RemotivityVerb

وَبَشِّرِ

And give good news

اور خوش خبری دو

Verb Form 2
Perfect Tense Imperfect Tense Imperative Active Participle Passive Participle Noun Form
اِسْتَبْشَرَ
يَسْتَبْشِرُ
اِسْتَبْشِرْ
مُسْتَبْشِر
مُسْتَبْشَر
اِسْتِبْشَار
Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلْبَشَرَۃُ کے معنی انسان کے جلد کی اوپر کی سطح اور اَدَمَۃٌ کے معنی باطنی سطح کے ہیں۔ عام ادباء کا یہی قول ہے مگر ابوزید(1) نے اس کے برعکس کہا ہے چنانچہ ابوالعباس وغیرہ نے ان کی تروید کی ہے۔ (2) بَشَرۃ کی جمع بَشَرٌ وَاَبْشَارٌ آتی ہے اور اسی سے انسان کو بشر کہا جاتا ہے کہ اس کی جلد بالوں سے صاف ہوتی ہے اس کے برعکس دیگر حیوانات کی کھال پر او، بال یا پشم ہوتی ہے۔ لفظ بَشَرٌ واحد اور جمع دونوں کے لیے برابر طور پر استعمال ہوتا ہے اس کا تثنیہ بَشَرَیْنِ ہے۔ جیسے فرمایا: (اَنُؤۡمِنُ لِبَشَرَیۡنِ مِثۡلِنَا ) (۲۳:۴۷) کیا ہم اپنے جیسے دو آدمیوں پر ایمان لے آئیں۔ اور قرآن پاک میں جہاں کہیں انسان کی جسمانی بناوٹ اور ظاہری جسم کا لحاظ کیا ہے تو ایسے موقع پر خاص کر اسے بَشَر کہا گیا ہے، جیسے فرمایا: (وَ ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ مِنَ الۡمَآءِ بَشَرًا ) (۲۵:۵۴) اور وہی تو ہے جس نے پانی سے آدمی پیدا کیا۔ (اِنِّیۡ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنۡ طِیۡنٍ ) (۳۸:۷۱) کہ میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں۔ کفار، انبیاء علیہم السلام کی کسر شان کے لیے ان کو بَشَرٌ کہہ کر پکارتے تھے، جیسے: (اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّا قَوۡلُ الۡبَشَرِ ) (۷۴:۲۵) یہ (خدا) کا کلام نہیں بلکہ بشر کا کلام ہے۔ (اَبَشَرًا مِّنَّا وَاحِدًا نَّتَّبِعُہٗۤ ) (۵۴:۲۴) بھلا ہم ایک ہے آدمی کی جو ہم ہی میں سے ہے۔ (مَاۤ اَنۡتُمۡ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُنَا ) (۳۶:۱۵) کہ تم (اور کچھ) نہیں مگر ہماری طرح کے آدمی (ہو) (اَنُؤۡمِنُ لِبَشَرَیۡنِ مِثۡلِنَا ) (۲۳:۴۷) کیا ہم اپنے جیسے دو آدمیوں پر ایمان لے آئیں۔ (فَقَالُوۡۤا اَبَشَرٌ یَّہۡدُوۡنَنَا ) (۶۴:۶) تو یہ کہتے کہ کیا آدمی ہمارے ہادی بنتے ہیں۔ چنانچہ قرآن پاک نے: (اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثۡلُکُمۡ ) (۱۸:۱۱۰) کہ میں تمہاری طرح کا ایک بشر ہوں، کہہ کر اس حقیقت اک اعتراف کیا کہ بلاشبہ بشری تقاضوں میں سب انسان برابر ہیں مگر معارف جلیلہ اور اعمال جمیلہ کے لحاظ سے ان میں تفاوت رتبی پایا جاتا ہے اور اﷲ تعالیٰ جسے چاہتا ہے ان معارف و اعمال کے ساتھ مخصوص فرماکر سرفراز کردیتا ہے۔ چنانچہ جملہ یُوْحٰی اِلَیَّ میں اس حقیقت پر تنبیہ کی ہے کہ میں تم سے صرف وحی الٰہی کے ساتھ ممتاز ہوں۔ (وَّ لَمۡ یَمۡسَسۡنِیۡ بَشَرٌ) (۱۹:۲۰) مجھے کسی بشر نے چھوا تک نہیں۔ میں خاص کر مس بشر کی نفی کی ہے اور آیت کریمہ: (فَتَمَثَّلَ لَہَا بَشَرًا سَوِیًّا) (۱۹:۱۷) تو وہ ان کے سامنے ٹھیک آدمی کی شکل بن گیا میں تَمَثَّلَ کا فاعل فرشتہ ہے اور اس میں تنبیہ کی ہے کہ فرشتہ خوبصورت انسان کی شکل میں ان کے سامنے ظاہر ہوا تھا اور آیت کریمہ: (مَا ہٰذَا بَشَرًا) (۱۲:۳۱) یہ آدمی نہیں۔ میں بشریت کی نفی مقصود نہیں ہے بلکہ یوسف علیہ السلام کی عظمت اور بزرگی کو ظاہر کرنا ہے کہ یہ تو اس سے بلند و اشرف معلوم ہوتے ہیں کہ انسانی جوہر سے مرکب ہو۔ بَشَرْتُ الْاَدِیْمَ: میں نے کھال کی ظاہری سطح کو چھیل دیا جیساکہ اَنَفْتُ وَرَجَلْتُ کا محاورہ ہے اسی سے بَشَرَ الْجَرَادُ الْاَرْضَ ہے جس کے معنی ٹڈی کے زمین کی روئیدگی کو چٹ کرجانے کے ہیں۔ اَلْمُبَاشَرَۃُ کے اصل معنی تو ایک کی جلد کو دوسرے کی جلد کے ساتھ ملانا کے ہیں مگر کنایۃً عورت سے مجامعت کرنا کے معنی میں آجاتا ہے، جیسے فرمایا: (وَ لَا تُبَاشِرُوۡہُنَّ وَ اَنۡتُمۡ عٰکِفُوۡنَ ) (۲:۱۸۷) اور جب تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو تو ان سے مباشرت نہ کرو۔ (فَالۡـٰٔنَ بَاشِرُوۡہُنَّ ) (۲:۱۸۷) اب (تم کو اختیار ہے کہ) ان سے مباشرت کرلو۔ فُلَانٌ مُؤْدَمٌ مُبْشَرٌ فلاں ظاہر و باطن کے لحاظ سے اچھا ہے۔ اصل میں یہ محاورہ اَبْشَرَہُ اﷲُ وَاٰدَمَہٗ سے ماخوذ ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ اﷲ تعالیٰ اس کی کھال کے طاہر و باطن کو اچھا کرے، پھر ہر اس کامل شخص کو جو ظاہری و باطنی خوبیوں کا ملک ہو۔ اسے مُؤْدَمٌ وَمُبْشَرٌ کہہ دیتے ہیں۔ بعض نے اس کے معنی کیے ہیں۔ اس کا اَدْمَۃ (باطن) نرم اور بشرہ (ظاہر) سخت ہے۔ اَبْشَرْتُ الرَّجُلَ وَبَشَّرْتُہٗ۔ خوشخبری پہنچانا۔ خوش کن خبر سنانا جس یس انسان کے چہرہ پر انبساط ظاہر ہو کیونکہ انسان کو جب کوئی اچھی خبر سنائی جاتی ہے تو اس کے جسم میں (وفور مسرت سے) خون اس طرح دورہ کرنے لگتا ہے جیسے درختوں میںپانی، اس لیے التبشیر کے معنی ہیں اس قسم کی خبر سنانا جسے سُن کر چہرہ شدت فرحت سے ٹمٹما اٹھے۔ مگر ان کے معانی میں قدرے فرق پایا جاتا ہے۔ تبشیر میں کثرت کے معنی ملحوظ ہوتے ہیں۔ اور بَشَرْتُہٗ (مجرد) عام ہے جو اچھی و بری دونوں قسم کی خبر پر بولا جاتا ہے۔ اور اَبْشَرْتُہٗ فَاَبْشَرَ (یعنی وہ خوش ہوا) اور آیت کریمہ: (اِنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکِ ) (۳:۴۵) کہ خدا تم کو اپنی طرف سے بشارت دیتا ہے، میں ایک قرأت یَبْشُرُکِ وَیُبْشِرُکِ ہے نیز فرمایا: (قَالُوۡا لَا تَوۡجَلۡ اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلٰمٍ عَلِیۡمٍ ﴿۵۳﴾ قَالَ اَبَشَّرۡتُمُوۡنِیۡ عَلٰۤی اَنۡ مَّسَّنِیَ الۡکِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُوۡنَ ﴿۵۴﴾ قَالُوۡا بَشَّرۡنٰکَ بِالۡحَقِّ ) (۱۵:۵۳۔۵۵) مہمانوں نے کہا ڈرئیے نہیں ہم آپ کو ایک دانشمند بیٹے کی خوشخبری دینے لگے، اب کاہے کی خوشخبری دیتے ہو، انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو سچی خوشخبری دیتے ہیں۔ (فَبَشِّرۡ عِبَادِ ) (۳۹:۱۷) تو میرے بندوں کو بشارت سنادو۔ (فَبَشِّرۡہُ بِمَغۡفِرَۃٍ ) (۳۶:۱۱) سو اس کو مغفرت کی بشارت سنادو۔ اِسْتَبْشَرَ کے معنی خوش ہونے کے ہیں۔ قرآن پاک میں ہے: (وَ یَسۡتَبۡشِرُوۡنَ بِالَّذِیۡنَ لَمۡ یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ مِّنۡ خَلۡفِہِمۡ ) (۳:۱۷۰) اور جو لوگ ا نکے پچیھے رہ گئے (اور شہید ہوکر) ان میں شامل نہیں ہوسکے، ا نکی نسبت خوشیاں منارہے یہں۔ (یَسۡتَبۡشِرُوۡنَ بِنِعۡمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ فَضۡلٍ) (۳:۱۷۱) اور خدا کے انعامات اور فضل سے خوش ہورہے ہیں۔ (وَ جَآءَ اَہۡلُ الۡمَدِیۡنَۃِ یَسۡتَبۡشِرُوۡنَ ﴿۶۷﴾ ) (۱۵:۶۷) اور اہل شہر (لوط کے پاس) خوش خوش (دوڑے) آئے۔ اور خوش کن خبر کو بشَارۃ اور بُشریٰ کہا جاتا ہے۔ چنانچہ فرمایا: (لَہُمُ الۡبُشۡرٰی فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ فِی الۡاٰخِرَۃِ ) (۱۰:۶۴) ا ن کے لیے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی۔ (لَا بُشۡرٰی یَوۡمَئِذٍ لِّلۡمُجۡرِمِیۡنَ ) (۲۵:۲۲) اس دن گنہگاروں کے لیے کوئی خوشی کی بات نہیں ہوگی۔ (وَ لَمَّا جَآءَتۡ رُسُلُنَاۤ اِبۡرٰہِیۡمَ بِالۡبُشۡرٰی ) (۲۹:۳۱) اور جب ہمارے فرشتے ابراہیم علیہ السلام کے پاس خوشخبری لے کر آئے۔ (یٰبُشۡرٰی ہٰذَا غُلٰمٌ ) (۱۲:۱۹) زہے قسمت یہ تو (حسین) لڑکا ہے۔ (وَ مَا جَعَلَہُ اللّٰہُ اِلَّا بُشۡرٰی لَکُمۡ ) (۳:۱۲۶) اور اس مدد کو تو خدا نے تمہارے لیے (ذریعۂ بشارت) بنایا۔ اَلْبَشِیْرُ: خوشخبری دینے والا۔ قرآن پاک میں ہے: (فَلَمَّاۤ اَنۡ جَآءَ الۡبَشِیۡرُ اَلۡقٰىہُ عَلٰی وَجۡہِہٖ فَارۡتَدَّ بَصِیۡرًا ) (۱۲:۹۶) جب خوشخبری دینے والا آپہنچا تو کرتہ یعقوب کے منہ پر ڈال دیا اور وہ بینا ہوگئے۔ اور آیت کریمہ: (وَ مِنۡ اٰیٰتِہٖۤ اَنۡ یُّرۡسِلَ الرِّیَاحَ مُبَشِّرٰتٍ ) (۳۰:۴۶) کہ ہواؤں کو بھیجتا ہے کہ خوشخبری دیتی ہیں(3) میں مُبَشِّرَات سے مراد بارش کی خوشخبری دینے والی ہوائیں ہیں۔ اور حدیث: (4) (۲۹) اِنْقَطَعَ الْوَحْیُ وَلَمْ یَبْقَ اِلَّا الْمُبَشِّرَاتُ (کہ وحی منقطع ہوگئی اور مبشرات باقی رہ گئیں) میں مُبَشِّرَاتِ سے مومن کی سچی خوابیں مراد ہیں جیساکہ بعد وَھِیَ الرُّؤْیَا الصَّالِحَۃُ الَّتِیْ یَرَاھَا الْمُؤْمِنُ اَوْ تُریٰ لَہٗ سے اس کی تشریح فرمائی ہے اور آیاتِ کریمہ : (فَبَشِّرۡہُمۡ بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ ) (۹:۳۴) ان کو عذاب الیم کی خوشخبری سنادو۔ (بَشِّرِ الۡمُنٰفِقِیۡنَ بِاَنَّ لَہُمۡ ) (۴:۱۳۸) (اے پیغمبر) منافقون (یعنی دوزخی لوگوں) کو بشارت دو کہ ان کے لیے (وَ بَشِّرِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ ) (۹:۳) اور (اے پیغمبر) کافروں کو دکھ دینے والے عذاب کی خوشخبری سنادو۔ میں تبشیر کے لفظ سے تنبیہ کی ہے کہ سب سے بہتر خوش کن خبر جو وہ سن سکتے ہیں، وہ عذاب الیم ہے جس میں وہ قیامت کے روز گرفتار ہوں گے۔ اور عذاب کے مستعلق بَشِّرْ کا لفظ بطور تہکم استعمال ہوا ہے، جیساکہ (5) ع (وافر) (۵۳) تَحِیَّۃُ بَیْنِھِمْ ضَرْبٌ وَجِیْعٌ۔ (ان کا باہمی سلام دردناک ضرب لگانا ہے۔) میں ضرب وجیع کے متعلق تحیۃ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ (6) اور آیت کریمہ: (قُلۡ تَمَتَّعُوۡا فَاِنَّ مَصِیۡرَکُمۡ اِلَی النَّارِ ) (۱۴:۳۰) کہہ دو کہ (چند روز) فائدے اٹھالو آخرکار تم کو دوزخ کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ میں لفظ تَمَتُّعٌ بھی ایسے ہی مفہوم کے پیش نظر آیا ہے، نیز فرمایا: (وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُہُمۡ بِمَا ضَرَبَ لِلرَّحۡمٰنِ مَثَلًا ظَلَّ وَجۡہُہٗ مُسۡوَدًّا وَّ ہُوَ کَظِیۡمٌ ) (۴۳:۱۷) حالانکہ جب ان میں سے کسی کو اس چیز کی خوشخبری دی جاتی ہے جو جو انہوں نے خدا کے لیے بیان کی ہے تو اس کا منہ سیاہ ہوجاتا ہے اور وہ غم سے بھرجاتا ہے۔ اَبْشَرَ کے معنی ہیں اس نے بشرت کو پایا جیسے اَبْقَلَ وَاَمْحَلَ یعنی اس نے بقل اور محل یعنی خشک سالی کو پایا قرآن پاک میں ہے: (وَ اَبۡشِرُوۡا بِالۡجَنَّۃِ الَّتِیۡ کُنۡتُمۡ تُوۡعَدُوۡنَ ) (۴۱:۳۰) اور اس بہشت کی خوشی مناؤ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے۔ اَبْشَرَتِ الْاَرْضُ کے معنی ہیں زمین سبزہ زار ہوگئی اور خوش نظر آنے لگی۔ اسی سے حضرت ابن مسعود کا قول ہے۔ (7) (۳۰) مَنْ اَحَبَّ الْقُرْآنَ فَلْیَبْشِرْ کہ جسے قرآن سے محبت ہے اسے خوش ہونا چاہیے۔ فَرَّاء کا قول ہے(8) کہ اگر شین مشدد (یعنی باب تفعیل سے) ہو تو بُشْریٰ سے ہوگا اور اگر خفیہ یعنی مجرد سے ہو تو بمعنی سرور ہوگا جیسے محاورہ ہے: بَشَرْتُہٗ فَبُشِرَ مثل جَبَرْتُہٗ فَجُبِرَ سیبویہ نے کہا ہے(9) کہ بَشَرْتُہٗ کا مطاوع اَبْشَرَ بھی آجاتا ہے۔ مگر ابن قتیبہ کی رائے ہے کہ یہاں یعنی حدیث میں فَلْیَبْشِرْ کا لفظ بَشَرْتُ الْاَدِیْمَ سے ماخوذ ہے جس کے معنی کھال کو چھیلنا کے ہیں۔ لہٰذا فَلْیَبْشِرْ کے معنی ہوئے تو اسے چاہیے کہ اپنے آپ کو کمزور اور دبلا کرے۔ (10) جیساکہ مروی ہے: (۳۱) اِنَّ وَرَائَ نَا عَقَبَۃٌ لَا یَقْطَعُھَا اِلَّا الضُّمَّرُ مِنَ الرِّجَالِ۔ کہ ہمارے سامنے ایک گھاٹی ہے جسے دبلے آدمی ہی عبور کرسکیں گے اور شاعر کا قول(11) (۵۴) فَاَعِنْھُمْ وَاَبْشِرْ بِمَا بُشِرُوْا بِہٖ، وَاِذَاھُمْ نَزَلُوْا بِضَنْکِ فَانْزِلٖ۔ (ان کی مدد کرو اور جو چیز انہیں خوش لگتی ہو اسی پر خوش رہو اور جب وہ کسی تنگ مقام پر نازل ہوں تو تم بھی وہاں اتر پڑو۔ پہلے معنی یعنی قراء کے قول پر محمول یہ۔ تَبَاشِیْرُ الْوَجْہِ وَبِشْرُہٗ چہرے پر خوشی کے آثار۔ خوش روئی۔ تَبَاشِیْرُ الصُّبْحِ: آغاز صبح تَبَاشِیْرُ النَّخْلِ: کھجور کا پہلا پختہ پھل۔ بُشّریٰ وبُشارۃ وہ عطیہ (یا انعام) جو بشارت دینے والے کو دیا جائے۔

Lemma/Derivative

38 Results
بُشِّرَ
Surah:2
Verse:25
اور خوش خبری دو
And give good news
Surah:2
Verse:155
اور خوشخبری دے دو
but give good news
Surah:2
Verse:223
اور خوشخبری دے دو
And give glad tidings
Surah:3
Verse:21
تو بشارت دو ان کو۔ خوش خبری دو ان کو
then give them tidings
Surah:3
Verse:39
بشارت دیتا ہے تجھ کو
gives you glad tidings
Surah:3
Verse:45
خوش خبری دیتا ہے
gives you glad tidings
Surah:4
Verse:138
بشارت دے دو
Give tidings
Surah:9
Verse:3
اور خوش خبری دے دو
And give glad tidings
Surah:9
Verse:21
خوش خبری دیتا ہے ان کو
Their Lord gives them glad tidings
Surah:9
Verse:34
پس خوش خبری دے دو ان کو
[so] give them tidings