DeterminerNoun

ٱلْوَارِثِ

the heirs

وارث کے ہے (ذمہ داری)

Verb Form 1
Perfect Tense Imperfect Tense Imperative Active Participle Passive Participle Noun Form
وَرَثَ
يَرِثُ
رِثْ
وَارِثْ
مَوْرُوْث
وِرْث/وِرَاثَة
Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلْوَرَاثَۃُ وَاْلاِرْثُ کے معنی عقد شرعی۔یا جو عقد کے قائم مقام ہے کے بغیر کسی چیز کے ایک شخص کی ملکیت سے نکل کر دوسرے کی ملکیت میں چلے جانا کے ہیں اسی سے میت کی جانب سے جو مال ورثاء کی طرف منتقل ہوتا ہے اسے اِرْثٌ تُرَاثٌ اور مِیْرَاثٌ کہا جاتا ہے اور تُراث اصل میں وُراث ہے داؤ (مضموم) کے شروع میں آنے کی وجہ سے اسے تا سے تبدیل کرلیا ہے۔چنانچہ قرآن پاک میں ہے:۔ (وَ تَاۡکُلُوۡنَ التُّرَاثَ اَکۡلًا لَّمًّا) (۸۹۔۱۹) اور میراث کے مال کو سمیٹ کر کھاجاتے ہو۔اور حج کے موقع پر آنحضرتﷺ نے فرمایا: (1) (۱۳۸) (اُثْبُتُوْاعَلٰی مَشَاعِرِکُمْ فَاِنَّکُمْ عَلٰی اِرْثِ اَبِیْکُمْ ) کہ اپنے مشاعر (مواضع نسک) پر ٹھہرے رہو تم اپنے باپ (ابراہیم علیہ السلام) کے ورثہ پر ہو۔تو یہاں ارث کے معنی اصل اور بقیہ نشان کے ہیں۔شاعر نے کہا ہے (2) (۴۴۶) (فَیَنْظُرْفِیْ صُحُفٍ کَالرِیَا فِیْھِنَّ اِرْثُ کِتَابٍ مُحِیَ وہ صحیفوں میں تانت باندھنے والے کی طرح غور کرتا ہے۔جن میں مٹی ہوئی کتاب کا بقیہ ہے اور محاورہ میں (وُرِثْتُ مَالًاعَنْ زَیْدٍ وَّوَرِثْتُ زَیْدًا (میں زید کا وارث بنا) دونوں طرح بولا جاتا ہے۔چنانچہ قرآن پاک میں ہے:۔ (وَ وَرِثَ سُلَیۡمٰنُ دَاوٗدَ ) (۲۷۔۱۶) اور سلیمان داؤد علیہ السلام کے قائم مقام ہوئے۔ (وَّوَرِثَہُ اَبَوٰہُ) (۴۔۱۱) اور صرف ماں باپ ہی اس کے وارث ہوں۔ (وَ عَلَی الۡوَارِثِ مِثۡلُ ذٰلِکَ) (۲۔۲۳۳) اور اسی طرح نان و نفقہ بچے کے وارث کے ذمہ ہے۔ (یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا یَحِلُّ لَکُمۡ اَنۡ تَرِثُوا النِّسَآءَ کَرۡہًا) (۴۔۱۹) مومنو!تم کو جائز نہیں ہے کہ زبردستی عورتوں کے وارث بن جاؤ۔اور اَوْرَثَنِی الْمَیِّتُ کَذَا کے معنی ہیں میت نے مجھے اتنے مال کا وارث بنایا۔چنانچہ قرآن پاک میں ہے:۔ (وَ اِنۡ کَانَ رَجُلٌ یُّوۡرَثُ کَلٰلَۃً) (۴۔۱۲) اور اگر ایسے مرد یا عورت کی میراث ہو جس کا نہ باپ ہو نہ بیٹا۔اور اَوْرَثَنِی اﷲَ کَذَا کے معنی کسی چیز کا وارث بنادینے کے ہیں۔چنانچہ قرآن پاک میں ہے۔ (وَ اَوۡرَثۡنَا بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ الۡکِتٰبَ ) (۴۰۔۵۳) اور بنی اسرائیل کو کتاب کا وارث بنایا۔ (وَاَوْرَثْنَاھَا قَوْمًا آخَرِیْنَ) (۴۴۔۲۸) اور ہم نے دوسرے لوگوں کو ان کا مالک بنادیا۔ (وَاَوْرَثکُمْ اَرْضَھُمْ) (۳۳۔۲۷) اور ان کی زمین کا تم کو وارث بنایا۔ (وَاَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِیْنَ) (۷۔۱۳۶) اور جو لوگ (کمزور سمجھے جاتے تھے) ان کو وارث کردیا۔ہر وہ چیز جو بلا محنت و مشقت حاصل ہوجائے اس کے متعلق وَرَثَ کَذَا کہتے ہیں اور جب کسی خوشگوار چیز بطور عطیہ دی جائے تو اُوْرِثَ کہا جاتا ہے۔چنانچہ قرآن پاک میں ہے۔ (وَ نُوۡدُوۡۤا اَنۡ تِلۡکُمُ الۡجَنَّۃُ اُوۡرِثۡتُمُوۡہَا) (۴۲۔۷۲) اور یہ جنت جس کے تم مال کردیئے گئے ہو۔ (اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡوٰرِثُوۡنَ الَّذِیۡنَ یَرِثُوۡنَ ) (۲۳۔۱۰،۱۱) یہی لوگ میراث حاصل کرنے والے ہیں (یعنی جو میراث حاصل کریں گے) ۔اور آیت:۔ (وَ یَرِثُ مِنۡ اٰلِ یَعۡقُوۡبَ) (۱۹۔۶) اور اولاد یعقوب کی میراث کا مالک ہو۔میں وراثت سے مراد مال کا ورثہ نہیں ہے بلکہ علم و فضل اور نبوت کا ورثہ مراد ہے کیونکہ دنیا کے مال کی تو انبیاء کرام کی نظر میں کچھ قدروقیمت ہی نہیں ہوتی کہ وہ اس کی فکر کریں بلکہ وہ نہ مال کو جمع کرتے ہیں اور نہ ہی اس کے مالک بنتے ہیں۔چنانچہ آنحضرتﷺ فرماتے ہیں۔ (3) (۱۳۹) (اِنَّا مَعَاشِرَ الْاَنْبِیَائِ لَا نُوْرَثُ مَا تَرَکْنَاہ صَدَقَۃٌ ) (ہم انبیاء کا گروہ جو چھوڑجائیں وہ صدقہ ہوتا ہے اور ہمارا کوئی وارث نہیں بن سکتا۔تو یہاں مَعَاشِرَ الْاَنْبِیَائِ منصوب عَلَی الْاَخْتِصَاصِ ہے اور تَرَکْنَاہُ سے مراد علم ہے اور اس صدقہ میں تمام امت برابر کے شریک ہے اور جو حدیث میں آیا ہے (4) (۱۴۰) (اَلْعُلَمَائُ وَرَثَۃُ الْاَنْبِیَائِ) کہ علماء کرام انبیاء عظام کے وارث ہیں تو اس سے مراد بھی ورثہ علم ہی ہے اور اس پر ورثہ کا اطلاق اس لئے ہوا ہے کہ کسی احسان اور معاوضہ کے بغیر ملتا ہے اور آنحضرتﷺ نے حضرت علیؑ کو فرمایا (5) (۱۴۱) (اَنْتَ اَخِیْ وَوَارِنِیْ) تو میرا بھائی اور وارث ہے لیکن ساتھ ہی فرما دیا وَمَااَرِتُکَ کہ میں تیرا وارث نہیں ہوں گا اسی طرح فرمایا (6) (۱۴۲) ۔ (مَاوَرَّثَتِ الْاَنْبِیَائُ قَیْلِیْ کِتَابَ اﷲِ وَسُنَّتِیْ) کہ مجھ سے پہلے انبیاء کا ورثہ کتاب اﷲ اور میری سنت ہے اور اﷲ تعالیٰ نے خود اپنے آپ کو وارث کہا ہے کیونکہ آخرکار تمام اشیاء اسی کی مالک میں جانے والی ہیں چنانچہ ارشاد ہے۔ (وَ لِلّٰہِ مِیۡرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ) (۳۔۱۸۰) اور آسمانوں اور زمین کا وارث خدا ہی ہے۔اور فرمایا:۔ (وَنَحْنُ الْوٰرِثُوْنَ) (۱۵۔۲۳) اور ہم ہی (سب کے) وارث (مالک) ہیں۔اور اﷲ تعالیٰ کے وارث ہونے کے متعلق (یہ بھی) امروہی ہے کہ اﷲ تعالیٰ (قیامت کے دن) لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ (کہ آج کس کی بادشاہت ہے) کے ساتھ منادی فرمائیں گے تو جواب میں کہا جائے گا۔ (لِلَّہِ الْوَاحِدِ الْقَھَّارِ) (۴۰۔۱۶) خدا کی جو اکیلا اور غالب ہے۔ (وَرِثْتُ عِلْمًا مِنْ فُلَانٍ) کے معنی کسی سے علم حاصل کرنے کے ہیں۔قرآن پاک میں ہے:۔ (اُوۡرِثُوا الۡکِتٰبَ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ ) (۴۲۔۱۴) (اور جو لوگ) ان کے بعد خدا کی کتاب کے وارث ہوئے۔ (ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْکِتٰبَ) (۳۵۔۱۳۲) پھر ہم نے ان لوگوں کو کتاب کا وارث ٹھہرایا۔ (یَرِثُہَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوۡنَ) (۲۱۔۱۰۵) میرے نیکوکار بندے ملک کے وارث ہوں گے۔اور وراثت حقیقی تو یہ ہوتی ہے کہ انسان کو ایسی چیز حاصل ہوجائے جس کے متعلق اس پر نہ کوئی محاسبہ ہو اور نہ کسی قسم کی ذمہ داری عائد ہو اور اﷲ تعالیٰ کے نیک بندے چونکہ دنیا سے بوقت ضرورت قدر کفایت سے زیادہ نہیں لیتے اور پھر اسے جائز طریقہ سے حاصل کرتے ہیں تو جو شخص دنیا کو ان شرائط کے ماتحت حاصل کرے گا اس پر کسی قسم کا محاسبہ یا عقاب نہیں ہوگا بلکہ وہ مال اس کے لئے عفو و صفو ہوگا جیسا کہ حدیث میں ہے۔ (۱۴۲) (مَنْ حَاسَبَ نَفْسَہ فِی الدُّنْیَا لَمْ یُحَاسِبْہُ اﷲُ فِیْ الْاٰخِرَۃِ) کہ جو شخص دنیا میں اپنے نفس کا محاسبہ کرلے گا آخرت میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اس پر کسی قسم کا محاسبہ نہیں ہوگا۔

Lemma/Derivative

7 Results
وارِث
Surah:2
Verse:233
وارث کے ہے (ذمہ داری)
the heirs
Surah:15
Verse:23
وارث ہیں
(are) the Inheritors
Surah:21
Verse:89
وارث ہے
(of) the inheritors"
Surah:23
Verse:10
جو وارث ہونے والے ہیں
(are) the inheritors
Surah:26
Verse:85
وارثوں
(the) inheritors
Surah:28
Verse:5
وارث
the inheritors
Surah:28
Verse:58
ہی وارث ہونے والے
(are) the inheritors