NounPersonal Pronoun

عُرُوشِهَا

its roofs

اپنی چھتوں کے

Verb Form
Perfect Tense Imperfect Tense Imperative Active Participle Passive Participle Noun Form
عَرَشَ
يَعْرِشُ
اِعْرِشْ
عَارِش
مَعْرُوْش
عَرْش
Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلْعَرْشُ: اصل میں چھت والی چیز کو کہتے ہیں اس کی جمع عُرُوْشٌ ہے۔ قرآن پاک میں ہے: (وَّ ہِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوۡشِہَا) (۲:۲۵۹) اور اس کے مکانات اپنی چھتوں پر گرے پڑے تھے۔ اسی سے عَرَشْتُ (ن) اَلْکَرْمَ وَعَرَّشْتُہٗ کا محاورہ ہے جس کے معنی انگور کی بیلوں کے لیے بانس وغیرہ کی ٹٹیاں بنانا کے ہیں اور ٹٹیوں پر چڑھائی ہوئی بیل کو مُعَرَّشٌ بھی کہا جاتا ہے۔ قرآن پاک میں ہے: (مَّعۡرُوۡشٰتٍ وَّ غَیۡرَ مَعۡرُوۡشٰتٍ ) (۶:۱۴۱) ٹٹیوں پر چڑھائے ہوئے اور جو ٹٹیوں پر نہیں چڑھائے ہوئے۔ (وَّ مِنَ الشَّجَرِ وَ مِمَّا یَعۡرِشُوۡنَ ) (۱۶:۶۸) اور درختوں میں اوران سے جنہیں ٹٹیوں پر چڑھاتے ہیں۔ (وَ مَا کَانُوۡا یَعۡرِشُوۡنَ ) (۷:۱۳۷) جو ٹٹیوں پر چڑھاتے تھے۔ ابوعبیدہ نے کہا کہ یَعْرِشُوْنَ کے معنی یَبْنُوْنَ ہیں یعنی جو وہ عمارتیں بناتے تھے(1) اِعْتَرَشَ الْعِنَبَ: انگور کی بیل کے لیے بانس وغیرہ کی ٹٹی بنائی۔ اَلْعَرِیْشُ: چھولداری۔ جس کی ہئیت انگور کی ٹٹی سے ملتی جلتی ہے۔ اسی سے عَرَّشْتُ الْبِئْرَ ہے جس کے معنی کنوئیں کے اوپر چھولداری سی بنانا کے ہیں۔ بادشاہ کے تخت کو بھی اس کی بلندی کی وجہ سے عَرْش کہا جاتا ہے۔ قرآن پاک میں ہے: (وَ رَفَعَ اَبَوَیۡہِ عَلَی الۡعَرۡشِ ) (۱۲:۱۰۰) اور اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا۔ (اَیُّکُمۡ یَاۡتِیۡنِیۡ بِعَرۡشِہَا ) (۲۷:۳۸) کوئی تم میں سے ایسا ہے … کہ ملکہ کا تخت میرے پاس لے آئے۔ (نَکِّرُوۡا لَہَا عَرۡشَہَا) (۲۷:۴۱) اس کے تخت کی صورت بدل دو۔ ( اَہٰکَذَا عَرۡشُکِ) (۲۷:۴۲) کہ آپ کا تخت بھی اسی طرح کا ہے۔ اور بطور کنایہ عَرْش کا لفظ عزت، غلبہ اور سلطنت کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے، چنانچہ محاورہ ہے۔ فُلَانٌ قُلَّ عَرشُہٗ: (یعنی فلاں کی عزت جاتی رہی) مروی ہے (۳۱۸) کہ کسی نے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کو خواب میں دیکھا تو ان سے دریافت کیا کہ پروردگار نے تمہارے ساتھ کیا کیا؟ تو حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے جواب دیا: اگر خدا اپنی رحمت سے میری دستگیری نہ کرتا ’’لَثُلَّ عَرْشِیْ‘‘ تو میں ذلیل ہوجاتا۔ اور عرش الٰہی سے صرف نام کی حد تک ہم واقف ہیں اور اس کی حقیقت انسان کے فہم سے بالاتر ہے اور وہ بادشاہ کے عرش کی طرح نہیں ہے جیساکہ عوام خیال کرتے ہیں کیونکہ اس صورت میں تو عرش باری تعالیٰ کا حامل قرار پائے گا نہ کہ محمول، حالانکہ ذات الٰہی اس سے بالاتر ہے (کہ کوئی چیز اسے اٹھائے) جیساکہ خود قرآن پاک میں ہے: (اِنَّ اللّٰہَ یُمۡسِکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ اَنۡ تَزُوۡلَا ۬ ۚ وَ لَئِنۡ زَالَتَاۤ اِنۡ اَمۡسَکَہُمَا مِنۡ اَحَدٍ مِّنۡۢ بَعۡدِہٖ) (۳۵:۴۱) خدا ہی آسمانوں اور زمین کو تھامے رکھتا ہے کہ اپنی جگہ سے ہٹ نہ جائیں اگر وہ اپنی جگہ سے ہٹ جائیں تو خدا کے سوا کوئی ایسا نہیں جو ان کو تھام سکے۔ بعض علماء کا خیال یہ ہے کہ عَرْش سے فَلک الْاَعْجٰی (فلک الافلاک) اور کُرْسی سے فلک الکواکب یعنی آٹھواں آسمان مراد ہے چنانچہ حدث میں ہے کہ آنحضرت نے فرمایا۔(2) (۳۶) (مَاالسَّمٰوٰت السبع وَالْاَرْضُوْنَ السبع فی جنب الکرسی الا کحلقۃ ملقاۃ فِی اَرْضِ فُلَاۃٍ) کہ سات آسمانوں اور سات زمینوں کی مثال کرسی کے مقابلہ میں ایسی ہی ہے جیسے بیابان میں ایک انگوٹھی پڑی ہوئی ہو اوریہی حیثیت عرش کے مقابلہ میں کرسی کی ہے۔ اورآیت کریمہ: (وَّ کَانَ عَرۡشُہٗ عَلَی الۡمَآءِ ) (۱۱:۱۷) اور (اس وقت) اس کا عرش پانی پر تھا۔ میں متنبہ کیا ہے کہ عرش جب سے وجود میں آیا ہے پانی کے اوپر ہی رہا ہے اور آیات: (ذُو الۡعَرۡشِ الۡمَجِیۡدُ ) (۸۵:۱۵) عرش کا مالک بڑی شان والا۔ (رَفِیۡعُ الدَّرَجٰتِ ذُو الۡعَرۡشِ) (۴۰:۱۵) مالک درجات عالی اور صاحب عرش ہے۔ اور ان کے ہم معنی دیگر آیات میں بعض نے کہا ہے کہ ان سے حق تعالیٰ کی سلطنت اور حکومت کی طرف اشارہ ہے ورنہ ان کے یہ معنی نہیں ہے کہ عرش باری تعالیٰ کا ٹھکانا اور مسکن ہے۔

Lemma/Derivative

29 Results
عَرْش