Perfect Tense | Imperfect Tense | Imperative | Active Participle | Passive Participle | Noun Form |
بَاتَ |
يَبِيْتُ |
بِتْ |
بَائِت |
مَبِيْت |
بَيَات/بَيْت |
اَلْبَیْتُ: اصل میں ’’بیت‘‘ کے معنی انسان کے رات کے ٹھکانہ کے ہیں۔ کیونکہ بَاتَ کا لفظ رات کو کسی جگہ اقامت کرنے پر بولا جاتا ہے جیسے ظَلَّ کے معنی دن گزارنے کے ہیں۔ لیکن اس کے بعد یہ لفظ مطلق مسکن اور مکان کے معنوں میں استعمال ہونے لگا ہے، عام اس سے کہ وہ مٹی یا پتھر سے بنایا گیا ہو یا اون اور بالوں کا بنا ہوا ہے اس کی جمع بُیُوت او رابیَات آتی ہے مگر پہلی جمع مسکن کے لیے مختص ہے اور دوسری بیت بمعنی شعر کے ساتھ۔ قرآن پاک میں ہے: (فَتِلۡکَ بُیُوۡتُہُمۡ خَاوِیَۃًۢ بِمَا ظَلَمُوۡا) (۲۷:۵۲) یہ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب خالی پڑے ہیں۔ (وَّ اجۡعَلُوۡا بُیُوۡتَکُمۡ قِبۡلَۃً ) (۱۰:۸۷) او راپنے گھروں کو قبلہ (یعنی مسجدیں) ٹھہراؤ۔ (لَا تَدۡخُلُوۡا بُیُوۡتًا غَیۡرَ بُیُوۡتِکُمۡ ) (۲۴:۲۷) دوسرے لوگوں کے گھر میں… داخل نہ ہوا کرو۔ اور تشبیہ کے طور پر ایک شعر کو بیت کہہ دیتے ہیں۔ اور ہر چیز کے مکان کو (مجازا) اس کا بیت کہا جاتا ہے۔ اور اَھْلُ الْبَیْتِ کا لفظ آل النبی ﷺ میں متعارف ہوچکا ہے اور آنحضرت ﷺ نے (۴۱) سَلْمَانُ مِنَّا اَھْلَ الْبَیْتِ (سلمان ہمارے اہل بیت سے ہے) فرماکر متنبہ کردیا ہے(1) کہ غلام کی نسبت اس کے آقا کی طرف ہوتی ہے، جیساکہ حدیث میں ہے(2) (۴۶) مَوْلَی الْقَوْمِ مِنْھُمْ وَابْنُہٗ مِنْ اَنْفُسِھِمْ۔ کہ کسی قوم کا غلام انہی میں سے ہے اور اس کا لڑکا بھی ان ہی سے ہے۔ بَیْتُ اﷲِ وَالْبَیْتُ الْعَتِیْقِ: کعبہ۔ قرآن میں ہے: (وَ لۡیَطَّوَّفُوۡا بِالۡبَیۡتِ الۡعَتِیۡقِ ) (۲۲:۲۹) اور خانہ قدیم (عینی بات اﷲ) کا طواف کریں۔ (اِنَّ اَوَّلَ بَیۡتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیۡ بِبَکَّۃَ ) (۳:۹۶) پہلا بیت جو لوگوں (کے عبادت کرنے) کے لیے مقرر کیا گیا تھا وہی ہے جو مکہ میں ہے۔ (وَ اِذۡ یَرۡفَعُ اِبۡرٰہٖمُ الۡقَوَاعِدَ مِنَ الۡبَیۡتِ ) (۲:۱۲۷) اور جب ابراہیم علیہ السلام … بیت اﷲ کی بنیادیں اونچی کررہے تھے۔ اور آیت کریمہ: (وَ لَیۡسَ الۡبِرُّ بِاَنۡ تَاۡتُوا الۡبُیُوۡتَ مِنۡ ظُہُوۡرِہَا وَ لٰکِنَّ الۡبِرَّ مَنِ اتَّقٰیۚ) (۲:۱۸۹) اور نیکی اس بات میں نہیں ہے کہ (احرام) کی حالت میں گھروں میں ان کے پچھواڑے کی طرف سے آؤ۔ ان لوگوں کے متعلق نازل ہوئی ہے جو احرام کے بعد اپنے گھروں میں ان کے دروازوں سے داخل ہونے سے پرہیز کرتے اور اسے احرام کے منافی سمجھتے تھے، لہٰذا اﷲ تعالیٰ نے اس آیت میں متنبہ فرمایا کہ اس قسم کی رسوم بِرٌّ کے منافی ہیں اور آیت کریمہ: (وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ یَدۡخُلُوۡنَ عَلَیۡہِمۡ مِّنۡ کُلِّ بَابٍ …سَلٰمٌ ) (۱۳:۲۳،۲۴) اور فرشتے (بہشت کے) ہر ایک دروازے سے ان کے پاس آئیں گے (اور کہیں گے) تم پر سلامتی ہو۔ میں ’’مِنْ کُلِّ بَابٍ سَلَامٌ‘‘ سے ہر قسم کی مسرتیں مراد ہیں۔ اور آیت کریمہ: (فِیۡ بُیُوۡتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنۡ تُرۡفَعَ ) (۲۴:۳۶) ان گھروں میں (ہے) جن کے بارے میں خدا نے ارشاد فرمایا ہے کہ بلند کیے جائیں۔ میں بقول بعض اس سے بیوت نبوی ﷺ مراد ہیں جیساکہ آیت : (لَا تَدۡخُلُوۡا بُیُوۡتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنۡ یُّؤۡذَنَ لَکُمۡ ) (۳۳:۵۳) پیغمبر کے گھروں میں نہ جایا کرو، مگر اس صورت میں کہ تم کو اجازت دی جائے۔ میں صراحت کے ساتھ مذکور ہے۔ اور بعض نے کہا ہے کہ فِیْ بُیُوْتٍ سے آپؐ کے اہل بیت اور قوم مراد ہے۔ اور بعض کے نزدیک قلب یعنی دل کی طرف اشارہ ہے۔ بعض حکماء نے حدیث(3) (۴۷) لَا تَدْخُلُ الْمَلٰٓئِکَۃُ بَیْتًا فِیْہِ کَلْبٌ وَّلَا صُوْرَۃٌ کے تحت لکھا ہے کہ یہاں بیت سے مراد دل اور کلب سے مراد حرص ہے۔ کیونکہ کَلِبَ فُلَانٌ کے معنی بہت زیادہ حرص کرنے کے ہیں اور کتا حرص میں ضرب المثل ہے۔ جیساکہ کہا جاتا ہے فُلَانٌ اَحْرَصُ مِنَ الْکَلْبِ (فلاں کتے سے زیادہ حریص ہے) اور آیت: (وَ اِذۡ بَوَّاۡنَا لِاِبۡرٰہِیۡمَ مَکَانَ الۡبَیۡتِ ) (۲۲:۲۶) جب ہم نے ابراہیم علیہ السلام کے لیے خانہ کعبہ کو مقرر کیا۔ میں مَکَانَ الْبَیْتِ سے مراد مکہ مکرمہ ہے۔ اور آیت کریمہ: (رَبِّ ابۡنِ لِیۡ عِنۡدَکَ بَیۡتًا فِی الۡجَنَّۃِ ) (۶۶:۱۱) اے میرے پروردگار! میرے لیے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا۔ میں جنت میں گھر بنانے کے معنی یہ ہیں کہ جنت میں داخل ہونا میرے لیے آسان کردے۔ اور آیت کریمہ: (وَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰی مُوۡسٰی وَ اَخِیۡہِ اَنۡ تَبَوَّاٰ لِقَوۡمِکُمَا بِمِصۡرَ بُیُوۡتًا وَّ اجۡعَلُوۡا بُیُوۡتَکُمۡ قِبۡلَۃً ) (۱۰:۸۷) اور ہم نے موسیٰ علیہ السلام اور اس کے بھائی کی طرف وحی بھیجی کہ اپنے لوگوں کے لیے مصر میں گھر بناؤ اور اپنے گھروں کو قبلہ ٹھہراؤ۔ میں گھروں کو قبلہ ٹھہرانے کے معنی یہ ہیں کہ ان کے اندر مسجد اقصٰی کی طرف متوجہ ہوکر نماز ادا کرتے رہو۔ اور آیت کریمہ: (فَمَا وَجَدۡنَا فِیۡہَا غَیۡرَ بَیۡتٍ مِّنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ) (۵۱:۳۶) اور اس میں ایک گھر کے سوا مسلمانوں کا کوئی گھر نہ پایا۔ میں ایک گھر سے ایک خدان مراد ہے۔ جو ایک گھر میں سکونت پذیر تھے۔ جیساکہ قریہ بول کر اہل قریہ مراد لیے جاتے ہیں۔ اَلْبَیَاتُ وَالتَّبْیِیْتُ کے معنی رات میں دشمن پر حملہ کرنے یعنی شبخون مارنا کے ہیں۔ قرآن پاک میں ہے: (اَفَاَمِنَ اَہۡلُ الۡقُرٰۤی اَنۡ یَّاۡتِیَہُمۡ بَاۡسُنَا بَیَاتًا وَّ ہُمۡ نَآئِمُوۡنَ ) (۷:۹۷) کیا بستیوں کے رہنے والے اس سے بے خوف ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب رات کو واقع ہو اور وہ (بے خبر) سو رہے ہوں۔ (بَیَاتًا اَوۡ ہُمۡ قَآئِلُوۡنَ ) (۷:۴) (رات کو) آتا تھا جب کہ وہ سوتے تھے یا (دن کو) جب وہ قیلولہ (یعنی دن کو آرام) کرتے تھے۔ اَلْبَیُّوْتُ: وہ معاملہ جس پر رات بھر غوروخوض کیا گیا ہو۔ قرآن پاک میں ہے: (بَیَّتَ طَآئِفَۃٌ مِّنۡہُمۡ ) (۴:۸۱) ان میں بعض لوگ رات کو مشورے کرتے ہیں۔ اور بَیَّتَ الْاَمْرَ کے معنی ہیں رات کے وقت کسی کام کی تدبیر کرنا۔ چنانچہ فرمایا: (اِذۡ یُبَیِّتُوۡنَ مَا لَا یَرۡضٰی مِنَ الۡقَوۡلِ ) (۴:۱۰۸) حالانکہ جب وہ راتوں کو ایسی باتوں کے مشورے کیا کرتے ہیں جن کو وہ پسند نہیں کرتا۔ اسی طرح ایک روایت میں ہے(4) (۴۸) لَاصِیَامَ لِمَنْ لَّمْ یُبَیِّتِ الصِّیَامَ مِنَ اللَّیْلِ۔ کہ جو شخص رات سے روزہ کی پختہ نیت نہ کرے اس کا روزہ نہیں ہوگا۔ اور بَاتَ فُلَانٌ یَفْعَلُ کَذَا کے معنی رات بھر کوئی کام کرنا کے ہیں جیساکہ ظلّ کے معنی دن بھر کام کرنا آتے ہیں اور یہ دونوں افعال عادات سے ہیں۔ (5)
Surah:2Verse:125 |
اس گھر ( خانہ کعبہ کو)
the House
|
|
Surah:2Verse:125 |
میرے گھر کو
My House
|
|
Surah:2Verse:127 |
گھر
the House
|
|
Surah:2Verse:158 |
بیت اللہ کا
(of) the House
|
|
Surah:2Verse:189 |
گھروں کو
(to) the houses
|
|
Surah:2Verse:189 |
گھروں کو
(to) the houses
|
|
Surah:3Verse:49 |
اپنے گھروں (میں)
your houses
|
|
Surah:3Verse:96 |
گھر
House
|
|
Surah:3Verse:97 |
بیت اللہ کا
(of) the House
|
|
Surah:3Verse:154 |
اپنے گھروں (میں)
your houses
|