Perfect Tense | Imperfect Tense | Imperative | Active Participle | Passive Participle | Noun Form |
سَبَحَ |
يَسْبَحُ |
اِسْبَحْ |
سَابِح |
مَسْبُوْح |
سَبْح/سِبَاحَة |
اَلسَّبْحُ: اس کے اصل معنیٰ پانی یا ہوا میں تیز رفتاری سے گزر جانے کے ہیں۔ سبَحَ (ف) سَبْحًا وَسَبَاحَۃً: وہ تیز رفتاری سے چلا پھر استعارہ کے طور پر یہ لفظ فلک میں نجوم کی گردش اور تیز رفتاری کے لئے استعمال ہونے لگا ہے۔ جیسے فرمایا: (کُلٌّ فِیۡ فَلَکٍ یَّسۡبَحُوۡنَ ) (۲۱:۳۳) سب (اپنے اپنے) فلک یعنی دوائر میں تیزی کے ساتھ چل رہے ہیں۔ اور گھورے کی تیز رفتاری پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے۔ جیسے فرمایا: (وَّ السّٰبِحٰتِ سَبۡحًا ) (۷۹:۳) اور فرشتوں کی (قسم جو آسمانوں اور زمین کے درمیان) تیرتے پھرتے ہیں۔ اور کسی کام کو سرعت کے ساتھ کر گزرنے پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے۔ جیسے فرمایا: (اِنَّ لَکَ فِی النَّہَارِ سَبۡحًا طَوِیۡلًا ) (۷۳:۷) دن کے وقت تو تم بہت مشعول کار رہتے ہو۔ اَلتَّسْبِیْحُ کے معنیٰ تنزیہ الٰہی بیان کرنے کے ہیں اصل میں اس کے معنیٰ عبادت الٰہی میں تیزی کرنا کے ہیں … پھر اس کا استعمال ہر فعل خیر پر ہونے لگا ہے جیساکہ اِبْعَاد کا لفظ شر پر بولا جاتا ہے کہا جاتا ہے: (اَبْعَدَہٗ اﷲُ خدا اسے ہلاک کردے۔ پس تسبیح کا لفظ قولی، فعلی اور قلبی ہر قسم کی عبادت پر بولا جاتا ہے۔ قرآن پاک میں ہے: (فَلَوۡ لَاۤ اَنَّہٗ کَانَ مِنَ الۡمُسَبِّحِیۡنَ) (۳۷:۱۴۳) تو اگر یونس علیہ السلام اس وقت (خدا کی تسبیح و تقدیس) کرنے والوں میں نہ ہوتے۔ یہاں بعض نے مُسَبِّحِیْنَ کے معنیٰ مُصَلِّیْنَ کئے ہیں لیکن انسب یہ ہے کہ اسے تینوں قسم کی عبادت پر محمول کیا جائے۔ (وَ نَحۡنُ نُسَبِّحُ بِحَمۡدِکَ) (۲:۳۰) اور صبح و شام اسی کی تسبیح و تقدیس کرتے رہنا۔ (فَسَبِّحۡہُ وَ اَدۡبَارَ السُّجُوۡدِ) (۵۰:۴۰) (اور رات میں بھی) اس کی تسبیح و تقدیس کرو اور نمازوں کے بعد بھی۔ (لَوۡ لَا تُسَبِّحُوۡنَ) (۶۸:۲۸) یعنی اس کی عبادت اور شکرگزاری کیوں نہیں کرتے رہو۔ بعض نے اسے استثنا کے معنیٰ پر محمول کیا ہے یعنی تم انشاء اﷲ کیوں نہیں کہتے اور اس کی دلیل آیت کریمہ: (اِذۡ اَقۡسَمُوۡا لَیَصۡرِمُنَّہَا مُصۡبِحِیۡنَ …… وَ لَا یَسۡتَثۡنُوۡنَ) (۶۸:۱۷) ہے یعنی انہوں نے قسمیں کھائیں کہ صبح ہوتے ہی پھل کاٹ لیں گے اور استثناء نہ کیا۔ اور آیت کریمہ: (تُسَبِّحُ لَہُ السَّمٰوٰتُ السَّبۡعُ وَ الۡاَرۡضُ وَ مَنۡ فِیۡہِنَّ ؕ وَ اِنۡ مِّنۡ شَیۡءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمۡدِہٖ وَ لٰکِنۡ لَّا تَفۡقَہُوۡنَ تَسۡبِیۡحَہُمۡ) (۱۷:۴۴) ساتوں آسمانوں اور زمین اور جو (فرشتے اور آدمی) آسمان و زمین میں ہیں (سب) اس کی تسبیح (وتقدیس) کرتے ہیں اور جتنی چیزیں ہیں سب اس کی حمد و ثناء کے ساتھ اس کی تسبیح چیزیں ہیں سب اس کی حمدوثناء کے ساتھ اس کی تسبیح و تقدیس کررہی ہیں مگر تم لوگ ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے۔ میں تسبیح کے وہی معنیٰ مراد ہیں جو کہ آیت کریمہ: (وَ لِلّٰہِ یَسۡجُدُ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ طَوۡعًا وَّ کَرۡہًا) (۱۳:۱۶) اور جس قدر مخلوق آسمانوں و زمین میں ہے (سب) چاروناچار اﷲ ہی کے آگے سربسجود ہے۔ اور آیت: (وَ لِلّٰہِ یَسۡجُدُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ مِنۡ دَآبَّۃٍ) (۱۶:۴۹) اور جتنی چیزیں آسمانوں اور جتنی جاندار چیزیں زمین میں ہیں (سب) اﷲ ہی کے آگے سربسجود ہیں۔ میں سجدہ کے ہیں یعنی تسبیح کے حقیقی معنیٰ مراد ہیں جیساکہ سجدہ کے ہیں مگ ان کا ادراک ہماری سمجھ سے بالاتر ہے جیساکہ آیت: (وَ لٰکِنۡ لَّا تَفۡقَہُوۡنَ تَسۡبِیۡحَہُمۡ) (۱۷:۴۴) (کے استدراک اور اسمان و زمین کے ذکر کے بعد وَمَنْ فِیْھِنَّ کے عطف سے معلوم ہوتا ہے اور بعض نے اس کی تقدیر یہ بیان کی ہے۔ یُسَبِّحُ لَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَیَسْجُدُلَہٗ مَنْ فِیْ الْاَرْضِ مگر یہ صحیح نہیں ہے اولاً تو اس لئے کہ ’’مَنْ‘‘ یعنی ذوالعقول کی تسبیح کو ہم سمجھتے ہیں اور قرآن پاک نے وَلٰکِنْ لَّا تَفْقَھُوْنَ کہا ہے اور ثانیاً اس لئے کہ بعد میں وَمَنْ فِیْھِنَّ عطف کے ساتھ مذکور ہے پھر اگر شروع آیت میں بھی مَن فِی السَّمٰوٰتِ کی تقدیر کو مان لیا جائے (جیساکہ بعض نے کہا ہے) تو اس عطف کا بے معنی ہونا لازم آتا ہے (لہٰذا صحیح یہ ہے کہ سب اشیاء (بشمول آسمان و زمین) کی تسبیح اور سجود کو حقیقی معنیٰ پر محمول کیا جائے اور یہ کہا جائے کہ یہ سب چیزیں حق تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہیں اور اس کے سامنے سربسجود رہتی ہیں لیکن بعض تسخیری طور پر اور بعض اپنے اختیار اور ارادہ سے اور یہ بات تو بلااختلاف سبھی مانتے ہیں کہ آسمان و زمین اور دواب، جانوروں کی تسبیح تسخیری ہے یعنی ان کے احوال اﷲ تعالیٰ کی حکمت کاملہ پر دال ہیں۔ البتہ اختلاف اس میں ہے کہ آیا آسمان و زمین تسبیح بالاختیار کتے ہیں؟ تو آیت اسی معنیٰ کی مقتضی ہے جیساکہ ہم بیان کرچکے ہیں۔ سُبْحَانٌ یہ اصل میں غُفْرانٌ کی طرح مصدر ہے چنانچہ قرآن پاک میں ہے: (فَسُبۡحٰنَ اللّٰہِ حِیۡنَ تُمۡسُوۡنَ) (۳۰:۱۷) سو جس وقت تم لوگوں وک شام ہو اﷲ کی تسبیح بیان کرو۔ (سُبْحَانَکَ لَا عِلْمَ لَنَا) تو پاک ہے ہم کو کچھ معلوم نہیں۔ شاعر نے کہا ہے۔ (1) (سریع) (۲۱۸) سُبْحَانَ مِنْ عَلَقَمَۃَ الْفَاخِرِ سبحان اﷲ! علقمہ بھی فخر کرتا ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں سُبْحَانَ عَلْقَمَۃَ ہے اس میں مِنْ معنیٰ اضافت کو ظاہر کرنے کے لئے زائد ہے اور علقمہ کی طرف سبحان کی اضافت بطور تہکم ہے بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں ’’سُبْحَانؒ اﷲِ مِنْ اَجْلِ عَلْقَمَۃَ‘‘ ہے اس صورت میں اس کا مضاف الیہ محذوف ہوگا۔ اَلسُّبُّوحُ الْقُدُّوْسُ: یہ اسماء حسنٰی سے ہے اور عربی زبان میں فُعُّولٌ کے وزن پر صرف یہ دو کلمے ہی آتے ہیں اور ان کو فاء کلمہ کی فتح کے ساتھ بھی پڑھا جاتا ہے جیسے کَلُّوبٌ وَسَمُّودٌ۔ اَلسُّبْحَۃُ: بمعنیٰ تسبیح ہے اور اُن منکوں کو بھی سُبْحَۃٌ کہا جاتا ہے جن پر تسبیح پڑھی جاتی ہے۔
Surah:2Verse:30 |
ہم تسبیح کرتے ہیں
[we] glorify (You)
|
|
Surah:3Verse:41 |
اورتسبیح کرو
and glorify (Him)
|
|
Surah:7Verse:206 |
اور وہ تسبیح کرتی ہیں
And they glorify Him
|
|
Surah:13Verse:13 |
اور تسبیح کرتی ہے
And glorifies
|
|
Surah:15Verse:98 |
پس تسبیح بیان کریں
So glorify
|
|
Surah:17Verse:44 |
تسبیح کررہے ہیں
Glorify
|
|
Surah:17Verse:44 |
تسبیح کررہی ہے
glorifies
|
|
Surah:19Verse:11 |
تسبیح کرو
glorify (Allah)
|
|
Surah:20Verse:33 |
ہم تسبیح کریں تیری
we may glorify You
|
|
Surah:20Verse:130 |
اور تسبیح کرو
and glorify
|