Perfect Tense | Imperfect Tense | Imperative | Active Participle | Passive Participle | Noun Form |
كَرَّمَ |
يُكَرِّمُ |
كَرِّمْ |
مُكَرِّم |
مُكَرَّم |
تَكْرِيْم |
اَلْکَرَمُ:جب اﷲ تعالیٰ کی صفت ہو تو اس سے احسان و انعام مراد ہوتا ہے جو ذات باری تعالیٰ سے صادر ہوتا رہتا ہے۔قرآن پاک میں ہے: (فَاِنَّ رَبِّیۡ غَنِیٌّ کَرِیۡمٌ ) (۲۷۔۴۰) تو میرا پروردگار بے پرواہ اور کرم کرنے والا ہے۔اور جب انسان کی صفت ہو تو پسندیہ اخلاق اور مراد ہوتے ہیں جو کسی انسان سے ظاہر ہوتے ہیں اور کسی شخص کو اس وقت تک کریم نہیں کہا جاسکتا جب تک کہ اس سے کرم کا ظہور نہ ہوچکا ہو۔بعض علماء نے کہا ہے کہ حریت اور کرم ہم معنی ہیں لیکن حریت کا لفظ جھوٹی بڑی ہر قسم کی خوبیوں پر بولا جاتا ہے اور کرم صرف بڑے بڑے محاسن کو کہتے ہیں۔مثلاًجہاد میں فوج کیلئے سازوسامان مہیا کرنا یا کسی ایسے بھاری تاوان کو اٹھالینا جس سے قوم کے خون اور جان کی حفاظت ہوتی ہو۔اور آیت: (اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ) (۴۹۔۱۳) اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے۔میں ’’اَتْقٰیٗٗیعنی سب سے زیادہ پرہیزگار کو ’’اَکْرَمٌٗٗیعنی سب سے زیادہ عزت و تکریم کا مستحق ٹھہرانے کی وجہ یہ ہے کہ کَرَم بہترین صفات کو کہتے ہیں اور سب سے بہتر اور پسندیدہ کام وہی ہوسکتے ہیں جن سے رضا الہیٰ کے حصول کا قصد کیا جائے لہذا جو جس قدر زیادہ پرہیز گار ہوگا اسی قدر زیادہ واجب التکریم ہوگا۔نیز اَلْکَرِیْمُ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنی ہم نوع چیزوں میں سب سے زیادہ باشرف ہو چنانچہ فرمایا: (فَاَنۡۢبَتۡنَا فِیۡہَا مِنۡ کُلِّ زَوۡجٍ کَرِیۡمٍ) (۳۱۔۱۰) پھر اس سے اس میں ہر قسم کی نفیس چیزیں اگائیں۔ (وَّ زُرُوۡعٍ وَّ مَقَامٍ کَرِیۡمٍ ) (۴۴۔۲۶) اور کھیتیاں اور نفیس مکان۔ (اِنَّہٗ لَقُرۡاٰنٌ کَرِیۡمٌ) (۵۶۔۷۷) کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن پاک ہے۔ (وَ قُلۡ لَّہُمَا قَوۡلًا کَرِیۡمًا) (۱۷۔۲۳) اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا۔اَلْاِکْرَامُ وَالتَّکْرِیْمُ کے معنی ہیں:کسی کو اس طرح نفع پہنچانا کہ اس میں اس کی کسی طرح کی سبکی اور خفت نہ ہو یا جو نفع پہنچایا جائے وہ نہایت باشرف اور اعلیٰ ہو اور اَلْمُکَرَّمَ کے معنی معزز اور باشرف کے ہیں۔قرآن پاک میں ہے: (ہَلۡ اَتٰىکَ حَدِیۡثُ ضَیۡفِ اِبۡرٰہِیۡمَ الۡمُکۡرَمِیۡنَ ) (۵۱۔۲۴) بھلا تمہارے پاس ابراہیم علیہ السلام کے معزز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے؟اور آیت کریمہ: (بَلۡ عِبَادٌ مُّکۡرَمُوۡنَ ) (۲۱۔۲۶) کے معنی یہ ہیں کہ وہ اﷲ کے معزز بندے ہیں جیسے فرمایا: (وَ جَعَلَنِیۡ مِنَ الۡمُکۡرَمِیۡنَ ) (۳۶۔۲۷) اور مجھے عزت والوں میں کیا۔ (کِرَامًا کَاتِبِیْنَ) (۸۲۔۱۱) عالی قدر (تمہاری باتوں کے) لکھنے والے۔ (بِاَیۡدِیۡ سَفَرَۃٍ …… کِرَامٍۭ بَرَرَۃٍ ) (۸۰۔۱۶) ایسے لکھنے والوں کے ہاتھوں میں جو سردار اور نیکوکار ہیں اور آیت کریمہ: (ذُو الۡجَلٰلِ وَ الۡاِکۡرَامِ) (۵۵۔۲۷) اور جو صاحب جلال اور عظمت ہے۔میں اکرام کا لفظ ہر دو معنی پر مشتمل ہے یعنی اﷲ تعالیٰ عزت و تکریم بھی عطا کرتا ہے اور باشرف چیزیں بھی بخشتا ہے۔ (1)
Surah:4Verse:31 |
عزت والی
a noble
|
|
Surah:8Verse:4 |
عزت والا
noble
|
|
Surah:8Verse:74 |
عزت والا
noble
|
|
Surah:12Verse:31 |
معزز
noble"
|
|
Surah:17Verse:23 |
عزت والی/ احترام والی
noble
|
|
Surah:22Verse:50 |
عزت والا
noble
|
|
Surah:23Verse:116 |
کریم کا
Honorable
|
|
Surah:24Verse:26 |
عزت والا
noble
|
|
Surah:25Verse:72 |
شریف لوگوں کی طرح
(as) dignified ones
|
|
Surah:26Verse:7 |
عمدہ
noble
|