Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 25

سورة البقرة

وَ بَشِّرِ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ؕ کُلَّمَا رُزِقُوۡا مِنۡہَا مِنۡ ثَمَرَۃٍ رِّزۡقًا ۙ قَالُوۡا ہٰذَا الَّذِیۡ رُزِقۡنَا مِنۡ قَبۡلُ ۙ وَ اُتُوۡا بِہٖ مُتَشَابِہًا ؕ وَ لَہُمۡ فِیۡہَاۤ اَزۡوَاجٌ مُّطَہَّرَۃٌ ٭ۙ وَّ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ ﴿۲۵﴾

And give good tidings to those who believe and do righteous deeds that they will have gardens [in Paradise] beneath which rivers flow. Whenever they are provided with a provision of fruit therefrom, they will say, "This is what we were provided with before." And it is given to them in likeness. And they will have therein purified spouses, and they will abide therein eternally.

اور ایمان والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو ان جنتوں کی خوشخبریاں دو جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ۔ جب کبھی وہ پھلوں کا رزق دئیے جائیں گے اور ہم شکل لائے جائیں گے تو کہیں گے یہ وہی ہے جو ہم اس سے پہلے دئیے گئے تھے اور ان کے لئے بیویاں ہیں صاف ستھری اور وہ ان جنتوں میں ہمیشہ رہنے والے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Rewards of Righteous Believers After mentioning the torment that Allah has prepared for His miserable enemies who disbelieve in Him and in His Messengers, He mentions the condition of His happy, loyal friends who believe in Him and in His Messengers, adhere to the faith and perform the good deeds. This is the reason why the Qur'an was called Mathani, based on the correct opinion of the scholars. We will elaborate upon this subject later. Mathani means to mention faith and then disbelief, or vice versa. Or, Allah mentions the miserable and then the happy, or vice versa. As for mentioning similar things, it is called Tashabbuh, as we will come to know, Allah willing. Allah said, وَبَشِّرِ الَّذِين امَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الاَنْهَارُ ... And give glad tidings to those who believe and do righteous good deeds, that for them will be Gardens under which rivers flow (Paradise), Consequently, Allah stated that Paradise has rivers that run beneath it, meaning, underneath its trees and rooms. From Hadiths it is learned that the rivers of Paradise do not run in valleys, and that the banks of Al-Kawthar (the Prophet's lake in Paradise) are made of domes of hollow pearls, the sand of Paradise is made of scented musk while its stones are made from pearls and jewels. We ask Allah to grant Paradise to us, for verily, He is the Most Beneficent, Most Gracious. Ibn Abi Hatim reported that Abu Hurayrah said that the Messenger of Allah said, أَنْهَارُ الْجَنَّةِ تَفَجَّرُ تَحْتَ تِلَلٍ أَوْ مِنْ تَحْتِ جِبَالِ الْمِسْ The rivers of Paradise spring from beneath hills, or mountains of musk. He also reported from Masruq that Abdullah said, "The rivers of Paradise spring from beneath mountains of musk." The similarity between the Fruits of Paradise Allah said next, ... كُلَّمَا رُزِقُواْ مِنْهَا مِن ثَمَرَةٍ رِّزْقاً قَالُواْ هَـذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِن قَبْلُ ... Every time they will be provided with a fruit therefrom, they will say: "This is what we were provided with before". Ibn Abi Hatim reported that Yahya bin Abi Kathir said, "The grass of Paradise is made of saffron, its hills from musk and the boys of everlasting youth will serve the believers with fruits which they will eat. They will then be brought similar fruits, and the people of Paradise will comment, `This is the same as what you have just brought us.' The boys will say to them, `Eat, for the color is the same, but the taste is different. Hence Allah's statement, ... وَأُتُواْ بِهِ مُتَشَابِهاً ... and they will be given things in resemblance." Abu Jafar Ar-Razi narrated that Ar-Rabi bin Anas said that Abu Al-Aliyah said that, وَأُتُواْ بِهِ مُتَشَابِهاً (and they will be given things in resemblance) means, "They look like each other, but the taste is different." Also, Ikrimah said, وَأُتُواْ بِهِ مُتَشَابِهاً (and they will be given things in resemblance), "They are similar to the fruits of this life, but the fruits of Paradise taste better." Sufyan Ath-Thawri reported from Al-Amash, from Abu Thubyan, that Ibn Abbas said, "Nothing in Paradise resembles anything in the life of this world, except in name." In another narration, Ibn Abbas said, "Only the names are similar between what is in this life and what is in Paradise." The Wives of the People of Paradise are Pure Allah said, ... وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ ... and they shall have therein Azwajun Mutahharatun, Ibn Abi Talhah reported that Ibn Abbas said, "Purified from filth and impurity." Also, Mujahid said, "From menstruation, relieving the call of nature, urine, spit, semen and pregnancies." Also, Qatadah said, "Purified from impurity and sin." In another narration, he said, "From menstruation and pregnancies." Further, Ata, Al-Hasan, Ad-Dahhak, Abu Salih, Atiyah and As-Suddi were reported to have said similarly. Allah's statement, ... وَهُمْ فِيهَا خَالِدُون and they will abide therein forever. meaning ultimate happiness, for the believers will enjoy everlasting delight, safe from death and disruption of their bliss, for it never ends or ceases. We ask Allah to make us among these believers, for He is the Most Generous, Most Kind and Most merciful.

اعمال وجہ بشارت چونکہ پہلے کافروں اور دشمنان دین کی سزا عذاب اور رسوائی کا ذکر ہوا تھا اس لئے یہاں ایمانداروں اور نیک صالح لوگوں کی جزا ثواب اور سرخروئی کا بیان کیا گیا ہے ۔ قرآن کے مثانی ہونے کے ایک معنی یہ بھی ہیں جو صحیح تر قول بھی ہے کہ اس میں ہر مضمون تقابلی جائزہ کے ساتھ ہوا ہے اس کا مفصل بیان بھی کسی مناسب جگہ آئے گا مطلب یہ ہے کہ ایمان کے ساتھ ہی کفر کا ۔ کفر کے ساتھ ایمان کا ۔ نیکوں کے ساتھ بدوں کا ۔ اور بدوں کے ساتھ نیکوں کا ذکر ضرور آتا ہے جس چیز کا بیان ہوتا ہے اس کے مقابلہ کی چیز کا بھی ذکر کر دیا جاتا ہے چاہے معنی میں متشابہ ہوں ، یہ دونوں لفظ قرآن کے اوصاف میں وارد ہوئے ہیں اسے مثانی بھی کہا گیا ہے اور متشابہ بھی فرمایا گیا ہے ۔ جنتوں میں نہریں بہنا اس کے درختوں اور بالاخانوں کے نیچے بہنا ہے حدیث شریف میں ہے کہ نہریں بہتی ہیں لیکن گڑھا نہیں اور حدیث میں ہے کہ نہر کوثر کے دونوں کنارے سچے موتیوں کے قبے ہیں اس کی مٹی مشک خالص ہے اور اس کی کنکریاں لولو اور جواہر ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ہمیں بھی یہ نعمتیں عطا فرمائے وہ احسان کرنے والا بڑا رحیم ہے حدیث میں ہے جنت کی نہریں مشکی پہاڑوں کے نیچے سے جاری ہوتی ہیں ۔ ( ابن ابی حاتم ) حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی یہ مروی ہے جنتیوں کا یہ قول کہ پہلے بھی ہم کو یہ میوے دئے گئے تھے اس سے مراد یہ ہے کہ دنیا میں بھی یہ میوے ہمیں ملے تھے صحابہ اور ابن جریر نے بھی اس کی تائید کی ہے بعض کہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ہم اس سے پہلے یعنی سابقہ کل بھی یہی تھے صحابہ اور ابن جریر نے بھی اس کی تائید کی ہے بعض کہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ہم اس سے پہلے یعنی سابقہ کل بھی یہی تھے صحابہ اور ابن جریر نے بھی اس کی تائید کی ہے بعض کہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ہم اس سے پہلے یعنی سابقہ کل بھی یہی دئیے گئے تھے یہ اس لئے کہیں گے کہ ظاہری صورت و شکل میں وہ بالکل مشابہ ہوں گے ۔ یحییٰ بن کثیر کہتے ہیں کہ ایک پیالہ آئے گا کھائیں گے پھر دوسرا آئے گا تو کہیں گے یہ تو ابھی کھایا ہے فرشتے کہیں گے کھائیے تو اگرچہ صورت شکل میں یکساں ہیں لیکن مزہ اور ہے ۔ فرماتے ہیں جنت کی گھاس زعفران ہے اس کے ٹیلے مشک کے ہیں ۔ چھوٹے چھوٹے خوبصورت غلمان ادھر ادھر سے میوے لا لا کر پیش کر رہے ہیں وہ کھا رہے ہیں وہ پھر پیش کرتے ہیں تو یہ کہتے ہیں اسے تو ابھی کھایا ہے وہ جواب دیتے ہیں حضرت رنگ روپ ایک ہے لیکن ذائقہ اور ہی ہے چکھ کر دیکھئے کھاتے ہیں تو اور ہی لطف پاتے ہیں یہی معنی ہیں کہ ہم شکل لائیں جائیں گے ۔ دنیا کے میووں سے بھی اور نام شکل اور صورت میں بھی ملتے جلتے ہوں گے لیکن مزہ کچھ دوسرا ہی ہو گا ۔ حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ صرف نام میں مشابہت ہے ورنہ کہاں یہاں کی چیز کہاں وہاں کی؟ یہاں تو فقط نام ہی ہے عبدالرحمن کا قول ہے دنیا کے پھلوں جیسے پھل دیکھ کر کہیہ دیں گے کہ یہ تو دنیا میں کھا چکے ہیں مگر جب چکھیں گے تو لذت کچھ اور ہی ہو گی ۔ وہاں جو بیویاں انہیں ملیں گی وہ گندگی ناپاکی حیض و نفاس پیشاب ، پاخانہ ، تھوک ، رینٹ ، منی وغیرہ سے پاک صاف ہوں گی حضرت حوا علیہما السلام بھی حیض سے پاک تھیں لیکن نافرمانی سرزد ہوتے ہی یہ بلا آ گئی یہ قول سنداً غریب ہے ایک غریب مرفوع حدیث میں ہے کہ حیض پاخانہ تھوک رینٹ سے وہ پاک ہیں ۔ اس حدیث کے راوی عبدالرزاق بن عمر یزیعی ہیں مستدرک حاکم میں بیان کیا جنہیں ابو حاتم البستی نے احتجاج کے قابل نہیں سمجھا ۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مرفوع حدیث نہیں بلکہ حضرت قتادہ کا قول ہے واللہ اعلم ۔ ان تمام نعمتوں کے ساتھ اس زبردست نعمت کو دیکھئے کہ نہ یہ نعمتیں فنا ہوں ۔ نہ نعمتوں والے فنا ہوں نہ نعمتیں ان سے چھنیں نہ یہ نعمتوں سے الگ کئے جائیں ۔ نہ موت ہے نہ خاتمہ ہے نہ آخر ہے نہ ٹوٹنا اور کم ہونا ہے اللہ رب العالمین جواد و کریم برورحیم سے التجا ہے کہ وہ مالک ہمیں بھی اہل جنت کے زمرے میں شامل کرے اور انہیں کے ساتھ ہمارا حشر کرے ۔ آمین ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

25۔ 1 قرآن کریم نے ہر جگہ ایمان کے ساتھ عمل صالح کا تذکرہ فرما کر اس بات کو واضح کردیا کہ ایمان اور عمل صالح ان دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ عمل صالح کے بغیر ایمان کا ثمر اور نہیں مل سکتا اور ایمان کے بغیر اعمال خیر کی عند اللہ کی کوئی اہمیت نہیں۔ اور عمل صالح کیا، جو سنت کے مطابق ہو اور خالص رضائے الٰہی کی نیت سے کیا جائے۔ خلاف سنت عمل بھی نامقبول اور نمود و نمائش اور ریاکاری کے لئے کئے گئے عمل بھی مردود و مطرود ہیں۔ 25۔ 2 مُتشَابِھَا کا مطلب یا تو جنت کے تمام میووں کا آپس میں ہم شکل ہونا ہے یا دنیا کے میووں کے ہم شکل ہونا ہے۔ تاہم یہ مشابہت صرف شکل یا نام کی حد تک ہی ہوگی ورنہ جنت کے میووں کے مزے اور ذائقے سے دنیا کے میووں کی کوئی نسبت ہی نہیں ہے۔ جنت کی نعمتوں کی بابت حدیث میں ہے نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا (دیکھنا اور سننا تو کجا) کسی انسان کے دل میں ان کا گمان بھی نہیں گزرا۔ 25۔ 3 یعنی حیض و نفاس اور دیگر آلائشوں سے پاک ہوں گی۔ 25۔ 4 خُلُودُ کے معنی ہمیشگی کے ہیں۔ اہل جنت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جنت میں رہیں گے اور خوش رہیں گے اور اہل دوزخ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہیں گے اور مبتلائے عذاب رہیں گے۔ حدیث میں ہے جنت اور جہنم میں جانے کے بعد ایک فرشتہ اعلان کرے گا اے جہنمیو ! اب موت نہیں ہے اے جنتیو اب موت نہیں ہے۔ جو فریق جس حالت میں ہے اسی حالت میں ہمیشہ رہے گا (صحیح مسلم)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٠] قرآن کریم میں آپ اکثر یہ بات ملاحظہ کریں گے کہ جہاں کہیں کفار اور ان کی وعید کا ذکر آتا ہے وہاں ساتھ ہی مومنوں اور ان کی جزا کا ذکر بھی ساتھ ہی کردیا جاتا ہے اور اس کے برعکس بھی یہی صورت ہوتی ہے، کیونکہ انسان کی ہدایت کے لیے ترغیب اور ترہیب دونوں باتیں ضروری ہیں۔ [٣١] یعنی شکل و صورت دیکھ کر وہ یہ تو کہہ دیں گے کہ یہ آم ہے یا انگور یا انار ہے مگر ان کا ذائقہ بالکل الگ اور اعلیٰ درجہ کا ہوگا اور ان کا سائز بھی دنیا کے پھلوں کی نسبت بہت بڑا ہوگا۔ [٣٢] جنتی لوگ سب کے سب خواہ مرد ہوں یا عورتیں، بول و براز اور رینٹ وغیرہ نیز اخلاق رذیلہ سے پاک صاف ہوں گے اور ان کی بیویاں حیض و نفاس کی نجاستوں سے بھی پاک و صاف ہوں گی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

کفار کو آگ سے ڈرانے کے بعد اب ایمان لانے پر جنت کی بشارت دی جا رہی ہے۔ قرآن مجید میں عموماً یہ دونوں چیزیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ ابن کثیر (رض) نے فرمایا : (كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ ) [ الزمر : ٢٣ ] میں صحیح ترین قول کے مطابق ” مَّثَانِی “ سے مراد یہ ہے کہ کسی چیز کے ساتھ اس کا مقابل بھی مذکور ہو، مثلاً ایمان کے ساتھ کفر، جنت کے ساتھ جہنم کا ذکر ہو۔ ایمان دل سے تصدیق، زبان سے اقرار اور اس کے مطابق عمل کا نام ہے، یہاں ایمان پر عمل صالح کے عطف کا یہ مطلب نہیں کہ یہ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں، بلکہ ایمان کے بعد عمل صالح کا ذکر خاص طور پر اس لیے کیا گیا ہے کہ عموماً اس میں کوتاہی کی جاتی ہے، حالانکہ عمل سے خالی ایمان کافی نہیں۔ اگر عطف ہی کی وجہ سے دونوں کو ایک دوسرے سے الگ سمجھا جائے تو سورة عصر کی آیت : ( اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بالْحَقِّ ڏ وَتَوَاصَوْا بالصَّبْرِ ) میں مذکور چاروں چیزیں ایک دوسرے سے الگ ماننا پڑیں گی۔ تفصیل کے لیے سورة عصر کی تفسیر دیکھیں۔ عمل صالح کی پہلی شرط یہ ہے کہ خالص اللہ تعالیٰ کے لیے ہو۔ دیکھیے سورة کہف کی آخری آیت اور سورة بینہ کی آیت (٥) ۔ دوسری یہ کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ہو۔ آپ کا فرمان ہے : ( مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَیْسَ عَلَیْہِ أَمْرُنَا فَہُوَ رَدٌّ )” جو شخص ایسا عمل کرے جس پر ہمارا امر نہ ہو تو وہ مردود ہے۔ “ [ مسلم، الأقضیۃ، باب نقض الأحکام ۔۔ : ١٨؍ ١٧١٨ ] انسان کی لذت و آسائش کی بنیادی چیزیں رہائش، کھانا پینا اور نکاح ہیں۔ ایمان اور عمل صالح والوں کی رہائش کے لیے (جَنّٰتٍ تَجْرِىْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ ) ، کھانے پینے کے لیے (كُلَّمَا رُزِقُوْا مِنْهَا مِنْ ثَمَـــرَةٍ رِّزْقًا) اور نکاح کے لیے (اَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ ) ہیں، پھر یہ نعمتیں حاصل ہونے کے ساتھ اگر ان کے زوال کا خوف ہو تو لذت مکدر ہوجاتی ہے، اللہ تعالیٰ نے اس خوف کو یہ کہہ کر دور کردیا : (ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ ) [ اللباب ] جنت کی نہروں کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة محمد (١٥) ۔ مُّطَهَّرَةٌ : باب تفعیل سے اسم مفعول ہے۔ ایک حرف کے اضافے کی وجہ سے ” نہایت پاک صاف “ ترجمہ کیا گیا ہے، یعنی وہ ہر قسم کی ظاہری آلائشوں، مثلاً پیشاب، پاخانہ، تھوک، حیض وغیرہ سے اور باطنی آلائشوں مثلاً جھوٹ، حسد، کینہ وغیرہ سے پاک ہوں گی۔ (مُتَشَابِهًا) یعنی دنیا کے پھلوں کے ہم صورت ہوں گے، یا آپس میں ہم شکل ہوں گے، مگر یہ مشابہت صرف نام یا شکل میں ہوگی، ورنہ جنت کی نعمتوں کو دنیا کی نعمتوں سے کوئی نسبت ہی نہیں۔ دیکھیے سورة سجدہ (١٧) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Verse 24 spoke of the fire of hell which has been prepared to punish those who do not believe in the Holy Qur&an; the present verse announces the reward for those who believe. As for the fruits with which believers will be regaled in Paradise, some commentators say that this concerns only the fruits of Paradise which would be alike in shape, but each time different in taste. Others say that these fruits would resemble the fruits of the earth in shape alone, but their taste would be totally different. Anyhow, the point is that the believers would have a kind of joy in Paradise they had never known before, and that this joy would keep renewing itself at every moment. Thus, the fruits of Paradise13 may share a common name with the fruits of the earth, but they will be of a different nature. 13. We must sound a note of caution here. Our modernists have for some time been quite fond of asserting that in speaking of the fruits of Paradise and its other joys, the Holy Qur&an has employed only a metaphysical mode of expression in order to suggest spiritual bliss which, by its very nature, is intangible. We do not mean to rule out the possibility or the desirability of analogical or symbolical interpretations of the verses of the Holy Qur&an. In fact, many authentic Muslim scholars, particularly the Sufis, have made such attempts which have proved to be very illuminating in many ways. But no genuine Sufi has ever claimed that symbolical interpretation (I` tibar) is the same thing as exegesis (tafsir), or that his own interpretation was exclusively the only valid one. The purpose of analogical interpretation has always been to serve as an aid in spiritual realization or in the elaboration of metaphysical doctrines, and not to negate or oppose the regular mode of exegesis. What our modern exegetes overlook in their zeal and in their simplicity is the obvious fact that if a thing is being used as a metaphor or a symbol, it does not necessarily argue that it does not exist objectively. In allowing for symbolical interpretations, we must carefully remember that since the Holy Qur&an has spoken of the fruits of Paradise and of similar things, they must have an objective existence, though not a physical one (in the current sense of the word), and even though we have no knowledge as to their nature and state - all of which we can safely leave to Allah Himself. That way lies security, for that is the Straight Path. The wives which the believers will have in Paradise, will be clean externally and pure internally - that is to say, free from everything that is physically disgusting like excrement and menstruation, and from everything that is morally disgusting like bad temper or unfaith fulness. The joys of Paradise will also be unlike the joys of the earth in that they will not be short-lived, nor will one have to be trembling with the fear of losing them, for the believers shall live in perpetual bliss forever. In giving these good tidings to those who believe, the Holy Qur&an adds another condition - that of good deeds -, for without good deeds, one cannot deserve such good tidings on the merit of &Iman ایمان (faith) alone. &Iman itself can, no doubt, save a man from being consigned to the fires of hell for ever, and every Muslim, even if he is a great sinner, will finally be taken out of hell, once he has undergone a period of punishment. But no one can altogether escape the fires of hell unless he has been doing good deeds defined by the Sharl&ah. (Ruh al Bayan: Qurtubi)

خلاصہ تفسیر : اور خوش خبری سنا دیجئے آپ ان لوگوں کی جو ایمان لائے اور کام کئے اچھے اس بات کی کہ بیشک ان کے واسطے بہشتیں ہیں کہ چلتی ہوں گی ان کے نیچے سے نہریں جب کبھی دیئے جاویں گے وہ لوگ ان بہشتوں میں سے کسی پھل کی غذا تو ہر بار میں یہی کہیں گے کہ یہ تو وہی ہے جو ہم کو ملا تھا اس سے پہلے اور ملے گا بھی ان کو دونوں بار کا پھل ملتا جلتا اور ان کے واسطے ان بہشتوں میں بیبیاں ہوں گی صاف پاک کی ہوئی اور وہ لوگ ان بہشتوں میں ہمیشہ کو بسنے والے ہوں گے (ہر بار میں ملتا جلتا پھل ملنا لطف کے واسطے ہوگا کہ دونوں مرتبہ پھلوں کی صورت ایک سی ہوگی جس سے وہ سمجھیں گے کہ یہ پہلی ہی قسم کا پھل ہے مگر کھانے میں مزہ دوسرا ہوگا جس سے حظ و سرور بڑھے گا) ، ربط آیات : اس سے پہلی آیت میں قرآن کریم کو نہ ماننے والوں کے عذاب کا بیان تھا اس آیت میں ماننے والوں کے لئے بشارت اور خوشخبری مذکور ہے جس میں جنت کے عجیب و غریب پھلوں کا اور حوران جنت کا ذکر ہے : معارف و مسائل : اہل جنت کو مختلف پھل ایک ہی شکل و صورت میں پیش کرنے سے مقصد بھی ایک تفریح اور لطف کا سامان بنانا ہوگا اور بعض مفسرین نے فرمایا کہ پھلوں کے متشابہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ جنت کے پھل صورت شکل میں دنیا کے پھلوں کی طرح ہوں گے جب اہل جنت کو ملیں گے تو کہیں گے کہ یہ تو وہی پھل ہیں جو دنیا میں ہمیں ملا کرتے تھے مگر ذائقہ اور لذت میں دنیا کے پھلوں سے ان کو کوئی نسبت نہ ہوگی صرف نام کا اشتراک ہوگا، جنت میں ان لوگوں کو پاک صاف بیبیاں ملنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ دنیا کی تمام ظاہری اور اخلاقی گندگیوں سے پاک ہوں گی بول وبراز حیض ونفاس اور ہر ایسی چیز سے پاک ہوں گی جن سے انسان کو نفرت ہوتی ہے اسی طرح کج خلقی بیوفائی معنوی عیوب سے بھی پاک ہوں گی، آخر میں فرمایا کہ پھر جنت کی نعمتوں کو دنیا کی آنی فانی نعمتوں کی طرح نہ سمجھو جن کے فنا ہوجانے یا سلب ہوجانے کا ہر وقت خطرہ لگا رہتا ہے بلکہ یہ لوگ ان نعمتوں میں ہمیشہ ہمیشہ خوش وخرم رہیں گے، یہاں مومنین کو جنت کی بشارت دینے کے لئے ایمان کے ساتھ عمل صالح کی بھی قید لگائی ہے کہ ایمان بغیر عمل صالح کے انسان کو اس بشارت کا مستحق نہیں بناتا اگرچہ صرف ایمان بھی جہنم میں خلود اور دوام سے بچانے کا سبب ہے اور مومن کتنا بھی گنہگار ہو کسی نہ کسی وقت میں وہ جہنم سے نکالا جائے گا اور جنت میں پہنچنے گا مگر عذاب جہنم سے بالکل نجات کا بغیر عمل صالح کے کوئی مستحق نہیں ہوتا (روح البیان، قرطبی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَبَشِّرِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِىْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ۝ ٠ ۭ كُلَّمَا رُزِقُوْا مِنْہَا مِنْ ثَمَرَۃٍ رِّزْقًا۝ ٠ ۙ قَالُوْا ھٰذَا الَّذِىْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ۝ ٠ ۙ وَاُتُوْا بِہٖ مُتَشَابِہًا۝ ٠ ۭ وَلَھُمْ فِيْہَآ اَزْوَاجٌ مُّطَہَّرَۃٌ۝ ٠ ۤۙ وَّھُمْ فِيْہَا خٰلِدُوْنَ۝ ٢٥ بشر واستبشر : إذا وجد ما يبشّره من الفرح، قال تعالی: وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران/ 170] ، يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران/ 171] ، وقال تعالی: وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر/ 67] . ويقال للخبر السارّ : البِشارة والبُشْرَى، قال تعالی: هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس/ 64] ، وقال تعالی: لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان/ 22] ، وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود/ 69] ، يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف/ 19] ، وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال/ 10] . ( ب ش ر ) البشر التبشیر کے معنی ہیں اس قسم کی خبر سنانا جسے سن کر چہرہ شدت فرحت سے نمٹما اٹھے ۔ مگر ان کے معافی میں قدر سے فرق پایا جاتا ہے ۔ تبیشتر میں کثرت کے معنی ملحوظ ہوتے ہیں ۔ اور بشرتہ ( مجرد ) عام ہے جو اچھی وبری دونوں قسم کی خبر پر بولا جاتا ہے ۔ اور البشرتہ احمدتہ کی طرح لازم ومتعدی آتا ہے جیسے : بشرتہ فابشر ( یعنی وہ خوش ہوا : اور آیت کریمہ : { إِنَّ اللهَ يُبَشِّرُكِ } ( سورة آل عمران 45) کہ خدا تم کو اپنی طرف سے بشارت دیتا ہے میں ایک قرآت نیز فرمایا : لا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ عَلِيمٍ قالَ : أَبَشَّرْتُمُونِي عَلى أَنْ مَسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ قالُوا : بَشَّرْناكَ بِالْحَقِّ [ الحجر/ 53- 54] مہمانوں نے کہا ڈریے نہیں ہم آپ کو ایک دانشمند بیٹے کی خوشخبری دیتے ہیں وہ بولے کہ جب بڑھاپے نے آپکڑا تو تم خوشخبری دینے لگے اب کا ہے کی خوشخبری دیتے ہو انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو سچی خوشخبری دیتے ہیں ۔ { فَبَشِّرْ عِبَادِ } ( سورة الزمر 17) تو میرے بندوں کو بشارت سنادو ۔ { فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ } ( سورة يس 11) سو اس کو مغفرت کے بشارت سنادو استبشر کے معنی خوش ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران/ 170] اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے ( اور شہید ہوکر ) ان میں شامل ہیں ہوسکے ان کی نسبت خوشیاں منا رہے ہیں ۔ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران/ 171] اور خدا کے انعامات اور فضل سے خوش ہورہے ہیں ۔ وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر/ 67] اور اہل شہر ( لوط کے پاس ) خوش خوش ( دورے ) آئے ۔ اور خوش کن خبر کو بشارۃ اور بشرٰی کہا جاتا چناچہ فرمایا : هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس/ 64] ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی ۔ لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان/ 22] اس دن گنہگاروں کے لئے کوئی خوشی کی بات نہیں ہوگی ۔ وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود/ 69] اور جب ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری لے کرآئے ۔ يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف/ 19] زہے قسمت یہ تو حسین ) لڑکا ہے ۔ وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال/ 10] اس مدد کو تو خدا نے تمہارے لئے رذریعہ بشارت ) بنایا عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے صالح الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] ( ص ل ح ) الصالح ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ جَنَّةُ : كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15] الجنۃ ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔ جری الجَرْي : المرّ السریع، وأصله كمرّ الماء، ولما يجري بجريه . يقال : جَرَى يَجْرِي جِرْيَة وجَرَيَاناً. قال عزّ وجل : وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف/ 51] وقال تعالی: جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهارُ [ الكهف/ 31] ، وقال : وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ [ الروم/ 46] ، وقال تعالی: فِيها عَيْنٌ جارِيَةٌ [ الغاشية/ 12] ، وقال : إِنَّا لَمَّا طَغَى الْماءُ حَمَلْناكُمْ فِي الْجارِيَةِ [ الحاقة/ 11] ، أي : السفینة التي تجري في البحر، وجمعها : جَوَارٍ ، قال عزّ وجلّ : وَلَهُ الْجَوارِ الْمُنْشَآتُ [ الرحمن/ 24] ، وقال تعالی: وَمِنْ آياتِهِ الْجَوارِ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلامِ [ الشوری/ 32] ، ويقال للحوصلة : جِرِّيَّة إمّا لانتهاء الطعام إليها في جريه، أو لأنها مجری الطعام . والإِجْرِيَّا : العادة التي يجري عليها الإنسان، والجَرِيُّ : الوکيل والرسول الجاري في الأمر، وهو أخصّ من لفظ الرسول والوکيل، وقد جَرَيْتُ جَرْياً. وقوله عليه السلام : «لا يستجرینّكم الشّيطان» يصح أن يدّعى فيه معنی الأصل . أي : لا يحملنّكم أن تجروا في ائتماره وطاعته، ويصح أن تجعله من الجري، أي : الرسول والوکيل ومعناه : لا تتولوا وکالة الشیطان ورسالته، وذلک إشارة إلى نحو قوله عزّ وجل : فَقاتِلُوا أَوْلِياءَ الشَّيْطانِ [ النساء/ 76] ، وقال عزّ وجل : إِنَّما ذلِكُمُ الشَّيْطانُ يُخَوِّفُ أَوْلِياءَهُ [ آل عمران/ 175] . ( ج ر ی ) جریٰ ( ض) جریۃ وجریا وجریا نا کے معنی تیزی سے چلنے کے ہیں ۔ اصل میں یہ لفظ پانی اور پانی کی طرح چلنے والی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف/ 51] اور یہ نہریں جو میرے ( محلوں کے ) نیچے بہ رہی ہیں ۔ میری نہیں ہیں ۔ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهارُ [ الكهف/ 31] باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ۔ وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ [ الروم/ 46] اور تاکہ کشتیاں چلیں فِيها عَيْنٌ جارِيَةٌ [ الغاشية/ 12] اس میں چشمے بہ رہے ہوں گے اور آیت کریمہ ؛ إِنَّا لَمَّا طَغَى الْماءُ حَمَلْناكُمْ فِي الْجارِيَةِ [ الحاقة/ 11] جب پانی طغیانی پر آیا تو ہم نے تم لو گوں کو کشتی میں سوار کرلیا ۔ میں جاریۃ سے مراد کشتی ہے اس کی جمع جوار آتی ہے جیسے فرمایا ؛۔ وَلَهُ الْجَوارِ الْمُنْشَآتُ [ الرحمن/ 24] اور جہاز جو اونچے کھڑے ہوتے ہیں ۔ وَمِنْ آياتِهِ الْجَوارِ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلامِ [ الشوری/ 32] اور اسی کی نشانیوں میں سے سمندر کے جہاز ہیں ( جو ) گویا یا پہاڑ ہیں ۔ اور پرند کے سنکدانہ کو جریۃ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ کھانا چل کر وہاں پہنچتا ہے اور یا اس لئے کہ وہ طعام کا مجریٰ بنتا ہے ۔ الاجریات عاوت جس پر انسان چلتا ہے ۔ الجری وکیل ۔ یہ لفظ رسول اور وکیل سے اخص ہی ۔ اور جرمت جریا کے معنی وکیل بنا کر بھینے کے ہیں اور حدیث میں ہے :۔ یہاں یہ لفظ اپنے اصل معنی پر بھی محمول ہوسکتا ہے یعنی شیطان اپنے حکم کی بجا آوری اور اطاعت میں بہ جانے پر تمہیں بر انگیختہ نہ کرے اور یہ بھی ہوسکتا ہے ۔ کہ جری بمعنی رسول یا وکیل سے مشتق ہو اور معنی یہ ہونگے کہ شیطان کی وکالت اور رسالت کے سرپر ست مت بنو گویا یہ آیت کریمہ ؛ فَقاتِلُوا أَوْلِياءَ الشَّيْطانِ [ النساء/ 76] شیطان کے مددگاروں سے لڑو ۔ کے مضمون کی طرف اشارہ ہے اور فرمایا :إِنَّما ذلِكُمُ الشَّيْطانُ يُخَوِّفُ أَوْلِياءَهُ [ آل عمران/ 175] یہ ( خوف دلانے والا ) تو شیطان ہے جو اپنے دوستوں سے ڈرتا ہے ۔ تحت تَحْت مقابل لفوق، قال تعالی: لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ المائدة/ 66] ، وقوله تعالی: جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ [ الحج/ 23] ، تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمْ [يونس/ 9] ، فَناداها مِنْ تَحْتِها [ مریم/ 24] ، يَوْمَ يَغْشاهُمُ الْعَذابُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ العنکبوت/ 55] . و «تحت» : يستعمل في المنفصل، و «أسفل» في المتصل، يقال : المال تحته، وأسفله أغلظ من أعلاه، وفي الحدیث : «لا تقوم الساعة حتی يظهر التُّحُوت» «4» أي : الأراذل من الناس . وقیل : بل ذلک إشارة إلى ما قال سبحانه : وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ وَأَلْقَتْ ما فِيها وَتَخَلَّتْ [ الانشقاق/ 3- 4] . ( ت ح ت) تحت ( اسم ظرف ) یہ فوق کی ضد ہے قرآن میں ہے :۔ لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ المائدة/ 66] تو ( ان پر رزق مینہ کی طرح برستا کہ اپنے اوپر سے اور پاؤں کے نیچے سے کھاتے ۔ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ [ الحج/ 23] ( نعمت کے ) باغ میں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ۔ فَناداها مِنْ تَحْتِها [ مریم/ 24] اس وقت ان کے نیچے کی جانب سے آواز دی ۔ تحت اور اسفل میں فرق یہ ہے کہ تحت اس چیز کو کہتے ہیں جو دوسری کے نیچے ہو مگر اسفل کسی چیز کے نچلا حصہ کو جیسے ۔ المال تحتہ ( مال اس کے نیچے ہے ) اس کا نچلا حصہ اعلیٰ حصہ سے سخت ہے ) حدیث میں ہے (48) لاتقوم الساعۃ حتیٰ یظھر النحوت کہ قیامت قائم نہیں ہوگی ۔ تا وقی کہ کمینے لوگ غلبہ حاصل نہ کرلیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حدیث میں آیت کریمہ ؛۔ وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ وَأَلْقَتْ ما فِيها وَتَخَلَّتْ [ الانشقاق/ 3- 4] اور جب یہ زمین ہموار کردی جائے گی اور جو کچھ اس میں سے اسے نکلا کر باہر ڈال دے گی ۔ کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ۔ نهر النَّهْرُ : مَجْرَى الماءِ الفَائِضِ ، وجمْعُه : أَنْهَارٌ ، قال تعالی: وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف/ 33] ، ( ن ھ ر ) النھر ۔ بافراط پانی بہنے کے مجری کو کہتے ہیں ۔ کی جمع انھار آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف/ 33] اور دونوں میں ہم نے ایک نہر بھی جاری کر رکھی تھی ۔ رزق الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، ( ر ز ق) الرزق وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو ثمر الثَّمَرُ اسم لكلّ ما يتطعم من أحمال الشجر، الواحدة ثَمَرَة، والجمع : ثِمَار وثَمَرَات، کقوله تعالی: أَنْزَلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَراتِ رِزْقاً لَكُمْ [ البقرة/ 22] ( ث م ر ) الثمر اصل میں درخت کے ان اجزاء کو کہتے ہیں جن کو کھایا جاسکے اس کا واحد ثمرۃ اور جمع ثمار وثمرات آتی ہے قرآن میں ہے :۔ أَنْزَلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَراتِ رِزْقاً لَكُمْ [ البقرة/ 22] اور آسمان سے مبینہ پرسا کر تمہارے کھانے کے لئے انواع و اقسام کے میوے پیدا کیے ۔ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل/ 1] ، وقوله : فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل/ 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر/ 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعرأتيت المروءة من بابها فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة/ 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء/ 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم/ 27] . يقال : أتيته وأتوته ويقال للسقاء إذا مخض وجاء زبده : قد جاء أتوه، وتحقیقه : جاء ما من شأنه أن يأتي منه، فهو مصدر في معنی الفاعل . وهذه أرض کثيرة الإتاء أي : الرّيع، وقوله تعالی: مَأْتِيًّا[ مریم/ 61] مفعول من أتيته . قال بعضهم معناه : آتیا، فجعل المفعول فاعلًا، ولیس کذلک بل يقال : أتيت الأمر وأتاني الأمر، ويقال : أتيته بکذا وآتیته كذا . قال تعالی: وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة/ 25] ، وقال : فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقال : وَآتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [ النساء/ 54] .[ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف/ 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني . والإِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] . ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو { أَتَى أَمْرُ اللَّهِ } [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ { فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ } [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت { وَجَاءَ رَبُّكَ } [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) |" اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ { وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى } [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ { يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ } [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ { لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا } [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ ارض کثیرۃ الاباء ۔ زرخیز زمین جس میں بکثرت پیداوار ہو اور آیت کریمہ : {إِنَّهُ كَانَ وَعْدُهُ مَأْتِيًّا } [ مریم : 61] بیشک اس کا وعدہ آیا ہوا ہے ) میں ماتیا ( فعل ) اتیتہ سے اسم مفعول کا صیغہ ہے بعض علماء کا خیال ہے کہ یہاں ماتیا بمعنی آتیا ہے ( یعنی مفعول بمعنی فاعل ) ہے مگر یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ محاورہ میں اتیت الامر واتانی الامر دونوں طرح بولا جاتا ہے اتیتہ بکذا واتیتہ کذا ۔ کے معنی کوئی چیز لانا یا دینا کے ہیں قرآن میں ہے ۔ { وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا } [ البقرة : 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے ۔ { فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا } [ النمل : 37] ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی ۔ { مُلْكًا عَظِيمًا } [ النساء : 54] اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی ۔ جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ { آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ } [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔ الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی شبه الشِّبْهُ والشَّبَهُ والشَّبِيهُ : حقیقتها في المماثلة من جهة الكيفيّة، کاللّون والطّعم، وکالعدالة والظّلم، والشُّبْهَةُ : هو أن لا يتميّز أحد الشّيئين من الآخر لما بينهما من التّشابه، عينا کان أو معنی، قال : وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة/ 25] ، أي : يشبه بعضه بعضا لونا لا طعما وحقیقة، ( ش ب ہ ) الشیبۃ والشبۃ کے اصل معنی مماثلت بلحاظ کیف کے ہیں مثلا لون اور طعم میں باہم مماثل ہونا یا عدل ظلم میں اور دو چیزوں کا معنوی لحاظ سے اس قدر مماثل ہونا کہ ایک دوسرے سے ممتاز نہ ہو سکیں شبھۃ کہلاتا ہے پس آیت کریمہ : ۔ وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة/ 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے میں متشابھا کے معنی یہ ہیں کہ وہ میوے اصل اور مزہ میں مختلف ہونے کے باوجود رنگت میں ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہوں گے زوج يقال لكلّ واحد من القرینین من الذّكر والأنثی في الحیوانات الْمُتَزَاوِجَةُ زَوْجٌ ، ولكلّ قرینین فيها وفي غيرها زوج، کالخفّ والنّعل، ولكلّ ما يقترن بآخر مماثلا له أو مضادّ زوج . قال تعالی: فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة/ 39] ، وقال : وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ [ البقرة/ 35] ، وزَوْجَةٌ لغة رديئة، وجمعها زَوْجَاتٌ ، قال الشاعر : فبکا بناتي شجوهنّ وزوجتي وجمع الزّوج أَزْوَاجٌ. وقوله : هُمْ وَأَزْواجُهُمْ [يس/ 56] ، احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] ، أي : أقرانهم المقتدین بهم في أفعالهم، وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلى ما مَتَّعْنا بِهِ أَزْواجاً مِنْهُمْ [ الحجر/ 88] ، أي : أشباها وأقرانا . وقوله : سُبْحانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْواجَ [يس/ 36] ، وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات/ 49] ، فتنبيه أنّ الأشياء کلّها مركّبة من جو هر وعرض، ومادّة وصورة، وأن لا شيء يتعرّى من تركيب يقتضي كونه مصنوعا، وأنه لا بدّ له من صانع تنبيها أنه تعالیٰ هو الفرد، وقوله : خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات/ 49] ، فبيّن أنّ كلّ ما في العالم زوج من حيث إنّ له ضدّا، أو مثلا ما، أو تركيبا مّا، بل لا ينفكّ بوجه من تركيب، وإنما ذکر هاهنا زوجین تنبيها أنّ الشیء۔ وإن لم يكن له ضدّ ، ولا مثل۔ فإنه لا ينفكّ من تركيب جو هر وعرض، وذلک زوجان، وقوله : أَزْواجاً مِنْ نَباتٍ شَتَّى [ طه/ 53] ، أي : أنواعا متشابهة، وکذلک قوله : مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] ، ثَمانِيَةَ أَزْواجٍ [ الأنعام/ 143] ، أي : أصناف . وقوله : وَكُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَةً [ الواقعة/ 7] ، أي : قرناء ثلاثا، وهم الذین فسّرهم بما بعد وقوله : وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ [ التکوير/ 7] ، فقد قيل : معناه : قرن کلّ شيعة بمن شایعهم في الجنّة والنار، نحو : احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] ، وقیل : قرنت الأرواح بأجسادها حسبما نبّه عليه قوله في أحد التّفسیرین : يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً [ الفجر/ 27- 28] ، أي : صاحبک . وقیل : قرنت النّفوس بأعمالها حسبما نبّه قوله : يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ [ آل عمران/ 30] ، وقوله : وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِينٍ [ الدخان/ 54] ، أي : قرنّاهم بهنّ ، ولم يجئ في القرآن زوّجناهم حورا، كما يقال زوّجته امرأة، تنبيها أن ذلک لا يكون علی حسب المتعارف فيما بيننا من المناکحة . ( ز و ج ) الزوج جن حیوانات میں نر اور مادہ پایا جاتا ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کا زوج کہلاتا ہے یعنی نر اور مادہ دونوں میں سے ہر ایک پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ حیوانات کے علاوہ دوسری اشیاء میں جفت کو زوج کہا جاتا ہے جیسے موزے اور جوتے وغیرہ پھر اس چیز کو جو دوسری کی مماثل یا مقابل ہونے کی حثیت سے اس سے مقترن ہو وہ اس کا زوج کہلاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى [ القیامة/ 39] اور ( آخر کار ) اس کی دو قسمیں کیں ( یعنی ) مرد اور عورت ۔ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ [ البقرة/ 35] اور تیری بی بی جنت میں رہو ۔ اور بیوی کو زوجۃ ( تا کے ساتھ ) کہنا عامی لغت ہے اس کی جمع زوجات آتی ہے شاعر نے کہا ہے فبکا بناتي شجوهنّ وزوجتیتو میری بیوی اور بیٹیاں غم سے رونے لگیں ۔ اور زوج کی جمع ازواج آتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ هُمْ وَأَزْواجُهُمْ [يس/ 56] وہ اور ان کے جوڑے اور آیت : ۔ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] جو لوگ ( دنیا میں ) نا فرمانیاں کرتے رہے ہیں ان کو اور ان کے ساتھیوں کو ( ایک جگہ ) اکٹھا کرو ۔ میں ازواج سے ان کے وہ ساتھی مراد ہیں جو فعل میں ان کی اقتدا کیا کرتے تھے اور آیت کریمہ : ۔ إِلى ما مَتَّعْنا بِهِ أَزْواجاً مِنْهُمْ [ الحجر/ 88] اس کی طرف جو مختلف قسم کے لوگوں کو ہم نے ( دنیاوی سامان ) دے رکھے ہیں ۔ اشباہ و اقران یعنی ایک دوسرے سے ملتے جلتے لوگ مراد ہیں اور آیت : ۔ سُبْحانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْواجَ [يس/ 36] پاک ہے وہ ذات جس نے ( ہر قسم کی ) چیزیں پیدا کیں ۔ نیز : ۔ وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات/ 49] اور تمام چیزیں ہم نے دو قسم کی بنائیں ۔ میں اس بات پر تنبیہ کی ہے ۔ کہ تمام چیزیں جوہر ہوں یا عرض مادہ و صورت سے مرکب ہیں اور ہر چیز اپنی ہیئت ترکیبی کے لحا ظ سے بتا رہی ہے کہ اسے کسی نے بنایا ہے اور اس کے لئے صائع ( بنانے والا ) کا ہونا ضروری ہے نیز تنبیہ کی ہے کہ ذات باری تعالیٰ ہی فرد مطلق ہے اور اس ( خلقنا زوجین ) لفظ سے واضح ہوتا ہے کہ روئے عالم کی تمام چیزیں زوج ہیں اس حیثیت سے کہ ان میں سے ہر ایک چیز کی ہم مثل یا مقابل پائی جاتی ہے یا یہ کہ اس میں ترکیب پائی جاتی ہے بلکہ نفس ترکیب سے تو کوئی چیز بھی منفک نہیں ہے ۔ پھر ہر چیز کو زوجین کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ اگر کسی چیز کی ضد یا مثل نہیں ہے تو وہ کم از کم جوہر اور عرض سے ضرور مرکب ہے لہذا ہر چیز اپنی اپنی جگہ پر زوجین ہے ۔ اور آیت أَزْواجاً مِنْ نَباتٍ شَتَّى [ طه/ 53] طرح طرح کی مختلف روئیدگیاں ۔ میں ازواج سے مختلف انواع مراد ہیں جو ایک دوسری سے ملتی جلتی ہوں اور یہی معنی آیت : ۔ مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] ہر قسم کی عمدہ چیزیں ( اگائیں ) اور آیت کریمہ : ۔ ثَمانِيَةَ أَزْواجٍ [ الأنعام/ 143]( نر اور مادہ ) آٹھ قسم کے پیدا کئے ہیں ۔ میں مراد ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَكُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَةً [ الواقعة/ 7] میں ازواج کے معنی ہیں قرناء یعنی امثال ونظائر یعنی تم تین گروہ ہو جو ایک دوسرے کے قرین ہو چناچہ اس کے بعد اصحاب المیمنۃ سے اس کی تفصیل بیان فرمائی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ [ التکوير/ 7] اور جب لوگ باہم ملا دیئے جائیں گے ۔ میں بعض نے زوجت کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ ہر پیروکار کو اس پیشوا کے ساتھ جنت یا دوزخ میں اکٹھا کردیا جائیگا ۔ جیسا کہ آیت : ۔ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] میں مذکور ہوچکا ہے اور بعض نے آیت کے معنی یہ کئے ہیں کہ اس روز روحوں کو ان کے جسموں کے ساتھ ملا دیا جائیگا جیسا کہ آیت يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً [ الفجر/ 27- 28] اے اطمینان پانے والی جان اپنے رب کی طرف لوٹ آ ۔ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی ۔ میں بعض نے ربک کے معنی صاحبک یعنی بدن ہی کئے ہیں اور بعض کے نزدیک زوجت سے مراد یہ ہے کہ نفوس کو ان کے اعمال کے ساتھ جمع کردیا جائیگا جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ [ آل عمران/ 30] جب کہ ہر شخص اپنے اچھے اور برے عملوں کو اپنے سامنے حاضر اور موجود پائیگا ۔ میں بھی اس معنی کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِينٍ [ الدخان/ 54] اور ہم انہیں حورعین کا ساتھی بنا دیں گے ۔ میں زوجنا کے معنی باہم ساتھی اور رفیق اور رفیق بنا دینا ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن نے جہاں بھی حور کے ساتھ اس فعل ( زوجنا ) کا ذکر کیا ہے وہاں اس کے بعد باء لائی گئی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ حوروں کے ساتھ محض رفاقت ہوگی جنسی میل جول اور ازواجی تعلقات نہیں ہوں گے کیونکہ اگر یہ مفہوم مراد ہوتا تو قرآن بحور کی بجائے زوجناھم حورا کہتا جیسا کہ زوجتہ امرءۃ کا محاورہ ہے یعنی میں نے اس عورت سے اس کا نکاح کردیا ۔ طهر والطَّهَارَةُ ضربان : طَهَارَةُ جسمٍ ، وطَهَارَةُ نفسٍ ، وحمل عليهما عامّة الآیات . يقال : طَهَّرْتُهُ فَطَهُرَ ، وتَطَهَّرَ ، وَاطَّهَّرَ فهو طَاهِرٌ ومُتَطَهِّرٌ. قال تعالی: وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُباً فَاطَّهَّرُوا[ المائدة/ 6] ، أي : استعملوا الماء، أو ما يقوم مقامه، قال : وَلا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذا تَطَهَّرْنَ [ البقرة/ 222] ، ( ط ھ ر ) طھرت طہارت دو قسم پر ہے ۔ طہارت جسمانی اور طہارت قلبی اور قرآن پاک میں جہاں کہیں طہارت کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاں بالعموم دونوں قسم کی طہارت مراد ہے کہا جاتا ہے : ۔ طھرتہ فطھروتطھر واطھر فھو طاھر ومتطھر میں نے اسے پاک کیا چناچہ وہ پاک ہوگیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُباً فَاطَّهَّرُوا[ المائدة/ 6] اور اگر نہانے کی حاجت ہو تو نہاکر پاک ہوجایا کرو ۔ یعنی یا جو چیز اس کے قائم مقام ہو اس کے ذریعہ طہارت کرلیا کرو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذا تَطَهَّرْنَ [ البقرة/ 222] اور جب تک پاک نہ ہوجائیں ان سے مقاربت نہ کرو ۔ خلد الخُلُود : هو تبرّي الشیء من اعتراض الفساد، وبقاؤه علی الحالة التي هو عليها، والخُلُودُ في الجنّة : بقاء الأشياء علی الحالة التي عليها من غير اعتراض الفساد عليها، قال تعالی: أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] ، ( خ ل د ) الخلودُ ( ن ) کے معنی کسی چیز کے فساد کے عارضہ سے پاک ہونے اور اپنی اصلی حالت پر قائم رہنے کے ہیں ۔ اور جب کسی چیز میں دراز تک تغیر و فساد پیدا نہ ہو۔ قرآن میں ہے : ۔ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ [ الشعراء/ 129] شاید تم ہمیشہ رہو گے ۔ جنت میں خلود کے معنی یہ ہیں کہ اس میں تمام چیزیں اپنی اپنی اصلی حالت پر قائم رہیں گی اور ان میں تغیر پیدا نہیں ہوگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] یہی صاحب جنت میں ہمشہ اسمیں رہیں گے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

عقلی دلائل کے استعمال اور ان سے استدلال ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ زیر بحث آیات دلائل توحید اور اثبات نبوت کے ان مضامین کو متضمن ہونے کے ساتھ ساتھ جن کا ہم نے گزشتہ سطور میں ذکر کیا ہے عقلی دلائل اور ا ندلائل سے استدلال کرنے کے حکم کو بھی متضمن ہیں۔ یہ بات ان لوگوں کے مسلک کو باطل قرار دیتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے مہیا کردہ دلائل سے استدلال کرنے کی نفی کرتے اور اپنے زعم میں اللہ کی معرفت کے لئے خبر اور رسول اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے علم پر اقتصار کرتے ہیں۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید کی معرفت اور اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کی گواہی کے لئے لوگوں کو جو دعوت دی ہے اس میں صرف خبر پر اقتصار نہیں کیا ہے، بلکہ اس کی صحت پر ہماری عقول کی جہت سے بھی دلالت قائم کی ہے۔ درج بالا قول باری اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ بشارت خوش کن خبر کا نام ہے اور زیادہ واضح اور اغلب بات یہی ہ کہ اس لفظ کا اطلاق ایسی خبر کو شامل ہوتا ہے جو سامع کے لئے خوش کن ہوا اور اس میں سرور کی لہر دوڑ ا دے ۔ غیر خوش کن خبر کے لئے اس لفظ کو مقید صورت میں بیان کیا جاتا ہے۔ مثلاً قول باری ہے۔ فبشرھم بعذاب الیم (انہیں ایک درد ناک عذاب کی خبر دیجیے) اسی طرح ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر ایک شخص کہے کہ ” میرا جو بھی غلام فلاں کی ولادت کی خوش خبری دے گا وہ آزاد ہے۔ “ اور پھر اس کے غلام ایک ایک کر کے مذکورہ شخص کی پیدائش کی خوش خبری اسے سنائیں تو خوش خبری پہنچانے والا پہلا غلام آزاد ہوجائے گا۔ دیگر غلام آزاد نہیں ہوں گے کیونکہ آقا کو پہلے غلام کے ذریعے خوش خبری ملی تھی۔ دوسروں کے ذریعے صرف خبر ملی تھی۔ ہمارے اصحاب کے نزدیک درج بالا صورت اس طرح ہے کہ کوئی شخص کہے :” کہ میرا جو بھی غلام فلاں کی ولادت کی مجھے خبر دے گا وہ آزاد ہے۔ “ اور پھر اس کے غلام ایک ایک کر کے اسے یہ خبر دیں تو خبر دینے والے تمام غلام آزاد ہوجائیں گے۔ کیونکہ آقا نے مطلق خبر دینے پر عقید یمین کیا تھا، اس لئے یہ عقد خبر دینے والے تمام غلاموں کو شامل ہوگا، جبکہ پہلی صورت میں اس نے ایک خاص صفت کے ساتھ مخصوص خبر دینے پر عقیدیمین کیا تھا ۔ وہ خاص صفت یہ تھی کہ مذکورہ خبر اس کے لئے خوش کن ہو اور اس کے دل میں سرور کی لہر دوڑا دے۔ اس خبر کا موضوع وہی بات ہے جس کا ہم نے ذکر کیا اس پر یہ محاورہ دلالت کرتا ہے کہ : رأیت البشر فی وجھہ (میں نے اس کے چہرے پر خوشی اور سرور دیکھا) اللہ تعالیٰ نے اہل جنت کے چہروں کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرمایا : وجوہ یومئذ مسفرہ ضاحکۃ ستبشرۃ (بہت سے چہرے اس روز چمکتے ہوئے ہنستے ہوئے بشاش ہوں گے) اللہ تعالیٰ نے اہل جنت کے چہروں پر پیدا ہونے والے خوشی اور سرور کے آثار کی خبر استبشار (خوش ہونے) کے ذکر سے دی ہے اور اسی بنا پر عرب کے لوگ مرد کو بشیر کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ یعنی اس میں یہ نیک فالی ہوتی ہے کہ وہ خیر کی خبر دے گا۔ شرک کی خبر نہیں دے گا خیر کی خبر دینے پر بشیر کو جو انعام دیا جاتا ہے اسے بشریٰ کے نام سے موسوم کتر یہیں۔ یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ بشارت کے لفظ کا اطلاق ایسی خبر پر ہوتا ہے جو خوش کن ہو اور سرور کا باعث بن جائے۔ اس بنا پر بشارت کے لفظ کو غیر خوش کن خبر کے لئے صرف کسی دلالت کی بنا پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اور اگر اس لفظ کا اطلاق شرپر کیا جائے تو اس سے صرف خبر مراد ہوگی۔ اس بنا پر قول باری : فبشر ھم بعذاب الیم کا مفہوم یہ ہوگا کہ انہیں درد ناک عذاب کی خبر دیجیے۔ اوپر ہم نے فقہی مسئلے میں بیان کیا تھا کہ ہمارے اصحاب کی رائے میں مذکورہ فلاں کی ولادت کی خوشی خبری دینے والا پہلا غلام آزاد ہوجانے کا مستحق ہوگا یعنی خبر دینے والا پہلا غلام بشیر کہلائے گا۔ اس پر عربوں کا یہ قول دلالت کرتا ہے : ظھرت لنا تباشیرھذا الامر (اس معاملے سے پیدا ہونے والی خوشیاں ہمارے سامنے ظاہر ہوگئیں) اس سے ان کی مراد اول خوشی ہوتی ہے۔ یہ فقرہ عرب کے لوگ غمناک اور شر کی حامل خبر کے لئے نہیں بولتے، بلکہ خوشی اور مسرت پید ا کردینے والی خبر کے لئے کہتے ہیں۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ لفظ بشارت کی اصل خوشی اور غم پیدا کرنے والی بات کے لئے موضوع ہے۔ اس لئے کہ اس لفظ کا مفہوم چہرے پر ابتدائی طور پر پیدا ہونے والے خوشی یا غم کے تاثرات سے عبارت ہے ، البتہ اس کا استعمال خوش کن بات کے لئے زیادہ تر ہوتا ہے۔ اس بنا پر اس کا اطلاق شر کی بہ نسبت خوشی پر اخص ہوگا

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٥) اس کے بعد مومنین کی جنت میں عزت و عظمت کا بیان ہے، ان لوگوں کو جو کہ اللہ تعالیٰ کے ان احکامات کے جو کہ ان کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ہیں بجا آوری کرتے ہیں اور ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ وہ اعمال صالحہ کرتے ہیں یعنی اہل ایمان کو اعمال صحالحہ کے سبب حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن حکیم کے ذریعے بشارت و خوشخبری حاصل کر لینی چاہئے کہ ان کے لیے اللہ کے ہاں ایسے باغات ہیں کہ وہاں درختوں اور ان کے مکانات کے کے نیچے سے شراب، دودھ، شہد، اور پانی کی نہریں بہتی ہیں، جب ان کو جنت میں مختلف قسم کے پھل اور میوے کھانے کو ملیں گے تو وہ کہیں گے کہ اس جیسے ہمیں اس سے پہلے بھی کھانے کے لیے دیے گئے، کیوں کہ انہوں نے پھل رنگ میں ایک جیسے اور مزے ولذت میں مختلف قسم کے دیے جائیں گے اور ان کے لئے جنت میں ایسی بیویاں ہوں گی جو حیض اور ہر قسم کی گندگیوں سے پاک ہوں گی اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے، انھیں موت نہیں آئے گی اور نہ اس سے یہ لوگ کبھی بےدخل کیے جائیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٥ (وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ) (اَنَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ ط) یہ لفظی ترجمہ ہے۔ مراد اس سے یہ ہے کہ جن کے دامن میں ندیاں بہتی ہوں گی۔ اس لیے کہ فطری باغ عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ جس میں ذرا اونچائی پر درخت لگے ہوئے ہیں اور دامن میں ندی بہہ رہی ہے ‘ جس سے خود بخود آب پاشی ہو رہی ہے اور درختوں کی جڑوں تک پانی پہنچ رہا ہے۔ (کُلَّمَا رُزِقُوْا مِنْھَا مِنْ ثَمَرَۃٍ رِّزْقًا لا) (قَالُوْا ھٰذَا الَّذِیْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُلا) (وَاُتُوْا بِہٖ مُتَشَابِھًا ط) اس کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ جنت میں اہل جنت کی جو ابتدائی دعوت یا ابتدائی ضیافت (نُزُل) ہوگی اس میں انہیں وہی پھل پیش کیے جائیں گے جو دنیا میں معروف ہیں ‘ مثلاً انار ‘ انگور ‘ سیب ‘ کھجور وغیرہ۔ اہل جنت انہیں دیکھ کر کہیں گے کہ یہ تو وہی پھل ہیں جو ہم دنیا میں کھاتے آئے ہیں ‘ لیکن جب انہیں چکھیں گے تو ظاہری مشابہت کے باوجود ذائقے میں زمین و آسمان کا فرق پائیں گے۔ اور ایک مفہوم یہ بھی لیا گیا ہے کہ اہل جنت کو جنت میں بھی وہی پھل ملتے رہیں گے ‘ لیکن ہر بار ان کا ذائقہ بدلتا رہے گا۔ ان کی شکل و صورت وہی رہے گی ‘ لیکن ذائقہ وہ نہیں رہے گا۔ لہٰذا یہ دنیا والا معاملہ نہیں ہوگا کہ ایک ہی شے کو کھاتے کھاتے انسان کی طبیعت بھر جاتی ہے۔ (وَلَھُمْ فِیْھَآ اَزْوَاجٌ مُّطَھَّرَۃٌق) (وَّھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ ) ان پانچ آیات (٢١ تا ٢٥) میں ایمانیات ثلاثہ یعنی ایمان باللہ ‘ ایمان بالرسول اور ایمان بالآخرۃ کی دعوت آگئی۔ اب آگے کچھ ضمنی مسائل زیربحث آئیں گے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

26. The fruits of Paradise will not be so exotic in appearance as to be unfamiliar to people. They will resemble the fruits to which human beings are accustomed in this world, though infinitely excelling them in delicacy of taste. In appearance they may resemble, say mangoes, pomegranates and oranges, and the people of Paradise will be able to identify them as such. In taste, however, there will be no comparison between the terrestrial and heavenly fruits. 27. The Qur'anic text has the Arabic word azwaj which means 'spouses' or 'couples', and embraces both husband and wife. The husband is the zawj of his wife, and vice versa. In the Next World, however, this relationship of spouses will be qualified by purity. If a man has been virtuous in this world while his wife has not, their relationship in the Next World will be sundered and the man will receive another spouse who will be pure and virtuous. On the other hand, if a virtuous woman has had an evil husband she will be tied in companionship with a virtuous man. Where husband and wife have both been virtuous their relationship will become everlasting.

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :26 یعنی نِرالے اور اجنبی پَھل نہ ہوں گے ، جن سے وہ نامانوس ہوں ۔ شکل میں اُنہی پَھلوں سے ملتے جُلتے ہوں گے جن سے وہ دنیا میں آشنا تھے ۔ البتہ لذّت میں وہ ان سے بدرجہا زیادہ بڑھے ہوئے ہوں گے ۔ دیکھنے میں مثلاً آم اور انار اور سنترے ہی ہوں گے ۔ اہل جنّت ہر پھل کو دیکھ کر پہچان لیں گے کہ یہ آم ہے اور یہ انار ہے اور یہ سنترا ۔ مگر مزے میں دنیا کے آموں اور اناروں اور سنتروں کو ان سے کوئی نسبت نہ ہوگی ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :27 عربی متن میں ازدواج کا لفظ استعمال ہوا ہے ، جس کے معنی ہیں ”جوڑے“ ۔ اور یہ لفظ شوہر اور بیوی دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ شوہر کے لیے بیوی ”زوج “ ہے اور بیوی کے لیے شوہر”زوج“ ۔ مگر وہاں یہ ازدواج پاکیزگی کی صفت کے ساتھ ہوں گے ۔ اگر دنیا میں کوئی مرد نیک ہے اور اس کی بیوی نیک نہیں ہے ، تو آخرت میں ان کا رشتہ کٹ جائے گا اور اس نیک مرد کو کوئی دُوسری نیک بیوی دے دی جائے گی ۔ اگر یہاں کوئی عورت نیک ہے اور اس کا شوہر بد ، تو وہاں وہ اس برے شوہر کی صحبت سے خلاصی پا جائے گی اور کوئی نیک مرد اس کا شریکِ زندگی بنا دیا جائے گا ۔ اور اگر یہاں کوئی شوہر اور بیوی دونوں نیک ہیں ، تو وہاں ان کا یہی رشتہ ابدی و سرمدی ہو جائے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

(20) یہ اسلام کے تیسرے عقیدے یعنی ’’آخرت پر ایمان‘‘ کا بیان ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ مرنے کے بعد ایک اور زندگی آنے والی ہے جس میں ہر انسان کو اپنے تمام اعمال کا جواب دینا ہوگا۔ اگر ایمان کے ساتھ نیک عمل کئے ہوں گے تو وہ جنت نصیب ہوگی جس کی ایک جھلک اس آیت میں دکھائی گئی ہے۔ (21) اس کا مطلب ایک تویہ ہوسکتا ہے کہ جنت میں جب اہل جنت کو پھل دیا جائے گا تو وہ کہیں گے : یہ وہی ہے جو ہمیں اس سے پہلے کھانے کو دیا گیا، اس کا ایک مطلب تو یہ ہوسکتا ہے کہ جنت میں انہیں وقفوں وقفوں سے ایسے پھل دئیے جائیں گے جو دیکھنے میں بالکل ملتے جلتے ہوں گے، مگر لذت اور ذائقے میں ہر پھل نیا ہوگا، اور دوسرا مطلب یہ بھی ممکن ہے کہ جنت کے پھل دیکھنے میں دنیا کے پھلوں کی طرح ہوں گے، اس لئے انہیں دیکھ کر جنتی یہ کہیں گے کہ یہ تو وہی پھل ہیں جو ہمیں پہلے یعنی دنیا میں ملے تھے، لیکن جنت میں ان کی لذت اور خصوصیات دنیا کے پھلوں سے کہیں زیادہ ہوں گی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

قرآن شریف میں جہاں کافروں کا ذکر آتا ہے اس سے پہلے یا اس کے بعد مومنوں کا ذکر ضرور آتا ہے تاکہ عقبیٰ کی راحت و تکلیف کا حال ساتھ کے ساتھ معلوم ہوجاوے۔ ایک حال کے مقابلہ کی آیتیں دوسری جگہ ڈھونڈنی نہ پڑیں۔ قرآن شریف کے بیان کی اور خوبیوں میں سے یہ بھی ایک بیان مطلب کی خوبی ہے۔ اسی طرز بیان کے موافق اوپر کافروں کے انجام کا ذکر فرما کر ان آیتوں میں مومنوں کا ذکر فرمایا ہے جنت کی راحتوں اور دوزخ کے عذابوں کے بیان میں اس قدر کثرت سے صحیح حدیثیں ہیں کہ ان کو بیان کرنا مشکل ہے۔ اسی واسطے صحیح حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جنت کی نعمتیں نہ کبھی آنکھ نے دیکھیں نہ کان نہ سنیں۔ نہ کسی کے دل پر ان کا تصور گذر سکتا ہے ٣ یہ حدیث صحیحین وغیرہ میں حضرت ابوہریرہ کی روایت سے آئی ہے۔ بھلا جو نعمتیں دیکھنے سننے اور وہم و گمان سے باہر ہوں کسی زبان یا قلم کی کیا طاقت کہ ان کو تفصیل وار بیان کرسکے۔ اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو جنت نصیب کرے اس وقت ان راحتوں اور نعمتوں کی تفصیل معلوم ہوگی۔ ایمان کے ساتھ نیک کاموں کے ذکر سے معلوم ہوا کہ جنت جب ملے گی کہ ایمان اور نیک عمل دونوں ہوں۔ جنت کی نہروں کے کنارے نہیں ہیں۔ برابر زمین پر جاری ہیں۔ ان میں سے پانی اور شہد شراب جنتی لوگ بلا وقت لے سکیں گے۔ جنت کی بیبیاں حیض اور نفاس سے پاک ہوں گی اس لئے ان کو ستھری فرمایا جنت کے میوے دنیا کے میووں سے مزہ میں بالکل الگ ہوں گے فقط ان کے نام دنیا کے میووں جیسے ہوں گے۔ اس لئے جنتی لوگ ان کو پہلے پہل دنیا کے میووں کے مشابہ سمجھیں گے۔ صحیحین وغیرہ میں حضرت ابن عمر سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں جا چکیں گے تو خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک فرشتہ آواز دیوے گا کہ اب موت نہیں جو شخص جس حال میں ہے ہمیشہ اسی حال میں رہے گا ١ دنیا کی ہر نعمت کو ہر دم زوال لگا ہوا ہے۔ جنت کی نعمتوں میں یہ کتنی بڑی خوبی ہے کہ ان کو زوال نہیں۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 کفار کو تہدید کے بعد اب ترغیب دی جا رہے ہے اور قرآن میں عمو ما یہ دونوں مقردن ہیں۔ اس اسلوب بیان کی وجہ سے اسے المثانی کہا جاتا ہے ( ابن کثیر) ایمان کے ساتھ عمل صالح کی تصریح سے مقصد یہ ہے کہ جنت میں جانے کے لیے عمل صالح بھی ضروری ہے۔ کسی عمل کے صالح ہونے کے یہ معنی ہیں کہ خلوص نیت کے ساتھ ہو اور سنت کے مطابق ہو۔ سنت کی مخالفت سے نیک عمل بدعت بن جاتا اور عدم خلوص سے نفاق پیا ہوتا ہے۔ اسی کو دوسرے الفاظ میں اسلام اور احسان سے تعبیر فرمایا ہے۔ (دیکھئے حاشیہ آیت 112) نفاق اور بدعت سے عمل برباد ہوجاتا ہے۔ (ابن کثیر)8 دینا کے میووں کے ہم صورت ہوں گے یا آپس میں ہم شکل ہوں گے حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جنت کی نعمتوں کے نام تو دنیا والے ہی ہوں گے مگر ان کی حقیقت سے آگاہی ناممکن ہے حدیث میں : مالا عین رات ولا اذن سمعت ولا خطر علی قلب بشر۔ نہ ان کو آمکھ نے دیکھا نہ کان نے سنا اور نہ کبھی کسی انسان کے دل میں ان کا خیال ہی آیا۔ ( ابن کثیر)9 یعنی جنتی عورتیں ہر قسم کی ظاہر اور باطنی آلائشوں سے پاک و صاف ہوں گی۔ (ابن کثیر)10 ۔ یہاں خلود کے معنی ہمیشگی کے ہیں اور یہی اس حققی معنی ہیں۔ (قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 25 (بشر): خوش خبری سنادے۔ (عملوا) : انہوں نے کام کئے۔ عمل کئے۔ (الصلحت ): بھلے، بہتر، نیک۔ (جنت): جنتیں۔ (تجری): جاری، (بہتی ہوں گی) ۔ (تحت): نیچے ۔ (کلما ): جب، جب بھی۔ (رزقوا): دئیے گئے۔ (ھذا الذی): یہ تو وہی ہے۔ (اتوا): دئیے گئے۔ (متشابھا) : ملتے جلتے، ایک جیسے۔ (ازواج): (زوج) جوڑے ، بیویاں، ساتھی۔ (مطھرۃ) پاک صاف، ہر طرح صاف ستھری، پاکیزہ۔ (خلدون) : ہمیشہ رہنے والے۔ تشریح : آیت نمبر 25 اس سے پہلے یہ ذکر ہو رہا تھا کہ وہ لوگ جو قرآن کریم جیسا کلام نہیں لاسکتے وہ اپنی عاقبت خراب نہ کریں کیونکہ جن بتوں اور انسانوں کو وہ اپنا سہارا اور معبود سمجھتے ہیں وہ خود جہنم کا ایندھن بن جائیں گے اور ان کے کام نہ آسکیں گے۔ اس کے بعد یہ فرمایا جا رہا ہے کہ جو لوگ ایمان اور عمل صالح کا راستہ اختیار کرنے والے ہیں ان کے لئے اللہ نے ایسی جنتیں اور ان کی راحتیں تیار کر رکھی ہیں جن کا اس دنیا میں رہتے ہوئے تصور بھی ناممکن ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے ان لوگوں کے لئے خوش خبری کا اعلان کرایا ہے جو ایمان اور عمل صالح کی روش زندگی کو اختیار کئے ہوئے ہیں فرمایا کہ ان کے لئے جنت کی راحتیں صرف وقتی طور سے نہیں بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہوں گی۔ اور ان کے لئے جسمانی اور روحانی اعتبار سے پاک صاف بیویاں ہوں گی۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے پانچ باتیں ارشاد فرمائی ہیں۔ (1) ایمان اور عمل صالح : ایمان اور عمل صالح کا چولی دامن کا ساتھ ہے چناچہ قرآن کریم میں سینکڑوں مقامات پر ایمان اور عمل صالح کا ایک ساتھ ذکر کیا گیا ہے ۔ ایمان اس یقین کو کہتے ہیں جس میں ایک شخص دل اور زبان سے اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ اللہ ایک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ہے، وہ تمام انسانی ضرورتوں اور حاجات سے بےنیاز ہے نہ اس کو کسی نے پیدا کیا اور نہ اس کے کوئی بیٹا یا بیوی ہے وہ اس ساری کائنات اور اس کے ایک ایک ذرے کا خالق ومالک ہے۔ اس کی ذات اور صفات میں کوئی شریک نہیں ہے۔ عبادت و بندگی کے لائق صرف اسی کی ذات ہے وہی سب کا معبود اور پالنے والا رحیم و کریم ہے۔ اس نے انسانیت کی رہنمائی اور ہدایت کے لئے ہر دور میں ہزاروں رسول اور نبی بھیجے جنہوں نے اللہ کا پیغام پوری دیانت سے پہنچا کر اپنی اپنی امتوں کو سیدھی اور سچی راہ دکھائی اور اسی نے سارے نبیوں اور رسولوں کے آخر میں خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنا آخری کلام دے کر بھیجا ہے آپ کے بعد نہ تو کوئی کتاب آئے گی اور نہ کوئی کسی طرح کا نبی یا رسول آئے گا۔ اب قیامت تک حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا لایا ہوا دین ہی انسانیت کی رہبری و رہنمائی کے لئے کافی ہوگا۔ اس بات پر بھی ایمان لانا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد اگر کوئی نبوت کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ جھوٹا اور مکار ہے اور اس کی کسی بات کا اعتبار نہیں ہے۔ ایمان کی اس تعریف کو سمجھنے کے بعد عمل صالح کا مفہوم سمجھ لینا بہت آسان ہے کیونکہ جب ایک انسان نے اس بات کو دل اور زبان سے مان لیا کہ اس کائنات کا خالق ومالک اللہ ہے اور سارے نبی اور رسول اسی کے بھیجے ہوئے ہیں تو اللہ کے نبیوں اور اس کے رسولوں کے طریقوں پر چلنے ہی کو عمل صالح کہا جائے گا، اس سے ہٹ کر جو بھی کام کئے جائیں گے خواہ وہ بظاہر کتنے ہی نیک اور ثواب کے کیوں نہ ہوں ان کاموں پر دنیا میں ممکن ہے کچھ اجر تو مل جائے لیکن آخرت کی اصل زندگی میں کوئی اجر اور بدلہ نہیں ملے گا مثلاً ایک شخص قربانی کے دنوں میں جانور ذبح کرنے کے بجائے اس رقم کو غریبوں میں تقسیم کر دے تو اس کو صدقہ کرنے کا ثواب ضرور مل جائے گا لیکن جو فریضہ اس پر واجب تھا وہ ادا نہ ہوگا اور شاید نافرمانی کرنے کی اس کو سزا مل جائے اور یہ صدقہ اسے اس فرض کے ادا نہ کرنے کی وجہ سے اللہ کی گرفت سے بچا نہ سکے۔ اب عمل صالح کی تعریب یہ ہوئی کہ ” ہر وہ کام جو اللہ اور اس کے رسول حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکامات کے تحت کیا جائے وہ عمل صالح ہے۔ “ (2) جنتیں : جنت کے متعلق نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ ” جنت وہ مقام اور جگہ ہے جس کو کسی آنکھ نے نہیں دیکھا، کسی کان نے نہیں سنا اور اس کا تصور بھی کسی دل پر نہیں گذرا “ اس حدیث پاک میں نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ ارشاد فرما رہے ہیں کہ گویا جنت وہ خوبصورت اور حسین ترین جگہ ہے جس کا اس دنیا میں کسی طرح تصور کرنا ممکن ہی نہیں ہے وہ انسانوں کے تصور اور خیال سے بھی بہت بلند ہے۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنتوں کے بہت سے نام آتے ہیں۔ ” جنت الفردوس، جنت عدن، جنت النعیم، دارالخلد، جنت الماویٰ اور علیون وغیرہ بعض مفسرین نے اور بھی نام لکھے ہیں دارالجلال ، دارالسلام اور دارالقرار۔ ممکن ہے جنت ایک ہی ہو مگر انسانی اعمال کے لحاظ سے جنت کے یہ مختلف درجات کے نام ہوں۔ “ امام بیہقی نے فرمایا ہے کہ قرآن و حدیث میں چار جنتوں کا ثبوت ملتا ہے جب کہ ایک حدیث میں جنت کے آٹھ دروازوں کا ذکر ملتا ہے۔ بہرحال اللہ ہی جانتا ہے کہ اس نے اپنے نیک بندوں کے لئے کتنی جنتیں تیار کر رکھی ہیں۔ اللہ ہمیں حسن عمل اور جنت کی راحتیں نصیب فرمائے۔ آمین۔ (3) پھل دئیے جائیں گے : فرمایا گیا کہ جب بھی ان کو جنتوں کے پھل دئے جائیں گے چونکہ دنیا کے پھلوں سے ملتے جلتے ہوں گے تو وہ کہہ اٹھیں گے کہ یہ تو ہم نے دنیا میں بھی کھائے ہیں لیکن جب وہ ان پھلوں کو کھائیں گے اور ان کو وہ بہت ہی لذیذ اور مزے دار پائیں گے تو وہ اور مانگیں گے اور ان کی اس طلب کو پورا کیا جائے گا اور ان کی اس طلب کو پورا کیا جائے گا اور ان کی خواہش کے مطابق اور بہت سے پھل دئیے جائیں گے کیونکہ ان پھلوں کا مزا ہی کچھ اور ہوگا۔ دنیا کے جیسے پھلوں کا مطلب اس مناسبت کا ذکر ہے کہ انسان جن پھلوں سے واقف ہوتا ہے اس کو کھانے میں تکلف نہیں ہوتا۔ (4) پاکیزہ بیویاں : یعنی وہ ایسی ہم عمر، پاکیزہ اور خوبصورت بیویاں ہوں گی جو جسمانی ، روحانی اور اخلاق کی ہر گندگی سے پاک صاف ہوں گی ظاہری آلائشیں اور کینہ، حسد، بغض جیسی بری خصلتوں سے پاک ہوں گی۔ (5) ہمیشہ رہیں گے : اس وعدہ میں سب سے زیادہ لذت اور خوشی ہے کیونکہ بہتر سے بہتر نعمت اور راحت بھی اگر حاصل ہوجائے لیکن کچھ عرصہ کے بعد اس کے چھن جانے کا خطرہ ہو تو انسان کو راحت کے ساتھ اس کے چھن جانے کا غم بھی لگ جاتا ہے لیکن ہمیشہ کا تصور ہی اس راحت اور نعمت کی لذت میں اضافہ کردیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو جنت کی ابدی راحتیں نصیب فرمائے۔ آمین۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

8۔ دونوں بار کے پھلوں کی صورت ایک سی ہوگی جس سے وہ یوں سمجھیں گے کہ یہ پہلی ہی قسم کا پھل ہے مگر کھانے میں مزہ دوسرا ہوگا، جس سے خط و سرور مضاعف ہوجائے گا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک، قرآن مجید اور نبوت کے بارے میں شک و انکار کرنے والوں کو سخت ترین عذاب کا انتباہ کرنے کے بعد اب ان لوگوں کو کامیابی کی نوید اور پیغام مسرت دیا جا رہا ہے جو ایمان خالص کے ساتھ نیک عمل کرتے ہیں۔ یاد رہے نیکی میں ایمان باللہ کے بعد تین چیزیں لازم ہیں : (١) ۔ اخلاصِ نیّت (٢) ۔ سنت کی اتباع (٣) ۔ فرائض کی ہمیشہ ادائیگی نوافل میں پہلی دو شرائط لازمی ہیں اور تیسری شرط افضل ہے ضروری نہیں۔ جنت کے پھل شکل و صورت کے اعتبار سے دنیا کے پھلوں سے ہم رنگ اور ہم شکل ہوں گے۔ جنہیں دیکھتے ہی اہل جنت پکار اٹھیں گے کہ ان جیسے پھل تو دنیا میں بھی ہمیں دیے گئے تھے۔ شاید یہ اس لیے ہوگا کہ جنتیوں کو اتنی بھی زحمت اور پریشانی نہ اٹھانا پڑے کہ وہ جنت کے باغات اور پھلوں کے بارے میں ملائکہ یا ایک دوسرے سے پوچھنے کی زحمت اٹھائیں۔ یہ کیا ہے ؟ اور وہ کونسا پھل ہے اور اسے کس طرح کھانا ہے ؟ لہٰذا پہلے سے ہی ان کی شکلوں اور ناموں سے متعارف اور مانوس ہوں گے تاکہ انہیں ایک ناواقف کی طرح شرمندگی نہ اٹھانا پڑے۔ تاہم جنت کے پھل رنگت، حجم، لذت اور خوشبو کے اعتبار سے دنیا کے پھلوں سے ہمارے تصورات سے کہیں بڑھ کر مختلف ہوں گے۔ اسی طرح جنت کی عورتیں جسمانی آلائشوں اور بیماریوں سے پاک، خاوندوں کی نافرمانی سے محفوظ اور سوتنوں کے باہم حسدو رشک سے مبرا ہوں گی۔ ان کے حسن و جمال کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس طرح فرمایا کرتے تھے : (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال اللّٰہُ تَعَالٰی اَعْدَدْتُّ لِعِبَادِیَ الصَّالِحِیْنَ مَالَا عَیْنٌ رَأَتْ وَلَآ اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ وَّاقْرَءُ وْٓا إِنْ شِءْتُمْ (فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآاُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ ) (رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ وأنھا مخلوقۃ ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ نعمتیں تیار کی ہیں، جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ ہی ان کے متعلق کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا خیال پیدا ہوا۔ اگر چاہو تو اس آیت کی تلاوت کرو۔ (کوئی نہیں جانتا کہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا چیز چھپا کے رکھی گئی ہے) ۔ “ (وَلَوْ اَنَّ اِمْرَاَۃً مِّنْ نِّسَآءِ أَھْلِ الْجَنَّۃِ اطَّلَعَتْ اِلَی الْاَرْضِ لَاَضَآءَ تْ مَا بَیْنَھُمَا وَلَمَلَاَتْ مَا بَیْنَھُمَا رِیْحًا وَلَنَصِیْفُھَا یَعْنِی الْخِمَارَ خَیْرٌ مِّنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْھَا) (رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنۃ والنار) ” اگر اہل جنت کی عورتوں سے کوئی زمین کی طرف جھانک لے تو مشرق و مغرب اور جو کچھ اس میں ہے روشن اور معطر ہوجائے۔ نیز اس کے سر کا دوپٹہ دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے اس سے قیمتی ہے۔ “ قرآن مجید نے ” ازواج “ کا لفظ استعمال فرمایا ہے جس کا معنٰی ہے جوڑا۔ جو اس طرح ہوگا کہ اگر نیک خاتون کا خاوند جہنم رسید ہوا تو اسے دوسرے جنتی کی زوجہ بنا دیا جائے گا اور جس کی بیوی جہنمی ہوگی اسے دنیا کی نیک خاتون عطا کی جائے گی۔ قرآن مجید نے عورتوں کی حیا کے پیش نظر یہ نہیں فرمایا کہ ان کے لیے خوبصورت مرد ہوں گے۔ ایسا کہنا قرآن کے اسلوب بیان کے خلاف تھا۔ مرد طبعی طور پر عورت سے نسبتاً کم حیا رکھتا ہے اس لیے فرمایا گیا کہ جنت میں ان کے لیے پاک بیویاں ہوں گی۔ یہ اس لیے بھی ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے مردوں کو دنیا میں نگران بنایا ہے اور جنت میں بھی ان کو عورتوں پر سردار بنائے گا۔ جنتیوں کو یہ خوشخبری بھی دی جا رہی ہے کہ جنت اور اس کی نعمتیں ان کے لیے ہمیشہ اور جنتیوں کو حیات جاوداں حاصل ہوگی۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ فِی الْجَنَّۃِ لَشَجَرَۃً یَسِیْرُ الرَّاکِبُ فِيْ ظِلِّھَا ماءَۃَ سَنَۃٍ وَاقْرَءُ وْٓا إِنْ شِءْتُمْ (وَظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ ) (رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ وأنھا مخلوقۃ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا : جنت میں ایک ایسا درخت ہے کہ گھوڑے پر سوار شخص اس کے سائے میں سو سال تک چل سکتا ہے۔ اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھو : اور سائے ہیں لمبے لمبے۔ “ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ قَیْسٍ (رض) عَنْ أَبِیْہِ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ لِلْمُؤْمِنِ فِی الْجَنَّۃِ لَخَیْمَۃً مِنْ لُؤْلُؤَۃٍ وَاحِدَۃٍ مُجَوَّفَۃٍ طُوْلُھَا سِتُّوْنَ مِیْلًا لِلْمُؤْمِنِ فِیْھَا أَھْلُوْنَ یَطُوْفُ عَلَیْھِمُ الْمُؤْمِنُ فَلَا یَرٰی بَعْضُھُمْ بَعْضًا) (رواہ مسلم : باب فی صفۃ خیام الجنۃ ....) ” حضرت عبداللہ بن قیس (رض) اپنے باپ سے اور وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ جنت میں مومن کے لیے موتی کا ایک ایسا خیمہ ہوگا جس کی لمبائی ساٹھ میل ہوگی وہاں مومن کے گھر والے ہوں گے جن کے ہاں وہی جائے گا۔ کوئی کسی کو نہ دیکھ سکے گا۔ “ (عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِيِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَوَّلُ زُمْرَۃٍ تَدْخُلُ الْجَنَّۃَ عَلٰی صُوْرَۃِ الْقَمَرِ لَیْلَۃَ الْبَدْرِ وَالَّذِیْنَ عَلٰی آثَارِھِمْ کَأَحْسَنِ کَوْکَبٍ دُرِّيٍّ فِي السَّمَآءِ إِضَآءَ ۃً قُلُوْبُھُمْ عَلٰی قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍلَاتَبَاغُضَ بَیْنَھُمْ وَلَاتَحَاسُدَ لِکُلِّ امْرِیءٍ زَوْجَتَانِ مِنَ الْحُوْرِ الْعِیْنِ یُرٰی مُخُّ سُوْقِھِنَّ مِنْ وَرَآءِ الْعَظْمِ وَاللَّحْمِ ) (رواہ البخاری : باب ماجاء في صفۃ الجنۃ وأنھا مخلوقۃ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں پہلا گروہ جنت میں چودھویں رات کے چاند کی صورت میں داخل ہوگا ان کے بعد کے لوگ آسمان میں چمکدار اور حسین ستارے کی مانند ہوں گے ان کے دل ایک ہی آدمی کے دل کی طرح ہوں گے ان کے درمیان نہ کوئی بغض ہوگا اور نہ ہی حسد۔ ہر ایک جنتی کے لیے حور العین میں سے دو بیویاں ہوں گی جن کی ہڈیوں کا گودا، گوشت اور ہڈیوں کے درمیان سے نظر آئے گا۔ “ مسائل ١۔ صاحب ایمان اور نیک اعمال کرنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت، ہر قسم کے پھل، پاکیزہ بیویاں اور جنت میں ہمیشہ رہنے کی خوشخبری ہے۔ تفسیر بالقرآن جنت کی ازواج : ا۔ حوریں نوجوان، کنواریاں اور ہم عمر ہوں گی۔ (الواقعہ : ٢٥ تا ٣٨) ٢۔ یا قوت و مرجان کی مانند ہوں گی۔ (الرحمن : ٥٨) ٣۔ خوبصورت اور خوب سیرت ہوں گی۔ (الرحمن : ٧٠) ٤۔ خیموں میں چھپی ہوئی ہوں گی۔ (الرحمن : ٧٢) ٥۔ شرم و حیا کی پیکر اور انہیں کسی نے چھوا نہیں ہوگا۔ (الرحمن : ٥٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس خوفناک اور وحشتناک منظر کے بالمقابل ذرا دوسرا رخ بھی دیکھئے کہ انعامات واکرامات کی کیا فروانی ہے جو مومنین کا انتظار کررہی ہے ؟ وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الأنْهَارُ كُلَّمَا رُزِقُوا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِزْقًا قَالُوا هَذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُطَهَّرَةٌ وَهُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (٢٥) ” اور اے پیغمبر جو لوگ کتاب پر ایمان لے آئیں ، اور اس کے مطابق اپنے عمل درست کرلیں ، انہیں خوشخبری دے دو کہ ان کے لئے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ۔ ان باغوں کے پھل صورت میں دنیا کے پھلوں سے ملتے جلتے ہوں گے ۔ جب کوئی پھل انہیں کھانے کو دیاجائے گا تو وہ کہیں گے کہ ایسے ہی پھل اس سے پہلے ہم کو دیئے جاچکے ہیں ۔ ان کے لئے وہاں پاکیزہ بیویاں ہوں گی اور وہ وہاں ہمیشہ رہیں گے۔ “ یہ رنگا رنگ انعامات واکرامات ، نگاہ جاکر ان میں سے پاکیزہ بیویوں پر جاٹکتی ہے ۔ یہ پھل اس سے پہلے کے پھلوں سے ملتے جلتے ہوں گے اور جن کے بارے میں اہل جنت یہ خیال کریں گے کہ اس سے پ ہے بھی جنت میں ان کی تواضع ایسے ہی پھلوں سے کی گئی ہے ۔ یا وہ ان پھلوں کے ہم شکل پھل دیئے جائیں گے لیکن جب وہ انہیں چکھیں گے تو ان کی حیرانی کی انتہا نہ رہے گی کہ مزا ہر دفعہ علیحدہ اور پرکیف ہوگا۔ قدم قدم پر انہیں ایسے نئے تجربے ہوں گے ، جن سے ظاہر ہوگا کہ وہ رضائے الٰہی کے اطمینان بخش ماحول میں رہ رہے ہیں ۔ کیا خوب تفکہہ ہے کہ ہر دفعہ بظاہر ہم شکل پھلوں کی صورت میں انہیں ایک نہی نعمت دی جاتی ہے۔ شکل و صورت کی یہ ہم رنگی اور ذائقہ و حقیقت کا یہ تنوع ، تخلیق کائنات میں اللہ تعالیٰ کی ایک ممتاز کاریگری ہے ، جس سے یہ کائنات بظاہر ایک عظیم حقیقت نظر آتی ہے ۔ اس عظیم نکتے کی وضاحت کے لئے مناسب ہے کہ ہم خود اس کا مطالعہ کریں ۔ دیکھئے تمام انسان تخلیقی اعتبار سے ایک ہیں ۔ سر ، جسم اور دوسرے اعضاء سب ایک جیسے ہیں۔ سب گوشت پوست اور ہڈیوں اور اعصاب سے بنے ہوئے ہیں ۔ سب کو دوآنکھیں ، دوکان ، ایک ناک اور ایک زبان دی گئی ہے ، اور سب اسی ایک زندہ (Cell) خلیے سے پیدا کئے گئے ہیں ۔ مادہ اور صورت کے لحاظ سے سب ایک جیسے ہیں لیکن اخلاق و قابلیت میں ایک دوسرے کے درمیان زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے اور اس ظاہری مشابہت کے باوجود یہ فرق کبھی آسمان و زمین سے بھی زیادہ ہوتا ہے ۔ جب انسان صنعت باری کی ان باریکیوں پر غور کرتا ہے تو سر چکرا جاتا ہے ۔ ذرا غور کیجئے ! مخلوقات کی مختلف اقسام اور اجناس میں کیا تنوع ہے ۔ مختلف شکلیں اور رنگارنگ خصوصیات ، قابلیتوں اور خصوصیتوں میں امتیاز ، لیکن ان تمام چیزوں کا آغاز صرف ایک جیسے خلیے سے ہوا ہے جو اپنی ترکیب اور ساخت کے لحاظ سے بالکل یک گونہ ہوتا ہے۔ پس کون سیاہ دل ہے جو اللہ کی قدرت کے ان کھلے آثار اور شواہد کو دیکھ کر بھی صرف اسی کی بندگی اور غلامی اختیار نہیں کرتا ؟ اور کون ہے جو ان معجزہ دلائل اور واضح براہین کے ہوتے ہوئے بھی اللہ کی ذات وصفات میں کسی کو اس کا ہمسر بناتا ہے ! حالانکہ یہ بیشمار آثار اور یہ بکثرت دلائل اس کی آنکھوں کے سامنے ہیں اور وہ برابر ان کا مشاہدہ کررہا ہے ۔ کئی ایسے دلائل بھی ہیں جو اس کی نظروں اور مشاہدے سے اوجھل ہیں ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اہل ایمان کو جنت کی بشارت کافروں کی سزا بتانے کے بعد (جو اوپر کی آیت میں مذکورہوئی) اس آیت میں اہل ایمان اور اعمال صالحہ والے بندوں کی جزاذ کر فرمائی ہے جو طرح طرح کی نعمتوں کی صورتوں میں ظاہرہو گی۔ (اوّل): تو یہ فرمایا کہ یہ لوگ باغوں میں رہیں گے یہ باغات دارالنعیم میں ہوں گے جسے جنت کہا جاتا ہے، ان باغوں میں رہنے کے لیے مکان بھی ہوں گے جیسا کہ سورة صف میں (وَ مَسَاکِنَ طَیّْبَۃً فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍ ) فرمایا ہے، ان باغات میں نہریں جاری ہوں گی۔ جو صاف ستھرے پانی کی ہوں گی جس میں کسی طرح کا تغیر نہ ہوا ہوگا، اور دودھ کی نہریں ہوں گی جن کا مزہ تبدیل نہ ہوا ہوگا۔ اور شراب کی نہریں ہوں گی جو پینے والوں کے لئے لذت کا ذریعہ ہوں گی۔ اور صاف ستھرے شہد کی نہریں ہوں گی جیسا کہ سورة محمد میں ان نہروں کا ذکر فرمایا ہے۔ اور جو شراب وہاں پی جائے گی وہ لذت کے لیے ہوگی۔ اس سے نہ نشہ آئے گا اور نہ سر میں درد ہوگا۔ سورۃ الصافات میں فرمایا ہے : (لاَ فِیْھَا غَوْلٌ وَّ لاَ ھُمْ عَنْھَا یُنْزَفُوْنَ ) (نہ اس میں درد ہوگا نہ اس سے عقل میں فتور آئے گا) اور سورة واقعہ میں فرمایا : (لاَ یُصَدَّعُوْنَ عَنْھَا وَلاَ یُنْزِفُوْنَ ) (نہ اس سے ان کو درد سر ہوگا اور نہ ان کی عقل میں فتور آئے گا۔ ) (دوم): یہ فرمایا کہ ان باغوں کے درختوں میں جو پھل ہوں گے وہ ان کو کھانے کے لیے پیش کئے جائیں گے اور جب کبھی بھی کوئی پھل لایا جائے گا تو کہیں گے کہ یہ تو وہی ہے جو ہمیں اس سے پہلے دیا گیا تھا اور وجہ اس کی یہ ہوگی کہ وہ پھل آپس میں ہم شکل ہوں گے اگرچہ لذت اور مزے میں مختلف ہوں گے۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ من قبل سے مراد ہے کہ دنیا میں جو پھل ہمیں دیئے گئے تھے یہ اسی جیسا ہے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ وہیں جنت میں جو پھل دیئے جائیں گے ان کے بارے میں کہیں گے کہ یہ تو وہی ہے جو ابھی پہلے کھایا تھا۔ مفسر بیضاوی فرماتے ہیں کہ پہلے معنی لینا زیادہ ظاہر ہے تاکہ لفظ کُلَّمَا کا عموم باقی رہے ( کیونکہ جنت میں سب سے پہلے جب پھل ملے گا اس کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ وہی ہے جو اس سے پہلے دیا گیا تھا اسی وقت صحیح ہوسکتا ہے جب من قبل سے دنیا والے پھل مراد لیے جائیں) لیکن صاحب تفسیر نسفی لکھتے ہیں : والضمیر فی بہ یرجع الی المرزوق فی الدنیا و الاخرۃ لان قولہ ھذا الذی رزقنا من قبل انطوی تحتہ ذکر ما رزقوہ فی الدارین۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا یہ کہنا کہ ” یہ تو وہی ہے جو ہمیں پہلے دیا جا چکا ہے “۔ دونوں پھلوں کے بارے میں ہے، دنیا والے پھل اور جو پھل وہاں دیئے جاتے رہیں گے دونوں مراد ہیں جو پھل ان کو دیئے جائیں گے دیکھنے میں بظاہر دنیاوی پھلوں کے مشابہ ہوں گے، جس چیز کو پہلے دیکھا ہو اس سے انس اور الفت زیادہ ہوتی ہے اور اس کی طرف طبعی میلان زیادہ ہوتا ہے اس لیے ظاہری صورت میں وہ پھل دنیا والے پھلوں کی طرح ہوں گے اور حقیقت میں ان کا مزہ اور کیف دوسرا ہی ہوگا۔ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ جنت کے پھلوں سے دنیا میں کوئی پھل نہیں بس ناموں کی مشابہت ہے یعنی پھلوں کو دیکھ کر اہل جنت کہیں گے کہ یہ سیب ہیں، یہ انار ہیں، ہم نے اس کو دنیا میں کھایا تھا لیکن وہ مزے میں دنیاوی پھل کی طرح نہ ہوں گے بلکہ ان کا مزہ اور کیف جنت کے اعتبار سے ہوگا جیسا کہ سورة ا آآ سجدہ میں فرمایا ہے : (فَلاَ تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا اُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ ) بعض حضرات نے یہ اشکال کیا ہے کہ دنیا والے پھل مراد لیے جائیں تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ جنتی پھل صرف انہی پھلوں کے مشابہ ہوں جو دنیا میں تھے، یہ اشکال کوئی وزن دار نہیں ہے اس لیے کہ اگر شروع داخلہ کے وقت دنیا والے پھلوں کے مشابہ دیئے جائیں اور پھر ان پھلوں کے انواع و اقسام پیش کیے جاتے رہیں جو دنیاوی پھلوں کے مشابہ نہ ہوں اور ان میں آپس میں مشابہت ہو تو اس میں کوئی بات عقل و فہم سے بعید نہیں ہے۔ اہل جنت کو بار بار اور ہمیشہ ایسے پھل دیئے جانا کہ جن میں ظاہری مشابہت ہو اور حقیقت میں مزہ اور کیف الگ الگ ہو اس سے بہت زیادہ استغراب واستعجاب ہوگا۔ اور اس سے خوشی دوبالا ہوگی۔ (سوم): یہ فرمایا کہ ان لوگوں کے لیے بیویاں ہوں گی جو پاکیزہ بنائی ہوئی ہیں، حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ مطھرۃ من القذی و الاذی کہ وہ گندگی اور تکلیف دینے والی چیز سے پاک ہوں گی۔ اور حضرت مجاہد (رح) نے فرمایا : من الحیض والغائط و البول والنخام والبصاق و المنی والولد۔ یعنی وہ بیویاں حیض سے، اور پیشاب پاخانہ سے، ناک سے نکلنے والے بلغم سے، تھوک سے اور منی سے پاک و صاف ہوں گی اور اولاد بھی نہ ہوگی جس کے باعث نفاس آتا ہے۔ حضرت قتادہ (رض) نے فرمایا : مطھرۃ من الاذی والمأثم یعنی وہ بیویاں ہر تکلیف والی چیز سے اور نافرمانی سے پاک ہوں گی۔ ان سب اقوال کا خلاصہ یہ نکلا کہ ان عورتوں میں کسی قسم کی کوئی چیز گھن والی اور تکلیف دینے والی نہ ہوگی۔ ان کا ظاہر اور باطن سب کچھ عمدہ اور بہترین ہوگا۔ شوہروں کی بات مانیں گی نافرمانی نام کو بھی نہ ہوگی۔ (مذکورہ اقوال تفسیر ابن کثیر میں نقل کیے گئے ہیں) مفسر بیضاوی لکھتے ہیں کہ مُطَھَّرَۃٌ (باب تفعیل سے) فرمایا اور طاھِرَاتٌ نہیں فرمایا، اس سے ان کی طہارت اور پاکیزگی کو نہایت اعلیٰ طریقے پر بیان فرمانا مقصد ہے کہ ان کو ایک پاک کرنے والے نے پاک بنایا ہے اور وہ پاک بنانے والا صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ ان بیویوں کا حسن و جمال دوسری آیات میں بیان فرمایا ہے۔ سورة رحمن میں ارشاد فرمایا : (کَاَنَّہُنَّ الْیَاقُوْتُ وَالْمَرْجَانُ ) (گویا کہ وہ یاقوت اور مرجان ہیں) اور سورة واقعہ میں فرمایا (وَحُوْرٌ عِیْنٌ کَاَمْثَال اللُّؤْلُؤِ الْمَکْنُوْنِ ) (وہ سفید رنگ کی بڑی بڑی آنکھوں والی ہوں گی گویا کہ وہ چھپے ہوئے موتیوں کی طرح ہیں۔ ) (چہارم): یہ فرمایا (ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ ) یعنی اہل جنت ہمیشہ ان باغوں میں رہیں گے۔ نہ وہاں سے نکلیں گے اور نہ نکالے جائیں گے، نہ نکلنا چاہیں گے۔ کما فی سورة الکھف (لاَیَبْغُوْنَ عَنْھَا حِوَلاً ) صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ (اللہ تعالیٰ کی طرف سے اہل جنت کو خوشخبری سنانے کے لیے) ایک ندا دینے والا پکار کر ندا دے گا تمہارے لیے یہ بات طے کردی گئی ہے کہ تندرست رہو گے لہٰذا کبھی بھی بیمار نہ ہو گے اور یہ کہ زندہ رہو گے۔ کبھی تمہیں موت نہ آئے گی۔ اور جوان رہو گے کبھی بوڑھے نہ ہو گے اور یہ کہ نعمتوں میں رہو گے پس تم کو کبھی محتاجگی نہ ہوگی۔ ( صحیح مسلم ج ٢ ص ٣٨) دُنیا کی نعمتوں میں کدورت ملی ہوئی ہے۔ خوشی کے ساتھ رنج ہے تندرستی کے ساتھ بیماری ہے۔ پھولوں کے ساتھ کانٹے ہیں۔ مال اور عہدوں کے ساتھ دوسروں کا حسد اور دشمنی ہے اور سب سے آخری بات یہ ہے کہ سب نعمتیں فانی ہیں، صاحب نعمت بھی فانی ہے نعمتوں کا دوام اور ہمیشگی کسی کے لیے نہیں۔ آخرت کی نعمتیں ابدی ہیں دائمی ہیں ہمیشہ کے لیے ہیں۔ ان کے زوال اور چھن جانے کا کوئی اندیشہ نہ ہوگا۔ زندگی بھی دائمی ہوگی۔ (خَالِدِیْنَ فِیْھَآ اَبَدًا) ان کی شان میں فرما دیا ہے۔ (جعلنا اللّٰہ تعالیٰ منھم)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

57 ۔ جو لوگ مسئلہ توحید و رسالت پر ایمان لائے اور قرآن کو خدا کا کلام مانا اور اس کے مطابق عمل کیا انہیں خوشخبری سنا دیجئے۔ 58 ۔ جو لوگ مسئلہ توحید و رسالت پر ایمان لائے اور قرآن کو خدا کا کلام مانا اور اس کے مطابق عمل کیا انہیں خوشخبری سنا دیجئے۔ 59 ۔ منھا اور اور من ثمرۃ میں من ابتدائیہ ہے۔ اور رِزْقاً رُزِقُوْا کا مفعول ثانی ہے اور مفعول اول اس کا نائب فاعل ہے یعنی جب بھی انہیں جنت کے پھلوں سے کچھ کھانے کے لیے دیا جائیگا۔ 60 ۔ وہ اسے دیکھتے ہی بول اٹھیں گے کہ یہ تو وہی مزیدار پھل ہے جو پہلے بھی ہم کھاچکے ہیں۔ اس طرح وہ اپنی خوشی اور مسرت کا اظہار کریں گے۔ 61 ۔ جنت میں جو پھل جنتیوں کو دیا جائیگا وہ ظاہری شکل و صورت اور رنگ میں ملتا جلتا ہوگا مگر ذائقہ ہر ایک کا جدا گانہ ہوگا۔ قال ابن عباس و مجاھد والربیع متشابہا فی الالوان مختلفا فی الطعوم (معالم ص 34 ج 1) اور یہ چیز کوئی پھلوں ہی سے مخصوص نہیں ہوگی بلکہ جنت کے تمام کھانے ہی باہم ملتے جلتے ہوں گے۔ قال الحسن یوتی احدھم بالصحفۃ فیاکل منھا ثم یوتی بالاخری فیقول ھذ الذی اتینا بہ من قبل فیقول الملک کل فاللون واحد والطعم مختلف (کبیر س 347 ج 1، مدارک ص 27 ج 1) جنت میں اعلی درجہ کی لذیذ مادی غذاؤں کے ساتھ سکون قلب کیلئے حسب منشا رفیق بھی ملیں گے۔ 62 ۔ یعنی وہ ہر قسم کی پلیدی اور ناشائستہ اخلاق اور ناپسندیدہ عادات سے پاک ہوں گی۔ مطہرۃ من الغائط والبول والحیض والنفاس والبصاق والمخاط والمنی والولد وکل قذر۔۔۔ وقیل مطھرۃ عن مساوی الاخلاق (معالم ص 35 ج 1) 63 ۔ یعنی نہ انہیں جنت سے نکالا جائیگا اور نہ ہی ان پر موت آئے گی۔ اور نہ ہی جنت کی نعمتیں فنا ہونگی دائمون لا یموتون فیھا ولا یخرجون (معالم ص 35 ج 1) فانھم مع ھذا النعیم فی مقام امین من الموت والانقطاع فلا اخر لہ ولا انقضاء بل فی نعیم۔۔۔ بدی علی الدوام (ابن کثیر ص 63 ج 1)

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2۔ اور اے نبی آپ ان لوگوں کو جو ایمان لا چکے ہیں اور وہ نیک اعمال کے پابند ہیں ۔ یہ مسرت آمیز خبر دے دیجئے کہ ان کے واسطے آخرت میں ایسی بہشتیں اور جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی ۔ جب کبھی بھی ان کو ان بہشتوں میں سے کوئی پھل کھانے کو پیش کیا جائے گا تو وہ اس پیش کردہ پھل کو دیکھ کر ہر بار یہی کہیں گے کہ یہ تو وہی ہے جو اس سے پیشتر ہم کو دیا جا چکا ہے اور واقعہ بھی یہی ہے کہ ان کو ونوں دفعہ کے پھل صورت میں باہم ملتے جلتے دیئے جائیں گے اور ان لوگوں کے لئے جنت کے باغوں میں پاک و صاف عورتیں ہوں گی اور یہ لوگ ان بہشتوں میں ہمیشہ رہیں گے۔ ( تیسیر) بشارت ایک ایسی خبر کو کہتے ہیں جو سننے والے کو مسرور کرنے والی ہو۔ خلاصہ یہ ہے کہ نیک عمل کرنیوالے اہل ایمان کو یہ خوش خبری دی گئی ہے کہ ان کو اس عالم میں ایسے باغ دیئے جائیں گے جن کے نیچے پانی کی نہریں بہہ رہی ہونگی ۔ یا تو باغ کے درخت نہروں کے کنارے پر لگے ہوئے ہوں گے یا یہ مطلب ہے کہ پانی اور درختوں کے نیچے بہہ رہا ہوگا اور یہ اپنے محلوں میں سے اس باغ کا نظارہ کر رہے ہوں گے ۔ جنت کے جو پھل ان کو کھانے کیلئے دیئے جائیں گے چونکہ وہ شکل و صورت میں دنیا کے پھلوں کے ہم شکل ہوں گے تو یہ تعجب سے کہیں گے کہ یہ تو وہی پھل ہے جو ہم کو دنیا میں دیا گیا تھا ان کو بتایا جائے گا کہ تم کھا کر دیکھو ۔ اس پھل کی صورت تو دنیا کے پھل جیسی ہے لیکن اس کا مزہ دنیا کے پھلوں جیسا نہیں ہے یا یہ مطلب ہے کہ جنت ہی کے پھل جب ایک دفعہ کھائیں گے اور دوبارہ پھر ان کے سامنے وہ پھل لایا جائے گا تو کہیں گے یہ تو وہی ہے جو ہم ابھی کھاچکے ہیں ۔ اس پر فرشتے ان کو متنبہ کریں گے کہ صورت ایک سی ہے لیکن مزہ ایک سا نہیں ہے بلکہ ایک ہی پھل کا ہر دفعہ نیا مزہ ہوگا ۔ پاک کی ہوئی عورتیں جو فرمایا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر طرح کی ظاہری اور باطنی نجاست سے اہل جنت کی بیویوں کو اللہ تعالیٰ نے پاک اور صاف کردیا ہے جس طرح ان کو پیشاب پاخانہ وغیرہ کی ضروریات سے پاک رکھا گیا ہے اسی طرح ان کو باطنی آلائش حسد و کینہ اور بد خلقی وغیرہ سے بھی پاک صاف کردیا ہوگا ۔ عام اس سے کہ وہ عورتیں دنیا کی ہوں یا جنت کی حوریں ہوں ۔ ہمیشہ رہنے سے مراد یہ ہے کہ یہ ہر قسم کی نعمتیں دائمی ہوں گی ۔ یہ لوگ وہاں سے کبھی نکالے نہ جائیں گے اور نہ ان کو موت آئے گی ۔ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ بہشتیں کئی قسم کی ہوں گی اور ہر ہر جنت میں مختلف درجات ہوں گے اسی لئے حضرت حق سبحانہ ٗ نے جمع کا صیغہ ذکر فرمایا ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) سے جنت کے نام اس طرح مروی ہیں ۔ جنت الفردوس ، جنت عدت ، جنت النعیم ، دار الخلد، جنت الماوی اور علیون بعض مفسرین نے دارالسلام ، دارلقرار ، دارالجلال وغیرہ کا اور ضافہ فرمایا ہے چونکہ لوگوں کے اپنے اپنے اعمال کی وجہ سے مراتب مختلف ہوں گے ۔ اس لئے جنت میں بھی مختلف مراتب اور مختلف درجات عطاء کئے جائیں گے۔ یہ ہوسکتا ہے کہ جنت ایک ہی ہو اور اس کے مختلف درجات کے نام مختلف ہوں ۔ جیسا کہ اہل تحقیق کا قول یہ ہے ۔ حضرت شاہ عبد القادر صاحب (رح) فرماتے ہیں ۔ یعنی جنت کے ہر میوے کا مزہ جدا ہے اگرچہ صورت ملتی ہو صورت دیکھ کر جائیں گے کہ وہ ہی قسم ہے جو کھاچکے ہیں اور چکھیں گے تو مزہ جدا پاویں گے۔ (تسہیل)