Perfect Tense | Imperfect Tense | Imperative | Active Participle | Passive Participle | Noun Form |
صَدَقَ |
يَصْدُقُ |
اُصْدُقْ |
صَادِق |
مَصْدُوْق |
صِدْق |
اَلصِّدقُ : یہ اَلکِذْبُ کی ضد ہے ۔ اصل میں یہ دو نو ں قول کے متعلق استعما ل ہو تے ہیں خوا ہ اس کا تعلق زما نہ ما ضی کے سا تھ ہو یا مستقبل کے وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو الغرض با لذا ت یہ قول ہی کے متعلق استعما ل ہو تے ہیں ۔ پھر قو ل میں بھی صرف خبر کے لیے آتے ہیں اور اس کے ما سوا دیگر اصنا فِ کلا م میں استعما ل نہیں ہو تے ۔ اسی لیے ار شا د ہے : (وَ مَنۡ اَصۡدَقُ مِنَ اللّٰہِ قِیۡلًا) (۴۔۱۲۲)اور خدا سے زیا دہ با ت کا سچا کو ن ہو سکتا ہے ۔ (اِنَّہٗ کَانَ صَادِقَ الۡوَعۡدِ)(۱۹۔۵۴)وہ وعدے کے سچے تھے ۔ مگر کبھی بالغرض یعنی ضمنی طور پر دیگر اصناف کلا م مثلاًاستفہا م امردعا وغیرہ کے لیے بھی آ جا تے ہیں مثلاً: اَزَیْدٌفِی الدَّارِ ؟(کیا زید مکا ن کے اندر مو جو د ہے ؟ ) بطا ہر استہفا م کلا م ہے مگر ضمناً اس میں خبر کے معنی بھی پا ئے جا تے ہیں یعنی یہ کہ متکلم زید کی حالت سے بے خبر ہے اسی طرح وَاسِنِیْ (میرے سا تھ ہمدر دی کیجئے ) اصل میں در خواست ہے مگر ضمناً معنی خبر مفہوم ہو تا ہے یعنی یہ کہ میں ہمدردی کا محتاج ہو ں اسی طرح جب لاَتُؤْ ذِ (مجھے تکلیف مت دو ) کہا جا ئے تو اس کے ضمن میں یہ معنی پا یا جا تا ہے کہ وہ اسے ایذا پہنچا تا ہے ۔ اَ لصِّدْ قُ کے معنی ہیں : دل و زبا ن کی ہم آہنگی اور با ت کا نفس وا قعہ کے مطا بق ہو نا اگر ان دو نوں میں سے کو ئی ایک شرط نہ پا ئی جا ئے تو کا مل صدق با قی نہیں رہتا ۔ ایسی صو رت میں یا تو وہ کلا م صدق کے ساتھ متصف ہی نہیں ہو گی اور یا وہ مختلف حیثیتو ں سے کبھی صِدق اور کبھی کذب کے سا تھ متصف ہو گی ۔ مثلاً : ایک کا فر جب اپنے ضمیر کے خلا ف مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللہِ کہتا ہے تو اسے نفس واقعہ کے مطا بق ہونے کی حیثیت سے صِدق (سچ ) بھی کہہ سکتے ہیں اور اس کے دل و زبا ن کے ہم آہنگ نہ ہو نے کی وجہ سے کِذْبٌ (جھو ڑ بھی کہہ سکتے ہیں چنا نچہ اس دو سری حیثیت سے اللہ نے منافقین کو ان کے اس اقرا ر میں کہ : (نَشۡہَدُ اِنَّکَ لَرَسُوۡلُ اللّٰہِ) (۶۳۔۱) ہم اقرا ر کر تے ہیں کہ آپ اللہ کے پیغمبر ہیں ۔ جھو ڑا قرا ر دیا ہے کیو نکہ واپنے ضمیر کے خلا ف یہ با ت کہہ رہے تھے ۔ اَلصَّدِیقُ : بہت سچ بو لنے وا لا ۔ بعض نے کہا ہے : نہیں بلکہ صِدِیقٌ اسے کہتے ہیں ’’جس نے کبھی جھو ٹ نہ بو لا ہو ‘‘ اور بعض نے کہا ہے : بلکہ صِدِّیقٌ وہ ہے جو سچ کا اس قدر خو گر ہو کہ اس سے جھو ٹ بن ہی نہ آتا ہو ۔ اور بعض کے نزدیک صدیق وہ ہے جو قو ل واعتقا د میں سچا ہو اور پھر اپنی سچا ئی کی صِدِیْقٌ اپنے عمل سے بھی کر دکھا ئے ۔ قرآن پا ک میں ہے ۔ (وَ اذۡکُرۡ فِی الۡکِتٰبِ اِبۡرٰہِیۡمَ ۬ ؕ اِنَّہٗ کَانَ صِدِّیۡقًا نَّبِیًّا) (۱۹۔۴۱) اور کتا ب میں ابرا ہیم علیہ السلا م کو یا د کرو بے شک وہ نہا یت سچے پیغمبر تھے ۔ (وَ اُمُّہٗ صِدِّیۡقَۃٌ) (۵۔۷۵) اور ان کی والدہ (مریم علیھا السلا م) خدا کی ولی تھی ۔ اور آیت : (مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیۡقِیۡنَ وَ الشُّہَدَآءِ) (۴۔۶۹)یعنی انبیا ء اور صدیق اور شہدا ء میں صِدِیْقِیْن سے وہ لو گ مرا د ہیں جو فضیلت میں انبیا ء سے کچھ کم در جہ کے ہو تے ہیں جیسا کہ ہم اپنی کتا ب ’’الذریعۃ الی مکا رم الشریعۃ ‘‘ میں بیا ن کر چکے ہیں ۔ کبھی صدق و کذ ب کا استعما ل ہر اس چیز کے متعلق ہو تا ہے جو عقیدۃ میں ثابت اور مو جو د ہو جیسے صَدَقَ ظَنِی وَکَذَبَ (اس نے میرا گما ن سچ کر دکھا یا یا جھو ٹ کر دکھا یا ) اور کبھی ان کا استعما ل افعا ل جو ارح کے متعلق ہو تا ہے ۔ مثلا ً : کو ئی شخص جنگ میں حق شجا عت ادا کرے اور جو کچھ اور جیسا کہ اس پر وا جب ہو اسے کر دکھا ئے تو ایسے شخص کے متعلق کہا جا تا ہے ۔ صَدَقَ فِی الْقِتَالِ( وہ جنگ میں سچا رہا ) اور اگر اس کے خلا ف کر ے تو کَذَبَ فِی الْقِتَا لِ (یعنی وہ جنگ میں جھو ٹا نکلا )کہا جا تا ہے اسی کے مطابق قرآن پاک میں ہے : (رِجَالٌ صَدَقُوۡا مَا عَاہَدُوا اللّٰہَ عَلَیۡہِ) (۳۳۔۲۳) یعنی ایسے شخص بھی ہیں جنہو ں نے اللہ سے کیے ہو ئے عہد کو اپنے عمل سے سچ کر دکھا یا ۔ اور آیت کریمہ : (لِّیَسۡـَٔلَ الصّٰدِقِیۡنَ عَنۡ صِدۡقِہِمۡ) (۳۳۔۸) کے معنی یہ ہیں کہ زبا ن سے سچ بو لنے والوں سے ان کی عملی سچا ئی کے متعلق دریا فت کر ے ۔ اس میں تنبیہ ہے کہ نجا ت کے لیے زبا ن سے حق کا اعتراف ہی کا فی نہیں ہے جب تک کہ انسا ن عملاً اسے پو را کر نے کی کو شش نہ کر ے ۔ اور آیت کریمہ : (لَقَدۡ صَدَقَ اللّٰہُ رَسُوۡلَہُ الرُّءۡیَا بِالۡحَقِّ) (۴۸۔۲۷) میں صدق فعلی مرا د ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے پیغمبر کی خو اب کو عملاً سچ کر دکھا یا اسی طرح آیت کریمہ : (وَ الَّذِیۡ جَآءَ بِالصِّدۡقِ وَ صَدَّقَ بِہٖۤ ) (۳۹۔۳۳) کے معنی یہ ہیں کہ وہ شخص جو سچا ئی لو گو ں کے پا س لے کر آئے اور پھر اسے اپنے عمل سے بھی سچ کر دکھا یا ۔ نیز ہر وہ فعل جو ظا ہر و با طن کے اعتبا ر سے فضیلت کے ساتھ متصف ہو اسے صدق سے تعبیر کیا جا تا ہے اس بنا پر ایسے فعل کو صدق کی طرف مضا ف کر دیا جا تا ہے ۔ جیسے فر ما یا : (فِیۡ مَقۡعَدِ صِدۡقٍ عِنۡدَ مَلِیۡکٍ مُّقۡتَدِرٍ ) (۵۴۔۵۵) یعنی سچے مقام میں ہر طرح کی قد رت رکھنے والے با دشا ہ کی با رگا ہ میں ۔ (اَنَّ لَہُمۡ قَدَمَ صِدۡقٍ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ)(۱۰۔۲)کہ ان کے پر وردگا ر کے ہا ں ا ن کا سچا در جہ ہے ۔ (اَدۡخِلۡنِیۡ مُدۡخَلَ صِدۡقٍ وَّ اَخۡرِجۡنِیۡ مُخۡرَجَ صِدۡقٍ )(۱۷۔۸۰) ( اور کہو کہ اے پر وردگا ر ) مجھے (مدینے ) اچھی طرح داخل کی جئواور مکے سے اچھی طرح نکا لیو ۔ اور آیت : (وَ اجۡعَلۡ لِّیۡ لِسَانَ صِدۡقٍ فِی الۡاٰخِرِیۡنَ ) (۲۶۔۸۴) اور پچھلے لو گو ں میں میرا ذکر نیک (جا ری ) کر ۔ میں یہ دعا کی ہے کہ اللہ! مجھے ایسا صالح بنا دے کہ میری مو ت کے بعد جب لو گ میری تعریف کریں تو ان کی تعریف غلط نہ ہو بلکہ ایسی ہو جیسا کہ شاعر نے کہا (1) ہے ۔ (۲۷۳)اَذَا نَحْنُ اثْنَیْنَا عَلَیْکَ بِصَالِح، فَاَنْتَ الَّذِی نُثْنِیْ وَفَو قَ الَّذِی نُثنِیْ جب ہم کسی بھی اچھے کا م پر تیری تعریف کر تے ہیں تو تم واقعی اس تعریف کے اہل نکلتے ہو بلکہ ہما ری تعریف سے بھی تم بڑھ کر ہو ۔ اور صَدَ قَ کبھی دو مفعولو ں کی طرف متعدی ہو تا ہے ۔ جیسے فر مایا : (وَلَقَدْ صَدَقَکُمُ اللہُ وَعْدَہٗ ) (۳۔۱۵۲) اور خدا نے اپنا وعدہ سچا کر دیا ہے ۔ صَدَّقْتُ فُلَا نًا کے معنی ہیں کسی کو سچا ئی کی طرف منسو ب کر نا اور اَصَدَقْتُہٗ کے معنی ہیں کسی کو سچا ئی کی طرف منسو ب کر نا اور اَصَدَقْتُہٗ کے معنی سچا پا نے کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دونوں فعل ہم معنی ہیں اور ان ہر دو معنی میں استعما ل ہو تے ہیں ۔ قرآن پا ک میں ہے : ّ(وَلَمَّا جَآئَ ھُمْ رَسُو لٌ مِّنْ عِندِ اللہِ مُصَدِّ قٌ لِّمَا مَعَھُم ) (۲۔۱۰۱) اور جب ان کے پا س خدا کی طرف سے پیغمبر (آخر الزما ں ) آئے اور وہ ان کی آسما نی کتا ب کی بھی تصدیق کرتے ہیں ۔ (وَقَفَّیْنَا عَلیٰٓ اٰ ثَا رِ ھِم بِعیسَی ابْنِ مَرْیَمَ مُصَدِّقًا لِّما بَیْنَ یَدَیْہِ ) (۵۔۴۶) اور ان پیغمبروں کے بعد انہی کے قدموں پر ہم نے عیسیٰ بن مر یم کو بھیجا ۔ جو اپنے سے پہلے (کی ) کتا ب (توراۃ) کی تصدیق کر تے تھے۔ اَلتَّصْدِیْقَ کا لفظ ہر اس چیز کے متعلق استعما ل ہو تا ہے ۔ جس میں کسی چیز کی تحقیق پا ئی جا ئے محا ورہ ہے ۔ صَدَّ قَنِیْ فِعْلُہٗ وکِتَا بُہٗ : اس نے اپنے عمل یا کتا ب سے میری تصدیق کر دی ۔ قر آ ن مجید میں ہے : (وَلَمَّا جَآئَ ھُمْ کِتَابٌ مِّن عِنْدِ اللہ ِ مُصَدِقٌ لِّما مَعَھُم ) (۲۔۸۹) اور جب خدا کے ہا ں سے ان کے پا س کتاب آ ئی جو ان کی (آسما نی ) کتاب کی بھی تصدیق کر تی ہے ۔ (نَزَّلَ عَلَیْکَ بِالْحَقِّ مُصَدِّ قًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیہِ) (۳۔۳) اس نے (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) تم پر سچی کتاب نا زل کی جو پہلی آسما نی کتا بو ں کی تصدیق کر تی ہے ۔ (وَھٰذَا کِتَابٌ مُّصَدِّقٌ لِّسَا نٍا عَرَبِیّاً)(۳۔۳) اور یہ کتا ب عربی زبا ن میں ہے اس کی تصدیق کر تی ہے ۔ یعنی پہلی کتا بو ں کی تصدیق کر نے والی ہے یہاں لِسَانًا منصو ب علی الحا ل ہے مثل مشہو ر ہے۔(2)(مثل) صَدَقَن،یْ سِنَّ بَکْرِہٖ یعنی اس نے اپنے دل کی با ت صحیح طور پر بتا دی ۔ اَلصَّدَاقَۃُ کے معنی سچی دو ستی کے ہیں اور یہ انسا ن کے سا تھ مخصوص ہے ۔ اس کے علا وہ کسی اور کے لیے استعما ل نہیں ہو تا ۔ قر آن پا ک میں ہے : (فَمَا لَنَا مِنْ شَا فِعِیْنَ وَلَا صَدِیْقٍ حَمِیْمٍ)(۲۶۔۱۰۱) (تو آج ) نہ کوئی ہما را سفا رش کر نے والا ہے اور نہ گر م جو ش دو ست ۔ اس میں آیت کریمہ : (اَلۡاَخِلَّآءُ یَوۡمَئِذٍۭ بَعۡضُہُمۡ لِبَعۡضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الۡمُتَّقِیۡنَ ) (۴۳۔۶۷) جو (آپس میں ) دو ست (ہیں ) ، اس رو ز ایک دو سرے کے دشمن ہو ں گے ۔ کے مضمو ن کی طرف اشا رہ ہے ۔ اَلصَّدَقَۃُ: (خیرا ت ) ہر وہ چیز جو انسا ن اپنے ما ل سے قر ب الہٰی حاصل کر نے کے لیے دیتا ہے اور یہی معنی زکوٰ ۃ کے ہیں مگر صَدَقَۃٌ اسے کہتے ہیں جو وا جب نہ ہو اور زکوٰ اۃ وہ ہے جس کا دینا وا جب ہو ۔ اور کبھی واجب کو بھی صَدَ قَۃٌ سے مو سو م کر دیا جا تا ہے ۔ جب کہ خیرا ت دینے ولا اس سے صدق یعنی صلا ح تقویٰ کا قصد کر ے ۔ قرآ ن پا ک میں ہے : (خُدْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَ قَۃً )(۹۔۱۰۳) ان کے ما ل میں سے زکو ۃ قبو ل کر لو ۔ (اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلۡفُقَرَآءِ ) (۹:۶۰) صدقا ت (یعنی زکوٰ ۃ و خیرا ت ) تو مفلسو ں کا حق ہے ۔ صَدَّقَ وَتَصَدَّقَ کے معنی صدقہ دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : (فَلَا صَدَّقَ وَ لَا صَلّٰی ) (۷۵۔۳۱) تو اس (نا عا قبت اندیش ) نے نہ تو زکوٰ ۃ دی اور نہ نما ز پڑھی ۔ (اِنَّ اللّٰہَ یَجۡزِی الۡمُتَصَدِّقِیۡنَ) (۱۲۔۸۸) کہ خدا خیرا ت کر نے وا لو ں کو ثواب دیتا ہے ۔ (اِنَّ الۡمُصَّدِّقِیۡنَ وَ الۡمُصَّدِّقٰتِ) (۵۷۔ ۱۸) جو لو گ خیرا ت کر نے والے ہیں مرد بھی اور عورتیں بھی ۔ اسی طرح اور بھی بہت سی آیا ت میں اور تَصَدَّ قَ بِہٖ کے معنی اپنے حق سے دست برا در ہوجا نا بھی آتے ہیں ۔ جیسے فر ما یا : (وَ الۡجُرُوۡحَ قِصَاصٌ ؕ فَمَنۡ تَصَدَّقَ بِہٖ فَہُوَ کَفَّارَۃٌ لَّہٗ ) ( ۵۔۴۵) اور سب زخموں کا اسی طرح بدلہ ہے لیکن جو شخص بدلہ معا ف کر دے وہ اس کے لیے کفارہ ہو گا ۔ اور آیت کریمہ : (وَ اِنۡ کَانَ ذُوۡ عُسۡرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ اِلٰی مَیۡسَرَۃٍ ؕ وَ اَنۡ تَصَدَّقُوۡا خَیۡرٌ لَّکُمۡ ) (۲۔۲۸۰) اور اگر قر ض لینے والا تنگ دست ہو تو اسے کشائش کے حاصل ہو نے تک مہلت دو اور اگر زر قر ض بخش ہی دو ، تو تمہارے لیے زیا دہ اچھا ہے ۔ میں مُعْسِرٌ یعنی تنگ دست کو معا ف کر دینے کو صَدَقَۃٌ کے قا ئم مقا م قرا ر دیا ہے اور اسی معنی میں آنحضرت سے مر وی ہے ۔ (3) (۲) ((ماَتَا کُلُہٗ العَافِیَۃُ فَھُوَ صَدَقَۃٌ )) کہ جو کھیتی جا نور کھا جا ئیں وہ بھی صدقہ ہے ۔ اسی بنا پر آیت کریمہ : (وَّ دِیَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ اِلٰۤی اَہۡلِہٖۤ اِلَّاۤ اَنۡ یَّصَّدَّقُوۡا ) (۴۔۹۲) اور دوسرے مقتو ل کے وارثوں کو خو ن بہا دے ہا ں اگر وہ معاف کر دیں ۔ میں معا ف کر دینے کو صدقہ قرا دیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : (فَقَدِّمُوۡا بَیۡنَ یَدَیۡ نَجۡوٰىکُمۡ صَدَقَۃً) (۵۸۔۱۲) تو با ت کہنے سے پہلے (مسا کین کو ) کچھ خیرا ت دے دیا کر و ۔ (ءَاَشۡفَقۡتُمۡ اَنۡ تُقَدِّمُوۡا بَیۡنَ یَدَیۡ نَجۡوٰىکُمۡ صَدَقٰتٍ) (۵۸۔۱۳) کیا تم اس سے کہ پیغمبر کے کا ن میں کوئی با ت کہنے سے پہلے خیرا ت دیا کرو ڈرگئے ہو ۔ میں صحا بہ کو حکم دیا گیا تھا کہ جو شخص آنحضرت سے سر گو شی کر نا چاہتا ہے اسے چا ہیے کہ سر گو شی سے پہلے حسب تو فیق کچھ نذرا نہ پیش کر ے جس کی قر آن نے کو ئی مقدار متعین نہیں کی تھی اور آیت کریمہ : (رَبِّ لَوۡ لَاۤ اَخَّرۡتَنِیۡۤ اِلٰۤی اَجَلٍ قَرِیۡبٍ ۙ فَاَصَّدَّقَ وَ اَکُنۡ مِّنَ الصّٰلِحِیۡنَ ) (۶۳۔۱۰) اے میرے پر ور دگا ر !تو نے مجھے تھو ڑی سے اور مہلت کیو ں نہ دی تا کہ میں خیرا ت کر لیتا اور نیک لو گو ں میں داخل ہو جا تا ۔میں اَصَّدَّقَ صِد قٍ سے بھی ہو سکتا ہے اور صَدَ قَۃٌ سے بھی ۔ صَدَاقُ الْمَر ئَ ۃِ (بفتحہ صادو کسر آں) وَصَدَ قَتُھَا (4)کے معنی عو رتوں کے مہر کے ہیں اور اَصَدَقْتُھَا کے معنی ہیں : میں نے اس کا مہر مقرر کیا ۔ قرآن پاک میں ہے : (وَ اٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِہِنَّ نِحۡلَۃً) (۴۔۴) اور عورتوں کو ان کے مہر خو شی سے دے دیا کرو۔
Surah:2Verse:23 |
سچے
truthful
|
|
Surah:2Verse:31 |
سچے
truthful"
|
|
Surah:2Verse:94 |
سچے
truthful"
|
|
Surah:2Verse:111 |
سچے
[those who are] truthful"
|
|
Surah:3Verse:17 |
اور سچے۔ سچ بولنے والے
and the truthful
|
|
Surah:3Verse:93 |
سچے
truthful"
|
|
Surah:3Verse:168 |
سچے
truthful
|
|
Surah:3Verse:183 |
سچے
truthful
|
|
Surah:5Verse:119 |
سچوں کو
the truthful
|
|
Surah:6Verse:40 |
سچے
truthful?"
|