھری رہ جاتی ہیں۔ سورة عنکبوت میں فرمایا (فَاِذَا رَکِبُوْافِی الْفُلْکِ دَعَوُا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ فَلَمَّا نَجّٰھُمْ اِلَی الْبَرِّ اِذَا ھُمْ یُشْرِکُوْنَ لِیَکْفُرُوْا بِمَآ اٰتَیْنٰھُمْ وَ لِیَتَمَتَّعُوْا فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ ) ” پھر جب یہ لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو خالص اعتقاد کر کے اللہ ہی کو پکارنے لگتے ہیں پھر جب وہ ان کو نجات دے کر خشکی کی طرف لے آتا ہے تو فوراً ہی شرک کرنے لگتے ہیں تاکہ وہ ناقدری کریں اس نعمت کی جو ان کو ہم نے دی اور تاکہ وہ نفع حاصل کرلیں۔ سو عنقریب جان لیں گے۔ ) یہ مشرک انسان کا عجیب مزاج ہے کہ جب مصیبت پڑتی ہے تو صرف اللہ کو یاد کرتا ہے اور اسی کو پکارتا ہے اور جب مصیبت سے چھوٹ جاتا ہے تو شرک کرنے لگتا ہے۔ اور غیر اللہ کو پکارتا ہے اور اس کی عبادت میں لگ جاتا ہے۔ بارش کا نازل فرمانا : چوتھی نشانی بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا (وَ مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ مَّآءٍ ) کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے جو پانی اتارا ہے اور اس کے ذریعہ مردہ زمین کو زندہ فرمایا یہ بھی اللہ تعالیٰ کے خالق مالک اور واحد ہونے کی نشانیوں میں سے ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ پانی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے اور یہ نعمت بہت زیادہ ہے۔ کروڑوں انسان اور چوپائے اور درخت اس سے سیراب ہوتے ہیں لیکن ختم ہونے نہیں پاتا۔ بارشیں ہوتی ہیں میٹھا پانی برستا ہے۔ خشک زمینیں اس سے سیراب ہوتی ہیں۔ کھیتیاں ہری بھری ہوتی ہیں۔ باغات سرسبز و شاداب ہوتے ہیں۔ تالابوں میں پانی جمع ہوتا ہے۔ مہینوں انسانوں اور جانور اس کو اپنے خرچ میں لاتے ہیں۔ بہت سے علاقوں میں بارش کے سوا پانی کا کوئی انتظام ہی نہیں۔ کنوئیں ہیں تو وہ بھی بہت گہرے اور کم پانی والے ہیں۔ پانی پینے کپڑے دھونے اور کھیتوں کو سیراب کرنے، بارش کے لیے اللہ سے لو لگائے بیٹھے رہتے ہیں۔ جب بارش ہوتی ہے تو جان میں جان آتی ہے۔ جن علاقوں میں میٹھے پانی کی نہروں سے سیرابی ہوتی ہے وہ بھی آسمان ہی کا برسایا ہوا ہے۔ کیونکہ آسمان کی بارشیں پہاڑوں پر برف کی صورت میں منجمد ہوجاتی ہیں۔ پھر وہ برف پگھل پگھل کر نہروں میں آتی ہے۔ سورة شوریٰ میں فرمایا (وَھُوَ الَّذِیْ یُنَزِّلُ الْغَیْثَ مِنْم بَعْدِ مَا قَنَطُوْا وَیَنْشُرُ رَحْمَتَہٗ وَھُوَ الْوَلِیُّ الْحَمِیْدُ ) (اور وہی ہے جو بارش نازل فرماتا ہے اس کے بعد کہ وہ ناامید ہوچکے اور وہ پھیلاتا ہے اپنی رحمت کو اور وہی کام بنانے والا، سب تعریفوں کے لائق ہے۔ سورة حم سجدہ میں فرمایا (وَمِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنَّکَ تَرَی الْاَرْضَ خَاشِعَۃً فَاِِذَآ اَنزَلْنَا عَلَیْہَا الْمَآءَ اھْتَزَّتْ وَرَبَتْ اِِنَّ الَّذِیْٓ اَحْیَاھَا لَمُحْیِ الْمَوْتٰی اِِنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ) ” اور اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ تو زمین کو دیکھتا ہے کہ دبی ہوئی پڑی ہے پھر جب ہم اس پر پانی برساتے ہیں تو وہ ابھرتی ہے اور پھولتی ہے بلاشبہ جس نے اس زمین کو زندہ فرمایا وہی مردوں کو زندہ کر دے گا۔ بیشک وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ ) سورۃ روم میں فرمایا : (فَانْظُرْ الآی اٰثٰرِ رَحْمَتِ اللّٰہِ کَیْفَ یُحْیِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا اِنَّ ذٰلِکَ لَمُحْیِ الْمَوْتٰی وَ ھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ) ” سو رحمت الٰہی کے آثار دیکھو کہ اللہ تعالیٰ زمین کو اس کے مردہ ہونے کے بعد کس طرح زندہ کرنے والا ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ “ زمین کا خشک ہوجانا اور اس کے درختوں کا سوکھ جانا اس کو زمین کی موت سے تعبیر فرمایا اور اس کی سر سبزی و شادابی کو حیات سے تعبیر فرمایا۔ جانوروں کا پیدا فرمانا اور زمین میں پھیلانا : اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے پانچویں نشانی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا۔ (وَ بَثَّ فِیْھَا مِنْ کُلِّ دَآبَّۃٍ ) کہ اللہ تعالیٰ نے زمین میں پھیلا دیے ہر قسم کے چلنے پھرنے والے جانور۔ اس کا عطف اَنْزَلَ پر بھی ہوسکتا ہے۔ اور اَحْیٰی پر بھی کما ذکرہ صاحب الروح۔ عربی لغت کے اعتبار سے دَآبَّۃ ہر اس چیز کو کہا جاتا ہے جو زمین پر چلے پھرے اگرچہ عرف عام میں بڑے بڑے جانور گائے، بیل، بھینس، اونٹ وغیرہ کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ زمین پر چلنے پھرنے والے طرح طرح کے جانور بھی اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ کس قدرکثیر تعداد میں مختلف اجناس و اصناف کے جانور پیدا فرمائے ہیں۔ ان کی طبیعتیں الگ الگ ہیں۔ صورتیں الگ الگ ہیں۔ منافع مختلف ہیں۔ اور ان سب پر انسان کو مسلط فرما دیا ہے۔ خوب زیادہ غور کیا جائے اور ایک ایک جانور کے خواص پر نظر ڈالی جائے تو بیشمار قدرت الٰہیہ کے مظاہر سمجھ میں آجاتے ہیں۔ ہواؤں کو مختلف رخوں پر چلانا : چھٹی نشانی ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : وَتَصْرِیْفِ الرِّیَاح یعنی ہواؤں کو چلانے پھرانے ان کے رخوں کو بدلنے میں بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ جیسا چاہتے ہیں۔ ہوائیں چلتی ہیں جس رخ پر اللہ چاہتے ہیں۔ ادھر ہی جاتی ہیں۔ تیز چلنے کا حکم ہو تو تیز چلتی ہیں اور آہستہ چلنے کا حکم ہو تو آہستہ چلتی ہیں۔ عذاب کا ذریعہ بھی بنتی ہیں اور رحمت کا سبب بھی۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو قدرت نہیں ہے کہ ان کا رخ بدل دے یا ان کی تیز رفتاری کو کم کر دے یا سست رفتاری کو تیز کر دے۔ سورۂ روم میں فرمایا (وَ مِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنْ یُّرْسِلَ الرِّیَاحَ مُبَشِّرٰتٍ وَّ لِیُذِیْقَکُمْ مِّنْ رَّحْمَتِہٖ وَ لِتَجْرِیَ الْفُلْکُ بِاَمْرِہٖ وَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ وَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ ) ” یعنی اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ ہواؤں کو بھیجتا ہے جو خوشخبری دیتی ہیں اور تاکہ تم کو اپنی رحمت چکھا دے اور تاکہ کشتیاں اس کے حکم سے چلیں تاکہ اس کے فضل کو تلاش کرو اور تاکہ تم شکر کرو۔ قوم عاد پر اللہ تعالیٰ نے عذاب دینے کے لیے ہوا بھیج دی وہ آندھی بن کر سات رات اور آٹھ دن چلتی رہی۔ پوری نافرمان قوم ہلاک اور برباد ہوگئی۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لیے اس کو نعمت بنا دیا۔ صبح کو ایک ماہ کی مسافت تک لے جاتی تھی اور شام کو بھی ایک ماہ کی مسافت پر لے جاتی تھی۔ غزوہ خندق میں اللہ تعالیٰ شانہ نے آندھی بھیج دی جس نے دشمنان اسلام کو واپس ہونے پر مجبور کردیا۔ ان کے خیمے اکھڑ گئے، ہانڈیاں الٹ گئیں ان کے چہرے مٹی سے اٹ گئے۔ سخت تیز اور سخت ٹھنڈی ہوا تھی جس کی وجہ سے بدحواس ہو کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ سورۃ احزاب میں ارشاد فرمایا (یٰٓاَیُّھَا الَّذیْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ جَآءَ تْکُمْ جُنُوْدٌ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْھِمْ رِیْحًا وَّ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْھَا) ” اے ایمان والو ! یاد کرو اللہ کی نعمت کو جبکہ آگئے تمہارے پاس لشکر، سو ہم نے بھیج دیا ان کے اوپر ہوا کو اور ایسے لشکر کو جسے تم نہیں دیکھ رہے تھے، صحیح بخاری میں ١٤١ ج ١ میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : نُصِرت بالصبا و أھلکت عاد بالدبور یعنی صبا کے ذریعہ میری مدد کی گئی اور قوم عاد دبور کے ذریعہ ہلاک کی گئی۔ (صبا اور دبور ہواؤں کے نام ہیں) ۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ ہوا رحمت لے کر آتی ہے اور عذاب لے کر آتی ہے۔ جب تم اس کو دیکھو تو اسے برا نہ کہو اور اللہ تعالیٰ سے اس کی خیر کا سوال کرو اور اللہ تعالیٰ سے اس کے شر سے پناہ مانگو۔ (سنن ابی داؤد ص ٢٣٩ ج ١) حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ جب ہوا چلتی تھی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یوں دعا فرماتے تھے۔ (اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْءَلُکَ خَیْرَھَا وَ خَیْرَ مَا فِیْھَا وَ خَیْرَ مَا اُرْسِلَتْ بِہٖ وَ اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّھَا وَ شَرِّ مَا فِیْھَا وَ شَرِّ مَا اُرْسِلَتْ بِہٖ ) (اے اللہ میں آپ سے اس کی خیر کا اور جو کچھ اس میں ہے اس کی خیر کا اور جو کچھ یہ لے کر بھیجی گئی اس کی خیر کا سوال کرتا ہوں اور میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں اس کے شر سے اور جو کچھ اس میں ہے اس کے شر سے اور جو کچھ یہ لے کر بھیجی گئی ہے اس کے شر سے۔ (صحیح مسلم ص ٢٩٤ ج ١) بادلوں کی تسخیر : ساتویں نشانی ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا (وَ السَّحَابِ الْمُسَخَّرِبَیْنَ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ ) (اور بادلوں میں نشانی ہے جو مسخر ہیں آسمان و زمین کے درمیان) ۔ بادلوں میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے مظاہر ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کو آسمان و زمین کے درمیان مسخر فرمایا کہ یہ پانی بھر بھر کر لاتے ہیں جب بارش ہوتی ہے، تو ان سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ بارش ہونیوالی ہے۔ ان کو دیکھ کر لوگ اپنا انتظام کرلیتے ہیں اور پانی سے بھرے ہوئے بادل ادھر ہی جاتے ہیں۔ جہاں اللہ کا حکم ہوتا ہے۔ سورۂ اعراف میں فرمایا (وَ ھُوَ الَّذِیْ یُرْسِلُ الرِّیٰحَ بُشْرًا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِہٖ حَتّٰٓی اِذَآ اَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالًا سُقْنٰہُ لِبَلَدٍ مَّیِّتٍ فَاَنْزَلْنَا بِہِ الْمَآءَ فَاَخْرَجْنَا بِہٖ مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ کَذٰلِکَ نُخْرِجُ الْمَوْتٰی لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ ) ” اور وہ ایسا ہے کہ اپنی رحمت سے پہلے ہواؤں کو بھیجتا ہے جو خوش کردیتی ہیں۔ یہاں تک کہ جب وہ ہوائیں بھاری بادلوں کو اٹھا لیتی ہیں تو ہم اس بادل کو کسی خشک سر زمین کی طرف ہانک دیتے ہیں پھر اس کے ذریعہ پانی برساتے ہیں پھر اس پانی سے ہر قسم کے پھل نکالتے ہیں۔ یوں ہی ہم مردوں کو نکال کھڑا کریں گے تاکہ تم سمجھو۔ “ بادلوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو میدان تیہ میں سایہ عطا فرمایا۔ بادل ان کے ساتھ چلتے تھے، اللہ تعالیٰ ہی کی مشیت اور تصرف سے بادلوں کا ہلکا بھاری ہونا بہت زیادہ بادلوں کا آجانا بالکل ختم ہوجانا نظروں کے سامنے ہوتا رہتا ہے۔ سب اس کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ قوم عاد پر عذاب آنے کی ابتداء اسی طرح سے ہوئی تھی کہ عرصہ دراز سے بارش نہ ہوئی تھی اچانک کیا دیکھتے ہیں کہ بادل ظاہر ہوگئے۔ انہوں نے سمجھا کہ بادل بارش برسائے گا۔ سخت گرمی کی وجہ سے جب میدان میں نکل کر کھڑے ہوگئے تو بجائے بارش کے سخت آندھی آگئی جس کی وجہ سے وہ بالکل تہس نہس ہو کر رہ گئے صحیح بخاری ص ٧١٥ ج ٢ میں ہے کہ حضرت عائشہ (رض) نے بیان فرمایا کہ آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کوئی بادل یا ہوا دیکھتے تھے تو اس کا اثر آپ کے چہرہ مبارک میں ظاہر ہوجاتا تھا۔ حضرت عائشہ نے ایک مرتبہ عرض کیا کہ یا رسول اللہ لوگ جب بادل کو دیکھتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں۔ اس امید پر کہ بارش ہوگی اور میں آپ کو دیکھتی ہوں کہ جب آپ کے سامنے بادل آجائے تو آپ کے چہرہ مبارک میں پریشانی محسوس ہوتی ہے۔ آپ نے فرمایا اے عائشہ مجھے کیا اطمینان ہے اس میں عذاب ہو۔ ایک قوم کو ہوا کے ذریعہ عذاب دیا گیا۔ جب انہوں نے عذاب کو دیکھا ( جس کی ابتداء بادل ظاہر ہونے سے تھی) تو انہوں نے کہا (ھَذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا) (کہ یہ بادل ہے جو ہم پر بارش برسائے گا) لیکن وہ ہوا کی صورت میں سخت عذاب تھا۔ ایک حدیث میں ہے کہ حضرت عائشہ (رض) نے بیان فرمایا کہ جب آسمان میں کچھ بادل وغیرہ معلوم ہوتا تھا تو آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرے مبارک کا رنگ بدل جاتا تھا آپ کبھی اندر جاتے کبھی باہر آتے کبھی آگے بڑھتے کبھی پیچھے ہٹتے جب بارش ہوجاتی تھی تو آپ کی وہ کیفیت جاتی رہتی تھی۔ (صحیح مسلم ص ٢٩٤ ج ١) یہ امور جو آیت میں مذکور ہوئے ان سب میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور خالقیت کی نشانیاں ہیں توحید کے منکر بھی مانتے ہیں کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی تخلیق ہے اور اسی کے تصرف سے عالم میں سب کچھ ہو رہا ہے پھر بھی توحید کا اقرار نہیں کرتے اور شرک میں مبتلا ہیں۔ ھداھم اللّٰہ تعالیٰ

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

299 اِنّ حرف مشبہ بالفعل ہے۔ اور فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِمعہ معطوفات اِنَّ کی خبر ہے۔ زمین و آسمان کا پیدا کرنا اور نہ صرف ان کی ذوات کو بلکہ ان کے دیگر متعلقات کو اور پھر فضائے آسمانی اور بطن ارضی میں بےبہا خزانوں کو پیدا کرنا یہ اس کی توحید کی پہلی عقلی دلیل ہے۔ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ ۔ یعنی رات دن کی آمدورفت، روشنی اور تاریکی میں، کمی اور زیادتی میں ان کا یہ اختلاف یہ دوسری دلیل ہے۔ تیسری دلیل۔ وَالْفُلْكِ الَّتِىْ تَجْرِيْ فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ ۔ یہ خَلْقِ السَّمٰوٰتِپر معطوف ہے۔ لفظ فلک مفرد وجمع دونوں طرح استمعال ہوتا ہے۔ یہاں بطور جمع استعمال ہوا ہے۔ بِمَا میں مَا مصدریہ ہے یا ما موصولہ۔ یعنی جو بحری جہاز سمندروں میں مال تجارت لے کر نقل و حرکت کرتے ہیں، یہ بھی خدا کی قدرت کاملہ کی دلیل ہے۔ چوتھی دلیل وَمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ السَّمَاۗءِ ۔ الفلک پر معطوف ہے۔ فَاَحْيَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا آسمانوں سے بارش کا اتارنا، پھر اس کے ذریعے خشک اور بنجر زمین کو سرسبز اور شاداب کرنا اور اس میں ہر قسم کی سبزیاں، غلے، پھل پھول اور جڑی بوٹیاں پیدا کرنا یہ سب اس کی وحدانیت کے منہ بولتے دلائل ہیں۔ پانچویں دلیل وَبَثَّ فِيْهَا مِنْ كُلِّ دَاۗبَّةٍ یہ انزل پر معطوف ہے۔ یعنی ہر قسم کے چوپائے اور جانور زمین میں پھیلا دئیے۔ چھٹی دلیل۔ وَّتَـصْرِيْفِ الرِّيٰحِیہ مَااَنْزَلَ پر معطوف ہے۔ اور تصریف الریاح سے ہوآوں کا مختلف سمتوں سے چلنا اور مختلف اوصاف سے متصف ہونا مثلاً سرد، گرم، تیز اور آہستہ وغیرہ۔ ساتویں دلیل وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ ۔ بادل کے زمین و آسمان کے درمیان مسخر اور تابع ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ نہ تو زمین پر اتر آتا ہے اور نہ آسمانوں میں اتنی بلندی پر چلا جاتا ہے جہاں ہمارے لیے اس میں کوئی فائدہ نہ ہو بلکہ وہ فضا میں معلق رہتا ہے اور خدا کے حکم سے ہوائیں اسے ادھر ادھر لیے پھرتی ہیں (قرطبی ص 201 ج 2، روح ص 33 ج 2) لَاٰیٰتٍ یہ اِنَّ کا اسم ہے اور اس کی تنکیر تفخیم شان کیلئے ہے یعنی امور مذکورہ میں بہت زیادہ اور بہت بڑی دلیلیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کی قدرت قاہرہ، رحمت واسعہ اور زبردست حکمت و دانائی پر دلالت کرتی ہیں اور ان سب کا مقتضی یہ ہے کہ عبادت کا مستحق صرف اللہ ہی ہے۔ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ ۔ یعنی دلائل صرف غور وفکر اور سوچ بچار کرنے والوں کے لیے ہیں۔ بلاشبہ اگر ان دلائل میں فکر وتامل کیا جائے تو ان سے خداوند قادر ودانا کی وحدانیت کا پورا پورا یقین ہوجاتا ہے اور دل اس حقیقت پر مطمئن ہوجاتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ ہر قسم کی عبادت اسی کے ساتھ مخصوص ہے۔ ان دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ زبردست قدرت، گہری حکمت اور وسیع علم کا مالک ہے۔ اس کی رحمت و شفقت کائنات کے ذرہ ذرہ کو شامل ہے۔ پھر ان تمام صفات وافعال میں وہ واحد ویکتا ہے۔ ان افعال میں اس کا کوئی شریک نہیں۔ یہ حصر مخاطبین کے عقائد کے مطابق ہے، کیونکہ مشرکین مکہ ان تمام امور کو خدا ہی کے ساتھ مخصوص مانتے تھے اور ان افعال میں وہ کسی کو خدا کا شریک نہیں سمجھتے تھے جیسا کہ خود قرآن میں اس کی صراحت موجود ہے۔ تو جب ان تمام صفات وافعال میں وہ یکتا تو پھر استحقاق عبادت میں بھی اسے واحد و یکتا ہی سمجھو۔ اسی کے سامنے جھکو، اسی کو پکارو اور اسی کی رضا جوئی کے لیے نذریں اور منتیں دو ۔ یہاں دعویٰ توحید کے اعادہ سے شرف فعلی یعنی غیر اللہ کی نذرونیاز اور تحریمات لغیر اللہ کی تردید مقصود ہے اور اسی پر یہ سات عقلی دلائل قائم کیے گئے ہیں۔ یہ ساتوں دلائل نہایت لطیف اور دلنشیں پیرایہ میں اس دعویٰ پر منطبق ہوتے ہیں۔ نذرو منت ہمیشہ تین چیزوں سے دی جاتی ہے۔ 1 ۔ زمین کی پیداوار مثلاً غلے، پھل، میوے اور کپڑے وغیرہ۔ 2 ۔ جانور۔ 3 ۔ نقد روپیہ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ عقلی دلیل اس بات پر قائم فرمائی ہے کہ تینوں چیزوں میں سے کسی چیز کی نذرومنت خدا کے سوا کسی کے لیے عقلاً جائز نہیں اور صرف خدا ہی ہر قسم کی نذرومنت کا مستحق ہے۔ دلیل کے دعویٰ پر انطباق کی صورت حسب ذیل ہے۔ غلے، پھل وغیرہ سب زمین میں پیدا ہوتے ہیں۔ زمین اپنی قوت نامیہ کے ذریعہ ان کی پرورش کرتی ہے۔ بارش کے ذریعہ زمین کی قوت نامیہ میں اضافہ ہوتا ہے اور بارش ہی سے یہ قوت زمین میں محفوظ رہتی ہے اور بارش ہی سے کھیتیاں سر سبز و شاداب ہوتی ہیں۔ رات کے وقت چاند اور تاروں کے اثرات سے پھلوں اور میووں کے ذرائقوں اور رنگوں کی تکمیل ہوتی ہے دن کی گرمی اور رات کی شبنم، کھیتوں، پھلوں اور میووں کو پختگی کی حد تک پہنچاتی ہے اور پھر ہر جاندار اور ذی روح (جس کا پیدا کرنیوالا اللہ ہی ہے) کی زندگی اور حیات زمین کی مذکورہ بالا پیداوار پر ہی موقوف ہے۔ اس کے بعد زمین کی اس پیداوار اور ان جانوروں کے ذریعہ ہی تم اپنے ملک میں اور بحری جہازوں کے ذریعہ دوسرے ملکوں میں تجارت کر کے دولت کماتے ہو۔ تو یہ تینوں چیزوں، زمین کی پیداوار اور جانور اور دولت تم جن جن ذرائع واسباب سے حاصل کرتے ہو ان تمام ذرائع اور اسباب کا خالق تم بھی مانتے ہو کہ اللہ ہی ہے اور یہ تمام اسی کے قبضہ قدرت اور اختیار میں ہیں اور وہی سب کچھ جانتا ہے۔ اور تم نے جو خدا کے سوا معبود بنا رکھے ہیں ان میں سے کسی نے ان چیزوں میں سے ایک چیز بھی نہیں بنائی اور نہ ہی ان کو ان چیزوں کا علم ہے۔ تو اب عقل و دانش اور جذبہ شکر گذاری ونعمت شناسی کا تقاضا یہ ہے کہ اس رحمن ورحیم اور محسن ومنعم کے ان بےپایاں احسانات و انعامات کا شکر ادا کرنے اور اس کی رضامندی اور خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اس کی پیدا کی ہوئی چیزوں میں سے اسی کی نذریں، نیازیں اور منتیں دی جائیں۔ زمین کی پیداوار میں اسی کے نام کا حسہ مقرر کیا جائے۔ روپیہ اسی کے نام پر خرچ کیا جائے۔ جانور اسی کا تقرب ڈھونڈنے کیلئے، اسی کی تعظیم کے لیے، اسی کے نام پر قربان کیے جائیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 اور جو تم سب لوگوں کے معبود ہونے کا مستحق ہے اور وہ تو صرف ایک ہی معبود ہے اس کے سوا کوئی دوسرا عبادت کے لائق نہیں۔ وہی بےحد مہربان اور انتہائی رحم کرنے والا ہے بلا شبہ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے اور بنانے میں اور رات و دن کے آگے پیچھے آنے جانے اور گٹھنے بڑھنے میں اور ان کشتیوں اور جہازوں میں جو سمندر کے اندر لوگوں کے فائدے کی چیزیں اور اسباب و سامان لیکر چلتے ہیں اور اس پانی میں جس کو اللہ تعالیٰ نے آسمان کی جانب سے اتارا اور برسایا پھر اس پانی سے زمین کو اس کے مرنے اور بالکل خشک ہوجانے کے بعد زندہ اور ترو تازہ کیا اور اس زمین میں ہر قسم کے حیوانات کو پھیلا دیا اور ہوائوں کے رخ اور کیفیات بدلنے میں اور بادل میں جو آسمان و زمین کے مابین مقید و مسخر رہتا ہے ان سب چیزوں میں ان لوگوں کے لئے وجود باری اور توحید الٰہی کے بڑے دلائل موجود ہیں جو صحیح عقل رکھتے ہیں اور عقل سلیم سے کام لیتے ہیں۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ چونکہ وہ صفت رحمت میں کامل ہے اس لئے وہی مستحق عبادت بھی ہوسکتا ہے اور وہی معبود ہونے کے قابل ہے اس کے سوا نہ کسی کی رحمت اس قدر عام ہے اور نہ کوئی اس کے سوا معبود ہے۔ رمن رحیم مبالغہ کے صیغے میں ہیں اور اسی رعایت سے اس کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ چضرت اسمائ (رض) بنت یزید رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتی ہے کہ آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کا اس اعظم ان دو آیتوں میں ہے ایک سورة بقرہ کی آیت الھکم الہ واحد لا الہ الا ھو الرحمن الرحیم اور دوسری آل عمران کی آیت الم اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم حضرت انس (رض) کی روایت یہ ہے کہ ان دونوں آیتوں سے زیادہ سرکش شیاطین کے حق میں کوئی دوسری چیز سخت نہیں ہے اگرچہ رحمن و رحیم کے الفاظ بھی دلیل کے قائم مقام ہیں لیکن آگے اور چند دلائل بیان فرمائے تاکہ مسئلہ توحید کو مختلف پہلوئوں سے ثابت کیا جائے چناچہ عالم علوی اور عالم سفلی کی ایسی ہم اشیاء کا ذکر فرمایا۔ جن کی تخلیق میں نہ خدا کے سوا کسی کو دخل ہے اور نہ سوائے خدا کے کوئی دوسرا بنا اشیاء کا ذکر فرمایا جن کی تخلیق میں نہ خدا کے سوا کسی کو دخل ہے اور نہ سوائے خدا کے کوئی دوسرا بنا سکتا ہے اور نہ یہنظام اس خوبی کے ساتھ کسی کی شرکت میں چل سکتا ہے۔ آسمان و زمین کی ساخت اور ان کی پیدائش جس طرز پر کی گئی ہے اور جو فوائد ان سے مخلوق کے وابستہ ہیں وہ کسی بھی مخفی اور پوشیدہ نہیں ہیں۔ جس قدر دنیا سائنس میں ترقی کرتی جاتی ہے اور نئی نئی ہلاکت آفریں ایجادیں کرتی ہیں اسی قدر اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ چیزوں کے کمالات نمایاں ہوتے جاتے ہیں اور ابھی نہیں کہا جاسکتا کہ فضا آسمانی میں اور اسی طرح ذرات ارضی میں قدر ت کی کون کون سی قوتیں پوشیدہ ہیں ارض و سما کی وہ بےپناہ طاقتیں جو اب تک معلوم ہوسکی ہیں ان میں سے ہر ہر وقت اللہ تعالیٰ کی ذات ان کی وحدانیت اور ان کی الوہیت پر ایک مستقل دلیل اور ایک مضبوط گواہ ہے۔ لیل و نہار کے اختلاف کا مطلب یہ ہے کہ ایک کے پیچھے دوسرا آتا اور جاتا رہتا ہے بلکہ اختلاف کا مفہوم اس قدر عام ہے کہ اس میں دن کا گھٹنا اور بڑھنا اور مختلف مقامات کے اوقات کا اختلاف بھی شامل ہے۔ رات دن کا یہ اختلاف اللہ تعالیٰ کی توحید کے لئے ایک بہت بڑی دلیل ہے۔ اسی طرح دریائوں اور سمندروں میں کشتیوں اور جہازوں کا چلنا اور ہر قسم کے اسباب اور مال تجارت کو ادھر سے ادھر لے جانا اور لاکھوں آدمیوں کو اس کنارے سے اس کنارے پر لے جانا بالکل ظاہر ہے سچ تو یہ ہے کہ موجودہ دور نے جہاز رانی میں جو ترقی کی ہے اس نے دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے کو ملا دیا ہے سمندروں کی یہ تسخیر بھی اس کے کمال خالقیت کی کھلی ہوئی دلیل ہے۔ گرمی کے موسم میں جو زمین خشک ہوجاتی ہے اس کو زمین کی موت سے تعبیر فرمایا ہے اور بارش کے بعد جو زمین پر سبزہ اور ترو تازگی نظر آتی ہے اس کو اس کی زندگی فرمایا ہے ۔ بارش کا برسنا اور زمین کا ہر سال مر کر زندہ ہونا جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس پر ایک دلیل ہے اسی طرح ان کی الوہیت اور ان کی توحید پر بھی زندہ ہونا جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس پر ایک دلیلی ہے اسی طرح ان کی الوہیت اور ان کی توحید پر بھی دلیل ہے۔ دابۃ ہر اس حیوان کو کہتے ہیں جو زمین پر چلتا ہے خواہ وہ ذوی العقول ہو یا غیر زوی العقول ہو۔ مطلب یہ ہے کہ آسمان سے پانی برسایا اس سے مختلف نباتات پیدا فرمائیں جو ایک جاندار کی زندگی اور زندہ رہنے کا سامان ہے پھر اس نبانات سے فائدہ اٹھانے کیلئے جاندار اور ذی روح مخلوق کو پیدا کیا تاکہ وہ زمین کی پیداوار کھا کر زندہ رہے ہوائوں کا چلنا اور ان کا رخ بدلنا جس کو تصریف الریاح فرمایا ہے۔ یہ مفہوم بھی بہت عام جس میں ہر قسم کی ہوائیں داخل ہیں خواہ وہ پروا ہو پچھوا ہو۔ شمالی ہو جنوبی ہو، ہلکی ہو، تیز ہو گرم ہو ٹھنڈی ہو، رحمت کی ہوا ہو یا عذاب کی۔ غرض تمام ہوائوں کی الٹ پلٹ اور تبدیلی کو لفظ تصریف شامل ہے اور چونکہ ہوائوں کی یہ تمام تبدیلیاں اور تصریفات اسی وحدہ لا شریک کے حکم کیک تابع ہیں اس لئے حدیث نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہوا کو سب دشتم کرنے سے منع فرمایا ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ خدا کے بیشمار لشکوں میں سے پانی اور ہوا دو لشکر ہیں۔ بادلوں کا آسمان و زمین کے درمیان مسخر رہنا اور اللہ تعالیٰ کے فرمان کا تابع ہونا یہ بھی منجملہ دلائل توحید کے ایک بہت بڑی دلیل ہے جو حضرت حق کے واجب الوجود ہونے اور ان کے وحدہ لا شریک ہونے کو ثابت کرتی ہے اسی بنا پر آخر میں اہل عقل اور اصحاب خرد اور ارباب دانش کی طرف اشارہ فرمایا اور یہ امر قرآن کی خصوصیات میں سے ہے کہ وہ جب کوئی دعویٰ کرتا ہے تو اس کے ساتھ اس دعویٰ کی دلیل بھی بیان فرماتا ہے چناچہ اس موقعہ پر بھی الھکم الہ واحد ایک دعویٰ ہے اور اس کے آگے کائنات عالم کی مختلف اشیاء سے اس پر استدلال کیا گیا ہے۔ دنیا کے اہل باطل میں دو فریق خاص طورپر مشہور رہے ہیں ایک وہ جو خدا کے منکر ہیں اور دوسرے وہ جو خدا کو تو مانتے ہیں لیکن اس کے ساتھ مختلف عنوان سے شرک بھی کرتے ہیں قرآن نے جب کبھی توحید کی بحث کی ہے تو ان دونوں فریق کو پیش نظر رکھا ہے اور اپنی خالقیت اور کمال صنع سے دونوں کو رو کیا ہے۔ ہم نے ابتداء ہی میں دونوں باتوں کی طرف اشارہ کردیا تھا جس طرح یہ عالم امکان ایک واجب الوجود کا محتاج ہے اسی طرح وہ واجب الوجود ہر ممکن کی شرکت سے بھی پاک ہے اور اگر وجود وجوب کے تعدد کا قول کیا جائے تو اس قول کا محال ہونا بدیہی ہے جس کو ہم کسی موقعہ پر انشاء اللہ عرض کردیں گے۔ یعقلون سے یہ شبہ نہ کیا جائے کہ جب ہماری عقل کو دخل ہے تو ہر فرعی مسئلہ کو عقل سے سمجھنے کی کوشش کی جائے اور جو بات سمجھ میں نہ آئے اس کو چھوڑ دیاجائے یہی وہ تخیل ہے جس میں آج کل کا نوجوان طبقہ مبتلا ہے۔ جہاں تک اصول توحید و رسالت کات علق ہے اس پر تو دلائل سے بحث کی جاسکتی ہے لیکن مسائل فرعیہ کا ہر شخص کی عقل کے مطابق ہونا ضروری نہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ کسی دلیل عقلی قطعی کے خلاف نہ ہو کسی حاکم کے حاکم ہونے پر تو گفتگو ہوسکتی ہے اور اس سے اس کے حاکم ہونے کا ثبوت طلب کیا جاسکتا ہے لیکن اس کو حاکم تسلیم کرلینے کے بعد پھر اس کے حکم کو نہ ماننا اور اس میں شکوک و شبہات پیدا کرنا بےوقوفی اور جہالت ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے اس شخص کے لئے خرابی ہو جس نے ان آیتوں کو پڑھ کر اور ان کو کلی کے پانی کی طرح تھوک دیا یعنی اس میں غور و فکر نہیں کیا ۔ (تسہیل)