Verb

يَبْلُغَ

reaches

پہنچ جائے

Verb Form 1
Perfect Tense Imperfect Tense Imperative Active Participle Passive Participle Noun Form
بلَغَ
يَبْلُغُ
اُبْلُغْ
بَالِغ
مَبْلُوْغ
بُلُوغ/بَلَاغ
Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلْبُلُوْغُ وَالْبَلَاغُ: (ن) کے معنی مقصد اور منتہیٰ کے آخری حد تک پہنچنے کے ہیں۔ عام اس سے کہ وہ مقصد کوئی مقام ہو یا زمانہ یا اندازہ کیے ہوئے امور میں سے کوئی امر ہو، مگر کبھی محض قریب تک پہنچ جانے پر بھی بولا جاتا ہے گو انتہا تک نہ بھی پہنچا ہو۔ چنانچہ انتہا تک پہنچنے کے معنی میں فرمایا: (حَتّٰۤی اِذَا بَلَغَ اَشُدَّہٗ وَ بَلَغَ اَرۡبَعِیۡنَ سَنَۃً ) (۴۶:۱۵) یہاں تک کہ جب خوب جوان ہوتا ہے اور چالیس برس کو پہنچ جاتا ہے۔ (فَبَلَغۡنَ اَجَلَہُنَّ فَلَا تَعۡضُلُوۡہُنَّ ) (۲:۲۳۲) اور ان کی عدت پوری ہوجائے تو ان کو۔۔۔ مت روکو۔ (وَ مَا ہُمۡ بِبَالِغِیۡہِ ) (۴۰:۵۶) اور وہ اس کو پہنچنے والے نہیں۔ (فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعۡیَ ) (۳۷:۱۰۲) جب وہ ان کے ساتھ دوڑنے (کی عمر) کو پہنچا۔ (لَّعَلِّیۡۤ اَبۡلُغُ الۡاَسۡبَابَ ) (۴۰:۳۶) تاکہ میں (اس پر چڑھ کر) رستوں پر پہنچ جاؤں۔ اور آیت کریمہ: (اَمۡ لَکُمۡ اَیۡمَانٌ عَلَیۡنَا بَالِغَۃٌ ) (۶۸:۳۹) یا تم نے ہم سے قسمیں لے رکھی ہیں جو چلی جائیں گی۔ یہاں بَالِغَۃٌ سے انتہائی مؤکد قسمیں مراد ہیں۔ اَلْبَلَاغُ کے معنی تبلیغ یعنی پہنچا دینے کے ہیں۔ جیسے فرمایا: (ہٰذَا بَلٰغٌ لِّلنَّاسِ ) (۱۴:۵۲) یہ (قرآن) لوگوں کے نام (خدا کا) پیغام ہے۔ (بَلٰغٌ ۚ فَہَلۡ یُہۡلَکُ اِلَّا الۡقَوۡمُ الۡفٰسِقُوۡنَ ) (۴۶:۳۵) (یہ قرآن) پیغام ہے سو (اب) وہی ہلاک ہوں گے جو نافرمان تھے۔ (وَ مَا عَلَیۡنَاۤ اِلَّا الۡبَلٰغُ الۡمُبِیۡنُ ) (۳۶:۱۷) اور ہمارے ذمے تو صاف صاف پہنچا دینا ہے۔ (فَاِنَّمَا عَلَیۡکَ الۡبَلٰغُ وَ عَلَیۡنَا الۡحِسَابُ ) (۱۳:۴۰) تمہارا کام (ہمارے احکام کا) پہنچا دینا ہے اور ہمارا کام حساب لینا ہے۔ اور بَلَاغٌ کے معنی کافی ہونا بھی آتے ہیں، جیسے: (اِنَّ فِیۡ ہٰذَا لَبَلٰغًا لِّقَوۡمٍ عٰبِدِیۡنَ ) (۲۱:۱۰۶) عبادت کرنے والے لوگوں کے لیے اس میں (خدا کے حکموں کی) پوری پوری تبلیغ ہے۔ اور آیت کریمہ: (وَ اِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلۡ فَمَا بَلَّغۡتَ رِسَالَتَہٗ ) (۵:۶۷) اور اگر ایسا نہ کیا تو تم خدا کے پیغام پہنچانے میں قاصر رہے۔ کے معنی یہ ہیں کہ اگر تم نے یہ یا کوئی دوسرا حکم جس کا تمہیں حکم دیا گیا ہے نہ پہنچایا تو گویا تم نے وحی الٰہی سے ایک حکم کی بھی تبلیغ نہیں کی یہ اس لیے کہ جس طرح انبیاء کرام کے درجے بلند ہوتے ہیں اسی طرح ان پر احکام کی بھی سختیاں ہوتی ہیں اور وہ عام مومنوں کی طرح نہیں ہوتے جو اچھے اور بُرے ملے جلے عمل کرتے ہیں اور انہیں معاف کردیا جاتا ہے اور آیت کریمہ: (فَاِذَا بَلَغۡنَ اَجَلَہُنَّ فَاَمۡسِکُوۡہُنَّ ) (۶۵:۲) پھر جب وہ اپنی میعاد (یعنی انقضائے عدت) کو پہنچ جائیں تو، یا تو ان کو (زوجیت میں) رہنے دو۔ میں بلوغ اجل سے عدتِ طلاق کا ختم ہونے کے قریب پہنچ جانا مراد ہے۔ کیونکہ عدت ختم ہونے کے بعد تو خاوند کے لیے مراجعت اور روکنا جائز ہی نہیں ہے۔ بَلَّغْتُہُ الْخَبَرَ وَاَبْلَغْتُہٗ کے ایک ہی معنی ہیں مگر بَلَّغْتُ (تفعیل) زیادہ استعمال ہوتا ہے، جیسے فرمایا: (اُبَلِّغُکُمۡ رِسٰلٰتِ رَبِّیۡ ) (۷:۶۲) تمہیں اپنے پروردگار کے پیغام پہنچاتا ہوں۔ (یٰۤاَیُّہَا الرَّسُوۡلُ بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ) (۵:۶۷) اے پیغمبر! جو ارشادات خدا کی طرف سے تم پر نازل ہوئے ہیں سب لوگوں کو پہنچا دو۔ (فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَقَدۡ اَبۡلَغۡتُکُمۡ مَّاۤ اُرۡسِلۡتُ بِہٖۤ اِلَیۡکُمۡ ) (۱۱:۵۷) اگر تم روگردانی کروگے تو جو پیغام میرے ہاتھ تمہاری طرف بھیجا گیا ہے وہ میں نے تمہیں پہنچا دیا ہے۔ اور قرآن پاک میں ایک مقام پر: (بَلَغَنِیَ الۡکِبَرُ وَ امۡرَاَتِیۡ عَاقِرٌ ) (۳:۴۰) کہ میں تو بوڑھا ہوگیا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے۔ آیا ہے یعنی بلوغ کی نسبت کِبْرٌ کی طرف کی گئی ہے۔ اور دوسرے مقام پر (وَّ قَدۡ بَلَغۡتُ مِنَ الۡکِبَرِ عِتِیًّا) (۱۹:۸) ’’اور میں بڑھاپے کی انتہا کو پہنچ گیا ہوں۔‘‘ ہے۔ یعنی بلوغ کی نسبت متکلم کی طرف ہے او ریہ اَدْرَکَنِی الْجَھْدُ وَاَدْرَکْتُ الْجَھْدَ کے مثل دونوں طرح جائز ہے، مگر بَلَغنِیَ الْمَکَانُ یَا اَدْرَکَنِیْ کہنا غلط ہے۔ اَلْبَلَاغَۃُ کا لفظ دو طرح بولا جاتا ہے، ایک یہ کہ وہ کلام بِذَاتِہٖ بَلِیْغ ہو اور اس کے لیے اوصاف ثلاثہ کا جامع ہونا شرط ہے یعنی وضع لغت کے اعتبار سے درست ہو، معنی مقصود کے مطابق ہو اور فی الواقع سچی بھی ہو اگر ان اوصاف میں کسی ایک وصف میں بھی کمی ہو تو بلاغت میں نقص رہتا ہے۔ دوسرے یہ کہ قائل اور مقول لہٗ یعنی متکلم اور مخاطب کے اعتبار سے بلیغ ہو یعنی کہنے والا اپنے مافی الضمیر کو خوبی سے ادا کرے کہ مخاطب کو اس کا قائل ہونا پڑے اور آیت کریمہ: (وَ قُلۡ لَّہُمۡ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ قَوۡلًۢا بَلِیۡغًا ) (۴:۶۳) اور ان سے ایسی باتیں کہو جو ان کے دلوں پر اثر کرجائیں۔ میں ’’قول بلیغ‘‘ ان ہر دو معنی پر محمول ہوسکتا ہے اور بعض نے اس کے جو یہ معنی کیے ہیں کہ: ’’ان سے کہہ دو کہ اگر تم نے اپنے مافی الضمیر کو ظاہر کیا تو قتل کردئیے جاؤگے یا یہ کہ انہیں ان پر نازل ہونے والے مصائب سے ڈراؤ‘‘ تو یہ اس کے عام مفہوم میں سے بعض پہلوؤں کی طرف اشارہ ہے۔ اَلْبُلْغَۃُ: اتنی مقدار جس سے گذراوقات ہوسکے۔

Lemma/Derivative

40 Results
بَلَغَ
Surah:2
Verse:196
پہنچ جائے
reaches
Surah:2
Verse:231
پھر وہ پوری کرلیں۔ وہ پہنچیں
and they reach
Surah:2
Verse:232
پھر وہ پہنچیں
and they reached
Surah:2
Verse:234
وہ پہنچیں
they reach
Surah:2
Verse:235
پہنچ جائے
reaches
Surah:3
Verse:40
پہنچا مجھ کو
has reached me
Surah:4
Verse:6
وہ پہنچ جائیں
they reach[ed]
Surah:6
Verse:19
پہنچے
it reaches
Surah:6
Verse:128
اور پہنچے ہم
and we have reached
Surah:6
Verse:152
وہ پہنچ پائے
he reaches