ConjunctionVerb

وَٱسْتَكْبَرَ

and was arrogant

اور بڑا بننا چاہا

Verb Form 10
Perfect Tense Imperfect Tense Imperative Active Participle Passive Participle Noun Form
اِسْتَكْبَرَ
يَسْتَكْبِرُ
اِسْتَكْبِرْ
مُسْتَكْبِر
-
اِسْتِكْبَار
Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

کبیر اور صغیر اسمائے اضافیہ سے ہیں جن کے معانی ایک دوسرے کے لحاظ سے متعین ہوتے ہیں۔چنانچہ ایک ہی چیز دوسری کے مقابلہ میں صغیر ہوتی ہے لیکن وہی شے ایک اور کے مقابلہ میں کبیر کہلاتی ہے اور قلیل و کثیر کی طرح کبھی تو ان کا استعمال کمیت متصلہ یعنی اجسام میں ہوتا ہے۔اور کبھی کمیتہ منفصلہ یعنی عدد میں ۔اور بعض اوقات کثیر اور کبیر دو مختلف جہتوں کے لحاظ سے ایک ہی چیز پر بولے جاتے ہیں۔چنانچہ فرمایا۔ (قُلۡ فِیۡہِمَاۤ اِثۡمٌ کَبِیۡرٌ ) (۲۔۲۱۹) کہہ دو کہ ان میں نقصان بڑے ہیں کہ اس میں ایک قرأت کثیر بھی ہے۔یہ اصل وضع کے لحاظ سے تو اعیان میں ہی استعمال ہوتے ہیں لیکن استعارہ کے طور پر معانی پر بھی بولے جاتے ہیں۔چنانچہ فرمایا: (لَا یُغَادِرُ صَغِیۡرَۃً وَّ لَا کَبِیۡرَۃً اِلَّاۤ اَحۡصٰہَا ) (۱۸۔۴۹) کہ نہ چھوٹی بات کو چھوڑتی ہے اور نہ بڑی کو (کوئی بات بھی نہیں) مگر اسے گن رکھا ہے۔ (وَ لَاۤ اَصۡغَرَ مِنۡ ذٰلِکَ وَ لَاۤ اَکۡبَرَ) (۱۰۔۶۱) اور نہ کوئی چیز اس سے چھوٹی ہے نہ بڑی۔اور آیت کریمہ: (یَوْمَ الْحَجِّ الْاَکْبَرِ) (۹۔۳) اور حج اکبر کے دن …… میں حج کو اکبر کہہ کر متنبہ کیا ہے کہ عمرہ حج اصغر ہے۔جیسا کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے۔ (اَلْعُمْرَۃُ ہِیَ الْحَجُّ الْاَصْغَرُ کہ عمرہ حج اصغر ہے۔اور کبھی بڑائی بلحاظ زمانہ مراد ہوتی ہے چنانچہ محاورہ ہے۔فُلَانٌ کَبِیْرٌ کہ فلاں سن رسیدہ ہے اور قرآن پاک میں ہے۔ (اِمَّا یَبۡلُغَنَّ عِنۡدَکَ الۡکِبَرَ اَحَدُہُمَاۤ ) (۱۷۔۲۳) اگرا ن میں سے ایک تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائے۔ (وَاَصَابَہُ الْکِبَرُ) (۲۔۲۶۶) اور اسے بڑھاپا آپکڑے۔ (وَّقَدْ بَلَغَنِیَ الْکِبَرُ) (۳۔۴۰) کہ میں تو بوڑھا ہوگیا ہوں۔اور کبھی بڑائی بلحاظ مرتبہ اور رفعت کے ملحوظ ہوتی ہے چنانچہ قرآن پاک میں ہے: (قُلۡ اَیُّ شَیۡءٍ اَکۡبَرُ شَہَادَۃً ؕ قُلِ اللّٰہُ ۟ ۙ شَہِیۡدٌۢ بَیۡنِیۡ وَ بَیۡنَکُمۡ) (۶۔۱۹) ان سے پوچھو کہ سب سے بڑھ کر (قرین انصاف) کس کی شہادت ہے کہہ دو کہ خدا ہی مجھ میں اور تم میں گواہ ہے۔ (اَلْکَبِیْرُ الْمُتَعَالِ) (۱۳۔۹) سب سے بزرگ اور عالی رتبہ ہے۔اور آیت: (فَجَعَلَہُمۡ جُذٰذًا اِلَّا کَبِیۡرًا لَّہُمۡ) (۲۱۔۵۸) پس ان کو توڑ کر ریزہ ریزہ کردیا مگر ایک بڑے (بت) کو (نہ توڑا) ۔میں صنم کو کبیر کہنا اس کی حقیقی قدرومنزلت کے لحاظ سے نہیں ہے۔بلکہ ان کے اعتقاد کی بنیاد پر ہے۔اور آیت۔ (بَلۡ فَعَلَہٗ کَبِیۡرُہُمۡ ہٰذَا) (۲۱۔۳۶) بلکہ یہ ان کے بڑے (بت) نے کیا (ہوگا) بھی اس معنی پر محمول ہے۔اور آیت: (وکذلک …… مجرمیھا) (۶۔۱۲۳) اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں بڑے بڑے مجرم پیدا کئے۔میں اکابر سے وہاں کے رؤساء مراد ہیں اسی طرح آیت: (انہ …… السحر) (۲۰۔۷۱) بے شک وہ تمہارا بڑا (یعنی استاد) ہے جس نے تم کو جادو سکھایا۔میں بھی کبیر بمعنی رئیس ہی ہے۔اور اس معنی میں مشہور محاورہ ہے۔ (وَرِثَہ کَابِرًا عَنْ کَابِرٍ) یعنی یہ چیز اسے بلند مرتبہ آباؤ اجداد سے ورثہ میں حاصل ہوئی ہے۔ اَلْکَبِیْرَۃُ:عرف میں اس گناہ کو کہتے ہیں جس کی سزا بڑی سخت ہو۔اس کی جمع اَلْکَبَائِرُ آتی ہے چنانچہ قرآن پاک میں ہے۔ (اَلَّذِیۡنَ یَجۡتَنِبُوۡنَ کَبٰٓئِرَ الۡاِثۡمِ وَ الۡفَوَاحِشَ اِلَّا اللَّمَمَ) (۵۳۔۳۲) جو صغیرہ گناہوں کے سوا بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کی باتوں سے اجتناب کرتے ہیں۔ا ور آیت۔ (اِنۡ تَجۡتَنِبُوۡا کَبَآئِرَ مَا تُنۡہَوۡنَ عَنۡہُ ) (۴۔۳۱) اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے جن سے تم کو منع کیا جاتا ہے اجتناب رکھو۔میں بعض نے کہا ہے کہ کبائر سے مراد شرک ہے۔کیونکہ دوسری آیت: ( اِنَّ الشِّرۡکَ لَظُلۡمٌ عَظِیۡمٌ) (۳۱۔۱۳) شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے۔میں شرک کو ظلم عظیم کہا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ کبائر کا لفظ۔شرک اور تمام مہلک گناہوں کو شامل ہے۔جیسے زنا اور کسی جان کا ناحق قتل کرنا جیسا کہ فرمایا: ( اِنَّ قَتۡلَہُمۡ کَانَ خِطۡاً کَبِیۡرًا) (۱۷۔۳۱) کچھ شک نہیں کہ ان کا مارڈالنا بڑا سخت گناہ ہے۔ (قُلۡ فِیۡہِمَاۤ اِثۡمٌ کَبِیۡرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ ۫ وَ اِثۡمُہُمَاۤ اَکۡبَرُ مِنۡ نَّفۡعِہِمَا) (۲۔۲۱۹) کہہ دو کہ ان میں نقصان بڑے ہیں اور لوگوں کے لئے کچھ فائدے بھی ہیں۔مگر ان کے نقصان فائدوں سے زیادہ ہیں۔اور کبیرۃ اس عمل کو بھی کہتے ہیں جس میں مشقت اور صعوبت ہو۔چنانچہ فرمایا۔ (وَ اِنَّہَا لَکَبِیۡرَۃٌ اِلَّا عَلَی الۡخٰشِعِیۡنَ ) (۲۔۴۵) بے شک نماز گراں ہے مگر ان لوگوں پر نہیں جو عجز کرنے والے ہیں۔ (کَبُرَ عَلَی الۡمُشۡرِکِیۡنَ مَا تَدۡعُوۡہُمۡ اِلَیۡہِ) (۴۲۔۱۳) جس چیز کی طرف تم مشرکوں کو بلاتے ہو وہ ان کو دشوار گزرتی ہے۔ (وَ اِنۡ کَانَ کَبُرَ عَلَیۡکَ اِعۡرَاضُہُمۡ) (۶۔۳۵) اور اگر ان کی ردگردانی تم پر شاق گزرتی ہے اور آیت: (کَبُرَتْ کَلِمَۃَ) (۱۸۔۵) یہ بڑی بات ہے۔میں اس گناہ کے دوسرے گناہوں سے بڑا اور اس کی سزا کے سخت ہونے پر تنبیہ پائی جاتی ہے۔جیسے فرمایا: (کَبُرَ مَقۡتًا عِنۡدَ اللّٰہِ ) خدا اس بات سے سخت بیزار ہے۔ (۶۱۔۳) اور آیت۔ (وَ الَّذِیۡ تَوَلّٰی کِبۡرَہٗ ) (۲۴۔۱۱) اور جس نے ان میں سے اس بہتان کا بڑا بوجھ اٹھایا۔میں تَوَلَّی کِبْرَہٗ سے مراد وہ شخص ہے جس نے افک کا شاخسانہ کھڑا کیا تھا اور اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جو شخص کسی برے طریقے کی بنیاد ڈالے اور لوگ اس پر عمل کریں تو وہ سب سے بڑھ کر گنہگار ہوگا۔اور آیت۔ ( اِلَّا کِبۡرٌ مَّا ہُمۡ بِبَالِغِیۡہِ ) (۴۰۔۵۶) (ارادہ) عظمت ہے اور اس کو پہنچنے والے نہیں۔میں کَبْرٌ کے معنیہ بھی تکبر ہی کے ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ اس سے ہر بڑا امر مراد ہے اور یہ کبر بمعنی پیرا نہ سالی سے ماخوذ ہے جیسا کہ آیت: (وَالَّذِیْ تَوَلّٰی کِبْرَہ) میں ہے۔اور (اَلْکِبْرُ وَالتَّکَبُّرُوَالْاِسْتِکْبَارُ کے معنی قریب قریب ایک ہی ہیں پس کبر وہ حالت ہے جس کے سبب سے انسان عجب میں مبتلا ہوجاتا ہے اور عجب یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو دوسروں سے بڑا خیال کرے اور سب سے بڑا تکبر قبول حق سے انکار اور عبادت سے انحراف کرکے اﷲ تعالیٰ پر تکبر کرنا ہے۔ (1) ۔ اَلْاِسْتِکْبَارُ: (استفعال) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ایک یہ کہ انسان بڑا بننے کا قصد کرے۔اور یہ بات اگر منشائے شریعت کے مطابق اور برمحل ہو اور پھر ایسے موقع پر ہو۔جس پر تکبر کرنا انسان کو سزاوار ہے تو محمود ہے۔دوم یہ کہ انسان جھوٹ موٹ بڑائی کا اظہار کرے اور ایسے اوصاف کو اپنی طرف منسوب کرے جو اس میں موجود نہ ہوں۔یہ مذموم ہے اور قرآن پاک میں یہی دوسرا معنی مراد ہے۔فرمایا۔ (اَبٰی وَاسْتَکْبَرَا) (۲۔۳۴) مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آگیا۔ (اَفَکُلَّمَا جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌۢ بِمَا لَا تَہۡوٰۤی اَنۡفُسُکُمُ اسۡتَکۡبَرۡتُمۡ ) (۲۔۸۷) تو جب کوئی پیغمبر تمہارے پاس ایسی باتیں لے آئے جن کو تمہارا جی نہیں چاہتا تھا تم سرکش ہوجاتے رہے۔ (وَ اَصَرُّوۡا وَ اسۡتَکۡبَرُوا اسۡتِکۡبَارًا) (۷۱۔۷) اور اڑگئے اور اکڑبیٹھے۔ (اسۡتِکۡـبَارًا فِی الۡاَرۡضِ ) (۳۵۔۴۳) یعنی انہوں نے ملک میں غرور کرنا۔ (فَاسۡتَکۡبَرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ) (۲۹۔۳۹) تو وہ ملک میں مغرور ہوگئے۔ (تَسۡتَکۡبِرُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ بِغَیۡرِ الۡحَقِّ ) (۴۶۔۲۰) کہ تم زمین میں ناحق غرور کیا کرتے تھے۔ (اِنَّ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا وَ اسۡتَکۡبَرُوۡا عَنۡہَا) (۷۔۴۰) جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان سے سرتابی کی۔ (مَاۤ اَغۡنٰی عَنۡکُمۡ جَمۡعُکُمۡ وَ مَا کُنۡتُمۡ تَسۡتَکۡبِرُوۡنَ ) (۷۔۴۸) (آج) نہ تو تمہاری جماعت ہی تمہارے کسی کام آئی اور نہ ہی تمہارا تکبر سودمند ہوا۔اور آیت کریمہ: (فَیَقُوۡلُ الضُّعَفٰٓؤُا لِلَّذِیۡنَ اسۡتَکۡبَرُوۡۤا ) (۴۰۔۴۷) تو ادنیٰ درجے کے لوگ بڑے آدمیوں سے کہیں گے میں متکبرین کے مقابلہ میں ضعفاء کا لفظ لانے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ ان کا استکبار بدنی اور مالی قوت کے حاصل ہونے کی وجہ سے تھا۔اسی طرح آیت۔ (قَالَ الۡمَلَاُ الَّذِیۡنَ اسۡتَکۡبَرُوۡا مِنۡ قَوۡمِہٖ لِلَّذِیۡنَ اسۡتُضۡعِفُوۡا) (۷۔۷۵) تو ان کی قوم کے سردار لوگ جو غرور رکھتے تھے غریب لوگوں سے …… ۔کہنے لگے۔میں بھی متکبرین مستضعفین کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور آیت۔ (فَاسۡتَکۡبَرُوۡا وَ کَانُوۡا قَوۡمًا مُّجۡرِمِیۡنَ) (۱۰۔۷۵) تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ گنہگار لوگ تھے۔میں لفظ فَاسْتَکْبَرُوْا سے اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ انہوں نے قبول حق کے سلسلہ میں تکبر، خودپسندی اور نخوت سے کام لیا اور پھر وہ کَانُوْا قَوْمًا مُجْرِمِیْنَ کہہ کر یہ بتایا ہے کہ ان کے سابقہ جرائم نے ہی انہیں تکبر پر اکسایا تھا۔اور یہ تکبر ان کے لئے کوئی نئی بات نہ تھی۔ بلکہ ان کا شیوہ بن چکا تھا۔اور فرمایا: (فَالَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَۃِ قُلُوۡبُہُمۡ مُّنۡکِرَۃٌ وَّ ہُمۡ مُّسۡتَکۡبِرُوۡنَ ) (۱۶۔۲۲) تو جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل انکار کررہے ہیں اور وہ سرکش ہورہے ہیں۔اس کے بعد دوسری آیت میں فرمایا: ( اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الۡمُسۡتَکۡبِرِیۡنَ ) (۱۶۔۲۳) وہ (خدا) سرکشوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔ اَلتَّکَبُّرُ:اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ایک یہ کہ فی الحقیقت کسی کے افعال حسنہ زیادہ ہوں اور وہ ان پر دوسروں سے بڑھاہوا ہو۔اسی معنی میں اﷲ تعالیٰ صفت تکبر کے ساتھ متصف ہوتا ہے چنانچہ فرمایا: (الۡعَزِیۡزُ الۡجَبَّارُ الۡمُتَکَبِّرُ) (۵۹۔۲۳) غالب زبردست بڑائی والا۔دوم یہ کہ کوئی شخص صفات کمال کا ادعاء کرے لیکن فی الواقع وہ صفات حسنہ سے عاری ہو اس معنی کے لحاظ سے یہ انسان کی صفت بن کر استعمال ہوا ہے۔چنانچہ فرمایا ہے: (فَبِئۡسَ مَثۡوَی الۡمُتَکَبِّرِیۡنَ ) (۴۰۔۷۶) متکبروں کا کیا برا ٹھکانا ہے۔ (کَذٰلِکَ یَطۡبَعُ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ قَلۡبِ مُتَکَبِّرٍ جَبَّارٍ) (۴۰۔۳۵) اسی طرح خدا ہر سرکش متکبر کے دل پر مہر لگادیتا ہے۔تو معنی اول کے لحاظ سے یہ صفات محمودہ میں داخل ہے اور معنی ثانی کے لحاظ سے صفت ذم ہے اور کبھی انسان کے لئے تکبر کرنا مذموم نہیں ہوتا جیسا کہ آیت: (سَاَصۡرِفُ عَنۡ اٰیٰتِیَ الَّذِیۡنَ یَتَکَبَّرُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ بِغَیۡرِ الۡحَقِّ) (۷۔۱۴۶) جو لوگ زمین میں ناحق غرور کرتے ہیں ان کو اپنی آیتوں سے پھیردوں گا۔سے معلوم ہوتا ہے کہ تکبر بغیر الحق نہ ہو تو مذموم نہیں ہے۔اور آیت: (عَلٰی کُلِّ قَلۡبِ مُتَکَبِّرٍ جَبَّارٍ) (۴۰۔۳۵) ہر متکبر جابر کے دل پر،میں لفظ قلب متکبر کی طرف مضاف ہے اور بعض نے قلب تنوین کے ساتھ پڑھا ہے اس صورت میں متکبر قلب کی صفت میں ہوگا۔ اَلْکِبْرِیَائُ:اطاعت کیشی کے درجہ سے اپنے آپ کو بلند سمجھنے کا نام کبریاء ہے اور یہ استحقاق صرف ذات باری تعالیٰ کو ہی حاصل ہے۔چنانچہ فرمایا: (وَ لَہُ الۡکِبۡرِیَآءُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ) (۴۵۔۳۷) اور آسمانوں اور زمینوں میں اس کیلئے بڑائی ہے اور اسکا ثبوت اس حدیث قدسی سے بھی ملتا ہے جس میں اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ (2) ۔ (۹۰) (اَلْکِبْرِیَائُ رِدَائِیْ وَالْعَظْمَۃُ اِزَارِیْ فَمَنْ نَازَعَنِیْ فِیْ وَاحِدٍ مِنْھُمَا قَصَمْتُہٗ) کہ کبریاء میری رداء ہے اور عظمت ازار ہے۔جو شخص ان دونوں میں سے کسی ایک میں میرے ساتھ مزاحم ہوگا تو میں اس کی گردن توڑ ڈالوں گا۔اور قرآن پاک میں ہے: (قَالُوۡۤا اَجِئۡتَنَا لِتَلۡفِتَنَا عَمَّا وَجَدۡنَا عَلَیۡہِ اٰبَآءَنَا وَ تَکُوۡنَ لَکُمَا الۡکِبۡرِیَآءُ فِی الۡاَرۡضِ) (۱۰۔۷۸) وہ بولے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ جس (راہ) پر ہم اپنے باپ دادوں کو پاتے رہے ہیں اس سے ہم کو پھیردو اور اس ملک میں تم دونوں ہی کی سرداری ہوجائے۔اَکْبَرْتُ الشَّیْئَ کے معنی کسی چیز کو بڑا خیال کرنے کے ہیں چنانچہ قرآن پاک میں ہے: (فَلَمَّا رَاَیۡنَہٗۤ اَکۡبَرۡنَہٗ ) (۱۲۔۳۱) جب عورتوں نے ان کو دیکھا توان کا رعب ان پر چھاگیا۔ اَلتَّکْبِیْرُ: (تفعیل) اس کے ایک معنی تو کسی کو بڑا سمجھنے کے ہیں۔اور دوم اﷲ اکبر کہہ کر اﷲ تعالیٰ کی عظمت کو ظاہر کرنے پر بولا جاتا ہے اور اﷲ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی عظمت کا احساس کرنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔چنانچہ فرمایا: (وَ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ہَدٰىکُمۡ ) (۲۔۱۸۵) اور اس احسان کے بدلے کہ خدا نے تم کو ہدایت بخشی ہے تم اس کو بزرگی سے یاد کرو۔ (وَکَبِرْہُ تَکْبِیْرَا) (۱۷۔۱۱۱) اور اس کو بڑا جان کر اس کی بڑائی کرتے رہو۔اور آیت: (لَخَلۡقُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ اَکۡبَرُ مِنۡ خَلۡقِ النَّاسِ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ) (۴۰۔۵۷) آسمانوں اور زمینوں کا پیدا کرنا لوگوں کے پیدا کرنے کی نسبت بڑا کام ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔میں اَکْبَرُکے لفظ سے قدرت الہیٰ کی کاریگری اور حکمت کے ان عجائب کی طرف اشارہ فرمایا ہے جو آسمان اور زمین کی خلق میں پائے جاتے ہیں۔اور جن کو کہ وہ خاص لوگ ہی جان سکتے ہیں جن کی وصف میں فرمایا: (وَ یَتَفَکَّرُوۡنَ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ) (۳۔۱۹۱) اور آسمان اور زمین کی پیدائی میں غور کرتے ہیں۔ورنہ ان کی ظاہری عظمت کو تو عوام الناس بھی سمجھتے ہیں (اس لئے یہ معنی یہاں مراد نہیں ہیں) اور آیت: (یَوۡمَ نَبۡطِشُ الۡبَطۡشَۃَ الۡکُبۡرٰی) (۴۴۔۱۶) جس دن ہم بڑی سخت پکڑ پکڑیں گے میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ روز قیامت سے پہلے دنیا یا عالم برزخ میں کافر کو جس قدر بھی عذاب ہوتا ہے عذاب آخرت کے مقابلہ میں ہیچ ہے۔اَلْکُبَّارُ۔اس میں کبیر کے لفظ سے زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے اور کُبَّار (بتشد یدیاء) اس سے بھی زیادہ بلیغ ہے۔چنانچہ فرمایا: (وَ مَکَرُوۡا مَکۡرًا کُبَّارًا) (۷۱۔۲۲) اور وہ بڑی بڑی چالیس چالیس چلے۔

Lemma/Derivative

40 Results
اسْتَكْب
Surah:2
Verse:34
اور بڑا بننا چاہا
and was arrogant
Surah:2
Verse:87
تکبر کیا تم نے
you acted arrogantly?
Surah:4
Verse:172
اور تکبر کرے گا
and is arrogant
Surah:4
Verse:173
اور انہوں نے تکبر کیا
and were arrogant
Surah:5
Verse:82
تکبر کرتے
arrogant
Surah:6
Verse:93
تم تکبر کرتے
being arrogant"
Surah:7
Verse:36
اور تکبر کیا
and (are) arrogant
Surah:7
Verse:40
اور انہوں نے تکبر کیا
and (were) arrogant
Surah:7
Verse:48
تم تکبر کرتے
arrogant (about)"
Surah:7
Verse:75
جنہوں نے تکبر کیا
were arrogant