Perfect Tense | Imperfect Tense | Imperative | Active Participle | Passive Participle | Noun Form |
أَوَّلَ |
يُؤَوِّلُ |
أَوِّلْ |
مُؤَوِّل |
مُؤَوَّل |
تَأْوِیْل |
اَلْآل۔ بعض نے کہا ہے کہ آل اصل میں اہل ہے کیونکہ اس کی تصغیر اُھَیْلُ آتی ہے مگر اس کی اضافت ناطقین انسان میں سے ہمیشہ عَلَم کی طرف ہوتی ہے کسی اسم نکرہ یا زمانہ یا مکان کی طرف اس کی اضافت جائز نہیں ہے اس لیے آل فلان (علم) تو کہہ سکتے ہیں مگر آل رجل، آل زمان کذا وآل مکان کذا بولنا جائز نہیں ہے۔ اسی طرح ہمیشہ صاحب شرف اور افضل ہستی کی طرف مضاف ہوگا اس لیے آل الخیاط بھی نہیں کہہ سکتے بلکہ آل اﷲ یا آل السطان کہا جائے گا۔ مگر اھل کا لفظ مذکورہ بالا میں سے ہر ایک کی طرف مضاف ہوکر آجاتا ہے۔ چنانچہ جس طرح اہل زمن کذا وبلد کذا بولا جاتا ہے اسی طرح اہل اﷲ واہل الخیاط بھی کہہ دیتے ہیں۔ بعض نے کہا ہے کہ لفظ ’’آل‘‘ دراصل بمعنی شخص ہے۔ اس کی تصغیر اُوَیل آتی ہے اور یہ اس شخص کے متعلق استعمال ہوگا جس کو دوسرے کے ساتھ ذاتی تعلق ہو مگر قریبی رشتہ داری یا تعلق والا ہو۔ قرآن پاک میں ہے: ( وَّ اٰلَ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ اٰلَ عِمۡرٰنَ ) (۳:۳۳) خاندان ابراہیم اور خاندان عمران۔ ( اَدۡخِلُوۡۤا اٰلَ فِرۡعَوۡنَ اَشَدَّ الۡعَذَابِ ) (۴۰:۴۶) فرعون والوں کو نہایت سخت عذاب میں داخل کردو۔ آلُ النَّبی۔ بعض نے کہا کہ آل النبی سے آنحضرت ﷺ کے رشتہ دار مراد ہیں اور بعض کے نزدیک اس سے وہ لوگ مراد ہیں جنہیں علم و معرفت کے اعتبار سے آنحضرت ﷺ کے ساتھ خصوصی تعلق حاصل ہو۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ اہل دین دو قسم پر ہیں۔ ایک وہ جو علم و عمل کے اعتبار سے راسخ اور محکم ہوتے ہییں ان کو آل النبی او راُمَّتُہٗ بھی کہہ سکتے ہیں۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جن کا سراسر ذہن تقلیدی ہوتا ہے ان کو اُمت محمد ﷺ تو کہہ سکتے ہیں مگر آل آلِ محمدؐ نہیں کہہ سکتے اس سے معلوم ہوا کہ امت اور آل میں عموم و خصوص کی نسبت ہے یعنی ہر آل نبی اس کی امت میں داخل ہے مگر ہر امتی آلِ نبی نہیں ہوسکتا۔ امام جعفر صادق رحمہ اﷲ سے کسی نے دریافت کیا کہ لوگ تمام مسلمانوں کو آلِ نبی میں داخل سمجھتے ہیں۔ تو انہوں نے فرمایا: یہ صحیح بھی ہے اور غلط بھی۔ سائل نے عرض کی یہ کیسے؟ فرمانے لگے: غلط تو اس لیے کہ تمام امت آ ل نبی میں داخل نہیں ہے اور صحیح اس لیے کہ وہ شریعت کے کماحقہ پابند ہوجائیں توانہیں آل النبی کہا جاسکتا ہے۔ (1) اور آیت کریمہ: ( قَالَ رَجُلٌ مُّؤۡمِنٌ مِّنۡ اٰلِ فِرۡعَوۡنَ ) (۴۰:۲۸) اور فرعون کے لوگوں میں سے ایک مؤمن شخص۔۔کہنے۔۔ میں اس مرد مومن کے آل فرعون ہونے کے معنی یہ ہیں کہ وہ (بظاہر) تو اس کے خصوصی اہل کاروں اور فرعونی شریعت کے ماننے والوں سے تھا اور مسکن و نسب کے اعتبار سے انہیں میں سے شمار ہونا تھا نہ اس لیے کہ وہ لوگ بھی اسے اپنی شیعت اک پابند خیال کرتے تھے۔ بعض نے کہا ہے کہ جبرئیل اور میکائیل میں إیل اسماء حسنٰی سے ہے مگر قواعد عربیہ کی رو سے یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ اگر یہ اسماء مرکب اضافی ہوتے تو لفظ اہل کو مضاف الیہ ہونے کی بنا پر مجرور ہونا چاہیے تھا۔ آلُ الشیء کے معنی کسی چیز کا شخص کے ہیں اور جو دور سے مضطرب نظر آرہا ہو۔ شاعر نے کہا ہے(2) (طویل) (۳۳) وَلَمْ یَبْقَ اِلّٰا آلُ خَیْمٍ مُنَضَّدٍ کہ مرتب خیموں کے سوا کوئی بھی باقی نہ رہا۔ اور آل اس حالت کو بھی کہتے ہیں جس کی طرف انسان کا معاملہ آخرکار لوٹ کر آئے، شاعر نے کا ہے(3) سَاحْمِلُ نَفْسِیْ عَلٰی آلۃٍ۔ فَاِما عَلَیْھَا وَاِمَّالھا۔ آخر الامر میں اپنی جان کو ایسے امر پر مجبور کروں گا وہ یا تو اس کے لیے نقصان دہ ہوگی یا فائدہ مند۔ اور آل بمعنی سراب بھی آتا ہے یعنی وہ جو ہوا کے تموج سے یا ویسے بے حقیقت چیز (دوپہر کے وقت) دکھائی دیتی ہے، لہٰذا یہ اصل میں آل یؤل سے ہے جس کے معنی لوٹنا کے ہیں۔ آل اللَبَنُ دودھ گاڑھا ہوگیا گویا اس میں نقصان کی طرف رجوع ہونے کے معنی ملحوظ ہیں جیساکہ ناقص چیز کو رَاجِعٌ کہا جاتا ہے۔ اَلتَّاوِیْلُ : یہ بھی اوّل سے مشتق ہے، جس کے معنی کسی چیز کے اصل کی طرف رجوع ہونے کے ہیں اور جس مقام کی طرف کوئی چیز لوٹ کر آئے اُسے مَوْئِلٌ (جائے بازگشت) کہا جاتا ہے۔ پس تَاوِیْلٌ کسی چیز کو اس غایت کی طرف لوٹانا کے ہیں جس اس سے بلحاظ علم یا عمل کے مقصود ہوتی ہے۔ چنانچہ غایت علمی یا عملی کے مقصود ہوتی ہے۔ چنانچہ غایت علمی کے متعلق فرمایا : (وَ مَا یَعۡلَمُ تَاۡوِیۡلَہٗۤ اِلَّا اللّٰہُ وَ الرّٰسِخُوۡنَ فِی الۡعِلۡمِ ) (۳:۷) حالانکہ اس کی مراد اصلی خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا یا وہ لوگ جو علم میں دستگاہ کامل رکھتے ہیں اور غایت عملی کے متعلق شاعر نے کہا ہے۔ (4) (۳۵) وَلِلنَّویٰ قَبْلَ یَوْمِ الْبَیْنِ تَاوِیْلٌ اور جدائی کے دن سے پہلے ہی جدائی کا انجام کار اور اس کے آثار ظاہر ہوجاتے ہیں۔ اور قرآن میں ہے : (ہَلۡ یَنۡظُرُوۡنَ اِلَّا تَاۡوِیۡلَہٗ یَوۡمَ یَاۡتِیۡ تَاۡوِیۡلُہٗ ) (۷:۵۳) اب صرف وہ اس کی تاویل یعنی وعدہ عذاب کے انجام کار کا انتظار کررہے ہیں جس دن اس وعدہ عذاب کے نتائج سامنے آجائیں گے۔ یعنی اس دن سے جو غایت مقصود ہے وہ عملی طور پر ان کے سامنے ظاہر ہوجائے گی۔ اور آیت کریمہ : (ذٰلِکَ خَیۡرٌ وَّ اَحۡسَنُ تَاۡوِیۡلًا ) (۴:۵۹) میں بعض نے معنی اور مفہوم کے اعتبار سے احسن تاویلا ہونا مراد لیا ہے اور بعض نے آخرت میں بلحاظ ثواب کے احسن ہونا مراد لیا ہے۔ اَلْاَوْلُ : (ن) کے معنی ہیں مآل اور نتیجہ پر رکھتے ہوئے سیاست اور انتظام کرنا۔ اسی سے کہا جاتا ہے : قَدْ اُلْنَا وَایِلَ عَلَیْنَا ہم نے حکومت کی اور ہم پر حکومت کی گئی۔ اَلْاَوَّلُ : خلیل کے نزدیک اس کی اصل (اول) ہے اس لیے فَعَّلَ کے وزن پر ہوگا بعض کا خیال ہے کہ اس کا مادہ (وول) ہے اس لیے اَوَّل بروزن اَفْعَل ہوگا لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے کیونکہ فا اور عین کلمہ میں دو حرف ایک جنس نہایت قلیل الاستعمال ہیں۔ بہت صورت میں اَوْلٌ سے مشتق ہوگا جس کے معنی اصل کی طرف رجوع ہونا کے ہیں اور اَوَّلَ اصل میں اٰوَلُ ہوگا کثرت استعمال کے باعث الف ثانی کو واؤ میں ادغام کردیا گیا ہے۔ اَوَّلْ: اصل میں صیغۂ صفت ہے کیونکہ اس کی تانیث اُولٰی بروز اُخْریٰ آتی ہے(5) بس اَوَّل وہ ہے جس پر اس کا غیر مرتب ہو اور بچند وجوہ استعمال ہوتا ہے۔ (۱) جو دوسرے پر بااعتبار زمانہ متقدم ہو جیسے عبدالملک اور ثم منصور کہ پہلے عبدالملک اور پھر منصور۔ (۲) اور مرتبہ اور ریاست کے اعتبار سے دوسرے پر متقدم ہو اور دوسرا اس کی اقتدا کرے جیسے الامیر اولا ثم الوزیر۔ کہ پہلے امیر اور اس کے بعد وزیر۔ (۳) وضع اور نسبت کے اعتبار سے پہلے ہو جیسے ایک شخص عراق سے روانہ ہو تو اسے کہا جائے گا القادسیۃ اولا ثم فَیْد۔ کہ پہلے قادسیہ آئے گا اور پھر فید۔ اور مکہ سے روانہ ہونے والے کو کہا جائے گا کہ پہلے فید اور پھر قادسیہ آئے گا۔ (۴) جو نظام صناعی کے اعتبار سے متقدم ہو جیسے الاس اولا ثم البناء۔ کہ پہلے بنیاد رکھی جاتی ہے اس پر عمارت کھڑی کی جاتی ہے۔ اور جب صفت باری تعالیٰ میں ھوالاول کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات ہوتی ہے جس سے پہلے کوئی چیز موجود نہ ہو اور جن علماء نے اوّل کے معنی غیر محتاج یا مستغنی بنفسہٖ کیے ہیں ان کا اشارہ بھی اسی معنی کی طرف ہے۔ اور آیت (وَ اَنَا اَوَّلُ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ) (۶:۱۶۳) اور آیت (وَ اَنَا اَوَّلُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ) (۷:۱۴۳) میں اَوَّلُ کے معنی یہ ہیں کہ اسلام و ایمان میں ہی سب سے پہلے دوسروں کے لیے اسوہ اور مقتدا بنتا ہوں اسی طرح آیت: (وَ لَا تَکُوۡنُوۡۤا اَوَّلَ کَافِرٍۭ بِہٖ ) (۲:۴۱) کے معنی یہ ہیں کہ کفر میں پہل کرکے دوسروں کے لیے اسوہ اور پیشوا نہ بنو کہ لوگ تمہاری اقتداء کریں۔ کبھی اوّل کا لفظ بطور ظرف بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس صورت میں یہ مبنی علی الضم ہوتا ہے، جیسے جِئْتُہٗ اَوَّلُ۔ اور کبھی اوّلَ بمعنی قدیم بھی آجاتا ہے، جیسے جِئْتُکَ اَوَّلًا وَآخِرًای قدیمًا وحدیثًا۔ یعنی پہلے بھی آیا تھا اور اب بھی۔ اور آیت کریمہ : ( اَوۡلٰی لَکَ فَاَوۡلٰی ) (۷۵:۳۵) میں اولٰی کلمۂ تہدید اور تخویف ہے اور جو شخص ہلاکت کے قریب پہنچ چکا ہو اسے تنبیہ کرنے کے لیے آتا ہے، پھر جو شخص بڑی ذلت کے بعد ہلاکت سے بچ جائے اسے دوبارہ روکنے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے عموماً یہ کلمہ مکرر آتا ہے گویا اسے تنبیہ کی جاتی ہے کہ وہ انجام پر غور کرکے اس سے بچنے کی کوشش کرے۔ (6)
Surah:17Verse:5 |
ان دونوں میں سے پہلا
(for) the first of the two
|
|
Surah:17Verse:7 |
پہلی
first
|
|
Surah:17Verse:51 |
پہلی
(the) first
|
|
Surah:17Verse:59 |
پہلوں میں
the former (people)
|
|
Surah:18Verse:48 |
پہلی بار/ پہلی مرتبہ
the first
|
|
Surah:18Verse:55 |
پہلوں کا
(of) the former (people)
|
|
Surah:20Verse:21 |
پہلی
the former
|
|
Surah:20Verse:51 |
پہلی
(of) the former"
|
|
Surah:20Verse:65 |
پہلے
the first
|
|
Surah:20Verse:133 |
پہلے
the former?
|