Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 19

سورة البقرة

اَوۡ کَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَآءِ فِیۡہِ ظُلُمٰتٌ وَّ رَعۡدٌ وَّ بَرۡقٌ ۚ یَجۡعَلُوۡنَ اَصَابِعَہُمۡ فِیۡۤ اٰذَانِہِمۡ مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الۡمَوۡتِ ؕ وَ اللّٰہُ مُحِیۡطٌۢ بِالۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۱۹﴾

Or [it is] like a rainstorm from the sky within which is darkness, thunder and lightning. They put their fingers in their ears against the thunderclaps in dread of death. But Allah is encompassing of the disbelievers.

یا آسمانی برسات کی طرح جس میں اندھیریاں اور گرج اور بجلی ہو موت سے ڈر کر کڑاکے کی وجہ سے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ڈال لیتے ہیں ۔ اور اللہ تعالٰی کافروں کو گھیرنے والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Another Parable of the Hypocrites Allah says, أَوْ كَصَيِّبٍ مِّنَ السَّمَاء فِيهِ ظُلُمَاتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ ... Or like a rainstorm in the sky, bringing darkness, thunder, and lightning. This is another parable which Allah gave about the hypocrites who sometimes know the truth and doubt it at other times. When they suffer from doubt, confusion and disbelief, their hearts are, كَصَيِّبٍ (Like a Sayyib), meaning, "The rain", as Ibn Mas`ud, Ibn Abbas, and several other Companions have confirmed as well as Abu Al-Aliyah, Mujahid, Sa`id bin Jubayr, Ata, Al-Hasan Al-Basri, Qatadah, Atiyah Al-Awfi, Ata Al-Khurasani, As-Suddi and Ar-Rabi bin Anas. Ad-Dahhak said "It is the clouds." However, the most accepted opinion is that; it means the rain that comes down during, ظُلُمَاتٌ (darkness), meaning, here, the doubts, disbelief and hypocrisy. وَرَعْدٌ (thunder), that shocks the hearts with fear. The hypocrites are usually full of fear and anxiety, just as Allah described them, يَحْسَبُونَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِمْ They think that every cry is against them. (63: 4) and, وَيَحْلِفُونَ بِاللَّهِ إِنَّهُمْ لَمِنكُمْ وَمَا هُم مِّنكُمْ وَلَـكِنَّهُمْ قَوْمٌ يَفْرَقُونَ لَوْ يَجِدُونَ مَلْجَياً أَوْ مَغَـرَاتٍ أَوْ مُدَّخَلً لَّوَلَّوْاْ إِلَيْهِ وَهُمْ يَجْمَحُونَ They swear by Allah that they are truly of you while they are not of you, but they are a people who are afraid. Should they find refuge, or caves, or a place of concealment, they would turn straightway thereto in a swift rush. (9:56-57). وَبَرْقٌ (The lightning), is in reference to the light of faith that is sometimes felt in the hearts of the hypocrites. Allah said, ... يَجْعَلُونَ أَصْابِعَهُمْ فِي اذَانِهِم مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ واللّهُ مُحِيطٌ بِالْكافِرِينَ They thrust their fingers in their ears to keep out the stunning thunderclap for fear of death. But Allah ever encompasses the disbelievers. meaning, their cautiousness does not benefit them because they are bound by Allah's all-encompassing will and decision. Similarly, Allah said, هَلُ أَتَاكَ حَدِيثُ الْجُنُودِ فِرْعَوْنَ وَثَمُودَ بَلِ الَّذِينَ كَفَرُواْ فِى تَكْذِيبٍ وَاللَّهُ مِن وَرَايِهِمْ مُّحِيطٌ Has the story reached you of two hosts. Of Fir`awn (Pharaoh) and Thamud! Nay! The disbelievers (persisted) in denying. And Allah encompasses them from behind! (85:17-20) Allah then said,

منافقین کی ایک اور پہچان یہ دوسری مثال ہے جو دوسری قسم کے منافقوں کے لئے بیان کی گئی ہے ۔ یہ وہ قوم ہے جن پر کبھی حق ظاہر ہو جاتا ہے اور کبھی پھر شک میں پڑ جاتے ہیں تو شک کے وقت ان کی مثال برسات کی سی ہے ۔ صیب کے معنی مینہ اور بارش کے ہیں ۔ بعض نے بادل کے معنی بھی بیان کئے ہیں لیکن زیادہ مشہور معنی بارش کے ہی ہیں جو اندھیرے میں برسے ۔ ظلمات سے مراد شک ، کفر و نفاق ہے اور رعد سے مراد یعنی گرج ہے جو اپنی خوفناک آواز سے دل دہلا دیتی ہے ۔ یہی حال منافق کا ہے کہ اسے ہر وقت ڈر خوف گھبراہٹ اور پریشانی ہی رہتی ہے ۔ جیسے کہ اور جگہ فرمایا آیت ( يَحْسَبُوْنَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِمْ ) 63 ۔ المنافقون:4 ) یعنی ہر آواز کو اپنے اوپر ہی سمجھتے ہیں ایک اور جگہ ارشاد ہے کہ یہ منافقین اللہ کی قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ وہ تمام میں سے ہیں دراصل وہ ڈرپوک لوگ ہیں اگر وہ کوئی جائے پناہ یا راستہ پا لیں تو یقینا اس میں سمٹ کر گھس جائیں ۔ بجلی کی مثال سے مراد وہ نور ایمان ہے جو ان کے دلوں میں کسی وقت چمک اٹھتا ہے ، اس وقت وہ اپنی انگلیاں موت کے ڈر سے کانوں میں ڈال لیتے ہیں لیکن ایسا کرنا انہیں کوئی نفع نہ دے گا ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی ارادے کے ماتحت ہیں ، یہ بچ نہیں سکتے ۔ جیسا کہ اور جگہ فرمایا آیت ( هَلْ اَتٰىكَ حَدِيْثُ الْجُــنُوْدِ 17؀ۙ فِرْعَوْنَ وَثَمُــوْدَ 18؀ۭ ) 85 ۔ البروج:17 ) یعنی کیا تمہیں لشکر کی ۔ فرعون اور ثمود کی روایتیں نہیں پہنچیں بیشک پہنچی تو ہیں لیکن یہ کافر پھر بھی تکذیب ہی کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی انہیں ان کے پیچھے سے گھیر رہا ہے ۔ بجلی کا آنکھوں کو اچک لینا ، اس کی قوت اور سختی کا اظہار ہے اور منافقین کی بینائی کی کمزوری اور ضعف ایمان ہے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ قرآن کی مضبوط آیتیں ان منافقوں کی قلعی کھول دیں گی اور ان کے چھپے ہوئے عیب ظاہر کر دیں گی اور اپنی نورانیت سے انہیں مبہوت کر دیں گی جب ان پر اندھیرا ہو جاتا ہے تو کھڑے ہو جاتے ہیں یعنی جب ایمان ان پر ظاہر ہو جاتا ہے تو ذرا روشن دل ہو کر پیروی بھی کرنے لگتے ہیں لیکن پھر جہاں شک و شبہ آیا ، دل میں کدورت اور ظلمت بھر گئی اور بھونچکے ہو کر کھڑے رہ گئے ۔ اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ اسلام کو ذرا عروج ملا تو ان کے دل میں قدرے اطمینان پیدا ہوا لیکن جہاں اس کے خلاف نظر آیا یہ الٹے پیروں کفر کی طرف لوٹنے لگے ۔ جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے آیت ( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّعْبُدُ اللّٰهَ عَلٰي حَرْفٍ ) 22 ۔ الحج:11 ) یعنی بعض لوگ وہ بھی ہیں جو کنارے پر ٹھہر کر اللہ کی عبادت کرتے ہیں اگر بھلائی ملے تو مطمئن ہو جائیں اور اگر برائی پہنچے تو اسی وقت پھر گئے ۔ حضرت ابن عباسیہ بھی فرماتے ہیں کہ ان کا روشنی میں چلنا حق کو جان کر کلمہ اسلام پڑھنا ہے اور اندھیرے میں ٹھہر جانا کفر کی طرف لوٹ جانا ہے ۔ دیگر بہت سے مفسرین کا بھی یہی قول ہے اور زیادہ صحیح اور ظاہر بھی یہی قول ہے واللہ اعلم ۔ روز قیامت بھی ان کا یہی حال رہے گا کہ جب لوگوں کو ان کے ایمان کے اندازے کے مطابق نور ملے گا بعض کو کئی کئی میلوں تک کا ، بعض کو اس سے بھی زیادہ ، کسی کو اس سے کم ، یہاں تک کہ کسی کو اتنا نور ملے گا کہ کبھی روشن ہو اور کبھی اندھیرا کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جو ذرا سی دور چل سکیں گے پھر ٹھہر جائیں گے پھر ذرا سی دور کا نور ملے گا پھر بجھ جائے گا اور بعض وہ بےنصیب بھی ہوں گے کہ ان کا نور بالکل بجھ جائے گا یہ پورے منافق ہوں گے جن کے بارے میں فرمان الٰہی ہے آیت ( يَوْمَ يَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَالْمُنٰفِقٰتُ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوا انْظُرُوْنَا نَقْتَبِسْ مِنْ نُّوْرِكُمْ ) 57 ۔ الحدید:13 ) یعنی جس دن منافق مرد اور منافق عورتیں ایمان والوں کو پکاریں گے اور کہیں گے ذرا رکو! ہمیں بھی آ لینے دو تاکہ ہم بھی تمہارے نور سے فائدہ اٹھائیں تو کہا جائے گا کہ اپنے پیچھے لوٹ جاؤ اور نور ڈھونڈ لاؤ ۔ مومنوں کے بارے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت ( يَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ يَسْعٰى نُوْرُهُمْ بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَبِاَيْمَانِهِمْ بُشْرٰىكُمُ الْيَوْمَ جَنّٰتٌ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا ) 57 ۔ الحدید:12 ) یعنی اس دن تو دیکھے گا کہ مومن مرد اور عورتوں کے آگے آگے اور دائیں جانب نور ہو گا اور کہا جائے گا تمہیں آج باغات کی خوشخبری دی جاتی ہے جن کے نیچے نہیں بہہ رہی ہیں ۔ اور فرمایا جس دن نہ رسوا کرے گا اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو اور ان لوگوں کو جو ان کے ساتھ ایمان لائے ، ان کا نور ان کے آگے اور دائیں ہو گا ۔ وہ کہہ رہے ہوں گے اے ہمارے رب! ہمارے لئے ہمارا نور پورا کر اور ہمیں بخش یقینا تو ہر چیز پر قادر ہے ۔ ان آیتوں کے بعد اب اس مضمون کی حدیثیں بھی سنئے ۔ احادیث میں تذکرئہ نور٭٭ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں بعض مومنوں کو مدینہ سے لے کر عدن تک نور ملے گا ۔ بعض کو اس سے کم یہاں تک کہ بعض کو اتنا کم کہ صرف پاؤں رکھنے کی جگہ ہی روشن ہو گی ( ابن جریر ) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ایمان والوں کو ان کے اعمال کے مطابق نور ملے گا بعض کو کھجور کے درخت جتنا ، کسی کو قد آدم جتنا ، کسی کو صرف اتنا ہی کہ اس کا انگوٹھا ہی روشن ہو ، کبھی بجھ جاتا ہو ، کبھی روشن ہو جاتا ہو ( ابن ابی حاتم ) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں انہیں نور ملے گا ان کے اعمال کے مطابق جس کی روشنی میں وہ پل صراط سے گزریں گے ۔ بعض لوگوں کا نور پہاڑ جتنا ہو گا ، بعض کا کھجور جتنا اور سب سے کم نور والا وہ ہو گا جس کا نور اس کے انگوٹھے پر ہو گا کبھی چمک اٹھے گا اور کبھی بجھ جائے گا ( ابن ابی حاتم ) حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ تمام اہل توحید کو قیامت کے دن نور ملے گا ۔ جب منافقوں کا نور بجھ جائے گا تو موحد ڈر کر کہیں گے آیت ( رَبَّنَآ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَاغْفِرْ لَنَا ) 66 ۔ التحریم:8 ) یا رب ہمارے نور کو پورا کر ( ابن ابی حاتم ) ضحاک بن مزاحم کا بھی یہی قول ہے ۔ ان احادیث سے معلوم ہوا کہ قیامت والے دن لوگ کئی قسم کے ہوں گے ۔ خالص مومن وہ جن کا بیان اگلی چار آیتوں میں ہوا ، خالص کفار جن کا ذکر اس کے بعد کی دو آیتوں میں ہے اور منافق جن کی دو قسمیں ہیں ۔ ایک تو خالص منافق جن کی مثال آگ کی روشنی سے دی گئی ۔ دوسرے وہ منافق جو تردد میں ہیں کبھی تو ایمان چمک اٹھتا ہے کبھی بجھ جاتا ہے ، ان ہی کی مثال بارش سے دی گئی ہے یہ پہلی قسم کے منافقوں سے کچھ کم ہیں ۔ ٹھیک اسی طرح سورۃ نور میں بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے مومن کی اور اس کے دل کے نور کی مثال اس منور چراغ سے دی ہے جو روشن فانوس میں ہو اور خود فانوس بھی چمکتے ہوئے تارے کی طرح ہو ۔ چنانچہ ایمان دار کا ایک تو خود دل روشن ، دوسرے خالص شریعت کی اسے امداد ، بس روشنی پر روشنی ، نور پر نور ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح دوسری جگہ کافروں کی مثال بھی بیان کی جو اپنی نادانی کی وجہ سے اپنے آپ کو کچھ سمجھتے ہیں اور حقیقت میں وہ کچھ نہیں ہوتے ۔ فرمایا کافروں کے اعمال کی مثال ریت کے چمکیلے ٹیلوں کی طرح ہے جنہیں پیاسا پانی سمجھتا ہے یہاں تک کہ پاس آ کر دیکھتا ہے تو کچھ بھی نہیں پاتا ۔ ایک اور جگہ پر ان جاہل کافروں٠ کی مثال بیان کی جو جہل بسیط میں گرفتار ہیں ۔ فرمایا مانند سخت اور اندھیروں کے جو گہرے سمندر میں ہوں جو موجوں پر موجیں مار رہا ہو پھر ابر سے ڈھکا ہوا ہو اور اندھیروں پر اندھیرے چھائے ہوئے ہوں ، ہاتھ نکالے تو دیکھ بھی نہیں سکتا ۔ حقیقت یہ ہے کہ جس کے لئے اللہ کی طرف بلانے والے دوسرے ان کی تقلید کرنے والے ۔ جیسے سورۃ حج کے شروع میں ہے آیت ( ومن الناس من یجادل فی اللہ بغیر علم ) الخ بعض وہ لوگ ہیں جو اللہ کے بارے میں بغیر علم کے جھگڑتے ہیں اور ہر سرکش شیطان کی پیروی کرتے ہیں ۔ ایک اور جگہ فرمایا آیت ( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُّجَادِلُ فِي اللّٰهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَّيَتَّبِـعُ كُلَّ شَيْطٰنٍ مَّرِيْدٍ ) 22 ۔ الحج:3 ) بعض لوگ علم ہدایت اور روشن کتاب کے بغیر اللہ کی بارے میں لڑتے جھگڑتے ہیں ۔ سورۃ واقعہ کے شروع اور آخر میں اور سورۃ انسان میں مومنوں کی بھی دو قسمیں بیان کی ہیں ۔ سابقین اور اصحاب یمین یعنی مقربین بارگاہ ربانی اور پرہیزگار و نیک کار لوگ ۔ پس ان آیتوں سے معلوم ہوا کہ مومنوں کی دو جماعتیں ہیں مقرب اور ابرار ۔ اور کافروں کی بھی دو قسمیں ہیں کفر کی طرف لانے والے اور ان کی تقلید کرنے والے ۔ منافقوں کی بھی دو قسمیں ہیں خالص اور پکے منافق اور وہ منافق جن میں نفاق کی ایک آدھ شاخ ہے ۔ صحیحین میں حدیث ہے حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ تین خصلتیں ایسی ہیں جس میں یہ تینوں ہوں وہ پختہ منافق ہے اور جس میں ایک ہو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے جب تک اسے نہ چھوڑے ۔ بات کرنے میں جھوٹ بولنا ، وعدہ خلافی کرنا ، امانت میں خیانت کرنا ، اس سے ثابت ہوا کہ انسان میں کبھی نفاق کا کچھ حصہ ہوتا ہے خواہ وہ نفاق عملی ہو خواہ اعتقادی جیسے کہ آیت و حدیث سے معلوم ہوتا ہے ۔ سلف کی ایک جماعت اور علماء کرام کے ایک گروہ کا یہی مذہب ہے اس کا بیان پہلے بھی گزر چکا ہے اور آئندہ بھی آئے گا ۔ انشاء اللہ تعالیٰ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دل چار قسم کے ہیں ایک تو صاف دل جو روشن چراغ کی طرح چمک رہا ہو دوسرے وہ دل جو غلاف آلود ہیں ، تیسرے وہ دل جو الٹے ہیں ، چوتھے وہ دل جو مخلوط ہیں پہلا دل مومن کا ہے جو پوری طرح نورانی ہے ، دوسرا کافر کا دل ہے جس پر پردے پڑے ہوئے ہیں ، تیسرا دل خالص منافقوں کا ہے جو جانتا ہے اور انکار کرتا ہے ، چوتھا دل اس منافق کا ہے جس میں ایمان و نفاق دونوں جمع ہیں ۔ ایمان کی مثال اس سبزے کی طرح ہے جو پاکیزہ پانی سے بڑھ رہا ہو اور نفاق کی مثال اس پھوڑے کی طرح ہے جس میں پیپ اور خون بڑھتا ہی جاتا ہو اب جو مادہ بڑھ جائے وہ سرے پر غالب آ جاتا ہے ۔ اس حدیث کی اسناد بہت ہی عمدہ ہیں ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اگر اللہ چاہے تو ان کے کان اور آنکھیں برباد کر دے ۔ مطلب یہ ہے کہ جب انہوں نے حق کو جان کر اسے چھوڑ دیا تو اللہ ہر چیز پر قادر ہے یعنی اگر چاہے تو عذاب و سزا دے چاہے تو معاف کر دے ۔ یہاں قدرت کا بیان اس لئے کیا کہ پہلے منافقوں کو اپنے عذاب ، اپنی جبروت سے ڈرایا اور کہہ دیا کہ وہ انہیں گھیر لینے پر قادر ہے اور ان کے کانوں کو بہرا کرنے اور آنکھوں کو اندھا کرنے پر قادر ہے ۔ قدیر کے معنی قادر کے ہیں جیسے علیم کے معنی عالم کے ہیں ۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں یہ دو مثالیں ایک ہی قسم کے منافقوں کی ہیں او معنی میں و کے ہے جیسے فرمایا آیت ( وَلَا تُطِعْ مِنْهُمْ اٰثِمًا اَوْ كَفُوْرًا ) 76 ۔ الانسان:24 ) یا لفظ او اختیار کے لئے ہے یعنی خواہ یہ مثال بیان کرو ، خواہ وہ مثال بیان کرو اختیار ہے ۔ قرطبی فرماتے ہیں اور یہاں پر تساوی یعنی برابری کے لئے ہے جیسے عربی زبان کا محاورہ ہے جالس الحسن او ابن سیرین زمخشری بھی یہی توجیہ کرتے ہیں تو مطلب یہ ہو گا کہ ان دونوں مثالوں میں سے جو مثال چاہو بیان کرو دونوں ان کے مطابق ہیں ۔ میں کہتا ہوں یہ باعتبار منافقوں کی اقسام کے ہے ، ان کے احوال و صفات طرح طرح کے ہیں ۔ جیسے کہ سورۃ برات میں ومنھم ومنھم ومنھم کر کے ان کی بہت سی قسمیں بہت سے افعال اور بہت سے اقوال بیان کئے ہیں ۔ تو یہ دونوں مثالیں دو قسم کے منافقوں کی ہیں جو ان کے احوال اور صفات سے بالکل مشابہ ہیں ۔ واللہ اعلم ۔ جیسے کہ سورۃ نور میں دو قسم کے کفار کی مثالیں بیان کیں ۔ ایک کفر کی طرف بلانے والے دوسرے مقلد ۔ فرمایا آیت ( وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍۢ بِقِيْعَةٍ يَّحْسَبُهُ الظَّمْاٰنُ مَاۗءً ) 24 ۔ النور:39 ) پھر فرمایا آیت ( اوکظلمات ) پس پہلی مثال یعنی ریت کے تودے کی کفر کی طرف بلانے والوں کی ہے جو جہل مرکب میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ دوسری مثال مقلدین کی ہے جو جہل بسیط میں مبتلا ہیں ۔ واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

یہ مثال اللہ تعالیٰ نے منافقین کے دوسرے گروہ کی بیان فرمائی ہے، یعنی وہ لوگ جو بظاہر مسلمان تو ہوگئے تھے مگر ضعف ایمان کی وجہ سے ہمیشہ شک اور تذبذب میں مبتلا رہتے تھے، راحت و آرام کی صورت میں مطمئن نظر آتے، جب تکالیف کا سامنا ہوتا تو شک و شبہ میں پڑجاتے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّعْبُدُ اللّٰهَ عَلٰي حَرْفٍ ۚ فَاِنْ اَصَابَهٗ خَيْرُۨ اطْـمَاَنَّ بِهٖ ۚ وَاِنْ اَصَابَتْهُ فِتْنَةُۨ انْقَلَبَ عَلٰي وَجْهِهٖ ڗ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةَ ۭ ذٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِيْنُ ) [ الحج : ١١ ]” اور لوگوں میں سے کوئی وہ ہے جو اللہ کی عبادت ایک کنارے پر کرتا ہے، پھر اگر اسے کوئی بھلائی پہنچ جائے تو اس کے ساتھ مطمئن ہوجاتا ہے اور اگر اسے کوئی آزمائش آپہنچے تو اپنے منہ پر الٹا پھرجاتا ہے، اس نے دنیا اور آخرت کا نقصان اٹھایا، یہی تو صریح خسارہ ہے۔ “ ان آیات میں ان کے اسی تذبذب کو بیان فرمایا ہے کہ جب کبھی ان کے لیے روشنی ہوتی ہے چل پڑتے ہیں اور جب ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے تو ٹھہر جاتے ہیں۔ (ابن کثیر) بارش سے مراد اسلام ہے، اندھیروں اور گرج سے مراد وہ تکلیفیں اور مصیبتیں ہیں جو اسلام کی راہ میں پیش آتی ہیں، چمک سے مراد مسلمانوں کو حاصل ہونے والی کامیابیاں اور کڑکنے والی بجلیوں سے مراد جہاد کے احکام ہیں، جن میں منافقین کو موت دکھائی دیتی ہے۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : دین اسلام میں آخر سب نعمت ہے، مگر اول کچھ محنت ہے، جیسے بارش کہ آخر اسی سے آبادی ہے اور اول کڑک ہے اور بجلی ہے۔ منافق لوگ اول سختی سے ڈر جاتے ہیں اور ان کو آفت سامنے نظر آتی ہے اور جیسے بادل کی چمک میں کچھ اجالا ہوتا ہے اور کبھی اندھیرا، اسی طرح منافق کے دل میں کبھی اقرار ہے کبھی انکار۔ (موضح) وَلَوْ شَاۗءَ اللّٰهُ ) اور اگر اللہ چاہتا تو پہلے گروہ کی طرح ان کی سماعت اور ان کی نگاہیں لے جاتا، مگر اللہ کا دستور ہے کہ جو شخص جس حد تک سننا دیکھنا چاہے وہ اسے سننے اور دیکھنے کا موقع دیتا ہے۔ ( قَدِيْرٌ) مبالغے کا صیغہ ہے، اس لیے ” پوری طرح قادر “ ترجمہ کیا گیا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَوْ كَصَيِّبٍ مِّنَ السَّمَاۗءِ فِيْہِ ظُلُمٰتٌ وَّرَعْدٌ وَّبَرْقٌ۝ ٠ ۚ يَجْعَلُوْنَ اَصَابِعَھُمْ فِىْٓ اٰذَانِہِمْ مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ۝ ٠ ۭ وَاللہُ مُحِيْطٌۢ بِالْكٰفِرِيْنَ۝ ١٩ صيب والصَّيِّبُ : السّحابُ المختصّ بالصَّوْبِ ، وهو فيعل من : صَابَ يَصُوبُ. قال الشاعر : فكأنما صَابَتْ عليه سحابة وقوله : أَوْ كَصَيِّبٍ [ البقرة/ 19] ، قيل : هو السّحاب، وقیل : هو المطر، وتسمیته به کتسمیته بالسّحاب، وأَصَابَ السّهمَ : إذا وصل إلى المرمی بالصَّوَابِ اور صیب خاص کر صاب یصؤب سی فعیل کے وزن پر ( مبالغہ کا صیغہ ہے جس کے معنی ہیں بارش کا گرنا اوپر سے نیچے آنا شاعر نے کہا ہے ( طویل ) ( 278 ) فکانھم صابت علیھم سٖبلۃ گویا اس پر ( زور کا ) بادل برسا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَوْ كَصَيِّبٍ [ البقرة/ 19] یا اس کی مثال اس بارش کی ہے جو آسمان سے برس رہی ہو ) میں بعض نے کہا ہے کہ صیب کے معنی بادل ہیں ۔ اور بعض نے بارش مراد لی ہے ۔ اور بارش کو مجازا صیب کہا جاتا ہے جیسا کہ اسے سحاب کہہ دیتے ہیں اصاب السھم تیر ٹھیک نشانہ پر جا لگا سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ ظلم) تاریکی) الظُّلْمَةُ : عدمُ النّور، وجمعها : ظُلُمَاتٌ. قال تعالی: أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍ [ النور/ 40] ، ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور/ 40] ، وقال تعالی: أَمَّنْ يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُماتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ النمل/ 63] ، وَجَعَلَ الظُّلُماتِ وَالنُّورَ [ الأنعام/ 1] ، ويعبّر بها عن الجهل والشّرک والفسق، كما يعبّر بالنّور عن أضدادها . قال اللہ تعالی: يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [ البقرة/ 257] ، أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [إبراهيم/ 5] ( ظ ل م ) الظلمۃ ۔ کے معنی میں روشنی کا معدوم ہونا اس کی جمع ظلمات ہے ۔ قرآن میں ہے : أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍ [ النور/ 40] ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے ) جیسے دریائے عشق میں اندھیرے ۔ ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور/ 40] ( غرض ) اندھیرے ہی اندھیرے ہوں ایک پر ایک چھایا ہوا ۔ أَمَّنْ يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُماتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ النمل/ 63] بتاؤ برو بحری کی تاریکیوں میں تمہاری کون رہنمائی کرتا ہے ۔ وَجَعَلَ الظُّلُماتِ وَالنُّورَ [ الأنعام/ 1] اور تاریکیاں اور روشنی بنائی ۔ اور کبھی ظلمۃ کا لفظ بول کر جہالت شرک اور فسق وفجور کے معنی مراد لئے جاتے ہیں جس طرح کہ نور کا لفظ ان کے اضداد یعنی علم وایمان اور عمل صالح پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [ البقرة/ 257] ان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے جاتا ہے ۔ أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [إبراهيم/ 5] کہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے جاؤ رعد الرَّعْدُ صوت السّحاب، وروي (أنه ملك يسوق السّحاب) . وقیل رَعَدَتِ السّماءُ وبرقت، وأَرْعَدَتْ وأبرقت، ويكنّى بهما عن التّهدّد . ويقال : صلف تحت رَاعِدَةٍ لمن يقول ولا يحقّق ( ر ع د ) الرعد ( اسم ) بادل کی گرج مروی ہے انہ ملک یسوق السحاب کہ رعد اس فرشتے کا نام ہے جو بادلوں کو چلاتا ہے کہا جاتا ہے ۔ بادل گرجا اور چمکا ۔ اور یہی معنی ارعد وابرقت کے ہیں اور کنایہ کے طور پر یہ دونوں لفظ تہدید یعنی ڈرانے اور دھمکانے کے معنی میں بھی استعمال ہوتے ہیں ۔ اور صلف ( مثل ) ضرب المثل ہے جو اس شخص کے حق میں بولی جاتی ہے جو نرا بوتونی ہو کچھ کرکے نہ دکھا تا ہو الرعد ید بزدلی کی وجہ سے کانپنے والا نیز محاورہ ہے ارعد فوائصۃ خوفا یعنی مارے خوف کے اس کے بیٹھے کانپنے لگے برق البَرْقُ : لمعان السحاب، قال تعالی: فِيهِ ظُلُماتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ [ البقرة/ 19] ( ب رق ) البرق کے معنی بادل کی چمک کے ہیں قرآن میں ہے : فِيهِ ظُلُماتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ [ البقرة/ 19] اس میں اندھیرے پر اندھیرا چھارہا ) ہو اور بادل ) گرج ( رہا ) ہو اور بجلی کوند رہی ہو ۔ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ أصبع الإصبع : اسم يقع علی السلام ي والظفر والأنملة والأطرة والبرجمة معا، ويستعار للأثر الحسيّ فيقال : لک علی فلان إصبع کقولک : لک عليه يد . ( ا ص ب ع ) الاصبع ( انگلی ) کا لفظ انگلی کی ہڈی ناخن بالائی سراخم اور جوڑ کے مجموعہ پر بولا جاتا ہے ۔ اور بطور استعارہ ظاہری احسان کے معنی میں آتا ہے چناچہ لک علیہ ید کی طرح لک علی فلان اصبع کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے أذن (کان) الأذن : الجارحة، وشبّه به من حيث الحلقة أذن القدر وغیرها، ويستعار لمن کثر استماعه وقوله لما يسمع، قال تعالی: وَيَقُولُونَ : هُوَ أُذُنٌ قُلْ : أُذُنُ خَيْرٍ لَكُمْ [ التوبة/ 61] أي : استماعه لما يعود بخیرٍ لكم، وقوله تعالی: وَفِي آذانِهِمْ وَقْراً [ الأنعام/ 25] إشارة إلى جهلهم لا إلى عدم سمعهم . ( اذ ن) الاذن کے معنی کان کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر ہنڈیا کی کو روں کو اذن القدر کہا جاتا ہے اور استعارہ کے طور پر ہر اس شخص پر اذن کا لفظ بولاجاتا ہے ۔ جو ہر ایک کی بات سن کر اسے مان لیتا ہو ۔ چناچہ فرمایا :۔ { وَيَقُولُونَ هُوَ أُذُنٌ قُلْ أُذُنُ خَيْرٍ لَكُمْ } ( سورة التوبة 61) اور کہتے ہیں یہ شخص زا کان ہے ان سے ) کہدو کہ وہ کان ہے تو تمہاری بھلائی کے لئے ۔ اور آیت کریمہ :۔ { وَفِي آذَانِهِمْ وَقْرًا } ( سورة الأَنعام 25) اور انکے کانوں میں گرانی پیدا کردی ہے ۔ کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ بہرے ہوگئے ہیں بلکہ اس سے انکی جہالت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے ۔ صعق الصَّاعِقَةُ والصّاقعة يتقاربان، وهما الهدّة الكبيرة، إلّا أن الصّقع يقال في الأجسام الأرضيّة، والصَّعْقَ في الأجسام العلويَّةِ. قال بعض أهل اللّغة : الصَّاعِقَةُ علی ثلاثة أوجه : 1- الموت، کقوله : فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ [ الزمر/ 68] ، وقوله : فَأَخَذَتْهُمُ الصَّاعِقَةُ [ النساء/ 153] . 2- والعذاب، کقوله : أَنْذَرْتُكُمْ صاعِقَةً مِثْلَ صاعِقَةِ عادٍ وَثَمُودَ [ فصلت/ 13] . 3- والنار، کقوله : وَيُرْسِلُ الصَّواعِقَ فَيُصِيبُ بِها مَنْ يَشاءُ [ الرعد/ 13] . وما ذكره فهو أشياء حاصلة من الصَّاعِقَةِ ، فإنّ الصَّاعِقَةَ هي الصّوت الشّديد من الجوّ ، ثم يكون منها نار فقط، أو عذاب، أو موت، وهي في ذاتها شيء واحد، وهذه الأشياء تأثيرات منها . ( ص ع ق ) الصاعقۃ اور صاقعۃ دونوں کے تقریبا ایک ہی معنی ہیں یعنی ہو لناک دھماکہ ۔ لیکن صقع کا لفظ اجسام ارضی کے متعلق استعمال ہوتا ہے اور صعق اجسام علوی کے بارے میں بعض اہل لغت نے کہا ہے کہ صاعقۃ تین قسم پر ہے اول بمعنی موت اور ہلاکت جیسے فرمایا : ۔ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ [ الزمر/ 68] تو جو لوگ آسمان میں ہیں اور جو زمین میں ہیں سب کے سب مرجائیں گے ۔ فَأَخَذَتْهُمُ الصَّاعِقَةُ [ النساء/ 153] سو تم کو موت نے آپکڑا ۔ دوم بمعنی عذاب جیسے فرمایا : ۔ أَنْذَرْتُكُمْ صاعِقَةً مِثْلَ صاعِقَةِ عادٍ وَثَمُودَ [ فصلت/ 13] میں تم کو مہلک عذاب سے آگاہ کرتا ہوں جیسے عاد اور ثمود پر وہ ( عذاب ) آیا تھا ۔ سوم بمعنی آگ ( اور بجلی کی کڑک ) جیسے فرمایا : ۔ وَيُرْسِلُ الصَّواعِقَ فَيُصِيبُ بِها مَنْ يَشاءُ [ الرعد/ 13] اور وہی بجلیاں بھیجتا ہے پھو حس پر چاہتا ہے گرا بھی دیتا ہے ۔ لیکن یہ تینوں چیزیں دراصل صاعقہ کے آثار سے ہیں کیونکہ اس کے اصل معنی تو قضا میں سخت آواز کے ہیں پھر کبھی تو اس آواز سے صرف آگ ہی پیدا ہوتی ہے اور کبھی وہ آواز عذاب اور کبھی موت کا سبب بن جاتی ہے یعنی دراصل وہ ایک ہی چیز ہے اور یہ سب چیزیں اس کے آثار سے ہیں ۔ حذر الحَذَر : احتراز من مخیف، يقال : حَذِرَ حَذَراً ، وحذرته، قال عزّ وجل : يَحْذَرُ الْآخِرَةَ [ الزمر/ 9] ، وقرئ : وإنّا لجمیع حَذِرُون، وحاذِرُونَ 3» ، وقال تعالی: وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 28] ، وقال عزّ وجل : خُذُوا حِذْرَكُمْ [ النساء/ 71] ، أي : ما فيه الحذر من السلاح وغیره، وقوله تعالی: هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ [ المنافقون/ 4] ، وقال تعالی: إِنَّ مِنْ أَزْواجِكُمْ وَأَوْلادِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ [ التغابن/ 14] ، وحَذَارِ ، أي : احذر، نحو : مناع، أي : امنع . ( ح ذ ر) الحذر ( س) خوف زدہ کرنے والی چیز سے دور رہنا کہا جاتا ہے حذر حذرا وحذرتہ میں اس سے دور رہا ۔ قرآن میں ہے :۔ يَحْذَرُ الْآخِرَةَ [ الزمر/ 9] آخرت سے ڈرتا ہو ۔ وإنّا لجمیع حَذِرُون، وحاذِرُونَاور ہم سب باسازو سامان ہیں ۔ ایک قرآت میں حذرون ہے هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ [ المنافقون/ 4] یہ تمہاری دشمن میں ان سے محتاط رہنا ۔ إِنَّ مِنْ أَزْواجِكُمْ وَأَوْلادِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ [ التغابن/ 14] تمہاری عورتوں اور اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ( بھی ) ہیں سو ان سے بچتے رہو۔ حذر ۔ کسی امر سے محتاط رہنے کے لئے کہنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 28] اور خدا تم کو اپنے ( غضب ) سے محتاط رہنے کی تلقین کرنا ہے الحذر بچاؤ ۔ اور آیت کریمہ :۔ خُذُوا حِذْرَكُمْ [ النساء/ 71] جہاد کے لئے ) ہتھیار لے لیا کرو ۔ میں حذر سے مراد اسلحۃ جنگ وغیرہ ہیں جن کے ذریعہ دشمن سے بچاؤ حاصل ہوتا ہے حذار ( اسم فعل بمعنی امر ) بچو جیسے مناع بمعنی امنع خوف الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] ( خ و ف ) الخوف ( س ) کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] . الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] . الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ بِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے حيط الحائط : الجدار الذي يَحُوط بالمکان، والإحاطة تقال علی وجهين : أحدهما : في الأجسام نحو : أَحَطْتُ بمکان کذا، أو تستعمل في الحفظ نحو : إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت/ 54] ، والثاني : في العلم نحو قوله : أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق/ 12] ( ح و ط ) الحائط ۔ دیوار جو کسی چیز کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہو اور احاطۃ ( افعال ) کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) اجسام کے متعلق جیسے ۔ احطت بمکان کذا یہ کبھی بمعنی حفاظت کے آتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت/ 54] سن رکھو کہ وہ ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ یعنی وہ ہر جانب سے ان کی حفاظت کرتا ہے ۔ (2) دوم احاطہ بالعلم ہے جیسے فرمایا :۔ أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق/ 12] اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٩) منافقین اور یہودیوں کی قرآن پاک کے ساتھ یہ دوسری مثال ہے جیسا کہ جنگل میں رات کے وقت آسمان سے بارش برسے اسی طرح قرآن حکیم اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے کہ اس میں فتنوں کی تاریکیوں بیان کی گئی ہیں اور گرج، چمک، ڈر اور ڈانٹ اور بیان وتبصرہ اور وعید ہے، یہ لوگ موت اور تباہی کے خوف سے، کڑک کی آواز سے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ٹھونس لیتے ہیں، اسی طرح یہ منافقین قرآن مجید کے بیان اور وعید کے وقت موت سے بچنے کے لیے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ڈاخل کرلیتے ہیں کہ کہیں دل ان کی طرف مائل نہ ہوجائے مگر اللہ تعالیٰ منافقین کو اچھی طرح جانتا ہے اور ان سب کو دوزخ میں جمع کرنے والا ہے، قریب ہے کہ یہ آگ اور چمک کافروں کی نگاہوں کو ختم کردے اسی طرح سے قرآن کریم بھی ان گمراہوں کی آنکھوں کو ختم کردینے والا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٩ (اَوْ کَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَآءِ فِیْہِ ظُلُمٰتٌ وَّرَعْدٌ وَّبَرْقٌ ج) یعنی اس ہیبت ناک کڑک سے کہیں ان کی جانیں نہ نکل جائیں۔ (وَاللّٰہُ مُحِیْطٌ بالْکٰفِرِیْنَ ) وہ ان منکرین حق کو ہر طرف سے گھیرے میں لیے ہوئے ہے ‘ یہ بچ کر کہاں جائیں گے ؟

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

18. By thrusting their fingers into their ears they temporarily deceive themselves into believing that they can escape the catastrophic end that awaits them. However, they cannot escape that end since God with all His might, encompasses them.

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :18 یعنی کانوں میں اُنگلیاں ٹھونس کر وہ اپنے آپ کو کچھ دیر کے لیے اس غلط فہمی میں تو ڈال سکتے ہیں کہ ہلاکت سے بچ جائیں گے مگر فی الواقع اس طرح وہ بچ نہیں سکتے کیونکہ اللہ اپنی تمام طاقتوں کے ساتھ ان پر محیط ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

16 منافقوں کی پہلی مثال توان منافقین سے متعلق تھی جو اسلام کے واضح دلائل سامنے آنے کے باوجود خوب سوچ سمجھ کر کفر اور نفاق کاراستہ اختیار کئے ہوئے تھے، اب منافقین کے اس گروہ کی مثال دی جارہی ہے جو اسلام لانے کے بارے میں تذبذب کاشکار تھا، جب اسلام کی حقانیت کے دلائل سامنے آئے تو ان کے دل میں اسلام کی طرف جھکاؤ پیدا ہوتا اور وہ اسلام کی طرف بڑھنے لگتے ؛ لیکن جب اسلامی احکام کی ذمہ داریاں اور حلال وحرام کی باتیں سامنے آتیں تو وہ اپنی خود غرضی کی وجہ سے رک جاتے، یہاں اسلام کو ایک برستی ہوئی بارش سے تشبیہ دی گئی ہے اور اس میں کفر وشرک کی خرابیوں کا جو بیان ہے اسے اندھیریوں سے اور اس میں کفر وشرک پر عذاب کی جو دھمکیاں دی گئی ہیں انہیں گرج سے تشبیہ دی گئی ہے۔ نیز قرآن کریم میں حق کے جو دلائل اور حق کوتھامنے والوں کے لئے جنت کے جو وعدے کئے گئے ہیں، انہیں بجلی کی روشنی سے جب یہ روشنی ان منافقین کے سامنے چمکتی ہے تو وہ چل پڑتے ہیں مگر کچھ دیر میں ان کی خواہشات کی ظلمت ان پر چھاجاتی ہے تو کھڑے رہ جاتے ہیں۔ 17: یعنی جب قرآن کریم کفر اور فسق پر عذاب کی وعیدیں سناتا ہے تو یہ اپنے کان بند کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ ہم عذاب سے محفوظ ہوگئے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تمام کافروں کو گھیرے میں لے رکھا ہے اور وہ اس سے بچ کر نہیں جاسکتے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:19) او۔ او اصل میں شک کے لئے وضع کیا گیا ہے جہاں دو باتوں میں شک کے طور پر برابری ہو وہاں اس کا استعمال ہوتا تھا۔ پھر مطلقاً دو چیزوں کی برابری بیان کرنے میں استعمال ہونے لگا کہ جہاں شک مقصود نہیں جیسا کہ بولتے ہیں جالس الحسن او ابن سیرین۔ کہ خواہ تو حسن کے پاس بیٹھ یا ابن سیرین کے، دونوں کے پاس بیٹھنا برابر ہے۔ اس مقام پر (آیت ہذا) بھی یہ کلمہ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے کہ منافقوں کو خواہ آگ جلانے والوں سے تشبیہ دو خواہ مینہ سے بھاگنے والوں سے دونوں برابر ہیں (تفسیر حقانی) او کے معنی یا ہیں یہ حرف عطف ہے۔ کصیب : ک تشبیہ کا ہے۔ صیب۔ صوب مصدر (باب نصر) سے مشتق ہے اور فیعل کے وزن پر مبالغہ کا صیغہ ہے جس کے معنی بارش یا مینہ برسانے والا بادل ہیں۔ صیب سے پہلے مضاف محذوف ہے ای اصحاب صیب۔ تقدیر کلام یوں ہوگی : او مثلہم کمثل اصحاب صیب من السماء یا پھر ان کی مثال آسمانی بارش والوں کی سی ہے۔ (مطلب یہ ہے کہ ، منافقوں کو دونوں قصوں سے تشبیہ دینا برابر ہے) ۔ السماء (سمو مادہ) ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے جس طرح ارض بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں۔ جیسے شاعر نے گھوڑے کی صفت میں کہا ہے، د واحمر کالدیباج اما سماؤہ فربا واما ارضہ فمحول (وہ دیبا کی طرح سرخ ہے اس کا بالائی حصہ موٹا اور گداز ہے۔ اور اس کا زیریں حصہ (یعنی ٹانگیں) لاغر اور سخت ہے) ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اسمائے نسبیہ سے ہے کہ ہر سماء اپنے ما تحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض ہے بجز سماء علیا (فلک الافلاک) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا۔ نیز بارش کو بھی سماء کہا جاتا ہے کیونکہ وہ بھی اوپر سے آتی ہے۔ بادل اور آسمان مراد لینا بھی ممکن ہے آیت ہذا میں مراد بادل ہے۔ فیہ ۔ میں ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع ہے یا سماء ۔ کیونکہ لفظ سماء مذکر و مونث دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے مثلاً قرآن مجید میں ہے (1) والسماء منفطر بہ (73:18) اور جس سے آسمان پھٹ جائے گا (مذکر) (2) اذا السماء انفطرت (82:1) جب آسمان پھٹ جائے گا۔ (مؤنث) ظلمت : جمع ہے ظلمۃ کی تاریکیاں ۔ اندھیرے۔ رعد۔ گرج کو کہتے ہیں۔ مثلا بولا جاتا ہے رعدت السماء وبرقت۔ بادل گرجا اور چمکا۔ برق۔ بادلوں میں پیدا ہونے والی چمک۔ ملاحظہ ہو رعد۔ متذکرہ بالا۔ یجعلون ۔ مضارع جمع مذکر غائب۔ جعل (باب فتح) مصدر ۔ جعل۔ یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل ۔ صنع کی بہ نسبت عام ہے، یہ پانچ طرح پر استعمال ہوتا ہے۔ (1) بمعنی صاروطفق۔ اس صورت میں یہ متعدی نہیں ہوتا۔ مثلاً جعل ذید یقول کذا۔ زید یوں کہنے لگا۔ (2) بمعنی اوجد۔ (یعنی ایجاد کرنا۔ پیدا کرنا) جیسے وجعل الظلمت والنور (6:1) اور اندھیرے اور روشنی بنائی۔ (3) ایک شے کو دوسری شے سے پیدا کرنا اور بنانا۔ مثلاً وجعل لکم من انفسکم ازواجا (42:11) اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس کے جوڑے بنائے۔ اور وجعل لکم من الجبال اکنانا (16:81) اور تمہارے لئے پہاڑوں میں غاریں بنائیں۔ (4) بمعنی تصییر۔ یعنی کسی شے کو ایک حالت سے دوسری حالت میں تبدیل کرنا۔ جیسے قرآن میں ہے الذی جعل لکم الارض فراشا (2:22) جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا بنایا۔ (5) کسی چیز پر کسی چیز کے ساتھ حکم لگانا۔ عام اس سے کہ وہ حکم حق ہو یا باطل۔ حق کی مثال انا رادوہ الیک و جاعلوہ من المرسلین ۔ (28:7) ہم اس کو تمہارے پاس واپس پہنچا دیں گے اور پھر، اسے پیغمبر بنائیں گے۔ باطل کی مثال ویجعلون للہ البنات (16:57) اور یہ لوگ خدا کے لئے بیٹیاں تجویز کرتے ہیں۔ اصابعہم : مضاف مضاف الیہ، ان کی انگلیاں اصبع کی جمع۔ اذانھم۔ مضاف مضاف الیہ ۔ ان کے کان ۔ اذن کی جمع۔ من القواعق۔ جار مجرور مل کر اپنے فعل یجعلون کے متعلق ہے۔ الصواعق جمع الصاعقۃ کی۔ کڑک بجلی کی کڑک، صاعقۃ یا تو صعق یصعق (سمع) کا مصدر ہے جس کے معنی بےہوش ہونے کے ہیں۔ یا سعق سے بمعنی نہ کو اس فاعل کا صیغہ واحد مونث ہے۔ اور آواز رعد کی صفت ہے یا خود رعد کی صفت ہے اخیر صورت میں ۃ اس میں مبالغہ کے لئے ہوگی۔ حذر الموت۔ مضاف مضاف الیہ دونوں مل کر اپنے فعل یجعلون کا مفعول لہ ہیں۔ موت کا ڈر ، موت کے ڈر سے ، یعنی بجلی کی کڑک کے باعث موت کے خوف سے اپنی انگلیاں کانوں میں دے لیتے ہیں ۔ محیط۔ اسم فاعل واحد مذکر قیاسی احاطہ ۔ مصدر (باب افعال) حوط۔ مادہ۔ ہر طرف سے احاطہ کرلینے والا ہر طرف سے گھیر لینے والا۔ واللہ محیط بالکفرین۔ جملہ معترضہ ہے ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 یہ مثال اللہ تعالیٰ نے منافقین کی دوسرے گروہ کی بیان فرمائی ہے یعنی وہ لوگ جو بظاہر ہر مسلمان تو ہوگئے تھے، مگر صعف ایمان کی وجہ سے ہمیشہ شک وتذبذب میں مبتلا رہتے تھے۔ راحت و آرام کی صورت میں مطمئن نظر آئے تے اور تکا لیف کا سامنا ہوتا تو شک میں پڑجاتے۔ اگلی آیت میں ان کے اسی تذبذب کو بیان فرمایا ہے کہ جب کبھی ان پر رشنی پڑتی ہے تو حل دیتے ہیں اور جب اندھیرا ہوتا ہے تو ٹھہر جاتے ہیں۔ (ابن کثیر) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : دین اسلام میں آخرت اسی سے آبادی ہے۔ اور اول کڑک ہے اور بجلی ہے منا فق لوگ اول سختی سے ڈرجاتے ہیں اور ان کو آفت سامنے نظر آتی ہے اور جیسے بادل کی چمک میں کبھی اجا لا ہوتا ہے اور کبھی اندھیرا سی طرح منا فق کے دل میں کبھی اقرار ہے کبھی انکار۔ ( مو ضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 19 تا 20 (او): یا ۔ (ک): جیسا ، جیسی (حرف تشبیہ) ۔ (صیب): بارش، تیز بارش ، زوردار بارش۔ (السماء) : آسمان۔ بلندی، اونچی جگہ (اس کی جمع السموات آتی ہے) ۔ (رعد): کڑک، زور دار آواز۔ (برق) : بجلی۔ (اصابع ) : انگلیاں (اصبع کی جمع) ۔ (اذان ): کان (اذن کی جمع ہے ) ۔ (الصواعق): کڑک (الصاعقہ کی جمع ہے ، تیز آواز، کڑک) ۔ (حذر الموت): موت کا ڈر اور خوف۔ (محیط): گھیرنے والا۔ (یکاد): قریب ہے ۔ (یخطف): وہ اچک لیتا ہے، وہ چھین کرلے جائے گا۔ (مشوا): وہ چلے۔ (قاموا) : وہ کھڑے ہوئے ، وہ کھڑے رہ گئے۔ (اظلم): اندھیرا ہوگیا (اندھیرا چھا جانا) ۔ (شاء): اس نے چاہا۔ (قدیر): قدرت رکھنے والا (اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ہے) ۔ تشریح : آیت نمبر 19 تا 20 منافقین کی یہ دوسری مثال بیان فرمائی جارہی ہے فرمایا کہ جو لوگ ایمان کی کمزوری ، شک و شبہ اور ذہنی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ جو اسلام اور مسلمانوں کی ترقیات کو دیکھ کر ادھر بھی آنا چاہتے ہیں اور کفار سے ملنے والے فائدوں کو بھی چھوڑنا نہیں چاہتے۔ جب ان کو اسلام اور مسلمانوں کے طریقے اپنانے میں اپنا فائدہ نظر آتا ہے تو وہ اس طرف چل پڑتے ہیں اور جب ان کو دنیا کے مفادات میں چمک دمک نظر آتی ہے تو اس طرف ڈھلک جاتے ہیں۔ فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ کو اس بات پر کامل قدرت حاصل ہے کہ اگر وہ چاہے تو ان کی سننے اور دیکھنے کی طاقتوں کو ختم کر دے۔ جب کہ وہ اس کی گرفت اور پکڑ سے باہر بھی نہیں ہیں مگر اللہ کا قانون یہ ہے کہ وہ کسی کو مہلت دئیے بغیر اس کو گرفت میں نہیں لیتا۔ وہ ان کو دنیا کی مختصر سی زندگی میں ڈھیل دے رہا ہے تا کہ وہ ان کی آزمائش کرسکے اور ان کا انجام ان کے اعمال کے مطابق ہو سکے۔ خلاصہ اور ربط آیات : سورة بقرہ کے پہلے اور دوسرے رکوع (آیت نمبر ایک سے بیس تک ) اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی صفات، کافروں کا مزاج اور منافقین کی مکاریوں اور فریب کا ذکر کرنے کے بعد تینوں جماعتوں کا انجام بھی ارشاد فرمادیا۔ (1) مومنوں کے لئے فرمایا ” اولئک ھم المفلحون “ وہ سب کامیاب ہونے والے ہیں۔ (2) کافروں کا انجام ” لھم عذاب عظیم “ یعنی ان کو بڑا عذاب دیا جائے گا۔ (3) منافقین کے لئے فرمایا ” لھم عذاب الیم “ ان کو دردناک عذاب دیا جائے گا۔ آیت نمبر اکیس سے اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا کے تمام انسانوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کا تعلق کسی بھی فرقے اور جماعت سے ہو ان کی نجات اللہ کی بندگی اور اطاعت ہی میں ہے اور یہ اطاعت و بندگی درحقیقت اللہ کے شکر کے طور پر ہے کیونکہ اللہ نے تمام انسانوں کو جسم اور روح سے بنا کر ان کے جسم و روح کے تمام تقاضوں اور ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ہر چیز کو پیدا کیا ہے۔ جسم کے لئے اس ساری کائنات اور اس کی حلال و پاکیزہ چیزوں کو اور روح کی زندگی اور تابندگی کے لئے اپنا پاک کلام اپنے نیک بندوں کے ذریعہ پہنچایا۔ ۔۔ ۔ اور فرمایا کہ اللہ کا یہ انسانیت پر بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے آخر میں ایک ایسے نبی (حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اپنا عظیم کلام بھیجا ہے جو ہر طرح کے شک و شبہ سے پاک اور قیامت تک ساری انسانیت کے لئے رہبر ورہنما ہیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : دین کے بارے میں دوسری مثال، دین اسلام ایک ابر باراں ہے مگر اس میں منافق کی حالت زار بیان کی گئی ہے۔ بارش کی تمثیل کے ساتھ اسلام کی روشنی اور نفاق کی تاریکیوں کا فرق واضح کیا جا رہا ہے۔ جس طرح بارش اوپر سے نازل ہوتی ہے اللہ کا دین بھی آسمانوں سے نازل ہوا ہے۔ اس سے نہایت لطیف انداز میں کفار کے الزام کی تردید ہو رہی ہے کہ دین کسی شخص کے ذہن کی اختراع اور زمین کی پیداوار نہیں یہ تو اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ ہے۔ بارش سے بیک وقت ہر چیز تر و تازہ ہوجاتی ہے ایسے ہی دین اسلام سے دل شاداب ‘ کردار میں نکھار اور دنیا میں برکات نازل ہوتی ہیں جیسے بارش میں بسا اوقات اندھیرا اور گرج وچمک بھی ہوتی ہے۔ بالکل اسی طرح ہی دین اسلام اختیار کرنے، اس کے نفاذ سے اس کے متبعین کو دنیا میں فوائد بھی ملتے ہیں اور انہیں امتحانات اور کچھ دینوی نقصانات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ لیکن سچے اور پکے مسلمان ان مشکلات کو قبول کرتے ہوئے آگے ہی بڑھا کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ دنیا و آخرت میں اپنی منزل مراد کو پہنچ جاتے ہیں۔ اس کے برعکس منافق بارش میں چلنے والے اس مسافر کی طرح ہوتا ہے جو بادل کی گرج اور بجلی کی چمک کی وجہ سے کانوں میں انگلیاں ڈال کر اپنے آپ کو بجلی کی چکا چوند روشنی سے چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔ حالانکہ ایسا کرنے سے نہ روشنی اس سے دور ہوسکتی ہے اور نہ وہ آسمانی بجلی کی چمک کڑک سے بچ سکتا ہے۔ جس طرح ساری دنیا مل کر بھی بارش کو نہیں روک سکتی ایسے ہی منافق اور کفار جتنی چاہیں کوشش کریں نہ یہ اسلام کی روشنی مٹا سکتے ہیں اور نہ ہی غلبۂ اسلام میں ان کی کوششیں اور سازشیں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب ایک دوسری تمثیل کے ذریعے ان کی نفسیاتی صورتحال کا تجزیہ کیا جاتا ہے ۔ جس سے ان کے اندرونی اضطراب ، حیرت اور خوف وبے چینی کا اظہار ہوتا ہے ۔ أَوْ كَصَيِّبٍ مِنَ السَّمَاءِ........ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ” یا پھر ان کی مثال یوں سمجھو کہ آسمان سے زور کی بارش ہورہی ہے ، اور اس کے ساتھ اندھیری گھٹا اور کڑک اور چمک بھی ہے ۔ یہ بجلی کے کڑاکے سن کر اپنی جانوں کے خوف سے کانوں میں انگلیاں ٹھونسے لیتے ہیں اور اللہ ان منکرین حق کو ہر طرف سے گھیرے میں لئے ہوئے ہے ۔ چمک سے ان کی حالت یہ ہورہی ہے کہ گویا عنقریب بجلی ان کی بصارت لے جائے ۔ جب ذرا کچھ روشنی انہیں محسوس ہوتی ہے تو اس میں کچھ دور چل لیتے ہیں ۔ جب ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے تو کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ اللہ چاہتا تو ان کی سماعت اور بصارت بالکل ہی سلب کرلیتا یقینا وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ “ عجیب منظر ہے یہ بھی ، جس دوڑ بھاگ ، قلق و اضطراب ، گمراہی وضلالت ، خوف ورعب ، جزع وفزع ، حیرانی و پریشانی ، چمک دمک اور چیخ و پکار کی مختلف تصویریں رواں اور دواں نظر آتی ہیں ۔ آسمان سے موسلا دھار بارش ہورہی ہے اور اس کے ساتھ اندھیری گھٹائیں اور نیز چمک اور بجلی کے کڑاکے کی سخت آوازیں ہیں ۔ کچھ لوگ ہیں جو اس تیز چمک کی روشنی میں آگے بڑھنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ اچانک اندھیرا ہوجاتا ہے ۔ بےچارے کھڑے ہوجاتے ہیں ، حیران وپریشان ہیں ، نہیں جانتے کہ کدھر جائیں ، مارے خوف کے کانپ رہے ہیں اور بجلی کے کڑاکے سن کر جان نکلی جارہی ہے اور اس کی وجہ سے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے ہیں ۔ پورامنظر اس تگ وتاز سے بھرا ہوا ہے ، موسلا دھار بارش ، تاریکیاں ، کڑک اور چمک ، خوفزدہ اور پریشان مسافر جو ڈرتے ڈرتے کچھ قدم آگے بڑھاتے ہیں اور اندھیرا آتے ہی رک جاتے ہیں ۔ اس پورے منظر سے قرآن کریم یہ مثبت تاثر دینا چاہتا ہے کہ منافقین کسی طرح قلق و اضطراب ، حیرانی و پریشانی ، گمراہی وسرگردانی کا شکار ہیں ۔ ادھر مومنین سے ملتے ہیں ۔ ادھر اپنے شیاطین سے بھی ان کی ملاقات ہے ۔ ادھر اقرار حق ہے تو ایک لحظہ بعد انکار اور سرکشی ہے ۔ وہ نور اور ہدایت کے متلاشی ہیں ۔ لیکن وہ عملاً اندھیروں اور گمراہیوں میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ یہ ایک انتہائی محسوس تمثیل اور منظر ہے لیکن منافقین کی خفیہ ترین نفسیاتی صورتحال کو آئینہ دکھارہا ہے۔ شعوری صورتحال کو مجسم شکل میں ظاہر کررہا ہے ۔ یہ قرآن مجید کا مخصوص اور عجیب اسلوب بیان ہے ۔ قرآن کرین نفسیاتی اور الجھی ہوئیی ذہنی کیفیات کو اس طرح مخصوص انداز میں بیان کرتا ہے کہ وہ مجسم شکل میں آنکھوں کے سامنے کھڑی ہوئی نظر آتی ہیں ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ان دو آیتوں میں منافقین کی دوسری مثال پیش فرمائی جیسے تیز بارش ہو، اندھیریاں چھائی ہوئی ہوں، گرج بھی ہو اور بجلی کی چمک بھی ہو موت کا سامنا ہو۔ جو لوگ وہاں موجود ہوں کڑک کی آواز سے خوف زدہ ہو رہے ہیں اور ڈر رہے ہیں کہ ابھی موت آجائے گی۔ کڑک کی آواز کی وجہ سے کانوں میں انگلیاں دیئے ہوئے ہیں۔ سخت بجلی ان کی آنکھوں کی روشنی سلب کرنے کو ہے اسی حیرانی اور پریشانی میں کھڑے کھڑے جب ذرا بجلی چمکتی ہے تو اس کی روشنی میں ایک دو قدم چل لیتے ہیں اور جب اندھیرا چھا جاتا ہے تو حیران سرگرداں کھڑے رہ جاتے ہیں۔ منافقوں کی یہی حالت ہے جب غلبہ اسلام کو دیکھتے ہیں اور اس کا نور پھیلتا ہوا نظر آتا ہے تو اس کی طرف بڑھنے لگتے ہیں پھر جب دنیا کی محبت زور پکڑتی ہے اور دنیاوی فائدے کفر اختیار کئے رہنے میں نظر آتے ہیں تو کھڑے کے کھڑے رہ جاتے ہیں یعنی ایمان کی طرف بڑھنے سے رک جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے علم وقدرت سے سب کا احاطہ کئے ہوئے ہے اس کی طرف بڑھنا اور اس کا دین قبول کرنا لازم ہے۔ وہ چاہے تو سننے اور دیکھنے کی ساری قوتیں ختم فرما دے اور بلاشبہ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ مفسر بیضاوی لکھتے ہیں کہ منافقین کو اصحاب صیب (بارش والوں) سے تشبیہ دی اور ان کے (ظاہری) ایمان کو جو کفر اور دھوکے بازی کے ساتھ ملا ہوا تھا ایسی بارش سے تشبیہ دی جس میں اندھریاں ہوں، اور گرج ہو اور بجلی ہو۔ یہ تشبیہ اس اعتبار سے ہے کہ بارش اگرچہ فی نفسہ نافع ہے لیکن جب مذکورہ صورت میں بارش نازل ہوئی تو اس کا نفع ضرر سے بدل گیا اور منافقین نے جو نفاق اس لیے اختیار کیا کہ مومنین کی طرف سے جو تکالیف پہنچنے والی ہوں اور کھلے کافروں کی طرف سے جو تکالیف پہنچتی ہوں ان سے بچاؤ ہوجائے ان کی اس منافقت کو کانوں میں انگلیاں دینے سے تشبیہ دی جیسے کوئی شخص بجلیوں کی کڑک سے اپنے کانوں میں انگلیاں دے رہا ہو اور موت سے ڈر رہا ہو تو جس طرح کانوں میں انگلیاں دینے سے اللہ تعالیٰ کے قضا و قدر کے فیصلے کو نہیں ٹالا جاسکتا اس طرح سے منافقت اختیار کرنے سے مصائب و آلام سے حفاظت نہیں ہوسکتی۔ اور شدت الامر کی وجہ سے جو ان کی حیرانی اور یہ پریشانی تھی کہ کیا کریں اور کیا نہ کریں اسے بجلی سے تشبیہ دی کہ کوئی موقع پاتے ہیں تو ذرا اپنے مقاصد میں آگے بڑھ جاتے ہیں مگر ساتھ ہی یہ خوف لگا ہوا ہے کہ بجلی ان کی آنکھیں نہ اچک لے۔ لہٰذا چند قدم چلتے ہیں پھر جب بجلی کی چمک ختم ہوجاتی ہے تو بلا حس و حرکت کھڑے کے کھڑے رہ جاتے ہیں۔ پھر دوسری طرح سے بھی اس تشبیہ کی تقریر کی ہے ( راجع البیضاوی ج ١ ص ٣٩) ۔ بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ پہلی مثال ان منافقوں کے بارے میں پیش فرمائی ہے جو بہت مضبوطی کے ساتھ کفر پر جمے ہوئے تھے۔ ان کے بارے میں فرمایا : (وَ تَرَکَھُمْ فِیْ ظُلُمٰتٍ لَّا یُبْصَرُوْنَ ) اور دوسری مثال ان منافقوں کے بارے میں ہے جن کو اسلام کے بارے میں تردد تھا کبھی اس کی حقانیت دل میں آتی تو اس کی طرف مائل ہونے لگتے اور جب دنیاوی اغراض سامنے آتیں اور دنیا کی محبت زور پکڑ لیتی تو وہ میلان ختم ہوجاتا تھا اور کفر ہی پر جمے رہ جاتے تھے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

40 ۔ مثال فریق ثالث یعنی منافقین۔ اَوْ کَصَیِّبٍ پہلی تفسیر کے مطابق یہ منافقین کی دوسری مثال ہے اور اَوْ تخییر کے لیے ہے اور حضرت شیخ (رح) کی تفسیر کے مطابق اَوْ تنویع کیلئے ہے۔ اور یہ منافقین کے حال کی واحد تمثیل ہے اور پھر اس تمثیل کی دو شقیں ہیں ایک وَاللّٰهُ مُحِيْطٌۢ بِالْكٰفِرِيْنَ تک اور دوسری یَکَادُ الْبَرْقُ سے آخر رکوع تک۔ اور صَیِّبٌ سے پہلے لفظ ذوی یا اصحاب محذوف ہے ای کا صحاب صیب (معالم ص 31 ج 1) یعنی منافقون کی مثال ان لوگوں جیسی ہے جو شدید بارش میں گھر جائیں اور صَیِّب کے معنی موسلا دھار بارش کے ہیں۔ 41 ۔ سماء ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اوپر کی جانب ہو اسماء کل ما علاک فاظلک (قرطبی ص 216 ج 1) اور یہاں سماء سے مراد بادل ہیں۔ ای من السحاب (معالم ص 31 ج 1) ۔ 42 ۔ یجعلون اصابعہم۔ فیہ اندماج ای فی ذلک الموضع رجال قاعدون او لفظۃ ذوی محذوفۃ قبل صیب۔ یجعلون الخ ظلمات اور رعد سے متعلق ہے اور حَذَرَ الْمَوْت۔ یَجْعَلُوْنَ کا مفعول لہ ہے جو اس فعل کی علت بیان کر رہا ہے یعنی اس ڈر سے کہ کہیں صواعق کی گراجدار آواز سے وہ ہلاک نہ ہوجائیں وہ کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے ہیں تاکہ وہ صواعق کی آواز سن ہی نہ سکیں۔ اس تمثیل میں صیب سے مراد ایمان یا قرآن ہے۔ ظلمات اور رعد سے وہ شدائد اور تکالیف مراد ہیں جو ایمان لانے کے بعد برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ یا اس سے قرآنی وعیدیں اور تخویفیں مراد ہیں اور برق سے ایمان کے دنیوی فوائد یا قرآن میں رشد وہدایت کا ذکر مراد ہے اور صواعق سے مراد شرعی تکالیف یا قرآن کی وعد وعید کی آیات ہیں (کبیر ص 294 ج 1، معالم ص 32 ج 1، قرطبی ص 219 ج 1 وغیرہ) منافقین کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے تھے تاکہ قرآن نہ سن سکیں کیونکہ انہیں خطرہ تھا کہ قرآن سننے سے کہیں ان کے دلوں میں ایمان نہ داخل ہوجائے اور ایمان قبول کرنے کو وہ موت کے مرادف سمجھتے تھے۔ جعلھم اصابعھم فی اذانھم لئلا یسمعوا القران فیؤمنوا بہ وبمحمد (علیہ السلام) وذالک عندھم کفر والکفر موت (قرطبی ص 218 ج 1)

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi