Noun

بَلَآءٌ

(was) a trial

آزمائش تھی

Verb Form
Perfect Tense Imperfect Tense Imperative Active Participle Passive Participle Noun Form
بَلَا
يَبْلُوْ
اُبْلُ
بَالٍ
مَبْلُوّ
بَلْو/بَلَاء
Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

بَلِیَ الثَّوْبف۔ بِلًی وَبَلَائً کے معنی کپڑے کا بوسیدہ اور پرانا ہونے کے ہیں۔ اسی سے بَلَاہُ السَّفْرُ ای اَبْلَاہُ کا محاورہ ہے۔ یعنی سفر نے اسے لاغر کردیا ہے اور بَلَوْتُہٗ کے معنی ہیں: میں نے اسے آزمایا۔ گویا کثرت آزمائش سے میں نے اسے کہنہ کردیا اور آیت کریمہ: (ہُنَالِکَ تَبۡلُوۡا کُلُّ نَفۡسٍ مَّاۤ اَسۡلَفَتۡ ) (۱۰:۳۰) وہاں ہر شخص (اپنے اعمال کی) جو اس نے آگے بھیجے ہوں گے آزمائش کرلے گا۔ میں ایک قرأت نَبُْوْا (بصیغہ جمع متکلم) بھی ہے اور معنی یہ ہیں کہ وہاں ہم ہر نفس کے اعمال کی حقیقت کو پہچان لیں گے او راسی سے اَبْلَیْتُ فُلَانًا کے معنی کسی کا امتحان کرنا بھی آتے ہیں۔ اور غم کو بَلَائٌ کہا جاتا ہے کیونکہ وہ جسم کو گھلا کر لاغر کردیتا ہے۔ قرآن پاک میں ہے: (وَ فِیۡ ذٰلِکُمۡ بَلَآ ءٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ عَظِیۡمٌ ) (۲:۴۹) اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی (سخت) آزمائش تھی۔ (وَ لَنَبۡلُوَنَّکُمۡ بِشَیۡءٍ مِّنَ الۡخَوۡفِ ) (۲:۱۵۵) اور ہم کسی قدر خوف۔۔۔ سے تمہاری ازمائش کریں گے۔ (اِنَّ ہٰذَا لَہُوَ الۡبَلٰٓـؤُا الۡمُبِیۡنُ ) (۳۷:۱۰۶) بلاشبہ یہ صریح آزمائش تھی۔ اور تکلیف کو کئی وجوہ کی بناء پر بَلَائٌ کہا گیا ہے۔ ایک اس لیے کہ تکالیف بدن پر شاق ہوتی ہیں اس لیے انہیں بَلَائٌ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ دوم یہ کہ تکلیف بھی ایک طرح سے آزمائش ہوئی ہے۔ جیسے فرمایا: (وَ لَنَبۡلُوَنَّکُمۡ حَتّٰی نَعۡلَمَ الۡمُجٰہِدِیۡنَ مِنۡکُمۡ وَ الصّٰبِرِیۡنَ ) (۴۷:۳۱) اور ہم تم لوگوں کو آزمائیں گے تاکہ جو تم میں لڑائی کرنے اور ثابت قدم رہنے والے ہیں، ان کو معوم کریں۔ سوم اس لیے کہ اﷲ تعالیٰ کبھی تو بندوں کو خوش حالی سے آزماتے ہیں کہ شکرگذار بنتے ہیں یا نہیں اور کبھی تنگی کے ذریعہ امتحان فرماتے ہیں کہ ان کے صبر کو جانچیں۔ لہٰذا مصیبت اور نعمت دونوں آزمائش ہیں۔ محنت صبر کا تقاضا کرتی ہے اور مِنْحَۃ یعنی فضل و کرم شکرگزاری چاہتا ہے۔ اور اس میں شک نہیں کہ کماحقہ صبر کرنا کماحقہ شکرگزاری سے زیادہ آسان ہوتا ہے اس لیے نعمت میں بہ نسبت مشقت کے بڑی آزمائش ہے، اسی بنا پر حضرت عمر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں: (۳۴) بُلِیْنَا بِالضَّرَّآئِ فَصَبَرْنَا وَیُلِیْنَا بِالسَّرَّآئِ فَلَمْ نَصْبِرْ کہ تکالیف پر تو صابر رہے لیکن فراخ حالی میں صبر نہ کرسکے اور حضرت علیؓ فرماتے ہیں: (۳۵) مَنْ وُّسِعَ عَلَیْہِ دُنْیَاہُ فَلَمْ یَعْلَمْ اَنَّہٗ قَدْ مُکِرَ بِہٖ فَھُوَ مَخْدُوْعٌ عَنْ عَقْلِہٖ۔ کہ جس پر دنیا فراخ کی گئی اور اسے یہ معلوم نہ ہوا کہ آزمائش کی گرفت میں ہے تو وفریت خوردہ اور عقل و فکر سے محروم ہے، قرآن پاک میں ہے: (وَ نَبۡلُوۡکُمۡ بِالشَّرِّ وَ الۡخَیۡرِ فِتۡنَۃً) (۲۱:۳۵) اور ہم تم لوگوں کو سختی اور آسودگی میں آزمائش کے طور پر مبتلا کرتے ہیں۔ (وَ لِیُبۡلِیَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ مِنۡہُ بَلَآءً حَسَنًا) (۸:۱۷) اس سے غرض یہ تھی کہ مومنوں کو اپنے (احسانوں) سے اچھی طرح آزمالے۔ اور آیت کریمہ: (وَ فِیۡ ذٰلِکُمۡ بَلَآ ءٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ عَظِیۡمٌ ) (۲:۴۹) اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی (سخت) آزمائش تھی۔ میں بَلَائٌ کا لفظ نعمت و مشقت دونوں طرح کی آزمائش کو شامل ہے۔ چنانچہ آیت: (یُذَبِّحُوۡنَ اَبۡنَآءَکُمۡ وَ یَسۡتَحۡیُوۡنَ نِسَآءَکُمۡ ) (۲:۴۹) (تمہارے بیٹوں کو) تو قتل کر ڈالتے تھے اور بیٹیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے۔ میں مشقت کا بیان ہے اور فرعون سے نجات میں نعمت کا تذکرہ ہے اسی طرح آیت: (وَ اٰتَیۡنٰہُمۡ مِّنَ الۡاٰیٰتِ مَا فِیۡہِ بَلٰٓـؤٌا مُّبِیۡنٌ ) (۴۴:۳۳) اور ان کو ایسی نشانیاں دی تھیں جس میں صریح آزمائش تھی۔ میں دونوں قسم کی آزمائش مراد ہے۔ جیساکہ کتاب اﷲ کے متعلق فرمایا: (قُلۡ ہُوَ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ہُدًی وَّ شِفَآءٌ ؕ وَ الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ فِیۡۤ اٰذَانِہِمۡ وَقۡرٌ وَّ ہُوَ عَلَیۡہِمۡ عَمًی) (۴۱:۴۴) اِبْتَلٰی فُلَانٌ وَاَبْلَاہُ (کسی کا امتحان کرنا) یہ دو امر کو متضمن ہوتا ہے (۱) تو اس شخص کی حالت کو جانچنا اور اس سے پوری طرح باخبر ہونا مقصود ہوتا ہے، دوسرے (۲) اس کی اچھی یا بری حالت کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا۔ پھر کبھی تو یہ دونوں معنی مراد ہوتے ہیں اور کبھی صرف ایک ہی معنی مقصود ہوتا ہے۔ جب اس کی نسبت اﷲ تعالیٰ کی طرف ہو تو صرف دوسرے معنی مراد ہوتے ہیں یعنی اس شخص کی خوبی یا نقص کو دودسروں کے سامنے ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے، کیونکہ ذات باری کی شان عَلَّامُ الْغُیُوْبِ ہے، اسے کسی کی حالت سے باخبر ہونے کی ضرورت نہیں، لہٰذا آیت کریمہ: (وَ اِذِ ابۡتَلٰۤی اِبۡرٰہٖمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّہُنَّ ) (۲:۱۲۴) اور پروردگار نے چند باتوں میں ابراہیم علیہ السلام کی آزمائش کی تو وہ ان میں پورے اترے۔ دوسرے معنی پر محمول ہوگی۔ (یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے کمالات کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا مقصود تھا) ۔

Lemma/Derivative

6 Results
بَلاء
Surah:2
Verse:49
آزمائش تھی
(was) a trial
Surah:7
Verse:141
آزمائش تھی
(was) a trial
Surah:8
Verse:17
آزمائش
(with) a trial
Surah:14
Verse:6
آزمائش تھی
(was) a trial
Surah:37
Verse:106
آزمائش تھی
the trial
Surah:44
Verse:33
آزمائش تھی
(was) a trial