Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 17

سورة البقرة

مَثَلُہُمۡ کَمَثَلِ الَّذِی اسۡتَوۡقَدَ نَارًا ۚ فَلَمَّاۤ اَضَآءَتۡ مَا حَوۡلَہٗ ذَہَبَ اللّٰہُ بِنُوۡرِہِمۡ وَ تَرَکَہُمۡ فِیۡ ظُلُمٰتٍ لَّا یُبۡصِرُوۡنَ ﴿۱۷﴾

Their example is that of one who kindled a fire, but when it illuminated what was around him, Allah took away their light and left them in darkness [so] they could not see.

ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی پس آس پاس کی چیزیں روشنی میں آئی ہی تھیں کہ اللہ ان کے نور کو لے گیا اور انہیں اندھیروں میں چھوڑ دیا ، جو نہیں دیکھتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Example of the Hypocrites Allah says, مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَاراً فَلَمَّا أَضَاءتْ مَا حَوْلَهُ ... Their likeness is as the likeness of one who kindled a fire; then, when it illuminated all around him, Allah likened the hypocrites when they bought deviation with guidance, thus acquiring utter blindness, to the example of a person who started a fire. When the fire was lit, and illuminated the surrounding area, the person benefited from it and felt safe. Then the fire was suddenly extinguished. Therefore, total darkness covered this person, and he became unable to see anything or find his way out of it. Further, this person could not hear or speak and became so blind that even if there were light, he would not be able to see. This is why he cannot return to the state that he was in before this happened to him. Such is the case with the hypocrites who preferred misguidance over guidance, deviation over righteousness. This parable indicates that the hypocrites first believed, then disbelieved, just as Allah stated in other parts of the Qur'an. Allah's statement, ... ذَهَبَ اللّهُ بِنُورِهِمْ ... Allah removed their light, means, Allah removed what benefits them, and this is the light, and He left them with what harms them, that is, the darkness and smoke. Allah said, ... وَتَرَكَهُمْ فِي ظُلُمَاتٍ ... And left them in darkness, that is their doubts, disbelief and hypocrisy. ... لااَّ يُبْصِرُونَ (So) they could not see. meaning, they are unable to find the correct path or find its direction. In addition, they are, صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لاَ يَرْجِعُونَ

شک ، کفر اور نفاق کیا ہے؟ مثال کو عربی میں مثیل بھی کہتے ہیں اس کی جمع امثال آتی ہے ۔ جیسے قرآن میں ہے آیت ( وَتِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ ۚ وَمَا يَعْقِلُهَآ اِلَّا الْعٰلِمُوْنَ ) 29 ۔ العنکبوت:43 ) یعنی یہ مثالیں ہم لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں جنہیں صرف عالم ہی سمجھتے ہیں ۔ اس آیت شریف کا مطلب یہ ہے کہ جو منافق گمراہی کو ہدایت کے بدلے اور اندھے پن کو بینائی کے بدلے مول لیتے ہیں ان کی مثال اس شخص جیسی ہے جس نے اندھیرے میں آگ جلائی اس کے دائیں بائیں کی چیزیں اسے نظر آنے لگیں ، اس کی پریشانی دور ہو گئی اور فائدے کی امید بندھی کہ دفعتہ آگ بجھ گئی اور سخت اندھیرا چھا گیا نہ تو نگاہ کام کر سکے ، نہ راستہ معلوم ہو سکے اور باوجود اس کے وہ شخص خود بہرا ہو ۔ کسی کی بات کو نہ سن سکتا ہو ۔ گونگا ہو کسی سے دریافت نہ کر سکتا ہو ، اندھا ہو جو روشنی سے کام نہ چلا سکتا ہو ۔ اب بھلا یہ راہ کیسے پا سکے گا ؟ ٹھیک اسی طرح یہ منافق بھی ہیں کہ ہدایت چھوڑ کر راہ گم کر بیٹھے اور بھلائی چھوڑ کر برائی کو چاہنے لگے ۔ اس مثال سے پتہ چلتا ہے کہ ان لوگوں نے ایمان قبول کر کے کفر کیا تھا ۔ جیسے قرآن کریم میں کئی جگہ یہ صراحت موجود ہے واللہ اعلم ۔ امام رازی نے اپنی تفسیر میں سدی سے یہی نقل کیا ہے ۔ پھر کہا ہے کہ یہ تشبیہ بہت ہی درست اور صحیح ہے ، اس لئے کہ اولاً تو ان منافقوں کو نور ایمان حاصل ہوا پھر ان کے نفاق کی وجہ سے وہ چھن گیا اور یہ حیرت میں پڑ گئے اور دین گم ہو جانے کی حیرت سے بڑی حیرت اور کیا ہو گی؟ امام ابن جریر فرماتے ہیں کہ جن کی یہ مثال بیان کی گئی ہے انہیں کسی وقت بھی ایمان نصیب ہی نہ ہوا تھا کیونکہ پہلے فرمان الٰہی گزر چکا ہے کہ آیت ( وماھم بمومنین ) یعنی گو یہ زبان سے اللہ تعالیٰ پر اور قیامت پر ایمان لانے کا اقرار کرتے ہیں مگر حقیقتاً یہ ایماندار نہیں ۔ درحقیقت اس آیۃ مبارکہ میں ان کے کفر و نفاق کے وقت کی خبر دی گئی ہے اس سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ اس حالت کفر و نفاق سے پہلے کبھی انہیں ایمان حاصل ہی نہیں ہوا ۔ ممکن ہے ایمان لائے ہوں ، پھر اس سے ہٹ گئے ہوں اور اب دلوں میں مہریں لگ گئی ہوں دیکھئے دوسری جگہ قرآن کریم میں ہے آیت ( ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ اٰمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوْا فَطُبِعَ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ فَهُمْ لَا يَفْقَهُوْنَ ) 63 ۔ المنافقون:3 ) یہ اس لئے ہے کہ انہوں نے ایمان کے بعد کفر کیا ، پھر ان کے دلوں پر مہر لگ گئی ۔ اب وہ کچھ نہیں سمجھتے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس مثال میں روشنی اور اندھیرے کا ذکر ہے یعنی کلمہ ایمان کے ظاہر کرنے کی وجہ سے دنیا میں کچھ نور ہو گیا ، کفر کے چھپانے کی وجہ سے پھر آخرت کے اندھیروں نے گھیر لیا ۔ ایک جماعت کی مثال شخص واحد سے اکثر دی جاتی ہے ۔ قرآن پاک میں اور جگہ ہے آیت ( رَاَيْتَهُمْ يَنْظُرُوْنَ اِلَيْكَ تَدُوْرُ اَعْيُنُهُمْ كَالَّذِيْ يُغْشٰى عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ ۚ فَاِذَا ذَهَبَ الْخَوْفُ سَلَقُوْكُمْ بِاَلْسِـنَةٍ حِدَادٍ اَشِحَّةً عَلَي الْخَــيْرِ ) 33 ۔ الاحزاب:19 ) تو دیکھے گا کہ وہ تیری طرف آنکھیں پھیر پھیر کر اس طرح دیکھتے ہیں جس طرح وہ شخص جو سکرات موت میں ہو ۔ اور اس آیت کو بھی دیکھئے آیت ( مَا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ اِلَّا كَنَفْسٍ وَّاحِدَةٍ ) 31 ۔ لقمان:28 ) تم سب کا پیدا کرنا اور مار ڈالنے کے بعد پھر زندہ کر دینا ایسا ہی ہے جیسے ایک جان کو دوبارہ زندہ کرتا ۔ تیسری جگہ توراۃ سیکھ کر عملی عقیدہ اس کے مطابق نہ رکھنے والوں کی مثال میں کہا گیا ہے آیت ( كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ اَسْفَارًا ) 62 ۔ الجمعہ:5 ) گدھے کی مانند ہیں جو کتابیں لادے ہوئے ہو ۔ سب آیتوں میں جماعت کی مثال ایک ہی دی گئی ہے ۔ اسی طرح مذکورہ بالا آیت میں منافقوں کی جماعت کی مثال ایک شخص سے دی گئی ۔ بعض کہتے ہیں تقدیر کلام یوں ہے ۔ آیت ( مثل قصتھم کمثل قصۃ الذین استو قدوا نارا ) یعنی ان کے واقعہ کی مثال ان لوگوں کے واقعہ کی طرح ہے جو آگ روشن کریں ۔ بعض کہتے ہیں کہ آگ جلانے والا تو ایک ہے ۔ لیکن مجموعی طور پر پوری جماعت اس سے محظوظ ہوتی ہے جو اس کے ساتھ ہے اور اس قسم کا اور الذی یہاں الذین کے معنی میں ہیں جیسے کہ شاعروں کے شعروں میں بھی میں کہتا ہوں اس مثال میں بھی واحد کے صیغہ کے بعد ہی جمع کے صیغہ بھی ہیں بنورھم اور ترکھم اور لا یرجعون ملاحظہ ہوں ۔ اس طرح کلام میں اعلیٰ فصاحت اور بہترین خوبی بھی آ گئی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان کی روشنی لے گیا اس سے مطلب یہ ہے کہ جو نور نفع دینے والا تھا وہ تو ان سے ہٹا لیا اور جس طرح آگ کے بجھ جانے کے بعد تپش اور دھواں اور اندھیرا رہ جاتا ہے اسی طرح ان کے پاس نقصان پہنچانے والی چیز یعنی شک و کفر و نفاق رہ گیا تو راہ راست کو نہ خود دیکھ سکیں نہ دوسرے کی بھلی بات سن سکیں نہ کسی سے بھلائی کا سوال کر سکیں ۔ اب پھر لوٹ کر ہدایت پر آنا محال ہو گیا ۔ اس کی تائید میں مفسرین کے اقوال سنئے ۔ حضرت ابن عباس ، ابن مسعود اور بعض اور صحابہ رضوان اللہ علیہم فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ تشریف لانے کے بعد کچھ لوگ اسلام لے آئے مگر پھر منافق بن گئے ۔ ان کی مثال اس شخص جیسی ہے جو اندھیرے میں ہو پھر آگ جلا کر روشنی حاصل کرے اور آس پاس کی بھلائی برائی کو سمجھنے لگے اور معلوم کرے کہ کس راہ میں کیا ہے؟ کہ اچانک آگ بجھ جائے روشنی جاتی رہے ۔ اب معلوم نہیں ہو سکتا کہ کس راہ میں کیا کیا ہے؟ اسی طرح منافق شرک و کفر کی ظلمت میں تھے پھر اسلام لا کر بھلائی برائی یعنی حلال حرام وغیرہ سمجھنے لگے مگر پھر کافر ہو گئے اور حرام و حلال خیرو شر میں کچھ تمیز نہ رہی ۔ حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں نور سے مراد ایمان اور ظلمت سے مراد ضلالت و کفر ہے یہ لوگ ہدایت پر تھے لیکن پھر سرکشی کر کے بہک گئے ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں ایمانداری اور ہدایت کی طرف رخ کرنے کو اس مثال میں آس پاس کی چیز کے روشنی کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ حضرت عطا خراسانی کا قول ہے کہ منافق کبھی کبھی بھلائی کو دیکھ لیتا ہے اور پہچان بھی لیتا ہے لیکن پھر اس کے دل کی کور چشمی اس پر غالب آ جاتی ہے ۔ عکرمہ ، عبدالرحمن ، حسن ، سدی اور ربیع سے بھی یہی منقول ہے ۔ عبدالرحمن بن زید بن اسلم فرماتے ہیں منافقوں کی یہی حالت ہے کہ ایمان لاتے ہیں اور اس کی پاکیزہ روشنی سے ان کے دل جگمگا اٹھتے ہیں جیسے آگ کے جلانے سے آس پاس کی چیزیں روشن ہو جاتی ہیں لیکن پھر کفر اس روشنی کو کھو دیتا ہے جس طرح آگ کا بجھ جانا پھر اندھیرا کر دیتا ہے ۔ مندرجہ بالا اقوال تو ہماری اس تفسیر کی تائید میں تھے کہ جن منافقوں کی یہ مثال بیان کی گئی ہے وہ ایمان لا چکے تھے پھر کفر کیا ۔ اب امام ابن جریر کی تائید میں جو تفسیر ہے اسے بھی سنئے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ یہ مثال منافقوں کی ہے کہ وہ اسلام کی وجہ سے عزت پا لیتے ہیں ۔ مسلمانوں میں نکاح ، ورثہ اور تقسیم مال غنیمت میں شامل ہوتے ہیں لیکن مرتے ہی یہ عزت چھن جاتی ہے جس طرح آگ کی روشنی آگ بجھتے ہی جاتی رہتی ہے ۔ ابو العالیہ فرماتے ہیں جب منافق آیت ( لا الہ الا اللہ ) پڑھتا ہے تو دل میں نور پیدا ہوتا ہے پھر جہاں شک کیا وہ نور گیا ، جس طرح لکڑیاں جب تک جلتی رہیں روشنی رہی ، جہاں بجھ گئیں نور گیا ۔ ضحاک فرماتے ہیں نور سے مراد یہاں ایمان ہے جو ان کی زبانوں پر تھا ۔ قتادہ کہتے ہیں آیت ( لا الہ الا اللہ ) ان کے لئے روشنی کر دیتا تھا امن و امان ، کھانا پینا ، بیوی بچے سب مل جاتے تھے لیکن شک و نفاق ان سے یہ تمام راحتیں چھین لیتا ہے جس طرح آگ کا بجھنا روشنی دور کر دیتا ہے ۔ حضرت قتادہ کا قول ہے کہ آیت ( لا الہ الا اللہ ) کہنے سے منافق کو ( دنیوی نفع مثلاً مسلمانوں میں لڑکے لڑکی کا لین دین ، ورثہ کی تقسیم ، جان و مال کی حفاظت وغیرہ ) مل جاتا ہے لیکن چونکہ اس کے دل میں ایمان کی جڑ اور اس کے اعمال میں خلوص نہیں ہوتا اس لئے موت کے وقت وہ سب منافع سلب ہو جاتے ہیں جیسے آگ کی روشنی بجھ جائے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں اندھیروں میں چھوڑ دینا سے مراد مرنے کے بعد عذاب پانا ہے ۔ یہ لوگ حق کو دیکھ کر زبان سے اس کا اس کا اقرار ہیں اور ظلمت کفر سے نکل جاتے ہیں لیکن پھر اپنے کفر و نفاق کی وجہ سے ہدایت اور حق پر قائم رہنا ان سے چھن جاتا ہے ۔ سدی کا قول ہے کہ اندھیرے سے مراد ان کا نفاق ہے ۔ حسن بصری فرماتے ہیں موت کے وقت منافقین کی بد اعمالیاں اندھیروں کی طرح ان پر چھا جاتی ہیں اور کسی بھلائی کی روشنی ان کے لئے باقی نہیں رہتی جس سے ان کی توحید کی تصدیق ہو ۔ وہ بہرے ہیں ، حق کے سننے اور راہ راست کو دیکھنے اور سمجھنے سے اندھے ہیں ۔ ہدایت کی طرف لوٹ نہیں سکتے ۔ نہ انہیں توبہ نصیب ہوتی ہے نہ نصیحت حاصل کر سکتے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

ف 1 حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) اور دیگر صحابہ نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مدینہ تشریف لائے تو کچھ لوگ مسلمان ہوگئے لیکن پھر جلدی منافق ہوگئے۔ ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو اندھیرے میں تھا اس نے روشنی جلائی جس سے اس کا ماحول روشن ہوگیا اور مفید اور نقصان دہ چیزیں اس پر واضح ہوگئیں دفعتا وہ روشنی بجھ گئی اور حسب سابق تاریکیوں میں گھر گئے۔ یہ حال منافقین کا تھا پہلے وہ شرک کی تاریکی میں تھے مسلمان ہوئے تو روشنی میں آگئے۔ حلال و حرام کو پہچان گئے پھر وہ دوبارہ کفر و نفاق کی طرف لوٹ گئے تو ساری روشنی جاتی رہی (فتح القدیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٣] منافقوں کی مثال (١) :۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے منافقوں کی صورت حال بیان فرمائی ہے۔ یہ آگ جلانے والا شخص خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں جنہوں نے کفر و ضلالت کی تاریکیوں میں اسلام کی شمع روشن اور حق کو باطل سے، صحیح کو غلط سے اور راہ راست کو گمراہیوں سے چھانٹ کر بالکل نمایاں کردیا۔ اب جو لوگ (سچے مومن) دیدہ بینا رکھتے تھے۔ انہیں سب کچھ واضح طور پر نظر آنے لگا۔ مگر یہ منافقین جو اپنی مفاد پرستی کی وجہ سے اندھے ہو رہے تھے۔ انہیں اس روشنی میں بھی کچھ نظر نہ آیا۔ ان کے اس طرح اندھے بنے رہنے کو ہی اللہ تعالیٰ نے آیت (ذَھَبَ اللّٰهُ بِنُوْرِهِمْ وَتَرَكَھُمْ فِىْ ظُلُمٰتٍ لَّا يُبْصِرُوْنَ 17؀) 2 ۔ البقرة :17) سے تعبیر کیا ہے، اور اللہ تعالیٰ کی طرف اس کی نسبت ویسی ہی ہے جیسے آیت ( خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ وَعَلٰي سَمْعِهِمْ ۝ۧ) 2 ۔ البقرة :7) میں ہے جس کی وضاحت ہم نے کردی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ منافقوں کو خود نور صداقت دیکھنا گوارا نہیں تو اللہ نے بھی انہیں تاریکیوں میں بھٹکتا چھوڑ دیا۔ اللہ کا قانون ہرگز یہ نہیں کہ کسی کو زبردستی ہدایت دے بلکہ اس کا قانون یہ ہے کہ جدھر کوئی چلتا ہے اللہ تعالیٰ ادھر ہی اسے چلنے میں مدد کیے جاتا ہے۔ (١٧: ٢٠)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اسْـتَوْقَدَ نَارًا ” اَوْ قَدَ نَارًا “ کے معنی ہیں اس نے آگ جلائی۔ ” اسْـتَوْقَدَ “ میں سین اور تاء زیادہ ہونے سے معنی میں اضافہ ہوگیا، اس لیے اس کا ترجمہ ” خوب بھڑکائی “ کیا ہے۔ منافقین کی تشبیہ اس شخص سے کس طرح دی گئی جس نے ایک آگ خوب بھڑکائی، پھر اس کی آگ بجھ گئی اور اللہ ان کا نور لے گیا ؟ جواب یہ ہے کہ دو وجہ سے، پہلی یہ کہ یہ لوگ پہلے ایمان لائے تو نور ایمان سے ان کے لیے ہر چیز روشن ہوگئی، پھر نفاق میں مبتلا ہوگئے تو وہ نور بجھ گیا اور وہ کفر و نفاق اور شکوک و شبہات کے کئی اندھیروں میں بھٹکتے رہ گئے۔ اس معنی کی تائید اس آیت سے ہوتی ہے : (ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ اٰمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوْا فَطُبِعَ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ ) [ المنافقون : ٣ ] ” یہ اس لیے کہ بیشک وہ ایمان لائے، پھر انھوں نے کفر کیا تو ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی۔ “ تشبیہ کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ایمان لانے کی وجہ سے دنیا میں انھیں مسلمانوں والی عزت حاصل ہوئی، مسلمانوں کے ساتھ ان کے رشتے ناتے رہے، وہ ایک دوسرے کے وارث بنتے رہے، مال غنیمت اور دوسرے بیشمار فوائد حاصل کرتے رہے، مگر جب فوت ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان سے وہ عزت چھین لی، جیسے اس آگ والے سے اس کی روشنی چھین لی اور انھیں بہت سے اندھیروں (یعنی قبر، یوم محشر اور جہنم کے عذاب) میں چھوڑ دیا۔ (طبری عن ابن عباس بسند حسن)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The last four verses bring out the miserable plight of the hypocrites with the help of two extended similes. The choice of two examples is meant to divide the hypocrites into two kinds of men. On the one hand were those in whom disbelief had taken deep roots, so that they had little inclination towards Islam, but pretended to be Muslims for worldly motives - the Holy Qur&an compares them to the man who, having found light, again loses it, and is left in darkness. On the other hand were those who did recognize the truth of Islam, and sometimes wished to be genuine Muslims, but worldly interests would not allow them to do so, and they remained in a perpetual state of hesitation and doubt - they have been likened to the men caught in a thunderstorm who move forward a step or two when there is a flash of lightning, but, when it is over, again get stuck. In the course of these parables, the hypocrites have also been warned that they are not beyond the power of Allah, and that He can, as and when He likes, take away their sight and hearing, and even destroy them.

آخری چار آیتوں میں منافقین کے حال کی دو مثالیں دے کر اس کا قابل نفرت ہونا بیان فرمایا گیا دو مثالیں اس بناء پر دی گئیں کہ منافقین میں دو طرح کے آدمی تھے ایک وہ جو اپنے کفر میں بالکل پختہ تھے ایمان کا اظہار صرف دنیوی مصلحت کی وجہ سے کرتے تھے ایمان واسلام سے ان کا کوئی واسطہ نہ تھا دوسرے کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو اسلام کی حقانیت سے متاثر ہو کر کبھی کبھی سچے مسلمان ہونے کا ارادہ بھی کرلیتے تھے مگر پھر دنیوی اغراض سامنے آکر ان کو اس ارادہ سے روک دیتی تھیں اسی طرح وہ ایک تذبذب اور تردد کے حال میں رہتے، اسی مضمون کے ضمن میں ان ظالموں کو یہ تنبیہ بھی کردی گئی کہ وہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کے احاطہ قدرت سے باہر نہیں ہر وقت ہر حال میں ہلاک بھی کرسکتے ہیں اور بینائی وشنوائی کی طاقتیں بھی سلب کرسکتے ہیں

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مَثَلُھُمْ كَمَثَلِ الَّذِى اسْـتَوْقَدَ نَارًا۝ ٠ ۚ فَلَمَّآ اَضَاۗءَتْ مَا حَوْلَہٗ ذَھَبَ اللہُ بِنُوْرِہِمْ وَتَرَكَھُمْ فِىْ ظُلُمٰتٍ لَّا يُبْصِرُوْنَ۝ ١٧ مثل والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] . ( م ث ل ) مثل ( ک ) المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔ وقد يقال : وَقَدَتِ النارُ تَقِدُ وُقُوداً ووَقْداً ، والوَقُودُ يقال للحطب المجعول للوُقُودِ ، ولما حصل من اللهب . قال تعالی: وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة/ 24] ، أُولئِكَ هُمْ وَقُودُ النَّارِ [ آل عمران/ 10] ، النَّارِ ذاتِ الْوَقُودِ ( و ق د ) وقدت النار ( ض ) وقودا ۔ ووقدا آگ روشن ہونا ۔ الوقود ۔ ایندھن کی لکڑیاں جن سے آگ جلائی جاتی ہے ۔ اور آگ کے شعلہ کو بھی وقود کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجارَةُ [ البقرة/ 24] جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے ۔ أُولئِكَ هُمْ وَقُودُ النَّارِ [ آل عمران/ 10] اور یہ لوگ آتش جہنم کا ایندھن ہوں گے ۔ النَّارِ ذاتِ الْوَقُودِ [ البروج/ 5] آگ کی خندقیں جن میں ایندھن جھونک رکھا تھا ۔ آگ جل نار والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] ، ( ن و ر ) نار اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ لَمَّا يستعمل علی وجهين : أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر . ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران/ 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف/ 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔ ضوأ الضَّوْءُ : ما انتشر من الأجسام النّيّرة، ويقال : ضَاءَتِ النارُ ، وأَضَاءَتْ ، وأَضَاءَهَا غيرُها . قال تعالی: فَلَمَّا أَضاءَتْ ما حَوْلَهُ [ البقرة/ 17] ، كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، يَكادُ زَيْتُها يُضِيءُ [ النور/ 35] ، يَأْتِيكُمْ بِضِياءٍ [ القصص/ 71] ، وسَمَّى كُتُبَهُ المُهْتَدَى بها ضِيَاءً في نحو قوله : وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسی وَهارُونَ الْفُرْقانَ وَضِياءً وَذِكْراً لِلْمُتَّقِينَ [ الأنبیاء/ 48] . ( ض و ء ) الضوء ۔ کے معنی نور اور روشنی کے ہیں ضائت النار واضائت : آگ روشن ہوگئی اور اضائت ( افعال ) کے معنی روشن کرنا بھی آتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ & فَلَمَّا أَضاءَتْ ما حَوْلَهُ [ البقرة/ 17] جب آگ نے اس کے ارد گرد کی چیزیں روشن کردیں ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی چمکتی اور ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ يَأْتِيكُمْ بِضِياءٍ [ القصص/ 71] جو تم کو روشنی لادے ۔ اور سماوی کتابوں کو جو انسان کی رہنمائی کے لئے نازل کی گئی ہیں ضیاء سے تعبیر فرمایا ہے ۔ چناچہ ( تورات کے متعلق ) فرمایا :۔ وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسی وَهارُونَ الْفُرْقانَ وَضِياءً وَذِكْراً لِلْمُتَّقِينَ [ الأنبیاء/ 48] وَذِكْراً لِلْمُتَّقِينَ [ الأنبیاء/ 48] اور ہم نے موسٰی اور ہارون کو ( ہدایت اور گمراہی میں ) فرق کردینے والی اور ( سرتاپا ) روشنی اور نصیحت ( کی کتاب ) عطاکی ۔ حول أصل الحَوْل تغيّر الشیء وانفصاله عن غيره، وباعتبار التّغيّر قيل : حَالَ الشیء يَحُولُ حُؤُولًا، واستحال : تهيّأ لأن يحول، وباعتبار الانفصال قيل : حَالَ بيني وبینک کذا، وقوله تعالی: وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ [ الأنفال/ 24] ( ح ول ) & الحوال ( ن ) دراصل اس کے معنی کسی چیز کے متغیر ہونے اور دوسری چیزوں سے الگ ہونا کے ہیں ۔ معنی تغییر کے اعتبار سے حال الشئی یحول حوولا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کی شے کے متغیر ہونیکے ہیں ۔ اور استحال کے معنی تغیر پذیر ہونے کے لئے مستعد ہونے کے اور معنی انفصال کے اعتبار سے حال بینی وبینک کذا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ یعنی میرے اور اس کے درمیان فلاں چیز حائل ہوگئی ۔ اور آیت کریمہ :۔ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ [ الأنفال/ 24] اور جان رکھو کہ خدا آدمی اسکے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے ۔ ذهب الذَّهَبُ معروف، وربما قيل ذَهَبَةٌ ، ويستعمل ذلک في الأعيان والمعاني، قال اللہ تعالی: وَقالَ إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات/ 99] ، ( ذ ھ ب ) الذھب ذھب ( ف) بالشیء واذھبتہ لے جانا ۔ یہ اعیان ومعانی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات/ 99] کہ میں اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں ۔ نور ( روشنی) النّور : الضّوء المنتشر الذي يعين علی الإبصار، وذلک ضربان دنیويّ ، وأخرويّ ، فالدّنيويّ ضربان : ضرب معقول بعین البصیرة، وهو ما انتشر من الأمور الإلهية کنور العقل ونور القرآن . ومحسوس بعین البصر، وهو ما انتشر من الأجسام النّيّرة کالقمرین والنّجوم والنّيّرات . فمن النّور الإلهي قوله تعالی: قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتابٌ مُبِينٌ [ المائدة/ 15] ، وقال : وَجَعَلْنا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُماتِ لَيْسَ بِخارِجٍ مِنْها [ الأنعام/ 122] ( ن و ر ) النور ۔ وہ پھیلنے والی روشنی جو اشیاء کے دیکھنے میں مدد دیتی ہے ۔ اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔ نور دینوی پھر دو قسم پر ہے معقول جس کا ادراک بصیرت سے ہوتا ہے یعنی امور الہیہ کی روشنی جیسے عقل یا قرآن کی روشنی دوم محسوس جسکاے تعلق بصر سے ہے جیسے چاند سورج ستارے اور دیگر اجسام نیزہ چناچہ نور الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتابٌ مُبِينٌ [ المائدة/ 15] بیشک تمہارے خدا کی طرف سے نور اور روشن کتاب آچکی ہے ۔ وَجَعَلْنا لَهُ نُوراً يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُماتِ لَيْسَ بِخارِجٍ مِنْها [ الأنعام/ 122] اور اس کے لئے روشنی کردی جس کے ذریعہ سے وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے کہیں اس شخص جیسا ہوسکتا ہے ۔ جو اندھیرے میں پڑا ہو اور اس سے نکل نہ سکے ۔ ترك تَرْكُ الشیء : رفضه قصدا واختیارا، أو قهرا واضطرارا، فمن الأول : وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف/ 99] ، وقوله : وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان/ 24] ، ومن الثاني : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان/ 25] ( ت ر ک) ترک الشیئء کے معنی کسی چیز کو چھوڑ دینا کے ہیں خواہ وہ چھوڑنا ارادہ اختیار سے ہو اور خواہ مجبورا چناچہ ارادۃ اور اختیار کے ساتھ چھوڑنے کے متعلق فرمایا : ۔ وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف/ 99] اس روز ہم ان کو چھوڑ دیں گے کہ ور وئے زمین پر پھل کر ( ایک دوسری میں گھسن جائیں وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان/ 24] اور دریا سے ( کہ ) خشک ( ہورہا ہوگا ) پاور ہوجاؤ ۔ اور بحالت مجبوری چھوڑ نے کے متعلق فرمایا : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان/ 25] وہ لوگ بہت سے جب باغ چھوڑ گئے ۔ ظلم) تاریکی) الظُّلْمَةُ : عدمُ النّور، وجمعها : ظُلُمَاتٌ. قال تعالی: أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍ [ النور/ 40] ، ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور/ 40] ، وقال تعالی: أَمَّنْ يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُماتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ النمل/ 63] ، وَجَعَلَ الظُّلُماتِ وَالنُّورَ [ الأنعام/ 1] ، ويعبّر بها عن الجهل والشّرک والفسق، كما يعبّر بالنّور عن أضدادها . قال اللہ تعالی: يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [ البقرة/ 257] ، أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [إبراهيم/ 5] ( ظ ل م ) الظلمۃ ۔ کے معنی میں روشنی کا معدوم ہونا اس کی جمع ظلمات ہے ۔ قرآن میں ہے : أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍ [ النور/ 40] ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے ) جیسے دریائے عشق میں اندھیرے ۔ ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور/ 40] ( غرض ) اندھیرے ہی اندھیرے ہوں ایک پر ایک چھایا ہوا ۔ أَمَّنْ يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُماتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ النمل/ 63] بتاؤ برو بحری کی تاریکیوں میں تمہاری کون رہنمائی کرتا ہے ۔ وَجَعَلَ الظُّلُماتِ وَالنُّورَ [ الأنعام/ 1] اور تاریکیاں اور روشنی بنائی ۔ اور کبھی ظلمۃ کا لفظ بول کر جہالت شرک اور فسق وفجور کے معنی مراد لئے جاتے ہیں جس طرح کہ نور کا لفظ ان کے اضداد یعنی علم وایمان اور عمل صالح پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [ البقرة/ 257] ان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے جاتا ہے ۔ أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [إبراهيم/ 5] کہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے جاؤ بصر البَصَر يقال للجارحة الناظرة، نحو قوله تعالی: كَلَمْحِ الْبَصَرِ [ النحل/ 77] ، ووَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] ( ب ص ر) البصر کے معنی آنکھ کے ہیں جیسے فرمایا ؛کلمح البصر (54 ۔ 50) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔ وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] اور جب آنگھیں پھر گئیں ۔ نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٧) منافقین کی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلے میں یہ مثال ہے، جیسا کسی شخص نے اندھیرے میں آگ جلائی، تاکہ اس کے ذریعے سے اپنے مال اور اہل و عیال کی حفاظت کرے، جب وہ آگ روشن ہوگئی اور ارد گرد اور چیزیں بھی نظرآنے لگیں اور اپنے مال اور اہل واعیال کے بارے میں اطمینان ہوگیا تو اچانک وہ آگ بجھ گئی، اسی طرح منافقین رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن پاک پر ایمان لائے اور حقیقت میں ان کا ایمان صرف اتنا ہے کہ وہ اپنی جانوں، اموال و عیال کی قتل اور قید سے حفاظت کریں، چناچہ جب وہ مرجائیں گے تو ان کے ایمان کا نفع ختم ہوجائے گا اور ان کو حق تعالیٰ قبر کی ایسی سختیوں میں ڈال دے گا کہ اس کے بعد ان کو راحت و آرام نظر ہی آئے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٧ (مَثَلُھُمْ کَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْقَدَ نَارًا ج) یہاں ایک شب تاریک کا نقشہ کھینچا جا رہا ہے۔ علامہ اقبال کے الفاظ میں ؂ اندھیری شب ہے جدا اپنے قافلے سے ہے تو ترے لیے ہے مرا شعلۂ نوا قندیل ! اندھیری شب ہے۔ قافلہ بھٹک رہا ہے۔ کچھ لوگ بڑی ہمت کرتے ہیں کہ اندھیرے میں بھی ادھر ادھر سے لکڑیاں جمع کرتے ہیں اور آگ روشن کردیتے ہیں۔ لیکن عین اس وقت جب آگ روشن ہوتی ہے تو کچھ لوگوں کی بینائی سلب ہوجاتی ہے۔ پہلے وہ اندھیرے میں اس لیے تھے کہ خارج میں روشنی نہیں تھی۔ اب بھی وہ اندھیرے ہی میں رہ گئے کہ خارج میں تو روشنی آگئی مگر ان کے اندر کی روشنی گل ہوگئی ‘ ان کی بصارت سلب ہوگئی۔ یہ مثال ہے ان کفار کی جو اسلام کی روشنی پھیلنے کے باوجود اس سے محروم رہے ‘ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد سے پہلے ہر سو تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ کوئی حقیقت واضح نہیں تھی۔ قافلۂ انسانیت اندھیری شب میں بھٹک رہا تھا۔ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے اور انہوں نے آگ روشن کردی۔ اس طرح ہدایت واضح ہوگئی۔ لیکن کچھ ضد ‘ تعصب ‘ تکبرّ یا حسد کی بنیاد پر کچھ لوگوں کی اندر کی بینائی زائل ہوگئی۔ چناچہ وہ تو ویسے کے ویسے بھٹک رہے ہیں۔ جیسے پہلے اندھیرے میں تھے ویسے ہی اب بھی اندھیرے میں ہیں۔ روشنی میں آنے والے تو وہ ہیں جن کا ذکر سب سے پہلے ” المُتّقین “ کے نام سے ہوا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

16. This means that two opposite effects emerged when a true servant of God radiated the light which made it possible to distinguish true from false and right from wrong, and made the straight way distinct from the ways of error. To those endowed with true perception, all truths became evident. But those who were almost blinded by the worship of their animal desires perceived nothing. The expression, 'Allah took away the light of their perception' should not create the impression that these people were not responsible for their stumbling into darkness. Only those who do not seek the Truth, who prefer error to guidance and who are adamantly disinclined to pursue the Truth despite its luminosity, are deprived, by God, of the light of their perception. God simply enables such people to do what they wish.

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :16 مطلب یہ ہے کہ جب ایک اللہ کے بندے نے روشنی پھیلائی اور حق کو باطل سے ، صحیح کو غلط سے ، راہِ راست کو گمراہیوں سے چھانٹ کر بالکل نمایاں کر دیا ، تو جو لوگ دیدہء بینا رکھتے تھے ، ان پر تو ساری حقیقتیں روشن ہو گئیں ، مگر یہ منافق ، جو نفس پرستی میں اندھے ہو رہے تھے ، ان کو اس روشنی میں کچھ نظر نہ آیا ۔ ” اللہ نے نور بصارت سلب کر لیا“ کے الفاظ سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ ان کے تاریکی میں بھٹکنے کی ذمہ داری خود ان پر نہیں ہے ۔ اللہ نور بصیرت اسی کا سلب کرتا ہے ، جو خود حق کا طالب نہیں ہوتا ، خود ہدایت کے بجائے گمراہی کو اپنے لیے پسند کرتا ہے ، خود صداقت کا روشن چہرہ نہیں دیکھنا چاہتا ۔ جب انہوں نے نور حق سے منہ پھیر کر ظلمتِ باطل ہی میں بھٹکنا چاہا تو اللہ نے انہیں اسی کی توفیق عطا فرما دی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

15 یہاں سے ان منافقوں کی مثال دی جارہی ہے جو اسلام کے واضح دلائل سامنے آنے کے باوجود نفاق کی گمراہی میں پھنسے رہے، اسلام کے واضح دلائل کو آگ کی روشنی سے تشبیہ دی گئی ہے کہ جس طرح اس روشنی سے ماحول کی چیزیں صاف نظر آنے لگتی ہیں اسی طرح اسلام کے دلائل سے حقیقت ان پر واضح ہوگئی ؛ لیکن پھر ضد اور عناد کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ روشنی ان سے سلب کرلی اور وہ دیکھنے کی قوت سے محروم ہوگئے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

استوقد۔ ماضی، واحد مذکر غائب۔ استیقاد (استفعال) مصدر۔ اس نے آگ جلائی۔ اسی سے ہے وقود۔ ایندھن جس سے آگ جلائی جاتی ہے۔ فلما۔ فاء عطف اور ترتیب کے لئے ہے لما حرف شرط ہے اضاءت ما حولہ جملہ شرطیہ ہے اور اگلہ جملہ اس کی جزائ۔ پس جب۔ اضاء ت۔ ماضی واحد مؤنث غائب۔ ضمیر فاعل۔ نارا کی طرف راجع ہے اضاء ۃ (باب افعال) مصدر ض دء مادہ ۔ روشن کرنا یعنی جب اس نے آگ کو روشن کردیا۔ ما حولہ۔ ما۔ صلہ حولہ مضاف مضاف الیہ مل کر موصول حول ۔ اردگرد ، آس پاس۔ جو اس کے اردگرد یا آس پاس تھا۔ ہ۔ ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع الموستوقد۔ آگ جلانے والا ہے۔ موصول وصلہ مل کر اضاءت کا مفعول ہے۔ بنورھم ۔ ب حرف جار تعدیہ کا ہے۔ نورھم۔ مضاف مضاف الیہ مل کر، مجرور، جار اور مجرور مل کر متعلق فعل۔ ذھب اللہ بنورھم۔ (تو) اللہ تعالیٰ ان کی روشنی کو لے گیا۔ ان کی روشنی سلب کرلی۔ وترکہم فی ظلمت : واؤ عاطفہ ہے ترکھم فی ظلمت یہ جملہ معطوف ہے جملہ سابقہ پر۔ ھم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب فی ظلمت متعلق فعل ترک۔ اور ان کو اندھیروں میں چھوڑ دیا۔ لا یبصرون۔ مضارع منفی جمع مذکر غائب۔ ابصار۔ (افعال، مصدر، یہ جملہ حال ہے اپنے ذوالحال ھم کا۔ درآں حالیکہ وہ کچھ نہیں دیکھتے۔ فائدہ : آیت ہذا میں الذی بمعنی الذین استعمال ہوا ہے۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ اس کے بعد ذھب اللہ بنورھم میں ھم ضمیر جمع لائی گئی ہے الذی کا لفظ جمع کے معنوں میں اور جگہ بھی استعمال ہوا ہے۔ مثلاً وخضتم کالذی خاصوا (9:69) اور تم لوگ بھی گھسے جیسا وہ لوگ گھسے تھے اور والذی جآء بالصدق وصدق بہ اولئک ھم المتقون ۔ (39:33) اور جو لوگ سچی بات لے کر آئے اور (خود بھی) اس کو سچ جانا تو یہی لوگ پرہیزگار ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہجرت کر کے مدینہ تشریف لا آئے تو کچھ لوگوں نے اسلام قبول کیا اور بعد میں منا فق ہوگئے۔ ان لوگوں کے حال کی یہاں مثال بیان فرمائی کہ ایمان لا کر انہوں نے کچھ روشنی کو کھو دیا اور نفاق کے اندھیرے میں پڑگئے اور وہ تمیز بھی جاتی رہی۔ ( فتح القدیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 17 تا 18 (مثل): مثال ، تشبیہ۔ (استوقد) : اس نے بھڑکایا، جلایا ، سلگایا۔ (نار ): آگ ، جہنم ، دوزخ۔ (اضاءت ): روشن ہوگئی۔ اس جگہ ترجمہ ہوگا، ” روشن ہوگیا “ اس کی وجہ یہ ہے کہ اردو میں لفظ ” ماحول “ مذکر ہے۔ (ما حول) : ارد گرد، آس پاس۔ (ذھب): گیا، چونکہ، یہاں ذھب کے بعد ” ب “ آگئی ہے عربی قاعدہ سے اس کا ترجمہ ہوگا ” لے گیا “ ۔ (ترک): چھوڑ دیا، الگ کردیا۔ (ظلمات): اندھیریاں، اندھیرے۔ (ظلمۃ کی جمع ہے ) ۔ (لا یبصرون): وہ نہیں دیکھتے ہیں (وہ نہیں دیکھ سکتے ) ۔ (صم): بہرے ، (صم اصم کی جمع ہے ) جو سن نہ سکتے ہوں۔ (بکم ) : گونگے، (بکم ابکم کی جمع ہے ) جو دیکھ نہ سکتے ہوں۔ (عمی) : اندھے، (اعمیٰ کی جمع ہے ) جو بول نہ سکتے ہوں۔ (لا یرجعون ) : وہ نہیں لوٹیں گے۔ (رجوع کرنا۔ لوٹنا ، پلٹنا ) تشریح : آیت نمبر 17 تا 18 سورة بقرہ کی ان دو آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے قرآن پڑھنے والوں کو سمجھانے کے لئے منافقین کی ایک مثال دی ہے کہ آخرت سے بےنیاز ہو کر وقتی مفادات کے پیچھے بھاگنے والے لوگ اس شخص کی طرح ہیں جو کسی صحرا یا جنگل میں تنہا ہوں، رات ٹھنڈی اور تاریک ہو اور جس کا یہ گمان ہو کہ ساری رات اس کو اسی جگہ رہ کر بسر کرنی ہے ۔ اب وہ رات کی اذیت سے بچنے کے لئے دن بھر لکڑیاں چن چن کر جمع کرتا ہے تا کہ وہ رات کے وقت ان لکڑیوں کو جلا کر ان سے راحت حاصل کرسکے۔ عین اس وقت جب کہ آگ پوری طرح روشن ہوگئی اور اب وہ وقت آگیا ہے جب اس کو راحت اور آرام ملنے کی امید ہو سکتی تھی کہ اچانک بارش برس گئی یا کسی اور سبب سے آگ بجھ گئی، تصور کیجئے اب اس اندھیرے میں اس پر کیا کچھ نہ گزر جائے گی اور یہ رات اس کے لئے کس قدر ہیبت ناک اور اذیت ناک ہوگی۔ فرمایا جا رہا ہے کہ ان منافقین کا انجام بھی اس سے مختلف نہ ہوگا۔ یہ بھی دنیا کی دولت کے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔ دن رات مال دولت جمع کر رہے ہیں اور اصل زندگی (آخرت کی زندگی ) کی ان کو کوئی فکر نہیں ہے حالانکہ اصلی راحت کی جگہ قبر، حشر اور جنت ہے۔ فرمایا جا رہا ہے کہ وہ اپنے مفادات کے لئے آج جو کچھ بھی جمع کر رہے ہیں موت کے آتے ہیں وہ ان تمام اسباب اور راحتوں سے محروم ہوجائیں گے اور ان کی یہ دولت، عالی شان بلڈنگیں اور دنیاوی اسباب ان کے کسی کام نہ آسکیں گے اور قبر کی تاریکیاں ان کا مقدر بن جائیں گی۔ وہ وقتی فائدے جن کی بنیاد پر انہوں نے اپنے آپ کو دولت ایمان سے محروم کر رکھا ہے اور منافقت کے مرض میں مبتلا ہیں کسی کام نہ آسکیں گے۔ جب عین راحت و آرام کا وقت آئے گا تو وہ شدید کرب اور اذیت میں مبتلا ہو کر بہرے ، گونگے اور اندھوں کی طرح ہاتھ پیر ماریں گے اور ان کو اس بات کا موقع نہ مل سکے گا کہ وہ واپس لوٹ کر کوئی حسن عمل کرسکیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ منافق کے کردار کی مثال اس مثال کے ذریعے اسلام اور نفاق، منافقین اور سرور گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان فرق بیان کیا گیا ہے۔ آپ نے دن رات کی جدوجہد سے اسلام کے چہرۂ تاباں کو ایسے پیش فرمایا جس سے کفر اور اسلام، گمراہی اور ہدایت کے درمیان اس طرح امتیاز پیدا ہوا جس طرح روشنی اور اندھیرے کے درمیان فرق ہوا کرتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود منافقوں کے لیے ان کے کفر و نفاق کی تاریکیاں اسلام کی روشن تعلیمات اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی درخشاں سیرت کے درمیان حائل ہوگئیں یہ سب کچھ اس طرح ہوا جیسے ایک آدمی نے آگ جلا کر گھٹا ٹوپ راستے کو منور کردیا ہو۔ تاکہ اس راستے پر چلنے والے کو نشیب و فراز کا پتہ چل جائے۔ جونہی مسافر اس راستے پر چلنے کے لیے آمادہ ہوا تو اس کے خبث باطن کی وجہ سے اچانک راستہ خطرناک اندھیروں میں چھپ گیا۔ ذرا سوچیے اس مسافر کی کیا حالت ہوگی ؟ بالکل یہی کیفیت منافقوں کے ساتھ پیش آئی کہ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اور آپ کی تعلیمات کو سچ جاننے کے باوجود ان کا کفرو نفاق اور دنیاوی مفاد اس طرح حائل ہوا کہ اسلام کا راستہ روشن ہونے کے باوجود ان کو تاریک نظر آیا۔ اس کی وجہ ان کی منافقت اور گھناؤنا کردار تھا۔ جس بنا پر اللہ تعالیٰ نے انہیں اندھیروں میں چھوڑ دیا۔ اب صراط مستقیم کو دیکھنا اور اس پر چلنا ان کے بس کی بات نہیں کیونکہ اندھیروں میں کوئی چیز دکھائی نہیں دیا کرتی۔ یاد رہے کہ روشنی یعنی ہدایت ایک ہی ہے لیکن کفروضلالت کے اندھیرے کئی قسم کے ہوتے ہیں اس لیے اندھیرے کے لیے جمع کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ منافق کا محشر کے دن حال : قرآن مجید نے دوسرے مقام پر اس کی یوں وضاحت فرمائی ہے کہ جن لوگوں نے دنیا میں نور ہدایت سے منہ موڑ لیا۔ ان کا محشر میں اس طرح حشر ہوگا کہ (یَوْمَ یَقُوْلُ الْمُنَافِقُوْنَ وَالْمُنَافِقَاتُ لِلَّذِیْنَ آَمَنُوْا انْظُرُوْنَا نَقْتَبِسْ مِنْ نُوْرِکُمْ قِیْلَ ارْجِعُوْا وَرَاءَ کُمْ فَالْتَمِسُوْا نُوْرًا فَضُرِبَ بَیْنَہُمْ بِسُورٍ لَہُ بَابٌ بَاطِنُہُ فِیْہِ الرَّحْمَۃُ وَظَاہِرُہُ مِنْ قِبَلِہِ الْعَذَابُ ) (الحدید : ١٣) ” اس دن منافق مرد اور منافق عورتیں مومنوں سے کہیں گے کہ ہماری طرف دیکھو ہم بھی تمہارے نور سے روشنی حاصل کریں۔ تو ان سے کہا جائے گا کہ پیچھے کو لوٹ جاؤ اور وہاں نور تلاش کرو۔ پھر ان کے بیچ میں ایک دیوار کھڑی کردی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہوگا اس کی اندرونی جانب تو رحمت ہے اور بیرونی جانب عذاب۔ “ (عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَثَلِیْ کَمَثَلِ رَجُلٍ اسْتَوْقَدَ نَاراً فَلَمَّا اَضَآءَ تْ مَا حَوْلَھَا جَعَلَ الْفِرَاشُ وَھٰذِہِ الدَّوَآبُّ الَّتِی تَقَعُ فِی النَّارِ یَقَعْنَ فِیْھَا وَجَعَلَ یَحْجُزُھُنَّ وَیَغْلِبْنَہٗ فَیَتَقَحَّمْنَ فِیْھَا فَاَنَا اٰخِذٌ بِحُجَزِکُمْ عَنِ النَّارِ وَأَ نْتُمْ تَقَحَّمُوْنَ فِیْھَا ھٰذِہٖ رِوَایَۃُ الْبُخَارِیِّ وَلِمُسْلِمٍ نَحْوُھَا وَقَالَ فِیْ اٰخِرِھَا قَالَ فَذَالِکَ مَثَلِیْ وَمَثَلُکُمْ اَنَا اٰخِذٌ بِحُجَزِکُمْ عَنِ النَّارِ ہَلُّمَ عَنِ النَّارِ ھَلُمَّ عَنِ النَّارِ فَتَغْلِبُوْنِیْ تَقَحَّمُوْنَ فِیْھَا) (رواہ البخاری : کتاب الرقاق، رواہ مسلم : کتاب الفضائل) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میری مثال آگ روشن کرنے والے شخص کی طرح ہے۔ جب آگ سے اس کا آس پاس روشن ہوگیا تو پروانے اس میں گرنے لگے۔ آگ جلانے والے نے انہیں بچانے کی سر توڑ کوشش کی لیکن وہ اس سے بےقابو ہو کر گرتے رہے۔ بس میں تمہیں آگ سے بچانے کے لیے پیچھے سے پکڑتا ہوں لیکن تم ہو کہ اس میں گرتے جا رہے ہو۔ یہ بخاری کے الفاظ ہیں اور مسلم میں اس طرح ہے کہ میری اور تمہاری مثال ایسے ہے کہ میں تمہیں پیچھے سے پکڑ کر آگ سے بچانے کی کوشش کرتے ہوئے کہہ رہا ہوں کہ میری طرف آؤ اور آگ سے بچو، لوگو ! آگ کی بجائے میری طرف آؤ۔ لیکن تم مجھ سے بےقابو ہو کر آگ میں گرے جا رہے ہو۔ “ مسائل ١۔ اسلام ایک روشنی ہے۔ ٢۔ نفاق اور کفر اندھیرے ہیں۔ ٣۔ نور ایمان کے بغیر ہدایت نصیب نہیں ہوتی۔ تفسیر بالقرآن دین ایک روشنی ہے : ١۔ اسلام ایک روشنی ہے۔ (الصف : ٧) ٢۔ ایمان اور دین نور ہے۔ (التغابن : ٨) ٣۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) روشنی کی دعوت دیتے تھے۔ (ابراہیم : ٥) ٤۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت روشنی اور نور ہے۔ (ابراہیم : ١) ٥۔ اللہ تعالیٰ مومنوں کو کفر کے اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے۔ (البقرۃ : ٢٥٧) ٦۔ اللہ تعالیٰ کی ذات زمین و آسمان کا نور ہے (النور : ٣٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

چناچہ مزید وضاحت کی خاطر قرآن کریم مثالیں دے کر اس گروہ کی نفسیات ، اس کے مزاج کے تلون ، اس کی بےثباتی اور قلابازیوں کی مزید نشان دہی کرتا ہے کہ ایسے افراد کے خدوخال نکھر کر ہمارے سامنے آجائیں ۔ مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهُ ذَهَبَ اللَّهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَكَهُمْ فِي ظُلُمَاتٍ لا يُبْصِرُونَ ” ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے آگ روشن کی اور جب سارا ماحول چمک اٹھا تو اللہ نے ان کا نور بصارت سلب کرلیا اور انہیں اس حال میں چھوڑ دیا کہ تاریکیوں میں انہیں کچھ نظر نہیں آتا ۔ یہ بہرے ہیں ، گونگے ہیں ، اندھے ہیں ، اسی لئے یہ اب نہ پلٹیں گے ۔ “ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء میں ان کا رویہ ایسا نہ تھا کہ انہوں نے ہدایت سے اعراض کیا ہو ، یا اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لی ہوں ، آنکھیں بند کرلی ہوں اور نہ یہ صورت تھی کہ انہوں نے اس تحریک کے مطالعے سے انکار کیا ہو ، جیسا کہ کفار نے کیا لیکن بعد میں انہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی کو پسند کرلیا اور یہ فیصلہ انہوں نے سوچ سمجھ کر غور وخوض کے بعد کیا ۔ انہوں نے آگ جلائی ۔ اس نے ان کے ماحول کو روشن بھی کیا لیکن انہوں نے اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا حالانکہ وہ روشنی کے متلاشی تھے۔ جب ان لوگوں نے اپنی مطلوب روشنی کو پاکر بھی اس منہ موڑا تو اللہ نے ان کے اس رویے کی وجہ سے ان کا نور بصارت ہی سلب کرلیا اور انہیں اس حال میں چھوڑدیا کہ تاریکی میں بھٹکتے پھریں کیونکہ انہوں نے عین اس چیز سے منہ موڑا جس کے وہ طالب تھے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

منافقوں کے بارے میں دو اہم مثالیں منافقوں نے ظاہری طور پر اسلام قبول کرلیا اور دل میں ان کے ایمان نہ تھا ظاہری ایمان قبول کرنے سے جو کچھ انہیں دنیاوی فائدہ پہنچ گیا مثلاً جان و مال محفوظ کرلیا کہ مسلمان ان سے تعرض نہ کریں اس کو اولاً ایسے شخص سے تشبیہ دی جو اندھیری رات میں آگ جلائے اور اس روشنی سے راستہ دیکھنے کا فائدہ حاصل کرنا چاہے، اور ان لوگوں کا جو انجام ہونے والا ہے کہ مرتے ہی سخت عذاب میں مبتلا ہوں گے، اس کو اس آگ کے بجھانے سے تشبیہ دی جس کو انہوں نے روشنی کے لئے جلایا تھا، دنیا میں جھوٹے منہ سے ایمان ظاہر کر کے ذرا سا فائدہ اٹھا لیا اور ہمیشہ کے لیے عذاب الیم میں گرفتار ہوئے، جیسے کوئی شخص اندھیری رات میں آگ جلائے اور روشنی ہوجائے تو وہ روشنی اللہ تعالیٰ شانہٗ ختم فرما دے اور یہ آگ جلانے والا اندھیروں میں حیران کھڑا رہ جائے نہ کچھ دیکھ سکے نہ بوجھ سکے، منافقوں نے اپنے طور پر بڑی ہوشیاری کی کہ ایمان ظاہر کر کے دنیا کا کچھ فائدہ اٹھا لیا لیکن دل میں جو کفر گھسا ہوا ہے اس کی وجہ سے موت کے بعد جن مصیبتوں میں گرفتار ہوں گے اس کو نہ سوچا اور کفر میں بڑھتے بڑھتے اس درجے پر پہنچ گئے کہ بہرے بھی ہیں حق سننے کے قابل نہ رہے اور گونگے بھی ہیں جن کے منہ سے کلمہ حق ادا نہیں ہوسکتا اور اندھے بھی ہیں جو راہ حق نہیں دیکھ سکتے۔ اپنا نفع نقصان جاننے اور سمجھنے سے غافل ہیں۔ ان کے بارے میں اب نہ سوچا جائے کہ وہ حق کی طرف رجوع کریں گے اور دل سے مسلمان ہوں گے۔ (ذکر ابن کثیر فی شرح المثل عدۃ اقوال و قد اختر نا ما نقلہ عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ قال ھذا مثل ضربہ اللّٰہ للمنافقین انھم کانوا یعتزون بالاسلام فیناکحھم المسلمون ویوارثونھم و یقاسمونھم الفئ فلما ماتوا سلبھم اللّٰہ ذلک العزکما سلب صاحب النار ضوء ہ۔ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

35 ۔ عام مفسرین کی رائے مطابق اب یہاں سے منافقوں کی دو مثالیں بیان کی جارہی ہیں۔ پہلی مثال مَتلُھُم سے لے کر لَایَرْجِعُوْن تک اور دوسری ۙاَوْ كَصَيِّبٍ سے لیکر آخر رکوع تک۔ 36 ۔ آگے چل کر ان آگ جلانے والوں کے لیے جمع کی ضمیر ذکر کی گئی ہے۔ اس لیے یہاں الذی معنی جمع ہے۔ اسْـتَوْقَدَ اور حَوْلَہٗ میں لفظ کے لحاظ سے ضمیر واحد استعمال کی گئی ہے اور جمع کی ضمیروں میں معنی کا لحاظ کیا گیا ہے۔ 37 ۔ یہ ما قبل کی تفسیر ہے یعنی جب آگ کی وجہ سے چاروں طرف روشنی ہوگئی تو اچانک آگ بجھ گئی اور وہ روشنی ان سے سلب کرلی گئی اور وہ گھٹا ٹوپ اندھیروں میں چھوڑ دئیے گئے اور انہیں کچھ نظر نہیں آتا۔ اس تمثیل میں منافقین کے زبانی اقرار ایمان کو آگ جلانے سے تعبیر کیا گیا ہے اور اظہار اسلام کے بعد بطور مسلمان جو فوائد انہیں حاصل ہوئے اسے ماحول کی روشنی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اور روشنی سلب کرلینے سے مراد یہ ہے کہ اللہ نے ان کا نفاق نیص (علیہ السلام) پر ظاہر کر کے انہیں ان فوائد سے محروم کردیا اور انہیں پھر سے کفر وضلالت کی تاریکیوں میں چھوڑ دیا (کبیر ص 294 ج 1) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi