Noun

مُسْتَقَرٌّ

(is) a dwelling place

ٹھکانہ ہے / قرار ہے

Verb Form 10
Perfect Tense Imperfect Tense Imperative Active Participle Passive Participle Noun Form
اِسْتَقَرَّ
يَسْتَقِرُّ
اِسْتَقْرِر/اِسْتَقِرّ
مُسْتَقِرّ
مُسْتَقَرّ
اِسْتِقْرَار
Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَرَّفِیْ مَکَانِہٖ یَقِرُّ قَرَارًا: (ض) کے معنی کسی جگہ ٹھہرجانے کے ہیں اصل میں یہ قر سے ہے جس کے معنی سردی کے ہیں جوکہ سکون کو چاہتی ہے جیساکہ اس کے برعکس حَرٌّ (گرمی) حرکت کو چاہتی ہے۔ اور آیت کریمہ: (وَ قَرۡنَ فِیۡ بُیُوۡتِکُنَّ ) (۳۳:۳۳) اور اپنے گھروں میں ٹھری رہو۔ میں ایک قرأت وَقِرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں اقررن ہے ایک راء کو تخفیف کے لیے حذف کردیا گیا ہے جیساکہ آیت: فَظَلْتُم تَفَکَّھُوْنَ میں ظَلْتُمْ اصل میں ظَلَلْتُمْ ہے (اور ایک لام کو تخفیفا حذف کردیا گیا ہے۔) اَلْقَرَارُ (اسم ) ٹھہرنے کی جگہ) قرآن میں ہے: (جَعَلَ لَکُمُ الۡاَرۡضَ قَرَارًا) (۴۰:۶۴) (جس نے) زمین کو قرارگاہ بنایا۔ اور جنت کے متعلق فرمایا: (ذَاتِ قَرَارٍ وَّ مَعِیۡنٍ ) (۲۳:۵۰) جو رہنے کے لائق اور جہاں نتھرا ہوا پانی جاری تھا (پناہ دی) اور جہنم کے متعلق فرمایا: (وَ بِئۡسَ الۡقَرَارُ) (۱۴:۲۹) اور وہ بُرا ٹھکانا ہے۔ اور آیت کریمہ: (اجۡتُثَّتۡ مِنۡ فَوۡقِ الۡاَرۡضِ مَا لَہَا مِنۡ قَرَارٍ) (۱۴:۲۶) زمین کے اوپر ہی سے اکھیڑ کر پھینک دیا جائے۔ اس کو ذرا بھی قرار نہیں۔ میں … قرار کے معنی ثبات کے ہیں۔ شاعر نے کہا ہے۔(1) (۳۵۲) وَلَا قَرَارَ عَلٰی زَازٍ مِنَ الْاَسَدِ یعنی شیر کے دھاڑنے پر امن (چین) حاصل نہیں ہوسکتا۔ اور یَوْمَ النَّحْرِ سے بعد کے دن کو یَوْمَ الْقِرِّ کہا جاتا ہے کیونکہ لوگ اس روز منٰی میں ٹھہرے رہتے ہیں۔ اِسْتَقَرَّ فُلَانٌ قرار پکڑنے کا قصد کرنا۔ اور کبھی یہ بمعنی قَرَّ (قرار پکڑنا) بھی آجاتا ہے جیسے استجاب بمعنی اجاب چنانچہ جنت کے متعلق فرمایا: (خَیۡرٌ مُّسۡتَقَرًّا وَّ اَحۡسَنُ مَقِیۡلًا) (۲۵:۲۴) ٹھکانا بھی بہتر ہوگا اور مقام استراحت بھی عمدہ ہوگا اور جہنم کے متعلق فرمایا: (اِنَّہَا سَآءَتۡ مُسۡتَقَرًّا) (۲۵:۶۶) اور دوزخ، ٹھہرنے کی بہت بُری جگہ ہے۔ اور آیت کریمہ: (فَمُسۡتَقَرٌّ وَّ مُسۡتَوۡدَعٌ) (۶:۹۸) تمہراے لیے ایک ٹھہرنے کی جگہ ہے اور ایک سپرد ہونے کی میں ، ابن مسعودؓ کے نزدیک مستقر سے مراد زمین میں ٹھہرنا ہے اور مستودع سے مراد قبریں ہیں۔ ابن عباسؓ کا قول ہے کہ مستقر سے مراد تو زمین ہی ہے لیکن مستودع سے مراد دنیا ہے۔ الحاصل ہر وہ حالت جس سے انسان منتقل ہوجائے وہ مستقر تام نہیں ہوسکتا۔ اَلْاِقْرَارُ: (افعال) کے معنی کسی چیز کو ٹھہرا دینے کے ہوتے ہیں۔ قرآن پاک میں ہے: (وَ نُقِرُّ فِی الۡاَرۡحَامِ مَا نَشَآءُ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی) (۲۲:۵) اور ہم جس کو چاہتے ہیں ایک میعاد مقرر تک پیٹ میں ٹھہرائے رکھتے ہیں۔ اور کبھی اس کے معنی ثابت کرنا بھی آجاتے اور اقرار کبھی دل سے ہوتا ہے اور کبھی زبان سے اور کبھی ان دونوں سے۔ توحید اور دیگر ایمانیات کے بارے میں صرف زبان سے اقرار کرلینا کافی نہیں ہوتا جب تک کہ اس کے ساتھ دل سے بھی اقرار نہ کرے۔ اقرار کی ضد انکار آتی ہے اور جحود صرف زبان سے انکار کردینے پر بولا جاتا ہے خواہ دل سے اسے تسلیم ہی کیوں نہ کرتا ہو جیساکہ پہلے گزرچکا ہے۔(2) قرآن پاک میں ہے۔ (ثُمَّ اَقۡرَرۡتُمۡ وَ اَنۡتُمۡ تَشۡہَدُوۡنَ ) (۲:۲۴) پھر تم نے اقرار کرلیا اور تم اس بات کے گواہ ہو۔ (ثُمَّ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمۡ لَتُؤۡمِنُنَّ بِہٖ وَ لَتَنۡصُرُنَّہٗ ؕ قَالَ ءَاَقۡرَرۡتُمۡ وَ اَخَذۡتُمۡ عَلٰی ذٰلِکُمۡ اِصۡرِیۡ ؕ قَالُوۡۤا اَقۡرَرۡنَا) (۳:۸۱) پھر تمہارے پاس کوئی پیغمبر آئے جو تمہاری کتاب کی تصدیق کرے۔ تو تمہیں ضرور اس پر ایمان لانا ہوگا اور ضرور اس کی مدد کرنا ہوگی (اور عہد لینے کے بعد) پوچھا کہ بھلاتم نے اقرار کیا اور اقرار پر میرا ذمہ لیا۔ انہوں نے کہا ہاں ہم نے اقرار کیا۔ قَرَّتْ لَیْلَتُنَا تَقِرُّ: رات کا ٹھنڈا ہونا۔ یَوْمٌ قَرٌّ: (ٹھنڈا دن) لَیْلَۃٌ قِرَّۃٌ: (ٹھنڈی رات) قُرَّ فُلَانٌ فلاں کو سردی لگ گئی اور مَقْرُوْرٌ کے معنی ٹھنڈزدہ آدمی کے ہیں۔ مثل مشہور ہے۔(3) حِرَّۃٌ تَحْتَ قِرَّۃٍ یہ اس شخص کے حق میں بولتے ہیں جو اپنے ضمیر کے خلاف بات کرے۔ قَرَرْتُ الْقِدْرَ اَقُرُّھَا: میں نے ہنڈیا میں ٹھنڈا پانی ڈالا۔ اور اس پانی کو قَرَارَۃ یا قَرِرہ کہا جاتا ہے۔ اِقْتَرَّ فُلَانٌ اِقْتِرَارًا: یہ تَبَرَّدَ کی طرح ہے۔ جس کے معنی ٹھنڈے پانی سے غسل کرنے کے ہیں۔ قُرَّتْ عَیْنُہُ تَقَرُّ: آنکھ کا ٹھنڈا ہونا۔ مراد خوشی حاصل ہونا ہے، قرآن پاک میں ہے: (کَیۡ تَقَرَّ عَیۡنُہَا ) (۲۰:۴) تاکہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔ اور جسے دیکھ کر انسان کو خوشی حاصل ہو اسے قُرَّۃُ عَیْنٍ کہا جاتا ہے۔ چناچنہ فرمایا: (قُرَّتُ عَیۡنٍ لِّیۡ وَ لَکَ) (۲۸:۹) یہ میری اور تمہاری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ (رَبَّنَا ہَبۡ لَنَا مِنۡ اَزۡوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعۡیُنٍ ) (۲۶:۷۴) اے ہمارے پروردگار! ہمیں بیویوں کی طرف سے دل کا چین اور اولاد کی طرف آنکھ کی ٹھنڈک عطا فرما۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں قُرٌّ بمعنی سردی سے ہے لہٰذا قَرَّتْ عَیْنُہٗ کے معنی آنکھ کے ٹھنڈا ہوکر خوش ہوجانے کے ہیں بعض نے کہا ہے۔ کہ قَرَّتْ عَیْنُہٗ کے معنی خوش ہونا اس لیے آتے ہیں کہ خوشی کے آنسو ٹھنڈے ہوتے ہیں اور غم کے آنسو چونکہ گرم ہوتے ہیں اس لیے بددعا کے وقت اَسْخَنَ اﷲُ عَیْنَہٗ کہا جاتا ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ قرار سے مشتق ہے اور معنی یہ ہیں کہ اﷲ تعالیٰ اسے وہ چیز بخشے جس سے اس کی آنکھ کو سکون حاصل ہو یعنی اسے دوسری چیز کی حرص نہ رہے۔ اَقَرَّ بِالْحَقِّ: حق کا اعتراف کرنا۔ تَقَرَّ الْاَمْرُ عَلٰی کَذَا: کسی امر کا حاصل ہوجانا۔ اَلْقَارُوْرَۃُ: شیشہ جمع قَوَارِیْرُ … قرآن پاک میں ہے: (قَ‍وَارِیۡرَا۠ مِنۡ فِضَّۃٍ ) (۷۶:۱۶) اور شیشے بھی چاندی کے۔ ضَبْحٌ مُمَرَّدٌ مِنْ قَوَرِیْرَ: یہ ایسا محل ہے جس میں (نیچے بھی) شیشے جڑے ہوئے ہیں (۲۷:۴۴) یعنی شیشے کا بنا ہوا ہے۔

Lemma/Derivative

10 Results
مُسْتَقَ
Surah:2
Verse:36
ٹھکانہ ہے / قرار ہے
(is) a dwelling place
Surah:6
Verse:67
ایک وقت مقرر ہے
(is) a fixed time
Surah:6
Verse:98
پھر (مقرر کی) رہنے کی جگہ
so (there is) a place of dwelling
Surah:7
Verse:24
جائے قرار ہے / ٹھکانہ ہے
(is) a dwelling place
Surah:11
Verse:6
ٹھکانہ اس کا
its dwelling place
Surah:25
Verse:24
ٹھکانے کے اعتبار سے
abode
Surah:25
Verse:66
ٹھکانہ
abode
Surah:25
Verse:76
ٹھکانہ
(is) the settlement
Surah:36
Verse:38
واسطے ایک ٹھکانے کے /اپنے مقررہ ٹھکانے میں
to a term appointed
Surah:75
Verse:12
ٹھہرنا ہے
(is) the place of rest