Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 87

سورة البقرة

وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ وَ قَفَّیۡنَا مِنۡۢ بَعۡدِہٖ بِالرُّسُلِ ۫ وَ اٰتَیۡنَا عِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ الۡبَیِّنٰتِ وَ اَیَّدۡنٰہُ بِرُوۡحِ الۡقُدُسِ ؕ اَفَکُلَّمَا جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌۢ بِمَا لَا تَہۡوٰۤی اَنۡفُسُکُمُ اسۡتَکۡبَرۡتُمۡ ۚ فَفَرِیۡقًا کَذَّبۡتُمۡ ۫ وَ فَرِیۡقًا تَقۡتُلُوۡنَ ﴿۸۷﴾

And We did certainly give Moses the Torah and followed up after him with messengers. And We gave Jesus, the son of Mary, clear proofs and supported him with the Pure Spirit. But is it [not] that every time a messenger came to you, [O Children of Israel], with what your souls did not desire, you were arrogant? And a party [of messengers] you denied and another party you killed.

ہم نے حضرت موسیٰ کو کتاب دی اور ان کے پیچھے اور رسول بھیجے اور ہم نے ( حضرت ) عیسیٰ ابن مریم کو روشن دلیلیں دیں اور روح القدس سے ان کی تائید کروائی ۔ لیکن جب کبھی تمہارے پاس رسول وہ چیز لائے جو تمہاری طبیعتوں کے خلاف تھی ، تم نے جھٹ سے تکبر کیا ، پس بعض کو تو جھٹلا دیا اور بعض کو قتل بھی کر ڈالا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Arrogance of the Jews who denied and killed Their Prophets Allah described the insolence of Children of Israel, their rebelliousness, defiance and arrogance towards the Prophets, following their lusts and desires. Allah says; وَلَقَدْ اتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَقَفَّيْنَا مِن بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ ... And indeed, We gave Musa the Book and followed him up with a succession of Messengers. Allah mentioned that He gave Musa the Book, the Tawrah, and that the Jews changed, distorted, and defied its commands, as well as altered its meanings. Allah sent Messengers and Prophets after Musa who followed his law, as Allah stated, إِنَّأ أَنزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ الَّذِينَ أَسْلَمُواْ لِلَّذِينَ هَادُواْ وَالرَّبَّانِيُّونَ وَالاٌّحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُواْ مِن كِتَـبِ اللَّهِ وَكَانُواْ عَلَيْهِ شُهَدَاءَ Verily, We did reveal the Tawrah (to Musa), therein was guidance and light, by which the Prophets, who submitted themselves to Allah's will, judged for the Jews. And the rabbis and the priests (too judged for the Jews by the Tawrah after those Prophets), for to them was entrusted the protection of Allah's Book, and they were witnesses thereto. (5:44) This is why Allah said here, وَقَفَّيْنَا مِن بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ (And Qaffayna him with Messengers). As-Suddi said that Abu Malik said that; Qaffayna means, "Succeeded", while others said, "Followed". Both meanings are plausible, since Allah said, ثُمَّ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتْرَى Then We sent Our Messengers in succession. (23:44) ... وَاتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ ... And We gave `Isa, the son of Maryam, clear signs and supported him with Ruh-il-Qudus. Thereafter, Allah sent the last Prophet among the Children of Israel, `Isa the son of Mary, who was sent with some laws that differed with some in the Tawrah. This is why Allah also sent miracles to support `Isa. These included; bringing the dead back to life, forming the shape of birds from clay and blowing into them, after which they became living birds by Allah's leave, healing the sick and foretelling the Unseen, as Ibn Abbas stated. Allah also aided him with Ruh Al-Qudus, and that refers to Jibril. All of these signs testified to the truthfulness of `Isa and what he was sent with. Yet, the Children of Israel became more defiant and envious of him and did not want to differ with even one part of the Tawrah, as Allah said about `Isa, وَلاٌّحِلَّ لَكُم بَعْضَ الَّذِي حُرِّمَ عَلَيْكُمْ وَجِيْتُكُمْ بِأَيَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ And to make lawful to you part of what was forbidden to you, and I have come to you with a proof from your Lord. (3:50) Hence, the Children of Israel treated the Prophets in the worst manner, rejecting some of them and killing some of them. All of this occurred because the Prophets used to command the Jews with what differed from their desires and opinions. The Prophets also upheld the rulings of the Tawrah that the Jews had changed, and this is why it was difficult for them to believe in these Prophets. Therefore, they rejected the Prophets and killed some of them. Allah said, ... أَفَكُلَّمَا جَاءكُمْ رَسُولٌ بِمَا لاأَ تَهْوَى أَنفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ ... Is it that whenever there came to you a Messenger with what you yourselves desired not, you grew arrogant! Jibril is Ruh Al-Qudus The proof that Jibril is the Ruh Al-Qudus is the statement of Ibn Mas`ud in explanation of this Ayah. This is also the view of Ibn Abbas, Muhammad bin Ka`b, Ismail bin Khalid, As-Suddi, Ar-Rabi bin Anas, Atiyah Al-`Awfi and Qatadah. Additionally, Allah said, نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الاٌّمِينُ عَلَى قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنْذِرِينَ Which the trustworthy Ruh (Jibril) has brought down. Upon your heart (O Muhammad) that you may be (one) of the warners. (26:193-194) Al-Bukhari recorded Aishah saying that; the Messenger of Allah erected a Minbar in the Masjid on which Hassan bin Thabit (the renowned poet) used to defend the Messenger of Allah (with his poems). The Messenger of Allah said, اللَّهُمَّ أَيِّدْ حَسَّانَ بِرُوحِ الْقُدُسِ كَمَا نَافَحَ عَنْ نَبِيِّك O Allah! Aid Hassan with Ruh Al-Qudus, for he defended Your Prophet. Abu Dawud recorded this Hadith in his Sunan as did At-Tirmidhi who graded it Hasan Sahih. Further, Ibn Hibban recorded in his Sahih that Ibn Mas`ud said that the Prophet said, إِنَّ رُوحَ الْقُدُسِ نَفَثَ فِي رُوعِي أَنَّهُ لَنْ تَمُوتَ نَفْسٌ حَتَّى تَسْتَكْمِلَ رِزْقَهَا وَأَجَلَهَا فَاتَّقُوا اللهَ وَأَجْمِلُوا فِي الطَّلَب Ruh Al-Qudus informed me that no soul shall die until it finishes its set provisions and term limit. Therefore, have Taqwa of Allah and seek your sustenance in the most suitable way. The Jews tried to kill the Prophet Allah said, ... فَفَرِيقاً كَذَّبْتُمْ وَفَرِيقاً تَقْتُلُونَ Some you disbelieved and some you kill. Az-Zamakhshari commented on Allah's statement, "Allah did not say `killed' here, because the Jews would still try to kill the Prophet in the future, using poison and magic." During the illness that preceded his death, the Prophet said, مَا زَالَتْ أَكْلَةُ خَيْبَرَ تُعَاوِدُنِي فَهذَا أَوَانُ انْقِطَاعِ أَبْهَرِي I kept feeling the effect of what I ate (from the poisoned sheep) during the day of Khyber, until now, when it is the time that the aorta will be cut off (meaning when death is near). This Hadith was collected by Al-Bukhari and others

خود پرست اسرائیلی بنی اسرائیل کے عناد و تکبر اور ان کی خواہش پرستی کا بیان ہو رہا ہے کہ توراۃ میں تحریف و تبدل کیا حضرت موسیٰ کے بعد انہی کی شریعت آنے والے انبیاء کی بھی مخالفت کی چنانچہ فرمایا آیت ( اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىةَ فِيْهَا هُدًى وَّنُوْرٌ ) 5 ۔ المائدہ:44 ) یعنی ہم نے توراۃ نازل فرمائی جس میں ہدایت اور نور تھا جس پر انبیاء بھی خود بھی عمل کرتے اور یہودیوں کو بھی ان کے علماء اور درویش ان پر عمل کرنے کا حکم کرتے تھے غرض پے درپے یکے بعد دیگرے انبیاء کرام بنی اسرائیل میں آتے رہے یہاں تک کہ یہ سلسلہ عیسیٰ علیہ السلام پر ختم ہوا انہیں انجیل ملی جس میں بعض احکام توراۃ کے خلاف بھی تھے اسی لئے انہیں نئے نئے معجزات بھی ملے جیسے مردوں کو بحکم رب العزت زندہ کر دینا مٹی سے پرند بنا کر اس میں پھونک مار کر بحکم رب العزت اڑا دینا ، بیماروں کو اپنے دم جھاڑے سے رب العزت کے حکم سے اچھا کر دینا ، بعض بعض غیب کی خبریں رب العزت کے معلوم کرانے سے دینا وغیرہ آپ کی تائید پر روح القدس یعنی حضرت جبرائیل کو لگا دیا لیکن بنی اسرائیل اپنے کفر اور تکبر میں اور بڑھ گئے اور زیادہ حسد کرنے لگے اور ان تمام انبیاء کرام کے ساتھ برے سلوک سے پیش آئے ۔ کہیں جھٹلاتے اور کہیں مار ڈالتے تھے محض اس بنا پر کہ انبیاء کی تعلیم ان کی طبیعتوں کے خلاف ہوا کرتی تھی ان کی رائے اور انہیں ان کے قیاسات اور ان کے بنائے ہوئے اصول و احکام ان کی قبولیت سے ٹکراتے تھے اس لئے دشمنی پر تل جاتے تھے حضرت عبداللہ بن مسعود حضرت عبداللہ بن عباس محمد بن کعب اسمٰعیل بن خالد سدی ربیع بن انس عطیہ عوفی اور قتادہ وغیرہ کا قول یہی ہے کہ روح القدس سے مراد حضرت جبرائیل ہیں جیسے قرآن شریف میں اور جگہ ہے آیت ( نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ ) 26 ۔ الشعرآء:193 ) یعنی اسے لے کر روح امین اترے ہیں صحیح بخاری میں تعلیقاً مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسان شاعر کے لئے مسجد میں منبر رکھوایا وہ مشرکین کی ہجو کا جواب دیتے تھے اور آپ ان کے لئے دعا کرتے تھے کہ اے اللہ عزوجل حسان کی مدد روح القدس سے فرما جیسے کہ یہ تیرے نبی کی طرف سے جواب دیتے ہیں بخاری و مسلم کی ایک اور حدیث میں ہے کہ حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلافت فاروقی کے زمانے میں ایک مرتبہ مسجد نبوی میں کچھ اشعار پڑھ رہے تھے حضرت عمر نے آپ کی طرف تیز نگاہیں اٹھائیں تو آپ نے فرمایا میں تو اس وقت بھی ان شعروں کو یہاں پڑھتا تھا جب یہاں تم سے بہتر شخص موجود تھے پھر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف دیکھ کر فرمایا ابو ہریرہ تمہیں اللہ کی قسم کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے نہیں سنا ؟ کہ اے حسان تو مشرکوں کے اشعار کا جواب دے اے اللہ تعالیٰ تو حسان کی تائید روح القدس سے کر ۔ حضرت ابو ہریرہ نے فرمایا ہاں اللہ کی قسم میں نے حضور سے یہ سنا ہے بعض روایتوں میں یہ بھی ہے کہ حضور نے فرمایا حسان تم ان مشرکین کی ہجو کرو جبرائیل بھی تمھارے ساتھ ہیں حضرت حسان کے شعر میں بھی جبرائیل کو روح القدس کہا گیا ہے ایک اور حدیث میں ہے کہ جب یہودیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روح کی بابت پوچھا تو آپ نے فرمایا تمہیں اللہ کی قسم اللہ کی نعمتوں کو یاد کر کے کہو کیا خود تمہیں معلوم نہیں کہ وہ جبرائیل ہیں اور وہی میرے پاس بھی وحی لاتے ہیں ان سب نے کہا بیشک ( ابن اسحاق ) ابن حبان میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جبرائیل علیہ السلام نے میرے دل میں کہا کہ کوئی شخص اپنی روزی اور زندگی پوری کئے بغیر نہیں مرتا ۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور دنیا کمانے میں دین کا خیال رکھو بعض نے روح القدس سے مراد اسم اعظم لیا ہے بعض نے کہا ہے فرشوتں کا ایک سردار فرشتہ ہے بعض کہتے ہیں قدس سے مراد اللہ تعالیٰ اور روح سے مراد جبرائیل ہے کسی نے کہا ہے قدس یعنی برکت کسی نے کہا ہے پاک کسی نے کہا ہے روح سے مراد انجیل ہے جیسے فرمایا آیت ( وَكَذٰلِكَ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا ) 42 ۔ الشوری:52 ) یعنی اسی طرح ہم نے تیری طرف روح کی وحی اپنے حکم سے کی ۔ امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ کا فیصلہ یہی ہے کہ یہاں مراد روح القدس سے حضرت جبرائیل ہیں جیسے اور جگہ ہے اذ اید تک بروح القدس الخ اس آیت میں روح القدس کی تائید کے ذکر کے ساتھ کتاب و حکمت توراۃ و انجیل کے سکھانے کا بیان ہے معلوم ہوا کہ یہ اور چیز ہے اور وہ اور چیز علاوہ ازیں روانی عبارت بھی اس کی تائید کرتی ہے قدس سے مراد مقدس ہے جیسے حاتم جود اور رجل صدق میں روح القدس کہنے میں اور روح منہ کہنے میں قربت اور بزرگی کی ایک خصوصیت پائی جاتی ہے یہ اس لئے بھی کہا گیا ہے کہ یہ روح مردوں کی پیٹھوں اور حیض والے رحموں سے بےتعلق رہی ہے بعض مفسرین نے اس سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پاکیزہ روح لی ہے پھر فرمایا کہ ایک فرقے کو تم نے جھٹلایا اور ایک فرقے کو تم قتل کرتے ہو جھٹلانے میں ماضی کا صیغہ لائے لیکن قتل میں مستقبل کا اس لئے کہ ان کا حال آیت کے نزول کے وقت بھی یہی رہا چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض الموت میں فرمایا کہ اس زہر آلود لقمہ کا اثر برابر مجھ پر رہا جو میں نے خیبر میں کھایا تھا اس وقت اس نے رک رک کر جان کاٹ دی ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

87۔ 1 آیت ( وَقَفَّيْنَا مِنْ بَعْدِهٖ بالرُّسُلِ ) 2 ۔ بقرہ :87) کے معنی ہیں موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد مسلسل پیغمبر آتے رہے حتٰی کہ بنی اسرائیل میں انبیاء کا سلسلہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ختم ہوگیا (بَیِّنَاتِ ) سے معجزات مراد ہیں جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو دئیے گئے تھے جیسے مردوں کو زندہ کرنا، کوڑھی اور اندھے کو صحت یاب کرنا وغیرہ جن کا ذکر ( وَرَسُوْلًا اِلٰى بَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ ڏ اَنِّىْ قَدْ جِئْتُكُمْ بِاٰيَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ ۙ اَنِّىْٓ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّيْنِ كَهَيْــــَٔــةِ الطَّيْرِ فَاَنْفُخُ فِيْهِ فَيَكُوْنُ طَيْرًۢا بِاِذْنِ اللّٰهِ ۚ وَاُبْرِئُ الْاَكْمَهَ وَالْاَبْرَصَ وَاُحْىِ الْمَوْتٰى بِاِذْنِ اللّٰهِ ۚ وَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَمَا تَدَّخِرُوْنَ ۙفِيْ بُيُوْتِكُمْ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ 49؀ۚ ) 003:049 میں ہے۔ ایک اور آیت میں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو (رُوحُ لْآمین) فرمایا گیا ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حسان کے متعلق فرمایا (اے اللہ روح القدس سے اس کی تائید فرما) ایک دوسری حدیث میں ہے (جبرائیل (علیہ السلام) تمہارے ساتھ ہیں) معلوم ہوا کہ روح القدوس سے مراد حضرت جبرائیل ہی ہیں (فتح البیان ابن کثیر بحوالہ الحواشی) ۔ 87۔ 2 جیسے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو جھٹلایا اور حضرت زکریا و یحیٰی (علیہما السلام) کو قتل کیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٠] بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہونے والے انبیاء :۔ ان میں سے جن انبیاء و رسل کا نام قرآن میں آیا ہے وہ یہ ہیں۔ (بہ ترتیب زمانی) ہارون، ذی الکفل، الیاس الیسع، داؤد، سلیمان، لقمان، (اختلافی) عزیر، یونس، زکریا۔ یحییٰ اور عیسیٰ (علیہم السلام) جنہیں سریانی زبان میں یسوع کہتے ہیں۔ [١٠١] معجزات سیدنا عیسیٰ :۔ عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کرتے تھے۔ کوڑھی اور اندھے کو فقط ہاتھ لگا کر تندرست کردیتے تھے۔ مٹی کا پرندہ بنا کر اس میں پھونک مارتے تو وہ اڑنے لگتا تھا اور آپ لوگوں کو یہ بھی بتا دیتے تھے کہ وہ کیا کچھ کھا کر آئے ہیں اور کیا کچھ گھر میں چھوڑ کر آئے ہیں اور ان تمام کاموں میں روح القدس یعنی جبریل (علیہ السلام) کی تائید آپ کے شامل حال رہتی تھی۔ [١٠٢] یہود اور انبیاء کا قتل :۔ جیسے ان لوگوں نے سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کو بھی جھٹلایا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی اور سیدنا زکریا اور سیدنا یحییٰ (علیہما السلام) کو قتل کردیا۔ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کو مروا ڈالنے کے درپے ہوچکے تھے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص مہربانی سے انہیں اوپر اپنے ہاں اٹھا لیا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

یعنی موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد آنے والے جن انبیاء و رسل کا نام قرآن مجید میں آیا ہے وہ ہارون، ذوالکفل، الیاس، الیسع، داؤد، سلیمان، عزیر، یونس، زکریا، یحییٰ اور عیسیٰ ( علیہ السلام) ہیں، حدیث میں یوشع بن نون (علیہ السلام) کا ذکر بھی آیا ہے۔ لقمان (علیہ السلام) کے نبی ہونے میں اختلاف ہے۔ بہت سے رسولوں کا تذکرہ قرآن میں نہیں کیا گیا، دیکھیے سورة مؤمن ( ٧٨) ۔ (الْبَيِّنٰت) اس سے مراد معجزے ہیں، جو عیسیٰ (علیہ السلام) کو دیے گئے، جیسے مردوں کو زندہ کرنا، مٹی سے پرندے کی شکل بنا کر اس میں روح پھونکنے سے پرندہ بن جانا، اندھے اور برص کے مریض کو تندرست کرنا وغیرہ، جن کا ذکر سورة آل عمران ( ٤٩) اور مائدہ (١١٠) میں آیا ہے۔ (بِرُوْحِ الْقُدُسِ ۭ ) اس سے مراد جبریل (علیہ السلام) ہیں۔ زمخشری (رض) نے فرمایا : ” بِالرُّوْحِ الْمُقَدَّسَۃِ کَمَا تَقُوْلُ حَاتِمُ الْجُوْدِ وَ رَجُلُ صِدْقٍ “ گویا ” روح “ موصوف ہے، جو اپنی صفت کی طرف مضاف ہے اور ” قدس “ مصدر ہے، جو اسم مفعول کے معنی میں ہے، یعنی پاک روح، جیسا کہ ” حاتم “ کو اس کی صفت ” اَلْجُوْدُ “ کی طرف مضاف کیا گیا، جبکہ مصدر بمعنی ” اَلْجَوَادُ “ ہے، یعنی سخی ” حاتم “ اور ” رَجُل “ کو اس کی صفت ” صدق “ کی طرف مضاف کیا گیا، جو ” صادق “ کے معنی میں ہے، یعنی سچا آدمی۔ (الکشاف) بعض اہل علم نے فرمایا : ” الْقُدُسِ ۭ“ اللہ تعالیٰ ہے، کیونکہ وہ سراسر پاک ہے، روح اس کی طرف مضاف ہے، گویا روح القدس کا معنی ہوا روح اللہ، اگرچہ تمام روحوں کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے، مگر جبریل (علیہ السلام) کی خصوصی عزت افزائی کے لیے انھیں روح اللہ کہا گیا، جیسا کہ ” بیت اللہ “ اور ” ناقۃ اللہ “ کہا جاتا ہے کہ اگرچہ سب گھروں کا مالک اللہ ہی ہے اور سب اونٹنیاں اللہ ہی کی ہیں، مگر کعبہ کو اور صالح (علیہ السلام) کی اونٹنی کو ان الفاظ کے ساتھ خاص شرف عطا ہوا۔ اس بات کی دلیل کہ روح القدس سے مراد جبریل (علیہ السلام) ہی ہیں، یہ ہے کہ سورة شعراء (١٩٣) میں جبریل (علیہ السلام) کو ” الروح الامین “ فرمایا گیا ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حسان (رض) کے متعلق فرمایا : ( اَللّٰھُمَّ أَیِّدْہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ ) ” اے اللہ ! اس کو روح القدس کے ساتھ قوت بخش۔ “ [ بخاری، الصلوۃ، باب الشعر فی المسجد : ٤٥٣ ] ایک دوسری حدیث میں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنوقریظہ سے جنگ والے دن حسان (رض) سے فرمایا : ( اُھْجُ الْمُشْرِکِیْنَ فَإِنَّ جِبْرِیْلَ مَعَکَ ) ” مشرکین کی ہجو کر کیونکہ یقیناً جبریل تیرے ساتھ ہے۔ “ [ بخاری، المغازی، باب مرجع النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) من الأحزاب : ٤١٢٤ ] معلوم ہوا کہ روح القدس جبریل ہی ہیں۔ اگرچہ تمام انبیاء کو بینات عطا ہوئے اور جبریل (علیہ السلام) کے ذریعے سے وحی ہوئی، مگر عیسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ معجزوں اور روح القدس کی تائید کا خاص طور پر اس لیے ذکر کیا گیا کہ یہود نے اتنے برگزیدہ پیغمبر کو بھی جھٹلا دیا، بلکہ انھیں اپنے خیال میں سولی پر چڑھا دیا، پھر اسے اپنا فخریہ کارنامہ قرار دیا : ( وَّقَوْلِهِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيْحَ عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُوْلَ اللّٰهِ ۚ وَمَا قَتَلُوْهُ وَمَا صَلَبُوْهُ وَلٰكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ ۭ وَاِنَّ الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوْا فِيْهِ لَفِيْ شَكٍّ مِّنْهُ ۭ مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاع الظَّنِّ ۚ وَمَا قَتَلُوْهُ يَقِيْنًۢا) [ النساء : ١٥٧ ] ” اور ان کے یہ کہنے کی وجہ سے (ہم نے ان پر لعنت کی) کہ بلاشبہ ہم نے ہی مسیح عیسیٰ ابن مریم کو قتل کیا، جو اللہ کا رسول تھا، حالانکہ نہ انھوں نے اسے قتل کیا اور نہ اسے سولی پر چڑھایا اور لیکن ان کے لیے اس (مسیح) کا شبیہ بنادیا گیا اور بیشک وہ لوگ جنھوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا ہے، یقیناً اس کے متعلق بڑے شک میں ہیں، انھیں اس کے متعلق گمان کی پیروی کے سوا کچھ علم نہیں اور انھوں نے اسے یقیناً قتل نہیں کیا۔ “ (وَفَرِيْقًا تَقْتُلُوْن) دیکھیے سورة بقرہ آیت (٦١) کی تفسیر۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The Qur&an again reminds the Israelites how Allah in His mercy forgave them their transgressions again and again, and provided them with all the means of guidance. First of all, He gave them a Divine Book, the Torah, through Sayyidna Musa (علیہ السلام) (Moses); then, sent them a number of prophets; and, at the end of this line, sent down Sayyidna Isa (علیہ السلام) (Jesus) along with clear and irrefutable evidences of his prophethood, like the Evangel and miracles, and appointed the Archangel Jibra&il (علیہ السلام) (Gabriel) to give him support. The Archangel Jibra&il (علیہ السلام) has often been called |"Ruh al-Qudus|" (the Holy Spirit) in the Noble Qur&an and the Hadith. For example, in Verse 16:102 - قُلْ نَزَّلَهُ رُ‌وحُ الْقُدُسِ مِن رَّ‌بِّكَ بِالْحَقِّ لِيُثَبِّتَ الَّذِينَ آمَنُوا وَهُدًى وَبُشْرَ‌ىٰ لِلْمُسْلِمِينَ ﴿١٠٢﴾ - |"Say: the Holy Spirit has brought it (the Noble Qur&an) down;|" or in a couplet of the poet and blessed Companion Hassan ibn Thabit (رض) ، reported in the Hadith: وجبریل رسول اللہ فینا وروح القدس لیس لہ کفاء Jibra&il, the messenger of Allah, comes to us; he is the Holy Spirit, the incomparable.|" Allah helped and supported Sayyidna ` Isa (علیہ السلام) through Jibra&il (علیہ السلام) in several ways. (1) He was conceived through the breath of the Archangel. (2) Jibra&il (علیہ السلام) protected him against being touched by Satan at the time of his birth. (3) The Archangel always accompanied him in order to defend him against the hostility of the Jews. (4) It was through him that Sayyidna ` Isa (علیہ السلام) was raised to the heav¬ens. In. spite of all these divine favours, the Jews persisted in their rebellion. They were so stubborn in the worship of their desires, that whenever the prophets brought to them certain divine injunctions which did not please them, the Jews would deny the prophets – they denied even Sayyidna ` Isa (علیہ السلام) ، or would kill them outright -- for example, they dealt in this vile manner with Sayyidna Zakariyya (علیہ السلام) (Zachariah) and Sayyidna Yahya (علیہ السلام) (John the Baptist).

خلاصہ تفسیر : اور ہم نے (اے بنی اسرائیل تمہاری ہدایت کے لئے ہمیشہ سے بڑے بڑے سامان کئے سب سے اول) موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب (توراۃ) دی اور (پھر) ان کے بعد (درمیان میں) یکے بعد دیگرے (برابر مختلف) پیغمبروں کو بھیجتے رہے اور (پھر اس خاندان کے سلسلہ کے اخیر میں) ہم نے (حضرت) عیسیٰ بن مریم کو (نبوت کے) واضح دلائل (انجیل اور معجزات) عطا فرمائے اور ہم نے ان کو روح القدس ( جبرئیل علیہ السلام) سے جو تائید دی (سو الگ جو بجائے خود ایک دلیل واضح تھی تو) کیا (تعجب کی بات نہیں کہ اس پر بھی تم سرکشی کرتے رہے اور) جب کبھی بھی کوئی پیغمبر تمہارے پاس ایسے احکام لائے جن کو تمہارا دل نہ چاہتا تھا (جب ہی) تم نے (ان پیغمبروں کی اطاعت سے) تکبر کرنا شروع کردیا سو (ان پیغمبروں میں سے) بعضوں کو تو (نعوذباللہ) تم نے جھوٹا بتلایا اور بعضوں کو (بیدھڑک) قتل ہی کر ڈالتے تھے، فائدہ : قرآن و حدیث میں جابجا حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کو روح القدس کہا گیا ہے جیسے قرآن کی اس آیت میں نیز قُلْ نَزَّلَهٗ رُوْحُ الْقُدُسِ (١٠٢: ١٦) میں اور حدیث میں حضرت حسان بن ثابت کا یہ شعر وجبریل رسول اللہ فینا، وروح القدس لیس لہ کفاء اور جبریل (علیہ السلام) کے واسطے سے عیسیٰ (علیہ السلام) کئی طریقوں سے تائید ہوئی اول تو ولادت کے وقت مس شیطان سے حفاظت کی گئی پھر ان کے دم کرنے سے حمل عیسوی قرار پایا پھر یہود چونکہ کثرت سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے مخالف تھے اس لئے جبرئیل (علیہ السلام) حفاظت کے لئے ساتھ رہتے تھے حتٰی کے آخر میں ان کے ذریعہ سے آسمان پر اٹھوالئے گئے یہود نے بہت سے پیغمبروں کی تکذیب کی حتی کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بھی تکذیب کی اور حضرت زکریا و حضرت یحییٰ ٰ (علیہم السلام) کو قتل بھی کیا،

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

رکوع نمبر 11 وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَقَفَّيْنَا مِنْۢ بَعْدِہٖ بِالرُّسُلِ۝ ٠ ۡوَاٰتَيْنَا عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنٰتِ وَاَيَّدْنٰہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ۝ ٠ ۭ اَفَكُلَّمَا جَاۗءَكُمْ رَسُوْلٌۢ بِمَا لَا تَہْوٰٓى اَنْفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ۝ ٠ ۚ فَفَرِيْقًا كَذَّبْتُمْ۝ ٠ ۡوَفَرِيْقًا تَقْتُلُوْنَ۝ ٨٧ ( قَدْ ) : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] ، قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران/ 13] ، قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة/ 1] ، لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ، لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة/ 117] ، وغیر ذلك، ولما قلت لا يصحّ أن يستعمل في أوصاف اللہ تعالیٰ الذّاتيّة، فيقال : قد کان اللہ علیما حكيما، وأما قوله : عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل/ 20] ، فإنّ ذلک متناول للمرض في المعنی، كما أنّ النّفي في قولک : ما علم اللہ زيدا يخرج، هو للخروج، وتقدیر ذلک : قد يمرضون فيما علم الله، وما يخرج زيد فيما علم الله، وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة . نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ . و ( قَدْ ) و ( قط) «2» يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر . ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ۔ قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران/ 13] تمہارے لئے دوگرہوں میں ۔۔۔۔ ( قدرت خدا کی عظیم الشان ) نشانی تھی ۔ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة/ 1] خدا نے ۔۔ سن لی ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ( اے پیغمبر ) ۔۔۔۔۔ تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة/ 117] بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی ۔ اور چونکہ یہ فعل ماضی پر تجدد کے لئے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے اوصاف ذاتیہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا ۔ لہذا عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل/ 20] کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت : اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں ۔ میں قد لفظا اگر چہ علم پر داخل ہوا ہے لیکن معنوی طور پر اس کا تعلق مرض کے ساتھ ہے جیسا کہ ، ، میں نفی کا تعلق خروج کے ساتھ ہے ۔ اور اس کی تقدریروں ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔ آتینا وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة/ 25] ، وقال : فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقال : وَآتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [ النساء/ 54] . [ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] . وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف/ 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني . { وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا } [ البقرة : 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے ۔ { فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا } [ النمل : 37] ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی ۔ { مُلْكًا عَظِيمًا } [ النساء : 54] اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی ۔ جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ { آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ } [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔ موسی مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته . كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو قفا القَفَا معروف، يقال : قَفَوْتُهُ : أصبت قَفَاهُ ، وقَفَوْتُ أثره، واقْتَفَيْتُهُ : تبعت قَفَاهُ ، والِاقْتِفَاءُ : اتّباع القفا، كما أنّ الارتداف اتّباع الرّدف، ويكنّى بذلک عن الاغتیاب وتتبّع المعایب، وقوله تعالی: وَلا تَقْفُ ما لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ [ الإسراء/ 36] أي : لا تحکم بالقِيَافَةِ والظنّ ، والقِيَافَةُ مقلوبة عن الاقتفاء فيما قيل، نحو : جذب وجبذ وهي صناعة وقَفَّيْتُهُ : جعلته خلفه . قال : وَقَفَّيْنا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ [ البقرة/ 87] . والقَافِيَةُ : اسم للجزء الأخير من البیت الذي حقّه أن يراعی لفظه فيكرّر في كلّ بيت، والقَفَاوَةُ : الطّعام الذي يتفقّد به من يعنی به فيتّبع . ( ق ف و ) القفا کے معنی گدی کے ہیں اور قفرتہ کے معنی کسی کی گدی پر مارنا اور کسی کے پیچھے پیچھے چلنا یہ دونوں محاورہ ہے استعمال ہوتی ہے قفوت الژرہ واقتفیتہ کے معنی کیس کے پیچھے چلنے کے ہیں دوسرے کا مصدر اقتفاء ہے ۔ جس کے اصل معنی کسی کی قفا کا اتباع کرنے کے ہیں ۔ لیکن کنایہ کے طور پر کیس کی غیبت اور عیب جوئی کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا تَقْفُ ما لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ [ الإسراء/ 36] اور ( اے بندے ) جس چیز کا تجھے علم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑ ۔ یعنی محض قیافہ اور ظن سے کام نہ لو بعض کے نزدیک قیافہ کا لفظ بھی اقتفاء سے مقلوب ہے ۔ جیسے جذب وحیذا ور یہ ( قیافہ ) ایک فن ہے ۔ اور قفیتہ کے معنی کیس کو دوسرے کے پیچھے لگانے کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَقَفَّيْنا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ [ البقرة/ 87] اور ان کے پیچھے یکے بعد دیگرے پیغمبر بھیجتے رہے ، القافیۃ مصر عہ کے جز وا خیر کو کہا جاتا ہے جس کے حرف روی کی ہر شعر میں رعایت رکھی جاتی ہے ۔ القفاوۃ وہ کھانا جس سے مہمان کی آؤ بھگت کی جائے ۔ رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] وقال : وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفاً [ المرسلات/ 1] ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہیں یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ ۔ وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفاً [ المرسلات/ 1] قسم ہے ان فرشتوں کی جو پیام الہی دے کر بھیجے جاتے ہیں عيسی عِيسَى اسم علم، وإذا جعل عربيّا أمكن أن يكون من قولهم : بعیر أَعْيَسُ ، وناقة عَيْسَاءُ ، وجمعها عِيسٌ ، وهي إبل بيض يعتري بياضها ظلمة، أو من الْعَيْسِ وهو ماء الفحل يقال : عَاسَهَا يَعِيسُهَا ( ع ی س ) یہ ایک پیغمبر کا نام اور اسم علم ہے اگر یہ لفظ عربی الاصل مان لیا جائے تو ہوسکتا ہے کہ یہ اس عیس سے ماخوذ ہو جو کہ اعیس کی جمع ہے اور اس کی مؤنث عیساء ہے اور عیس کے معنی ہیں سفید اونٹ جن کی سفیدی میں قدرے سیاہی کی آمیزش ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے عیس سے مشتق ہو جس کے معنی سانڈ کے مادہ منو یہ کے ہیں اور بعیر اعیس وناقۃ عیساء جمع عیس اور عاسھا یعسھا کے معنی ہیں نر کا مادہ سے جفتی کھانا ۔ مریم مریم : اسم أعجميّ ، اسم أمّ عيسى عليه السلام» . بينات يقال : بَانَ واسْتَبَانَ وتَبَيَّنَ نحو عجل واستعجل وتعجّل وقد بَيَّنْتُهُ. قال اللہ سبحانه : وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت/ 38] ، وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم/ 45] ، ولِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 55] ، قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ [ البقرة/ 256] ، قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآياتِ [ آل عمران/ 118] ، وَلِأُبَيِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ الزخرف/ 63] ، وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] ، لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي يَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ النحل/ 39] ، فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران/ 97] ، وقال : شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة/ 185] . ويقال : آية مُبَيَّنَة اعتبارا بمن بيّنها، وآية مُبَيِّنَة اعتبارا بنفسها، وآیات مبيّنات ومبيّنات . والبَيِّنَة : الدلالة الواضحة عقلية کانت أو محسوسة، وسمي الشاهدان بيّنة لقوله عليه السلام : «البيّنة علی المدّعي والیمین علی من أنكر» «2» ، وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] . وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] . والبَيَان : الکشف عن الشیء، وهو أعمّ من النطق، لأنّ النطق مختص بالإنسان، ويسمّى ما بيّن به بيانا . قال بعضهم : البیان يكون علی ضربین : أحدهما بالتسخیر، وهو الأشياء التي تدلّ علی حال من الأحوال من آثار الصنعة . والثاني بالاختبار، وذلک إما يكون نطقا، أو کتابة، أو إشارة . فممّا هو بيان بالحال قوله : وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] ، أي : كونه عدوّا بَيِّن في الحال . تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونا عَمَّا كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتُونا بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [إبراهيم/ 10] . وما هو بيان بالاختبار فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 43- 44] ( ب ی ن ) البین کے معنی ظاہر اور واضح ہوجانے کے ہیں اور بینہ کے معنی کسی چیز کو ظاہر اور واضح کردینے کے قرآن میں ہے ۔ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم/ 45] اور تم پر ظاہر ہوچکا تھا کہ ہم نے ان لوگوں کے ساتھ کس طرح ( کاملہ ) کیا تھا ۔ وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت/ 38] چناچہ ان کے ( ویران ) گھر تمہاری آنکھوں کے سامنے ہیں ۔ ولِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 55] اور اس لئے کہ گنہگاروں کا رستہ ظاہر ہوجائے ۔ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ [ البقرة/ 256] ہدایت صاف طور پر ظاہر ( اور ) گمراہی سے الگ ہوچکی ہو ۔ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآياتِ [ آل عمران/ 118] ہم نے تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سنا دیں ۔ وَلِأُبَيِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ الزخرف/ 63] نیز اس لئے کہ بعض باتیں جن میں تم اختلاف کررہے ہو تم کو سمجھا دوں وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو ( ارشادت ) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي يَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ النحل/ 39] تاکہ جن باتوں میں یہ اختلاف کرتے ہیں وہ ان پر ظاہر کردے ۔ فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران/ 97] اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں ۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة/ 185] ( روزوں کا مہنہ ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن ( وال وال ) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے ۔ اور بیان کرنے والے کے اعتبار ہے آیت کو مبینۃ نجہ کہا جاتا ہے کے معنی واضح دلیل کے ہیں ۔ خواہ وہ دلالت عقلیہ ہو یا محسوسۃ اور شاھدان ( دو گواہ ) کو بھی بینۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا ہے : کہ مدعی پر گواہ لانا ہے اور مدعا علیہ پر حلف ۔ قرآن میں ہے أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] بھلا جو لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل ( روشن رکھتے ہیں ۔ لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] تاکہ جو مرے بصیرت پر ( یعنی یقین جان کر ) مرے اور جو جیتا رہے وہ بھی بصیرت پر ) یعنی حق پہچان کر ) جیتا رہے ۔ جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] ان کے پاس ان کے پیغمبر نشانیاں کے کر آئے ۔ البیان کے معنی کسی چیز کو واضح کرنے کے ہیں اور یہ نطق سے عام ہے ۔ کیونکہ نطق انسان کے ساتھ مختس ہے اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی بیان کہہ دیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ بیان ، ، دو قسم پر ہے ۔ ایک بیان بالتحبیر یعنی وہ اشیا جو اس کے آثار صنعت میں سے کسی حالت پر دال ہوں ، دوسرے بیان بالا ختیار اور یہ یا تو زبان کے ذریعہ ہوگا اور یا بذریعہ کتابت اور اشارہ کے چناچہ بیان حالت کے متعلق فرمایا ۔ وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] اور ( کہیں ) شیطان تم کو ( اس سے ) روک نہ دے وہ تو تمہارا علانیہ دشمن ہے ۔ یعنی اس کا دشمن ہونا اس کی حالت اور آثار سے ظاہر ہے ۔ اور بیان بالا ختیار کے متعلق فرمایا : ۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ اور ان پیغمروں ( کو ) دلیلیں اور کتابیں دے کر بھیجا تھا ۔ ايد ( قوة) قال اللہ عزّ وجل : أَيَّدْتُكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ [ المائدة/ 110] فعّلت من الأيد، أي : القوة الشدیدة . وقال تعالی: وَاللَّهُ يُؤَيِّدُ بِنَصْرِهِ مَنْ يَشاءُ [ آل عمران/ 13] أي : يكثر تأييده، ويقال : إِدْتُهُ أَئِيدُهُ أَيْداً نحو : بعته أبيعه بيعا، وأيّدته علی التکثير . قال عزّ وجلّ : وَالسَّماءَ بَنَيْناها بِأَيْدٍ [ الذاریات/ 47] ، ويقال : له أيد، ومنه قيل للأمر العظیم مؤيد . وإِيَاد الشیء : ما يقيه، وقرئ : (أَأْيَدْتُكَ ) وهو أفعلت من ذلك . قال الزجاج رحمه اللہ : يجوز أن يكون فاعلت، نحو : عاونت، وقوله عزّ وجل : وَلا يَؤُدُهُ حِفْظُهُما[ البقرة/ 255] أي : لا يثقله، وأصله من الأود، آد يؤود أودا وإيادا : إذا أثقله، نحو : قال يقول قولا، وفي الحکاية عن نفسک : أدت مثل : قلت، فتحقیق آده : عوّجه من ثقله في ممرِّه . ( ای د ) الاید ( اسم ) سخت قوت اس سے اید ( تفعیل ) ہے جس کے معنی تقویت دنیا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ أَيَّدْتُكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ [ المائدة/ 110] ہم نے تمہیں روح قدس سے تقویت دی وَاللَّهُ يُؤَيِّدُ بِنَصْرِهِ مَنْ يَشاءُ [ آل عمران/ 13] یعنی جسے چاہتا ہے اپنی نصرت سے بہت زیادہ تقویت بخشتا ہے ادتہ ( ض) ائیدہ ایدا جیسے بعتہ ابیعہ بیعا ( تقویت دینا) اور اس سے ایدتہ ( تفعیل) تکثیر کے لئے آتا ہے قرآن میں ہے وَالسَّماءَ بَنَيْناها بِأَيْدٍ [ الذاریات/ 47] اور ہم نے آسمان کو بڑی قوت سے بنایا اور اید میں ایک لغت آد بھی ہے اور ۔ اسی سے امر عظیم کو مؤید کہا جاتا ہے اور جو چیز دوسری کو سہارا دے اور بچائے اسے ایاد الشئی کہا جاتا ہے ایک قرات میں ایدتک ہے جو افعلت ( افعال ) سے ہے اور ایاد الشئ کے محاورہ سے ماخوذ ہے زجاج (رح) فرماتے ہیں کہ یہ فاعلت ( صفاعلہ ) مثل عادنت سے بھی ہوسکتا ہے ۔ روح ( فرشته) وسمّي أشراف الملائكة أَرْوَاحاً ، نحو : يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلائِكَةُ صَفًّا[ النبأ/ 38] ، تَعْرُجُ الْمَلائِكَةُ وَالرُّوحُ [ المعارج/ 4] ، نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] ، سمّي به جبریل، وسمّاه بِرُوحِ القدس في قوله : قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ [ النحل/ 102] ، وَأَيَّدْناهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ [ البقرة/ 253] ، وسمّي عيسى عليه السلام روحاً في قوله : وَرُوحٌ مِنْهُ [ النساء/ 171] ، وذلک لما کان له من إحياء الأموات، وسمّي القرآن روحاً في قوله : وَكَذلِكَ أَوْحَيْنا إِلَيْكَ رُوحاً مِنْ أَمْرِنا [ الشوری/ 52] ، وذلک لکون القرآن سببا للحیاة الأخرويّة الموصوفة في قوله : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] ، والرَّوْحُ التّنفّس، وقد أَرَاحَ الإنسان إذا تنفّس . وقوله : فَرَوْحٌ وَرَيْحانٌ [ الواقعة/ 89] روح اور قرآن نے ذو شرف ملائکہ کو بھی ارواح سے موسوم کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلائِكَةُ صَفًّا[ النبأ/ 38] جس روز کہ روح فرشتہ اور دیگر ملائکہ صفیں باندھ کھڑے ہوں گے ۔ تَعْرُجُ الْمَلائِكَةُ وَالرُّوحُ [ المعارج/ 4] فرشتے اور جبریل اس کی طرف چڑھتے ہیں ۔ اور اٰت کریمہ : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اسے روح امین لے کر اترا ۔ میں روح امین سے مراد جبریل (علیہ السلام) ہیں ۔ اور دوسری آیت میں جبریل (علیہ السلام) کو روح القدس بھی کہا ہے ۔ جیسے فرمایا : قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ [ النحل/ 102] اس قرآن کو روح القدس لے کر آتے ہیں ۔ قرآن نے حضرت عیٰسی (علیہ السلام) کو روح کہہ کر پکارا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَرُوحٌ مِنْهُ [ النساء/ 171] اور وہ ایک روح تھی جو خدا کی طرف سے آئی اور عیٰسی کو روح اس لئے کہا ہے کہ وہ دو مردوں کو زندہ کرتے تھے ۔ اور قرآن کو بھی روح کہا گیا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَكَذلِكَ أَوْحَيْنا إِلَيْكَ رُوحاً مِنْ أَمْرِنا [ الشوری/ 52] اس طرح ہم نے اپنے حکم سے ( دین کی ) جان ( یعنی یہ کتاب) تمہاری طرف وحی کے ذریعہ بھیجی ۔ اس لئے قرآن سے حیات اخردی حاصل ہوتی ہے جس کے متعلق فرمایا : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] اور دار آخرت کی زندگی ہی اصل زندگی ہے ۔ اور روح ( بفتح الراء ) کے معنی سانس کے ہیں اور اراح الانسان کے معنی تنفس یعنی سانس لینے کے اور آیت : فَرَوْحٌ وَرَيْحانٌ [ الواقعة/ 89] توراحت اور مذاق ہے ۔ میں ریحان سے خوشبودار چیزیں مراد ہیں اور بعض نے رزق مراد لیا ہے الروح : کے متعلق مختلف اقوال ہیں۔ (1) اس سے مراد ہے ارواح بنی آدم۔ (2) بنی آدم فی انفسہم۔ (3) خد ا کی مخلوق میں سے بنی آدم کی شکل کی ایک مخلوق جو نہ فرشتے ہیں نہ بشر۔ (4) حضرت جبرئیل علیہ السلام۔ (5) القران (6) جمیع مخلوق کے بقدر ایک عظیم فرشتہ وغیرہ۔ ( اضواء البیان) ا۔ ابن جریر نے ان جملہ اقوال میں سے کسی ایک کو ترجیح دینے سے توقف کیا ہے ۔ ب۔ مودودی، پیر کرم شاہ، صاحب تفسیر مدارک، جمہور کے نزدیک حضرت جبریل (علیہ السلام) ہیں۔ ج۔ مولانا اشرف علی تھانوی (رح) کے نزدیک تمام ذی ارواح۔ مولانا عبد الماجد دریا بادی (رح) کے نزدیک اس سیاق میں روح سے مراد ذی روح مخلوق لی گئی ہے۔ قدس التَّقْدِيسُ : التّطهير الإلهيّ المذکور في قوله : وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً [ الأحزاب/ 33] ، دون التّطهير الذي هو إزالة النّجاسة المحسوسة، وقوله : وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ [ البقرة/ 30] ، أي : نطهّر الأشياء ارتساما لك . وقیل : نُقَدِّسُكَ ، أي : نَصِفُكَ بالتّقدیس . وقوله : قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ [ النحل/ 102] ، يعني به جبریل من حيث إنه ينزل بِالْقُدْسِ من الله، أي : بما يطهّر به نفوسنا من القرآن والحکمة والفیض الإلهيّ ، والبیتُ المُقَدَّسُ هو المطهّر من النّجاسة، أي : الشّرك، وکذلک الأرض الْمُقَدَّسَةُ. قال تعالی: يا قَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ [ المائدة/ 21] ، وحظیرة القُدْسِ. قيل : الجنّة . وقیل : الشّريعة . وکلاهما صحیح، فالشّريعة حظیرة منها يستفاد القُدْسُ ، أي : الطّهارة . ( ق د س ) التقدیس کے معنی اس تطہیرالہی کے ہیں جو کہ آیت وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً [ الأحزاب/ 33] اور تمہیں بالکل پاک صاف کردے ۔ میں مذکور ہے ۔ کہ اس کے معنی تطہیر بمعنی ازالہ نجاست محسوسہ کے نہیں ہے اور آیت کریمہ : وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ [ البقرة/ 30] اور ہم تیری تعریف کے ساتھ تسبیح و تقدیس کرتے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں کہ ہم تیرے حکم کی بجا آوری میں اشیاء کو پاک وصاف کرتے ہیں اور بعض نے اسکے معنی ۔ نصفک بالتقدیس بھی لکھے ہیں ۔ یعنی ہم تیری تقدیس بیان کرتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ [ النحل/ 102] کہدو کہ اس کو روح القدس ۔۔۔ لے کر نازل ہوئے ہیں ۔ میں روح القدس سے مراد حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہیں کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے قدس یعنی قرآن حکمت اور فیض الہی کے کر نازل ہوتے تھے ۔ جس سے نفوس انسانی کی تطہیر ہوتی ہے ۔ اور البیت المقدس کو بیت مقدس اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ نجاست شرک سے پاک وصاف ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : يا قَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ [ المائدة/ 21] تو بھائیو ! تم ارض مقدس ( یعنی ملک شام ، میں جسے خدا نے تمہارے لئے لکھ رکھا ہے ۔ داخل ہو ۔ میں ارض مقدسہ کے معنی پاک سرزمین کے ہیں ۔ اور خطیرۃ القدس سے بعض کے نزدیک جنت اور بعض کے نزدیک شریعت مراد ہے اور یہ دونوں قول صحیح ہیں۔ کیونکہ شریعت بھی ایک ایسا حظیرہ یعنی احاظہ ہے جس میں داخل ہونے والا پاک وصاف ہوجاتا ہے۔ جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] وقال : وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفاً [ المرسلات/ 1] ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہیں یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ ۔ وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفاً [ المرسلات/ 1] قسم ہے ان فرشتوں کی جو پیام الہی دے کر بھیجے جاتے ہیں هوى الْهَوَى: ميل النفس إلى الشهوة . ويقال ذلک للنّفس المائلة إلى الشّهوة، وقیل : سمّي بذلک لأنّه يَهْوِي بصاحبه في الدّنيا إلى كلّ داهية، وفي الآخرة إلى الهَاوِيَةِ ، وَالْهُوِيُّ : سقوط من علو إلى سفل، وقوله عزّ وجلّ : فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة/ 9] قيل : هو مثل قولهم : هَوَتْ أمّه أي : ثکلت . وقیل : معناه مقرّه النار، والْهَاوِيَةُ : هي النار، وقیل : وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] أي : خالية کقوله : وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص/ 10] وقد عظّم اللہ تعالیٰ ذمّ اتّباع الهوى، فقال تعالی: أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية/ 23] ، وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص/ 26] ، وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف/ 176] وقوله : وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة/ 120] فإنما قاله بلفظ الجمع تنبيها علی أنّ لكلّ واحد هوى غير هوى الآخر، ثم هوى كلّ واحد لا يتناهى، فإذا اتّباع أهوائهم نهاية الضّلال والحیرة، وقال عزّ وجلّ : وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] ، كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام/ 71] أي : حملته علی اتّباع الهوى. ( ھ و ی ) الھوی ( س ) اس کے معنی خواہشات نفسانی کی طرف مائل ہونے کے ہیں اور جو نفساتی خواہشات میں مبتلا ہو اسے بھی ھوی کہدیتے ہیں کیونکہ خواہشات نفسانی انسان کو اس کے شرف ومنزلت سے گرا کر مصائب میں مبتلا کردیتی ہیں اور آخر ت میں اسے ھاویۃ دوزخ میں لے جاکر ڈال دیں گی ۔ الھوی ( ض ) کے معنی اوپر سے نیچے گر نے کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة/ 9] اسکا مرجع ہاویہ ہے : ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ ھوت انہ کیطرف ایک محاورہ ہے اور بعض کے نزدیک دوزخ کے ایک طبقے کا نام ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اسکا ٹھکانا جہنم ہے اور بعض نے آیت وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ( ہوا ہو رہے ہوں گے ۔ میں ھواء کے معنی خالی یعنی بےقرار کئے ہیں جیسے دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص/ 10] موسیٰ کی ماں کا دل بےقرار ہوگیا ۔ اور اللہ تعالیٰ نے قرآن میں خواہشات انسانی کی اتباع کی سخت مذمت کی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية/ 23] بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے ولا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص/ 26] اور خواہش کی پیروی نہ کرنا ۔ وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف/ 176] اور وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے ۔ اور آیت : ۔ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة/ 120] اگر تم ان کی خواہشوں پر چلو گے ۔ میں اھواء جمع لاکر بات پت تنبیہ کی ہے کہ ان میں سے ہر ایک کی خواہش دوسرے سے مختلف اور جدا ہے اور ایہ ایک کی خواہش غیر متنا ہی ہونے میں اھواء کا حکم رکھتی ہے لہذا ایسی خواہشات کی پیروی کرنا سراسر ضلالت اور اپنے آپ کو درطہ حیرت میں ڈالنے کے مترادف ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] اور نادانوں کی خواہش کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَلا تَتَّبِعُوا أَهْواءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا [ المائدة/ 77] اور اس قوم کی خواہشوں پر مت چلو ( جو تم سے پہلے ) گمراہ ہوچکے ہیں ۔ قُلْ لا أَتَّبِعُ أَهْواءَكُمْ قَدْ ضَلَلْتُ [ الأنعام/ 56] ( ان لوگوں سے ) کہدو کہ میں تمہاری خواہشوں پر نہیں چلتا ۔ ایسا کروں میں گمراہ ہوچکا ہوں گا ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَهُمْ وَقُلْ آمَنْتُ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ [ الشوری/ 15] اور ان ( یہود ونصاریٰ کی کو اہشوں پر مت چلو اور ان سے صاف کہدو کہ میرا تو اس پر ایمان ہے ۔ جو خدا نے اتارا ۔ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ وہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے ۔ الھوی ( بفتح الہا ) کے معنی پستی کی طرف اترنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل ھوی ( بھم الہا ) کے معنی بلندی پر چڑھنے کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ( الکامل ) ( 457 ) یھوی مکار مھا ھوی الاجمال اس کی تنگ گھائیوں میں صفرہ کیطرح تیز چاہتا ہے ۔ الھواء آسمان و زمین فضا کو کہتے ہیں اور بعض نے آیت : ۔ وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ہوا ہور رہے ہوں گے ۔ کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے یعنی بےقرار ہوتے ہیں ھواء کی طرح ہوں گے ۔ تھا ویٰ ( تفاعل ) کے معنی ایک دوسرے کے پیچھے مھروۃ یعنی گڑھے میں گرنے کے ہیں ۔ اھواء اسے فضا میں لے جا کر پیچھے دے مارا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوى [ النجم/ 53] اور اسی نے الٹی بستیوں کو دے پئکا ۔ استھوٰی کے معنی عقل کو لے اڑنے اور پھسلا دینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام/ 71] جیسے کسی کی شیاطین ( جنات ) نے ۔۔۔۔۔۔۔ بھلا دیا ہو ۔ الاسْتِكْبارُ والْكِبْرُ والتَّكَبُّرُ والِاسْتِكْبَارُ تتقارب، فالکبر الحالة التي يتخصّص بها الإنسان من إعجابه بنفسه، وذلک أن يرى الإنسان نفسه أكبر من غيره . وأعظم التّكبّر التّكبّر علی اللہ بالامتناع من قبول الحقّ والإذعان له بالعبادة . والاسْتِكْبارُ يقال علی وجهين : أحدهما : أن يتحرّى الإنسان ويطلب أن يصير كبيرا، وذلک متی کان علی ما يجب، وفي المکان الذي يجب، وفي الوقت الذي يجب فمحمود . والثاني : أن يتشبّع فيظهر من نفسه ما ليس له، وهذا هو المذموم، وعلی هذا ما ورد في القرآن . وهو ما قال تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة/ 34] . ( ک ب ر ) کبیر اور الکبر والتکبیر والا ستکبار کے معنی قریب قریب ایک ہی ہیں پس کہر وہ حالت ہے جس کے سبب سے انسان عجب میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اور عجب یہ ہے کہ انسان آپنے آپ کو دوسروں سے بڑا خیال کرے اور سب سے بڑا تکبر قبول حق سے انکار اور عبات سے انحراف کرکے اللہ تعالیٰ پر تکبر کرنا ہے ۔ الاستکبار ( اسعا سے ل ) اس کا استعمال دوطرح پر ہوتا ہے ۔ ا یک یہ کہ انسان بڑا ببنے کا قصد کرے ۔ اور یہ بات اگر منشائے شریعت کے مطابق اور پر محمل ہو اور پھر ایسے موقع پر ہو ۔ جس پر تکبر کرنا انسان کو سزا وار ہے تو محمود ہے ۔ دوم یہ کہ انسان جھوٹ موٹ بڑائی کا ) اظہار کرے اور ایسے اوصاف کو اپنی طرف منسوب کرے جو اس میں موجود نہ ہوں ۔ یہ مذموم ہے ۔ اور قرآن میں یہی دوسرا معنی مراد ہے ؛فرمایا ؛ أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة/ 34] مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آگیا۔ فریق والفَرِيقُ : الجماعة المتفرّقة عن آخرین، قال : وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران/ 78] ( ف ر ق ) الفریق اور فریق اس جماعت کو کہتے ہیں جو دوسروں سے الگ ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران/ 78] اور اہل کتاب میں بعض ایسے ہیں کہ کتاب تو راہ کو زبان مروڑ مروڑ کر پڑھتے ہیں ۔ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے قتل أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ( ق ت ل ) القتل ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144]

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٧) اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو توریت دی اور ان کے بعد مسلسل رسولوں کو بھیجا اور عیسیٰ بن مریم (علیہا السلام) کو امر و نہی عجائب و علامات عطا کیے اور جبریل امین (علیہ السلام) کے ذریعے سے ان کو طاقت دی۔ اے یہودیوں کی جماعت ! کیوں تمہارے دل اور تمہارا دین موافقت نہیں کرتا اور تم رسول پر ایمان لانے سے اعراض کرتے ہو ایک جماعت نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو جھٹلادیا اور تم ہی میں سے بعض لوگوں نے حضرت یحییٰ (علیہ السلام) اور حضرت زکریا (علیہ السلام) کو قتل کیا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٧ (وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ (وَقَفَّیْنَا مِنْم بَعْدِہٖ بالرُّسُلِز) ایک بات نوٹ کر لیجیے کہ یہاں لفظ الرُّسُل انبیاء کے معنی میں آیا ہے۔ نبی اور رسول میں کچھ فرق ہے ‘ اسے اختصار کے ساتھ سمجھ لیجیے۔ قرآن مجید کی اصطلاحات کے تین جوڑے ایسے ہیں کہ وہ تینوں مترادف کے طور پر بھی استعمال ہوجاتے ہیں اور اپنا علیحدہ علیحدہ مفہوم بھی رکھتے ہیں۔ ان کے ضمن میں علماء کرام نے یہ اصول وضع کیا ہے کہ اِذَا اجْتَمَعَا تَفَرَّقَا وَاِذَا تَفَرَّقَا اجْتَمَعَا یعنی جب (ایک جوڑے کے) دونوں لفظ اکٹھے استعمال ہوں گے تو دونوں کا مفہوم مختلف ہوگا ‘ اور جب یہ دونوں الگ الگ استعمال ہوں گے تو ایک معنی میں استعمال ہوجائیں گے۔ ان میں سے ایک جوڑا اسلام اور ایمان یا مسلم اور مؤمن کا ہے۔ عام طور پر مسلم کی جگہ مؤمن اور مؤمن کی جگہ مسلم استعمال ہوجاتا ہے ‘ لیکن سورة الحجرات میں یہ دونوں الفاظ اکٹھے استعمال ہوئے ہیں تو ان کا فرق واضح ہوگیا ہے۔ فرمایا : (قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّاط قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْا اَسْلَمْنَا۔۔ ) (آیت ١٤) بدو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں۔ ان سے کہیے کہ تم ہرگز ایمان نہیں لائے ہو ‘ البتہ یہ کہو کہ ہم نے اسلام قبول کرلیا ہے۔۔ اسی طرح جہاد اور قتال کا معاملہ ہے۔ یہ دو مختلف الفاظ ہیں ‘ جن کا مفہوم جدا بھی ہے لیکن ایک دوسرے کی جگہ بھی آجاتے ہیں۔ اس ضمن میں تیسرا جوڑا نبی اور رسول کا ہے۔ یہ دونوں لفظ بھی اکثر ایک دوسرے کی جگہ آجاتے ہیں ‘ لیکن ان میں فرق بھی ہے۔ ہر نبی رسول نہیں ہوتا ‘ البتہ ہر رسول لازماً نبی ہوتا ہے۔ یعنی نبی عام ہے رسول خاص ہے۔ نبی کو جب کسی خاص قوم کی طرف معینّ طور پر بھیج دیا جاتا ہے تب اس کی حیثیت رسول کی ہوجاتی ہے۔ اس سے پہلے اس کی حیثیت انتہائی اعلیٰ مرتبہ پر فائز ایک ولی اللہ کی ہے ‘ جس پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ عام ولی اللہ میں اور نبی میں فرق یہی ہے کہ نبی پر وحی آتی ہے ‘ ولی پر وحی نہیں آتی۔ لیکن کسی نبی کو جب کسی معین قوم کی طرف مبعوث کردیا جاتا تھا تو پھر وہ رسول ہوتا تھا۔ جیسے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کو حکم دیا گیا : (اِذْھَبَا اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰی) (طٰہٰ ) تم دونوں فرعون کی طرف جاؤ ‘ یقیناً وہ سرکشی پر اتر آیا ہے۔ اسی طرح دوسرے رسولوں کے بارے میں آیا ہے کہ وہ اپنی اپنی قوم کی طرف مبعوث فرمائے گئے تھے۔ مثلاً (وَاِلٰی مَدْیَنَ اَخَاھُمْ شُعَیْبًا) (الاعراف : ٨٥) اور مدین کی طرف بھیجا ہم نے ان کے بھائی شعیب ( علیہ السلام) کو۔ یہ فرق ہے نبی اور رسول کا۔ محض سمجھانے کے لیے بطور مثال عرض کر رہا ہوں کہ جیسے آپ کے یہاں خصوصی تربیت یافتہ افراد پر مشتمل CSP cadre ہے ‘ ان میں سے کوئی ڈپٹی کمشنر لگا دیا جاتا ہے ‘ کسی کو جائنٹ سکریٹری کیّ ذمہ داری تفویض کی جاتی ہے ‘ تو کوئی بطور O.S.D خدمات انجام دیتا ہے ‘ لیکن اس کا کا ڈر (CSP) برقرار رہتا ہے۔ اسی اعتبار سے ہر نبی ہر حال میں نبی ہوتا تھا ‘ لیکن اسے رسول کی حیثیت سے ایک اضافی ذمہ داری اور اضافی مرتبہ عطا کیا جاتا تھا۔ نبی اور رسول کے فرق کے ضمن میں ایک بات یہ نوٹ کر لیجیے کہ نبیوں کو قتل بھی کیا گیا ہے ‘ جبکہ رسول قتل نہیں ہوسکتے۔ اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ (لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ ط) (المُجادلۃ : ٢١) لازماً غالب رہیں گے َ میں اور میرے رسول۔ چناچہ جب بھی کسی قوم نے کسی رسول ( علیہ السلام) کی جان لینے کی کوشش کی تو اس قوم کو ہلاک کردیا گیا اور رسول ( علیہ السلام) اور اس کے ساتھیوں کو بچالیا گیا۔ لیکن یہ معاملہ نبیوں کے ساتھ نہیں ہوا۔ حضرت یحییٰ ( علیہ السلام) نبی تھے ‘ قتل کردیے گئے ‘ جبکہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) رسول تھے ‘ لہٰذا قتل نہیں کیے جاسکتے تھے ‘ ان کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا گیا ‘ جو قیامت سے قبل دوبارہ زمین پر نزول فرمائیں گے۔ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ کے راستے میں شہید ہونے کی شدید تمنا تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی اس تمنا اور آرزو کا اظہار ان الفاظ میں فرمایا ہے : (وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَوَدِدْتُ اَنْ اُقَاتِلَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَاُقْتَلَ ثُمَّ اُحْیَا ثُمَّ اُقْتَلَ ثُمَّ اُحْیَا ثُمَّ اُقْتَلَ ثُمَّ اُحْیَا ثُمَّ اُقْتَلَ ) (٩) قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے ! میری بڑی خواہش ہے کہ میں اللہ کی راہ میں جنگ کروں تو اس میں قتل کردیا جاؤں ‘ پھر میں زندہ کیا جاؤں ‘ پھر قتل کیا جاؤں ‘ پھر میں زندہ کیا جاؤں ‘ پھر اللہ کی راہ میں قتل کیا جاؤں ‘ پھر میں زندہ کیا جاؤں ‘ پھر اللہ کی راہ میں قتل کیا جاؤں ! لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ خواہش پوری نہیں کی۔ اس لیے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول تھے۔ آیت زیر مطالعہ میں نوٹ کیجیے کہ اگرچہ یہاں لفظ رسول آگیا ہے لیکن یہ نبی کے معنی میں آیا ہے : (وَقَفَّیْنَا مِنْم بَعْدِہٖ بالرُّسُلِز) اور ہم نے موسیٰ ( علیہ السلام) کے بعد لگاتار پیغمبر بھیجے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد رسول تو حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) ہی ہیں ‘ درمیان میں جو پیغمبر (prophets) ہیں یہ سب انبیاء ہیں۔ (وَاٰتَیْنَا عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ ) حسِّی معجزات جس قدر حضرت مسیح (علیہ السلام) کو دیے گئے ویسے اور کسی نبی کو نہیں دیے گئے۔ ان کا تذکرہ آگے چل کر سورة آل عمران میں آئے گا۔ (وَاَیَّدْنٰہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ ط) ۔ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو حضرت جبرائیل ( علیہ السلام) کی خاص تائید و نصرت حاصل تھی۔ معجزات کا ظہور کسی نبی یا رسول کی اپنی طاقت سے نہیں ہوتا ‘ اسی طرح کرامت کسی ولی اللہ کے اپنے اختیار میں نہیں ہوتی ‘ یہ معاملہ اللہ کی طرف سے ہوتا ہے اور اس کا ظہور فرشتوں کے ذریعے سے ہوتا ہے۔ (اَفَکُلَّمَا جَآءَ ‘ کُمْ رَسُوْلٌم بِمَا لاَ تَہْوٰٓی اَنْفُسُکُمُ اسْتَکْبَرْتُمْ ط) ۔ انبیاء و رسل کے ساتھ یہود نے جو طرز عمل روا رکھا ‘ خاص طور پر حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے ساتھ جو کچھ کیا ‘ یہاں اس پر تبصرہ ہو رہا ہے کہ جب بھی کبھی تمہارے پاس کوئی رسول تمہاری خواہشات نفس کے خلاف کوئی چیز لے کر آیا تو تمہاری روش یہی رہی کہ تم نے استکبار کیا اور سرکشی کی ‘ وہی استکبار اور سرکشی جس کے باعث عزازیل ابلیس بن گیا تھا۔ (فَفَرِیْقًا کَذَّبْتُمْز وَفَرِیْقًا تَقْتُلُوْنَ ۔ اللہ کے رسول چونکہ قتل نہیں ہوسکتے لہٰذا یہاں نبیوں کا قتل مراد ہے۔ مزید برآں ایک رائے یہ بھی دی گئی ہے کہ یہاں ماضی کا صیغہ قَتَلْتُمْ نہیں آیا ‘ بلکہ فعل مضارع تَقْتُلُوْنَ آیا ہے اور مضارع کے اندر فعل جاری رہنے کی خاصیت ہوتی ہے۔ گویا تم ان کو قتل کرنے کی کوشش کرتے رہے ‘ بعض رسولوں کی تو جان کے درپے ہوگئے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

93. The 'spirit of holiness' signifies the knowledge derived through revelation. It also signifies the angel Gabriel who brought this revelation. It also denotes the holy spirit of Jesus, the spirit which God had endowed with angelic character. The expression 'clear proofs' refers to those signs which are likely to convince a truth-seeking and truth-loving person that Jesus is a Prophet of God.

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :93 ” روح پاک“ سے مراد علم وحی بھی ہے ، اور جبریل بھی جو وحی کا علم لاتے تھے اور خود حضرت مسیح ؑ کی اپنی پاکیزہ روح بھی ، جس کو اللہ نے قدسی صفات بنایا تھا ۔ ”روشن نشانیوں“ سے مراد وہ کھلی کھلی علامات ہیں ، جنہیں دیکھ کر ہر صداقت پسند طالبِ حق انسان یہ جان سکتا تھا کہ مسیح علیہ السّلام اللہ کے نبی ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

59: ’’ روح القدس‘‘ کے لفظی معنی ہیں مقدس روح اور قرآن کریم میں یہ لقب حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کے لئے استعمال کیا گیا ہے (دیکھئے سورۃ نحل 102:16) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو جب جبرئیل (علیہ السلام) کی یہ تائید حاصل تھی کہ وہ ان دشمنوں سے ان کی حفاظت کے لئے ان کے ساتھ رہتے تھے

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ کے ما بین ایک ہزار نوسو پچیس برس کے زمانہ میں کتاب تو وہی تورات ہی رہی مگر حضرت زکریا ( علیہ السلام) یونس یحییٰ ‘ داؤد ‘ سلیمان (علیہ السلام) اور نبی اللہ تعالیٰ نے تورات کے احکام قائم رکھنے کے لئے متواتر بھیجے۔ اور ان انبیاء نے جب کبھی بنی اسرائیل کو تورات کے احکام کی پابندی پر زیادہ مجبور کیا اور برخلاف کتاب الٰہی کے جو باتیں یہود نے رائج کر رکھی تھیں ان سے ان کو روکا تو انہوں نے ان کے ساتھ بدسلوکی کر کے بعضوں کو ان میں سے شہید کیا اور بعضوں کے ساتھ سخت مخالفت سے پیش آئے۔ روح القدس کی تفسیر میں صحیح قول یہ ہے کہ روح القدس سے مراد یہاں حضرت جبرئیل ہیں ١ کہ وہ ہر وقت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ رہتے تھے اور سورة آل عمران میں آئے گا کہ حضرت عیسیٰ نے تورات کے کچھ احکام مثلاً چربی اور اونٹ کے گوشت کے حرام ہونے کو اللہ کے حکم سے منسوخ بھی کیا۔ یہود کا تو یہ عقیدہ تھا کہ تورات کے احکام قیامت تک کبھی منسوخ نہیں ہوں گے۔ حضرت عیسیٰ کے جدید معجزات سے اور تورات کے بعض احکام کی منسوخی سے انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے سخت مخالفت شروع کی یہاں تک کہ آخر ان کے شہید کرنے پر مستعد ہوئے جس کا تفصیلی قصہ سورة النساء میں آئے گا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:87) الکتب : ای التوراۃ۔ قفینا۔ ماضی جمع متکلم ۔ تقضیۃ (تفعیل) مصدر سے ۔ پیچھے بھیجنا۔ پیچھے کردینا ۔ اس کے مادہ قفا ہے۔ قفا کا معنی گردن اور سر کا پچھلا حصہ (گدی) قفو اور قفو پیچھے چلنا، پیروی کرنا (اس معنی میں مجرد باب نصر سے مستعمل ہے) تقضیۃ (باب تفعیل) دو مفعول چاہتا ہے اور اس کی مندرجہ ذیل صورتیں ہوتی ہیں۔ (1) کبھی دونوں مفعول پر حرف جر نہیں ہوتا۔ مثلاً تفیت زیداً عمرواً میں نے زید کو عمرو کے پیچھے بھیجا۔ (2) کبھی مفعول دوم پر ب آتا ہے۔ قرآن مجید میں اسی طرح مستعمل ہے مثلاً آیت ہذا۔ اور ہم نے اس کے پیچھے رسول بھیجے اور ثم قفینا علی اثارہم برسلنا (57:27) پھر ہم نے ان کے قدموں کے نشان پر یعنی بالکل ان کے پیچھے پیچھے اپنے رسول بھیجے۔ (3) کبھی مفعول اول حذف کردیا جاتا ہے مثلاً وقفینا بعیسی ابن مریم (57:27) اور ّپھر ان رسولوں کے) پیچھے عیسیٰ بن مریم کو بھیجا۔ البینات۔ بینۃ کی جمع ہے بوجھ جمع مؤنث سالم کے منصوب ہے۔ روشن دلیلیں۔ کھلی ہوئی دلیلیں ۔ ایدناہ ۔ ایدنا ماضی جمع متکلم۔ تائید (تفعیل) مصدر بمعنی مدد کرنا۔ قوت دینا۔ تائید کرنا۔ ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب ۔ ہم نے اس کو قوت دی۔ ہم نے اس کی تائید کی۔ روح القدس۔ مضاف مجاف الیہ۔ یہ موصوف کی اضافت صفت کی طرف ہے جیسے کہتے ہیں حاتم الجور اور رجل صدق اور یہ مبالغہ کے اختصاص کے لئے ہے۔ یہاں بھی القدس (پاکی) روح کی صفت ہے۔ پاک و مقدس روح۔ روح القدس سے مراد یا حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہیں یا القدس سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور روح سے مراد وہ روح ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے اندر پھونکی تھی۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے فنفخنا فیہ من روحنا (26:12) ہم نے اس میں اپنی روح سے پھونکا۔ اس میں متعدد اقوال ہیں جو کسی تفسیر میں ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں۔ افکلما۔ ہمزہ استفہامیہ فاء عاطفہ ہے۔ کلما مرکب ہے کل اور ما سے۔ ما مصدریہ ہے اور کلما کے معنی کل وقت۔ یعنی جب ، جبکہ، جس جس وقت، جب بھی۔ اسی وقت کے معنی کی وجہ سے اس ما کو مصدریہ ظرفیہ یعنی ظرف کا نائب کہتے ہیں نہ کہ خود ظرف۔ کلما میں لفظ کل ظرف ہونے کی وجہ سے منصوب ہے، اس لئے کہ وہ ایسی شے کی طرف مضاف ہے جو ظرف کی قائم مقام ہے۔ کلما تکرار کے واسطے آتا ہے۔ اکثر کلما کے بعد فعل ماضی آتا ہے مثلاً کلما نضحت جلودھم (4:56) کلما دعوتہم (71:2) افکلما تو کیا جب کبھی۔ مالا تھوی ۔ ما موصولہ ہے۔ لاتھوی انفسکم اس کا صلہ، لا تھوی مضارع منفی اور واحد مؤنث غائب ھوی (باب سمع) مصدر بمعنی خواہش کی طرف نفس کا مائل ہونا ۔ جیسے تمہارے جی ناپسند کرتے ہیں۔ استکبرتم۔ ماضی جمع مذکر حاضر۔ استکبار (استفعال) مصدر تم نے تکبر کیا۔ تم نے غرور کیا۔ یعنی ایمان لانے اور پیغمبروں کے اتباع سے تکبر کرنے لگے۔ ففریقا کذبتم وفریقا تقتلون ۔ پس کسی گروہ کو تم نے جھٹلایا اور کسی گروہ کو قتل کرنے لگے، یہاں صیغہ مضارع اس لئے استعمال ہوا کہ یہ ایک امر عظیم ہے اور یہ قاعدہ ہے کہ جو امر عظیم ہوتا ہے اس کو اس طرح بیان کیا کرتے ہیں کہ وہ بالکل پیش نظر ہوجاوے گویا اب ہو رہا ہے۔ (مظہری)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یہاں الکتاب سے توریت مراد ہے جسے یہود نے بدل ڈالا تھا اور قفینا من بعدہ بالر سل کے معنی یہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد ان کے پاس مسلسل پیغمبر آتے رہے جیسے فرمایا : ثُمَّ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتْرَا ( المومنون : 44) اور آخر کار بنی اسرائیل کے انبیاء کا یہ سلسلہ عیسیٰ (علیہ السلام) پر ختمج ہوگیا اور بتینا سے معجزات مراد ہیں جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو دیئے گئے جسے مردوں کو زندہ کرنا مٹی سے پرن بنا کر اس میں روح پھونکنا کوڑی اور اندھے کو صحتیاب کرنا وغیرہ جن کا ذکر سورت آل عمران آیت 49) اور مائدہ (آیت 110) میں آیا ہے قر طبی۔ ابن کثیر) اور روح سے مراد حضرت جبریل (علیہ السلام) ہیں۔ اور ان کو روح کے نام سے اس لیے پکارا گیا ہے کہ وہ امرتکوینی سے ظہور میں آئے تھے جیسا کہ خود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو روح کہا گیا ہے اور القدس سے ذات الہی مراد ہے اور اس کی طرف روح کی اضافت تشریفی ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ روح القدس سے انجیل مراد ہو جیسا کہ قرآن کو رحامن امرنا (42 ۔ 52) فرمایا ہے۔ مگر اس سے جبریل (علیہ السلام) مراد لینا زیادہ صحیح ہے ابن جریر نے بھی اس کو تر جیح دی ہے کیو کہ آیت (110 ۔ المائدہ) میں روح القدس اور انجیل دونوں الگ الگ مذکور ہیں اور ایک آیت (26 ۔ 193) میں حضرت جبر یل (علیہ السلام) کو الروح۔ الامین فرمایا ہے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حسان کے متعلق فرمایا اللھم ایدہ بروح القدس اے اللہ روح القدس سے اس کی تائید فرما۔ ایک دوسری حدیث میں ہے " وجبریل معک کہ جبریل تمہارے ساتھ ہیں معلوم ہوا کہ روح القدس جبریل (علیہ السلام) ہی ہیں ( فتح البیان۔ ابن کثیر)2 جن پیغمبروں کی انہوں نے تکذیب کی ان میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شامل ہیں اور جب کو قتل کیا ان میں حضرت زکریا۔ اور حضرت یحییٰ (علیہ السلام) داخل ہیں۔ (قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات 87 96 اسرار و معارف حقیقت یہ ہے کہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی ، ایک لائحہ عمل ، پوری زندگی کا پروگرام اور ایسا جو دنیا وآخرت ہر دو عالم کی کامیابی کا ضامن ہو دیا۔ انسان کی ساری سوچ بچار ، ساری تگ ودو اور انتخاب واسمبلیاں صرف اس لئے ہیں کہ زندگی بسر کرنے کا بہترین طریقہ تلاش کیا جائے مگر ہم نے آسمان نازل فرما کر اللہ کی طرف سے تمہیں ایک مکمل ضابطہ حیات دیا اور ساتھ ایک الوالعزم رسول بھیجا کہ صرف کتاب نافع نہیں جب تک دل پاک ہو کہ اس کی تعلیمات کو قبول نہ کرنے لگ جائیں جو صحبت رسول کا حاصل ہے اور جب یہ استعداد حاصل ہو تب بھی کتاب اللہ کی شرح نبی اور رسول ہی کرسکتا ہے کہ ہمیشہ کتاب میں اجمال ہوتا ہے اور اس کی سرح انبیاء (علیہم السلام) فرماتے ہیں جو براہ راست اللہ سے تعلیم پاتے ہیں۔ یہی حال یہاں ہے کہ سب سے عظیم کتاب سب سے عظیم رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لائے اور جوتے کے تسمے باندھنے سے لے کر ۔۔۔۔۔ ؟ صفحہ 82 تک ہر شے کی تعلیم فرمائی مگر اس کا کیا کیا جائے کہ جب دل ہی فیضان نبوت سے خالی ہوں تو کتاب سے کیا حاصل ہوسکے گا۔ پھر یہ بات صرف موسیٰ (علیہ السلام) پر ختم نہ کردی بلکہ ان کے بعد پے درپے رسول بھیجے جو سب دلوں کو زندہ کرنے کی قوت رکھتے تھے اور فیضان باری کے خزینے تھے۔ حتیٰ کہ عیسیٰ (علیہ السلام) مبعوث ہوئے جن کے پاس واضح معجزات بھی تھے اور جبرائیل امین جیسے عظیم فرشتے بھی ہمہ وقت ان کی اطاعت میں کھڑے تھے کہ تعمیل ارشاد کریں ، نبی سب معصوم عن انحطاء ہوتے ہیں مگر اسی کے ساتھ عیسیٰ (علیہ السلام) کی ایک برادری فضیلت بھی ارشاد فرمائی کہ جبرائیل (علیہ السلام) کے دم کرنے سے حمل قرار پایا۔ ولادت کے وقت وہی خادم تھے پردے کے پیچھے خطاب فرماتے تھے ، بعد ولادت ساتھ رہے ، زندگی بھر حفاظت کی ، اور انہی کے ذریعہ آسمان پر اٹھائے گئے یعنی ان کا مزاج ہی کامل ملکوتی تھا کہ نہ جماع سے پیدا ہوئے اور نہ ابھی خود ہی کیا تھا۔ جماع اگرچہ خود اطاعت بن کر ثواب کا باعث بنتا ہے مگر یہ ایک ایسا فعل ہے جو مکمل توجہ اپنی طرف جذب کرتا ہے اور احوال میں مزید لمحوں کے لئے ایک انقطاع پیدا کردیتا ہے جس کی تلافی کے لئے پھر کچھ وقت کچھ محنت ضرور کار ہوتی ہے مگر عیسیٰ (علیہ السلام) کے ہاں یہ بھی نہ تھا۔ اگر چو وہ دوبارہ تشریف لائیں گے تو شادی بھی کریں گے صحیح حدیث سے ثابت ہے مگر جس وقت کی بات ہورہی ہے اس وقت حالت ایسی ہی تھی۔ اسی طرح امت مرحومہ میں بعثت نبوی علٰے صاحبھا الصلوٰۃ والسلام کے بعد کتاب اللہ کی حفاظت بھی اللہ خود کررہا ہے اور فیضان نبوی کے خزینے یعنی اولیاء اللہ بھی ہر دور کو منور فرما رہے ہیں۔ یہ حدیث کہ جس کا مفہوم ہے میری امت کے علماء انبیاء بنی اسرائیل کی طرح ہیں انہی روشن چراغوں کے حق میں ہے جو علوم ظاہرہ کے ساتھ ساتھ سینے اور قلوب بھی منور رکھتے ہیں اور دوسروں کت یہ روشنی پہنچانے کی استعداد رکھتے ہیں محض چند گردانیں یاد کرکے انہیں روٹی کا ذریعہ بنانے والے اس کا مصداق نہیں ہوسکتے تو تمہاری حالت یہ ہے کہ تم نے انبیاء کرام (علیہم السلام) کو اپنے نفس کی کسوٹی پہ جانچا نفس مختلف مادی اجزاء کے یکجا ہونے کی وجہ سے صورت پذیر ہوتا ہے۔ لہٰذا اس کی ساری توجہ مادی لذات کی طرف ہوتی ہے یہ تو روح اور دل ہے جو عالم بالا کے حقائق سے منور ہوتا ہے اور ایسا ہوتا ہے کہ نفس کو بھی منور کرکے اس کی خواہشات بدل دیتا ہے۔ برعکس اس کے تم نے نفس کو روح اور دل پر مسلط کیا جو انبیاء سے حصول فیض تو کجا الٹا ان سے اکڑ گیا یہاں تک کہ تم بحیثیت قوم اکثر انبیاء کے قتل کے مرتکب ہوئے اور بہتوں کی تکذیب کرتے رہے تکبر نفس نے تکذیب پہ ابھارا اور تکذیب سے دل اس قدر سیاہ اور سخت ہوئے کہ انبیاء کے قتل سے بھی تم نے دریغ نہ کیا۔ یہی حال اکثر اہل اللہ کا ہوا ہے اور ہورہا ہے کہ لوگ استفادہ کرنے کی بجائے ان کو ایذا کا سبب بنے رہتے ہیں اور ان کو اپنے فتو وں کی زد میں رکھتے ہیں بنیادی سبب تو وہی تکبر ہے۔ وقالوا قلوبنا غلف……………فقلیلاً ما یوھنون۔ اور اس کے ساتھ یہ دعویٰ کہ جی ہمارے دل تو پردوں کے اندر ہیں کبھی میلے نہیں ہوتے ہمیشہ حق بات قبول کرتے ہیں اگر تمہاری باتوں میں وزن ہوتا تو ہمارے دل قبول کرتے۔ فرمایا یہ بات نہیں کہ انبیاء کی بات بےوزن ہے بلکہ قبول نہ کرنے والوں کے دل کفر کے سبب لعنت الٰہی اور حق سے دوری کی سزا میں گرفتار ہیں جیسے پہلے تھے ایسے ہی اب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار کر رہے ہیں یہ ان کے کفر اور بےراہ روی کی سزا ہے۔ یہاں سے خوب پتہ چلتا ہے کہ کثرت گناہ بالآخر ایمان کو بھی لے ڈوبتی ہے دل سیاہ ہوتے ہوتے اس قدر سخت ہوجاتے ہیں کہ ان پر حق بات اثر نہیں کرتی ورنہ اہل کتاب کی حالت یہ ہے کہ قرآن کو اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حق جانتے اور خوب پہچانتے ہیں مگر توفیق ایمان نہیں رکھتے۔ ولماجاء ھم کتاب من عنداللہ……………فلعنۃ اللہ علی الکفرین۔ کہ جب اللہ کی وہ کتاب ان کے پاس پہنچی جو ان کی کتاب کی بھی تصدیق کرتی ہے کہ جملہ آسمانی کتابوں میں توحید ، رسالت ، آخرت اور عبادت الٰہی وغیرہ ہی تو ہیں جو قدر مشترک کی حیثیت رکھتی ہیں اور یہ بھی کہ ان کی کتاب یا پہلی سب کتابوں میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت اور نزول قرآن کی بشارت ہے تو یہ بعثت اور نزول اس کی تصدیق کا سبب بن گئی کہ واقعی ایسا ہوا جس کی خبر کتاب میں پہلے موجود تھی۔ اور یہ لوگ تو کافروں کے مقابلے پر جنگ میں فتح انہی کے وسیلے سے مانگتے تھے یعنی آنے والے نبی اور کتاب کی عظمت سے اس قدر آشنا تھے کہ اللہ کو ان کا واسطہ دے کر کفار پر فتح طلب کرتے تھے اور پاتے تھے اور میدان مناظرہ میں بھی ان کو دلائل سے عاجز کرتے تھے ہم صاحب کتاب ہیں اگرچہ انبیاء کا زمانہ دور ہوا اور برکات اٹھ گئیں مگر اب نبی آخر الزماں کا وقت ظہور قریب ہے۔ ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مل کر تمہیں خوب سزادیں گے۔ مگر ہوا کیا ؟ جب وہ ہستی ، وہ کتاب آپہنچی ، وہی شے جس کو یہ خوب جانتے تھے تو اس کا انکار کردیا۔ سو لعنت ہے ، اللہ کی کافروں پر یعنی وہ عذاب الٰہی کا شکار ہیں۔ بئسما اشتروابہ انفسھم………………وللکفرین عذاب مھین۔ بہت برا سودا کیا ہے ان کے نفوس نے کہ محض حسد اور بغض کی وجہ سے محض دنیا کا جھوٹا وقار قائم رکھنے کو اللہ کی نازل کردہ نعمتوں یعنی نبوت اور کتاب کا انکار کربیٹھے۔ یہ نبوت کو بھی اپنی پسند کے تابع رکھنا چاہتے تھے کہ اگر بنی اسرائیل سے نبی ہوتا تو مان لیتے۔ بنی اسرائیل سے باہر نبوت کیسے ہوسکتی ہے ؟ فرمایا کیوں نہیں ہوسکتی ، اللہ اپنی عطا میں کسی کا پابند نہیں ہے جس پر چاہے اور جو چاہے کرم کردے۔ اپنے بندوں کو نوازتا ہے۔ من عبادہ یعنی اس کے مقبول بندے بھی سب ایک درجہ کے نہیں ہوتے بلکہ ان میں سے بعض کو خصوصی نعمتوں سے سرفراز فرماتا ہے۔ یہی یہودیانہ روش اب کے جاری ہے کہ کسی بزرگ کے خاندان سے ہونا ضروری ہے خواہ خودبدکار ہی ہو پیر مانا جائے گا اور اگر ایسا نہیں تو کس قدر نیک اور صاحب دل بھی ہو اکثر لوگ محروم رہیں گے انہوں نے نبوت کو میراث جانا ، یہ ولایت کو میراث جانتے ہیں ، لہٰذا ایسا کرنے سے یہ لوگ دوہرے عذاب کا شکار ہوئے کہ ایک تو اللہ کے نبی کا انکار کیا۔ دوسرے عطائے باری پہ اعتراض ہے تمہیں اپنی اس جرات بےجا کا پتہ چلے گا کہ کافروں کے لئے عذاب بھی ہے اور ذلت بھی۔ یعنی انہیں عذاب میں تکلیف کے علاوہ تذلیل کا سامنا بھی کرنا ہوگا۔ برخلاف اس کے اگر مومن گرفتار بلا ہوا تو محض گناہوں سے پاک کرنے کے لئے ہوگا۔ اس کی عزت قائم رکھی جائے گی ، معاملہ رب اور اس کے بندے کے درمیان ہوگا لوگوں میں ذلیل نہ کیا جائے گا۔ واذاخذنا میثاقکم……………………ان کنتم مومنین۔ باتیں بہت کرتے ہو حالانکہ حال تمہارا یہ ہے کہ تم سے اطاعت کا عہد لینے کے لئے تم پر کوہ طور کو معلق کیا گیا کہ اللہ کے احکام اچھی طرح سنو اور ان پوری محنت اور دیانتداری سے عمل کرو یہ کس قدر عظیم احسان تھا کہ اضطراراً تم سے اطاعت کرائی گئی ، حالانکہ کوئی قانون یہ نہیں ہے ورنہ تو اس طرح سب کے لئے آسانی ہوجائے اور تم نے عہد کیا قالوا سمعنا تم نے وعدہ کیا کہ اللہ ہم نے خوب سن لیا ہے مگر تمہارے عمل اور بعد کی زندگی نے یہ بھی ثابت کردیا کہ تم نے اطاعت نہ کی اور نافرمانی میں مبتلا رہے۔ بھئی ! یہ تو ایسے لوگ ہیں ان کی ناشکرگزاریوں کے باعث اور عبور دریا کے بعد پھر مبتلائے کفر ہونے کے باعث ان کی توبہ ناقص رہی جس کے نتیجہ میں ان کے دلوں میں بچھڑے کی محبت ڈال دی گئی ” واشربوا “ ان کے دلوں کو بچھڑے کی محبت سے سیراب کیا گیا۔ یہاں واقعہ رفع طور کی تکرار نہیں بلکہ ان کی ناشکری کا ایک درجہ اور اس کی کیفیت کا بیان مقصود ہے کہ بت پرستوں کو عبادت میں مصروف دیکھ کر کہہ اٹھے تھے یا موسیٰ اجعل لنا الہ۔ ان کو اس کفر سے اگرچہ موسیٰ (علیہ السلام) نے ڈانٹ ڈپٹ کر توبہ تو کرائی مگر ان سے حقیقی توبہ نہ ہوسکی حتٰے کہ ان پر پہاڑ معلق کیا گیا اور اس وقت اطاعت کا وعدہ کرکے عملاً غلط روش اپناتی اسی وجہ سے لوگوں میں اللہ کی محبت جگہ نہ پائے گی بلکہ غیر اللہ کی ایک بت کی ، ایک بچھڑے کی محبت ڈال دی گئی ان سے من حیث القوم کیا امید وفا کہ ان کرتوتوں کے ساتھ دعویٰ ایمان بھی ہے۔ ان سے فرمادیجئے کہ اگر تمہارا ایمان یہی ہے کہ کفر وشرک بھی کیا جائے ۔ حرام و حلال کی تمیز بھی نہ ہو ، حتیٰ کہ انبیاء کا قتل بھی صادر ہو اور ایمان بھی باقی رہے تو یہ بہت برا ایمان ہے یعنی یہ ایمان ہرگز نہیں بلکہ کفر کا پلندہ ہے جس کا نام تم نے ایمان رکھ لیا ہے۔ جیسے آج کل دعویٰ ایمان بھی ہے اور سنت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مٹا کر رسوم کو عبادت کا درجہ دیا جارہا ہے ذات وصفات باری تعالیٰ میں شرک بھی کیا جارہا ہے اور نہ صرف مسلمان بلکہ مسلمانی کے ٹھیکیدار ہونے کے مدعی بھی ہیں سو کوئی شخص بغیر عقائد کے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تعلیم فرمائے اور بغیر ان اعمال کے جن کی اصل سنت سے ثابت ہو کبھی فلاح نہیں پاسکتا خواہ کیسے بھی عادی کرتا رہے اب ان کے دعوے کو دوسری طرح سے جانچ لیں۔ قل ان کانت لکم الدار……………واللہ علیم بالظلمین۔ کہ یہود کہتے تھے لن تمسنا النار ال ایاما معدودہ ، لن یدخل الجنۃ الامن کان ھودا اونصری ، نحن ابناء اللہ واحیاء ۃ۔ تو ان سب دعو وں کی بنیاد یہ تھی کہ ہم حق پر ہیں مگر حقیقت اس کے برعکس ہے اور محض لوگوں کو دھوکہ دے رہے ہیں ورنہ دل سے جانتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبی برحق ہیں اگر ایسا نہیں تو آئو اب تک بات عقل ونقل کی حدود میں رہی اب ذرا فوق العادت اور معجزانہ طور پر تمہارے دعا دی کو پرکھا جائے کہ اگر تم سچے ہو تو ذرا موت کی تمنا کرو۔ موت کی تمنا کرنا یا نہ کرنا یا کن حالات میں جائز ہے اور کن میں نہیں ، یہ دوسرا مسئلہ ہے یہاں اس سے بحث نہیں۔ یہاں مقصد اس بات سے ہے کہ ان یہود کو جو آپ کی مخالفت پر کمر بستہ ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا اس قدر یقین ہے کہ ان کے دل کہتے ہیں کہ اگر ہم نے کہہ دیا کہ آپ کے مقابلے میں ہم سچے نہ ہوں تو ہمیں موت آجائے یقینا موت آجائے گی۔ لہٰذا یہ اعلان کردیا کہ کبھی ایسی تمنا نہ کریں گے کہ یہ بدکار ہیں اور بہت بڑے ظالم کہ حق کو باطل اور باطل کو حق ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں اللہ ایسے ظالموں کو خوب جانتا ہے۔ یہاں سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ گنہگار پر ایک انجانا سا خوف ، ایک خفیہ سی پریشانی جو مسلط رہتی ہے وہ وہی زندگی کے خاتمے کا کھٹکا اور موت کی ہیبت ہے۔ اور نیک اور صالح انسانوں کے دلوں میں جمعیت اور سکون کی بنیاد بھی اخروی آرام کی توقع ہے یہ بات ایک طرح سے مباہلہ سے مشابہت رکھتی ہے اور یہود یہ بھی نہ کہہ سکے کہ ہمیں موت آجائے۔ حدیث شریف میں وارد ہے کہ اگر کہہ گزرتے تو دنیا پر کوئی یہودی نہ رہتا بلکہ اپنے ہی لعاب دہن سے گلے گھٹ کر مرجاتے۔ ولتجہ نھم احرص الناس……………………واللہ بصیربما یعملون۔ کہ آپ ان کو دوسروں سے بھی زیادہ زندگی پر حریص پائیں گے حتیٰ کہ مشرکین سے بھی جن کا آخرت پر ایمان ہی نہیں یا کفار جو آخرت کو مانتے ہی نہیں ان کے نزدیک صرف یہی دنیا ہے ان کی حرص تو لازمی چیز ہے مگر یہ جو ایمان کے مدعی اور آخرت کے قائل ہیں یہ حرص دنیا میں ان سے بھی بازی لے گئے ان میں کا ہر فرد چاہتا ہے کہ کاش ہزاروں برس جیتا ہی رہے۔ تو پتہ چلا کہ اپنے آپ کو اخروی نعمتوں کا مستحق جاننے کا دعویٰ نرا دعویٰ ہی ہے اور جب یہ بات ہے تو طویل عمر اگر نصیب بھی ہوجائے تو یہ اللہ کے عذاب سے بچانے کا سبب تو نہیں بن سکتا بلکہ کفر کے ساتھ طویل عمر ، الٹا عذاب کو بڑھانے کا ذریعہ ہوگی کہ نجات کا مدار تو ایمان پر ہے اور یہ ان کے دعوے اور ان کے کرتوت اللہ تعالیٰ خوب دیکھ رہا ہے۔ یہ ایسے ظالم ہیں کہ دل سے حق کو حق جانتے ہیں مگر مانتے نہیں۔ جاننے اور ماننے میں فرق : یہاں یہ خیال نہ گزرے کہ جب جانتے ہیں تو نہ ماننے سے کیا فرق پڑتا ہے ، بھئی ! جانتا تو شیطان بھی ہے مگر مانتا نہیں۔ ایمان کے لئے صرف جاننا کافی نہیں بلکہ ماننا ضروری ہے اور ماننے کے لئے سمعنا وعصینا نہ ہو کہ زبانی مانے اور عملاً جھٹلائے بلکہ ماننا اسے کہتے ہیں جس پر عمل بھی ہو۔ اکثر ائمہ نے جن میں امام بخاری (رح) جیسے جلیل القدر حضرات شامل ہیں ، اعمال کو ہی ایمان کہا ہے مگر احناف کے نزدیک اقرار کے ساتھ ولی تصدیق شامل ہو تو کافر نہ ہوگا ترک اطاعت سے فاجر ہوگا۔ کہ یہ قول اور تصدیق قلبی بھی تو ایک عمل ہی ہے اور یہ بہت بڑا عمل ہے مگر اس کی زینت اعمال ہی سے ہے جو بہت ضروری ہے تو گویا ہر قول اور ہر فعل کا مدار عملاً اس کے کرنے اور قلبی طور پر اس کی تصدیق سے ہے اگر دل ساتھ نہ ہو تو عمل محض ایک ڈھونگ رہ جاتا ہے۔ افسوس ! ہمارے زمانے کی مصیبت یہی ہے کہ دل مرتے جا رہے ہیں مگر لوگ ہیں کہ جان بلب مریضوں (دلوں) کو غفلت اور عدم توجہی کا شکار کررکھا ہے۔ اللہ ہم سب کو ہدایت دے ، آمین !

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 87 تا 88 اتینا (ہم نے دیا) ۔ قفینا (ایک کے بعد دوسرے کو ہم نے بھیجا) ۔ ایدناہ (ہم نے اس کو قوت دی) ۔ روح القدس (جبرئیل (پیغمبروں پر وحی لانے والا فرشتہ) ۔ افکلما (کیا پھر ایسا نہیں ہوا کہ جب کبھی بھی ) ۔ لا تھوی (پسند نہ تھا، خواہش نہ تھی) ۔ کذبتم (تم نے جھٹلایا) ۔ غلاف (غلاف، (محفوظ رکھنے کی چیز) ۔ لعن (لعنت کی، لعنت کے معنی ہیں اللہ کی رحمت سے دوری) ۔ تشریح : آیت نمبر 87 تا 88 اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کے نظام کو درست رکھنے کے لئے پاکیزہ نفس پیغمبروں (علیہ السلام) کو انسانوں کی ہدایت کے لئے مسلسل ایک کے بعد ایک ہزاروں کی تعداد میں بھیجا تا کہ بھٹکے ہوئے انسانوں کی مسیحائی کرتے رہیں۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) گمراہ انسانوں کو اللہ کے احکامات ، کھلی نشانیوں اور معجزات کے ذریعہ راہ مستقیم پر چلاتے رہے۔ وہ دل جن میں سچائی قبول کرنے کی اہلیت و صلاحیت تھی انہوں نے ہر معقولیت کو قبول کیا۔ لیکن وہ جنہوں نے اپنے دلوں پر حق بات کو نہ سمجھنے کی مہریں لگا رکھی تھیں فخر سے کہتے تھے کہ ہمارے دلوں پر کسی کی سچی بات کا اثر نہیں ہوتا ہمارے دلوں پر غلاف چڑھے ہوئے ہیں اللہ نے فرمایا کہ یہ فخر کی بات نہیں بلکہ اللہ کی لعنت اور پھٹکار ہے جو ان کے دلوں پر چھائی ہوئی تھی مگر وہ اس لعنت کو بھی اپنے لئے رحمت سمجھتے تھے۔ یہی لوگ ہمیشہ اللہ کے پیغمبروں کی تعلیمات سے انکار کرتے ان کی توہین کرتے اور حضرت یحییٰ اور حضرت زکریا (علیہ السلام) جیسے پیغمبروں کو ناحق قتل کرنا اپنا کارنامہ سمجھتے تھے ان پیغمبروں کے بعد حضرت عیسیٰ ابن مریم بھی تشریف لائے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے پیدائشی اندھوں کو آنکھیں، کوڑھیوں کو شفاء، مردوں کو زندگی اور غیب کی باتیں بتا کر کھلے معجزات دکھائے مگر پھر بھی یہودیوں نے نہ صرف یہ کہ ان کی تعلیمات کو جھٹلایا بلکہ ان سے شدید دشمنی کا مظاہرہ کیا۔ کبھی وہ ان کو جادوگر کہتے اور کبھی کہتے کہ شیطان اور بھوتوں کا سردار بعل زبول ان کی مدد کرتا ہے (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) کی مدد بعل زبول نہیں بلکہ وہی جبرئیل ان کی تائید اور حفاظت کرتے تھے جنہوں نے اللہ کے حکم سے تمام انبیاء کرام کی تائید اور حفاظت کی ہے۔ بات یہ ہے کہ ان کے لئے اصل چیز ان کی اپنی خواہش تھی، اسی خواہش نفس کے خلاف جو بھی بات کہی جاتی اس کو وہ رد کرنا اپنا قومی فریضہ سمجھتے تھے۔ اور یہی ان کے لئے اللہ کی سب سے بڑی لعنت رہی ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : بنی اسرائیل سے عہد لینے کے بعد اس کی یاد دہانی کے لیے مسلسل انبیاء مبعوث کیے گئے مگر یہ لوگ تکبر اور ظلم میں آگے ہی بڑھتے گئے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیے ہوئے پختہ عہد سے انحراف، قومی جرائم اور اجتماعی ذلت کا احساس دلا کر بنی اسرائیل کو یاد کروایا گیا ہے کہ اپنی تاریخ کا ریکارڈ ذہن میں لاؤ۔ جب ہم نے تمہاری رہنمائی کے لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تورات عنایت کی اور ان کے بعد اس عہد کی یاد دہانی اور ایفا کے لیے متواتر انبیائے کرام مبعوث فرمائے۔ یہاں تک کہ عیسیٰ ( علیہ السلام) ایسے معجزات کے ساتھ مبعوث ہوئے کہ جن کے سامنے حاذق اطبا، معروف دانشور اور بڑے بڑے اہل علم طفل مکتب دکھائی دیتے تھے۔ لیکن اے اہل کتاب ! تم نے ہر اس بات کا انکار کیا جو تمہارے رواج اور مزاج کے خلاف تھی۔ تم نے نا صرف روشن معجزات اور ٹھوس دلائل کا متکّبرانہ جواب دیا بلکہ انبیاء کی کثیر تعداد کی تکذیب کرتے ہوئے انہیں ماننے سے انکار کردیا اور کچھ انبیاء کو شہید ہی کر ڈالا۔ اب تم گناہوں اور اپنے استکبار کو چھپانے کے لیے کہتے ہو کہ ہم قرآن اور اس نبی کی رسالت کو اس لیے تسلیم نہیں کرتے کہ ہمارے دل علم و دانش کے گہوارے ہیں اور کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ہمیں اس نبی کی باتوں کی سمجھ ہی نہیں آتی۔ ہمارے اور اس کے درمیان پردہ حائل ہوچکا ہے۔ یہی وہ بہانے ہیں جو ہر دور میں نام نہاد دانشور اور متعصب مذہبی لوگ کرتے آئے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ دلائل سمجھنے اور حقائق کو جاننے کے باوجود یہ لوگ ایمان نہیں لاتے تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ علم و معرفت رکھتے ہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی بد اعمالیوں کی وجہ سے ان پر خدا کی پھٹکار پڑچکی ہے۔ تکبر کا معنٰی اور انجام : (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) عَنِ النَّبِيِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَایَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِيْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِّنْ کِبْرٍ قَالَ رَجُلٌ إِنَّ الرَّجُلَ یُحِبُّ أَنْ یَّکُوْنَ ثَوْبُہٗ حَسَنًا وَّنَعْلُہٗ حَسَنَۃً قَالَ إِنَّ اللّٰہَ جَمِیْلٌ یُّحِبُّ الْجَمَالَ الْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ ) (رواہ مسلم : باب تحریم الکبر وبیانہ ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ ایک آدمی نے کہا کہ آدمی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے کپڑے اور اس کے جوتے اچھے ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ تکبر حق کو جھٹلانا اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے۔ “ (عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ (رض) عَنِ النَّبِيِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ یُحْشَرُ الْمُتَکَبِّرُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَمْثَال الذَّرِّ فِيْ صُوَرِ الرِّجَالِ یَغْشَاھُمُ الذُّلُّ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ فَیُسَاقُوْنَ إِلٰی سِجْنٍ فِيْ جَھَنَّمَ یُسَمّٰی بُوْلَسَ تَعْلُوْھُمْ نَارُ الْأَنْیَارِ یُسْقَوْنَ مِنْ عُصَارَۃِ أَھْلِ النَّارِ طِیْنَۃَ الْخَبَالِ ) (رواہ الترمذی : کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، باب منہ ) ” حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ سے وہ اپنے دادا (رض) سے وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : قیامت کے دن متکبر لوگ چیونٹیوں کی صورت میں لائے جائیں گے انہیں ہر طرف سے ذلت ڈھانپے ہوئے ہوگی اور انہیں بولس نامی جہنم کی جیل میں لے جایا جائے گا۔ ان پر آگ کے شعلے بلند ہورہے ہوں گے اور انہیں جہنمیوں کی زخموں کی پیپ پلائی جائے گی۔ “ مسائل ١۔ بنی اسرائیل نے کچھ انبیاء کو شہید کیا اور اکثر کو جھٹلا دیا۔ ٢۔ منکرین حق بات ماننے کی بجائے یہ کہتے ہیں کہ ہمارے دل پردہ میں ہیں۔ تفسیر بالقرآن لعنتی کون ؟ ١۔ شیطان لعنتی ہے۔ (النساء : ١١٨) ٢۔ کافر لعنتی ہیں۔ (الاحزاب : ٦٤) ٣۔ اصحاب السبت لعنتی ہیں۔ ( النساء : ٤٧) ٤۔ یہودی لعنتی ہیں۔ (المائدۃ : ٦٤) ٥۔ جھوٹے لعنتی ہیں۔ (آل عمران : ٦١) ٦۔ ظالم پر لعنت ہوتی ہے۔ (ھود : ١٨) ٧۔ حق چھپانے والے لعنتی ہیں۔ (البقرۃ : ١٥٩) ٨۔ اللہ اور رسول کو تکلیف دینے والے لعنتی ہیں۔ (الاحزاب : ٥٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

یہودی بعض نبیوں کی صرف تکذیب کرتے تھے اور بعض کو قتل کردیتے تھے اس آیت شریف میں ارشاد فرمایا کہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی (یعنی توریت شریف) اور ان کے بعد بھی رسول بھیجتے رہے اور عیسیٰ بن مریم کو کھلے کھلے معجزات دیے جو ان کی نبوت اور رسالت پر واضح دلائل تھے۔ مردوں کو زندہ کرنا۔ مٹی سے پرندہ کی صورت بنا کر اس میں پھونک دینا جس سے پرندہ ہو کر اڑ جانا، مادر زاد اندھے اور برص والے کو اچھا کردینا اور غیب کی باتیں بتادینا، اور روح القدس یعنی حضرت جبریل (علیہ السلام) کے ذریعے ان کی تائید کرنا۔ یہ سب امور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی نبوت اور رسالت کے لیے واضح دلائل تھے۔ سورة آل عمران میں ہے کہ حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل سے فرمایا (وَ لِاُحِلَّ لَکُمْ بَعْضَ الَّذِیْ حُرِّمَ عَلَیْکُمْ وَ جِءْتُکُمْ بِاٰیَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوْنِ ) (یعنی میں تمہارے لیے بعض وہ چیزیں حلال کرتا ہوں جو تم پر (توریت شریف میں) حرام کردی گئی تھیں اور تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے معجزہ لے کر آیا ہوں سو تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو) بعض احکام انہوں نے ایسے بتائے جن سے توریت شریف کے بعض احکام منسوخ ہوگئے تو اس پر یہودی ان کے دشمن ہوگئے قتل تو نہ کرسکے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اوپر اٹھالیا لیکن ان سے پہلے دیگر انبیاء ( علیہ السلام) کو قتل کرچکے تھے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قتل اور تکذیب پر اس لیے آمادہ ہوگئے کہ جو احکام انہوں نے بتائے ان کے نفسوں کی خواہش کے خلاف تھے۔ اور انہوں نے نہ صرف حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تکذیب کی بلکہ بہت سے نبیوں کو انہوں نے جھٹلایا۔ اور بہت سے نبیوں کو قتل بھی کیا۔ خدا جانے انہوں نے کتنے نبیوں کو قتل کیا اس کا علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے۔ قرآن مجید میں فرمایا کہ حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کے قتل اور تکذیب کے درپے یہودی اس لیے ہوجاتے تھے کہ جو احکام اللہ تعالیٰ کی طرف سے بتاتے تھے وہ ان کے نفسوں کو نہیں بھاتے تھے اور ان کی طبیعت کے خلاف ہوتے تھے۔ لہٰذا وہ ان کی تکذیب تو کرتے ہی تھے قتل بھی کردیتے تھے۔ تفسیر ابن کثیر میں لکھا ہے کہ قتل کا تذکرہ فرماتے ہوئے مضارع کا صیغہ تقتلون لایا گیا ہے۔ قتلتم صیغہ ماضی کا نہیں لایا گیا۔ اس میں اس پر دلالت ہے کہ آئندہ بھی تم سے ایسی حرکت سرزد ہوگی چناچہ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا اور خیبر میں بکری کے گوشت میں زہر ملا کر پیش کردیا جسے آپ نے تناول فرما لیا اور پھر موت کے قریب اس زہر کے اثر سے ایک رگ کٹ گئی جو موت کا سبب بنی جیسا کہ مشکوٰۃ ص ٥٤٨ میں مذکور ہے، اس آیت شریفہ میں تصریح ہے کہ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے درمیان بھی انبیاء کرام (علیہ السلام) مبعوث ہوئے ہیں ان حضرات میں حضرت داؤد اور سلیمان ( علیہ السلام) کا ذکر تو قرآن مجید میں موجود ہے اور بعض حضرات کے اسماء گرامی قرآن مجید میں نہیں ہیں۔ تفسیر کی بعض کتابوں میں لکھے ہیں لیکن کسی صحیح روایت سے ان اسماء کا ثبوت نہیں ملتا۔ تفسیر درمنثورص ٨٦ ج ١ میں حضرت ابن عباس سے بعض حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کے اسماء گرامی نقل کئے ہیں۔ مثلاً شمویل حزقیل۔ ہم اللہ کے سب نبیوں پر ایمان لاتے ہیں اگرچہ سب کے نام سب کا زمانہ بعثت ہمیں معلوم نہیں، اس آیت میں یہ بھی فرمایا ہے کہ ہم نے روح القدس کے ذریعے عیسیٰ بن مریم کی تائید کی اس تائید سے کیا مراد ہے اس کے بارے میں علامہ نسفی فرماتے ہیں کہ جب یہودیوں نے حصرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قتل کا ارادہ کیا حضرت جبریل (علیہ السلام) نے ان کو اوپر اٹھا لیا اور تفسیر جلا لین میں ہے کہ حضرت جبریل ان کے ساتھ ساتھ رہتے تھے اور حفاظت فرماتے تھے روح القدس قرآن و حدیث میں حضرت جبریل (علیہ السلام) کا لقب ہے، سورة نحل میں فرمایا (قُلْ نَزَّلَہٗ رُوْحُ الْقُدُسِ مِنْ رَّبِکَ ) اور حدیث شریف میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حسان کو دعا دی اللّٰھم اَیِّدہ بروح القدس۔ (رواہ مسلم ص ٣٠٠ ج ٢)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

170 تمہاری ہدایت اور رہنمائی کے لیے حضرت موسیٰ کو شریعت کا ایک دستور دیا جس میں اللہ تعالیٰ کی خالص عبادت کرنے اور شرک سے بچنے کا حکم دیا گیا۔ اور اس کے علاوہ اور بہت سے احکام دئیے گئے۔ الکتب سے تورات مراد ہے۔ وَقَفَّيْنَا مِنْۢ بَعْدِهٖ بِالرُّسُلِ ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنی زندگی میں تمہیں تورات پر عمل کرنے کی تلقین کرتے رہے۔ ان کی وفات کے بعد بھی انبیا ورسل کا سلسلہ جاری رکھا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تک ہزاروں کی تعداد میں پیغمبر بھیجے وکانوا الی زمن عیسیٰ (علیہ السلام) اربعۃ الاف (روح ص 316 ج 1) بعض نے اس سے بھی زیادہ لکھے ہیں مثلاً حضرات یوشع، شمعون، داود، سلیمان، عزیر، حزقیل، الیاس، یونس، زکریا اور یحییٰ علیہم الصلوۃ والسلام۔ یہ سب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت پر تھے۔171 البینات یعنی واضح اور کھلے دلائل، اس سے مراد وہ معجزات ہیں جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو دئیے گئے۔ مثلاً مردوں کو زندہ کرنا، کوڑھی اور مادر زاد اندھے کو تندرست کرنا وغیرہ یا البینات سے انجیل مراد ہے کیونکہ اس کی آیتیں بھی رشد وہدایت کی واضح نشانیاں تھیں۔ المعجزات الواضحات من احیائ الموتی وابرائ الاکمہ والابرص والاخبار با المغیبات او الانجیل (ابو السعود ص 612 ج 1) قرآن مجید میں کسی پیغمبر کو اس کے باپ کی طرف منسوب کر کے ذکر نہیں کیا گیا البتہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اکثر والدہ کی نسبت سے ذکر کیا گیا ہے اس میں ایک طرف تو ان لوگوں کے خیال کی تردید ہے جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے لیے باپ تجویز کرتے ہیں۔ اگر ان کا کوئی باپ ہوتا تو انہیں اس کی طرف منسوب کیا جاتا نہ کہ والدہ کی طرف، دوسری طرف ان عیسائیوں کی تردید ہے جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا یا خدا کا بیٹا کہتے ہیں فرمایا وہ نہ خدا ہے نہ خدا کا بیٹا یا جزو، بلکہ وہ ایک انسان اور بشر ہے۔ اور ایک عورت کا بیٹا ہے۔ ہاں اپنی پیغمبرانہ عظمت وشان کے لحاظ سے خدا کا محبوب اور مقرب پیغمبر ہے۔ وَاَيَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ ۔ روح قدس سے مراد جبریل (علیہ السلام) ہیں اور روح القدس سے تائید کرنے کا مطلب یہ ہے کہ حضرت جبریل (علیہ السلام) کے نفخہ سے ان کا حمل قرار پایا، ولادت کے وقت ان کی موجودگی کی وجہ سے شیطان کے اثر سے محفوظ رہے، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) جہاں جاتے روح القدس ساتھ ہوتے۔ اسی طرح یہودیوں کی سازش قتل سے ان کو بچایا۔ یہ روح القدس سے تائید بھی ایک معجزہ تھا۔ یہاں بھی واضح فرمادیا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) باوجود علو مرتبت اور صاحب عزم پیغمبر ہونے کے ہماری تائید اور تقویت کے محتاج تھے جب وہ خود محتاج تھے تو اوروں کی کیا مدد کرینگے۔172 تمہیں سمجھانے کے لیے ہم نے ہزاروں پیغمبر بھیجے۔ تورات وانجیل میں واضح دلائل کے ساتھ تمہیں مسئلہ توحید سمجھایا، تمہارے اطمینان قلب کی خاطر پیغمبروں نے معجزے دکھائے مگر اس کے باوجود جب بھی کوئی پیغمبر دعوت توحید لیکر آیا اور خدا کی طرف سے دوسرے احکام تمہیں دئیے جو تمہاری خواہش کے مطابق نہیں ہوتے تھے تو تم نے فوراً ان کا انکار کیا اور غرور سے انکو حقیر سمجھا اور تمہارا یہ رویہ کسی ایک پیغمبر کے ساتھ نہیں تھا بلکہ تم نے ہر پیغمبر کی آمد پر یہی کچھ کیا۔ 173 خدا کا ہر پیغمبر پیغام توحید لیکر آیا اور پیغام توحید جھوٹے پیروں، غلط کار مولویوں، دنیا پرست سرمایہ داروں اور نوابوں کے لیے پیغام موت ہے۔ کیونکہ پیغام توحید کو ماننے سے نذریں نیازیں جاتی ہیں عوام پر سے بناوٹی تقدس اور مصنوعی اقتدار کا اثر باطل ہوجاتا ہے۔ یہودیوں میں یہ طبقے موجود تھے اس لیے جب بھی کوئی پیغمبر آتا یہ لوگ اس کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے اور ڈٹ کر اس کی مخالفت اور تکذیب کرتے۔ اور اگر موقع مل جاتا تو اسے قتل کر ڈالتے۔ یہ ان کی انتہائی خباثت اور سنگدلی تھی (کبیر بتغییر یسیر)

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3 اور اے بنی اسرائیل ہم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تمہاری ہدایت کی غرض سے توریت کتاب دی پھر ان کی وفات کے بعد بھی ہم نے مختلف انبیاء کا سلسلہ جاری رکھا اور یکے بعد دیگرے لگاتار پیغمبر بھیجتے رہے تاکہ وہ تم کو توریت کی تعلیم دیتے رہیں اور تم کو اس پر عمل کر نیکی ترغیب دیں۔ یہاں تک کہ ہم نے حضرت عیسیٰ ابن مریم کو پیغمبر بنا کر بھیجا اور ان کو واضح دلائل اور معجزات عطا فرمائے اور ان کو روح القدس کے ساتھ تقویت دی اور کیا یہ افسوس ناک اور تعجب خیز واقعہ نہیں ہے کہ جب کبھی بھی تمہارے پاس کوئی رسول ایسے احاکم لیکر آیا جن کو تمہارا دل نہ چاہتا تھا اور وہ تمہاری خواہش کے خلاف ہوتے تھے تب ہی تم نے اس پیغمبر کے مقابلے میں تکبر اور سرکشی کا رویہ اختیار کیا اور اس کے ساتھ تحقیر آمیز سلوک کرنے لگے۔ چناچہ ان پیغمبروں میں سے بعض کو تم نے جھوٹا بتایا اور بعض کو تم قتل ہی کر ڈالتے تھے۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ تمہاری ہدایت و اصلاح کے لئے برابر پیغمبر آتے رہے۔ جو حضرت موسیٰ کے تابع اور توریت کے عامل ہوتے تھے۔ البتہ حضرت عیسیٰ بن مریم چونکہ صاحب شریعت مستقلہ تھے اس لئے انہوں نے بعض سابقہ احکام کو بدلا جیسا کہ تیر سے پارے میں انشاء اللہ آجائے گا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا نام سریانی زبان میں ایشوع ہے۔ ان کی ماں کا نام مریم ہے جس کے معنی سریانی میں خادم کے ہیں بینات سے مراد انجیل اور وہ معجزات ہیں جو ان کو عطا ہوئے تھے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد اور حضرت عیسیٰ سے قبل جو پیغمبر تشریف لائے ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں۔ شموئیل ، الیاس، منشائیل، الیسع، یونس، زکریا، یحییٰ ، شعیا، حزقیل، دائود، سلیمان، ارمیا، روح القدس کی مفسرین نے بہت سی تفسیریں کی ہیں لیکن جمہور کے نزدیک اس سے مراد حضرت جبرئیل (علیہ السلام) ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ قل نزلہ روح القدس من ربک بالحق اور ظاہر ہے کہ یہاں حضرت جبرئیل ہی مراد ہیں۔ حدیث میں آتا ہے۔ ان روح القدس نفث فی روعی یعنی جبریل نے یہ بات میرے قلب میں ڈلای ہے۔ ابن جریر نے اسی قوم کو راجح بتایا ہے روح القدس کی تائید کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ کی روح کو انہوں نے ہی مریم میں پھونکا اور ان کے ہم دم کرنے سے حضرت مریم کا حمل قرار پایا۔ نیز یہود کی دشمنی کے باعث حضرت جبرئیل آپ کی حفاظت کرتے تھے۔ آسمان پر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا تشریف لے جانا بھی ان ہی کی وساطت سے ہوا۔ الغرض بنی اسرائیل نے تمام پیغمبروں کو اذیت پہنچائی اور ان کی تحقیر کی اور انبیاء کی اطاعت سے انکار کیا اور حضرت زکریا اور یحییٰ کو قتل کرنا تو مشہور ہے جیسا کہ انشاء اللہ آگے آجائے گا۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں روح القدس کہتے ہیں جبرئیل کو ہر وقت ان کے ساتھ رہتے تھے موضح القرآن ہوسکتا ہے کہ روح القدس سے مراد اسم اعظم ہو جس کی برکت سے وہ مردوں کو زندہ اور بیماروں کو تندرست کرتے ہں یا جو روح ان میں پھونکی گئی تھی اس روح کو روح القدس فرمایا ہو اور اس روح میں بشریت سے ملکیت غالب ہو جیسا کہ حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی نے تفسیر عزیزی میں فرمایا ہے۔ واللہ اعلم (تسہیل)