DeterminerNoun

ٱلطَّيْرِ

the birds

پرندوں

Verb Form
Perfect Tense Imperfect Tense Imperative Active Participle Passive Participle Noun Form
طَارَ
يَطِيْرُ
طِر
طَائِر
مَطِيْر
طَيْر
Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلطَّائِرُ: ہر پردار جانور جو فضا میں حرکت کرتا ہے۔ طَارَ یَطِیْرُ طَیْرانًا: پرند کا اڑنا۔ اَلطَّیْرُ یہ طَائِرٌ: کی جمع ہے۔ جیسے رَاکِبٌ کی جمع رَکَبٌ آتی ہے قرآن پاک میں ہے: (وَ لَا طٰٓئِرٍ یَّطِیۡرُ بِجَنَاحَیۡہِ ) (۶:۳۸) یا پرند جو اپنے پروں سے اڑاتا ہے۔ (وَ الطَّیۡرَ مَحۡشُوۡرَۃً) (۳۸:۱۹) اور پرندوں کو بھی جو کہ جمع رہتے ہیں۔ (وَ الطَّیۡرُ صٰٓفّٰتٍ) (۲۴:۴۱) اور پر پھیلائے ہوئے جانور بھی۔ (وَ حُشِرَ لِسُلَیۡمٰنَ جُنُوۡدُہٗ مِنَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ وَ الطَّیۡرِ ) (۲۷:۱۷) اور سلیمان علیہ السلام کے لیے جنوں، انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کیے گئے۔ (وَ تَفَقَّدَ الطَّیۡرَ ) (۲۷:۲۰) انہوں نے جانوروں کا جائزہ لیا۔ تَطَیَّرَ فَلَانٌ طَاطَّیَّرَ: اس کے اصل معنی تو کسی پرندہ سے شگون لینے کے ہیں۔ پھر یہ ہر اس چیز کے متعلق استعمال ہونے لگا ہے جس سے برا شگون لیا جائے اور اسے منحوس سمجھا جائے قرآن پاک میں ہے: (اِنَّا تَطَیَّرۡنَا بِکُمۡ ) (۳۶:۱۸) ہم تم کو منحوس سمجھتے ہیں۔ اسی لیے کہا گیا ہے(1) (۱۸) لَاطَیْرَ اِلَّا طَیْرُکَ کہ نہیں ہے نحوست مگرتیری طرف سے ہے۔ قرآن میں ہے: (وَ اِنۡ تُصِبۡہُمۡ سَیِّئَۃٌ یَّطَّیَّرُوۡا) (۷:۱۳۱) اگر سختی پہنچتی ہے تو … بدشگونی لیتے ہیں۔ یعنی موسیٰ علیہ السلام کو باعث نحوست سمجھتے ہیں (چنانچہ ان کے جواب میں فرمایا: (اَلَاۤ اِنَّمَا طٰٓئِرُہُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ ) (۷:۱۳۱) یعنی یہ ان کی بداعمالیوں کی سزا ہے جو اﷲ کے ہاں سے مل رہی ہے۔ چنانچہ اسی معنی میں فرمایا: (قَالُوا اطَّیَّرۡنَا بِکَ وَ بِمَنۡ مَّعَکَ ؕ قَالَ طٰٓئِرُکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ ) (۲۷:۴۷) وہ کہنے لگے کہ تم اور تمہارے ساتھیوں کو ہم بدشگون خیال کرتے ہیں (صالح علیہ السلام نے کہا کہ تمہاری بدشگونی خدا کی طرف سے ہے۔ (قَالُوۡا طَآئِرُکُمۡ مَّعَکُمۡ ) (۳۶:۱۹) انہوں نے کہا کہ تمہاری نحوست تمہارے ساتھ ہے۔ اور آیت ہے: (وَ کُلَّ اِنۡسَانٍ اَلۡزَمۡنٰہُ طٰٓئِرَہٗ فِیۡ عُنُقِہٖ) (۱۷:۱۳) اور ہم نے ہر انسان کے اعمال کو اس کے گلے میں لٹکادیا ہے۔ میں انسانی اعمال کو طائر کہا گیا ہے (کیونکہ عمل کے سرزد ہوجانے کے بعد انسان کو یہ اختیار نہیں رہتا کہ اسے واپس لے گویا وہ) اس کے ہاتھوں سے اڑ جاتا ہے تَطَایَرُوْا وہ نہایت تیزی سے گئے منتشر ہوگئے ہیں۔ شاعر نے کہا ہے(2) (البسیط (۲۹۶) طَارُوْا اِلَیْہِ زَرَافَاتٍ وَوُحْداناً تو جماعتیں بن کر اور اکیلے اکیلے اس کی طرف اڑتے چلے جاتے ہیں۔ فَجْرٌ مُسْتَطِیْرٌ: منتشر ہونے والی صبح۔ قرآن پاک میں ہے: (وَ یَخَافُوۡنَ یَوۡمًا کَانَ شَرُّہٗ مُسۡتَطِیۡرًا) (۷۶:۷) اور اس دن سے جس کی سختی پھیل رہی ہوگی، خوف رکھتے ہیں۔ غُبَارٌ مُسْتَطَارٌ: بلند اور منتشر ہونے والا غبار۔ فجر کو فاعل تصور کرکے اس کے متعلق مُسْتَطِیْرٌ اسم فاعل کا صیغہ استعمال کرتے ہیں اور غبار کو مفعول تصور کرکے مُسْتَطَارٌ کہتے ہیں۔ فَرَسٌ مُطَارٌ: ہوشیار اور تیزرو گھوڑا۔ خُذْمَا طَارَ مِنْ شَعْرِ رَأْسِکَ: یعنی اپنے سر کے پراگندہ اور لمبے بال کاٹ ڈالو۔(3)

Lemma/Derivative

19 Results
طَيْر