Perfect Tense | Imperfect Tense | Imperative | Active Participle | Passive Participle | Noun Form |
عَقَلَ |
يَعْقُلُ |
اُعْقُلْ |
عَاقِل |
مَعْقُوْل |
عَقْل/عُقُوْل |
اَلْعَقْلُ: اس قوت کو کہتے ہیں جو قبول علم کے لیے تیار رہتی ہے اور وہ علم جو اس قوّت کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے۔ اسے بھی عقل کہہ دیتے ہیں۔ چنانچہ امیرالمؤمنین حضرت علی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں(1) ہزج) (۳۱۹) (۱) اَلْعَقْلُ عَقْلَان۔ مُطْبُوْعٌ مَسْمُوْعٌ (۲) وَلَا یَنْفَعُ مَسْمُوْعٌ۔ اِذَالَمْ یَکُ مَطْبُوْعٌ۔ (۳) کَمَالَا یَنْفَعُ ضَوْئُ الشَّمْسِ وَضَوْئُ الْعَیْنِ مَمْنُوْعٌ کہ عقل دو قسم پر ہے۔ (۱) عقل طبعی یعنی جو طبیعت میں ودیعت کی گئی ہے اور (۲) عقل سمعی یعنی وہ جو لوگوں سے باتیں سن کر حاصل ہوتی ہے۔ (۲) اگر کوئی شخص فطرۃً عقل سے کورا ہو تو سن کر حاصل کی ہوئی عقل اسے کچھ فائدہ نہیں بخشتی۔ (۳) جیساکہ سورج کی روشنی اندھے آدمی کے لیے بے فائدہ ہوتی ہے۔ عقل کے پہلے معنی کی طرف آنحضرت ﷺ نے ایک حدیث میں اشارہ کرتے ہوئے فرمایا۔(2) (۴۷) مَاخَلَقَ اﷲُ خَلْقًا اَکْرَمَ عَلَیْہِ مِنَ الْعَقْلِ (اﷲ تعالیٰ نے کوئی ایسی مخلوق پیدا نہیں کی جو اس کے نزدیک عقل سے زیادہ باعزت ہو)۔ اور دوسرے معنی کی طر ف آنحضرت ﷺ کے ارشاد میں اشارہ پایا جاتا ہے۔ (3) (۴۷) (مَاکَسَبْ اَحَدٌ شَیْئًا اَفْضَلَ مِنْ عَقْلٍ یَّھْدِیْہٖ اِلٰی ھُدًی اَوْیَرُدُّہٗ عَنْ رَدًی) کہ کسی شخص نے اس عقل سے بڑھ کر کوئی چیز حاصل نہیں کی جو انسان کی رہنمائی کرے یا اسے ہلاکت سے بچائے۔ چنانچہ آیت کریمہ: (وَ مَا یَعۡقِلُہَاۤ اِلَّا الۡعٰلِمُوۡنَ ) (۲۹:۴۳) اور اسے تو اہل دانش ہی سمجھتے ہیں۔ میں اسی معنی کے اعتبار سے عقل کی نفی کی گئی ہے۔ اور ہر وہ جگہ جہاں اﷲ تعالیٰ نے فقدان عقل کی وجہ سے کفار کی مذمت فرمائی ہے وہاں دوسرے معنی ہی مراد ہیں۔ جیسے فرمایا: (وَ مَثَلُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا کَمَثَلِ الَّذِیۡ یَنۡعِقُ بِمَا لَا یَسۡمَعُ اِلَّا دُعَآءً وَّ نِدَآءً ؕ صُمٌّۢ بُکۡمٌ عُمۡیٌ فَہُمۡ لَا یَعۡقِلُوۡنَ ) (۲:۱۷۱) جو کافر ہیں، ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے، بہرے ہیں، گونگے ہیں اور اندھے یہں کہ کچھ سمجھ ہی نہیں سکتے۔ علاوہ ازیں اور بھی بہت سی آیات ہیں جن میں کفار سے عقل کی نفی کی گئی ہے اور جس مقام پر عقل نہ ہونے پر انسان کو غیر مکلّف قرار دیا گیا ہے۔ وہاں عقل کے اوّل معنی کی طرف اشارہ ہے۔ دراصل اَلْعَقْلُ کے معنی روکنا اور منع کرنا ہیں جیسے عِقَالٌ یعنی پائے بند سے اونٹ کا پاؤں باندھ دینا اور دوا کے پیٹ میں قبص کرنے کو بھی عَقْلٌ یعنی پائے بند سے اونٹ کا پاؤں باندھ دینا اور دوا کے پیٹ میں قبض کرنے کو بھی عَقْلٌ کہتے ہیں۔ عَقَلَتِ الْمَرْئَ ۃُ شَعْرَھَا عورت نے اپنے بال باندھ لیے۔ عَقَلَ لِسَانَہٗ: اس نے اپنی زبان روک لی اسی سے حصین یعنی قلعہ کو مَعْقِلٌ کہا جاتا ہے اس کی جمع مَعَاقِلٌ ہے اور عَقْلُ الْبَعِیْرِ سے عَقَلْتُ الْمَقْتُوْلَ کا محاورہ یہ۔ جس کے معنی ہیں: مقتول کی دیت ادا کرنا۔ بعض نے کہا ہے کہ عَقَلْتُ الْمَقْتُوْلَ کے اصلی معنی ہیں ولی الدم یعنی مقتول کے وارثوں کے گھر کے صحن میں اونٹ باندھنا مگر بعض کہتے ہیں: نہیں بلکہ اس کے معنی خونریزی روکنے کے ہیں۔ پھر مطلق خون بہا کو عَقْلٌ کہا جانے لگا ہے خواہ کوئی چیز دی جائے اور جو رشتے دار قاتل کی طرف سے دیت کا بوجھ اٹھاتے ہیں، انہیں عَاقِلَۃٌ کہا جاتا ہے۔ عَقَلْتُ عَنْہُ: کسی کی طرف سے خون بہا ادا کرنا۔ دَمُہٗ مُعْقَلَۃٌ عَلٰی قَوْمَہٖ: (4) اس کے خون بہا کا تاوان اس کی قوم پر ہے۔ اعْتَقَلَہٗ بِالشَّغْرَ بِیَّۃِ اسے پیچا لگاکر پچھاڑ دیا۔ اِعْتَقَلَ رُمْحَہٗ بَیْنَ وِکَابِہٖ وَسَاقِہٖ: اس نے نیزے کو اپنی رکاب اور پنڈلی کے درمیان رکھ لیا بعض نے کہا ہے کہ اَلْعِقَالُ کے معنی ایک سال کے صدقہ کے ہیں۔ چنانچہ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کا قول ہے۔(5) (۴۸) لَوْمَنَعُونِیْ عِقَالًا لِقَاتَلْتُھُمْ: کہ اگر وہ ہمیں سال کا صدقہ بھی نہ دیں گے تو میں ان سے جنگ کروں گا اور جب کوئی شخص اونٹ نہ لے اور ان کی بجائے نقدی وصول کرے تو عرب کہتے ہیں: اَخَذَ النَّقْدَ وَلَمْ یَأخُذِالْعِقَالَ مگر جب عِقَال کا لفظ صَدَقَۃ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے تو یہ یا تو عِقَالٌ بمعنی پائے بند بول کر کنایتاً اونٹ مراد لیے جاتے ہیں اور یا اونٹ بمعہ ان کی رسیوں کے مراد ہوتے ہیں اور یا یہ عَقَلْتُہٗ عَقْلًا وَعِقَالًا کا مصدر ہوتا ہے جس کے معنی باندھنا کے ہیں، جیسے کِتَابٌ کہ اصل میں کَتَبْتَ کا مصدر ہے مگر کبھی بمعنی مکتوب آجاتا ہے۔ اسی طرح عِقَال بول کر مَعْقُوْ مراد لیتے ہیں یعنی وہ جانور جو زکوٰۃ میں وصول کیا جائے۔ اَلْعَقِیْلَۃُ: وہ (خوبصورت) عورت یا موتی جسے حفاظت سے چھپا کر رکھا جاتا ہے۔ جیساکہ اعلیٰ درجہ کی چیز کو عِلْقُ مُضِنَّۃ کہا جاتا ہے۔ اَلْمَعْقِلُ: (پناہ گاہ) پہاڑ یا قلعہ جس میں پناہ لی جاتی ہے اَلْعُقَّالُ: ایک بیماری جو گھوڑے کے پاؤں میں پیدا ہوجاتی ہے اَلْعَقْلُ کے معنی چلتے وقت پاؤں کا باہم ٹکرانا کے ہیں۔
Surah:2Verse:44 |
تم عقلوں سے کام لیتے ہو
you use reason?
|
|
Surah:2Verse:73 |
تم عقل سے کام لو
use your intellect
|
|
Surah:2Verse:75 |
سمجھ لیا انہوں نے اس کو
they understood it
|
|
Surah:2Verse:76 |
تم سمجھتے
understand?"
|
|
Surah:2Verse:164 |
جو عقل رکھتی ہو
who use their intellect
|
|
Surah:2Verse:170 |
عقل رکھتے
understand
|
|
Surah:2Verse:171 |
عقل رکھتے۔ سمجھتے
understand
|
|
Surah:2Verse:242 |
تم عقل سے کام لو
use your intellect
|
|
Surah:3Verse:65 |
تم عقل رکھتے
you use your intellect?
|
|
Surah:3Verse:118 |
تم عقل رکھتے
(to use) reason
|