Perfect Tense | Imperfect Tense | Imperative | Active Participle | Passive Participle | Noun Form |
حَالَ |
يَحُوْلُ |
حُلْ |
حَائِل |
مَحِيْل |
حَول/حَيْلُوْلَة |
الْحَوْلُ: (ن) دراصل اس کے معنیٰ کسی چیز کے متغیر ہونے اور دوسری چیزوں سے الگ ہونا کے ہیں۔ معنیٰ تغییر کے اعتبار سے حَالَ الشَّیْئُ یَحُوْلُ حُوُوْلًا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنیٰ کسی شے کے متغیر ہونے کے ہیں۔ اور استحالَ کے معنیٰ تغیر پذیر ہونے کے لئے مستعد ہونے کے اور معنیٰ انفصال کے اعتبار سے حالَ بَیْنِی وَبَینکَ کَذَا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے۔ یعنی میرے اور اس کے درمیان فاں چیز حائل ہوگئی۔ اور آیت کریمہ: (اَنَّ اللّٰہَ یَحُوۡلُ بَیۡنَ الۡمَرۡءِ وَ قَلۡبِہٖ ) (۸:۲۴) اور جان رکھو! کہ خدا آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے۔ میں باری تعالیٰ کے مقلب القلوب ہونے کی طرف اشارہ ہے یعنی اﷲ تعالیٰ اپنی حکت کے تقاضوں کے مطابق انسان کے دل میں ایسی بات ڈال دیتا ہے جو اسے اس کے مقصد سے پھیر دیتی ہے۔ چنانچہ آیت کریمہ: (وَ حِیۡلَ بَیۡنَہُمۡ وَ بَیۡنَ مَا یَشۡتَہُوۡنَ ) (۳۴:۵۴) (ان میں اور ان کی خواہش کی چیزوں کے درمیان پردہ حائل کردیا گیا) بھی اسی معنیٰ پر محمول ہے۔ بعض نے آیت (یَحُوْلُ بَیْنَ الْمَرئِ وَقَلْبِہٖ) کے یہ معنیٰ بیان کئے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ انسان کو مہلت دے رکھتا ہے۔ تاکہ وہ ارزل عمر کی حد تک پہنچ جائے اور جاننے کے بعد کسی چیز کو بھی نہ جان سکے۔ حَوَّلْتُ الشَّیْئَ: کسی چیز کو متغیر کرنا اور پھیر دینا۔ اور یہ تغیر کبھی باعتبار ذات کے ہوتا ہے اور کبھی باعتبار حکم اور قول ہے۔ اسی سے کہا جاتا ہے۔ أَحَلْتُ عَلٰی فُلَانٍ بِالدَّیْنِ: میں نے فلاں پر قرض کا حوالہ کردیا۔ حَوَّلْتُ الْکِتَابَ: کتاب کو نقل کرنا۔ مثل مشہور ہے (1) لَو کَانَ ذا حِیْلَۃٍ لَتَحوَّلَ: اگر صاحب تدبیر ہوتا تو پھر جاتا اور آیت کریمہ: (لَا یَبۡغُوۡنَ عَنۡہَا حِوَلًا) (۱۸:۱۰۸) اور وہاں سے مکان بدلنا نہ چاہیں گے۔ میں حِوَالاً کے معنیٰ تَحَوَّل یعنی پھرنے کے ہیں۔ اَلْحَوْلُ: سال کو کہتے ہیں اس لئے کہ سال بھر میں سورج اپنی گردش پوری کرلیتا ہے۔ قرآن پاک میں ہے: (وَ الۡوَالِدٰتُ یُرۡضِعۡنَ اَوۡلَادَہُنَّ حَوۡلَیۡنِ کَامِلَیۡنِ ) (۲:۲۳۳) اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں۔ (مَّتَاعًا اِلَی الۡحَوۡلِ غَیۡرَ اِخۡرَاجٍ ) (۲:۲۴۰) کہ ا نکو ایک سال تک خرچ دیا جائے اور گھر سے نہ نکالی جائیں۔ اسی سے حَالَتِ السَنَۃُ تحُوْل کا محاورہ ہے جس کے معنیٰ ہیں سال گزر گیا۔ حَالَتِ الدَّارُ گھ رکی حالت متغیر ہوگئی۔ اَحَالَتْ وَاَحْوَلَتْ: اس پر ایک سال پورا ہوگیا۔ جیساکہ اَعَامَتْ وَاَشْھَرَتْ کا محاورہ ہے۔ اَحَالَ فُلَانٌ بِمَکَانٍ کَذَا: وہ فلاں جگہ پورا ایک سال رہا۔ حَالَتِ النَّاقَۃُ تحُوْلُ حِیَالاً اونٹنی کا حاملہ نہ ہونا۔ گویا اس کی پہلی حالت متغیر ہوگئی۔ اَلْحال: انسان وغیرہ کی وہ حالت جو نفس جسم اور مال کے اعتبار سے بدلتی رہتی ہے اور حَولْل کا لفظ مالی، بدنی، اور جسمانی تینوں قسم کی قوت پر بولا جاتا ہے اسی سے کہا جاتا ہے۔ لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاﷲِ: اﷲ کے سوا کچھ حیلہ اور قوت نہیں ہے۔ حَوْلُ الشَّیئِ: کسی چیز کی وہ جانب جس کی طرف اسے پھیرنا ممکن ہو، حَول کہلاتا ہے۔ قرآن پاک میں ہے: (اَلَّذِیۡنَ یَحۡمِلُوۡنَ الۡعَرۡشَ وَ مَنۡ حَوۡلَہٗ ) (۴۰:۷) اور جو لوگ عرش کو اٹھائے ہوئے اور جو اس کے گرداگرد (حلقہ باندھے ہوئے) ہیں۔ اَلْحِیْلَۃُ وَالحُوَیْلَۃُ: اس تدبیر کو کہتے ہیں جس سے کسی چیز تک پوشیدہ طور سے پہنچا جاسکے۔ عام طور پر اس کا استعمال بری تدبیر کے لئے ہوتا ہے لیکن کبھی ایسی تدبیر کے متعلق بھی ہوتا ہے جس میں حکمت اور مصلحت ہوتی ہے اسی معنیٰ میں اﷲ تعالیٰ کے وصف میں: (وَ ہُوَ شَدِیۡدُ الۡمِحَالِ ) (۱۳:۱۳) آیا ہے یعنی باری تعالیٰ خفیہ سے اس کام کو سرانجام دیتا ہے جس میں حکمت اور مصلحت ہوتی ہے اور اسی معنیٰ میں اﷲ تعالیٰ کو مکروکید کے ساتھ متصف کیا جاتا ہے۔ نہ کہ بطور مذمت کے اﷲ تعالیٰ تو ہر قبح سے پاک اور بالا ہے اور حِیلۃٌ بھی حَول سے مشتق ہے۔ واؤ کا ماقبل مکسور ہونے کی وجہ سے اسے یاء سے تبدیل کردیا گیا ہے اور اسی سے رَجُلٌ حَول کا محاورہ ہے یعنی بہت چالاک اور ہوشیار ہے۔ اَلْمَحَالُ کے معنی ہیں دو متناقض چیزوں کا ایک جگہ جمع ہونا یہ کبھی قول میں ہوتا ہے جیسے کہا جائے ایک جسم دو جگہوں میں ایک ہی حالت میں پایا جاتا ہے۔ اِسْتَحَالَ الشَّیْئُ: کسی چیز کا محال ہونا اور اس چیز کو مفستَحِیلٌ کہا جاتا ہے یعنی محال ہونے لگی۔ اَلْحِوَالَائُ: یعنی سبز سی جھلی جو اونٹنی کے پیٹ سے بچے کے ساتھ نکلتی ہے۔ مثل مشہور ہے (2) وَلَا اَفْعَلُ کَذَا مَا اَرْزَمَتْ اُمُّ حَائِل: جب تک کہ اونٹنی آواز نکالتی رہے، میں اس کام کو نہیں کروں گا اور ام حائل اس شتر بچہ مادینہ کو کہتے ہیں جو ابھی پیٹ سے باہر آیا ہو اور اس میں شبہ نہ رہا ہو کہ یہ مادہ ہے حالت اشتباہ کے دور ہونے کی وجہ سے اسے ام حائل کہا جاتا ہے اور اس کے مقابلے میں مذکر کو سقب کہا جاتا ہے۔ اَلْحال: لغت میں اس صفت کو کہتے ہیں جس کے ساتھ کوئی چیز موصوف ہوتی ہے اور اہل منطق کی اصطلاح میں سریع الزوال کیفیت کو حالت کہا جاتا ہے۔ جیسے حرارت برودت، یبوست اور رطوبت جو کسی چیز کو عارض ہوتی ہے۔
Surah:2Verse:17 |
ماحول
his surroundings
|
|
Surah:2Verse:233 |
دو سال
(for) two years
|
|
Surah:2Verse:240 |
ایک سال
the year
|
|
Surah:3Verse:159 |
تیرے آس پاس
around you
|
|
Surah:6Verse:92 |
اس کے اردگرد ہیں
(are) around it
|
|
Surah:9Verse:101 |
تمہارے آس پاس ہیں
around you
|
|
Surah:9Verse:120 |
ان کے آس پاس تھے
were around them
|
|
Surah:17Verse:1 |
اس کے آس پاس کو
its surroundings
|
|
Surah:19Verse:68 |
آس پاس
around
|
|
Surah:26Verse:25 |
اس کے آس پاس تھے
around him
|