Perfect Tense | Imperfect Tense | Imperative | Active Participle | Passive Participle | Noun Form |
أَنْوَرَ |
يُنْوِرُ |
أَنْوِرْ |
مُنِيْر |
مُنَار |
إِنْوَار |
اَلنُّوْرُ:وہ پھیلنے والی روشنی جو اشیاء کے دیکھنے میں مدد دیتی ہے اور یہ دو قسم پر ہے۔دنیوی اور اخروی۔نور دنیوی پھر دو قسم پر ہے۔معقول (۱) جس کا ادراک بصیرت سے ہوتا ہے یعنی امور الھٰیہ کی روشنی جیسے عقل یا قرآن پاک کی روشنی۔دوم (۲) محسوس جس کا تعلق بصر سے ہے جیسے چاند،سورج، ستارے اور دیگر اجسام نیرہ۔چنانچہ نور الٰھی کے متعلق فرمایا (قَدۡ جَآءَکُمۡ مِّنَ اللّٰہِ نُوۡرٌ وَّ کِتٰبٌ مُّبِیۡنٌ ) (۵۔۱۵) بے شک تمہارے خدا کی طرف سے نور اور روشن کتاب آچکی ہے۔ (وَ جَعَلۡنَا لَہٗ نُوۡرًا یَّمۡشِیۡ بِہٖ فِی النَّاسِ کَمَنۡ مَّثَلُہٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیۡسَ بِخَارِجٍ مِّنۡہَا) (۶۔۱۲۲) اور اس کیلئے روشنی کردی جس کے ذریعہ سے وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے۔کہیں اس شخص جیسا ہوسکتا ہے جو اندھیرے میں پڑا ہو اور اس سے نکل نہ سکے۔ (مَا کُنۡتَ تَدۡرِیۡ مَا الۡکِتٰبُ وَ لَا الۡاِیۡمَانُ وَ لٰکِنۡ جَعَلۡنٰہُ نُوۡرًا نَّہۡدِیۡ بِہٖ مَنۡ نَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِنَا) (۴۲۔۵۲) تم نہ تو کتاب کو جانتے تھے اور نہ ایمان کو لیکن ہم نے اس کو نور بنایا کہ اس سے ہم اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتے ہیں ہدایت کرتے ہیں۔ (اَفَمَنۡ شَرَحَ اللّٰہُ صَدۡرَہٗ لِلۡاِسۡلَامِ فَہُوَ عَلٰی نُوۡرٍ مِّنۡ رَّبِّہٖ) (۳۹۔۲۲) بھلا جس شخص کا سینہ خدا نے اسلام کے لئے کھول دیا ہو اور وہ اپنے پروردگار کی طرف سے روشنی پر ہو۔ (نُوۡرٌ عَلٰی نُوۡرٍ ؕ یَہۡدِی اللّٰہُ لِنُوۡرِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ) (۲۴۔۳۵) روشنی پر روشنی ہورہی ہے۔خدا اپنے نور سے جس کو چاہتا ہے سیدھی راہ دکھاتا ہے۔اور نور حسی کے متعلق فرمایا:۔ (ہُوَ الَّذِیۡ جَعَلَ الشَّمۡسَ ضِیَآءً وَّ الۡقَمَرَ نُوۡرًا) (۱۰۔۵) وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا۔یہاں خاص کر سورج کو ضیاء اور قمر کو نور کہنے کی وجہ یہ ہے کہ ضَوْئٌ نور سے اخص ہے۔ (وَقَمَرًا مُّنِیرًا) (۲۵۔۶۱) اور چمکتا ہوا چاند بھی بنایا۔یعنی روشنی بنایا۔اور بعض آیات میں نور عام معنی میں استعمال ہوا ہے۔جیسے فرمایا:۔ (وَ جَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَ النُّوۡرَ) (۶۔۱) اور اندھیرا اور روشنی بنائی۔ (وَ یَجۡعَلۡ لَّکُمۡ نُوۡرًا تَمۡشُوۡنَ بِہٖ ) (۵۷۔۲۸) اور تمہارے لئے روشنی کردے گا جس میں چلوگے (وَ اَشۡرَقَتِ الۡاَرۡضُ بِنُوۡرِ رَبِّہَا ) (۳۹۔۶۹) اور زمین اپنے پروردگار کے نور سے جگمگا اٹھے گی اور نور اخروی کے متعلق فرمایا:۔ (نُوۡرُہُمۡ یَسۡعٰی بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ بِاَیۡمَانِہِمۡ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَاۤ اَتۡمِمۡ لَنَا نُوۡرَنَا) (۶۶۔۸) ان کا نور ایمان ان کے آگے اور داہنی طرف (روشنی کرتا ہوا) چل رہا ہوگا۔اور وہ خدا سے التجا کریں گے کہ اے پروردگار!ہمارا نور ہمارے لئے پورا کر۔ (انۡظُرُوۡنَا نَقۡتَبِسۡ مِنۡ نُّوۡرِکُمۡ) (۵۷۔۱۳) کہ ہماری طرف نظر شفقت کیجیے کہ ہم بھی تمہارے نور سے روشنی حاصل کریں۔ (فَالْتَمِسُوا نُوْرَا) (۵۷۔۱۳) اور وہاں نور تلاش کرو۔محاورہ ہے۔ (اناراللہ کذا ونورہ) اﷲ تعالیٰ اس کی قبر کو روشن کرے اور اﷲ تعالیٰ کا اپنی ذات کو نور کہنا مُنَوِّرٌ ہونے کے لحاظ سے ہے۔چنانچہ قرآن پاک میں ہے:۔ (اَللّٰہُ نُوۡرُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ) (۲۴۔۳۵) خدا آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔نیز اس کا اپنی ذات کو نور کہنا روشنی میں مبالغہ کی وجہ سے ہے۔ اَلنَّارُ:اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے۔قرآن پاک میں ہے:۔ (اَفَرَءَیۡتُمُ النَّارَ الَّتِیۡ تُوۡرُوۡنَ ) (۵۶۔۷۱) بھلا دیکھو کہ جو آگ تم درخت سے نکالتے ہو۔ (مَثَلُہُمۡ کَمَثَلِ الَّذِی اسۡتَوۡقَدَ نَارًا) (۲۔۱۷) ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی۔اور نار کا اطلاق صرف حرارت اور نارجہنم پر بھی ہوتا ہے جیسے فرمایا:۔ (اَلنَّارُ ؕ وَعَدَہَا اللّٰہُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا) (۲۲۔۷۲) وہ دوزخ کی آگ جس کا خدا نے کافروں سے وعدہ کیا ہے۔ (فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیۡ وَقُوۡدُہَا النَّاسُ وَ الۡحِجَارَۃُ ) (۲۔۲۴) تو اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے۔ (نَارُ اللّٰہِ الۡمُوۡقَدَۃُ) (۱۰۴۔۶) وہ خدا کی بھڑکائی ہوئی آگ ہے۔الغرض اس قسم کی بہت سی آیات ہیں جن میں نَارٌ کا لفظ جہنم پر بولا گیا ہے اور نار بمعنیہ نارِ حرب بھی آتا ہے۔چنانچہ فرمایا:۔ (کُلَّمَاۤ اَوۡقَدُوۡا نَارًا لِّلۡحَرۡبِ ) (۵۔۶۴) یہ جب لڑائی کی آگ جلاتے ہیں۔بعض نے کہا ہے کہ نار اور نور کی اصل ایک ہی ہے اور عام طور پر یہ لازم ملزوم ہوتے ہیں۔لیکن نار کو مُقْوِیْنَ کے لئے متاع دنیوی قرار دیا ہے اور نور کو متاع اخروی ہے۔اسی کے لئے نور کے متعلق اِقْتِبَاسٌ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔چنانچہ فرمایا:۔ (نَقۡتَبِسۡ مِنۡ نُّوۡرِکُمۡ) (۵۷۔۱۳) کہ ہم بھی تمہارے نور سے روشنی حاصل کریں۔تَنَوَّرْتُ نَارًا میں نے آگ دیکھی۔ اَلْمَنَارَۃُ:یہ یا تو نور سے مَفْعَلَۃٌ کے وزن پر ہے اور یا نار سے جیسے مَنَارَۃُ السِّرَاجِ (چراغ پایہ) وہ جس پر کہ اذان دی جاتی ہے اور مَنَارُ الْاَرْضِ:راستہ معلوم کرنے کے نشانات کو کہتے ہیں۔ (1) اَلنَّوَارُ:جائے تہمت سے نفرت کرنا۔ نَارََتِ الْمَرْأۃُ: (ن) نُوْرًا وَّنَوَارًا:عورت کا تہمت سے دور رہنا۔ نُوْرُا الشَّجَرَۃِ وَنَوَّارُہٗ:درخت کی کلیاں کیونکہ وہ سفیدی میں نور کے مشابہ ہوتی ہیں۔نُوْرٌ گودنے کا پوڈر۔اور اسی سے محاورہ ہے:نَوَّرَتِ الْمَرْۃُ یَدَھَا:عورت کا ہاتھ پر گودنا اورگودنے سے چونکہ عضو کی خوبصورتی بڑھ جاتی ہے اس لئے اسے تَنْوِیْرٌ سے تعبیر کرلیتے ہیں۔
Surah:2Verse:17 |
آگ
a fire
|
|
Surah:2Verse:24 |
اس آگ سے
the Fire
|
|
Surah:2Verse:39 |
آگ کے
(of) the Fire;
|
|
Surah:2Verse:80 |
آگ
the Fire
|
|
Surah:2Verse:81 |
آگ کے
(of) the Fire
|
|
Surah:2Verse:126 |
آگ کے
(of) the Fire
|
|
Surah:2Verse:167 |
آگ
the Fire
|
|
Surah:2Verse:174 |
آگ
the Fire
|
|
Surah:2Verse:175 |
آگ کے
the Fire!
|
|
Surah:2Verse:201 |
آگ کے
(of) the Fire"
|