Perfect Tense | Imperfect Tense | Imperative | Active Participle | Passive Participle | Noun Form |
--- |
--- |
--- |
--- |
--- |
--- |
اَلْجَبْرُ: اصل میں جبر کے معنی زبردستی اور دباؤ سے کسی چیز کی اصلاح کرنے کے ہیں۔ کہا جاتا ہے جَبَرْتُہٗ (ن) فَاَنْجَبَرَ وَاجْتَبَرَ: بعض نے جَبَرْتُہٗ فَجَبَرَ بھی نقل کیا ہے، یعنی جَبَرَ فعل لازم اور متعدی دونوں طرح آتا ہے۔ جیساکہ شاعر نے کہا ہے۔ (1) (رجز) (۸۵) قَدْ جَیَرَالدِّیْنَ الْاِلٰہُ فَجَبَرَ۔ یعنی اﷲ تعالیٰ نے دین کو درست کیا تو وہ درست ہوگیا۔ یہی قول اکثر ائمہ لغت کا ہے، لیکن بعض اہل لغت نے کہا ہے کہ شعر مذکور میں فَجَبَرْ (انفعال) یعنی لازم نہیں ہے بلکہ متعدی ہے اور تکرار سے اصلاح اور اس کی تکمیل پر تنبیہ کرنا مقصود ہے اور معنی یہ ہیں کہ اﷲ نے دین کی اصلاح کی ابتداء کی اور پھر اسے تکمیل تک پہنچا دیا کیونکہ فَعَلَ کا صیغہ جس طرح کسی کام کو شروع کرنے کا معنی دیتا ہے اسی طرح اس کے معنی کسی کام کو سرانجام دے کر اس سے فارغ ہوجانا بھی آتے ہیں اور اس سے مبالغہ کے معنی یا تکلف کو ظاہر کرنے کے لیے تَجَبَّرَ (تفعل) کا صیغہ استعمال ہوتا ہے۔ شاعر نے کہا ہے(2) (طویل) (۸۵) تَجَبَّرَ بَعْدَ الْاَکْلِ فَھُوَ غِیَّض۔ گھاس چرانے کے بعد دوبارہ ہری ہوگئی ہے۔ پھر جبر کا لفظ کبھی صرف اصلاح کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، جیساکہ حضرت علیؓ کا قول ہے۔ (۵۴) یَا جَابِرَ کُلِّ کَسِیْر وَمُسَھِّلَ کُلِّ عَسِیْرٍ اے ہر شکستہ کی اصلاح کرنے والے اور ہر مشکل آسان کرنے والے اور اسی معنی میں روٹی کو جَابِر بن حَبَّۃَ کہا جاتا ہے۔ اور یہ لفظ کبھی محض استبداد کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، جیساکہ آپ علیہ السلام کا فرمان ہے۔ (3) (۵۵) لَاجَبْرَ وَلَا تَفْوِیْضَ کہ انسان نہ تو مجبور محض ہے نہ کلی طور رپ مختار۔ علم ریاضی کی اصطلاح میں الجبر کے معنی ہیں کسی چیز کی اصلاح کے لیے اس کے ساتھ کچھ الحاق کردینا اور اَلْجِبْرُ بمعنی بادشاہ بھی آتا ہے۔ جیساکہ شاعر نے کہا ہے۔ (4) (۸۷) وَانْعِمْ صَبَاحًا اَیَّھَا الْجَبَر کہ اے بادشاہ سلامت! تم خوش رہو۔ بادشاہ کو جبر اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے ارادہ کے مطابق لوگوں کو مجبور کرلیتا ہے یا اس لیے کہ وہ ان کے امور کی اصلاح کرتا ہے۔ اَلْاِجْبَارُ: (افعال) اس کے اصل معنی کسی کو مجبور کرنا کہ وہ دوسرے کی اصلاح کرے۔ لیکن عرف میں محض اکراہ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ جیسے اَجْبَرْتُہٗ عَلٰی کَذَا (کسی کام پر مجبور کرنا) اور جن لوگوں کا یہ دعویٰ ہے کہ اﷲ تعالیٰ انسان کو گناہ پر مبور کرتا ہے، انہیں متکلمین کی اصلاح میں مُجَبِّرَۃَ کہا جاتا ہے اور متقدمین انہیں جَبْرِیَّہ یا جَبَرِیَّہ کہتے ہیں۔ (5) اَلْجَبَّارُ: انسان کی صفت ہو تو اس کے معنی ہوتے ہیں ناجائز تعلّی سے اپنی نقص کو چھپانے کی کوشش کرنا۔ بدیں معنی اس کا استعمال بطورِ مذمت ہی ہوتا ہے۔ جیسے قرآن پاک میں ہے: (وَ خَابَ کُلُّ جَبَّارٍ عَنِیۡدٍ ) (۱۴:۱۵) تو ہر سرکش ضدی نامراد رہ گیا۔ (وَ لَمۡ یَجۡعَلۡنِیۡ جَبَّارًا شَقِیًّا) (۱۹:۳۲) اور مجھے سرکش اور بدبخت نہیں بنایا۔ (اِنَّ فِیۡہَا قَوۡمًا جَبَّارِیۡنَ ) (۵:۲۲) وہاں تو بڑے زبردست لوگ (رہتے) ہیں۔ (اٰمَنُوۡا کَذٰلِکَ یَطۡبَعُ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ قَلۡبِ مُتَکَبِّرٍ جَبَّارٍ ) (۴۰:۳۵) … اسی طرح خدا ہر متکبر سرکش کے دل پر مہر لگادیتا ہے۔ یعنی جو شخص قبول حق اور اس پر ایمان لانے سے بالاتر ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ کبھی کبھی محض دوسرے پر استبداد کرنے والے کو جَبَّارِ کہا جاتا ہے، اسی معنی میں فرمایا: (وَ مَاۤ اَنۡتَ عَلَیۡہِمۡ بِجَبَّارٍ) (۵۰:۴۵) اور تم ان پر زبردستی کرنے والے نہیں ہو۔ اور ہمسروں پر تَعِلّیْ کے معنی کے لحاظ سے بلند کھجور یا اونٹنی کو جَبَّارَۃَ کہا جاتا ہے اور جو حدیث میں آیا ہے۔ (6) ضِرَاسُ الْکَافِرِ مِثْلُ اُحُدٍ وَّکَثَافَۃُ جِلْدِہٖ اَرْبَعُوْنَ ذِرَاعًا بِذِرَاعِ الْجَبَّارِ کہ دوزخ میں کافر کی ڈاڑھ کا حجم مثل اُحد کے ہوگا اور اس کی کھال کی کثافت جبار کے چالیس ذرائع کے برابر ہوگی … تو اس حدیث کی تفسیر میں ابن قتیبہ نے کہا ہے کہ یہاں جَبَّار سے مراد بادشاہ ہے اور اس ذراع کو ذِرَاعُ الشَّاۃ کہا جاتا تھا۔ (7) اور جب الجبار باری تعالیٰ کی صفت ہو، جیسے فرمایا: (الۡعَزِیۡزُ الۡجَبَّارُ الۡمُتَکَبِّرُ) (۵۹:۲۳) غالب زبردست بڑائی والا۔ تو اس کے اشتقاق میں اہل لغت سے دو قول منقول ہیں۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ جَبَرْتُ الْفَقِیْرَ کے محاورہ سے ماخوذ ہے، جس کے معنی فقیر کی حالت کو درست کرنے اور اسے بے نیاز کردینا کے ہیں اور باری تعالیٰ بھی چونکہ اپنے فیضان نعمت سے لوگوں کی حالتیں درست کرتا اور ان کے نقصانات پورے فرماتا ہے، اس لیے اسے اَلْجَبَّار کہا جاتا ہے۔ اور بعض نے کہا ہے کہ چونکہ اﷲ تعالیٰ اپنے ارادہ کے سامنے مقہور کرلیتا ہے، اس لیے اسے الجبَّار کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ لیکن بعض ارباب لغت نے بحیثیت لفط اور صیغہ کے اس معنی پر اعتراض کیا ہے کہ اَفْعَلْتُ سے صیغہ فَعَّال (مبالغہ) قیاساً نہیں آتا۔ لہٰذا اَلْجَبَّار کا صیغہ اِجْبَار (افعال) سے نہیں بن سکتا۔ (8) لیکن اس کا جواب یہ ہے کہ یہ جَبْر سے بنا ہے نہ کہ اِجْبَارٌ سے اور جَبْر کے معنی بھی مجبور کرنا آجاتے ہیں۔ چنانچہ ایک روایت میں ہے(9) لاَجَبْرَ وَلَاتَفْوِیْضَ۔ (کہ نہ مجبور کرنا ہے اور نہ سونپ دینا۔) اور معتزلہ کی ایک جماعت نے معنوی لحاظ سے اسے تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ اﷲ کی شان اس سے بلند ہے کہ بندوں کو مجبور کرے، حالانکہ یہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے، کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے (تکوینی طور پر) بندوں کو بہت سی زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے جن سے رہائی پانا ان کے اختیار سے باہر ہے اور جبر کے یہ معنی مقتضائے حکمت الٰہیہ کے عین مطابق ہیں نہ کہ اس کے خلاف جیساکہ جاہل اور گمراہ لوگوں کا خیال ہے، مثلاً مرض، موت بعث بعد از موت وغیرہ۔ اسی طرح اﷲ تعالیٰ نے ہر ایک کو خاص صنعت اور اعمال و اخلاق میں کوئی طریقہ اختیار کرنے پر مسخر کررکھا ہے اور اسے مجبور بصورت مختار بنایا ہے کہ ہر انسان جس دھن میں لگا ہے اس میں مگن ہے یا اس سے بیزار ہے لیکن بادل نخواستہ اسے کیا چلا جارہا ہے کہ گویا اس کے بدلہ میں کوئی اور کام اسے نظر ہی نہیں آتا۔ اسی بنا پر ارشاد ہے: (فَتَقَطَّعُوۡۤا اَمۡرَہُمۡ بَیۡنَہُمۡ زُبُرًا ؕ کُلُّ حِزۡبٍۭ بِمَا لَدَیۡہِمۡ فَرِحُوۡنَ ) (۲۳:۵۳) تو پھر آپس میں اپنے کام کو متفرق کرکے جدا جدا کردیا جو چیز جس فرقے کے پاس ہے وہ اسی سے خوش ہورہا ہے۔ نیز فرمایا: (نَحۡنُ قَسَمۡنَا بَیۡنَہُمۡ مَّعِیۡشَتَہُمۡ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا) (۴۳:۳۲) ہم نے ان میں ان کی مشیت کو دنیا زندگی میں تقسیم کردیا۔ اس معنی میں الجبَّار اﷲ تعالیٰ کی صفت ہونا ظاہر ہے، کیونکہ اگر وہ کسی پر جبر کرتا ہے تو اقتضائے حکمت کے مطابق کرتا ہے، جیساکہ حضرت علیؓ سے مروی ہے(10) (۵۶) یَابَارِیَٔ الْمَسْمُوْکَاتِ وَجَبَّارَ الْقُلُوْبِ عَلٰی فِطْرَتِھَا شَقِیِّھَا وَسَعِیْدِھَا۔ کہ اے روحوں کو پیدا کرنے والے اور دلوں کو ان کی اچھی یا بری فطرت پر جوڑنے والے۔ کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے دلوں کو علم و عرفان کے لحاظ سے ان کی اصلی فطرت پر جوڑ دیا ہے اور یہ ماتقدم کے عموم میں داخل ہے۔ اَلْجَبَرُوْتُ: (قدرت) طاقت، عظمت۔ یہ تجبر (تفعل) سے فَعَلُوْتٌ کے وزن پر ہے۔ اِسْتَجْبَرْتُ خَالَہٗ، میں نے اس کی حالت درست کرنے کے لیے اس کی دیکھ بھال کی۔ اَصَابَتْہُ مُصِیْبَۃٌ لَایَجْتَبِرُ: اسے اتنی بڑی مصیبت پہنچی کہ وہ اس کے جبر کا قصد نہیں کرسکتا۔ اور جَبْرُ الْعَظْمِ (ہڈی کو جوڑنا) اَلْجَبِیْرَۃُ سے مشتق ہے، جس کے معنی اس پٹی کے ہیں جو ٹوٹی ہوئی ہڈی پر باندھی جاتی ہے اور اَلْجِبَارۃ اس لکڑی کو کہتے ہیں جو ٹوٹی ہوئی ہڈی پر باندھی جاتی ہے۔ اَلْجَبِیْرَۃ کی جمع اَلْجَبَائِر آتی ہے۔ نیز تشبیہ کے طور رپ کنگن اور بازو بند کو بھی جِبَارۃ کہا جاتا ہے اور اَلْجِبَار جس کی دیت ساقط ہو۔ (11)
Surah:5Verse:22 |
زبردست لوگوں کی
(of) tyrannical strength
|
|
Surah:11Verse:59 |
جبار۔ ظالم
tyrant
|
|
Surah:14Verse:15 |
ظالم / جبار
tyrant
|
|
Surah:19Verse:14 |
متکبر
a tyrant
|
|
Surah:19Verse:32 |
متکبر
insolent
|
|
Surah:26Verse:130 |
سرکش ہو کر
(as) tyrants
|
|
Surah:28Verse:19 |
جبار/ ظالم
a tyrant
|
|
Surah:40Verse:35 |
جبار کے
tyrant"
|
|
Surah:50Verse:45 |
زبردست۔ جبر کرنے والا
the one to compel
|
|
Surah:59Verse:23 |
بزور حکم نافذ کرنے والا
the Irresistible
|