Perfect Tense | Imperfect Tense | Imperative | Active Participle | Passive Participle | Noun Form |
--- |
--- |
--- |
--- |
--- |
--- |
اَلجَنَّ۔ (ن) کے اصل معنی کسی چیز کو حواس سے پوشیدہ کرنے کے ہیں، چنانچہ محاورہ ہے: جَنَّہٗ اللَّیْلُ وَاَجَنَّہٗ اسے رات نے چھپا لیا۔ جُنَّ عَلَیْہِ: اسے جنون ہوگیا۔ پس جَنَّہٗ کے معنی کسی چیز کو چھپانے کے ہیں، اور اَجَنَّہٗ کے معنی چھپانے کے لئے کوئی چیز دینے کے ہں، جیسے: قَبَرْتُہٗ وَاَقْبَرْتُہٗ وَسَقَیْتُہُ وَاَسْقَیْتُہٗ جَنَّ عَلَیْہِ کَذَا۔ کسی چیز نے اسے چھپا لیا۔ قرآن پاک میں ہے: (فَلَمَّا جَنَّ عَلَیۡہِ الَّیۡلُ رَاٰ کَوۡکَبًا ) (۶:۷۶) جب رات نے ان کو (پردۂ تاریکی سے) چھپا دیا تو انہوں نے ایک ستارہ دیکھا۔ اَلْجَنَانُ: دل کیونکہ وہ حواس سے مستور ہوتا ہے۔ اَلْمِجَنُّ وَالْمِجَنَّۃُ: ڈھال۔ کیونکہ اس سے انسان اپنے آپ کو بچاتا اور چھپاتا ہے۔ قرآن پاک میں ہے: (اِتَّخَذُوۡۤا اَیۡمَانَہُمۡ جُنَّۃً ) (۶۳:۲) انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنارکھا ہے۔ اور حدیث میں ہے (1) (۶۵) اَلصَّومُ جُنَّۃٌ: کہ روزہ ڈھال ہے۔ اَلْجَنَّۃُ: ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کی وجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے۔ قرآن پاک میں ہے۔ (لَقَدۡ کَانَ لِسَبَاٍ فِیۡ مَسۡکَنِہِمۡ اٰیَۃٌ ۚ جَنَّتٰنِ عَنۡ یَّمِیۡنٍ وَّ شِمَالٍ) (۳۴:۱۵) (اہل) سبا کے لئے ان کے مقام بود و باش میں ایک نشانی تھی (یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور (ایک) بائیں طرف۔ (وَ لَوۡ لَاۤ اِذۡ دَخَلۡتَ جَنَّتَکَ ) (۱۸:۳۹) اور (بھلا) جب تم اپنے باغ میں داخل ہوئے تو … کیوں نہ۔ بعض نے کہا ہے کہ ان گنجان درختوں کو بھی جنت کہا جاتا ہے جو زمین کو چھپائے ہوئے ہوں اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے(2) (بسیط) (۹۵) مِنَ النَّوَاضح تَسْقِیْ جَنَّۃً سَحِقًا۔ اور نخلستان کو سیراب کرنے والی سدھائی ہوئی اونٹنی پر رکھے ہوتے ہیں۔ اور بہشت کو جنت یا تو دنیوی باغات سے تشبیہ دے کر کہا گیا ے، اگرچہ دونوں میں بون بعید ہے اور یا اس لئے کہ بہشت کی نعمتیں ہم سے مخفی رکھی گئی ہیں، جیساکہ فرمایا: (فلا تعلم …… قرۃ اعین) (۳۲:۱۷) کوئی نفس نہیں جانتا کہ ان کے لئے کیسی آنکھوں کی ٹھنڈک چھپا رکھی گئی ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ جَنَّاتٍ جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں۔ (3) (۱) جَنَّۃُ الْفِرْدَوْس (۲) جَنَّۃُ عَدْنٍ (۳) جَنَّۃُ النَّعِیْم (۴) دَارُالْخُلْدِ (۵) جَنَّۃُ الْمَاویٰ (۶) دَارُالسَّلَامُ (۷) عِلِّیِّینْ۔ اَلْجَنِیْنُ: بچہ جب تک ماں کے پیٹ میں رہے اسے جَنِیْنٌ کہا جاتا ہے، اس کی جمع اَجِنَّۃٌ آتی ہے۔ قرآن میں ہے: (وَ اِذۡ اَنۡتُمۡ اَجِنَّۃٌ فِیۡ بُطُوۡنِ اُمَّہٰتِکُمۡ) (۵۳:۳۲) اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بچے تھے۔ اور یہ یعنی جنین فعیل بمعنی مفعول سے ہے یعنی چھپا ہوا۔ اَلْجَنِیْنُ: قبر کو بھی کہتے ہیں۔ فعیل بمعنی فاعل ہے۔ یعنی چھپانے والی۔ اَلْجِنُّ: جن (اس کی جمع جِنَّۃٌ آتی ہے اور) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے۔ (۱) انسان کے مقابلہ میں ان تمام روحانیوں کو جن کہا جاتا ہے جو جو اس سے مستور ہیں۔ اس صورت میں جن کا لفظ ملائکہ اور شیاطین دونوں کو شامل ہوتا ہے۔ لہٰذا تمام فرشتے جن ہیں لیکن تمام جن فرشتے نہیں ہیں، اسی بنا پر ابوصالح نے کہا ہے کہ سب فرشتے جن ہیں۔ (۲) بعض نے کہا ہے کہ نہیں۔ بلکہ جِنٌّ روحانیوں کی ایک قسم ہیں کیونکہ روحانیات تین قسم ہیں۔ (۱) اَخْیَار (نیک) اور یہ فرشتے ہیں۔ (۲) اَشرَار (بد) اور یہ شیاطین ہیں۔ (۳) اَوْسَاط جن میں بعض نیک اور بعض بد ہیں۔ اور یہ جن ہیں۔ چنانچہ سورت جن کی ابتدائی آیات: (قُلۡ اُوۡحِیَ اِلَیَّ اَنَّہُ …… وَّ اَنَّا مِنَّا الۡمُسۡلِمُوۡنَ وَ مِنَّا الۡقٰسِطُوۡنَ ) (۷۲:۱۔۱۴) اور یہ کہ ہم بعض فرمانبردار ہیں اور بعض (نافرمان) گنہگار ہیں۔ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جنوں میں بعض نیک اور بعض بد ہیں۔ اَلْجِنَّۃُ: جنوں کی جماعت قرآن میں ہے: (مِنَ الۡجِنَّۃِ وَ النَّاسِ ٪) (۱۱۴:۶) (خواہ وہ) جنات سے (ہو) یا انسانوں میں سے۔ (وَ جَعَلُوۡا بَیۡنَہٗ وَ بَیۡنَ الۡجِنَّۃِ نَسَبًا) (۳۷:۱۵۸) اور انہوں نے خدا میں اور جنوں میں رشتہ مقرر کیا۔ اَلْجِنَّۃُ: (ایضا) جنون۔ دیوانگی۔ قرآن پاک میں ہے: (مَا بِصَاحِبِہِمۡ مِّنۡ جِنَّۃٍ) (۷:۱۸۴) کہ ان کے رفیق (محمد ﷺ) کو (کسی طرح کا بھی) جنون نہیں ہے۔ اور دیوانگی کو جنون اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ انسان کے دل اور عقل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے۔ جُنَّ فُلَانٌ اسے جن لگ گیا۔ امراض کے معانی میں دوسرے افعال کی طرح یہ بھی فعل مجہول ہی استعمال ہوتا ہے۔ جیسے زُکِمَ (اسے زکام ہوگیا) لُقِیَ (اسے لقوہ ہوگیا) حُمَّ (اسے بخار ہوگیا) وغیرہ بعض نے کہا ہے کہ جُنَّ فُلَانٌ کے معنی ہیں: اس کے قلب کو عارضہ ہوگیا۔ اور بعض نے کہا کہ دیوانگی نے اس کی عقل کو چھپا لیا اور آیت کریمہ: (مُعَلَّمٌ مَّجۡنُوۡنٌ ) (۴۴:۱۴) کے معنی ہیں کہ اسے وہ جن چمٹا ہوا ہے جو اسے تعلیم دیتا ہے اور یہی معنی آیت: (اَئِنَّا لَتَارِکُوۡۤا اٰلِہَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجۡنُوۡنٍ ) (۳۷:۳۶) کہ بھلا ایک دیوانے شاعر کے کہنے سے کہیں اپنے معبودوں کو چھوڑ دینے والے ہیں۔ میں شاعر مجنون کے ہیں۔ جُنَّ التِّلَاعُ وَالْاٰفَاقُ: یعنی ٹیلوں اور ان کے گردونواح کو گھاس نے چھپا لیا، اور آیت کریمہ ہے: (وَ الۡجَآنَّ خَلَقۡنٰہُ مِنۡ قَبۡلُ مِنۡ نَّارِ السَّمُوۡمِ ) (۱۵:۲۷) اور جان کو اس سے بھی پہلے بے دھوئیں کی آگ سے پیدا کیا تھا۔ میں جَانَّ سے بھی جنون کی ایک قسم مراد ہے۔ (4) لیکن آیت کریمہ: (کَاَنَّہَا جَآنٌّ ) (۲۷:۱۰) میں جَان سے ایک قسم کا سانپ مراد ہے۔
Surah:2Verse:25 |
باغات ہیں
(will be) Gardens
|
|
Surah:2Verse:35 |
جنت میں
(in) Paradise
|
|
Surah:2Verse:82 |
جنت کے
(of) Paradise;
|
|
Surah:2Verse:111 |
جنت میں
the Paradise
|
|
Surah:2Verse:214 |
جنت میں
Paradise
|
|
Surah:2Verse:221 |
جنت کی طرف
Paradise
|
|
Surah:2Verse:265 |
ایک باغ کے ہے
a garden
|
|
Surah:2Verse:266 |
ایک باغ
a garden
|
|
Surah:3Verse:15 |
باغات ہیں
(are) Gardens
|
|
Surah:3Verse:133 |
اور جنت کے
and a Garden -
|