Noun

كَلِمَٰتٍ

words

کچھ کلمے / چند الفاظ

Verb Form
Perfect Tense Imperfect Tense Imperative Active Participle Passive Participle Noun Form
كَلَّمَ
يُكَلِّمُ
كَلِّمْ
مُكَلِّم
مُكَلَّم
تَكْلِيْم
Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلْکَلْمُ:یہ اصل میں اس تاثر کو کہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے چنانچہ کلام کا ادراک قوت سامعہ کے ساتھ ہوتا ہے:اور کَلْمِ: (زخم) کا ادراک قوت بصر کے ساتھ محاورہ ہے:کَلَمْتُہُ میں نے اسے ایسا زخم لگایا جس کا نشان ظاہر ہوا۔اور چونکہ یہ دونوں (یعنی کلام اور کَلْمِ) معنی تاثیر میں مشترک ہیں۔اس لئے شاعر نے کہا ہے (1) (الکامل) (۳۸۳) (وَالْحِکَمُ الْاَصِیْلُ کَارْعَبِ الْکَلْمٍ اس میں شعر میں پہلا اَلْکَلِم، کلمۃ کی جمع ہے اور دوسرا کَلْمٌ کی جس کے معنی زخم کے ہیں اور اَرْعَبُ کے معنی بہت وسیع کے ہیں پس شعر کے معنی یہ ہیں کہ دل میں لگ جانے والی باتوں کی تاثیر وسیع تر زخموں کی طرح ہوتی ہے اور دوسرے شاعر نے کہا ہے (2) (المتقارب) (۳۸۴) (وَجَرْحُ اللِّسَان کَجَرْحِ الْیَدِ) اور زبان کے زخم بھی ہاتھ کے زخم کے مشابہ ہوتے ہیں۔کَلَامٌ کا اطلاق منظم ومرتب الفاظ اوران کے معانی دونوں کے مجموعہ پرہوتا ہے۔اوراہل نحو کے نزدیک کلام کے ہر جزؤ پر اس کا اطلاق ہوسکتا ہے۔خواہ وہ اسم ہو یا فعل ہو یا حرف۔مگر اکثر متکلمین کے نزدیک صرف جملہ مرکبہ و مفیدہ کو کلام کہا جاتا ہے اور یہ قَوْلٌ سے اخص ہے کیونکہ قَوْلٌ کا لفظ ان کے نزدیک صرف مفرد الفاظ پر بولا جاتا ہے اور کَلِمَۃٌ کا اطلاق انواع ثلاثہ یعنی اسم فعل اور حرف تینوں میں سے ہر ایک پر ہوتا ہے اور بعض نے اس کے برعکس کہا ہے۔قرآن پاک میں ہے: (کَبُرَتۡ کَلِمَۃً تَخۡرُجُ مِنۡ اَفۡوَاہِہِمۡ) (۱۸۔۵) یہ بڑی سخت بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے۔اور آیت کریمہ: (فَتَلَقّٰۤی اٰدَمُ مِنۡ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ ) (۲۔۳۷) پھر آدم نے اپنے پروردگار سے کچھ کلمات سیکھے۔میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں کلمات سے (رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفَسَنَا ) وغیرہ ادعیہ مراد ہیں (3) (۱۰۰) حسن بصریؒ سے مروی ہے کہ ان سے مراد یہ دعا ہے (4) (۱۶) (اَلَمْ تَخْلُقْنِیْ بِیَدِکَ؟ اَلَمْ تُسْکِنِّیْ جَنَّتَکَ ؟ اَلَمْ تُسْجِدْلِیْ مَلآئِتکَتَکَ ؟ اَلَمْ تَسْبِقْ رَحْمَتُکَ غَضَبَکَ ؟ اَرَأ یْتَ اِنْ تُبْتُ اَکُنْتَ مُمِیْدِیْ اِلَی الْجَنَّۃِ ؟) (اے باری تعالیٰ) کیا تو نے مجھے اپنے ہاتھ سے پیدا نہیں کیا؟کیا تو نے مجھے اپنی جنت میں نہیں بسایا؟کیا مجھے مسجود ملائکہ نہیں بنایا؟کیا تیری رحمت تیرے غضب پر سبقت نہیں لے گئی پھر کیا اگر میں توبہ کرلوں تو مجھے جنت میں دوبارہ لوٹاکر نہیں لے جائے گا؟چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کیوں نہیں۔بعض نے کہا ہے کہ کلمات سے مراد وہ امانت ہے جو کہ اﷲ تعالیٰ نے آسمان ،زمین اور پہاڑوں پر پیش کی مگر انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کردیا جس کا ذکر کہ آیت کریمہ: (اِنَّا عَرَضۡنَا الۡاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ الۡجِبَالِ ۔الایۃ) (۳۳۔۷۲) ہم نے (بار) امانت کو آسمانوں اور زمین پر پیش کیا میں آچکا ہے اور آیت کریمہ: (وَ اِذِ ابۡتَلٰۤی اِبۡرٰہٖمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّہُنَّ) (۲۔۱۲۴) اور جب پروردگار نے چند باتوں میں ابراہیمؑ کی آزمائش کی تو وہ ان میں پورے اترے۔میں بعض نے کہا ہے کہ کلمات سے ذبح ولد،ختنہ وغیرہ ایسے کام مراد ہیں جن کے ذریعے اﷲ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کی آزمائش کی تھی اور زکریا علیہ السلام کے متعلق اﷲ تعالیٰ کے فرمان (اَنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکَ بِیَحۡیٰی مُصَدِّقًۢا بِکَلِمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ ) (۳۔۳۹) خدا تمہیں یحیٰی کی بشارت دیتا ہے۔جو خدا کے فیض یعنی عیسیٰ علیہ السلام کی تصدیق کریں گے۔میں بعض نے کہا ہے کہ بکلمۃ سے مراد کلمہ توحید ہے اور بعض نے کتاب اﷲ مراد لی ہے اور بعض نے عیسیٰ علیہ السلام مراد لئے ہیں پس آیت … ۔۔ (۳۔۳۹) اور آیت کریمہ: (وَ کَلِمَتُہٗ ۚ اَلۡقٰہَاۤ اِلٰی مَرۡیَمَ ) (۴۔۱۷۱) اور اسکا کلمہ (بشارت) تھے جو اس نے مریم کی طرف بھیجا تھا۔میں عیسیٰ علیہ السلام کو کلمہ اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ کلمہ کن سے پیدا ہوئے تھے جیسا کہ آیت (اِنَّ مَثَلَ عِیۡسٰی عِنۡدَ اللّٰہِ ) (۳۔۵۹) عیسیٰ علیہ السلام کا حال خدا کے نزدیک۔میں مذکور ہے اور بعض نے کہا ہے کہ لوگوں کے ان کے ذریعہ ہدایت پانے کی وجہ سے انہیں کلمہ کہا گیا ہے جیسا کہ کلام اﷲ کے ذریعہ لوگ ہدایت پاتے ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ یہ اس خصوصی رحمت کے سبب سے ہے جو ان کے بچپنے میں اﷲ تعالیٰ نے ان پر کی تھی۔جبکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ماں کی گود میں لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا۔ (اِنِّیۡ عَبۡدُ اللّٰہِ ۟ ؕ اٰتٰنِیَ الۡکِتٰبَ وَ جَعَلَنِیۡ نَبِیًّا) (۱۹۔۳۰) کہ میں خدا کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی ہے اور نبی بنایا ہے۔بعض نے کہا ہے کہ نبی ہونے کی وجہ سے انہیں کلمۃ اﷲ کہا گیا ہے جیسا کہ آنحضرتﷺ کو رسول اﷲ ہونے کی وجہ سے ذکر کہا گیا ہے اور آیت کریمہ: (وَ تَمَّتۡ کَلِمَتُ رَبِّکَ صِدۡقًا وَّ عَدۡلًا) (۶۔۱۱۵) اور تمہارے پروردگار کی باتیں سچائی اور انصاف میں پوری ہیں۔میں کَلِمَۃ بمعنی قضیہ یعنی فیصلہ کے ہے چنانچہ ہر قضیہ کو خواہ وہ قولی ہو یا فِعْلَیْ کَلِمَۃٌ کہہ سکتے ہیں اور اسے صدق کے ساتھ متصف کرنا اس لئے ہے کہ قول اور فعل دونوں صدق کے ساتھ متصف ہوتے ہیں لہذا تَمَّتْ کَلِمَۃُ رَبِّکَ میں آیت کریمہ: (اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ ) (۵۔۳) اور آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کردیا،کے مضمون کی طرف اشارہ ہوگا اور اس میں متنبہ کیا ہے کہ آج کے بعد شریعت میں ’’نسخٗٗنہیں ہوگا۔بعض نے کہا ہے کہ اس میں آنحضرتﷺ کے اس فرمان کی طرف اشارہ ہے (5) (۱۰۲) (اَوَّلُ مَاخَلَقَ اﷲُ الْقَلَمَ فَقَالَ لَہٗ اَجْرِ بِمَا ھُوَ کَائِنٌ اِلٰی یَوْمِالْقِیَامَۃٍ) کہ سب سے پہلے اﷲ تعالیٰ نے قلم کو پیدا کیا اور اس سے کہا کہ جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے اسے لکھ دو۔الخ۔اور بعض نے کہا ہے کہ کَلِمَۃٌ سے مراد قرآن پاک ہے اور اسے ’’کَلِمَۃٌٗٗکہنا ایسا ہی ہے جیسے قصیدہ کو کلمہ کہا جاتا ہے اور تَمَّتْ سے قرآن پاک کے تاقیامت (تحریف سے) محفوظ) رہنے کی طرف اشارہ ہے اور لفظ ماضی لاکر اس بات کے قطعی ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے اور قرآن پاک کی اسی قسم کی حفاظت کی طرف آیت کریمہ: (فَاِنۡ یَّکۡفُرۡ بِہَا ہٰۤؤُلَآءِ … الایۃ) (۶۔۸۹) اگر یہ کفار ان باتوں سے انکار کریں میں بھی اشارہ پایا جاتا ہے۔بعض نے کہا ہے کہ تَمَّتْ کَلِمَۃُ رَبِّکَ سے ثواب و عقاب کا وعدہ مراد ہے۔جیسا کہ دیگر آیات میں فرمایا: (بَلٰی وَ لٰکِنۡ حَقَّتۡ کَلِمَۃُ الۡعَذَابِ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ) (۳۹۔۷۱) کہیں گے کیوں نہیں لیکن کافروں کے حق میں عذاب کا حکم حق ہوچکا تھا۔ (کَذٰلِکَ حَقَّتۡ کَلِمَتُ رَبِّکَ عَلَی الَّذِیۡنَ فَسَقُوۡۤا) (۱۰۔۳۳) اسی طرح خدا کا ارادہ نافرمانوں کے حق میں ثابت ہوکر رہا۔اوربعض نے کہا ہے کہ کلمات سے معجزات مراد ہیں جو قوم نے طلب کئے تھے اور لفظ تمت سے اس بات پر تنبیہ کی ہے کہ جو آیات بھیجی گئی ہیں وہ اپنی جگہ پر مکمل اور کافی ہیں اور آیت کریمہ: (لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِہٖ ) (۱۸۔۲۷) اس کی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں،میں ان کے اس مطالبہ کی تردید ہے جو آیت: (ائۡتِ بِقُرۡاٰنٍ غَیۡرِ ہٰذَاۤ ) (۱۰۔۱۵) کہ اس کے سوا کوئی اور قرآن (بنا) لاؤ،میں مذکور ہے اور بعض نے کہا ہے کہ تمت کلمۃ ربک سے احکام الہیٰ مراد ہیں اور تمت کے معنی یہ ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے وہی احکام اپنے بندوں کے لئے مشروع کیے ہیں جن میں کہ ان کیلئے کفایت ہے اور آیت کریمہ: (وَ تَمَّتۡ کَلِمَتُ رَبِّکَ الۡحُسۡنٰی عَلٰی بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ ۬ ۙ بِمَا صَبَرُوۡا) (۷۔۱۳۷) اور بنی اسرائیل کے بارے میں ان کے صبر کی وجہ سے تمہارے پروردگار کا وعدہ نیک پورا ہوا۔میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں کلمہ حسنی سے مراد وہ فیصلہ ہے جس کا ذکر کہ آیت: (وَ نُرِیۡدُ اَنۡ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیۡنَ اسۡتُضۡعِفُوۡا) (۲۸۔۵) اور ہم چاہتے تھے کہ جو لوگ ملک میں کمزور کردیئے گئے ہیں ان پر احسان کریں۔میں پایا جاتا ہے اور آیت کریمہ: (وَ لَوۡ لَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتۡ مِنۡ رَّبِّکَ لَکَانَ لِزَامًا) (۲۰۔۱۲۹) اور اگر یہ بات تمہارے پروردگار کی طرف سے پہلے صادر اور (جزائے اعمال کے لئے) ایک میعاد (مقرر نہ ہوتی) تو (نزول) عذاب واقع ہوجاتا۔نیز دوسری آیت: (وَ لَوۡ لَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتۡ مِنۡ رَّبِّکَ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی لَّقُضِیَ بَیۡنَہُمۡ) (۴۲۔۱۴) اور اگر تمہارے پروردگار کی طرف سے پہلے ہی ایک وقت مقرر تک کے لئے بات نہ ٹھہرچکی ہوتی تو ان کے درمیان فیصلہ کردیا جاتا۔میں سبق کلمۃ اللہ تعالیٰ سے اس حکم ازلی کی طرف اشارہ ہے جس کی حکمت الہیٰ متقضی تھی اور یہ کلمات الہیہ کو کوئی تبدیل نہیں کرسکتا اور نہ ہی ان میں کسی قسم کے تغیر کی گنجائش ہوتی ہے۔اور آیت کریمہ: (اَنۡ یُّحِقَّ الۡحَقَّ بِکَلِمٰتِہٖ ) (۸۔۷) کہ اپنے فرمان سے حق کو قائم رکھے۔میں کَلِمَاتِہ سے وہ دلائل ثابتہ مراد ہیں جنہیں اﷲ تعالیٰ نے کفار کے خلاف مسلمانوں کے لئے سلطان مبین یعنی زبردست دلیل کی حیثیت سے قائم کیا ہے اور آیت کریمہ: (یُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یُّبَدِّلُوۡا کَلٰمَ اللّٰہِ) (۴۸۔۱۵) یہ چاہتے ہیں کہ خدا کے کلام کو بدل دیں۔میں کلام اﷲ سے اس پیشگوئی کی طرف اشارہ ہے جوکہ آیت (فَقُلۡ لَّنۡ تَخۡرُجُوۡا مَعِیَ اَبَدًا) (۹۔۸۳) تو کہہ دینا کہ تم میرے ساتھ ہرگز نہیں نکلوگے۔میں مذکور ہے اور بتایا ہے کہ منافقین کا یہ کہنا کہ ذَرْوْنَا نَتَّبِعْکُمْ) (۴۸۔۱۵) کلام الہیٰ میں تبدیل کے مترادف ہے اور متنبہ کیا ہے کہ یہ لوگ ہر گز تمہارے ساتھ نہیں نکلیں گے اور نکل بھی کیسے سکتے ہیں جبکہ علم الہیٰ میں یہ فیصلہ ہوچکا ہے کہ ان سے یہ نہیں ہوسکے گا۔ (6) بندے سے اﷲ تعالیٰ کا ہم کلام ہونا دو قسم پر ہے یعنی یا دنیا میں اور یا آخرت میں ۔چنانچہ آیت: (وَ مَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنۡ یُّکَلِّمَہُ اللّٰہُ اِلَّا وَحۡیًا … الایۃ ) (۴۲۔۵۱) اور کسی آدمی کیلئے ممکن نہیں ہے کہ خدا اس سے بات کرے مگر الہام کے ذریعہ سے۔میں دنیا میں ہم کلام ہونے کا بیان ہے اور آخرت میں ثواب و کرامت کے طور پر صرف مومنین سے ہم کلام ہوگا جس کی کیفیت ہم سے مخفی ہے چنانچہ آیت کریمہ: (اِنَّ الَّذِیۡنَ یَشۡتَرُوۡنَ بِعَہۡدِ اللّٰہِ ) (۳۔۷۷) کے آخر میں (لَا یُکَلِّمُہُمُ اللّٰہُ ) کہہ کر تنبیہ کی ہے کہ کفار اس نعمت عظمیٰ سے محروم رہیں گے۔اور آیت کریمہ: (یُحَرِّفُوۡنَ الۡکَلِمَ عَنۡ مَّوَاضِعِہٖ ) (۴۔۴۶) کہ کلمات کو ان کے مقام سے بدل دیتے ہیں میں کَلِمٌ کَلِمَۃٌ کی جمع ہے اس آیت کی تاویل میں اختلاف ہے۔بعض نے کہا ہے کہ وہ الفاظ میں تغیرو تبدّل کرتے تھے اور بعض نے تحریف معنومی مراد لی ہے یعنی آیت کو اس کے متقضی کے خلاف معنی پر محمول کرنا یہ دوسرا قول قوی تر معلوم ہوتا ہے۔ (7) کیونکہ الفاظ کے مشہور اور متداول ہونے کے بعد ان میں تبدیلی کرنا ذرا مشکل معلوم ہوتا ہے اور آیت کریمہ: (وَ قَالَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ لَوۡ لَا یُکَلِّمُنَا اللّٰہُ اَوۡ تَاۡتِیۡنَاۤ اٰیَۃٌ ) (۲۔۱۱۸) اور جو لوگ کچھ نہیں جانتے (یعنی مشرک ہیں) وہ کہتے ہیں کہ خدا ہم سے کلام کیوں نہیںکرتا یا ہمارے پاس کوئی نشانی کیوں نہیں آتی۔کے معنی یہ ہیں کہ اﷲ تعالیٰ ہم سے بالمشافہہ گفتگو کیوں نہیں کرتا جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا: (یَسۡـَٔلُکَ اَہۡلُ الۡکِتٰبِ …… اَرِنَا اللّٰہَ جَہۡرَۃً ) (۴۔۱۵۳) (اے محمدؐ) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ہمیں خدا کو ظاہر (یعنی آنکھوں سے دکھادو) ۔

Lemma/Derivative

42 Results
كَلِمَة
Surah:11
Verse:110
ایک بات
(for) a Word
Surah:11
Verse:119
بات
(the) Word of your Lord
Surah:14
Verse:24
بات
a word
Surah:14
Verse:26
کلمے کی
(of) a word
Surah:18
Verse:5
بات
the word
Surah:18
Verse:27
اس کے کلمات کو
His Words
Surah:18
Verse:109
باتوں کے لیے
for (the) Words
Surah:18
Verse:109
باتیں
(the) Words
Surah:20
Verse:129
ایک بات ہوتی
(for) a Word
Surah:23
Verse:100
ایک بات ہے
(is) a word