Perfect Tense | Imperfect Tense | Imperative | Active Participle | Passive Participle | Noun Form |
أَوْحَى |
يُوحِي |
أَوْحِ |
مُوحٍ |
مُوحًى |
إِيْحَاء |
اَلْوَحْیُ کے اصل معنی اشارہ شریعہ کے ہیں۔اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہونے کی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو اَمْرٌوَحْیٌ کہا جاتا ہے اور یہ (وحی) کبھی رمز و تعریض کے طور پر بذریہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی (۲) صوت مجزد کی صورت میں ہوتی ہے۔یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی۔اور کبھی (۳) بذریعہ جوارح کے اور کبھی (۴) بذریعہ کتابت کے اس بناء پر آیت۔ (فَخَرَجَ عَلٰی قَوۡمِہٖ مِنَ الۡمِحۡرَابِ فَاَوۡحٰۤی اِلَیۡہِمۡ اَنۡ سَبِّحُوۡا بُکۡرَۃً وَّ عَشِیًّا) (۱۹۔۱۱) پھر وہ (عبادت کے) حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح و شام خدا کو یاد کرتے رہو۔میں بعض نے اَوْحٰی کے معنی رمز اور بعض نے کَتَبَ (لکھنا) اور بعض نے اعتبار کرلینا کیے ہیں اور آیت: (وَ کَذٰلِکَ جَعَلۡنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیۡنَ الۡاِنۡسِ وَ الۡجِنِّ یُوۡحِیۡ بَعۡضُہُمۡ اِلٰی بَعۡضٍ زُخۡرُفَ الۡقَوۡلِ غُرُوۡرًا) (۶۔۱۱۳) اور اسی طرح ہم نے شیاطین (سیرت) جنون اور انسانوں کو ہر پیغمبر کا دشمن بنادیا تھا۔وہ دھوکہ دینے کے لئے ایک دوسرے کے دل میں ملمع کی باتیں ڈالتے رہتے تھے۔میں بھی وحی کا لفظ مذکورہ بالا وجوہ پر حمل کیا جاسکتا ہے اور آیت:۔ (وَ اِنَّ الشَّیٰطِیۡنَ لَیُوۡحُوۡنَ اِلٰۤی اَوۡلِیٰٓئِہِمۡ ) (۶۔۱۲۱) اور شیطان (لوگ) اپنے رفیقوں کے دلوں پر یہ بات ڈالتے ہیں۔میں بعض نے کہا ہے کہ اِیْحَائٌ بمعنی وسوسہ اندازی کے ہے جس کی طرف کہ آیت: (مِنۡ شَرِّ الۡوَسۡوَاسِ الۡخَنَّاسِ) (۱۱۴۔۴) (شیطان) وسوسہ انداز کی برائی سے جو (خدا کا نام سن کر) پیچھے ہٹ جاتا ہے۔میں اشارہ پایا جاتا ہے۔نیز حدیث میں ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا (1) (۱۳۴) (وَاِنَّ لِلشَّیْطَانِ لِمَّۃً) کہ شیطان وسوسہ اندازی کرتا ہے اور شریعت میں کلمہ الہیہ کو وحی کہا جاتا ہے جو انبیاء و اولیاء کی طرف القاء کیا جاتا ہے جو انبیاء اولیاء کی طرف القاء کیا جاتا ہے اس کی چند صورتیں ہیں۔جیسا کہ آیت:۔ (مَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنۡ یُّکَلِّمَہُ اللّٰہُ اِلَّا وَحۡیًا اَوۡ مِنۡ وَّرَآیِٔ حِجَابٍ اَوۡ یُرۡسِلَ رَسُوۡلًا فَیُوۡحِیَ بِاِذۡنِہٖ مَا یَشَآءُ) الایۃ (۴۲۔۵۱) اور کسی آدمی کے لئے ممکن نہیںہے کہ خدا اس سے بات کرے۔مگر الہام (کے ذریعہ) سے یا پردے کے پیچھے سے یا کوئی فرشتہ بھیج دے تو وہ خدا کے حکم سے جو خدا چاہے القا کرے سے معلوم ہوتا ہے کہ وحی (۱) یا تو فرشتہ کے ذریعہ ہوتی ہے جو ظاہری آنکھوں سے نظرآتا ہے اور اس کا کلام سنائی دیتا ہے جیسا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام ایک معین شکل میں آکر آنحضرتﷺ تک پیام رسالت پہنچایا کرتے تھے۔چنانچہ جملہ اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلَا میں اس معنی کو بیان فرمایا ہے۔وحی کی دوسری صفات یہ ہے کہ پردے کے پیچھے سے کلام سنائی دے۔جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام نے کوہ طور پر اﷲ تعالیٰ کا کلام سنا اور یہی معنی مِنْ وَّرَائِ حِجَابِ کے ہیں وحی کی یہ دونوں قسمیں انبیاء کے ساتھ مخصوص ہیں۔وحی کی تیسری صورت القاء فِی الرَّوْعِ کی ہے یعنی دل میں کسی بات کا ڈال دینا۔جیسا کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: (2) (۱۳۵) اِنَّ رُوْحَ الْقُدُسِ نَفَثَ فِیْ رَوْعِیْ) کہ روح القدس نے میرے دل میں یہ بات ڈال دی۔اور کبھی (۴) وحی بذریعہ الہام ہوتی ہے جیسے فرمایا:۔ (وَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰۤی اُمِّ مُوۡسٰۤی اَنۡ اَرۡضِعِیۡہِ) (۲۸۔۷) اور ہم نے موسیٰ علیہ السلام کی ماں کی طرف وحی بھیجی کہ اس کو دودھ پلاؤ اور کبھی وحی تسخیری ہوتی ہے یعنی کسی چیز کو اس کے کام پر مامور کرنا جیسے فرمایا:۔ (وَ اَوۡحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحۡلِ ) (۱۶۔۶۸) اور تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھیوں کو ارشاد فرمایا:اور کبھی نیند میں خواب کے ذریعے جیسا کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: (3) (۱۳۶) اِنْقَطَعَ الْوَحْیُ وَبَقِیَتِ الْمُبَشِّرَاتُ رُوْیَا الْمُومِنِ) کہ وحی تو منقطع ہوچکی ہے مگر مبشرات یعنی رویا مومن باقی رہ گئے ہیں اور وحی کی ان ہر سہ اقسام یعنی الہام تسخیر اور روٌیا پر آیت اِلَّا وَحْیَا دلالت کرتی ہے اور آیت کریمہ:۔ (وَ مَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوۡ قَالَ اُوۡحِیَ اِلَیَّ وَ لَمۡ یُوۡحَ اِلَیۡہِ شَیۡءٌ ) (۶۔۹۳) اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو خدا پر جھوٹ،افترا کرے یا یہ کہے کہ مجھ پر وحی آئی ہے حالانکہ اس پر کچھ بھی وحی نہ آئی ہو۔عام ہے اور ہر اس شخص پر چسپاں ہوسکتی ہے جو مذکورہ بالا اقسام وحی میں سے کسی ایک قسم کی وحی کا جھوٹا دعویٰ کرے اور آیت:۔ (وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِکَ مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا نُوۡحِیۡۤ اِلَیۡہِ) اَلْاٰیَۃِ (۲۱۔۲۵) اور جو پیغمبر ہم نے تم سے پہلے بھیجے ان کی طرف یہی وحی بھیجی۔میں بھی وحی کا لفظ جمیع انواع وحی کو شامل ہے کیونکہ اس آیت میں وحی کے تحت اﷲ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی عبادت کا ذکر ہے اور ان دونوں چیزوں کی معرفت اولوالعزم پیغمبرں کے ساتھ ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ چیز جس طرح شارع علیہ السلام سے بذریعہ سماعت کے حاصل ہوسکتی ہے ایسے ہی عقل و الہام سے بھی حاصل ہوسکتی ہے پس اس میں صرف اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ وہ شخص کبھی بھی اﷲ تعالیٰ کا سچا پیغمبر نہیں ہوسکتا جسے باری تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی وجوب عبادت کے متعلق معرفت حاصل نہ ہو۔ اور آیت:۔ (وَ اِذۡ اَوۡحَیۡتُ اِلَی الۡحَوَارِیّٖنَ ) (۵۔۱۱۱) اور جب میں نے حواریوں کو حکم بھیجا۔میں حضرت عیسیٰؑ کے حواریوں کی طرف وحی بھیجنے سے حضرت عیسیٰؑ کی وساطت سے ان کو حکم دینا مراد ہے اور آیت: (وَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡہِمۡ فِعۡلَ الۡخَیۡرٰتِ ) (۲۱۔۷۳) اور ان کو نیک کام کرنے کا حکم بھیجا۔میں بھی لوگوں کی طرف وحی کرنے سے انبیاء علیہ السلام کے ذریعہ انہیں ان باتوں کا حکم دینا مراد ہے اور آیات۔ (اِتَّبِعۡ مَاۤ اُوۡحِیَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ) (۶۔۱۰۶) اور جو حکم تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس آتا ہے اس کی پیروری کرو۔ (اِنۡ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوۡحٰۤی اِلَیَّ) (۱۰۔۱۵) میں تو اسی حکم کا تابع ہوں جو میری طرف آتا ہے۔ (قُلۡ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثۡلُکُمۡ یُوۡحٰۤی اِلَیَّ ) (۱۸۔۱۱۰) کہہ دو کہ میں تمہاری طرح کا ایک بشر ہوں (البتہ) میری طرف وحی آتی ہے۔میں خاص وہ وحی مراد ہے جو آنحضرتﷺ کے ساتھ مخصوص تھی۔اور آیت:۔ (وَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰی مُوۡسٰی وَ اَخِیۡہِ) (۱۰۔۸۷) اور ہم نے موسیٰ علیہ السلام اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی۔میں موسیٰؑ اور ان کے بھائی کی طرف وحی کی تو حضرت جبرائیل علیہ السلام کی وساطت سے آتی تھی مگر ہارون علیہ السلام کی طرف حضرت موسیٰ علیہ السلام اور جبرائیل علیہ السلام دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے اور آیت: (اِذۡ یُوۡحِیۡ رَبُّکَ اِلَی الۡمَلٰٓئِکَۃِ اَنِّیۡ مَعَکُمۡ ) (۸۔۱۲) جب تمہارا پروردگار فرشتوں کو ارشاد فرماتا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں۔میں بعض نے کہا ہے کہ لوح و قلم کی وساطت سے وحی بھیجنا مراد ہے اور آیت کریمہ:۔ (وَ اَوۡحٰی فِیۡ کُلِّ سَمَآءٍ اَمۡرَہَا) (۴۱۔۱۲) اور ہر آسمان میں اس کے کام کا حکم بھیجا۔میں آسمان سے مراد اہل سماء ہیں تو یہاں الْمُوحٰی اِلَیْھِمْ (یعنی جن کی طرف وحی کی تھی) مخذوف ہے اور اہل سماء سے مراد چونکہ فرشتے ہی ہیں اس لئے اصل میں (اِذۡ یُوۡحِیۡ رَبُّکَ اِلَی الۡمَلٰٓئِکَۃِ ) (۸۔۱۲) ہے کہ ہم نے فرشتوں کی طرف وحی بھیجی۔پس یہ مذکورہ بالا آیت کے ہم معنی ہوگی اور اگر مُوْحٰی اِلَیْھِمْ سے آسمان ہی مراد لئے جائیں تو لوگ آسمانوں کے غیر جانبدار ہونے کے قائل ہیں۔ان کے نزدیک اس سے وحی تسخیری مراد ہوگی اور جن کے نزدیک آسمان زندہ اور جاندر مخلوق ہیں۔ان کے نزدیک وحی بذریعہ کلام مراد ہوگی۔اور آیت:۔ (بِاَنَّ رَبَّکَ اَوۡحٰی لَہَا) (۹۹۔۵) کیونکہ تمہارے پروردگار نے اس کا حکم بھیجا ہوگا۔میں وحی کے پہلے معنی یعنی وحی تسخیری مراد لینا اقرب معلوم ہوتا ہے اور آیت: (وَ لَا تَعۡجَلۡ بِالۡقُرۡاٰنِ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ یُّقۡضٰۤی اِلَیۡکَ وَحۡیُہٗ) (۲۰۔۱۱۴) اور قرآن پاک کی وحی جو تمہاری طرف بھیجی جاتی ہے اس کے پورا ہونے سے پہلے قرآن پاک کے (پڑھنے) کے لئے جلدی نہ کرو۔میں آنحضرتﷺ کو تثبت کے ساتھ وحی کو سننے اور اس کی تلفی میں عجلت کو ترک کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔
Surah:3Verse:44 |
ہم وحی کرتے ہیں اس کو
We reveal it
|
|
Surah:4Verse:163 |
وحی کی ہم نے
have revealed
|
|
Surah:4Verse:163 |
وحی کی ہم نے
We revealed
|
|
Surah:4Verse:163 |
اور وحی کی ہم نے
and We revealed
|
|
Surah:5Verse:111 |
میں نے وحی کی
I inspired
|
|
Surah:6Verse:19 |
اور وحی کیا گیا
and has been revealed
|
|
Surah:6Verse:50 |
وحی کی جاتی ہے
is revealed
|
|
Surah:6Verse:93 |
وحی کی گئی
"It has been inspired
|
|
Surah:6Verse:93 |
وحی کی گئی
it was inspired
|
|
Surah:6Verse:106 |
وحی کیا گیا
has been inspired
|