PrepositionNoun

بِرُوحِ

(with)

ساتھ روح

Verb Form
Perfect Tense Imperfect Tense Imperative Active Participle Passive Participle Noun Form
أَرْوَحَ
يُرْوِحُ
أَرْوِحْ
مُرْوِح
مُرْوَح
إِرْوَاح
Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلرَّوْحُ وَالرُّوْحُ: دراصل ایک ہی ہیں۔ رُوْح کا اطلاق سانس پر ہوتا ہے۔ شاعر نے آگ کے متعلق کہا ہے۔(1) (طویل) (۱۹۵) فَقُلْتُ لَہٗ اَرْفَعْھَا اِلَیْکَ وَاَحَیْھَا بِروْحِکَ وَاجْعَلْ لَھَا قیْتۃَ قَدْرًا۔ میں نے کہا کہ اسے اٹھاؤ اور قدرے نرم پھونک مار کر اسے سلگاؤ اور اس میں تھوڑا سا ایندھن ڈال دو۔ اور انس بھی چونکہ روح کا ایک جزء ہے … اس لئے مجازاً اسے روح کہہ دیا ہے۔ جیساکہ نوع کو اسم جنس سے تعبیر کرلیتے ہیں مثلاً: تَسْمِیَۃُ الْاِنْسَانِ بِالْحَیَوَانِ: اور کبھی روح کا اطلاق اس چیز پر ہوتا ہے جس کے ذریعے زندگی حرکت، منافع کا حصول اور مضرات سے بچاؤ حاصل ہوتا ہے۔ اور آیت کریمہ: (وَ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الرُّوۡحِ ؕ قُلِ الرُّوۡحُ مِنۡ اَمۡرِ رَبِّیۡ ) (۱۷:۸۵) اور تجھ سے روح کی حقیقت دریافت کرتے ہیں تو ان سے کہہ دو کہ یہ میرے پروردگار کا ایک حکم ہے۔ (وَ نَفَخۡتُ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِیۡ) (۱۵:۲۹) اور میں نے اس میں اپنی (طرف سے) روح پھونک دی۔ میں روح کے یہی معنیٰ مرا دہیں اور اﷲ تعالیٰ کا اسے اپنی ذات کی طرف مسنوب کرنا اضافت ملک کے طور پر ہے جس سے اس کی شرافت کا اظہار مقصود ہے۔ جیساکہ اﷲ تعالیٰ نے آیت کریمہ: (وَّ طَہِّرۡ بَیۡتِیَ ) (۲۲:۲۶) میں بیت کی اضافت اپنی ذات کی طرف کی ہے۔ اسی طرح آیت کریمہ: (یٰعِبَادِیَ الَّذِیۡنَ اَسۡرَفُوۡا ) (۳۹:۵۳) اے میرے بندو! جنہوں نے اپنے اوپر زیادتی کی۔ میں عباد کی نسبت بھی یاء متکلم (ئات باری تعالیٰ) کی طرف اضافت تشریفی ہے۔ اور قرآن پاک میں ذوشرف ملائکہ کو بھی اَرْوَاح سے موسوم کیا ہے۔ چنانچہ فرمایا: (یَوۡمَ یَقُوۡمُ الرُّوۡحُ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ صَفًّا ) (۷۸:۳۸) جس روز کہ روح (فرشتہ) اور دیگر ملائکہ صفیں باندھ کر کھڑے ہوں گے۔ (تَعۡرُجُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَ الرُّوۡحُ ) (۷۰:۴) فرشتے اور جبریل علیہ السلام اس کی طرف چڑھتے ہیں۔ اور آیت : (نَزَلَ بِہِ الرُّوۡحُ الۡاَمِیۡنُ ) (۲۶:۱۹۳) اسے روح امین لے کر اترا۔ میں روح امین سے مراد جبریل علیہ السلام ہیں اور دوسری آیت میں جبرئیل علیہ السلام کو روح القدس بھی کہا ہے۔ جیسے فرمایا: (قُلۡ نَزَّلَہٗ رُوۡحُ الۡقُدُسِ ) (۱۶:۱۰۲) اس قرآن پاک کو روح القدس لے کر آتے ہیں۔ قرآن پاک نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو روح کہہ کر پکارا ہے۔ چنانچہ فرمایا: (وَ رُوۡحٌ مِّنۡہُ) (۴:۱۷۱) وہ ایک روح تھی جو خدا کی طرف سے آئی۔ اور عیسیٰ علیہ السلام کو روح اس لئے کہا ہے کہ وہ مُردوں کو زندہ کرتے تھے۔ اور قرآن پاک کو بھی روح کہا گیا ہے۔ جیسے فرمایا: (وَ کَذٰلِکَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ رُوۡحًا مِّنۡ اَمۡرِنَا) (۴۲:۵۲) اس طرح ہم نے اپنے حکم سے (دین کی) جان (یعنی یہ کتاب تمہاری طرف وحی کے ذریعہ بھیجی۔ اس لئے قرآن پاک سے حیات اخروی حاصل ہوتی ہے جس کے متعلق فرمایا: (وَ اِنَّ الدَّارَ الۡاٰخِرَۃَ لَہِیَ الۡحَیَوَانُ ۘ لَوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ ) (۲۹:۶۴) اور دارآخرت کی زندگی ہی اصل زندگی ہے۔ اور رَوح (بفتح الراء) کے معنیٰ سانس کے ہیں اور اَرَاحَ الْاِنْسَانُ کے معنیٰ تنفیس، یعنی سانس لینے کے اور آیت کریمہ: (فَرَوۡحٌ وَّ رَیۡحَانٌ) (۵۶:۸۹) تو راحت اور رزق ہے۔ میں رَیحان سے خوشبودار چیزیں مراد ہیں اور بعض نے رزق مراد لیا ہے او رکھانے کے اناج کو بھی ریحان کہتے ہیں۔ جیساکہ فرمایا: (وَ الۡحَبُّ ذُو الۡعَصۡفِ وَ الرَّیۡحَانُ) (۵۵:۱۲) اور ہر طرح کے اناج جو (بھوسی کے) خول کے اندر ہوتے ہیں اور کھانے کا اناج۔ ایک اعرابی سے پوچھا گیا کہ کہاں جارہے ہو۔ تو اس نے جواب دیا: ’’اَطْلُبُ مِنْ رَّیْحَانِ اﷲِ‘‘ کہ میں اﷲ کے رزق کی تلاش میں ہوں۔ لیکن اصل معنیٰ وہی ہیں جو ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔ (یعنی خوشبودار چیز) ایک حدیث میں ہے (2) : (۱۶۲) اَلْوَلَدُ مِنْ رَیْحَانِ اﷲِ کہ اولاد بھی اﷲ کے ریحان سے ہے اور یہ ایسے ہی ہے جیساکہ کسی شاعر نے کہا ہے۔(3) (۱۹۶) یَا حَبَّذَا رِیْحُ الْوَلَدْ رِیْحُ الْخِزَامِیْ فِی الْبَلَدْ۔ اولاد کی خوشبو کیسی پیاری ہے یہ خزامی گھاس کی خوشبو ہے جو شہر میں مہکتی ہے اور اولاد کو ریحان اس لئے کہا ہے کہ وہ بھی اﷲ تعالیٰ کا دیا ہوا رزق ہے۔ اَلرِّیْحُ کے معنیٰ معروف ہیں۔ یعنی ہوا متحرک کو کہتے ہیں عام طور پر جن مواضع میں ارسال الرِّیح صیغہ مفرد کے ساتھ مذکور ہے وہاں عذاب مراد ہے اور جہاں کہیں لفظ جمع کے ساتھ مذکور ہے وہاں رحمت(4) مراد ہے۔ چنانچہ رِیحٌ کے متعلق فرمایا: (اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنَا عَلَیۡہِمۡ رِیۡحًا صَرۡصَرًا) (۵۴:۱۹) ہم نے ان پرایک زناٹے کی آندھی چلائی۔ (فَاَرۡسَلۡنَا عَلَیۡہِمۡ رِیۡحًا ) (۳۳:۹) تو ہم نے ان پر آندھی چلائی۔ (کَمَثَلِ رِیۡحٍ فِیۡہَا صِرٌّ ) (۳:۱۱۷) مثال اس ہوا کی ہے جس میں بڑی ٹھہر بھی ہو۔ (اشۡتَدَّتۡ بِہِ الرِّیۡحُ) (۱۴:۱۸) اس کو سخت ہوا لے اڑی۔ اور رِیَاح (جمع کا لفظ) کے متعلق فرمایا: (وَ اَرۡسَلۡنَا الرِّیٰحَ لَوَاقِحَ ) (۱۵:۲۲) اور ہم ہی ہوا کو چلاتے ہیں جو بادلوں کو پانی باردار کرتی ہے۔ (اَنۡ یُّرۡسِلَ الرِّیَاحَ مُبَشِّرٰتٍ ) (۳۰:۴۶) کہ وہ ہواؤں کو اس غرض سے بھیجتا ہے کہ لوگوں کو بارش کی خوشخبری پہنچائیں۔ (یُرۡسِلُ الرِّیٰحَ بُشۡرًۢا) (۷:۵۷) باران رحمت کے آگے آگے ہواؤں کو بھیجتا ہے تاکہ لوگوں کو مینہ کی آمد کی خوشخبری پہنچادیں۔ اور آیت: (یُرۡسِلُ الرِّیٰحَ فَتُثِیۡرُ سَحَابًا) (۳۰:۴۸) اور وہ قادر مطلق ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے اور وہ ہوائیں بادلوں کو ان کی جگہ سے ابھارتی ہے۔ میں بھی چونکہ معنیٰ رحمت اغلب ہے اس لئے یہاں لفط جمع کی قرأت زیادہ صحیح ہے۔ کبھی مجازاً رِیح بمعنیٰ غلبہ بھی آجاتا ہے چناچنہ فرمایا: (وَ تَذۡہَبَ رِیۡحُکُمۡ ) (۸:۴۶) اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ محاورہ ہے۔ اَرْوَحَ الْمَائُ: پانی متغیر ہوگیا۔ خاص کر بدبودار ہونے کے وقت بولتے ہیں۔ رِیْحَ الْغَدِیرُ یَرَاحْ: جوہڑ پر ہوا کا چلنا۔ اور اَرَاحُوا کے معنیٰ رَوَاح یعنی شام کے وقت میں داحل ہونے کے ہیں اور خوشبودار تیل کو دُھْنٌ مُرَوَّحٌ کہا جاتا ہے ایک حدیث میں ہے۔ (5) (۱۶۳) لَمْ یَرَحْ رَائِحَۃَ الْجَنَّۃِ کہ وہ جنت کی خوشبو تک نہیں پائے گا۔ اَلْمَرْوَجَۃُ: ہوا چلنے کی سمت۔ اَلْمِرْوَحَۃُ (آلہ) پنکھا۔ اَلرَّئِحَۃُ: مہکنے والی خوشبو۔ محاورہ ہے: رَاحَ فُلَانٌ اِلٰی اَھْلِہٖ: (۱) فلاں اپنے اہل کی طرف ہوا کی طرح تیزی کے ساتھ گیا۔ (۲) اس نے اپنے اہل و عیال میں پہنچ کر راحت حاصل کی۔ اَلرَّاحَۃُ: آرام یہ بھی رَوحٌ سے ماخوذ ہے مشہور محاورہ ہے : اِفْعَلْ ذَالِکَ فِی مَرَاحٍ وَرَواحٍ کہ آرام سے یہ کام کرو۔ اَلْمَرَاوَحَۃُ کے معنیٰ ہیں دو کاموں کو باری باری کرنا۔ اور استعارہ کے طور پر رَوَاح سے دوپہر کو آرام کا وقت مراد لیا جاتا ہے اور اسی سے کہا جاتا ہے اَرَحْنَا اِبِلَنَا کہ ہم سے اونٹوں کو آرام دیا (یعنی باڑہ میں لے آئے) اور پھر اَرَحْتُ الْاِبِلَ سے بطور استعارہ کہا جاتا ہے۔ اَرَحْتُ اِلَیہٖ حَقَّہٗ کہ میں نے اس کا حق واپس لوٹا دیا اور مُرَاح باڑے کو کہا جاتا ہے اور تَرَوَّحَ الشَّجَرُ وَرَاحَ یَرَاحَ کے معنیٰ درخت کے شگوفہ دار ہو نیادر نئے پتے نکالنے کے ہیں اور کبھی رَوحٌ سے وسعت اور فراخی کے معنیٰ بھی مراد لئے جاتے ہیں چنانچہ کہا جاتا ہے۔ قَصْعَۃٌ رَوْحَائُ: فراخ پیالہ اور آیت کریمہ: (وَ لَا تَایۡـَٔسُوۡا مِنۡ رَّوۡحِ اللّٰہِ … ) (۱۲:۸۷) اور خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ۔ میں بھی وسعت رحمت مراد ہے جو لفظ رَوحَ سے مفہوم ہوتی ہے۔

Lemma/Derivative

21 Results
رُوح
Surah:2
Verse:87
ساتھ روح
(with)
Surah:2
Verse:253
ساتھ روح
with Spirit
Surah:4
Verse:171
اور روح
and a spirit
Surah:5
Verse:110
ساتھ روح
with (the) Spirit
Surah:15
Verse:29
اپنی روح سے
My spirit
Surah:16
Verse:2
ساتھ وحی کے۔ ساتھ روح کے
with the inspiration
Surah:16
Verse:102
روح
the Holy Spirit
Surah:17
Verse:85
روح کے
the soul
Surah:17
Verse:85
روح
"The soul
Surah:19
Verse:17
اپنی روح کو
Our Spirit